اس بلاگ کا ترجمہ

Monday, November 5, 2012

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعارف
اگر دنیا کی آزمائش کے فلسفے کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے یہ صبر اور شکر کا امتحان ہے۔ انسان پر یا تو خدا کی نعمتوں کا غلبہ ہوتا ہے یا پھر وہ کسی مصیبت میں گرفتا ر ہوتا ہے۔ پہلی صور ت میں اسے اللہ کا شکر کرنے کی ہدایت ہے تو دوسری صورت میں صبر و استقامت کی تلقین۔ چنانچہ جو لوگ ایمان کے ساتھ شکر اور صبر کے تقاضے پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے وہی لوگ آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔
اکثر علماء کہتے ہیں کہ صبر کے مقابلے میں شکر کا امتحان زیادہ مشکل ہے۔ شکر کے امتحان میں انسان بالعموم خدا فراموشی اختیار کرتا، تکبر کی جانب مائل ہوتا اور دنیا میں زیادہ منہمک ہوجاتا ہے۔زیر نظر مضمون کا مقصد اسی شکر کے امتحان کا جائزہ لینا، ناشکری کی وجوہات معلوم کرنا اور ان سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ہے۔
قرآن ۱۔
اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو۔(البقرہ ۱۷۲:۲)
۲۔ اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں )(الفرقان ۶۲:۲۵)
۳۔ اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا۔ اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو۔ (مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے) کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔(ابراہیم ۳۴:۱۴)
حدیث
حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اسے نے شکر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 3003 )
شکر کی تعریف
شکر کے لغوی معنی نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرارِ کرنا اورکسی کی عنایت یا نوازش کے سلسلے میں اس کا احسان ماننے کے ہیں۔اصطلاحی طور پر اللہ کے شکر سے مراد اللہ کی بے پایاں رحمت، شفقت، ربوبیت، رزاقی اور دیگر احسانات کے بدلے میں دل سے اٹھنے والی کیفیت و جذبے کا نام ہے۔انسان جب شعور کی نگاہ سے انفس و آفاق کا جائزہ لیتا ہے تو اسے اپنا وجود، اپنی زندگی اور اس کا ارتقا ء ایک معجزہ نظر آتا ہے۔وہ اپنے اندر بھوک ،پیاس ، تھکاوٹ اور جنس کا تقاضا پاتا ہے تو خارج میں اسے ان تقاضوں کے لئے غذا، پانی، نیند اور جوڑے کی شکل میں اسباب کو دستیاب دیکھتا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ ساری کائنات اسکی خدمت میں لگی ہوئی ہے تاکہ اسکی زندگی کو ممکن اور مستحکم بنا سکے۔ چنانچہ وہ ان اسباب کے فراہم کرنے والے خدا کے احسانوں کو پہچانتا اور دل سے اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہی ابتدائی مفہوم ہے اللہ کے شکر کا۔ پھر جوں جوں یہ معرفت ارتقاء پذیر ہوتی ہے تو اس تشکر کی گہرائی اور صورتوں میں ارتقاء ہوتا چلا جاتا ہے۔
شکر کی وجہ
اللہ کا شکر کیوں کیا جائے ؟ یہ ایک سوال ہے جو اکثر لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک رسم کے طور پر مانتے ہیں اور کچھ لوگ یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ شکر خداوندی کیوں ضروری ہے۔
۱۔اجتماعی نعمتوں پر شکر کی وجوہات
اجتماعی شکر کرنے کی پہلی وجہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں شفقت اور رحمت ہے جو اس نے انسان کے ساتھ کی ہے۔ صفات رحم و کرم اللہ تعالیٰ کا مخلوق کے ساتھ انتہائی مہربانی، شفقت، رحم، نرم دلی اور سخاوت اور بخشش کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا ، ان میں تقاضے پیدا کئے اور پھر ان تقاضوں کو انتہائی خوبی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے اپنی رحمت، لطف اور کرم نوازی کا اظہار کیا۔چنانچہ کبھی وہ مخلوق پر محبت اور شفقت نچھاور کرتا نظر آتا ہے تو کبھی مخلوق کی بات سنتا، انکی غلطیوں پر تحمل سے پیش آتا، انکی خطاؤں سے درگذر کرتا ، نیکو کاروں کی قدر دانی کرتا اور اپنی حکمت کے تحت انہیں بے تحاشا نوازتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک بندہ جب مشکل میں گرفتا ر ہوتا تو وہ اسکے لئے سلامتی بن جاتا، اسے اپنی پناہ میں لے لیتا، اسکی مشکلات کے سامنے چٹان بن جاتا، آگے بڑھ کر اسکی مدد کرتا اور گھٹاگھوپ اندھیروں میں ہدایت کا نور بن جاتا ہے۔ یہی لطف و کرم اللہ کا پہلا تعارف ہے جو انسان کو اس کے سامنے جھکاتا، اسکا احسان مند بناتا اور اسے شکر پر مجبور کرتا ہے۔
اجتماعی شکر کی دوسری وجہ خدا کی صفت ربوبیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ مخلوقات کو پیدا کرکے ان سے غافل نہیں ہوگیا۔ بلکہ دن رات ان کو ہر قسم کی سہولت فراہم کررہا ہے ۔ وہ سانس کے لئے آکسیجن، حرارت کے لئے سورج کی روشنی، نشونما کے لئے سازگار ماحول، مادی کی نمو کے لئے غذا اور ذائقے کی تسکین کے لئے انواع و اقسام کے میوے اور پھل بنا کر اپنی ربوبیت و رزاقیت کا اظہار کررہا ہے ۔اسی طرح وہ ایک نومولود کو ماں کے پیٹ میں ایک سازگار ماحول اور رز ق فراہم کرتا، دنیا میں آتے ہی ماں کی گود میں اسکی نشونما کا بندوبست کرتا اور دنیا کے ماحول کو اس کی خدمت میں لگادیتا ہے۔
۲۔ انفرادی نعمتوں پر شکر کی وجہ 
اجتماعی شکر کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر شکر کرنے کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بندے کے ساتھ انفرادی معاملہ کرتے اور خاص طور پر اسے اپنی نعمتوں سے نوازتے ہیں تاکہ اسے شکر کے امتحان میں ڈال کر آزمائیں۔انفرادی طور پر شکر کرنے کے درج ذیل مواقع یا وجوہات ہوسکتی ہیں:
۱۔ مال اور جائدا د میں فراوانی پر شکر ۔ یعنی کیش ، بنک بیلنس، مکان، جائداد ، مویشی اور جائداد کی دیگر صورتوں میں فراوانی پر اللہ کا شکر ادا کرنا
۲۔ اولاد میں کثرت یا حسب توقع اولاد کے حصول میں کامیابی پر اللہ کا شکر گذار ہونا
۳۔ بہتر اور اعلی ٰمیعار زندگی پر تشکر ۔ یعنی ایسی زندگی جس میں مادی و روحانی دونوں پہلوؤں سے سکون حاصل ہو۔
۴۔صحت کی بہتری پر تشکر ۔ صحت میں تمام اعضاء کی سلامتی، بیماری سے حفاظت، یا بیماری سے صحتیابی، کسی بھی جسمانی معذوری سے مبراء ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
۵۔ ماں باپ کا سایہ سر پر موجود ہونے پر اللہ کا شکر گذار ہونا
۵۔ تعلیم میں اضافے پر شکر گذار ہونا
۶۔ غیر معمولی ظاہری حسن پر تشکر کرنا
۷۔ اچھے حافظہ اور عقل پر شکر گذار ہونا
۸۔ شہرت اور عزت حاصل ہو نے پر تشکر کرنا۔
۹۔ کسی مصیبت یا بیماری سے نجات پانے پر شکر گذار ہونا
۱۰۔کسی گناہ سے بچنے پر یا نیکی کرنے پر شکر کا اظہار کرنا
۱۱۔ نعمت کا کسی اور صورت میں ملنے پر شکر کرنا
شکر کے امتحان کی آفات
شکر کے امتحان سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ایک شخص کے لئے آسانیاں اور نعمتیں رکھی ہوئی ہیں اور وہ بحیثیت مجموعی جسمانی، روحانی ، نفسیاتی یا دیگر تکالیف سے محفوظ ہے۔ شکر کے امتحان میں درج ذیل مشکلات و آفات پیش آسکتی ہیں:
۱۔نعمت کو آزمائش کی بجائے خدا کا انعام سمجھ لینا
اگر کسی شخص پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہو تو اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو خدا کی رضا سمجھ بیٹھتا ہے اور وہ اس مغالطے میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اللہ اس سے راضی ہے۔ حالانکہ نعمتوں کا اس دنیا میں عطا کیا جانا آزمائش کے اصول پر ہے ناکہ خدا کی رضا اور ناراضگی پر۔
۲۔ تکبر 
خدا کی نعمتیں اگر تواتر کے ساتھ ملتی رہیں تو انسان عام طور پر خود کو دوسروں سے برتر محسوس کرتا ہے ۔ یہ برتری کا احساس ایک حد سے بڑھ جائے تو تکبر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نعمتیں محض آزمائش کے لئے دی گئی ہیں ۔
۳۔نعمتوں کو حق سمجھ لینا
شکر کے امتحان کی ایک اور آفت یہ ہے کہ انسان ملنے والی نعمتوں کو اپنا حق سمجھ لیتا ہے کہ یہ نعمتیں تو اسے ملنا ہی چاہئے تھیں۔ جب یہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے ان نعمتوں کو انسان ایک روٹین کی شے سمجھ لیتا ہے۔ یوں وہ ان کا عادی ہوجاتا اور شکر کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔
ً۴۔ نعمتوں کو معمولی و حقیر جاننا
جب انسان تواتر کے ساتھ کسی نعمت کو استعمال کرتا ہے تو وہ انہیں معمولی اور حقیر سمجھنے لگتا ہے بلکہ وہ انہیں نعمت کی حیثیت سے قبول کرنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتا ہے۔مثال کے طور پر آنکھیں بڑی نعمت ہیں۔ لیکن ان آنکھوں کا استعمال دن اور رات تواتر ہونے کی بنا پر انسان بینائی کی نعمت کو سراہنے سے قاصر رہ جاتا ہے اور وہ ان نعمتوں کو فار گرانٹڈ لے لیتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی جانب ایک نگاہ ڈالیں جو ان انمول نعمتوں سے محروم ہیں۔ اس کے لئے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
۵۔وسیلہ و اسباب کو منعم (نعمت فراہم کرنے والا )سمجھ لینا
شکر کے امتحان کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ اکثر نعمتیں حاصل کرنے والا شخص نعمتوں کے حصول کو اسباب و علل کا کرشمہ قرار دیتا اور ان نعمتوں کے اصل مالک یعنی خدا کی معرفت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ مثال کے طور پر تنخواہ کا حصول کا ذریعہ نوکری کو سمجھا جاتا، پھل اور سبزی کی فراہمی کو کاشتکاری کی مرہون منت مانا جاتا یا کسی اور دینی یا دنیاوی کامیابی سہرا اپنی تدبیر کے سر باندھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسا شخص اسباب کے پردے کو چاک کرکے اسباب بنانے والے کا ہاتھ دیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔
۶۔ نعمتوں کے حصول کو اپنی صلاحیتوں کا مرہون منت سمجھ لینا
ناشکری کی ایک اور وہ یہ ہے انسان دولت، صحت، اقتدار،ترقی اور شہرت وغیرہ حاصل کرنے کے بعد یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ سب کچھ اسکی ذاتی محنت کی وجہ سے ہوا ہے اور اس میں خدا کا کوئی رول نہیں۔ حالانکہ ان میں سے ہر چیز خدا کی عطا کردہ ہے ۔
۷۔ نسیان یافراموشی
انسان کی یادداشت وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دھندلی ہوتی چلی جاتی ہے جسکی بنا پر بھی وہ نعمتوں کا بہتر طور پر شکر ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نوازا۔ چنانچہ وہ اولاد کی پیدائش کے وقت تو خوب اللہ کا شکر ادا کرتا ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ اولاد اسے اللہ نے دعاؤں کے ذریعے عطا کی ہے اور یہ اسی رب کا احسان ہے۔
شکر کرنے کے طریقے
شکر کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔ ایک شخص اپنے ذوق، حالات اور ماحول کے مطابق ان مختلف طریقوں کا انتخاب کرسکتا ہے۔
۱۔زبان سے شکر
شکر کرنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ جب دل میں کسی نعمت کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو اس کا اظہار سب سے پہلے زبان ہی سے ہوتا ہے۔اس کے لئے ضروری نہیں کہ عربی میں ہی شکر ادا کیا جائے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے الفاظ میں شکر گذاری کی کیفیت کو بیان کردیا جائے۔البتہ کبھی کبھی اگر پیغمبر کی مانگی ہوئی شکر گزاری کی دعاؤں پر بھی غور کرلیا جائے تو شکر گذاری کے کئی مضامین ذہن میں آجائیں گے۔
۲۔ نماز کے ذریعے شکر
اللہ کی نعمتوں کی شکر گذاری کا ایک اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ نعمت کے ملنے پر دو رکعت نماز شکرانے کی ادا کی جائے۔اس میں طویل قیام اور مبے سجدے کئے جائیں اور خدا کا شکر ادا کیا جائے ۔
۳۔روزے یا انفاق کے ذریعے شکر
شکر گذاری کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے۔
۴۔عمل کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کے ذریعے شکر
سب سے مشکل لیکن مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کی جائے، اپنی خواہش کو خدا کے حکم کے تحت فنا کیاجائے۔ یہ شکر گذار ی کی حقیقی صور ت ہے کہ اپنے منعم کے احسانات پر ممنون ہوتے ہوئے اس کی کامل اطاعت کی جائے۔
۵۔بندوں کی مدد کے ذریعے شکر
اللہ کے بندوں کی مدد کرکے بھی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر گذاری اختیار کی جاسکتی ہے۔
ناشکری سے بچنے کی تدابیر
ناشکری سے بچنے کے لئے درج ذیل ہدایات کو غور سے پڑھیں
۱۔کائنات پر غور و فکر کرکے اللہ کے احسانات تلاش کرِیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کریں
۲۔ اپنے نفسیاتی، مادی اور دیگرتقاضوں اور کمزوریوں پر غور کریں اور ان کی تکمیل پر اللہ کے شکر گذار رہیں۔
۳۔ جب کوئی غیر معمولی نعمت(جیسے بیماری کے بعد صحت وغیرہ) ملے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی یاد میں تازہ کریں اور اللہ کے احسان مند ہوں۔
۴۔ ہمیشہ نعمتوں کا موازنہ کرتے وقت اپنے سے نیچے والوں پر غور کریں تاکہ اللہ کے شکر کی عادت پیدا ہو۔
۵۔ چوبیس گھنٹوں میں سے دس پندرہ منٹ خدا کی نعمتوں اور احسانات پر غور کرنے کے لئے نکالیں ۔

توکل

توکل کا تمام ممکنہ اسباب اور تدبیر مہیّا کرکے اللہ پر بھروسا کرنا تاکہ وہ کامیابی یا مطلوبہ نتائج برآمد کردے ۔لیکن کیا ہمیشہ ہی کامیابی ملتی ہے؟ نہیں ، بلکہ توکل کرنے کے باجود کبھی ناکامی ہوتی ہے اور کبھی کامیابی ۔یہاں سے تفویض شروع ہوتی ہے جسکا مفہوم ہے کہ اس ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو یا اپنے معاملے کو خدا کو سونپ دینا اور خدا کی قضا (یعنی فیصلے ) پر اعتراض نہ کرنا۔
قرآن میں تفویض کو اس طرح بیان کیا گیا ہے
فَسَتَذْكُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَكُمْ ۭ وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ
“تو جو بات میں تم سے کہہ رہا ہوں عنقریب (وہ وقت آئے گا جب) تم (اسے) یاد کرو گے اور میں تو اپنا معاملہ اللہ (ہی) کے سپرد کرتا ہوں، بیشک وہ (اپنے) بندوں کا نگرانِ حال ہے۔”(الغافر ۴۴:۴۰)
تفویض و رضا کی تعریف :
تفویض و رضا کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمام تدبیر اختیار کرنے کے با وجود ناکامی ہو تو اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردے اور اللہ تعالیٰ کی قضا پر کوئی اعتراض نہ کرے۔
تفویض و رضا کے لوازمات:
۱۔تفویض و رضا کسی معاملے میں ناکامی کے بعد ہوتی ہے ۔ کسی معاملے کی ابتدا میں توکل کیا جاتا ہے۔
۲۔ تفویض و رضا کے لئے لازمی ہے کہ معاملہ کی ناکامی اپنی کسی کوتاہی کی بنا پر نہیں ہوا ہو۔ اگر ایسا ہے تو معاملے کو خوامخواہ خدا کے کھاتے میں ڈالنا مناسب نہیں۔
مثال سے وضاحت:
مثال کے طور پر ایک بچے کی طبیعت خراب ہے اسکا باپ اسے ہسپتال لے جاتا ، ڈاکٹر کو دکھاتا اور علاج کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد اسکا بچہ مر جاتا ہے۔ اب اسے خدا کے فیصلے کو تسلیم کرلینا، اس پر راضی ہوجانا اور اپنی خواہش کو خدا کے امر کے تابع کردینا ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اولا د کی موت پر اسے دکھ ہی نہ ہو، ایسا ہونا غیرمعقو ل بات ہے۔ تفویض و رضا کا مفہوم یہ ہے دانستہ طور پر اللہ سے شکایت سے گریز کرنا اور جزا فزااجتناب برتنا۔
تفویض ورضا کی ضرورت:
تفویض و رضا کیوں ضروری ہے ؟ یا ناکامی کی صورت میں خدا کے امر پر کیوں راضی رہا جائے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خداہی کامل علم رکھتاہے، وہی مطلق حکمت کا مالک ہے،وہی کائنات کی مصلحتیں سمجھتا ہے۔جس طرح ایک قابلِ بھروسہ سرجن کے سامنے ایک مریض خود کو سپرد کردیتا ہے کہ سرجن جو چاہے تصرف کرے، جتنی چاہے تکلیف دے ۔چنانچہ جب دل کے آپریشن کے لئے سرجن پر اعتماد کرلیا تو پھر تکلیف کی زیادتی پر اس طبیب کو برا بھلا کہنا، اس سے جھگڑنااور اسکے طریقہء علاج پر تنقید کرنا ایک حماقت اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اپنا بدن سرجن کے سپرد کردینا بظاہر ایک تکلیف دہ امر لیکن بباطن حیات کی نوید ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کے واقعے میں یہی سبق دیا گیا کہ کشتی کا ٹوٹ جانا اور اولاد کا مر جانا بظاہر ایک واضح نقصان ہے لیکن چونکہ کشتی کو ظالم حکمران کے قبضے میں جانے سے بچانا تھا اس لئے اسے توڑا گیا۔ جبکہ لڑکے کے قتل کا مقصد والدین کو ایک بہتر اولاد دینا اورانکی آخرت کے لئے راہ ہموار کرنا تھا۔ لہٰذا اللہ کے ہر امر پر سپردگی و رضا ضروری ہے۔کیونکہ اس کافیصلہ حق ہے، آخری درجے میں درست ہے، تمام پہلوؤں پر نظر رکھ کر کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ فیصلہ بادشاہِ حقیقی نے کیا ہے اور بادشاہ کے فیصلوں پر کیا، کیوں اور کیسے کرنا مزید تباہی و بربادی کو دعوت دینا ہے۔

امریکہ انسانی تاریخ کی



امریکہ انسانی تاریخ کی غالباً سب سے زیادہ طاقتورسپر پاور کے مقام پر فائز ہے۔وہ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی سے مسلح فوجی قوت کی بنا پر دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور پندرہ ٹریلین(ایک سو پچاس کھرب) ڈالر کی سالانہ پیداوار کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت ہے۔
اس قدر طاقت ور فوجی اور معاشی قوت کے باوجود پچھلے دنوں ایک چھوٹے سے طوفان سینڈی نے امریکہ کے مشرقی ساحل پر حملہ کیا اور زندگی کا پہیہ معطل کردیا۔ہم نے اس طوفان کو ایک چھوٹا طوفان کہا ہے گرچہ یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا طوفان تھا۔اسے چھوٹا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جس پر پروردگار کی حکمت اورمشیت ایسے طوفانوں کو پیدا کرتی ہے وہ اس کی قدرت کاملہ کے مقابلے میں بہت حقیر اور چھوٹے ہیں۔اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے کیجیے کہ جس بحر اوقیانوس یا اٹلانٹک کے سمندر میں یہ طوفان آیا ہے اس کا مجموعی رقبہ چار کروڑ مربع میل سے زائد ہے۔اس عظیم سمندر سے تھوڑا سے پانی بھی چھلک جائے تو پورا امریکہ بہہ جائے گا۔
سینڈی نامی یہ طوفان امریکہ میں آیا جو کہ دنیا کا مرکزی ہے، اس لیے دنیا بھر کے میڈیا کی ساری توجہ اسی واقعے کی طرف تھی۔اس کے نتیجے میں پوری انسانیت نے اپنے ٹی وی اسکرینو ں پر یہ منظر دیکھا کہ پروردگار کی قدرت کاملہ کیا ہوتی ہے۔ کس طرح انسانوں کی بڑی سے بڑی طاقت اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
مگر آج کے انسان کی بدنصیبی دیکھیے کہ وہ سب سے بڑھ کر اسی عظیم پروردگار کو بھولا ہوا ہے۔ جس کے ہاتھ میں انسانوں کی پوری زندگی ہے۔ جس کی قدرت کی مٹھی میں یہ زمین ایک معمولی گیند سے بھی کم ہے۔ جس کی ہستی اور طاقت سب سے بڑی ہے۔۔۔انسان اسی رب سے غافل ہے۔ حتیٰ کہ وہ پاکستان بھی اسلام جس کا سرکاری مذہب ہے اور وہ امریکہ بھی جس کا سرکاری نعرہ ہی یہ ہے کہ ہے ۔۔۔ In God We Trus ۔ کیسا عجیب ہے یہ انسان اور کیسی عجیب ہے اس کی غفلت۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں قارون نام


حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں قارون نام کا ایک بہت بڑا مالدار شخص تھا۔سورہ قصص میں بیان ہوا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اتنے خزانے عطا کررکھے تھے کہ ان کی کنجیاں اٹھانا ہی آدمیوں کی ایک جماعت کے لیے بہت بھاری بوجھ تھا۔مگر ان نعمتوں پر شکر گزاری کے بجائے فخر وغرور اور نمائش ودکھاوا اس کا معمول تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ مال اسے اس کی علم و صلاحیت کی بنا پر ملا ہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں کی پاداش میں اسے اس کے مال سمیت زمین میں دھنسادیا۔

مال بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ لیکن اس نعمت کی حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کوبطور آزمائش دیا جاتاہے۔وہ آزمائش کیا ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوبی سے اس طرح بیان کیا ہے کہ تمھارے کمزوروں کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھیں رزق دیا جاتا ہے،(بخاری رقم ،2896)۔

اس دنیا میں جس کو جو ملا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی عطاسے ملاہے۔عام مشاہدہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے ذہین
اورباصلاحیت لوگ جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور بے ہنر لوگ دیکھتے ہی دیکھتے مالدار ہوجاتے ہیں۔ لوگ اسے قسمت کہتے ہیں، درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم ہمیشہ غیر متوازی کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پیسے والے لوگ مال پاکر قارون بنتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ جان لیتے ہیں کہ یہ مال اصل میں انہیں ضعیفوں کی وجہ سے ملا ہے۔

جو لوگ قارون بنتے ہیں ان کا انجام بھی قارون جیسا ہوگا۔ لیکن جو لوگ اسے عطیہ الہی سمجھ کر غریبوں پر خرچ کرتے ہیں، انہیں اللہ کے نبی کے ساتھ بسادیا جائے گا

دور جدید میں سائنسی علوم نے غیر معمولی ترقی




دور جدید میں سائنسی علوم نے غیر معمولی ترقی کی ہے ۔ اس ترقی نے انسانی زندگی کو ہر اعتبار سے بہتر کیا ہے ۔ مگر سائنسی ترقی کے جس پہلو نے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا ہے وہ بلاشبہ میڈیکل سائنس کی ترقی ہے ۔ انسان کا سب سے بڑ ا مسئلہ زندگی کی بقا ہے ۔بیماریوں نے ہر دور میں اس بقا کو شدید خطرے میں ڈالے رکھا تھا۔یہی وجہ ہے کہ سوائے عصر حاضر کو چھوڑ انسانوں میں شرح پیدائش ہمیشہ بہت زیادہ مگر انسانی آبادی ہمیشہ بہت کم رہی ہے ۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاوں سال سے زمین پر بسنے والے انسانوں کی آبادی پہلی دفعہ سن 1804میں ایک ارب کے عدد کو پہنچی تھی۔ جبکہ آج یہ تعداد سات ارب سے اوپر ہے ۔حالانکہ پچھلی دو صدیوں میں انسانی شرح پیدائش بتدریج بہت کم ہو چکی ہے ۔
آج میڈیکل سائنس کی ترقی نے ملیریا اور فلو جیسی بیماریوں کو ایک معمولی بیماری بنادیا ہے ۔ ہم میں سے کون ہو گا جسے زندگی میں یہ دو بیماریاں نہ ہوئی ہوں اور چند خوراکوں سے افاقہ نہ ہو گیا ہو۔مگر قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ وہ قاتل بیماریاں ہیں جنہوں نے ہر دور اور ہر زمانے میں لاکھوں کروڑ وں لوگو ں کی جانیں لی ہیں ۔
یہ گزارشات میں نے کسی نشست میں اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت کے طور پر بیان کیں تو ایک صاحب نے بڑ ے زوروشور سے فرمایاکہ اس سے کیا فرق پڑ تا ہے آج کے دور میں اور نئی بیماریاں سامنے آ گئی ہیں ۔ یہ بات ناشکری پر مبنی ایک انتہائی منفی انداز فکر کا اظہا رہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ نئی بیماریاں سامنے آئی ہیں جیسے کینسر ہیپاٹائٹس سی وغیرہ وغیرہ مگر نہ ان کا پھیلاؤ اس درجہ کا ہے اور نہ یہ اس طرح ناقابل علاج ہیں ۔مثال کے طور پر 1918-1919کے فلو کی عالمی وبا میں تقریباً دس کروڑ لوگ مارے گئے تھے جو دو عظیم جنگوں میں مرنے والوں کی تعداد (تقریباً نو کروڑ ) سے زیادہ ہے ۔ ایسی تباہ کن بیماریو ں کا کینسر سے کیا موازنہ؟کینسر آج سب سے بڑ ی قاتل بیماری ہے ، مگر اس سے مرنے والوں کی تعداد سات ارب کی انسانی آبادی میں آج بھی ستر لاکھ سالانہ ہی ہے ۔ظاہر ہے یہ اُن تباہ کن بیماریوں کا عشر عشیر بھی نہیں جن کا واسطہ انسان کو ہمیشہ سے رہا ہے ۔ جب کہ آج انسانی آبادی شرح اموات میں غیر معمولی کمی کی بنا پر تاریخ کے ہر دور سے زیادہ ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شکر گزاری کے لیے مثبت انداز فکر چاہیے ۔ جب انسان کو فلو یا ملیریا جیسی کوئی بیماری ہوجائے تو اسے وہ وقت یاد کرنا چاہیے جب ان بیماریوں کی ویکسی نیشن تھی نہ علاج۔ نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ اکثر حالات میں لوگ مرجایا کرتے تھے ۔خاص کر بچے جو اکثر و بیشتر بیمار پڑ تے ہیں ، ان کی ایک بڑ ی تعداد جوانی کو پہنچنے سے پہلے ہی رخصت ہوجایا کرتی تھی۔
انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ جیسا اس کا انداز فکر ہو گا، اسی پہلو سے وہ حقائق کو دیکھے گا اور رد عمل کا اظہار کرے گا۔اس کا انداز فکر اگر منفی ہے تو دنیا کی ہر نعمت پا کر بھی وہ نعمت کو نعمت نہیں سمجھے گا۔ وہ اس کا کبھی ذکر نہیں کرے گا ۔ اس پر شکر نہیں کرے گا۔البتہ جو چند دو چار چیزیں اس کے پاس نہیں ہوں گی وہ انہی کا رونا روتا رہے گا۔ معاشرے میں اسے صرف منفی چیزیں نظر آئیں گی۔اسے کینسر نظر آئے گاجو ہزار میں سے صرف ایک شخص کو ہوتا ہے مگر طاعون کی وہ وبا نظر نہیں آئے گی جوتاریخ میں ہزاروں لاکھو ں کی آبادیوں کو قبرستان میں تبدیل کرتا رہا ہے ۔
اس کے برعکس مثبت انداز فکر کا انسان وہ ہوتا ہے جو ہر وقت اور ہر معاملے میں نعمت کا پہلو ڈھونڈتا رہتا ہے ۔ وہ معمولی نعمت کو بھی غیر معمولی نعمت سمجھتا ہے ۔ وہ اجتماعی نعمت کو بھی ذاتی نعمت کی صورت میں دیکھتا ہے ۔ وہ دوسروں پر آنے والی مصیبت میں اپنی عافیت اور دوسرے کی محرومی کی روشنی میں خود پر عطائے رب کی بارش کو دریافت کر لیتا ہے ۔ وہ خود کو ملی ہوئی ہاتھ پیر جیسی وہ بیش قیمت نعمتیں دیکھتا ہے جن کا کوئی مول نہیں اور مال و دولت جیسی اس آنی جانی چیز کا رونا نہیں روتا جو آنی جانی چیز ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک انتہائی نازک امتحان میں ہے ۔ اس امتحان میں ناکامی کی شکل میں اسے ابدی طور پر جہنم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ کامیابی کی شکل میں ختم نہ ہونے والی ابدی بادشاہی اس کی منتظر ہے ۔دنیا میں انسان کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ شکر گزار بنتا ہے یا ناشکرا(دھر3:76)۔اس امتحان میں منفی انداز فکر انسان کو ناشکرا بنا کر ناکام کروا سکتا ہے ۔جبکہ مثبت انداز فکر کا انسان شکر گزار بنتا ہے ۔وہ اپنے رب کی حمد کرتا اور اس کی تعریف کے گیت گاتا ہے ۔ وہ اس کی بندگی کی طرف لپکتا اور عبادت کو اپنا شوق بنالیتا ہے ۔ یہی وہ بندہ ہے جو کل قیامت کے دن جنت کے نعمت بھرے باغوں میں ہمیشہ کے لیے بسادیا جائے گا۔




میرا  خیال ہے کہ انسانوں سے متعلق معملات کو کسی فارمولے میں فٹ کرنا مشکل ہیں۔ فلو کا علاج نہیں تھا تو لوگ مرگیے یا اسی طرح کی اور باتیں۔ ایسا لگتا ہے انسانی حالات کا تعلق کسی اور فارمولے سے ہے جسکا سمجھنا ایک طرف بہت آسان لگتا ہے تو دوسری طرف بہت مشکل بھی ہے۔ وبای مرض میں مرنا ایک طرف مشیت الہی ہے تو علاج سے یا ویسے ہی بچ جانا بھی مشیت الہی ہی ہے۔ جب رب تعلی نے چاہا کہ کوی قوم کسی وبا سے ختم ہو جاے تو علاج تو کیا احتیاط کی بھی قوم کو سمجھ نہیں آتی ۔ اورہلاک ہونے کی وجوہات بھی تاریخ میں درج نہیں ہوتیں صرف اپنے زہنی اندازے لگاے جاتے ہیں۔ دراصل تو یہ ڈوری رب تعلی سے ہی جڑی ہوی ہے۔ جب قومیں فلو سے یا کسی اور مرض سے ہلاک ہورہی تھیں تو کیا رب تعلی انسان کو علاج کا علم نہیں دے سکتے تھَے۔ مقصد تو ہلاک کرنا تھا علاج کا علم کیسے ملتا۔ اس طرح جب کسی کو قوم کو قایم رکھنا اور اسکو ترقی دینا ہو تو پھر اسکے فایدے کے بہت سے علوم اس عطا کر دیے جاتے ہیں۔ اسکی بھی کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ ان پر غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ رب تعلی کا قانون ایک ہی ہے ''' جیسا کرو گے ویسا بھرو گے""۔ باقی سب اپنے زہنی عقلی اندازے ہیں کہ ایسا کرتے تو ایسا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ لوگوں نے غزوہ احد کے موقعہ پر کہا تھا ہماری بات مان لیتے اور لڑای میں نہ جاتے تو نہ مارے جاتے۔ کیا خوب عقل یا زہن تھا۔

میرے جیسے جاہل

میرے جیسے جاہل آدمی کے لیے تو اللہ تعلی کا ہر اسم ""اسمااعظم"" ہی ہے۔ورنہ وہ چاہتا تو خود ہی بتا دیتا وہ تو یہ کہتا ہے میں تمھارے وہم و گمان سے بھی بالا ہوں۔ میں کون اسکے ناموں کو چھوٹا بڑا کہنا والا۔ اگر ایک اسم کو اعظم کہا جاے گا تو دوسرے اسما خود ہی چھوٹے کہے جایں گے۔ جو اچھی بات نہیں ہے۔ اسکے سارے اسما مبارک عظیم۔ اسکی ساری صفات عظیم۔ اسکی ساری کتابیں عطیم اسکے سارے رسول عظیم۔ اسکی ساری کاینات عظیم۔ اسکے سارے کام عظیم۔وہ عظیم تر ہے اسکی کوی مثال نہیں۔اس سے کچھ مانگنے کے لیے کسی اسم اعظم کی ضرورت نہیں۔ اسکو اسکے کسی بھی نام سے پکارو۔وہ سنتا ہے۔دعا کی قبولیت کا انحصار پکارنے والے کی تڑپ پر ہے کہ وہ کس بے قراری سے اسے پکارتا ہے۔ میرا تو زاتی تجربہ یہ ہی ہے۔

اسم اعظم


اسم اعظم
اس اعظم کے حوالے سے ہمارے ہاں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں ۔یہ بات بالعموم مانی جاتی ہے کہ جس کسی کو اسم اعظم معلوم ہوجاتا ہے اس کی دعائیں مقبول ہوجاتی ہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسم اعظم کے ساتھ بہت سے تکوینی امور میں تصرف بھی کیا جا سکتا ہے ۔ تاہم اسم اعظم کیا ہے ، اس بارے میں لوگوں کی آرا بڑ ی مختلف ہیں ۔ کچھ لوگوں ک
ے نزدیک یہ لفظ اللہ ہے ۔ کچھ کے نزدیک یہ ایک خاص قسم کے تعویذ کی حیثیت رکھتا ہے اور کچھ لوگ بعض قرآنی دعاؤں کو اس حیثیت میں پیش کرتے ہیں ۔

دین پر براہ راست گہری نظر رکھنے والے لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسم اعظم جیسے مباحث دین کی تعلیمات میں غیر متعلق ہیں ۔دین اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا نام ہے جو آخرت کی ابدی زندگی میں انسانوں کی کامیابی کی ضامن ہے ۔اِس دنیا میں کسی انسان کی دعا قبول ہو یا نہ ہو اس کا انحصار اللہ تعالیٰ کی حکمت پر ہوتا ہے ۔ بندے کا کام ہے کہ وہ رب سے اور تنہا رب ہی سے اپنے دل کی مراد مانگتا رہے ۔ بلاشبہ وہ ہر ہر دل کی دعا سنتا ہے اور اس کی حکمت کا تقاضہ ہوتا ہے اور مانگنے والا اصرار ، اضطرار اور لجاجت سے مستقل مزاجی کے ساتھ مانگتا رہے تو اللہ تعالیٰ کی یہ عادت شریفہ ہے کہ وہ ایسے مانگنے والے کی بات رد نہیں کرتے ۔

البتہ اسم اعظم کی بحث معارفت رب کے پہلو سے بڑ ی اہم ہے ۔جیسا کہ معلوم ہے اسماء الہی دراصل صفات الہی کا نام ہے ۔اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق رکھنے والے ایک بندے کی یہ فطری خواہش ہو سکتی ہے کہ معرفت رب کے پہلو سے یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے وہ کون سی صفات ہیں جو اللہ پروردگار عالم کا جامع ترین تعارف کراتی ہیں ۔

اس پہلو سے صفات الہی اصل میں دو ہی ہیں ۔ایک صفات ذاتی جن کا مخلوق کے ہونے نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ۔ مثلاً اللہ یکتا ہے ۔ایک ہے ۔زندہ وقائم ہے ۔ سب سے پہلے ہے ۔ سب سے بعد ہے ۔بے نیاز ہے ۔اپنی ذات میں قابل تعریف ہے ، وغیرہ۔ ھو اللہ الاحد الواحد الحی القیوم الاول الاخر الظاہر الباطن الغنی الحمید۔ یہ صفات ہمارے احاطہ ادراک سے مکمل طور پر باہر ہیں اور یہ اتنی زیادہ ہو سکتی ہیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ان میں سے بعض صفات کے بیان کا بنیادی مقصد بندوں کو ذات الہی سے متعارف کرانا ہوتا ہے ۔ مثلاً درج بالاصفات یہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ جیسا کوئی نہیں (الاحد )۔ وہ اپنی نوعیت کی ایک ہی ہستی ہے (الواحد)۔فنا و عدم کے خطرے سے محفوظ (الحی القیوم)ہے ۔ زمان (الاول الاخر) و مکان ( الظاہر الباطن )کی قید سے ماورا ہے ۔ اپنے سوا ہر غیر کی موجودگی ، مدداور مدح(الغنی الحمید) سے بلند ہے ۔

دوسری صفات وہ ہیں جن کا اظہار مخلوق کے تعلق سے ہوتا ہے ۔ یہ صفات بھی ان گنت ہیں ۔ تاہم قرآن مجید کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام صفات دو بنیادی صفات سے پھوٹتی ہیں ۔جن کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مخلوق کے تعلق سے یہ نہ شمار کی جانے والی شانوں اور کمالات کی جامع ہیں ۔ ان دوبنیادی صفات کو ہم آسان اردو میں اس طرح بیان کریں گے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق اور کریم مطلق ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے متعلق ان دو صفات کے بیان کے لیے قرآن مجید نے مختلف پیرائے اختیار کیے ہیں ۔ مثلاً کہیں مطلق کرم کو الرحمن و الرحیم سے بیان کیا گیا اور کہیں قدرت مطلقہ کے لیے الملک المقتدر کہا گیا۔ کہیں دونوں کو ملا کر عزیز الرحیم کہہ دیا گیا۔ تاہم خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت کی بھی آخری انتہا رکھتے ہیں اور تصور سے بھی زیادہ بلند ہوکر کرم کرنے والے ہیں ۔

جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے اس پہلو کا معمولی سا اندازہ بھی ہوجائے ، اس کا ہر خوف و اندیشہ خدا کے ساتھ خاص ہوتا ہے ۔ وہ اس ا تھاہ طاقت سے بے پناہ ڈرتا بھی ہے ، مگر اس کے بے اندازہ کرم کی امید بھی رکھتا ہے ۔اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ جو چاہے جب چاہے کرسکتا ہے اور جو کرتا ہے ٹھیک ہی کرتا ہے ۔وہ بندہ عاجز کے ہر عجز کی تلافی کرسکتا ہے اور بندہ نادم کی ہر خطا کی پردہ پوشی کر لے گا۔عرش تا فرش اس کی عنایات عالیہ اور قدر ت کاملہ کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں جو جلال و جمال اور کمال کی ختم نہ ہونے والی داستان کے منتشر اور منظم اجزا ہیں ۔ وہی رب ہے جس سے مانگنا چاہیے اور صرف وہی دینے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ وہ قدرت ہی نہیں رکھتا دینے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور عطا و کرم کی کسی بخشش کے بعد اس کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی سمند رسے قطرے کے نکلنے کے بعد ہوجاتی ہے ۔

معرفت کے اس پہلو سے اگر اسم اعظم کا مصداق اگر کوئی صفات ہو سکتی ہیں تو یہی قدرت مطلقہ اور کرم مطلقہ ہے ۔اس یقین، معرفت اور احساس کے ساتھ خدا کو پکارنے والا بندہ رب کی بارگاہ سے خالی ہاتھ لوٹے ، اس کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں پایا جاتا

مصیبت




مصیبت کی وجہ سے انسان میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آہی جاتی ہے۔اور اچھا یہ ہے کی تبدیلی مثبت ہو۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ کوی مناسب لباس پہنے والی خاتون یا مرد ڈینگی کا شکار نہ ہورہا ہو۔ کوی سلیو لس خاتون کوی ایسی مثال پیش کرسکتی ہیں۔ پھر اسکا جواب کیا ہوگا۔ میرے خیال میں کسی مصیبت کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔سامنے نظرآنے والی کسی وجہ پر کوی نتیجہ نکالنا شاید مناسب نہیں ہوگا۔ اور ہم فیصلہ کرنے والے کون۔ ؟

بچہ



بچہ اپنی ماں کے ساتھ دوکان میں داخل ہوا ، دکاندار نے بچےکی طرف دیکھا تو وہ اسے بہت ہی پیارا لگا ،
دوکان دار نے ٹافیوں والا ڈبہ اٹھایا اور کھول کر بچے کے سامنے کر دیا، بچے نے سوالیہ نظروں سے دکاندار کی طرف دیکھا تو دکاندار نے کہا بیٹا آپ اس میں سے ٹافیاں لے لو ، بچے نے انکار کر دیا دکاندار نے اصرار کیا لیکن بچہ نہ مانا،
دکاندار نے بچے کی ماں کی طرف دیکھا ، ماں نے اپنے بیٹے کو ٹافیاں لینے کی اجازت دے دی اور ٹافیاں لینے کو کہا لیکن بچے نے نفی میں سر ہلا دیا ، اب دکاندار کے ساتھ ساتھ ماں بھی حیران ہو گئی کہ بچہ ٹافیاں کیوں نہیں لے رہا ،
آخر کار دکاندار نے خود ڈبے میں سے مٹھی بھر کر ٹافیاں نکالی اور ہاتھ بچے کی طرف بڑھایا بچے نے فورا" ہی ٹافیاں لے لیں اور خوش ہوگیا۔
گھر آ کر ماں نے بچے سے پوچھا کہ کیا وجہ تھی کہ تم نے پہلے ٹافیاں نہیں لی پھر جب دکاندار نے دی تو تم نے فورا" پکڑ لی۔
بچے نے مسکرا کر کہا کہ پہلے دکاندار مجھے ڈبے میں سے ٹافیاں نکالنے کو کہہ رہا تھا اور میرے ہاتھ چونکہ چھوٹے ہیں تو میری مٹھی میں کم ٹافیاں آتی لیکن جب دکاندار نے خود مٹھی بھری تو اسکا ہاتھ بڑا ہونے کی وجہ سے ٹافیاں زیادہ آئی تو اس لیے میں نے لے لی ۔
ماں یہ سن کر مسکرا دی -
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب ہم اللہ سے کچھ مانگتے ہیں تو اپنی سوچ کے مطابق مانگتے ہیں لیکن اللہ ہمیں اپنی شان کے مطابق عطا فرماتا ہے تو ہم اللہ سے اسکی شان کے مطابق مانگا کریں ، اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے اور نہ ہی آتی ہے

دگی کی ہر قسم

دگی کی ہر قسم کی اصلاح کا راز اعتراف میں چھپا ھے
کیونکہ
انسان ہمیشہ غلطی کرتا ھے۔ اگر وہ اعتراف نہ کرے تو اس کی غلطیوں کی اصلاح ممکن نہیں۔
اعتراف تمام ترقیوں کا دروازہ ہے مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اعتراف کے لئے آمادہ کر سکے۔ جب بھی ایسا کوئی موقع آتا ہے تو آدمی اسے اپنی عزت کا سوال بنا لیتا ھے وہ اپنی غلطی ماننے کی بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خرابی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حتی کہ وہ وقت آجاتا ہے کہ جس غلطی کا صرف زبانی اقرار کر لینے سے کام بن رہا تھا اس کا اسے اپنی بربادی کی قیمت پر اعتراف کرنا پڑتا ھے۔ ۔


جب میں چھ سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو سب کچھ جانتے ہیں

جب میں دس سال کا تھا
میرے ابوبہت اچھے ہیں لیکن بس ذرا غصے کے تیز ہیں

جب میں بارہ سال کا تھا
میرے ابو تب بہت اچھے تھے جب میں چھوٹا تھا

جب میں چودہ سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو بہت حساس ہوگئے ہیں

جب میں سولہ سال کا تھا
میرے ابوجدید دور کے تقاظوں سے آشنا نہیں ہیں

جب میں اٹھارہ سال کا تھا
میرے ابو میں برداشت کی کمی بڑھتی جارہی ہے

جب میں بیس سال کا تھا
میرے ابو کے ساتھ تو وقت گزارنا بہت ہی مشکل کام ہے، پتہ نہیں امی بیچاری کیسےان کے ساتھ اتنی مدت سے گزارہ کررہی ہیں

جب میں پچیس سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو کو ہر اس چیز پر اعتراض ہے جو میں کرتا ہوں

جب میں تیس سال کا تھا
میرے ابو کے ساتھ باہمی رضامندی بہت ہی مشکل کام ہے۔شاید دادا جان کو بھی ابو سے یہی شکایت ہوتی ہوگی جو مجھے ہے۔

جب میں چالیس سال کا تھا
ابو نے میری پرورش بہت ہی اچھے اصولوں کے ذریعے کی، مجھے بھی اپنے بچوں کی پرورش ایسی ہی کرنی چاہیے۔

جب میں پینتالیس سال کا تھا
مجھے حیرت ہے کہ ابو نے ہم سب کو کیسے اتنے اچھے طریقے سے پالا پوسا۔

جب میں پچاس سال کا تھا
میرے لیے تو بچوں کی تربیت بہت ہی مشکل کام ہے، پتہ نہیں ابو ہماری تعلیم و تربیت اور پرورش میں کتنی اذیت سے گزرے ہوں گے۔

جب میں پچپن سال کا تھا
میرے ابو بہت دانا اور دور اندیش تھے اور انہوں نے ہماری پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بہت ہی زبردست منصوبہ بندی کی تھی۔

جب میں ساٹھ سال کا ہوا
میرے ابو سب سے اچھے ہیں

غور کیجیے کہ اس دائرے کو مکمل ہونے میں چھپن سال لگے اور بات آخر میں پھر پہلے والے قدم پرآگئی کہ میرے ابو سب سے اچھے ہیں۔
-------------------------------------------------------------------------------
آئیے ہم اپنے والدین سے بہترین سلوک کریں، ان کے سامنے اف تک نہ کریں، ان کی خوب خدمت کریں اور ان سے بہت سا پیار کریں قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے [اللہ ہم سب کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک جو بقید حیات ہیں کو اچھی صحت اور لمبی عمر دے اور ان کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے، آمین]۔ اور یہ دعا کریں کہ اے اللہ میرے والدین پراس طرح رحم فرما جیسے انہوں نے مجھ پراس وقت مہربانی کی جب میں کمسن تھا۔
-------------------------------------------------------------------------------

عورت کردار


عورت کردار کے بغیر باسی روٹی ہوتی ہے جسے کوئی کھانا پسند نہیں کرتا سب اسے چھان پورے میں دے دیتے ہیں
’’ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮯ ﮔﺎ،ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺴﻮﺍﻧﯽ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺫﻟّﺖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﮐﻮ
ﺋﯽ ﻣﺮﺩ ﻣﺤﺾ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ کو ﺭﻧﮕﯿﻦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩ ﺟﺲ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺰّﺕ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮ ،ﺍُﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻮﭨﻠﻮﮞ ﯾﺎ ﭘﺎ
ﺭﮐﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﺘﺎ. ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺰّﺕ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ہے.
.
اگر آپ اپنے لئے ایک نیک بیوی اور نیک بیٹی کی کی آرزو رکھتے ہو تو
دوسروں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی عزت دینا سیکھو کیونکہ قران پاک میں ہے
الخَبيثٰتُ لِلخَبيثينَ وَالخَبيثونَ لِلخَبيثٰتِ ۖ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبينَ وَالطَّيِّبونَ لِلطَّيِّبٰتِ ۚ
﴿٢٦﴾ سورة النور
______________________
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے ہیں۔
اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں

چین کے کسی حاکم


کہتے ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ
 کرے۔

اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا، یہ جانے بغیر کہ
یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
اس طرح مختلف لوگ گزرتے رہے اور پتھر کو ، حکمرانوں کو برا بھلا کہتے رہے
اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔

کیا خیال ہے آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
تو پھر کیا خیال ہے شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا؟
♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥



جھولا اور اس پر لکھی عبارت



ہ جھولا اور اس پر لکھی عبارت ہر انسان کا دل دھلانے کے لئے کافی ہے ، خاص طور پر ان لڑکیوں کے لئے واضح اشارہ ہے جو اپنے والدین کی عزت داؤ پر لگا کر آوارہ اور اوباش لڑکوں اور مردوں کی ناپاک ہوس کا سامان بنتی ہیں اور بعد میں اس کے بھیانک نتائج کا شکار بھی بنتی ہیں !!!
یہاں مرد بھی برابر کا قصوروار ہے مگر میرے خیال میں لڑکی کا قصور زیادہ ہے ، میری بہنوں تمہاری عزت اتنی سستی نہیں کہ اس کو اس طرح لٹا کر برباد ہو جاؤ، آپ اگر خود کو اونچا مقام دو گی تو کسی مرد میں جرأت نہیں ہو گی کہ آپ کی طرف میلی آنکھہ سے دیکھہ بھی سکے !

حیا عورت کا زیور ہے !!! ہر لڑکی کی عزت اسکے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے اور جو لڑکی اپنی عزت خود نہیں کرتی کوئی لڑکا اسکی کبھی عزت نہیں کرے گا ، انٹر نیٹ ، موبائل فون ، فلموں اور ٹی وی ڈراموں نے نو جوان نسل کا دماغ خراب کر دیا ہے جس کا سب سے بڑا نقصان لڑکیوں کو ہو رہا ہے

اوباش لڑکے معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر ان کی عزت سے کھیلتے ہیں اور ان نادان لڑکیوں کو ہوش تب آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے اور نتیجہ ایک ناجائز حمل کی صورت میں سامنے آتا ہے ، اب اگر وہ مرد لڑکی کو ٹھکرا دے تو بعض بے چاریاں تو اپنی جان دے دیتی ہیں اور جو جان نہیں دیتی وہ جیتے جی مردہ کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں ، کئی اپنا حمل ضائع کرواتی ہیں تو پھر ماں بننے کے ہی قابل نہیں رہتی ، کوئی بچے کو قتل کر کے کسی گٹر یا نالی میں پھینک جاتی ہیں ، کئی کے گھر والے عزت جانے کے ڈر سے کہیں سے بھی کوئی بےجوڑ سا رشتہ پکڑ کر اس بن بلائی مصیبت کو اس کے سر ڈال دیتے ہیں ، پھر ساری زندگی ان کی طعنوں تشنوں میں گزرتی ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ ایک لمحے کی نادانی نے کیسے ان کی ساری زندگی تباہ کر دی ، چاھتے نہ چاھتے ہوۓ بھی ان کو اسی زندگی سے نباہ کرنا پڑ جاتا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے !

’’ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ رکھئے ﮔﺎ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ عزت و ﻭﻗﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺫﻟﺖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺩ ﻣﺤﺾ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ کو ﺭﻧﮕﯿﻦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ. اچھا یا برا ہونا لڑکے اور لڑکی دونوں پر لاگو ہوتا ہے، ہمیں اپنی حدود نہیں بھولنی چاہئیں اور ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے ہم کو شرمندگی ہو ...

یہ والدین خصوصا ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں تا کہ بعد کے پچھتاوے سے بچ سکیں

دلہن کی نمائش


دلہن کی نمائش

بننا سنورنا اور زیب و زینت خواتین کی فطرت کا حصہ ہے ۔یہ اپنی ذات میں کوئی قابل اعتراض بات بھی نہیں ہے ۔ اس لیے دین اسلام میں اس عمل پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے ۔ البتہ سورہ نور میں خواتین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ مردو ں کے قریبی حلقے کے علاوہ جن میں زیادہ تر محارم شامل ہیں ، اپنی زینتوں کو نمایاں نہ کریں ۔اس سے قبل خواتین کو اس بات پر بھی پابندکیا گیا ہے کہ وہ اپنے سینوں کواپ
...نی اوڑ ھنیوں سے چھپائے رکھیں ۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں شادی بیاہ کے مواقع پراللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کا ایک اجتماعی موقع بن جاتا ہے ۔عام طور پر ہماری شادی کی مجالس یا تو مخلوط ہوتی ہیں یا پھر مرد خود ہی دندناتے ہوئے خواتین کے حصے میں آ جاتے ہیں ۔یوں اللہ تعالیٰ کا حکم سر عام پامال ہوتا ہے ۔ اس میں پہلی غلطی تو مردوں ہی کی ہے جو شادی کا انتظام کرتے ہیں ۔انہیں ایک ایسے موقع پر مخلوط مجالس کا انتظام نہیں کرنا چاہیے جہاں خواتین پوری طرح آراستہ ہوکر آتی ہوں ۔یہ انتظام نہ ہوتو انہیں غض بصر (نظر جھکانے ) کے دینی حکم کی پابندی کرنی چاہیے ۔

ایسے مواقع پر خواتین بھی احتیاط نہیں کرتیں ۔مگر سب سے بڑ ھ کر اس موقع پر دلہن کے طور پر موجود لڑ کی کا وجود مجسم اس حکم کی خلاف ورزی بنا ہوا ہوتا ہے ۔سولہ سنگھار کی ہوئی دلہن کو بناسنوار کر اسٹیج پر بٹھادیا جاتا ہے ۔زیورات اور لباس کی نمائش کے لیے دلہن کے دوپٹے کو سینے سے ہٹا کر باہتمام پیچھے کمر پر ڈال دیا جاتا ہے ۔یوں کھلے گلے اور چھوٹی آستین کے ساتھ ممکنہ حد تک جسم کی نمائش کا اہتمام بھی ہوجاتا ہے ۔ فوٹوگرافر اور مو وی بنانے والے سرعام کیمرے کی آنکھ سے دلہن کو ٹٹولتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دلہن جسے اُس وقت سب سے بڑ ھ کر اللہ کی رحمت کی ضرورت ہوتی ہے ، اپنی نمائش کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجاتی ہے

دلہن کی نمائش


دلہن کی نمائش

بننا سنورنا اور زیب و زینت خواتین کی فطرت کا حصہ ہے ۔یہ اپنی ذات میں کوئی قابل اعتراض بات بھی نہیں ہے ۔ اس لیے دین اسلام میں اس عمل پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے ۔ البتہ سورہ نور میں خواتین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ مردو ں کے قریبی حلقے کے علاوہ جن میں زیادہ تر محارم شامل ہیں ، اپنی زینتوں کو نمایاں نہ کریں ۔اس سے قبل خواتین کو اس بات پر بھی پابندکیا گیا ہے کہ وہ اپنے سینوں کواپ
...نی اوڑ ھنیوں سے چھپائے رکھیں ۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں شادی بیاہ کے مواقع پراللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کا ایک اجتماعی موقع بن جاتا ہے ۔عام طور پر ہماری شادی کی مجالس یا تو مخلوط ہوتی ہیں یا پھر مرد خود ہی دندناتے ہوئے خواتین کے حصے میں آ جاتے ہیں ۔یوں اللہ تعالیٰ کا حکم سر عام پامال ہوتا ہے ۔ اس میں پہلی غلطی تو مردوں ہی کی ہے جو شادی کا انتظام کرتے ہیں ۔انہیں ایک ایسے موقع پر مخلوط مجالس کا انتظام نہیں کرنا چاہیے جہاں خواتین پوری طرح آراستہ ہوکر آتی ہوں ۔یہ انتظام نہ ہوتو انہیں غض بصر (نظر جھکانے ) کے دینی حکم کی پابندی کرنی چاہیے ۔

ایسے مواقع پر خواتین بھی احتیاط نہیں کرتیں ۔مگر سب سے بڑ ھ کر اس موقع پر دلہن کے طور پر موجود لڑ کی کا وجود مجسم اس حکم کی خلاف ورزی بنا ہوا ہوتا ہے ۔سولہ سنگھار کی ہوئی دلہن کو بناسنوار کر اسٹیج پر بٹھادیا جاتا ہے ۔زیورات اور لباس کی نمائش کے لیے دلہن کے دوپٹے کو سینے سے ہٹا کر باہتمام پیچھے کمر پر ڈال دیا جاتا ہے ۔یوں کھلے گلے اور چھوٹی آستین کے ساتھ ممکنہ حد تک جسم کی نمائش کا اہتمام بھی ہوجاتا ہے ۔ فوٹوگرافر اور مو وی بنانے والے سرعام کیمرے کی آنکھ سے دلہن کو ٹٹولتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دلہن جسے اُس وقت سب سے بڑ ھ کر اللہ کی رحمت کی ضرورت ہوتی ہے ، اپنی نمائش کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجاتی ہے

طوطا طوطی


کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ، ویرانی دیکھ کر 
طوطی نے طوطے سے پوچھا ”کس قدر ویران گاؤں ہے،.؟ “طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں
کسی الو کا گزر ہوا ھے

“جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ، عین اس 
وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا ،اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک
کر ان سے مخاطب ہوکر بولا، تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو، آج رات تم
لوگ میرے مہمان بن جاؤ،میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت
سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،
کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی، تو اُلو نے طوطی کا
ہاتھ پکڑ لیا ور کہا .. تم کہاں جا رہی ہو ،طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی
پوچنے کی بات ہے ،میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں
الو یہ سن کر ہنسا..اور کہا ..یہ تم کیا کہ رہی ہو تم تو میری بیوی ہو.اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے ور گرما گرمی شروع ہو گئی

دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک
تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا
مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول
ہوگا“اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں
پیش ہوئے ، ،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت
برخاست کردی،طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا
تو اُلو نے اسے
آواز دی ،”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“طوطے نے
حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے
ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن نرمی سے بولا، نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی
بیوی ہے.
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے. بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے ......!

دوسروں کا غصہ بیوی پر نہ اُتارنے کی نصیحت


دوسروں کا غصہ بیوی پر نہ اُتارنے کی نصیحت 

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ غصہ کسی اور بات پر ہوتا ہے مگر اسے بیوی پر اتارا جاتا ہے۔ آپ ایسی غلطی کبھی نہ کریں ۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ غصہ تو باہر کسی شخص پر آیا مگر اس کی بجائے آپ نے آکر بیوی کو پیٹنا شروع کردیا۔ یہ تو نہایت احمقانہ بات ہے اور اس کا ارتکاب بھی احمق اور بے وقوف لوگ ہی کرتے ہیں۔ جب باہر سے گھر آئیں توباہر کی دنیا کو باہر ہی چھوڑ آئیں ، باہر کے کاموں کو اپنے دماغ میں بھی لے کرنہ آئیں ، باہر کسی سے اونچ نیچ ہوئی ، کوئی مصیبت یا پریشانی کا مسئلہ پیدا ہواتواسے باہر ہی چھوڑآئیں اور گھر کی دنیا میں ان باتوں کو یاد ہی نہ کیا کریں ۔ اس طرح آپ میں اتنی طاقت اور برداشت پیدا ہو جائے گی کہ آپ باہر کے غصے کو گھر والو ں پر نہیں اتاریں گے۔ 
آ پ سوچیے کہ سارادن باہر کے ججھٹ میں رہنے کے بعد شام کو گھر واپس آئیں اور ادھر آپ کی بیوی گھر کو صاف ستھرا کر کے ، کھانا بنا ئے اور بنے سنورے انداز میں آپ کا انتظار کر رہی ہو، پھو لوں کی طرح چہچہاتے بچے ابو کے انتظار میں اداس بیٹھے ہوں اور آپ کے آنے پر سب میں خوشی 
کی لہر دوڑ جائے مگر آ پ گھر میں داخل ہوتے ہی گالیاں بکنے لگیں ۔ چیزیں اُٹھا اٹھا کر پھینکناشروع کر دیں اور جنت بھر ے گھر کو آناً فا ناً جہنم کا گڑ ھا بنا دیں تو کیا فائدہ ؟ کیا اس سے آپ کا نقصان پورا ہوجائے گا؟
نہیں ، اس سے تو آپ کی پریشانی اور بڑھے گی ۔ پہلے آپ اکیلے پریشان تھے ، اب بیوی بچے بھی پریشان ہوں گے۔ سمجھدار شوہر وہ ہوتا ہے جو اس موقع پر گھر کے سکون سے فائدہ اٹھاتا ہے اور گھر کی

خوشی میں باہر کے غصے کو بھلا دیتا ہے۔