اس بلاگ کا ترجمہ

Saturday, December 29, 2012

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے لیلۃ القدر میں شب بیداری کی اور اس رات میں دو کعت نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگی۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیں گے اور ا س نے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطہ لگایا اور اسے جبرئیل علیہ السلام اپنا پرَ لگائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو گیا۔
(1) عصر سے مغرب تک: زیادہ سے زیادہ استغفار پڑھیں۔
(2) مغرب سے عشاءتک: ستر ہ مرتبہ یہ کلمات پڑھیں۔ یَانُورُ یَانُورَ النُّورِ یَامُنَوِّرَ النُّورِ نَوِّر قَلبِی بِنُورِ مَعرِفَتِکَ
(3) نماز عشاءکے بعد : عشاءکے بعد ایک مرتبہ سورةیٰسین ‘ سورة دخان‘ سورة ملک۔ دور رکعت نماز نفل ‘ہر رکعت میں ایک بار سورة القدر اور پندرہ مرتبہ سورة الکوثر۔ اس رات میں نوافل‘ تلاوت کلامِ پاک‘ کلمہ طیبہ ‘ درودشریف اور استغفار کی کثرت کریں۔ اللہ پاک سے اس کی رضا اور جنت طلب کریں اور اللہ کی ناراضگی اور دوزخ سے پناہ طلب کریں

آم اور انار کھانے سے انسان کے منفی جذبات، ذہنی تناو کا خاتمہ ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت.... یعنی زندگی کو خوشگوار طریقہ سے گزارنے کے لیے انسان کو کچھ ضروری چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ورنہ یہ نعمت زحمت بن جاتی ہے اور انسان زندگی سے بیزار ہو کر بعض دفعہ خود کشی کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ جسم کو تندرست رکھنے کے بعد ہی انسان کی زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے۔ ورنہ بیمار آدمی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی طرف بھی سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ انسانی جسم کو روحانی اور جسمانی دونوں طرح سے تندرست رکھنے کے لیے ان باتوں کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

1۔ عبادت: مسلمانوں میں پانچ وقت نماز روحانی سکون کا بہترین طریقہ ہے۔ اس سے انسان کو اندرونی سکون و آرام ملتا ہے اور جسم کی کھچاوٹ اور تناﺅ وغیرہ ختم ہو جاتا ہے۔ انسان میں یکسوئی پیدا ہوتی ہے۔ بلڈپریشر نارمل رہتا ہے۔

2۔ چائے سے پرہیز: چائے، کافی اور دوسرے کیفین والے مشروبات سے پرہیز ضروری ہے۔ یہ ایک پیٹنٹ دوا ہے جو انسانی جسم کے مختلف حصوں کو مشتعل کرتی ہے۔ اس کا زیادہ اور بے قاعدہ استعمال انسان میں ڈپریشن تھکاوٹ اور جلد بڑھاپے کی طرف لے جاتا ہے۔ چائے کے بجائے دوسری قسم کی جڑی بوٹیوں پر مبنی مشروبات استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گل بابونہ کی چائے، میتھروں کی چائے، سونف کی چائے۔ گل بابونہ کی چائے نظام اعصاب کو قوت اور آرام بخشتی ہے۔ سونف کی چائے جگر اور گردہ کے فعل کو ٹھیک کرتی ہے اور پیپر منٹ کی چائے معدہ کے نظام کو درست کرتی ہے۔ کیفین سے آزاد چائے میں کیفین کی تھوڑی سی مقدار رہ جاتی ہے اور ساتھ ہی وہ کیمیکل بھی رہ جاتا ہے جس کے ذریعہ کیفین کو نکالا گیا ہو۔

3۔ نیند: نیند کا مناسب نہ ہونا انسان کو سست کر دیتا ہے۔ یہ آپ کے چہرے کے اثرات کو متاثر کرتا ہے اور آپ کے طرز عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کم نیند کے عادی ہو چکے ہوں وہ جلد بڑھاپے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ نیند کم از کم 7سے 8 گھنٹے ہونی چاہیے۔ کچھ لوگ 6 گھنٹے کی نیند سے بھی گزارہ کر لیتے ہیں اور یہ چیز ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ زیادہ نیند سے بھی انسان کا دماغ کنفیوز ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ رات کو دیر سے سو کر صبح دیر سے اٹھتے ہیں۔ یہ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمیشہ مقررہ وقت پر سو کر مقررہ وقت پر اٹھنے والے لوگ ہی صحتمند زندگی پاتے ہیں۔

4۔ گھی یا تیل: انسان کو سیر شدہ چربی یا تیل سے گریز کرنا چاہیے اور چربی والے گوشت کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے جسم کو بہت کم گھی یا چربی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کچھ حیاتین اے، ڈی، ای اور کے ان میں حل پذیر ہیں۔ زیادہ گھی یا تیل استعمال کرنے سے انسان موٹاپے، دل کے امراض اور کینسر کا شکار ہو جاتا ہے۔ ضرورت سے کم گھی کھانے سے جلد خشک اور ہار مونز میں توازن نہیں رہتا اور توانائی میں کمی واقعی ہو جاتی ہے۔ جدید تحقیق نے یہ بتایا ہے کہ زیتون کے تیل کے استعمال سے انسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور دل کے امراض کو خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ زیتون کے تیل کے علاوہ تلوں کا تیل اور سورج مکھی کا تیل بھی فائدہ مند ہے۔

5۔ خوشبو: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو کو پسند فرمایا ہے۔ خوشبو انسان کے دماغ پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔ خوشبو وہ استعمال کرنی چاہیے جن میں پھلوں اور پھولوں کی خوشبو موجود ہو اور انسان خود خوشبو نہ لگائے تو اس کے کمرہ میں خوشبو کا موجود ہونا ضروری ہے۔ آج کل بہت سی بیماریوں کا علاج خوشبو کے ذریعہ ہو رہا ہے۔ جسے اروما تھراپی کہتے ہیں۔ گلاب کی خوشبو انسان کو آرام و سکون دیتی ہے اور گہری نیند لاتی ہے۔ پیپر منٹ اور دار چینی کی خوشبو سکون دیتی ہے۔

6۔ پانی اور مشروبات: پانی زیادہ پینا چاہیے۔ زیادہ پانی جلد کو صحت مند رکھتا ہے۔ مصنوعی مشروبات سے پرہیز کریں۔ پانی کو کھانے کے ساتھ مت استعمال کریں ،یہ نظام انہضام کو خراب کرتا ہے۔

7۔ سبزیاں و پھل: بہت سی سبزیاں اور پھل انسان کے جسم پر مثبت اثرات رکھتے ہیں مثلاً آم اور انار کھانے سے انسان کے منفی جذبات، ذہنی تناﺅ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ سویابین، مٹر اور دوسری سبزیاں مثلاً گوبھی وغیرہ تھائی رائڈ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ سلاد انسان کے اعصابی تناﺅ کو کم کرتا ہے اور پرسکون نیند لاتا ہے۔ شلغم اور آلو بھی سکون آور اثرات رکھتے ہیں۔

8۔ ورزش: انسانی جسم کو تندرست رکھنے کے لیے سیر اور ورزش انتہائی ضروری ہے۔ رات کے کھانے کے تقریباً چار گھنٹے کے بعد انسان کو سونا چاہیے۔ اس دوران سیر انتہائی ضروری ہے۔ سیر کچھ دیر کے لیے تیز اور کچھ دیر کے لئے آہستہ ہونی چاہیے ،جس کو چہل قدمی بھی کہا جا سکتا ہے۔

9۔ جنسی رغبت:جائز جنسی خواہش کا پورا ہونا صحت کے لیے نہایت ضروری ہے ورنہ انسان میں تلخی اور دوسری اس قسم کی چیزیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جنسی رغبت کم ہونے کی وجہ سے تناﺅ قائم ہوتا ہے۔ گاجر، شکرقندی اور انار کے بیج جنسی رغبت کو بڑھاتے ہیں۔ سبز پتوں والی سبزیاں جیسے کہ پالک وغیرہ اس کے علاوہ انڈے کی زردی، دلیہ، پھل اور کلیجی مفید ہیں۔ جنسی رغبت کی کمی کی بڑی وجہ زنک کی کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جو، گندم، کدو کے بیج، تل، سورج مکھی کے بیج، انڈے اور کلیجی کھائیں۔ شلغم، گوبھی، سویابین، جنسی رغبت کو کم کرتے ہیں۔

10۔ سورج کی گرمی: سردیوں کے موسم میں کچھ عرصہ تک دھوپ میں رہنا ضروری ہے کیونکہ اس سے انسانی جسم میں حیاتین ڈی پیدا ہوتی ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ صبح کی دھوپ سے فائدہ اٹھانا چاہیے، بعد میں اتنا فائدہ نہیں ہوتا۔ سردیوں میںدھوپ میں دن میں کم از کم دو گھنٹے ضرور بیٹھیں اور گرمیوں میں صبح نصف گھنٹہ کافی ہے۔ دھوپ سے انسانی جسم سے تھکاوٹ، وزن کا بڑھ جانا، سستی وغیرہ دور ہو جاتی ہے۔

11۔ پروٹین: پروٹین کا زیادہ تر ذریعہ جانورں کے بجائے دالوں سے حاصل کرنا چاہیے۔ جانورں سے زیادہ پروٹین کی وجہ سے انسانی جسم میں پانی کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ جگر اور گردوں کے فعل کو خراب کرتے ہیں۔ دل کے امراض اور کینسر جیسے عوارض پیدا ہوتے ہیں۔ مچھلی اس لحاظ سے بہترین غذا ہے کیونکہ اس میں چربی کی مقدار بھی کم ہوتی ہے اور دوسرے غذائی اجزاءکی وافر مقدار موجود ہوتی ہے لہٰذا دالوں، لوبیا وغیرہ سے پروٹین حاصل کریں۔

12۔ لباس: انسان کی صحت پر لباس بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ گندا لباس انسان کو سستی کی طرف مائل کرتا ہے۔ صاف لباس انسان میں فرحت اور آسودگی پیدا کرتا ہے۔ ہمیشہ اپنی پسند اور رنگ کا صاف ستھرا لباس استعمال کریں۔

دیوان سنگھ مفتون



ایڈیٹرہفت روزہ ریاست دہلی (تقسیم ہند سے قبل) دیوان سنگھ مفتون برصغیر کا ایک مشہور اور انقلابی نام ہے۔ انہوں نے جیل میں زندگی کے جو سچے مشاہدات اور تجربات بیان کیے وہ قارئین کی نذر ہیں۔آپ بھی اپنے تجربات لکھئے۔

دیوان سنگھ مفتون
رائے بہا در ڈاکٹر متھرا داس جو ہندوستان کے بہترین آئی سپیشلسٹ تسلیم کیے جا تے ہیں ۔ جب سر کا ری ملازمت میں داخل ہوئے تو ان کی تنخواہ پچیس روپے ما ہوار تھی اور وہ بطور ہاسپٹل اسسٹنٹ ( جن کو اب سب اسسٹنٹ سر جن کہا جاتاہے ) خدمات سرانجام دے رہے تھے ۔ آپ ہندوستان بھرمیں سب سے پہلے ہاسپٹل اسسٹنٹ تھے جو میڈیکل کا لج میں تعلیم حاصل کیے بغیر اسسٹنٹ سر جن ہوئے اور بعد میں سول سرجن کے عہدہ پر پہنچے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں مو تیا بند کے اتنی تعدا دمیں آپریشن کیے کہ غالباً دنیا کے تمام ڈاکٹروں کی آپریشنو ں کی مجموعی تعداد بھی کم ہے ۔ آپ نے اپنی حیا ت میں لا کھو ں روپیہ پیدا کیا اور لاکھو ں خیرات کیا ۔ آپ کے روپیہ سے اس وقت ایک کالج اور متعدد سکول چل رہے ہیں اور اگر میرا اندازہ غلط نہیں تو آپ پانچ چھ ہزار روپیہ ما ہوار مسلسل خیرات میں صرف کر تے رہے اور آپ کو تمام ہندوستان میں شہرت نصیب ہوئی۔ چنانچہ عرصہ ہوا مہاتما گاندھی نے بھی آپ کی تعریف میں اپنے اخبا ر میں ایک مضمون لکھا تھا ۔ ڈاکٹر متھراداس نہ صرف بطور ڈاکٹر بہت کا میا ب ہیں بلکہ بطو ر انسان ان میں اخلا ص اور نیک نیتی وغیرہ کی بعض ایسی صفا ت موجود ہیں جو ان کی کا میا بی کا سب سے بڑا سبب کہی جا سکتی ہیں اور جن کے با عث آپ کو عالمگیر شہرت اور ہر دلعزیزی نصیب ہوئی ۔ ڈاکٹر متھراداس کی شروع کی زندگی میں جب کہ آپ مو گا کے ہسپتال میں مقرر ہوئے فیروز پو رکے سول سرجن کرنل ایڈی تھے ۔ کرنل ایڈی شاہانہ مزاج کے خوشامد پسند انگریز تھے ۔ مگر نہایت شریف اور نیک ، جس پر مہر بانی کرتے ہمیشہ ہی اس کی امداد کر تے رہتے یہ ڈاکٹر متھرا داس پر بہت مہربان تھے اور آپ نے ڈاکٹر متھراداس کی قدم قدم پر امداد کی یہ کئی برس فیرو ز پو رمیں سول سر جن رہے ۔ وہاں سے پنجاب کے چیف ملیر یل میڈیکل آفیسر وغیرہ ہو گئے اورر یٹا ئرہونے کے بعد آپ نے پھر فیروز پور میں ہی مستقل رہا ئش اختیا ر کی کیونکہ فیروزپور کی آب و ہوا ان کو موافق تھی اور وہا ں دوستو ں کا حلقہ بھی پیدا ہو چکا تھا ۔ کرنل ایڈی کو ریٹا ئرڈ ہونے کے بعد فیروزپور میں رہتے کئی بر س ہو گئے ۔ ڈاکٹر متھراداس کا معمول تھا کہ وہ جب کبھی فیرو زپو ر کسی کام کے لیے جا تے تو کرنل ایڈی سے ملنے کے لیے ان کی کوٹھی پر ضرور پہنچتے ایک روز کرنل ایڈی نے ڈاکٹر متھراداس سے کہا کہ ان کو ایک گائے کی ضرور ت ہے موگا سے خرید کر بھجوا دی جائے ڈاکٹر متھراداس واپس پہنچ کر ایک بہت اچھی گائے اسی روپے میں خریدی اور اپنے آدمی کے ساتھ فیروز پو ر کرنل ایڈی کو بھیج دی۔ ایک ماہ کے بعد ڈاکٹر متھراداس کو فیروز پور جانے کا اتفاق ہوا تو آپ حسبِ معمول کرنل ایڈی سے ملنے کیلئے گئے۔ باتو ں باتوں میں کرنل ایڈی نے کہا کہ گائے بہت اچھی ہے ۔ یہ کتنے میں خریدی گئی ڈاکٹر متھرا داس نے جواب دیا کہ قیمت کا کیا سوال ہے سب کچھ آپ کا ہے ۔ کرنل ایڈی حاکمانہ سپرٹ کے انگریز تھے ۔ آپ نے کہا نہیں ہم حکم دیتاہے کہ گائے کتنے میں خرید ی گئی ۔ ڈاکٹر متھراداس کرنل ایڈی کی نبض پہنچانتے تھے اور جانتے تھے کہ جب وہ حکم کا لفظ استعمال کریں اور پھر بھی ضد کی جائے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں ۔ آپ نے جوا ب دیا کہ اسی روپیہ میں کرنل ایڈی نے فوراً اسی روپے کا چیک لکھ کر ڈاکٹر متھراداس کو دے دیا اور ڈاکٹر چلے آئے۔

مقصد کا انتخاب بھی

مقصد کا انتخاب بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔آپ کے سامنے مقصد اس قسم کا ہونا چاہیے کہ جو آپ کے حالات کے مطابق قابل عمل ہو۔ آپ کو میں ایک روزمرہ کی مثال دیتا ہوں۔ عمارت بلند ہو گی تو اس میں منزلیں بھی اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ اس کی سیڑھیوں پر اتنے ہی ٹھہراﺅ ہوں گے۔ یعنی ہم منزل بمنزل طے کرتے ہوئے بالائی منزل پرپہنچ سکیں گے۔ عمارت جتنی زیادہ اونچی ہو گی اس کیلئے اتنا ہی زیادہ وقت اور محنت درکار ہو گی۔ اس طرح زندگی کے کسی بھی شعبہ میں جتنا بلند ہونا چاہیں گے بلندی پر جا سکتے ہیں۔بشرطیکہ ہم وقت اور محنت بھی اسی حساب سے کر سکیں۔ ا س لئے ضروری ہے کہ قسمت پرشاکی ہونے کی بجائے جرات اور ہمت کے ساتھ ایک واضح اور اعلیٰ مقصد کی طرف مسلسل قدم بڑھاتے جائیں۔ امید اور یقین رکھیں ‘ آپ کو حیرت انگیز فائدہ ہوگا۔ جب صبح اٹھیںتو آپ کے سامنے سارے دن کی کارکردگی ہو ۔ آپ کا دل کامیابی‘ خوشی اور کام کرنے کے ارادے سے بھرپور ہو۔ اس کیلئے آپ کوئی فقرہ‘ کوئی پیغام بار بار دل میں دہراتے رہ سکتے ہیں یا کسی تعلیم کا سہارا لے سکتے ہیں ۔اگر آپ نے دن کا آغاز اس طرح کیا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے دن کے کام میں کہیں رکاوٹ یا زہریلی آواز کا سامنا نہیں ہوگا اور جو رکاوٹیں بھی آئیں گی۔ وہ آپ کے کام میں مددگار ہی بن جائیں گی۔آپ کو چاہیے کہ ذہنی طور پر اپنے اندر دوست بنانے کی آمادگی کو استوار کیجئے پھر آپ دوست بنا سکیں گے اور آپ کو کسی طرح کی رکاوٹ پیش نہ آئے گی۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے دوستوں کیلئے اپنا رویہ گرم جوشی پر مبنی رکھیں۔ آپ کو اپنے دوستوں کو صدقِ دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے اور آپ کو ہمیشہ اپنے اندر گرمجوشی‘ پر خلوص اور محبت بھرے جذبوں کو سجائے رکھنا چاہیے۔ ان کی وجہ سے سب ہی آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔ پر اعتماد اور باعزم شخصیت کامیابی اور کامرانی دلاتی ہے اور ایسی راہیں ہموار کرتی ہے کہ جن پر لوگ چل کر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ کسی قسم کا جھجک آمیز رویہ نہ رکھئے ہر ایک سے خوش دلی سے پیش آئیے اور تعمیری انداز میں ان سیباتیں کیجئے۔ ہر انسان اپنے افکار اور خیالات کے مطابق ہوتا ہے۔ آپ اپنے خیالات اور افکار خوبصورت بنائیے دوسرے اس سے متاثر ہوں گے اور آپ کی شخصیت کو تعمیری سمجھ کر آپ سے رجوع کریں گے۔ آخر ہم انسان ہیں۔ اس لئے ہمیں انسان کی بقاءاور بھلائی کیلئے کام کرنا چاہئے۔ بااعتماد اور پرعزم شخصیت بننا چاہیے ۔ باعزم شخصیت ہی معاشرے کی فلاح کا کام بہتر طور پر سر انجام دے سکتی ہیں۔ ایک معذور شخص کو بھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ اللہ کارساز ہے۔ جب یہ معذور شخص اس بات کا عزم کر لے کہ اسے زندگی میں کارنامے دکھانے ہیں تو وہ پُر امید ہو جائے گا اور وہ اس بات کا منتظر ہو جائے گا کہ اسے کوئی موقع ملے اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے لئے ترقی و تعمیر کا سامان پیدا کر سکے سواُسے اس قسم کا موقع ضرور ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتے وہ سب کو ہی بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مضبوط اور باقاعدہ اٹوٹ فیصلہ کیجئے‘ اپنے ساتھ اقرار کیجئے‘ عہد کیجئے کہ جو آپ کی اہم خواہشات ہیں ان کی تکمیل کیلئے اتنی کوشش اور محنت کریں گے کہ وہ کام آپ کے کرنے کے قابل اور ممکن ہو جائے۔ اپنی تمام صلاحیتوں کو حال کے کام پر صرف کیجئے۔ اس طرح لاتعداد خواہشات آپ کا وقت ضائع کرنے سے قاصر رہیں گی اور بے یقینی کے خیالات دور ہوں گے۔

رسولیاں


السلام علیکم! یہ واقعہ میری آنکھوں دیکھا ہے۔ میری ایک عزیزہ شہناز کی شادی ہوئی ‘ وہ امید سے ہوئی تو اسے داغ لگنا شروع ہو گئے۔لیڈی ڈاکٹر نے اسے الٹرا ساﺅنڈ کا مشورہ دیا ‘ الٹرا ساﺅنڈ میں پتہ چلا کہ رحم میں دو رسولیاں ہیں۔ ایک بڑی اور ایک چھوٹی‘ گھر میں تین بھائیوں کی اکلوتی بہن کے دکھ کی لہر دوڑ گئی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ابھی معمولی بلیڈنگ ہو رہی ہے آگے نجانے کیا ہو گا۔ شہناز کے والد بھی بہت پریشان تھے۔ ایک دفعہ انہیں دور کا رشتہ دارحکیم ملا تو حکیم صاحب نے اس شرط پر نسخہ دیا کہ جس کسی کو بھی ضرورت ہو گی آپ یہ نسخہ مفت اسے دینگے۔ رسولیاں چاہے سر میں ہوں یا کہیں بھی ‘ پانی والی ہوں یا خون والی سب کیلئے مجرب نسخہ ہے۔ اتنے عرصے میں چار ماہ گزر گئے۔ دوبارہ الٹرا ساﺅنڈ کیا تو رسولیاں بہت تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ الحمد للہ یہ نسخہ استعمال کیا گیا ‘ یاد رہے کہ الٹرا ساﺅنڈ ہر ماہ ہوتا رہا اور رسولیاں بڑھ رہی تھیں۔ لیڈی ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بچہ دانی بچے کی پیدائش کیساتھ ہی نکال دی جائےگی۔
یہ نسخہ استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب بڑے آپریشن کے وقت رسولیوں کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ الٹرا ساﺅنڈ کی رپورٹیں ایک طرف اور اللہ کی حکمت ایک طرف۔ اس واقعہ کو تیرہ ‘ چودہ سال گزر گئے ہیں۔ شہناز تین بیٹوں کی ماں ہے۔ مگر ایک الجھن ابھی بھی ہے ۔ شہناز کا شوہر ایک انجینئر ہے۔ ان دنوں وہ سرحد ہزارہ میں تھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔ وہ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کہ ایک نسخہ اتنی بڑی رسولیوں کو ختم کر سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر یہ رپورٹیں الٹرا ساﺅنڈ کی ہیں تو رسولیاں کہاں گئیں۔ اس کا ذہن اس طرح بڑھتی ہوئی رسولیوں کی رپورٹ اور نسخہ کو نہیں مانتا۔ آپ کیا کہتے ہیں ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ جس نے ماننا ہے تو اپنے بھلے کیلئے اور نہیں ماننا تو ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم تو نسخہ صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ اللہ کرے کسی دکھی کا بھلا ہو جائے اور ہمیں خلوص دل سے اپنی دعاﺅں میں یاد کرے۔ 

نسخہ
آکسن کا پودا اکھاڑ لیں یا توڑ لیں‘ بیس کلو اس کا وزن ہو۔ اس کو پتوں اور ڈنڈیوں سمیت چھاﺅں میں خشک کریں۔ خشک ہونے پر اس کو جلا لیں۔ بڑا سا گھڑا لیں اس کو پانی سے بھرکر آکسن کی راکھ اس میں ڈال دیں۔ ایک ہفتہ تک صبح و شام لکڑی کے چمچ سے ہلائیں۔ ایک ہفتہ بعد پانی سفید ہو تو اسے آرام سے ململ کے کپڑے میں آہستہ سے نتھار لیں کہ بیٹھی ہوئی راکھ یا تنکا شامل نہ ہو۔ اس کو سٹیل کے دیگچے میں گرم کریں۔ اس کے اوپر کوئی جالا وغیرہ آجائے گا۔ پانی ٹھنڈا ہونے پر اس کو دوبارہ ململ کے کپڑے میں چھان لیں تاکہ میل کچیل صاف ہو جائے۔ پھر اس کو سٹیل کے دیگچے میں پکانا ہے۔ پانی خشک ہو کر ایک پاﺅ رہ جائے تو اس میں مسلسل چمچ ہلاتے رہیں۔ یہاں تک کہ سارا پانی خشک ہو کر نمک بن جائے ۔ جلنے نہیں دینا‘ کالا نہ ہونے پائے۔ اس کا رنگ سفید یا آف وائٹ ہو یہ نمک کی ڈلیاں بن جائیں گی۔ دیگچے کے ساتھ چمٹ بھی جاتا ہے ۔ اس کو اکھاڑ لیں ‘ اسے پیس لیں یا گرینڈ کر لیں۔
اس دوائی کو پلاسٹک یا شیشے کی بوتل میں محفوظ کر لیں۔ ڈھکن کبھی کھلا نہ چھوڑیں۔ یہ دوائی پانی بن جائےگی۔

کھانے کا طریقہ
ایک چمچ بالائی میں آدھا چمچ دوائی چھپا دیں ‘ دوائی زبان کو لگے بغیر نہار منہ کھائیںاوپر سے ایک گلاس دودھ پی لیں۔ یہ دوائی ختم ہونے تک کھائیں یہ مکمل نسخہ ہے۔ انشاءاللہ تعالیٰ اللہ پاک شفا دیں گے۔ دوا کے ساتھ دعا بھی ضروری ہے۔ دو نفل حاجت کے پڑھ کر دعا مانگیں۔
یہ نسخہ جس جس کو بھی دیا ہے اللہ پاک نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے شفا والی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے لیکن شرط صرف پابندی سے نسخہ استعمال کرنے کی ہے اور اللہ کی ذات عالی کی طرف سو فیصد یقین ہو کہ میرا رب چاہے تو مٹی میں بھی شفا ڈال دے۔ وہ ضرور مجھے شفا یاب کرے گا۔

ہر جگہ آزمایا ہوا زبردست روحانی عمل

ہمارے مذہب اسلام میں عورت کو قبرستان جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں بہت مجبوری ہو تو بہت اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر یعنی اچھی طرح ستر پوشی کر کے کسی محرم کو ساتھ لے کر جا سکتی ہے۔ ویسے کوشش کرے کہ نہ جائے ‘ میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا جو میں آپ کو سنانے لگی ہوں۔ میں کئی دنوں سے کافی اپ سیٹ تھی‘ میرے اپنے پیارے مجھے چھوڑ کر دوسری دنیا میں چلے گئے تھے جو بڑی شدت سے یاد آ رہے تھے‘ کسی پل چین نہیں مل رہا تھا‘ عجیب وحشت کا عالم مجھ پر طاری تھا‘ سوچا قبرستان جاتی ہوں اپنے پیاروں کی قبریں دیکھ کر دل کو کچھ تو سکون ملے گا‘ عصر کی نماز ادا کی‘ قریبی مارکیٹ سے پھولوں کی چادر خریدی اور اکیلی ہی قبرستان چلی گئی‘ فاتحہ پڑھ کر پھولوں کی چادر قبر پر ڈالنے لگی لیکن پھول آپس میں کچھ اس طرح الجھ گئے تھے کہ چادر کھل ہی نہیں رہی تھی‘ میں نے اپنی مدد کیلئے دائیں بائیں دیکھا کہ کسی بلاﺅں تاکہ پھولوں کی چادر کھول کر قبر پر ڈال سکوں اتنے میں مَیں نے ایک ادھیڑ عمر شخص کو دیکھا جو سفید کپڑوں میں ملبوس تھا۔ ذرا قریب آیا تو میں نے ہمت کر کے اس شخص سے کہا بھائی یہ چادر قبر پر ڈالنے میں میری مدد کرو‘ یہ کھل نہیں رہی ہے‘ وہ شخص کھڑا ہو گیا اور میری طرف دیکھنے لگا‘ اس کی آنکھوں میں کچھ ایس مقناطیسیت تھی کہ میں اس پر سے اپنی نظر نہ ہٹا سکی‘ اس کی آنکھوں سے کچھ ایسی شعاعیں نکل کر میری آنکھوں میں داخل ہو رہی تھیں کہ مجھے اپنے جسم کے اندر برف کی سی ٹھنڈک کا احساس ہو رہا تھا اور میں کانپنے لگی‘ اچانک کوئی پرندہ میرے سر پر سے چیختا ہوا اڑا اور میں چونک پڑی‘ پھول میرے ہاتھ سے چھوٹ کر قبر پر گر پڑے تھے اور میرا پورا وجود ٹھنڈے پسینے میں ڈوبا ہوا تھا‘ اس شخص کا دورد ور تک پتہ نہ تھا‘ قبرستان میں ہلکا ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا میں نے فوراً آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا اور کسی نہ کسی طرح گھر پہنچی‘ کئی دن بعد جب طبیعت سنبھلی تو یہ واقعہ لکھ رہی ہوں اور عبقری رسالے میں بھیج رہی ہوں تاکہ میری بہنیں قبرستان جانے سے گریز کریں۔

پانچ روگ‘ ایک انوکھا کامیاب ٹوٹکہ


                پانچ روگ‘ ایک انوکھا کامیاب ٹوٹکہ                 
اس ترقی یافتہ دور میں جب جسم کی رگ رگ کو آپ مشین پر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں ۔ آخر کیوں وہی جسم پھر بھی تندرست 
نہیں ہوتا۔ کتنے مریض ایسے ہیں جو کئی سال علاج کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں یا پھر بڑے سے بڑا معالج یہ کہہ کر علاج ختم کر دیتا ہے کہ آپ کو دعا کی ضرورت ہے یا تشخیص میں غلطی ہو گئی تھی۔ زیر نظر ایک ایسے ٹوٹکے اور آسان عمل کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو کرنے میں نہایت آسان اور نتیجے میں حیرت انگیز نتائج کا حامل ہے۔ آپ جب اس کی وضاحت اور تفصیلی فوائد پڑھیں گے تو احساس ہو گا واقعی یہ ایک لاجواب تجربہ اور اچھوتی تحقیق ہے۔
(1) ایک صاحب حیران اور پریشان ہیں کہ مجھے کالا یرقان یعنی ہیپا ٹائٹس ہو گیا ہے ‘ کئی رپورٹس کرائیں ہر جگہ کالایرقان ہی نکلا پھر انجکشن لگوائے‘ بڑے مہنگے اور قیمتی انجکشن لگوائے لیکن فائدہ نہ ہوا۔ موصوف کوئی آسان اور بہتر طریقہ کے ذریعے علاج چاہتے تھے کہ میرا علاج ہو جائے ۔ انہیں یہ گھوٹہ استعمال کرنے کو عرض کیا۔ چند ہفتے کے استعمال سے ایسے صحت مند اور گلاب کے پھول کی طرح ہوئے کہ جیسے پہلے کچھ تھا ہی نہیں۔ ہر رپورٹ بالکل نارمل آئی ۔ ملنے والوںمیں سے ایک انسان دوست شخص سے ملاقات ہوئی کہنے لگے میں نے اس گھوٹے والے نسخہ سے اب تک 88 ایسے کالے یرقان کے مریض تندرست ہوتے دیکھے ہیں جو ہر طرف سے بالکل مایوس ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ عام یرقان ہو یا وہ مریض جن کو یرقان معمولی تھا وہ تو بہت جلد تندرست ہو گئے۔ حتیٰ کہ دوسروں کو کہا کہ واقعی یہ نسخہ لاجواب ہے ہر اس مریض کیلئے جسے کالا یرقان ہو یا پھر اس کا کالا یرقان بگڑ گیا ہو‘ حتیٰ کہ تلی کے بڑھنے اور بگڑنے میں فائدہ مند ہے۔ پھر کالے یرقان کی وجہ سے جو جسمانی کمزوری ہو گئی تھی اس میں بھی خاطر خواہ نفع ہوا۔ مسلسل کچھ عرصہ اس کا استعمال ہی آپ کو سو فیصد فائدہ دے سکتا ہے۔ بس ایک بار آزماکر دیکھیں ۔ 
(2) تھیلسیمیا یعنی وہ مریض جنہیں ہر ہفتے یا ہر ماہ خون کی بوتل لگتی ہے اور ان کا جسم خود خون بنانے کے قابل نہیں۔ اس مرض کاسوائے خون بنانے کے دنیا میں اور کہیں علاج نہیں ‘ خود مجھے بھی اس کا علم نہیں تھا کہ یہ گھوٹہ اس مرض میں فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک خاتون یہ گھوٹہ اس مرض کے لئے بتاتی تھی او رمیرے سننے میں 3 واقعات ایسے آئے جو بالکل تندرست ہو گئے اور کچھ واقعات ایسے آئے جنہیں فائدہ نہیں ہوا۔ بقول اس خاتون کے جنہیں فائدہ نہیں ہوا انہوں نے اعتماد‘ تسلی اور توجہ سے وہ دوائی یعنی گھوٹہ استعمال نہیں کیا۔ واقعی ایسا ہوا ان میں سے دو چار سے ملا تو انہیں بے یقینی اور بے توجہی کا شکار پایا ۔ پھر یہ گھوٹہ مستقل بے شمار لوگوں کو بتانا شروع کیا۔ جس نے بھی تھیلسیمیا میں اسے آزمایا اسے خوب سے خوب تر فائدہ ہوا اور چند ماہ کے متواتر استعمال سے مریض کو خوب نفع ہوا۔ آج بھی میرے نوٹس میں ایسے مریض ہیں جو ہر ماہ خون لینے کیلئے عاجز آ جاتے تھے ۔ جب انہیں یہ نسخہ یعنی گھوٹہ استعمال کرایا انہیں حیرت انگیز نفع ہوا ‘ بے شمار مائیں اپنے بچوں کی صحت یابی پر دعائیں دے رہی ہیں۔
(3) ٹائیفائیڈ ایک ایسا بخار ہے جو بظاہر ختم ہو جاتا ہے یعنی انٹی بائیوٹک سے دب جاتا ہے لیکن جاتا نہیں۔ پھر یہ کبھی کبھی جسم میں ظاہر ہو جاتا ہے یا ایسے مریض جنہیں کبھی ملیریا ہوا تو وہ بھی جسم میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ دن ڈوبتے ہی جسم میں توڑ پھوڑ شروع ہوکر بخار چڑھ جاتا ہے۔ صبح جسم بالکل تندرست ہوجاتا ہے۔ ایسے کئی نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ملے جو پرانے بخار میں مبتلا تھے۔ انہیں گھوٹہ استعمال کرایا کوئی دنوں میں‘ کوئی ہفتوں میں ‘کوئی چند ماہ میں ہمیشہ کیلئے تندرست ہو گئے۔ ایک صاحب اس مرض سے اتنے عاجز آئے سارا دن بیٹھ کر ہائے ہائے کرتے گھر والے عاجز اور تنگ آ گئے۔ ایک بہو تھی وہ روٹھ گئی‘ بیوی پہلے ہی مر گئی تھی اب کوئی روٹی پکا کر دینے والا نہ تھا ۔ انہیں یہی گھوٹہ استعمال کرایا گھر میں سکون آ گیا۔
(4) ٹی بی جتنی پرانی تھی اور ایسے لوگ کہ ٹی بی کا باقاعدہ اٹھارہ ماہ علاج کرایا ‘ کوئٹہ کے قریب ایک جگہ بہت عرصہ داخل رہے لیکن ٹی بی پھر شروع ہو گئی ۔ پھر بیرون ملک چلے گئے۔ بیٹیاں اور دو بیٹے یورپ میں عرصہ دراز سے بلا رہے تھے۔ انہوں نے وہاں علاج کرایا بالکل تندرست ہو گئے چہرہ اور جسم سرخ و سفید ہو گئے لیکن پھر اپنے وطن جہلم پہنچے تو پھر ویسے ہو گئے اور پہلے سے زیادہ بیمار ہو گئے ‘ ہمارے ایک محبت کرنے والے معالج نے انہیں یہی گھوٹہ استعمال کرایا۔ چند ہفتوں کے استعمال سے ایسے صحت یاب ہو ئے کہ آج 6 سال ہو گئے ہیں پھر تکلیف نہیں ہوئی۔
(5) واقعہ یوں ہوا کہ قارئین کی تحریریں عبقری کیلئے ڈھیروں موصول ہوتی ہیں اور ایسے لوگ اپنے تجربات ارسال کرتے ہیں اور ایسے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جو شاید اپنے کسی قریبی عزیز کو بھی نہ بتا سکیں انہیں تحریروں میں ایک زرگر نے یہی گھوٹے کا نسخہ لکھا کہ وہ اسے شوگر کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پہلے خود کو تھی‘ بیوی کو تھی‘ خالہ زاد دو بیٹوں کو تھی اور خاندان کے اور کئی لوگوں کو تھی۔ انہیں خوب فائدہ ہوا۔ پھر میں نے اس کی ترکیب مکمل تحریرکر کے فوٹو کاپی کرا کر لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دی ۔ اب تو ایسے رزلٹ ملے کہ میں خود حیران ہوا کہ اتنے فوائد اس عام سے ٹوٹکے کے ہو سکتے ہیں۔ اب یہی ٹوٹکہ عبقری کے لئے ارسال کر رہا ہوں اور ساتھ وہ فوٹو کاپی بھی ارسال کی پھر میں نے اپنے مریضوں کو بتانا شروع کیا ۔جس جس کو بھی بتایا اور اس نے اعتماد ‘ توجہ‘ دھیان اور خوب مستقل مزاجی سے استعمال کیا۔ خود کئی بڑے بڑے نامور ڈاکٹروں نے استعمال کیا۔ ایک ڈاکٹر کے بقول اس نسخے نے میرے دل کے والو کو کھول دیا۔ ایک پروفیسر ڈاکٹر کے بقول اس گھوٹے نے میرے گردوں کے نظام کو بحال کر دیا۔ میں عرصہ دراز سے گردوں کے فیل ہونے کے مرض میں مبتلا تھا۔ اس کے علاوہ یہ گھوٹہ جوڑوں کے درد‘ بواسیر‘ گیس بادی‘ تبخیر میں نہایت مفید پایا ۔ بس تسلی سے استعمال کریں ‘ تھوڑی محنت کر لیں ‘ زیادہ نفع پائیں۔ 

ترکیب اور فارمولہ
گلو سبز (ایک بیل جس کے پتے گول پان کی طرح ہوتے ہیں‘ رسے کی طرح درختوں اور دیواروں پر چڑھ جاتی ہے) ایک بالشت کے برابر لے کر اس کے باریک ٹکڑے کر لیں۔ کالی مرچ 21 عدد‘ اجوائن دیسی 10 گرام‘ مغز بادام 21 عدد‘ ریوند خطائی چنے کے برابر ۔ ان سب کو ½ کلو تیز گرم پانی میں رات کو بھگو دیں ۔ صبح باداموں کی سردائی کی طرح چاہیں تو مٹی کی کونڈی میں گھوٹ لیں ورنہ بلینڈر جس میں کیلے وغیرہ کا ملک شیک بناتے ہیں۔ خوب گھوٹ کر مل چھان کر اگر میٹھے کو طبیعت اور صحت اجازت دے تو ڈال کر بالکل چھوٹے چھوٹے گھونٹ پئیں۔ شیک کرتے ہوئے اگر مزید پانی کی ضرورت ہو تو ڈال سکتے ہیں۔ جن علاقوں میں تازہ گلو نہیں ملتی وہاں والے خشک گلو 2 بالشت استعمال کر سکتے ہیں۔ بہرحال فائدہ ضرورہوتا ہے۔ زیادہ فائدے کے حصول کیلئے شام کا بھگویا ہوا صبح گھوٹ کر استعمال کریں اور صبح کا بھگویا ہوا شام کو گھوٹ کر استعمال کریں ۔ اوپر جو ترکیب لکھی ہے یہ ایک وقت کے استعمال کا وزن ہے۔ آپ ایک وقت میں یہ گھوٹہ نہیں پی سکتے تو تھوڑا تھوڑا کر کے بھی سارے دن میں پی سکتے ہیں لیکن صبح نہار منہ جو پیا جائے اس کا نفع زیادہ ہے۔ گرمیوں میں تازہ گھوٹا اور سردیوں میں اس گھوٹے کو گھوٹ چھان کر نیم گرم کر لیں۔ قارئین آپ بھی اپنے تجربات استعمال کے بعد لکھیں اور اپنے تجربات اور مشاہدات لکھا کریں۔

صبح پانچ بجے



صبح پانچ بجے آپ کی آنکھ کھل گئی مگر آپ نے سوچا کہ ابھی تو گنجائش ہے، ابھی کیا جلدی ہے اور آپ اٹھ بیٹھنے کے بجائے لیٹے رہے لیکن نہ نیند آئی اور نہ آپ جاگے۔ ایک گھنٹہ اسی بے آرامی اور بے کامی میں گزر گیا۔ ایک گھنٹہ، جس میں کئی کام ہوسکتے تھے۔ جس میں عبادت سے فارغ ہو سکتے تھے، جس میں صحت کے لئے چہل قدمی کر سکتے تھے، جس میں آپ اخبار پڑھ سکتے تھے اور پھر اپنے کام کی جگہ وقت پر پہنچ کر ہلکے ذہن سے کام نمٹا سکتے تھے۔
وقت کے ضیاع کی یہ ایک مثال ہے ۔اسی طرح نا معلوم ہم کتنا وقت بے دھیانی اور نا سمجھی میں ضائع کر دیتے ہیں اور شکایت یہ کرتے ہیں کہ وقت نہیں ملتا ورنہ ہم نجانے کیا کچھ کر ڈالتے اور کہاں سے کہاں پہنچتے لیکن کام کرنیوالے، کارنامے انجام دینے والے کامیاب اور بامراد لوگ یہ شکایت نہیں کرتے۔ وہ اسی وقت میں کام کر کے کامیاب وسرخرو ہوتے ہیں۔ ان کے پاس بھی یہی چوبیس گھنٹے ہیں، جو ہم سب کے پاس ہیں لیکن وہ ان سے پورا پورا کام لیتے ہیں جب کہ زیادہ تر لوگ ان کو اسی طرح ضائع کرتے ہیں جس طرح مندرجہ بالا مثال سے اندازہ ہوتا ہے۔ صبح سستی یا گومگو میں تھوڑا سا وقت ضائع کرنا دن بھر نفسیاتی طور پر ”کمزور“ رکھتا ہے۔ وقت پر یا وقت سے چند منٹ پہلے کام شروع کر دینا یا کام کی جگہ (دفتر، دکان یا میٹنگ میں) پہنچ جانا بڑا اعتماد اور بڑی مستعدی بخشتا ہے۔
انسان کی صلاحیت کار چوبیس گھنٹے یکساں نہیں رہتی۔ چوبیس گھنٹے میں سے کچھ گھنٹے آپ کی صلاحیت کار کم ہوتی ہے اور کچھ گھنٹے ایسے ہوتے ہیں جن میں صلاحیت، مستعدی اور یکسوئی عروج پر ہوتی ہے۔ اپنے ان اوقات کار کو پہچانئے اگر آپ غور کرتے رہیں تو کچھ عرصے میں آپ کو یہ اوقات معلوم ہو جائیں گے۔ اپنے کاموں کو ان اوقات یا گھنٹوں کے اعتبار سے ترتیب دیجئے۔ نوعیت کے لحاظ سے کام کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ (1) خود کرنے یا کسی کو تفویض کرنے کا کام (2) مطالعہ (کتب، اخبارات، رودادیں، کارروائیاں، مراسلات، اشتہارات، نئی سکیمیں، مقابل اداروں کی رپورٹیں یا پروگرام وغیرہ) (3) مستقبل کے لئے دستاویزات اور ریکارڈ محفوظ کرنے کا کام۔
خود کرنے یا کسی کو تفویض کرنے کے کاموں کو اولیت دیجئے۔ میز پر ان کو سامنے رکھئے، دوسری قسم کے دونوں کاموں کے کاغذات کو الماری میں رکھئے۔ اس طرح آپ کا ذہن بار بار کاغذاتی ڈھیروں میں نہیں بھٹکے گا اور آپ یکسو ہو کر بہت سا کام تیزی سے کم وقت میں پورا کر لیں گے۔ ایک کاغذ پر دن بھر کرنے کے کاموں کی فہرست بنائیے۔ یہ چند منٹ آپکے کئی گھنٹے بچائیں گے اور ذہن پر کام کے بوجھ سے آپ کو محفوظ رکھیں گے۔ اگر فہرست زیادہ طویل نہ ہو تو ۔ جو کام سب سے اہم ہے اسے پہلے اور باقی کام اسی طرح ترجیح وار لکھ کر سامنے رکھ لیجئے۔ اگر کاموں کی تعداد بہت زیادہ ہو تو فہرست کو چند حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کو الگ کاغذ پر لکھ لیجئے۔ ان کاغذوں کو اہمیت اور عجلت کے لحاظ سے اوپر تلے رکھ لیجئے۔
تنظیم کار کے ذریعے سے آپ کم وقت میں زیادہ کام کر سکتے ہیں اور ذہنی دباﺅ اور تناﺅ سے بھی محفوظ رہ کر توانائی بچا سکتے ہیں۔ صحیح معنیٰ میں کامیاب وہ لوگ ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو بھی نبھاتے ہیں اور بڑے کارنامے انجام دینے کے ساتھ اپنی خاندانی زندگی کو بھی پورا وقت دیتے ہیں۔ ٹیلیفون اور بن بلائے ملاقاتی بھی کاموں میں خلل ڈال کر تسلسل کو توڑ دیتے ہیں اور وقت کا خاصا حصہ کھا جاتے ہیں۔ ایک طرف اخلاق آڑے آتے ہیں تو دوسری طرف اوقات کار برباد ہوتے ہیں۔ بڑی سمجھ داری اور توازن سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ممکن ہو تو ملاقاتی صاحب کو کسی اور وقت آنے کے لئے کہئے۔ آئندہ کے لئے وقت آپ ان کو بتائیں ‘ان پر نہ چھوڑیں۔ وقت اپنی سہولت کو دیکھ کر دیں ورنہ معذرت کرتے ہوئے مختصر ملاقات کیجئے اور پھر ذہن کو یکسو کر کے اپنے کاموں میں لگ جایئے۔ آپ خود بھی کسی سے وقت طے کئے بغیر ملنے نہ جایئے ۔ ایک بہت بڑے آدمی نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ اپنے کمرے کا دروازہ ادھ کھلا رکھتا تھا۔ اس میں آنے والوں کے لئے یہ پیغام تھا کہ : ”میں مصروف ہوں، لیکن اگر آپ کا کام بہت ضروری ہے تو تھوڑی دیر کے لئے آجایئے۔“ میں کبھی کبھی ایک تدبیر یہ کرتا ہوں کہ کسی صاحب کا کارڈ آئے اور ملنا بہت ضروری ہو تو خود اٹھ کر کمرے سے باہر آکر ان سے کھڑے کھڑے بات کر لیتا ہوں۔ اسی طری ہنری فورڈ کی سوانح سے میں نے ایک سبق یہ سیکھا ہے کہ کوئی چھوٹی موٹی ہدایت دینی ہو تو اپنے کسی رفیق کار کو بلانے کے بجائے خود ان کے پاس چلا جاتا ہوں۔ اس طرح ان کو آپ کے پاس زیادہ بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اکثر خواتین شکایت کرتی ہیں کہ جس دن ان کے مرد گھر پر ہوتے ہیں وہ اپنے معمول کے کام انجام نہیں دے سکتیں، اکثر مرد اس کو نہیں سمجھتے اور نہیں مانتے۔ ان کے خیال میں انہوں نے تو اپنی خاتون سے کوئی خاص کام نہیں لیا لیکن واقعہ یہ ہے کہ معمولی کاموں مثلاً چائے پانی وغیرہ دینے سے ہی خواتین کے کاموں میں خاصا خلل پڑ جاتا ہے، جس کا اندازہ صرف ان کو ہی ہوتا ہے۔ جس وقت آپ بہت ضروری کام کر رہے ہوں تو فون کا رسیور اٹھا کر نیچے رکھ دیجئے یا اپنے کسی معاون کے پاس رکھ دیجئے کہ وہ نام اور فون نمبر نوٹ کر کے آپ کو دیدیں بعد میں آپ جوابی کال کر سکتے ہیں۔ فون پرگفتگو کو مختصر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اس طرح کے جملے کہیں ”اچھا تو فون بند کرنے سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ ....“ یا یہ کہ ”بہتر ہے شکریہ، یہ بات طے ہو گئی۔“ کسی سے ملنے جائیں تو احتیاطاً پڑھنے کی کوئی چیز ضرور ہاتھ میں رکھ لیں ۔مسلسل کام سے آدمی تھک جاتا ہے اور رفتار کافی کم ہو جاتی ہے، اس لئے وقفہ ضروری ہے دن کے بیچ میں چند منٹ کا قیلولہ انجن میں تازہ ایندھن کا کام کرتا ہے۔ قیلولے کی روایت قدیم ہے لیکن جدید سائنس نے بھی صحت وراحت کے لئے قیلولے (Siesta) کی اہمیت تسلیم کی ہے۔دن کی چند منٹ کی نیند رات کی گھنٹوں کی نیند کے برابر سکون وراحت دیتی ہے اور صحت کے لئے بہت مفید ہے لیکن اس سے رات کی نیند کی اہمیت کوکم نہیں سمجھنا چاہئے۔ کام کے دوران بعض دوسرے کام یاد آجاتے ہیں اور ذہن کی یکسوئی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے میں یہ کرتا ہوں کہ وہ کام جو یکایک یاد آیا ہو ایک چٹ پر اشارتاً لکھ کر رکھ لیتا ہوں۔ اس طرح پریشان خیالی ختم ہو جاتی ہے، ذہن یکسو ہو جاتا ہے۔ کسی کام کے لئے وقت نہ ملتا ہو تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ صبح سے ہر گھنٹے میں سے 5منٹ نکالئے۔یہ سمجھ لیجئے کہ اس دن ہر گھنٹہ 55منٹ کا ہے اور جو کام گھنٹہ بھر میں کرنا ہے اسے 55منٹ میں پورا کیجئے یعنی اس دن کے بارہ گھنٹے گویا تیرہ گھنٹے بن گئے۔ وقت بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مختلف بل جمع کرانے کے لئے آخری تاریخ کا انتظار نہ کیجئے، کیوں کہ آخری تاریخوں میں بل جمع کرانے والوں کی قطار لمبی ہو جاتی ہے، اس لئے چند دن پہلے ہی بل ادا کر کے وقت اور توانائی بچایئے۔ وقت اس طرح بہتا ہے کہ جس طرح چھلنی میں سے پانی، اس لئے وقت کے معاملے میں مسلسل چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم منٹوں کے حساب سے بے پروائی بانٹتے رہے یا بے مقصد صرف کرتے رہے تو گھنٹے نہیں دن، سال بلکہ زندگی کھپ جائے گی۔ منٹوں کی قدر کیجئے گھنٹے، دن اور سال خود محفوظ ہو جائیں گے۔


صحت کو برقرار رکھنے کیلئے یوں تو ہر موسم میں مختلف اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہمارے پیش نظر چونکہ موسم سرما ہے اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ خواتین کن اصولوں کو اپنا کر اپنی صحت بحال رکھ سکتی ہیں۔ سردیوں کی سب سے زیادہ پیش آنے والی بیماری نزلہ اور زکام ہے جو ذرا سی حرارت میں تبدیلی کے باعث لاحق ہو سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حرارت میں تبدیلی سے بچاجائے۔ سردیوں میں دھند کی وجہ سے فضا نم آلودہو جاتی ہے اور خواتین صبح سویرے گھریلو کام کیلئے حفاظتی تدابیر کے بغیر ہی دن کا آغاز کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ دھویں اور گرد کے ذرات بھی ہوا کو پراگندہ کرتے ہیں اور اس فضاءمیں بچے بھی سانس لیتے ہیں۔ باورچی خانوں اور دوسرے کمروں میں باریک جالیوں کا مناسب انتظام بہرحال کرنا چاہیے۔ سردیوں میں عموماً کمروں کا درجہ حرارت کھلی فضاءکی نسبت بہتر ہوتا ہے جبکہ کمروں سے باہر سردی زیادہ ہوتی ہے۔ سردیوں میں جب خواتین بے احتیاطی سے اپنے کمروں سے باہر نکلتی ہیں تو باہر دو فضاﺅں میں نا مناسب فرق کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں جس میں سر درد ‘جوڑوں کا درد اور نزلہ زکام وغیرہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ پھیپھڑے اس فوری تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں جس سے سانس کی بیماری پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں نمونیہ کی شکایت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ دمہ کے مریضوں کا مرض شدت اختیار کر سکتا ہے۔ بچوں کو صبح سکول کی تیاری کے سلسلے میں بے احتیاطی کی جاتی ہے۔ بچے بستر سے نکلتے ہی باتھ روم میں گھس جاتے ہیں یا بغیر جوتوں اور جرابوں کے چلتے پھرتے ہیں یا پھر انہیں نہلا کر فوری تولیے سے خشک کر کے مناسب لباس نہیں پہنایا جاتا۔شہروں میں خواتین بجلی‘ گیس کے ہیٹروں اور دیہاتوں میں کوئلوں کی انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر کام کاج کرتی ہیں سوئیٹر بُنتی ہیں‘ سبزیاں بناتی ہیں‘ پھر اچانک کسی ضروری کام کے یاد آنے پر درجہ حرارت کی پروا کئے بغیر کھلی فضا میں چلی جاتی ہیں جو صحت کیلئے بے حد مضر ہے یا پھر ننگے پاﺅں گھریلو کام کاج میں لگ جاتی ہیں۔ شال یا سوئیٹر استعمال نہیں کرتی ہیں‘ جس سے ہوا لگ سکتی ہے۔ نامکمل گرم لباس (خواہ آپ کو سردی نہ لگ رہی ہو) آپ کو بیمار کر سکتا ہے۔ جن خواتین کو شدید سردیوں میں بھی گرمی کا احساس ہوتا ہے انہیں اپنا بلڈ پریشر چیک کروانا چاہیے اور بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی صورت میں علاج کروانا ضروری ہے۔
جسمانی صحت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہمیں نامناسب غذاﺅں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے ۔یہ محض مفروضہ ہے کہ چائے اور کافی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بعض خواتین میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ موسم سرما میں گرم تاثیر والی خوراک کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے ‘یہ بات کسی حد تک تو درست ہو سکتی ہے مگر ہر چیز کو اعتدال میں ہی رکھ کر استعمال کرنا صحت کیلئے مفید ہے۔ سردیوں میں اچار سے خاص طور پر پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اچار اور کھٹی چیزیں گلے کی رگوں کو پکڑ لیتی ہیں اور بیمار ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ سبزیوں اور دالوں میں حیاتین کی مقدار کافی ہوتی ہے ‘اس کا زیادہ استعمال صحت کیلئے مفید ہے۔ بعض خواتین اپنے بچوں کو نہلانے اور خود بھی نہانے سے گھبراتی ہیں اور تین چار دن کے بعد صرف سر دھو کر کام چلا لیتی ہیں یہ طریقہ بھی صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سر تو گیلا ہو جاتا ہے جب کہ جسم کا باقی حصہ نم آلود نہیں ہوتا اس تفریق سے جسم کی حرارت یکساں نہیں رہتی۔ صفائی ستھرائی تو ہر موسم میں صحت کیلئے مفید ہے کہ سر دھونے کی بجائے ہفتے میں کم از کم دو تین بار ضرور نہا لیا جائے ۔حالانکہ ماہرین سردیوں میں بھی روزانہ دوپہر کے وقت نہانے کو صحت کی علامت قرار دیتے ہیں۔
بعض خواتین مختلف بیماریوں خصوصاً درد وغیرہ اور نزلہ زکام کا علاج گھر پر ہی کر لیتی ہیں۔ سر درد‘ بخار‘ نزلہ‘ زکام میں عام فروخت ہونے والی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ بھی مناسب نہیں ہے ۔نمونیہ یا اس جیسے دوسرے امراض جو سردی کے موسم میں وباءکی صورت میں پھوٹ سکتے ہیں ‘سے بچنے کیلئے حیاتین (وٹامن) کا استعمال کرتے رہنا مفید ہے۔ تاہم بیماری کی شدت کی صورت میں اپنے معالج کے مشورے کے بغیر کوئی بھی دوائی استعمال کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات گھریلو علاج بیماریوںمیں طوالت پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر گھر پر علاج ضروری کرنا ہے تو نزلہ زکام کیلئے جوشاندہ ہر لحاظ سے فائدہ پہنچاتا ہے اور اس کے کوئی ما بعد اثرات بھی نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ زیتون بہت محفوظ اور صحت بخش غذا ہے ۔اس میں بہت مقوی اجزا ءپائے جاتے ہیں۔ عربوں کے بہت سے کھانوں میں زیتون کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا تیل سلاد اور چٹنیوں میں بھی ڈالتے ہیں جو انہیں خوشبودار بنا دیتا ہے اور ذائقہ بھی دوبالا کر دیتا ہے ۔جبکہ ہمارے ہاں اسے صرف مالش کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ سردیوں میں انڈوں کا استعمال بڑھا دیتے ہیں یا بعض انڈے کا استعمال بالکل نہیں کرتے۔ ایک لاکھ افراد پر ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ روزانہ ایک انڈہ صحت کیلئے نہایت مفید ہے۔بہر حال حد سے زیادہ انڈوں کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ زیادہ سبزیاں یا صرف دالیں استعمال کرنا اور گوشت کا استعمال تر ک کر دینا بھی نقصان دہ ہے۔ انسان فطری طور پر گوشت کھانا پسند کرتا ہے۔ اس طرح سنگتروں‘ مالٹوں کا استعمال بھی اس موسم میں مفید ہے۔ کینیڈا اور برطانیہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق ماہرین نے بتایا کہ اورنج جوس جسم میں ایچ ڈی ایل کوبڑھاتا ہے جو کہ انسان کیلئے مفید ہے۔ خاص طور پر دل کے مریضوں کیلئے تو بہت مفید ہے۔ جسم میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو کنٹرول بھی کرتا ہے۔ بعض لوگ سردیوں میں وٹامنز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامنز کی بہت زیادہ مقدار استعمال کرنے سے صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ وٹامنز کی گولیوں کے استعمال میں کمی لائیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزانہ جتنے وٹامنز کی ضرورت ہوتی ہے صحت مند افراد کو اپنی روزمرہ غذا میں اتنے وٹامنز مل جاتے ہیں ۔ لوگوں کو روزانہ ایسی چیزیں کھانی چاہئیں جن میں قدرتی طور پر وٹامن کی کافی مقدار ہو۔
وٹامن سی سنگترہ‘ مالٹا‘ آلو‘ سٹرابری اور سبزپتوں والی ترکاریوں میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ البتہ بیمار لوگوں کو اپنے معالج کے مشورے سے وٹامنز کی گولیاں استعمال کرنی چائیں یا پھر کمزور افراد کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ روزانہ دو ہزار ملی گرام سے زیادہ وٹامن نہیں لینا چاہیے کیونکہ بہت زیادہ وٹامن سی اسہال کا سبب بن سکتا ہے۔ لوگوں کو وٹامن ای کیلئے مناسب مقدار میں مونگ پھلی ‘ بادام اور خشک میوہ جات استعمال کرنے چاہئیں لیکن گولیوں کی صورت میں وٹامن ای روزانہ ایک ہزار ملی گرام سے زائد نہیںلینا چاہیے۔ گولیوں کی صورت میں بہت زیادہ وٹامن ای لینے سے جسم کے اندر زائد خون بننے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ بعض لوگ سردیوں میں پانی کا استعمال بہت کم کر دیتے ہیں۔ بہت کم افراد کو یہ علم ہوتا ہے کہ جسم پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے ۔پیاس میں انسان کی ذہنی کارکردگی متاثر ہوتی ہے‘ اس لئے سردیوں میں پانی کا استعمال کم یا ترک کر کے خود کو نت نئی بیماریوں سے بچانا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ پانی کے کم استعمال سے خون کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں اور دل کو جسم میں خون پہنچانے کیلئے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اس لئے سردیوںمیں مناسب مقدار میں پانی کااستعمال آپ کی اچھی صحت کیلئے ضروری ہے۔ خاص طور پر جوڑوں کے درد اور بلڈ پریشر کے مریض پانی کا استعمال ترک نہ کریں۔

دوسروں میں دلچسپی لیتے رہئے


دوسروں میں دلچسپی لیتے رہئے
لوگوں سے محبت کریں‘ آپ کو محبت ملے گی۔نفسیاتی علاج میں یہ سبق دوائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے آپ پر جتنی توجہ مرکوز کریں گے‘ آپ نفسیاتی لحاظ سے اتنے ہی مریض ہوتے جائیں گے۔ ہر کسی سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آپ ہی کی خوشنودی اور آپ ہی کے مفاد کو اولیت دے‘ بلکہ ایسا رویہ اختیار کر لیں جیسے آپ دوسروں کے مسئلے حل کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔

اپنی مزاجی کیفیت تبدیل کیجئے
اگر آپ اپنی قوت ارادی کی کمزوری کی بناءپر پریشان ہیں تو اس کے واسطے اپنے انداز میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ محض خواہشات کر لینے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔خواہش کی بناءپر سمجھ بوجھ کی طاقت پیدا نہیں ہوتی۔ بہ الفاظ دیگر خواہش بغیر عمل کے بالکل بیکار شے ہے۔

اٹھئے ہمت سے کام لیجئے
اچانک یہ اعلان ہرگز نہ کر دیجئے کہ بس آج سے مجھے کبھی غصہ نہ آئے گا یا میں طیش میں آکر کبھی بھی کچھ نہیں کہوں گا۔ اس کے بجائے اپنے دل میں اپنے آپ سے کچھ طے کر لیجئے کہ اگلے روز اگر مشکلات در پیش ہوں گی تو میں پرسکون رہوں گا۔ اس کے بعد اگلے روز اس فیصلے پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے اور اس عزم کو پھر دہرائیے۔

آج کا کام کل پر نہ چھوڑئیے
یہ تو عموماً بہت آسان کام ہے کہ پچاس سگریٹیں پینے کے بعد اداسی سے یہ کہہ دیا کہ بس اب آئندہ سگریٹ نہ پیوں گا۔ آپ نے دیکھا کہ یہاں سگریٹ چھوڑنے کا صحیح معنوں میں کوئی ارادہ نہیں۔ ارادہ تو اس وقت صحیح مانا جائے گا جب آدمی کل سے بھی کم سگریٹ پینے کا تہیہ کرے۔ اس سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہاںیہ واقعی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کوئی کام بہت مشکل ہے تو اسے رفتہ رفتہ چھوڑنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔

زندگی کو اس طور سے مرتب کیجئے کہ قوتِ ارادی کو مدد ملے
جب آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کا اصل مقصد کیا ہے تو پھر جہاںتک ہو سکے اپنی زندگی کو اس طرح مرتب کیجئے کہ آپ کا مقصد حاصل ہو جائے اگر آپ اپنی کسی کمزوری پر قابو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ترغیب و تحریص کی تمام چیزوں سے حتی الامکان دور ہی رہئے۔

نوجوانوں کے جنسی روگ کیوں بڑھے



نوجوانوں کے جنسی روگ کیوں بڑھے

نوجوانوں کے جنسی مسائل روز افزوں ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان جس مسئلے سے دو چار ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان نفسیاتی اعتبار سے جس عمر میں جنسی صلاحیتوں کو روبہ کار لانے کے اہل ہو جاتے ہیں وہ صلاحیتیں اس عمر سے خاصی مختلف ہوتی ہیں جو ثقافتی اعتبار سے انہیں اس کی اجازت دیتی ہیں۔ جس عمر میں ان سے ان افعال کی توقع کی جاتی ہے۔ 
دوسری جانب یہ بھی امر واقعہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے آج کل نوجوان سنِ بلوغ کو جلد پہنچ رہے ہیں۔ مثلاً صنعتی ملکوں کی لڑکیاں عموماً تیرھویں سال میں بالغ ہو جاتی ہیں‘ جبکہ ان کی مائیں 14 سال میں اور نانیاں اور دادیاں 15 سال میں بالغ ہوتی تھیں۔ یہی کچھ حال ترقی پذیر ملکوں کا ہے کیونکہ یہاں بھی بہتر اقتصادی حالات انہیں جلد بالغ کر دیتے ہیں۔
اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے اکثر حصوں میں عورتیں زیادہ عرصہ تعلیم پر صرف کرنے کے بعد بڑی عمر میں رشتہ ازدواج میں بندھتی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ آج بھی بعض ترقی پذیر ملکوں میں 14 اور 15 سالہ دلہنیں بہت عام ہیں۔
نیپال کی دو تہائی لڑکیاں اسی عمر میں بیاہی جاتی ہیں۔ تاہم عام طور پر تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے عورتوں کی شادی دیر سے ہونے لگی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان مجبوریوں کی وجہ سے لوگوں کو اپنی شادیاں کم از کم تین سال تک برف خانے میں رکھنی پڑتی ہیں۔ یہ صورتحال خاص طور پر ان معاشروں میں زیادہ عام ہے‘ جہاں تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
ان تمام اسباب اور وجوہ کے باوجود نوجوانی کے جنسی تقاضے آسانی سے قابو میں نہیں آتے۔ صنعتی اور ترقی پذیر ملکوں میں جنسی اختلاط کی عمر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں بالکل ٹھیک اور قطعی معلومات کا حصول مشکل ہے کیونکہ لوگ بالعموم اپنے اصل کردار کی پردہ پوشی کرتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں جنسی سرگرمیاں بڑی کم عمری میں شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً امریکہ میں 1971ءمیں پندرہ سال کی عمر میں جنسی اختلاط کا اعتراف کرنے والوں کی تعداد 27 فیصد تھی۔ 1976 تک یہ تعداد بڑھ کر 35 فیصد ہو گئی۔ یہی کچھ حال یورپی ممالک کا ہے۔ یورپ کے 9 ملکوں نے عالمی ادارہ صحت کو بتایا ہے کہ وہاں اولین جنسی ملاپ کی عمر سال بہ سال گھٹتی جا رہی ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں سے جومعلومات مل رہی ہیں وہ اگرچہ زیادہ جامع قسم کی نہیں ‘ لیکن ان سے بھی اسی بات کی توثیق ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے انتہائی دور واقع ملکوں روس‘ چلی فلپائن میں بھی جنسی سرگرمیاں ابتدائی عمر ہی میں شروع ہو رہی ہیں۔ 
صرف بعض معاشروں میں والدین اپنے بچوں کو جنسی معلومات فراہم کرتے ہیں لیکن بیشتر معاشروں میں اس موضوع کی حیثیت شجرِ ممنوعہ کی ہوتی ہے۔ والدین کو اس سلسلے میں اپنے بچوں کو معلومات فراہم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ بقول عالمی ادارہ صحت کے نوجوانوں میں جنسیات کے بارے میں لا علمی عام ہے۔ 
مثلاً کئی روایات پرست ملکوں میں جنسی تعلیم ممنوع ہے ۔جن ملکوںمیں اس کی اجازت ہے وہاں اس کی نوعیت ” سوئی میں دھاگا“ پرونے کی ترکیب بتانے کی سی ہوتی ہے۔ یعنی انہیں جنسی افعال اور تولیدی طریقوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اس قسم کی تعلیم علم حیاتیان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے ذاتی یا شخصی تعلق کے سلسلے میں مدد نہیں ملتی۔اس پر مزید ستم یہ ہوتا ہے کہ مختلف ذرائع ابلاغ بچوں کو جنسی بھول بھلیوں میں کھو جانے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔
اگر جنس کے بارے میں اسلام کا نظریہ اور مخصوص معلومات فراہم کی جائیں تو اس سے نوجوانوں میں جنسی وظائف کے بارے میں حقیقی شعور بیدار ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اوائل شب میں جنسی سرگرمیوں کے بڑے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بعض اوقات ولادت کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسقاطِ حمل کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور جنسی امراض پھیلنے لگتے ہیں۔ یہ تمام باتیں نتیجہ ہوتی ہیں لا علمی کا ۔اب جنسی متعدی امراض ہی کو لیجئے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سو زاک اور آتشک جیسے جنسی امراض نوجوانوں کا ایک اہم مسئلہ ہیں۔ یہ امراض خاص طور پر ان شہری علاقوں میں بہت عام ہیں جہاں معاشرتی یا سماجی تبدیلیاں بڑی تیزی سے جاری رہتی ہیں۔ شادیاں دیر سے ہوتی ہیں اور شادی سے قبل جنسی اختلاط پر روایتی پابندیاں برخاست ہو جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سوزاک کے دو تہائی مریض 25 سال سے کم عمر کے ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ اس کے باوجود افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایسے نوجوان علاج سے محروم رہتے ہیں کیونکہ یا تو انہیں اس کی سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں یا پھر وہ محض اپنے مرض سے قعطاً لا علم ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں ایسے مرےضوں کی اکثریت علاج سے محروم رہے گی اور ان میں سے اکثر مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تمام متعدی جنسی امراض جن کا علاج نہیں کروایا جاتا ‘انتہائی سنگین ہوتے ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ سوزاک کی 20 سے 21 فیصد مریض ایسی خواتین جن کا علاج نہیں کروایا جاتا ‘ بیض نالی کے ورم میں مبتلا ہو جاتی ہیں جس سے شدید قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے حمل قرار پا کر چھٹے ہفتے میں اس ٹیوب کو پھاڑ دیتا ہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ بیض نالی میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عورت بانجھ ہو جاتی ہے۔ 
ان امراض کے علاوہ کم عمر ماﺅں میں استقرارِ حمل اور ولادت اس صورتحال کا دوسرا خطرناک پہلو ہے۔ پندرہ سے انیس سال کی نو عمر ماں وضعِ حمل کے دوران مر سکتی ہے۔ اسی طرح 20سال سے کم عمر میں ماں بننے والوں کے بچے 20 سے 29 سال کی ماں کے بچوں کے مقابلے میں شیر خوارگی کی عمر میں زیادہ مر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال بنگلہ دیش ‘ ملائشیا اور تھائی لینڈ میں خاصی عام ہے۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ حمل اور زچگی کی پیچیدگیاں اور بچوں کے وزن کی کمی ہے۔
روایت پرست معاشروں میں نو عمری میں بیاہی جانے والی ماﺅں کو اگرچہ طبی خطرات کا سامنا ہوتا ہے تاہم انہیں اپنے بڑے بوڑھوں کے مشورے اور سرپرستی حاصل رہتی ہے لیکن آج کے دور میں یہ سرپرستی ‘ ہدایت اور رعایت تیزی سے رخصت ہو رہی ہے اور جنہیں یہ مدد درکار ہے وہ اس سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسقاط حمل کی وجہ سے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
آج کے نوجوانوں کو کسی جواز کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ معلومات اور اپنی ضروریات کے مطابق صحیح معلومات کے محتاج ہیں‘ ہمارے معاشروں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کوملحوظ رکھیں کہ ہمارے نوجوان لا علمی اور ضروری رہنمائی کے فقدان کی وجہ سے جنسی مسائل کے خار زار میں بھٹکنے کیلئے نہ چھوڑ دیئے جائیں۔ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ اس میں حقائق کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت موجود ہو۔


شعور کو کنٹرول کریں، پرسکون زندگی گزاریں


چھینکیں ‘ کھانسی اور ابکائیاں انسانی صحت کو رواں رکھنے کیلئے ہیں۔ مثلاً چھینکیں بے قابو ذہن کو قابو میں لے آتی ہیں۔ کھانسی یا ابکائیاں دل کی گھٹن‘ انتشار یا بوجھ کو ختم کرتی ہیں۔ اگر کسی کی ذہنی صحت ابنارمل خیالات کی وجہ سے متاثر ہو جائے اور چھینکوں کا نظام بھٹک جائے یا رک جائے تو اسے واپس راہ راست پر لانے کا طریقہ یکسوئی سے تکرار کی مشق اور مطالعہ ہے ‘ تکرار کی مشق اور مطالعہ آپ کی بھٹکی ہوئی چھینکوں کو واپس لے آئے گا اورآپ کی ذہنی صحت کو نارمل کر دے گا۔ اسی طرح تکرار کی مشق سے آپ کو کھانسی یا ابکائیاں آ سکتی ہیں جو آپ کے دلی انتشار یا گھٹن یابوجھ کو ختم کر دیںگی اور آپ کے دل کو سکون مل جائے گا۔
یہ دونوں چیزیں آپ کا ذہنی اور دلی سکون برقرار رکھنے کیلئے ہیں۔ جب کسی نفسیاتی مریض کی ذہنی صحت خراب ہوتی ہے تو اسے پتہ نہیں چلتا لیکن یہ کیفیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب دلی انتشار یا گھٹن‘ بوجھ عروج پر ہوتا ہے، ان برے حالات سے نکلنے کیلئے تکرار کی مشق کے ساتھ مطالعہ کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔ جبکہ نارمل ہونے کے لئے تکرار کی مشق اکیلے ہی کافی ہے۔ اس طریقہ کار سے آپ کو چھینکوں، ابکائیوں اور چکر کی صورت میںنتیجہ ملے گا۔ اور بالآخر آپ نارمل حالت میں آجائینگے۔ آپ کو چکر بھی آسکتے ہیں ۔ چکر آنے سے آپ کی نیند بحال ہو جائے گی۔
یہاں میں کچھ ایسی چیزوں کا بھی ذکر کرنا چاہوں گی جو انسان پر بڑی گراں گزرتی ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی اپنے مسائل میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کے خیالات نے سوچنے والی لہروں کو متاثر کیا ہے یا اس کی نیند کی لہروں کو متاثر کیا ہے ۔ نیند کی لہر متاثر ہونے کا مطلب ہے نیند کا نظام خراب ہوا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ نیند کے نظام میں خواب کا نظام بھی ہوتا ہے۔ یہ نظام بھی خراب ہو کر آپ کو کشمکش میں ڈال دیتے ہیں کیونکہ آپ کو سونے پر عجیب و غریب نیند کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ جسم میں دو چھپے ہوئے نظام ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت اپنا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ہے جھرجھری لینا‘ یا ہاتھ پاﺅں کا سن ہو جانا۔ یہ نظام بھی خراب نیند کے نظام میں بیدار ہو سکتے ہیں۔ خواب کی خراب مشین میں یہ دونوں نظام اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور انسان جادو جنات کا گمان کرنے لگتا ہے۔ آنکھیں بند ہونے کے ساتھ ہی عجیب و غریب حالت محسوس کرنا اور ساتھ ہی اوٹ پٹانگ سے خواب دیکھنا، بدن میں جھر جھری کا نظام بیدار ہو جانا یا بار بار حرکت میں آنا‘ یا سن ہونے والے نظام حرکت میں آجانا۔ ( جس میں سن حصے میں چیونٹیاں محسوس ہوتی ہیں) مریض یہ سب کچھ مکمل طور پر محسوس کرتا ہے اور خود سے ڈر جاتا ہے۔ تکرار کی مشق سے یکسوئی کی بدولت چھینکیں آنے سے خواب کا نظام جہاں ٹھیک ہو گا وہاں نیند بھی بحال ہو جائے گی۔ خراب نیند کا نظام بحال ہونے کے دوران آپ پیشانی میں تبدیلی یعنی لہروں کی تبدیلی یا چکر آنا صاف محسوس کریں گے ‘ ابکائیاں بھی آسکتی ہیں۔ تکرار کی مشق لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ،یہ کلمہ آپ نے بار بار توجہ سے پڑھنا ہے۔ جس کے نتیجے میں ابکائیاں یا چھینکیں آئیں گی‘ ہر حال میں نیند بحال ہونے تک پڑھنا ہے۔ جتنی بھی چھینکیں،ابکائیاں یا چکر آئیں ‘ مکمل ٹھیک ہونے کی نشانی فطری نیند بحال ہونا ہے۔ غیر مسلم ایک سے آٹھ تک گنتی بار بار یکسوئی سے ٹھیک ہونے تک زبان سے الفاظ ادا کریں۔ یاد رکھیں کہ دائیں کروٹ لیٹنا ہے۔ سیدھا لیٹنے یا بائیں کروٹ لیٹنے پر چکر کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ لہٰذا دائیں کروٹ لیٹنا نہ بھولئے ۔ تکرار سے جتنے بھی چکر آئیں‘ یہ آپ کو ٹھیک کرنے کیلئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پر سکون رہنے والی تکرار کی مشق کے ساتھ آپ دینی تعلیمات سے سکون حاصل کرنے کی کوشش اور تربیت بھی حاصل کریں۔ ایک اور چیز پر غور کریں کہ چکر کس لئے آ رہے ہوں کہ کوئی خوشی کی خبر ملی ہے یا پریشانی کی خبر کی بناءپر چکر آ رہے ہیں، ثواب کے کام پر یا گناہ کے کام پر آ رہے ہیں۔ دل و ذہن میں یہ الفاظ دہرائیے کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے ‘درخت کا پتا بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ نماز پڑھیں‘ استغفار کریں‘ ذکرو اذکار کریں اور اللہ سے خیروعافیت کی دعا مانگتے رہیے۔ دعا وہ ہتھیار ہے جسے دے کر انسان کو دنیا میں بھیجا گیا کہ مصائب کا مقابلہ دعا کے ہتھیار سے کرو۔ آپ اس ہتھیار کی بدولت اپنی قسمت تبدیل کریں‘ ٹھیک ہونے کے مراحل میں آپ کو الرجی بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی ناک یا آنکھوں سے پانی بہنا یا چھینکیں آنا۔ یہ تبدیلیاں نظام تنفس کو بھی ٹھیک کر رہی ہوتی ہیں۔ نظام تنفس کا نیند سے تعلق جڑا ہے ۔ آپ اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے ساتھ پرسکون رہنے والی مشقوں سے اپنے شعور کو کنٹرول کریں اور پر سکون زندگی گزاریں‘ تکرار کی مشق در اصل پر سکون ہونے کی مشق ہے۔

کتے میں دس بڑی بڑی خصلتیں


حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کتے میں دس بڑی بڑی خصلتیں موجود ہیں۔
1۔ و ہ بھوکا رہتا ہے، یہ آداب صالحین میں سے ہے۔
2۔تھوڑی چیز پر قناعت کرتا ہے، یہ علامت صابرین میں سے ہے۔
3۔ اس کا کوئی مکان نہیں ہوتا یہ علامت متوکلین میں سے ہے۔
4۔ وہ رات کو بہت کم سوتا ہے، یہ صفت شب بیداراں اور علامت محسنین میں سے ہے۔
5 ۔ جب مرتا ہے تو کوئی میراث نہیں چھوڑتا، یہ صفت زاھدین میں سے ہے۔
6۔ یہ اپنے مالک کو نہیں چھوڑتا اگرچہ وہ اس پر جفا کرے، اس کو مارے ۔ یہ صفت مریدین صادقین میں سے ہے۔
7۔ ادنیٰ جگہ پر راضی رہتا ہے، یہ علامت متواصفین میں سے ہے۔
8۔ اس کی رہائش پر کوئی غالب ہو جاتا ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے اور دوسری جگہ چلا جاتا ہے، یہ علامت راضین میں سے ہے۔
9۔ اس کو ماریں، پھر ٹکرا ڈالیں تو فوراً آجاتا ہے یعنی مار کا کینہ نہیں رکھتا، یہ علامت خاشعین میں سے ہے۔
10۔ کھانا سامنے رکھا ہوتا ہے، دور بیٹھا ہوا تکتا ہے، یہ علامت مساکین میں سے ہے اور جب کسی مکان سے کوچ کر جاتا ہے تو پھر اس کی طرف التفات نہیں کرتا یہ علامت مخرونین سے ہے۔
محتر م قارئین! کتا اگرچہ نجس العین جانور ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے جن عظیم خصلتوں سے مالا مال کیا ہے اگر یہ خصلتیں کوئی انسان ،کوئی معاشرہ، کوئی سوسائٹی اختیار کرے تو اخلاق سے گرا ہوا انسان، بااخلاق اور گندے ماحول سے بھرپور معاشرہ اور سوسائٹی ایک قابل رشک ہمدرد اور لائق تحسین معاشرہ اور سوسائٹی کی شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ ملک عزیز میں بد امنی اور خراب حالات ان عظیم خصلتوں کو چھوڑنے کی وجہ سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جسمانی ‘ روحانی امراض سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

خود اعتمادی کے حصول کے دس طریقے


آپ خود اعتمادی حاصل کرنے کیلئے کیا کچھ کر سکتے ہیں ذیل میں دس ایسے طریقے درج کئے جارہے ہیں جن پر خلوص نیت سے عمل کرنے سے خود اعتمادی اور یقین حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کئی لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے اور نتائج بڑے خوشگوار برآمد ہوئے ہیں۔
(1)آپ اپنے ذہن اور خیالات کے آئینے میں اپنے آپ کو ہمیشہ ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے دیکھیں۔ اس تصویر کو کبھی اوجھل نہ ہونے دیں۔ کبھی اپنی ناکامی کے بارے میں کوئی خیال اپنے ذہن میں نہ لائیں۔ اپنی ذاتی تصویر کی حقیقت پر کبھی شبہ نہ کریں۔ ورنہ یہ چیز آپ کیلئے بڑی خطرناک ثابت ہو گی۔ لہٰذا آپ ہمیشہ خود کو ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے دیکھیں‘ خواہ حالات کتنے ہی غیر موافق کیوں نہ ہوں۔(2)جب کبھی آپ کی صلاحیتوں سے متعلق کوئی تخریبی خیال آپ کے دماغ میں آئے تو فوراً اس کی مقابلے میں ایک تعمیری خیال لا کر اسے ذہن سے ختم کر دیں۔(3)خیالوں ہی خیالوں میں مت سوچیں کہ فلاں کام کرنے کے راستے میں یہ دشواریاں ہوں گی۔ ان خیالی دشواریوں سے بچیں۔ اصلی دشواریوں کا بغور مطالعہ کریں اور ان پر قابو پانے کی کوشش کریں۔(4) دوسرے لوگوں کے غم سے زیادہ متاثر نہ ہوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش مت کریں۔ یاد رکھیں کہ بعض لوگ بظاہر تو خود کو پُر اعتماد ظاہر کرتے ہیں مگر اندر سے ان کی وہی حالت ہوتی ہے جو آپ کی ہے۔(5)دن میں دس مرتبہ یہ ہمہ گیر الفاظ ضرور دہرائیں کہ اگر رب کریم ہمارے ساتھ ہے تو پھر کون ہمارے خلاف ہو سکتا ہے۔ (6) اپنے اندر احساس کمتری اور خود اعتمادی کے فقدان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ چیزیں اکثر اوقات بچپن میں انسان کے ذہن پر سوار ہو جاتی ہیں۔ اپنے آپ کو پہچاننے سے بہت سی تکالیف کا علاج خود بخود ہو جاتا ہے۔(7) اگر ہو سکے تو اونچی آواز میں ان الفاظ کو ہر روز دن میں دس بار دہرائیں کہ میں اللہ کی مدد سے ہر کام کر سکتا ہوں۔(8) اپنی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کریں پھر انہیں دس فیصد بڑھا دیں ۔ خود پسند بننے کی کوشش مت کریں بلکہ اپنی عزت کرنا سیکھیں۔ (9)خود کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیں۔ پھر یقین کر لیں کہ اب وہ آپ کے اندر کی تعمیری قوتوں کا محرک بن رہا ہے۔(10)اپنے آپ کو ہر وقت یہ یاد دلاتے رہیں کہ اللہ کی ذات آپ کے ساتھ ہے لہٰذا دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔ جائیے اب خود اعتمادی کا ہتھیار آپ کے ساتھ ہے۔ آپ زندگی کے کسی میدان میں کبھی ناکا م نہیں رہیں گے۔ خود اعتماد ی ہی وہ خوبی ہے جو آپ کو پُر وقار بنائے گی۔

حسن و صحت پانے کے خواہشمند


1۔ اگر چہرہ جھلس گیا ہو تو اس پر ٹماٹر کا رس ملئے ‘ اس کیلئے ٹماٹر کو دو حصوں میں کاٹیں اور چہرے پر ملیں‘ پانچ منٹ لگا رہنے دیں پھر دھولیں اور سرسوں کا تیل چہرے پر لگا کر فوراً ہی روئی سے صاف کر لیں‘ چند بار کرنے سے چہرہ ٹھیک ہو جاتا ہے ۔
2۔ کچھ لڑکیوں کے چہرے پر بہت زیادہ باریک بال ہوتے ہیں۔ جس سے چہرہ بد نما لگتا ہے۔ اس کیلئے بہت ہی مفید ٹوٹکہ ہے کہ ایک خوبانی کچل کر اس میں چائے کا ایک چمچ شہد ملا کر پیسٹ بنائیں اور چہرے پر لگا کر پندرہ منٹ بعد دھولیں۔ یہ عمل ہفتے میں تین مرتبہ کریں۔ خوبانیوں کا موسم ہو تو ٹھیک ورنہ خشک خوبانی لیکر رات پانی میں بھگو دیں۔ صبح تک وہ نرم ہو جائے گی تو استعمال کریں۔ کچھ عرصہ تک استعمال کرنے سے باریک بال ختم ہو جاتے ہیں اور چہرہ شاداب ہو جاتا ہے۔
3۔ بعض لڑکیوں کو گورے ہونے کا شوق ہوتا ہے اور وہ رنگ برنگی کریمیں استعمال کرتی ہیں جو صرف وقتی طور پر فائدہ دیتی ہیں۔ ان کریموں کی بجائے آپ وٹامن ای (E)کا کیپسول توڑ کر لیکویڈ چہرے پر لگائیں۔ اس سے نہ صرف چہرے کی دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ جھریاں بننے کا عمل بھی سست ہو جاتا ہے۔ ہفتے میں دو مرتبہ لگائیں، فرق صاف معلوم ہوگا۔
4۔ آج کل خواتین خصوصاً لڑکیوں میں لیکوریا کا مرض بہت عام ہو گیا ہے۔ اس کیلئے بہت مفید نسخہ بتا رہی ہوں، جو ایک بزرگ خاتون نے بتایا، بہت سی خواتین کو اس سے فائدہ ہوا۔ اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ جن خواتین کو لیکوریا کی وجہ سے حمل نہیں ٹھہرتا اس دوائی سے یہ تکلیف بھی ختم ہو جاتی ہے‘ یہ آزمودہ نسخہ ہے۔ بو پھلی‘ سفید موصلی(انڈین) سرخ جامن‘ سیاہ جامن‘ اسپغول کا چھلکا‘ سنگھاڑے ‘ ساگو دانہ اور تالمکھانہ یہ تمام چیزیں ایک ایک تولہ لے کر سوائے اسپغول کے چھلکے کے الگ الگ پیس لیں۔ پھر مکس کر لیں اور اسپغول کاچھلکا بھی ملا لیں۔ ان میں ایک چمچ پسی ہوئی چینی ملائیں اور ہاتھوں سے اچھی طرح یکجان کر کے بوتل میںمحفوظ کر لیں۔ صبح نہار منہ ایک چھوٹا چمچ دودھ کے ساتھ استعمال کریں۔ دودھ کچا ہوتو زیادہ بہتر ہے۔ گرم یا بہت ٹھنڈا دودھ استعمال نہ کریں۔ ایک گھنٹے کے بعد ناشتہ کریں‘ چند دنوں میں ہی فرق محسوس ہوگا۔ ساری دوائی کھا لیں دوبارہ کبھی ضرورت محسوس نہ ہو گی۔ انشاءاللہ ‘ فائدے کے لحاظ سے لاثانی نسخہ ہے۔
5۔ بالوں کو لمبا اور گھنا کرنے کیلئے گھریلو نسخہ
برہمی بوٹی 25 گرام‘ آملہ 25 گرام ‘ تل کا تیل 250 ملی لٹر‘ دونوں چیزوں کو کوٹ کر رکھ لیں‘ تیل کو گرم کریں اور یہ پسی ہوئی مرکب ملا دیں ‘ ٹھنڈا ہو جائے تو بوتل میں محفوظ کر لیں۔ یہ چیزیں نکالنی نہیں ہیں تیل میں ہی رہنے دیں۔
6۔ قبض دور کرنے کیلئے ارنڈ کی تازہ سبز کونپلیں دو تولہ اور کالی مرچ دو تولہ اچھی طرح پیس کر رتی رتی کی گولیاں بنا لیں۔ رات سوتے وقت ایک سے تین گولیاں (حسب ضرورت ) گرم دودھ کے ہمراہ لیں، بہت مفید ہے۔
7۔ بالوں کی صحت کیلئے تلوں کے پتے پیس کر بالوں کی جڑوں میں لگانے اور ان کا جوشاندہ پکاکر بال دھونے سے بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور وہ خوب بڑھتے اور کالے چمکیلے ہوتے ہیں۔
8۔ بعض لوگوں کو نیند میں چلنے کی بیماری ہوتی ہے۔ اس کیلئے آدھ سیر تُرش سیب دھو کر رات بھر پانی میں بھگو رکھیں۔ صبح ان سیبوں کا رس نکال کر مریض کو پلا دیں تو چند روز میں ہی افاقہ ہو تا ہے۔
9 ۔ جونکوں کے ڈنگوں پر باریک پسی ہوئی ہلدی لگانے سے ڈنگ نہیں پکتے اور خون کا بہنا رک جاتا ہے۔
10۔ تُرش انار کے دانے گٹھلی سمیت پیس کر شہد ملا کر مرہم بنا لیں اور زخموں پر لگائیں تو ایسے زخم بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں جو عام علاج سے ٹھیک نہ ہو رہے ہوں۔
11۔ ہونٹوں کے کنارے کالے پڑ گئے ہوں تو ناریل کے تیل میں لیموں کا رس (چارحصے تیل اور ایک حصہ لیموں کا رس) ملا کر لگانے سے کالک دور ہو جاتی ہے۔
12۔ جامن کی گٹھلی کو سایہ میں خشک کر کے اس کا سفوف بنا لیں ‘ تین ماشہ یہ سفوف دہی یا لسی کے ساتھ دن میں تین بار استعمال کرنے سے ہر قسم کی پیچش دور ہو جاتی ہے۔
13۔ جامن کی چھال کو سایہ میں خشک کر کے باریک پیس کر کپڑ چھان کریں ‘ صبح و شام اسے بطور منجن استعمال کرنے سے مسوڑھوں اور دانتوں کے تمام روگ ختم ہو جاتے ہیں۔ ہلتے دانتوں کیلئے بھی مفید ہے۔

چہرے پر چمک پیدا کرنے کیلئے
کچھ لوگوں کے چہرے نقوش کے اعتبار سے توجاذبیت رکھتے ہیں مگر چمک نہیں رکھتے۔ اس کیلئے عورت و مرد کی تمیز نہیں۔ یہ نسخہ سب استعمال کر سکتے ہیں۔ لیموں کا رس ایک چمچ‘ زعفران چند پتیاں (پسی ہوئیں)، روغن ِ زیتون ایک چمچ سب کو ملا کر رکھ لیں رات کو سوتے وقت چہرے پر لگائیں روزانہ چند دن ایسا کرنے سے چہرے کی جلد چمک اٹھے گی۔

ہاتھوں کی صفائی کیلئے
یوں تو بازار میں بہت اقسام کے ہینڈ لوشن دستیاب ہیں مگر مہنگے ہوتے ہیں ۔ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ ہاتھوں کا میل کچیل صاف کرنے کیلئے کوکنگ آئل ایک چائے کا چمچ‘ پسی ہوئی چینی ½ چائے کا چمچ ہاتھوں پرملیں تقریباً پانچ منٹ تک ایسا کریں پھر دھولیں۔ ہاتھ صاف ہو جائیں گے۔ اچھے ہینڈ لوشن جیسا کا م کرتا ہے۔

گنجا پن دور کرنے کیلئے
گنجے پن کو دور کرنے کے لئے عمدہ کشمش لیں اور اس سے نصف مقدار میں مصبر کھرل میں پیس لیں۔ پانی ملا کر حسبِ ضرورت سر پر لیپ کرنے سے چند روز میں نئے بال اگنے لگتے ہیں۔

گردن کی رنگت کیلئے
گردن کی رنگت نکھارنے کیلئے بالائی لیں ‘ اس میں آدھے لیموں کا رس اچھی طرح مکس کریں اور نہانے سے پندرہ منٹ پہلے یہ آمیزہ گردن پر ملیں۔ ابٹن کی طرح بتیاں گریں گی اور گردن کی رنگت نکھر آئےگی۔

اٹھراءکیلئے
یہ ٹوٹکہ جس خاتون نے بتایا ان کا اور بہت سے لوگوں کا آزمودہ ہے۔ ساون کی پہلی تاریخ کو بارش کا پانی کسی ایسے پرنالے سے جمع کرنا ہے جس کا رخ کعبہ کی جانب ہو‘ پھر اس پانی سے نہا لیں اللہ کے فضل سے یہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ بارش پہلی تاریخ ہی کی ہو ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔

لقوہ کی تمام علامات ختم ہوگئیں



لقوہ کی تمام علامات ختم ہوگئیں
 میں مسجد سے والد کے گھر پہنچا تو دیکھا والدہ کا چہرہ ٹیڑھا ہو گیا تھا اور آواز بدل گئی تھی۔ میں نے بھابھی سے کہا کہ میں تمہیں دوائی بتاتا ہوں وہ استعمال کرائیں میں نے ان کو بتایا کہ 10 قطرے روغن کلونجی، شہد ایک چمچ، نیم گرم پانی میں ملا کرپلائیں۔ میں نے مزید نسخہ جات کتب سے تلاش کئے۔ مغرب کو پہنچا والدہ کی لقوہ کی تمام علامات مذکورہ دوائی سے ختم ہو چکی تھیں ‘ آواز اور چہرہ بالکل درست ہو گیا تھا۔ مزید مولی کے تخم کا چہرہ پر لیپ کیا اور چار پوتھی لہسن باریک پیس کر شہد ملا کر چٹایا لیکن پہلی خوراک سے ہی درست ہو گئی تھیں۔(الحمد للہ)

الزائمر کے مریض نشاستہ والی غذائیں




ماہرین صحت نے نئے جائزوں کے بعد کہا ہے کہ الزائمر کے مریض نشاستہ والی غذائیں کھانے سے گریز کریں۔ برطانیہ میں الزائمر پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے ماہرین نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ بڑھاپے کے اس مر ض میں مبتلا افراد نمک‘ نشہ آور مشروبات‘ سگریٹ ‘ مصنوعی غذاﺅں سے بھی پرہیز کریں اور ایسی اشیاءکھائیں جن میں وٹامن اے اور سی بڑی مقدار میں پائے جائیں اور اس کے علاوہ سبز چائے کا استعمال بھی مفید ہو گا۔ واضح رہے کہ الزائمر ایک ایسا مرض ہے جس کے اسباب کے بارے میں ماہرین صحت ابھی تک نہیں جان پائے۔ تاہم ان کی رائے ہے کہ مختلف عناصر اس کی وجہ بنتے ہیں جن میں عمر کا بڑھ جانا سب سے زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔ بلند فشار خون‘ تمباکو نوشی کے عادی اور کولیسٹرول کی زیادہ مقدار رکھنے والوں کو اس مرض کیلئے زرخیز زمین شمار کیا جاتا ہے۔ سر میں لگنے والی چوٹ سے بھی بڑھاپے میں الزائمر کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ الزائمر کا مرض ایک ارتقائی عمل ہے جس میں مریض دھیرے دھیرے یادداشت کھونے لگتا ہے۔ تاہم بھولنے کی عادت میں مبتلا افراد الزائمر کے مریض نہیں ہوسکتے۔ آغاز میں مریض اپنے روزمرہ معمولات بھولنے لگتے ہیں۔ اس دوران مقامات‘ چیزوں اور لوگوں کے نام بھی اس کے ذہن سے محو ہونے لگتے ہیں۔ مریض میں قوت فیصلہ کمزور پڑنے لگتی ہے اور وہ زندگی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی میں مزاحمت کی قوت بھی کھونے لگتے ہیں۔ دوسرے درجے کے الزائمر میں مریض کے طرزِ عمل میں تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں اور وہ اپنے آس پاس والوں پر چوری کے الزامات عائد کرنے لگتے ہیں اور دن کے اوقات میں ان کی نیند بڑھ جاتی ہے لیکن راتوں کو جاگنا ان کی زندگی میں در آتا ہے۔ ایسے افراد کو اپنی فکر منظم رکھنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے اور اکثر ایک ہی بات دہراتے چلے جاتے ہیں۔ الزائمر کے آخری درجے میں ایسے افراد کو انتہائی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے کیوںکہ وہ اکثر بیٹھے بیٹھے چیخنے چلانے لگتے ہیں اور اپنی پہچان تک بھول جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں ان کی 
کھانے کی عادات میں بھی خطرناک تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

تیراکی کے تالاب


چند سال پہلے تک لوگ تیراکی کے تالاب کا رخ بس پیراکی کے لئے ہی کرتے تھے‘ لیکن اب 70 لاکھ امریکی ایسے ہیں جو پیراکی کے تالاب کی طرف صرف پیراکی کیلئے ہی نہیں بلکہ ورزش کیلئے بھی جاتے ہیں۔ ویسے تو پیراکی اپنی جگہ خود ایک ورزش ہے لیکن یہاں ہم جس آبی ورزش کا ذکر کر رہے ہیں وہ پیراکی سے مختلف ہے۔ گو آبی ورزش سے اس طرح پسینا تو نہیں آتا جس طرح خشکی میں ورزش کرنے سے آتا ہے۔ لیکن یہ ورزش بھی ہمارے قلب کو تقویت پہنچانے‘ عضلات کو مضبوط بنانے‘ جسمانی توازن کو بہتر بنانے اور ہڈیوں کی بوسیدگی روکنے میں اتنی ہی موثر ہے جتنی کہ جوگنگ یا تیز چہل قدمی۔ زخمی کھلاڑی اور جوڑوں کی سوجن( ورم مفاصل) کے مریض برسوں سے گرم پانی میں ورزش کرتے ہیںکیونکہ پانی کے دباﺅ سے ورم کم ہو جاتا ہے اور اس کی گرمی سے عضلات کو آرام ملتا ہے اور جوڑوں کی سختی دور ہوتی ہے۔
اب معالجوں نے یہ مشورہ دینا شروع کیا ہے کہ مجموعی تندرستی کی خاطر لوگ پانی میں اچھلیں کودیں۔ یہ مشورہ ان مریضوں کو بھی دیا جا رہا ہے جو بیماری یا جراحت کے بعد کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مریضوں کو قلب کے آپریشن اور پستان براری کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی بحالی صحت کے زمانے میں وہ اپنے جسم کو خشکی کی بہ نسبت پانی میں بہتر طریقے سے حرکت دے سکتے ہیں۔ 
آبی ورزشوں میں سے زیادہ تر کمر سے سینے تک گہرے پانی میں کی جاتی ہیں لہٰذا نہ تو ورزش کرنے والے کا چہرہ بھیگتا ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ اسے تیرنا آتا ہو۔ اس ورزش کا صحیح طریقہ جاننے کیلئے بہتر ہو گا کہ آبی ورزش کی تربیت لی جائے تاکہ اس بات کا یقین ہو جائے کہ مریض کی حالت ورزش کے قابل ہے یا نہیں ‘ نیز نہ صرف چوٹ کے امکانات کم ہو جائیں بلکہ ورزش سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ آبی ورزش میں مختلف صلاحیت ‘ عمر اور تندرستی والے لوگ شامل ہوتے ہیں لہٰذا ماحول دوستانہ ہوتا ہے۔ امریکا اور بعض دوسرے ممالک میں صحت اور سماجی بہبود سے تعلق رکھنے والے مختلف ادارے آبی ورزش کا اہتمام کرتے ہیں۔ آبی ورزش زیادہ تر گرم پانی میں کی جاتی ہے۔ جس کا درجہ حرات 83 ڈگری فارن ہائیٹ کے قریب رہتا ہے۔ 
پہلے جسم کوآہستہ آہستہ حرکت دے کر عضلات کو ڈھیلا کرتے اور جسم میں گرمی پیدا کرتے ہیں پھر ایروبک ورزش کے ذریعے سے قلب کی دھڑکن بڑھائی جاتی ہے۔ ان ورزشوں میں ایسی ورزشیں شامل ہوتی ہیں جیسے ہاتھ میں وزن لے کر پانی میں اس طرح چلنا کہ وزن پانی میں ڈوبا رہے یا پانی کے اندر ایک چھوٹے چبوترے پر چڑھنا اور اترنا۔
اس آبی ورزش سے سارے اہم عضلات اور جسم کے وہ حصے بھی اثر پذیر ہوتے ہیں جو عام حالات میں یعنی خشکی پر ورزش کا اثر قبول نہیں کرتے۔ تربیتی کورس کے دوران جسم کے مختلف حصوں کو تقویت پہنچانے کیلئے مختلف نوعیت کی چیزیں مثلاً گیندیں‘ بورڈ اور پیڈل وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض جگہ ورزشی مشینوں کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ ایک دن میں آبی ورزش عام طور سے ایک گھنٹہ کی جاتی ہے۔ جس طرح ورزش کے شروع میں جسم کو آہستہ آہستہ گرمایا جاتا ہے اسی طرح آخر میں جسم کو ٹھنڈا کرنے اور قلب کی دھڑکن کم کرنے کا عمل ہوتا ہے۔
پانی کی اپنی طبیعی خصوصیات کی وجہ سے آبی ورزش ایک بے مثل ماحول میں ہوتی ہے۔ پانی میں اوپر اچھالنے اور پیرانے کی جو خاصیت ہے وہ زمین کی کشش کو زائل کر دیتی ہے۔ جس سے جسم میں بے وزنی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اتھلے پانی میں ورزش کرنے والے کا وزن گہرے پانی کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں اچھال کم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کولھوں تک گہرے پانی میں چلے تو وہ اپنے جسم کا سینتالیس سے چون فی صد تک وزن سہارے گا‘ لیکن اگر وہ گردن تک گہرے پانی میں چلتا ہے تو اس کی ٹانگوں کو اس کے جسم کا صرف آٹھ فی صد کے قریب بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ چونکہ پانی ہوا کی نسبت کہیں زیادہ کثیف ہوتا ہے لہٰذا پانی میں بار بار مڑنے اور حرکت کرنے میں انہیں خشکی کی بہ نسبت زیادہ مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے اور وہ زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔
آبی ورزشوں کی شدت یا سختی میں اس طرح اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ورزش کی رفتار بڑھا دی جائے یا ان آلات میں ردو بدل کہا جائے جو ورزش کے دوران استعمال ہو رہے ہیں ۔ یعنی ان کا وزن اس طرح بڑھایا جائے کہ پانی ان کی زیادہ مزاحمت کرے۔ گہرے پانی میں ورزش کرنے والے کو زیادہ مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے‘ کیونکہ اس کے اطراف میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔ آبی ورزش سے معمر لوگوں کو اپنا جسمانی توزان بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ توازن کو قائم رکھنا معمر لوگوںکیلئے بہت اہم ہے کیونکہ توازن بگڑ جانے سے وہ اکثر گر جاتے ہیں اور عام طور پر اپنے کولھے کی ہڈی توڑ بیٹھتے ہیں۔ نوادا یونیورسٹی میں ساٹھ سے نوے سال کے درمیان عمر والی چوالیس عورتوں کو ایک تحقیق میں شامل کیا گیا جو سولہ ہفتے جاری رہی۔ ان عورتوں نے ہفتے میں تین بار آبی ورزشیں کیں جن کے دوران وہ اتھلے پانی میں گرتی اور اٹھتی رہیں۔ اس کے علاوہ ایک زیر آب چبوترے پر چڑھنے اور اترنے کی مشق بھی کرتی رہیں۔ جب یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا تو معلوم ہوا کہ نہ صرف ان عورتوں کا جسمانی توازن بہتر ہو گیا بلکہ ان کی پھرتی ‘ قوت اور چلنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
ایک اور تحقیقی جائزہ ذرا چھوٹے پیمانے پر تیار کیا گیا۔ اس سے پتہ چلا کہ جن عورتوں نے سن یاس کے بعد ہفتے میں ایک بار آبی ورزش کی تربیتی کلاس میں شرکت کی ‘ تقریباً ایک سال بعد ان کی ہڈیوں کی کمیت 33ءفیصد سے لے کر ایک فیصد تک کا اضافہ ہو گیا۔ بظاہر تو یہ اضافہ بہت کم ہے‘ لیکن اگر ہم اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ سن یاس کے بعد عورتوں کی ہڈیوں کی کمیت میں عموماً ایک سے دو فی صدسالانہ کمی ہو جاتی ہے تو پھر ہمیں اس معمولی اضافے کی اہمیت کا احساس ہو گا۔
جو لوگ ورم مفاصل کی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں انہیں چاہیے کہ آبی ورزش شروع کرنے سے پہلے اس کے ماہر سے ضروری ہدایات لے لیں۔ ورزش کا یہ ماہر انہیں جسم کے کمزور ترین حصوں کو فائدہ پہنچانے والی ورزشوں کے بارے میں بتا سکے گا۔ گو پانی میں ورزش کرنا شروع میں کچھ عجیب سا محسوس ہوتا ہے‘ لیکن چند بار ورزش کے بعد جھجک دور ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ جو پہلے تالاب کے کنارے بیٹھ کر دوسروں کو ورزش کرتا دیکھتے تھے۔ اب خود بھی ورزش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پانی سے باہر آنے کو جی نہیں چاہتا۔

دو آزمودہ عمل


محترم حکیم صاحب ! آپ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اپنے دو آزمودہ عمل تحریر کر رہا ہوں میں نے جن کو بھی یہ عمل دیا ان کو اس عمل سے مستفیض پایا۔
1۔ اگر کوئی عامل صبح سویرے بیدار ہو کر پاک صاف ہو کر فجر کی اذان سے پہلے 19 مرتبہ سورہ لہب پڑھ کرجس شخص کا تصور کر کے دم کرے گا انشاءاللہ 21 دن میں وہ شخص شراب ‘ زنا‘ چرس اور عادت بد سے چھٹکارا پائے گا۔
2۔ ان برائیوں کا عادی شخص جب رات گہری نیند سو جائے تو اس کے قریب سرہانے کی طرف کھڑے ہوکر سورة المائدہ کی آیت 90
یَااَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا اِنَّمَا الخَمرُ وَالمَیسِرُوَا لاَنصَابُ وَالاَزلَامُ رِجس مِّن عَمَلِ الشَّیطٰنِ فاَجتَنِبُوہُ لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ(المائدہ:90) 
ایک مرتبہ اتنی آواز سے پڑھیں کہ سونے والے کی نیند خراب نہ ہو۔ چالیس روز کے اس عمل سے انشاءاللہ عادت بد سے نجات مل جاتی ہے اور اس کے ساتھ دن رات میں جب بھی اور جتنی مرتبہ پانی پئیں اس پر تین مرتبہ”قُلنَا یٰنَارُ کُونِی بَردًا وَّسَلَاماً“۔ (الانبیائ:69) پڑھ کر دم کر کے پئیں۔
نشے کی ضمن میں نشے کی عادت سے نجات کیلئے یہ طبی ٹوٹکہ بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے ‘ جئی کا چھلکا اتار دیں اور اسے اوکھلی میں کوٹ کر صبح دوپہر اور شام دس دس گرام پانی میں جوش دے کر پئیں آپ کی دعاﺅں کا طلب گار

گنجا پن زیادہ تر خون کی کمی‘ طویل بیماری‘ کھانے میں


گنجا پن زیادہ تر خون کی کمی‘ طویل بیماری‘ کھانے میں 
بے اعتدالی اور بلا وجہ دواﺅں کے استعمال سے ہوتا ہے۔ گنجاپن آج کے دور کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔لمبے اور خوبصورت بال سب کو بھلے لگتے ہیں۔ خصوصی طور پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بالوں کو لمبے اور خوبصورت بنانے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ بال گرنا شروع ہو جائیں تو پھر اس کے تدارک کیلئے مختلف دواﺅں کی تلاش ہوتی ہے۔ گنجے پن اور سر کی خشکی دور کرنے کے دعویٰ کے ساتھ ہزاروں کریمیں‘ دوائیاں‘ شیمپو‘ تیل‘ جیل وغیرہ دستیاب ہیں۔ ان کے مضر اثرات یہ ہیں۔
لگانے کی جگہ پر خارش ‘ الرجی اور سوجن۔ جلد میں جذب ہو کر دوا دل کی رفتار اور بلڈپریشر میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

احتیاط
مندرجہ ذیل افراد مائنو کیسین استعمال نہ کریں‘ حاملہ عورتیں‘ بچے کو دودھ پلانے والی عورتیں‘ کوئی ایسی دوا بھی استعمال نہ کریں جس کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں آپ کومعلومات نہ ہوں۔
بالوں کا گرنا خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کیلئے بہت پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے چھوٹی عمر میں ہی ادھیڑ عمر کا گمان ہوتا ہے۔ پھر لمبے اور خوبصورت بال تو عورتوں کی خوبصورتی کے ضامن ہوتے ہیں۔ بالوں کا گرنا یا گنجا پن زیادہ تر ان لوگوں میں ہوتا ہے جن میں خاندان کے زیادہ لوگ پہلے سے گنجے ہوں‘ اس کے علاوہ کھانے پینے میں بے اعتدالی‘ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی نہ گزارنے‘ ہر وقت پریشان و متفکر رہنے‘ خون کی کمی‘ لمبی بیماری‘ دواﺅں کے غیر ضروری استعمال کی وجہ سے بھی بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ گنجا پن اور بال گرنا چونکہ ایک عالمی مسئلہ ہے اس لئے اس کے حل کی متواتر کوششیں کی جا رہی ہیں‘ آج کل مصنوعی بال لگانے کا بڑا چرچا ہے‘ اس کے علاوہ کئی لوگ وگ بھی استعمال کرتے ہیں‘ سینکڑوں کی تعداد میں شیمپو‘ جیل اور تیل وغیرہ دستیاب ہیں جن کے اشتہاروں میں بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں کہ دو سے چار ہفتے میں بال اُگ آئیں گے۔ اس کے علاوہ سر کی خشکی دور کرنے کیلئے بالوں کی حفاظت کی جائے‘ ان کی صفائی کا مکمل خیال رکھا جائے تو سر کی خشکی دور ہو جاتی ہے۔ گنجے پن کی دوائیں استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی کسی دوا کو استعمال نہ کیا جائے جس کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں آپ کو پوری پوری معلومات نہ ہوں۔

آسان اور متبادل علاج
بالوں کی حفاظت‘ خشکی دور کرنے اور بالوں کو گرنے سے بچانے کیلئے خشک بالوں میں نہانے سے پہلے سرسوں کے تیل کی ہلکی مالش کریں یا رات کو سر پر تیل لگا لیں اور صبح اٹھ کر سر دھولیں۔ دو بڑے چمچ میتھی کے بیج رات بھر پانی میں بھگوئیں ‘ صبح ان کا لیپ بنا کر تمام سر میں لگائیں‘ گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ بعد ریٹھا اور سیکا کائی کے سلوشن( محلول) سے دھولیں، خشکی وغیرہ کا مجرب علاج ہے۔ ٹھنڈے پانی سے سر دھو کر 5 سے 10 منٹ تک انگلیوں کی پوروں سے مساج گنجا پن کا بہترین علاج ہے۔ خشک بالوں میں ہفتہ میں ایک بار انڈے کو پھینٹ کر اچھی طرح لگائیں اور پھر سر کو صابن یا شیمپو سے دھو لیں‘ خشک بالوں میں ہفتے میں ایک بار زیتون کے تیل میں لیموں کا رس ملا کر سر کی مالش کریں اور اس کے بعد سر دھو لیں۔ سر کی خشکی دور کرنے کیلئے ناریل او رمہندی کا تیل ہم وزن ملا کر بالوں میں لگائیں۔ مہندی میں لیموں کے چند قطرے اور انڈا ملا کر بالوں میں لگائیں‘ پھر ایک گھنٹہ بعد سر دھو لیں‘ خشکی سے نجات مل جائے گی۔ سر میں زیادہ میل وغیرہ جمع ہو گئی ہو تو اسکو نکالنے کیلئے سرکہ کو تیل یا پانی میں ملا کر لگائیں سر صاف ہو جائے گا۔ کلونجی کو پانی میں ملا کر لگانے سے سر کے بال مضبوط ہو جاتے ہیں اور بال گرنے سے رک جاتے ہیں۔
اوپر دی گئی ہدایات کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کریں‘ سادہ اور متوازن غذا کھائیں‘ مثبت سوچ اپنائیں‘ ہر کام کو میانہ روی سے کریں‘ انشاءاللہ آپ ہر لحاظ سے صحت مند رہیں گے۔