اس بلاگ کا ترجمہ

Monday, October 29, 2012

طارق روڈ کراچی



طارق روڈ کراچی کا ایک بہت بڑ ا تجارتی مرکز ہے ۔یہاں بڑ ے بڑ ے شاپنگ سنٹرز واقع ہیں ۔ شہربھر سے لوگ کپڑے، زیورات اور دیگر اشیا کی خریداری کے لیے یہاں آتے ہیں ۔طارق روڈ کا ایک سرا شہید ملت روڈ اور دوسرا ، وسطِ شہر کی سمت جاتے ہوئے ، اللہ والی چورنگی پرواقع ہے ۔ اللہ والی چورنگی پر جس جگہ طارق روڈ ختم ہوتا ہے ، وہیں کونے پر سوسائٹی کا قبرستان ہے ۔پچھلے دنوں طارق روڈ کی طرف جانے کے لیے میں اس چورنگی پر پہنچا تو سگنل سرخ ہو چکا تھا۔ میں رُک کر اشارہ کھلنے کا انتظار کر رہا تھا کہ طارق روڈ کے آغاز پر ایک بلند و بالا سائن بورڈ پر نظر پڑ ی۔ یہ سائن بورڈ ایک بینک کا تھا جس نے اپنے کریڈٹ کارڈکی تشہیر کے لیے سائن بورڈ پر ایک بہت ہی دلچسپ اور بامعنی جملہ لکھ رکھا تھا:

It is all about happiness

یہ جملہ کوئی سادہ جملہ نہیں ہے ۔ یہ دورِجدید کے انسان کی مکمل کہانی ہے ۔ خوشی و راحت کا حصول ہر دور میں انسان کا مقصداور اس کی خواہش رہی ہے ۔ مگر آج کے انسان کی تمام تر خوشیاں مادی چیزوں کے حصول پر منحصر ہو چکی ہیں ۔ دنیا کی نعمتیں حاصل کرنا، اس کی زندگی کا نصب العین بن چکا ہے ۔ وہ ان مادی خوشیوں کا ایسا اسیر ہو چکا ہے کہ جیب میں اگر پیسے نہ بھی ہوں تو وہ قرض لے کر ان مادی چیزوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ پہلے زمانے میں قرض لینا آسان نہ تھا۔ چنانچہ انسان پیسہ پیسہ جوڑ کر فرج، ٹی وی اور دیگر اشیاء خریدا کرتے تھے ۔مگر آج کا بینک، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سے ، قرضے کی یہ سہولت باآسانی فراہم کرتا ہے ۔چنانچہ جیب میں اگر کریڈٹ کارڈ ہو تو ہر فرمائش اور ہر خواہش کی فوری تسکین کی جا سکتی ہے ۔ دلی تمنا کے فوری پورا ہونے کی یہی خوشی، اس جملے میں مراد تھی۔

مگر بینک کا ادارہ کوئی قرضہ فی سبیل اللہ نہیں دیتا۔وہ اس قرضے پر سود وصول کرتا ہے ۔یہی سودبینک کی کمائی کا ذریعہ ہے۔پھر یہ قرضہ ہر کس و ناکس کو ملتا بھی نہیں ہے ۔بینک پہلے تحقیق کر کے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جسے قرضہ دیا جا رہا ہے وہ قرضہ ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے ۔اس کے لیے اکثر اوقات کوئی نہ کوئی ضمانت رکھوائی جاتی ہے ۔ اگر آپ قرض لے کر رقم واپس نہیں کریں گے تو قانونی کار روائی ہو گی اور بالجبر قرضہ وصول کر لیا جائے گا۔ گارنٹی کی ہر چیز ضبط ہوجائے گی۔یہاں تک کہ عدم ادائیگی کی صورت میں جیل جانا پڑ ے گا۔

سگنل پر کھڑ ے کھڑ ے چند لمحوں میں میرے ذہن میں یہ سارے خیالات گزر گئے ۔ ابھی سگنل بند ہی تھا کہ میری نظر اس سائن بورڈ کے بالکل نیچے پڑ ی جہاں سوسائٹی کے قبرستان کا منظر میری نگا ہوں کے سامنے آ گیا۔مجھے خیال آیا کہ یہ ایک دوسرا اشتہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جگہ جگہ لگا رکھا ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس اشتہار میں بھی ، زبان حال سے ، ٹھیک وہی سلوگن لکھا ہوا ہے جو بینک کے اشتہار میں تھا:

It is all about happiness

قبرستان کا منظر انسان کو یہ یاد دلاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ابدی نہیں بلکہ عارضی طور پرموجود ہے ۔وہ یہاں اپنے رب سے مہلتِ عمر قرض لے کر آیا ہے ۔روزِ ازل انسان نے زندگی کا یہ کریڈٹ کارڈ اس لیے لیا تھا کہ وہ جنت کی ابدی خوشیوں اور راحتوں کو حاصل کرسکے ۔اس قرضے کے لیے انسان نے اپنا وجود خدا کے پاس گارنٹی رکھا ہوا ہے ۔کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ:ہرنفس اپنی کمائی کے عوض رہن ہے ۔(المدثر38:74)

انسان اس دنیا میں اگر نیک عمل کی کمائی کر لیتا ہے تو وہ نہ صرف جنت کی خوشیوں کو حاصل کرے گا بلکہ جہنم کی سزا سے بھی اپنی ہستی کو بچالے گا۔اس کے برعکس اگر انسان اس حیات مستعار کو دنیا کی رنگینیوں کے پیچھے ضائع کربیٹھا تو نعمت بھری جنت تو ایک طرف رہی ، اس کا وجود جہنم کے قید خانے میں ڈال دیا جائے گا۔

انسانوں کی بدقسمتی ہے کہ ان کی اکثریت مہلتِ عمر کے اس قرض کو آخرت کی ابدی خوشیاں سمیٹنے کے بجائے دنیا کی عارضی خوشیوں کے پیچھے لگادیتی ہے ۔اس رویے سے صرف وہ شخص بچ سکتا ہے جو اپنی خواہشات پر صبر کرنا سیکھ لے۔انسان کے اندر خواہش کا پیدا ہونا غلط نہیں ، اس کابے لگام ہوجانا غلط ہے ۔ کیونکہ خواہشات کی اندھی پیروی انسان کے پاس یہ موقع نہیں چھوڑ تی کہ وہ آخرت کے لیے سرمایہ کاری کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ جنت کو صبر کا بدلہ قرار دیا گیا ہے ۔ آج یہ صبر سب سے بڑ ھ کر خواہشات کے بارے میں مطلوب ہے ۔

سو اَب جب کبھی آپ کسی قبرستان کے پاس سے گزریں تو وہاں ایک سائن بورڈ ضرور دیکھیے گا جس پر جلی حروف میں جنت کی ابدی زندگی کے متعلق یہ لکھا ہو گا:

It is all about happiness
It is all about patience

انسانوں کو اذیت دینے والے



 
انسانوں کو اذیت دینے والے حشرات میں مچھر کا نام بہت نمایا ں ہے۔یہ نہ صرف انسانوں کا خون چوستے ہیں بلکہ اس عمل میں انسانوں کو ایک غیر معمولی تکلیف بھی پہنچاتے ہیں۔خون چوسنے اور تکلیف پہنچانے کے علاوہ مچھر بعض جان لیوابیماریوں کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ جیسے ملیریا، زرد بخار اور ڈینگوکی بیماریاں وغیرہ۔

ہمارے ملک پاکستان میں جہاں عوامی مسائل کو حل کرنا ،صاحب اقتدارر لوگوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ،ایک عام آدمی کے پاس صرف یہی راستہ بچتا ہے کہ وہ مضر صحت دھواں اور بو پیدا کرنے والی پروڈکٹس سے مچھروں کو گھر سے بھگانے کی کوشش کرے۔یہ کوشش اکثر ناکام ہی جاتی ہے اور مچھر بلا خوف و خطر رات بھر انسانوں کو کاٹتے رہتے ہیں۔

مچھر انسا نوں کو سوتے ہوئے ہی نہیں ، جاگتے ہوئے بھی کاٹ لیتے ہیں۔مچھر یہ کام اتنی آہستگی سے کرتے ہیں کہ انسان کو اس وقت اس واردات کا پتہ چلتا ہے جب مچھر دانے اورجلن کی نشانی پیچھے چھوڑ کر اڑ چکا ہوتاہے۔ان میں اس قدر پھرتی ہوتی ہے کہ آدمی اگرہاتھ مارکر انہیں مارنے کی کوشش کرے تو وہ پلک جھپکنے میں اس حملے کی پہنچ سے دور نکل جاتے ہیں۔ تاہم کوئی مچھر اگر خون پی پی کر بہت موٹا ہوجائے یا خون چوسنے کے عمل میں بالکل غافل ہوجائے تو انسان کا تیز رفتار حملہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔خون چوسنے میں حد سے زیادہ انہماک اور غفلت جس طرح مچھر کی موت کا سبب بن جایا کرتا ہے اسی طرح دنیا کمانے میں حد سے زیادہ انہماک اور غفلت انسان کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بنایا ہے۔اسبابِ دنیا اس کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جب انسان آخرت کو بھول کر دنیا کے حصول کو اپنا مقصدبنا لیتا ہے تو پھر غفلت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔اسباب زندگی کا ایک حد سے زیادہ انسان کے پاس اکھٹا ہوجانا اسے شیطان کے لیے تر نوالہ بنادیتا ہے۔ رزق حرام،لالچ، تکبر، بخل،اسراف اور ان جیسے ان گنت ہتھیار شیطان اپنے ہاتھوں میں لیے انسان کا شکار کرنے کو بیٹھا ہے۔دنیا کو مقصود بنالینے والا غافل انسان شیطان کا سب سے آسان ہدف ہوتا ہے۔اور مچھر جیسا یہ غافل انسان شیطان کے پہلے حملے ہی میں اپنی آخرت گنوابیٹھتا ہے۔

انسان کے لیے اہم بات یہ نہیں


سکندرِاعظم (356ق م- 323ق م)کا شمار دنیا کے عظیم ترین فاتحین میں کیا جاتا ہے ۔وہ سائرس (جسے قرآن ذوالقرنین کہتا ہے ) کے بعد پہلا شخص تھا جس نے تمام قدیم دنیا کو فتح کر کے اس پر اپنی حکومت قائم کی ۔اس کا باپ فلپ، یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست مقدونیہ کا حکمران تھا، مگر سکند ر نے صرف چند برسوں میں اُس تمام دنیا کو زیر وزبر کرڈالا جو یونان سے ہندوستان تک لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے ۔اس کی عظیم یوریشیائی سلطنت میں چین ہی واحد متمدن خطہ تھا جو اس کی قلمرو میں شامل نہ تھا۔

سکندر کی یلغار اتنی شدید تھی کہ دارا کی عظیم ایرانی سپر پاورخس و خاشاک کی طرح اس کے سامنے بکھر کر رہ گئی۔ اس کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ رواں دریا، فلک بوس پہاڑ ، عظیم صحرا، وسیع و عریض میدانی علاقے ، بپھرے ہوئے سمندر، اندھیری راتیں ، موسلادھار بارش، کچھ بھی اس کا راستہ نہ روک سکے ۔ قدیم دنیا کے سارے خزانوں اور سارے علاقوں کا یہ مالک، صرف بتیس سال آٹھ ماہ کی عمر میں ملیریا کا شکار ہوکر ، عراق کے قدیم شہر بابل میں انتقال کرگیا۔ اس کے بعد جلد ہی اس کا بارہ سالہ بیٹا مارڈالا گیا اور اس کی نسل ختم ہوگئی۔

سکندر کی زندگی اور اس کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نمونہ قائم کیا ہے جس میں قیامت تک انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان ہے ۔ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے اپنے سینے میں خواہشات کا ایک طوفان لیے پھرتا ہے ۔وہ دولت ، شہرت، حکومت اور طاقت کے پیچھے بھاگتا ہے ۔کبھی وہ نامراد رہ جاتا ہے اور کبھی مقدر کا سکندر بن کر اپنی ہر خواہش پالیتا ہے ۔ مگر ایک عظیم حقیقت ایسی ہے جو کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑ تی ۔ وہ یہ کہ ایک روز بہرحال اسے مرنا ہے اور اپنی آرزوؤں کی سلطنت کو چھوڑ کر اسے حقیقت کی اُس دنیا میں جانا پڑ تا ہے جس کا نام آخرت ہے ۔

انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں ۔وہ گاڑ ی ، بنگلہ اور سوناچاندی کو اپنا مقصود بنالیتے ہیں ۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک روز موت کو آنا ہے ۔ وہ آ کر رہے گی۔ 323ق م میں یہ سکندر کو آئی تھی اورایک صدی کے اندر اِس وقت تک زندہ ہر انسان کو آجائے گی۔

انسان کے لیے اہم بات یہ نہیں ہے کہ اس نے اِس دنیا میں کیا حاصل کیا۔ اسے توہر چیز سکندر کی طرح چھوڑ کر جانی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی ابدی زندگی کے لیے کیا لے کر جا رہا ہے ۔

اٹھارویں ترمیم



 
پاکستانی پارلیمنٹ نے اٹھارویں ترمیم منظور کرلی ہے۔ آئین میں اس ترمیم کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جارہا تھا۔ آخرکار تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر متفقہ طور پر یہ ترمیم منظور کرلی۔ صوبوں کو ملنے والے متعدد فوائد اور اختیارات کے علاوہ اس ترمیم کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں طاقت کا سرچشمہ اب وزیر اعظم کی ذات ہوگی۔ اس اعتبار سے اس ترمیم کو پارلیمانی جمہوریت کی فتح قرار دیا جارہا ہے۔ اور امید کی جارہی ہے کہ اب حکومت عوام کو درپیش مسائل جیسے مہنگائی اور امن و امان وغیرہ کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔

ہم پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے متمنی ہیں اور اسے آمریت کی ہر قسم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اس ترمیم کی منظوری کو بھی ایک خوش آئند قدم سمجھتے ہیں، تاہم اس موقع پر ہم ایک حقیقت کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ اس سے پہلے بھی دو موقعوں پر ملک کے وزیر اعظم کے پاس یہ سارے اختیارات تھے۔ یعنی 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو اور اور 1997 میں نواز شریف کو اسمبلی میں اپنی دو تہائی اکثریت کے نتیجے میں یہ سارے اختیارات حاصل تھے۔ مگر دونوں موقعوں پر بجائے اس کے کہ جمہوریت کو فروغ حاصل ہوتا، دونوں حکمرانوں سے لوگوں کو شکایات پیدا ہوئیں اور دونوں دفعہ مارشل لا آگیا۔

ہمارے نزدیک اس معاملے میں جو حقیقت نظر انداز کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ معاشروں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں صرف قوانین کی تبدیلی سے نہیں آتیں، بلکہ اعلیٰ اخلاقیات کے فروغ سے پیدا ہوتی ہیں۔ افراد اور معاشرے میں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہوں تو محض قانونی تبدیلیوں سے تبدیلی نہیں آیا کرتی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیات؛ خواہ ارکانِ اسمبلی ہوں، سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہو یا موجودہ حکمران، ان سب کی اخلاقی حیثیت پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔ جب تک یہ سوالیہ نشان باقی ہیں ہمارے ہاں تبدیلی نہیں آسکتی۔ موجودہ اخلاقی رویوں کے ساتھ ہوگا صرف یہ کہ پہلے جس رویے کی شکایت صدر سے ہوتی تھی اب وزیر اعظم سے ہوگی۔ یہ سن 73 کے بعد ہوا اور سن 97 کے بعد بھی، اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔

اخلاقی اقدار کو مسئلہ بنائے بغیر ہمارے ہاں کرپشن اسی طرح جاری رہے گی۔ اقربا پروری کا فروغ اور میرٹ کی موت ہوتی رہے گی۔ نااہل اور بدعنوان لوگ وزارتوں اور محکموں کی سربراہی پر فائز ہوتے رہیں گے۔ مہنگائی اور بدامنی کا سلسلہ بڑھتا رہے گا۔ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں گی۔ ظلم و ستم کی داستانیں سامنے آتی رہیں گی۔ سیاسی آمریت اور مخالفین کی سرکوبی کا سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔

عوام اگر چاہتے کہ یہ سارے مسائل حل ہوں تو انہیں اخلاقی اقدار کی پابندی خود بھی کرنی ہوگی اور اپنے نمائندوں کے انتخاب کے وقت بھی اسی کو سب سے بڑا معیار بنانا ہوگا۔ خوش قسمتی سے اس وقت ایک آزاد اور فعال عدلیہ اور میڈیا موجود ہے۔ ان دونوں کی مدد سے یہ عین ممکن ہے کہ اخلاقی اقدار کو پامال کرنے کی بنیاد پر کسی بھی طاقتور شخص پر گرفت کی جاسکے۔ عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کو کوئی تبدیلی نہ سمجھیں بلکہ اسے صرف ایک انتظامی معاملہ سمجھ کر اخلاقی اقدار کے نفوذ کو اپنی توجہ کا اصل مرکز بنالیں۔ وہ یہ عہد کرلیں کہ کوئی کرپٹ، ظالم، عہد شکن اور بددیانت شخص ان کے ہاں قیادت کے مقام پر نہ پہنچ سکے گا۔ اور اگر پہنچ جائے گا تو اس کا احتساب کیا جائے گا۔ یہی تبدیلی کا اصل طریقہ ہے۔

قوموں کی زندگی میں قانون اصل تبدیلی نہیں لاتا۔ قوموں کی زندگی میں ترقی اور تبدیلی کی اصل ضامن اخلاقی اقدار ہوا کرتی ہیں۔ قانون کی قوت کردار کی قوت کے بغیر کچھ نہیں ہوا کرتی۔ جہاں کردار نہ ہو وہاں ہر قانون خیر کے بجائے شر میں اضافہ کرتا ہے۔

دریافت


پھر میں نے اس سے دریافت کیا:
’’کیا اس وقت کسی کو یہ معلوم ہے کہ اس کی نجات ہو گی یا نہیں اور ہو گی تو کس طرح ہو گی؟‘‘
صالح نے جواب دیا:
’’یہی اصل مصیبت ہے ۔ کسی کو یہاں یہ نہیں معلوم کہ اس کا مستقبل کیا ہے ۔ نجات کی کوئی امید ہے یا نہیں ؟ یہ کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالیٰ کے ۔ اسی لیے رسول اللہ اور دیگر انبیا مسلسل یہ دعا کر رہے تھے کہ حساب کتاب شروع ہوجائے ۔ اس کے نتیجے میں اہل ایمان کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ مجرمین سے الگ ہوکر حساب کتاب کے بعد نجات پاجائیں گے ۔ تم جانتے ہو آج کے دن انفرادی طور پر نہ کسی کے لیے زبان سے کوئی حرف نکالا جا سکتا ہے اور نہ اس کی کوئی گنجائش ہے ۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ کی یہ دعا قبول ہو چکی ہے ۔ یہ بات رسول اللہ نے تمھیں خود بتائی تھی۔‘‘
’’مگر ابھی تک کچھ ہوا تو نہیں ؟‘‘، میں نے حیرت سے پوچھا؟
صالح بولا:
’’دعا قبول ہوئی ہے ، مگر اس پر عملدرآمد اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے تحت ہی کریں گے ۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی تک پوری دنیا سے لوگ قبروں سے نکلنے کے بعد یہاں پہنچے ہی نہ ہوں ۔‘‘

بیرونِ ملک مقیم





بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں پرکشش تنخواہوں اور اجرتوں پر کام کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 14 سے 15 لاکھ ہے جن میں سے 9 لاکھ افراد صرف سعودی عرب میں مقیم ہیں ۔ دنیا کے دوسرے خطوں مثلاً امریکہ، کینیڈا ، مشرقِ بعید، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے برعکس ان لوگوں کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ سالہا سال ملک سے باہر رہنے کے باوجود ان کا اور ان کے بچوں کا مستقبل پاکستان ہی سے وابستہ رہتا ہے اور اپنی دھرتی سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹتا ۔ اس کا سبب خلیجی ممالک کا وہ قانون ہے جس کے تحت کسی غیر ملکی کے لیے عملی طور پر وہاں کی شہریت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وہاں گزاردینے والے غیر ملکیوں کا مقدر بھی یہی ہے کہ آخرکار انہیں اپنے وطن کو لوٹنا ہے۔

خلیج میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کو ایک دوسری صورتِ حال سے بھی واسطہ پیش آتا ہے۔ وہ یہ کہ ان ممالک میں کسی فرد کی مدتِ قیام کا تمام تر انحصار اس شخص یا کمپنی پر ہوتا ہے۔ جس کے ویزہ پر وہ یہاں ملازمت کے لیے آیا ہوتا ہے۔ اسے یہاں کی اصطلاح میں "کفیل" کہتے ہیں۔ جب تک کفیل کی مرضی ہوگی وہ آدمی یہاں کام کرتا رہے گا اور جب وہ چاہے گا اسے نہ صرف ملازمت سے فارغ کردے گا، بلکہ فورا ً ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کردے گا۔ یہ کوئی انفرادی سطح پر پیش آنے والا معاملہ نہیں، بلکہ یہ حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے تحت وہ سرکاری اور نجی شعبوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے ہاں سے غیر ملکیوں کو نکال کر زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو روزگار مہیا کریں۔

ان مسائل کی بنا پر یہاں کام کرنے والوں میں ایک خاص قسم کی ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے، جس کے باعث انہیں ہمیشہ احساس رہتا ہے کہ یہ جگہ ان کے مستقل قیام کی نہیں ہے اور یہ کہ ایک روز انہیں بہرحال اپنے وطن کو لوٹنا ہے۔ ان چیزوں سے ان کے اوپر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک اثر ان کی زندگی پر یہ پڑتا ہے کہ یہ اس بات کی ہروقت کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جب وہ اپنے وطن کو لوٹ کر جائیں تو خالی ہاتھ نہ ہوں، بلکہ ان کے پاس کافی سرمایہ بچت کی صورت میں موجود ہو جس سے وہ اپنے مستقل وطن میں بہتر زندگی گزارسکیں ۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی کمائی کا بڑا حصہ اپنے ملک میں انویسٹ کرتے ہیں۔ بعض لوگ بچت کی کسی اسکیم میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بعض زمین و جائیداد میں رقم لگاتے ہیں ۔ بعض شیئرز خریدلیتے ہیں اور بعض اپنا پیسہ فارن کرنسی کی شکل میں محفوظ رکھتے ہیں ۔

دوسرا اثر جو ان کے طرزِ زندگی پر پڑتا ہے اسے بجاطور پر "سیکنڈ ہینڈ" زندگی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف تو ان لوگوں کو اپنے مستقبل کے لیے کچھ رقم پس انداز کرنی ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے انہیں یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں ان کا تمام تر ساز و سامان دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ چنانچہ وہ ہر معاملے میں سیکنڈ ہینڈ، گزارے کے قابل اور سستی چیز کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ جاتے وقت اگر کسی چیز کو پھینکنا بھی پڑے تو زیادہ دکھ نہ ہو۔ ورنہ قیمتی سامان ایسے وقت میں کوڑیوں کے مول ہی بکتا ہے۔ چنانچہ یہاں رہنے والے کم و بیش تمام لوگوں کا طرزِ عمل یہی ہوتا ہے کہ وہ فرسٹ کلاس تنخواہیں لے کر سیکنڈ کلاس زندگی گزارتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ جس طرح کی پرآسائش زندگی گزارسکتے ہیں، اس سے کم درجے کی زندگی اختیاری طور پر گزارتے ہیں۔

خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کی زندگی اُن لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔ وہ لوگ جنھیں یقین ہے کہ ان کا اصلی وطن جنت ہے ۔ اس دنیا میں تو وہ صرف کمانے کے لیے آئے ہیں اور اس کمائی کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے اپنے اصل وطن یعنی جنت کی زمین میں انویسٹ کریں، خدا کی قرضِ حسنہ کی اسکیم میں لگائیں، اللہ کی رحمت کے شیئرز خریدیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی فارن کرنسی محفوظ رکھیں۔ غرض یہ کہ وہ اپنی تمامتر صلاحیتوں اور بہترین مساعی کے ساتھ حشر کے بازار میں سرمایہ کاری کریں تاکہ کل جب اپنے 'وطن' کو لوٹیں تو کوئی پچھتاوا نہ ہو۔

وہ لوگ جو دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر فرسٹ کلاس زندگی گزارسکتے ہوں، کیوں سیکنڈ کلاس زندگی کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس لیے کہ انہیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں ان کے ویزے کی مدت کسی وقت بھی ختم ہوسکتی ہے ۔ اگر ان کی پونجی اس دنیا کے سامانِ عیش و عشرت ہی میں صرف ہوگئی تو اگلی دنیا میں ان کا کیا بنے گا ۔ ان کے عالی شان بنگلے وارثوں کے تصرف میں آجائیں گے، ان کی شان دار گاڑیاں دوسروں کے استعمال میں آجائیں گی، ان کے بڑے بڑے کارخانے دوسروں کے حصے میں آجائیں گے۔ مرنے والوں کو تو اپنے ساز و سامان میں سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملاکرتی ۔ سو جب سب کچھ چھوڑنا ہی ٹھیرا تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خراب چیز چھوڑ کر جائے تاکہ دکھ بھی کم ہو، ورنہ اپنے خون پسینے کی کمائی کو یوں اکارت جاتا دیکھ کر ان کا جی بہت کڑھے گا۔

ہم مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص "خلیج" میں کام کرنے والا ایسا ’’غیرملکی‘‘ ہے جسے خوش قسمتی سے اپنا مستقبل سنوارنے کا ایک موقع مل گیا ہے۔ اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے کچھ بچت نہیں کی تو اپنے "وطن " کو لوٹتے وقت سوائے حسرت و یاس کے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا۔

وہ جنھیں وطن کو لوٹنا ہے، انہیں اس بارے میں کچھ سوچنا چاہیئے ۔ وہ جنھیں وطن کو لوٹنا ہے، انہیں اس بارے میں کچھ کرنا چاہیئے۔

انسانوں کی غمخواری کرنا


انسانوں کی غمخواری کرنا اور دکھ درد میں دوسرے کے کام آنا ایک بہت بڑ ی انسانی خوبی ہے ۔ یہ خوبی اس وقت بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے جب کوئی مصیبت بڑ ے پیمانے پر آجائے اور بہت بڑ ی تعداد میں لوگ کسی پریشانی میں گھر جائیں ۔ اس کی ایک مثال پاکستان میں آنے والا حالیہ سیلاب تھا۔ اس سیلاب سے ہونے والی تباہی کی تفصیلات جب میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے آئیں تو لوگوں کا جذبۂ ہمدری پوری طرح بیدار ہو گیا۔ مہنگائی اور معاشی تنگی کے اس دور میں بھی لوگوں نے اربوں روپے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے جمع کر دیے ۔ بہت سے لوگوں نے اپنے آرام و اسباب کو چھوڑ ا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے انتہائی تکلیف دہ حالات کا سامنا کرتے ہوئے گھروں سے نکل پڑ ے ۔ مرد، عورت، نوجوان، بوڑ ھے ، بچے ، جس سے جو ہو سکا دامے ، درمے ، قدمے ، سخنے ، وہ اس نے کیا۔

دوسروں کے مصائب دور کرنے کا یہی جذبہ تمام سوشل ورک اور خدمت خلق کے کاموں کی بنیاد ہے ۔ اس کام میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ مصیبت زدگان کی مدد کرتے ہوئے تردد کریں ۔ جب انھیں کسی شخص پر اطمینان ہوجاتا ہے تو لوگ جان و مال ہر طرح سے ایسے کاموں کے لیے فعال ہوجاتے ہیں ۔ انسانی ہمدردی بلاشبہ انسانیت کا اعلیٰ ترین وصف ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جو انسانوں کو جانوروں سے افضل اور برتر بناتا ہے ۔

دیگر انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر انبیا بھی خدمت خلق کے میدان میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ ان کے در سے کبھی سوالی خالی لوٹتا تھا اور نہ مصائب زدہ لوگ خود کو تنہا پاتے تھے ۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ سوشل ورک کبھی کسی نبی اور رسول کی زندگی کا مقصد نہیں بنا۔ اس کے بجائے ان کی زندگی کا اصل مقصد روز قیامت اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے خبردار کرنا اور ان اعمال کی ہدایت دینا ہوتا تھا جو اللہ تعالیٰ کے مطلوب اعمال ہیں ۔ کوئی نبی یا رسول اس طرح کی زندگی اور مقصد کے ساتھ جیتا ہوا نظر نہیں آتا جس طرح کا مقصد آج کے بعض انتہائی قابل احترام سوشل ورکر جیسے عبدالستار ایدھی کی زندگی کا ہے ۔

بظاہر یہ بات عجیب ہے ، مگر درحقیقت انبیا کا تمام تر کام لوگوں کی ہمدردی اور خیرخواہی کے لیے ہی ہوتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک عام سوشل ورکر صرف دنیا کے مسائل کو سامنے رکھ کر انسانوں کے ان مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے ۔ جبکہ نبی اور رسول کے سامنے آخرت کی دنیا کے مسائل ہوتے ہیں ۔ عام لوگوں کو دنیا کی محرومی نظر آتی ہے ، خدا کے نبی یہ جانتے ہیں کہ آخرت کی محرومی کا مطلب کیا ہوتا ہے ۔

دنیا میں انسان کے ساتھ پیش آنے والا بدترین سانحہ موت ہوتا ہے ۔ قیامت کے دن خدا کے مجرموں کو ملنے والا عذاب اتنا شدید ہو گا کہ اس روز ان کے لیے موت سب سے بڑ ی خوش قسمتی بن جائے گی۔ دنیا میں معذوری اور آنسوؤں کا مشاہدہ انسانی ہمدردری کے جذبات ابھارتا ہے ۔ انبیا کی نظروں کے سامنے وہ جہنم ہوتی ہے جس کی چمڑ ی ادھیڑ کر رکھ دینے والی آگ نہ جینے دے گی نہ مرنے دے گی۔ عام لوگوں کو غربت و افلاس سب سے بڑ ا مسئلہ لگتے ہیں ، قیامت کے دن سب سے بڑ ا مسئلہ جنت کی ابدی بادشاہی سے محرومی ہو گا۔

انبیا کی سیرت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ بلاشبہ لوگوں کے دنیوی مصائب حل کرنا بڑ ی خدمت ہے ، لیکن انھیں جہنم کا ایندھن بننے سے بچانا زیادہ بڑ ی خدمت ہے ۔ آج بھی جو لوگ اس کام کے لیے اٹھتے اور اس کام میں مالی اور عملی تعاون کرتے ہیں کل قیامت کے دن وہ انبیا کے ساتھ کھڑ ے ہوں گے ۔ انہیں بیک وقت خدمت خلق کا اجر بھی ملے گا اور عبادت رب کا بھی۔ وہ نصرت دین کا اجر بھی دیکھیں گے اور انسانوں کی خیرخواہی کا صلہ بھی پائیں گے ۔

پہلا جملہ


میرے ایک شناساکی دعا کا پہلا جملہ کچھ اس طرح ہوتا ہے:
’’یااللہ ! جس طرح مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر نعمت جو مجھے یا کسی کو بھی ملی ، اس کا دینے والا صرف تو ہے ، اسی طرح مجھے اس بات کا بھی کامل یقین ہے کہ جس کو جو ملا وہ اس کی کسی خوبی کی بنا پر نہیں ملا بلکہ صرف تیری خوبیوں کی بنا پر ملاہے۔ میں تیری ہر نعمت پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تیری ہر خوبی پر تیری حمد بیان کرتا ہوں۔‘‘

بلا شبہ یہ الفاظ معرفت کے الفاظ ہیں۔ یہ اس عظیم حقیقت کا اعتراف ہیں جو عالم میں چار سو پھیلی ہے۔ یہ توحید کی مکمل تعریف ہے۔ خدا کو ایک ماننا جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ اسے ہر نعمت، خوبی اور بھلائی کا سرچشمہ ماناجائے ۔پہلی بات سے پہلو تہی کے نتیجے میں شرک پیدا ہوتا ہے تو دوسری بات کو فراموش کرکے انکارِ خدا یا کم از کم اعراضِ خدا کا ذہن جنم لیتا ہے۔ شرک والی بات سے تواکثر لوگ واقف ہیں مگر دوسری بات کا شعور عام نہیں اس لیے آج کل اکثر لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ خود کو ان گنت نعمتوں کے درمیان پاتا ہے۔یہ نعمتیں اس قدر ہیں کہ انسان ساری زندگی انہیں گنتا رہے تو زندگی ختم ہوجائیگی مگر نعمتیں ختم نہیں ہونگی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کی زبان سے مذکورہ بالا الفاظ نکلیں۔مگرانسان کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ وہ صرف ان نعمتوں کونعمت شمارکرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔ گویا نعمت کا مفہوم اس کے نزدیک یہ ہے کہ وہ بھلائی جو دوسروں کو پہنچی مگر اسے نہ پہنچی۔ یہ سوچ لازماً ایسے اعمال کو جنم دیگی جن کی توقع کسی خدا پرست سے نہیں کی جاسکتی ۔ بلا شبہ یہ رویہ اختیار کرنا انسان کی بدقسمتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے پاس ہر حال میں کھونے کے لیے اتنا کچھ ہوتا ہے جس کے مقابلے میں نہ ملی ہوئی یا مل کر چھن جانے والی چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پر آج کل کا اہم ترین مسئلہ مالی تنگی ہے۔ لوگوں کے اخراجات آمدنی کے مقابلے میں اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے۔ ایسے میں لوگ شکوے شکایات کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے۔ دوسروں اور خصوصاً زیردستوں سے وہ بداخلاقی سے پیش آنے لگتے ہیں۔ آسمان والے سے بھی انہیں رنجش ہوجاتی ہے۔ ان کے مطابق اس نے انہیں دیا ہی کیا ہوتا ہے۔ وہ اس سے بے پرواہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس کی شکر گزاری سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اس کی بندگی سے بے رغبت ہو جاتے ہیں۔

ایسے میں کوئی ان سے دریافت کرے کہ اگر آسمان والا انہیںساری دنیا کے خزانے دیدے اور صرف ان کی آنکھیں چھین لے۔ کیا وہ یہ سودا پسند کریں گے؟ کیا وہ چاہیں گے کہ گاڑیوں میں بیٹھیں لیکن بیساکھیوں کے سہارے؟ کیا وہ لاکھوں روپے کے ایسے بینک اکاؤنٹ رکھنا پسند کریں گے جن کی چیک بکس تو ان کے پاس ہوں مگران پر سائن کرنے والے ہاتھ نہ ہوں؟ کیا وہ چاہیں گے کہ انہیں محل و جائیداد مل جائے لیکن اولاد لے لی جائے؟ کوئی یہ نہیں چاہے گا۔ پھر لوگوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ پچاس سال تک عیش و عشرت کی ایسی زندگی گزارنا پسند کریں گے جس کے بعد، زیادہ نہیں صرف پچاس ہزار سال تک جو آخرت کے ایک دن کے برابر ہیں، آگ میں جلنا پڑے؟

اگر جواب ’’نہیں ‘‘ میں ہے تو پھر ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے گا کہ آپ ایک مہربان کی ناقدری مت کیجیے۔ اس کریم کی احسان فراموشی مت کریں جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتا ہے ۔ جس نے بلا جبر اور بلا استحقاق ہمیں اتناکچھ دیا ہے جو کسی نے دیا ہے نہ دے سکتا ہے۔اس دنیا میں جس کو اچھی اولادملے وہ خوش نصیب گنا جاتا ہے۔ جسے اچھا شوہر یا بیوی ملے ، اچھا استاد ملے، اچھا دوست ملے، اچھا افسر ملے، اچھا ہمسایہ ملے وہ خوش قسمت شمار ہوتا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت بتاتی ہے کہ انسان بڑا خوش نصیب ہے کہ اسے اچھا رب مل گیا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انسانوں کاواسطہ ایک ایسی ہستی سے ہے جس کی طرف سے انہیں ہر حال میں بھلائی ہی پہنچے گی۔اور یہ بھلائی وہ لوگوں کو ان کی خوبیوں کی بنا پر نہیں دیتا۔ اپنی خوبیوں کی بنا پر دیتا ہے۔

زندگی میں اور کچھ نہیں کیا تو قرآن کی صرف اس ایک آیت کو سمجھ لیں۔ یہی ایک آیت ہدایت کے لیے کافی ہے۔ یہی ایک آیت نجات کے لیے کافی ہے۔

کچھ عرصے قبل میڈیا میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا


کچھ عرصے قبل میڈیا میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔ یہ دو بھائیوں کا تھا جو رات کے وقت تازہ قبروں سے مردہ لاشوں کو نکال کر اپنے گھر لے آتے اور پھر ان مردہ انسانوں کا گوشت پکاکر کھاتے تھے۔ پولیس نے ان کو گرفتار کرلیا اور میڈیا پر ان کی تصویریں نشر ہوئیں۔ ساتھ ہی ان کا گھر، مردہ انسانوں کا گوشت پکانے کے برتن وغیرہ سب دکھائے گئے۔ یہ سب کچھ اتنا مکروہ تھا کہ دیکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی حالت غیر ہوگئی۔ کراہیت کے مارے لوگوں کا برا حال ہوگیا۔ لوگ پوچھنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص انسانی گوشت کھانے جیسا مکروہ عمل کرسکے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ایک اور پہلو سے ہم سب انسانی گوشت بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ تنہائی میں چھپ کر نہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں سب کے سامنے کھاتے ہیں۔ مگر نہ ہمیں کراہیت آتی ہے اور نہ کوئی دوسرا ہی ہمیں منع کرتا ہے۔ یہ اجتماعی گوشت خوری غیبت کرنے کا وہ عمل ہے جسے قرآنِ مجید نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے جیسا مکروہ عمل قرار دیا ہے۔

قرآنِ مجید نے کمالِ بلاغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیبت کرنے کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے نہ صرف غیبت کے عمل کی شناعت واضح ہوتی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ غیبت کیا ہے۔ غیبت کسی کے پیٹھ پیچھے اس کے عیب نکالنے کا عمل ہے جب وہ اپنے دفاع کے لیے موجود نہ ہو۔ یہ تشبیہ بتاتی ہے کہ جس طرح کسی مردے کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ جب اس کا گوشت جسم سے کاٹا جائے تو وہ اپنا دفاع کرسکے ٹھیک اسی طرح غیبت کرنے والا دوسرے مسلمان کے عیب اس کے پیچھے بیان کررہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس موقع پر اپنا دفاع کرنے کے لیے موجود نہیں ہوتا اور اس کا سماجی وجود گویا کہ ایک بے جان لاش کی طرح پڑا ہوتا ہے جسے غیبت کرنے والا بے رحمی سے بھنبھوڑ رہا ہوتا ہے۔
غیبت کی اس واضح تعریف کے بعد بعض عملی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ جو برائی بیان کی جارہی ہے وہ واقعتاً اُس شخص میں پائی جاتی ہو تو اُسے بیان کرنے میں کیا خرابی ہے؟ دوسرے یہ کہ اگر وہ شخص اس برائی کو برا نہ سمجھتا ہو پھر بھی کیا یہ غیبت ہے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب ہمیں ایک صحیح روایت میں اس طرح ملتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اُس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے کہ اُسے ناگوار گزرے۔ عرض کیا اگر میرے بھائی میں واقعتا وہ عیب پایا جاتا ہو؟ فرمایا: عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے، اگر وہ عیب اُس میں نہ ہو تو تم نے اُس پر بہتان لگادیا۔‘‘، (مسلم رقم:2589)
معلوم ہو اکہ عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے، اگر عیب واقعی میں موجود نہ ہو لیکن بیان کیا جائے تو بہتان بن جائے گا جو زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی طرح اس روایت سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ایک شخص کسی عیب یا برائی کو برا ہی نہیں سمجھتا بلکہ یہ اس کے نام اور شخصیت کا لازمی حصہ بن گئی ہے تب بھی یہ غیبت نہیں۔ جیسے کسی کو عام حالات میں موٹا یا کالیا کہہ دیا جائے تو وہ برا مانے گا۔ لیکن بعض لوگوں کی پہچان کے لیے اس طرح کے لفظ ان کے نام کا حصہ بن جاتے ہیں جسے وہ خود بھی برا نہیں سمجھتے۔ چنانچہ ان الفاظ سے کسی کا ذکر کرنا غیبت نہیں ہے۔

اس ضمن کا ایک آخری اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا برائی بیان کرنا ہر حال میں ممنوع ہے یا اس سے کوئی استثنا بھی ہے۔ اس سوال کا جواب قرآن مجید یوں دیتا ہے:
’’اللہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کسی کا ذکر برائی کے ساتھ کیا جائے، سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔‘‘، (نساء:4)
اس آیت میں غیبت کا ایک استثنا یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص پر ظلم ہوا ہے تو بہرحال اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی روداد بیان کرے اور ظاہر ہے جس نے ظلم کیا ہے اس کا ذکر برائی کے ساتھ بیان ہوگا۔ یہاں ظلم کا ایک معاملہ بیان ہوا ہے مگر اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ جب عیب جوئی کا مقصد کردار کشی یا مزے لینا نہ ہوبلکہ واقعتا اپنے آپ کو یا دوسروں کو کسی شخص کے ظلم و زیادتی اور برائی سے بچانا یا کوئی اور مثبت بات مقصود ہو تو بھی یہ غیبت نہیں رہتی۔ مثلاً ایک دکاندار کم تولتا ہے تو دوسرے لوگوں کو اس کی اس برائی سے مطلع کرکے انھیں اس کے ظلم سے بچانا چاہیے۔ یا کسی نزاع میں گواہی کے موقع پر صحیح بات بیان کرنی چاہیے چاہے وہ کسی کی برائی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح رشتہ وغیرہ کے موقع پر اگر کسی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو سچی بات بتادینی چاہیے، چاہے وہ کسی کا عیب ہی کیوں نہ ہو۔

یہ اور ان جیسے دیگر کئی امور ایسے ہیں جہاں کسی کی برائی بیان کرنے کا اصل مقصد اپنی بزم آارئی کی لذت کے لیے دسترخوان پر کسی کے سماجی کردار کا گوشت چننا نہیں ہوتا۔ نہ کسی کی کردار کشی کی نیت ذہن میں ہوتی ہے، نہ مزے لینا مقصود ہوتا ہے اور نہ گفتگو برائے گفتگو کی عادت ہوتی ہے۔ بلکہ کسی کو برائی سے بچانا، ظلم و زیادتی کو بیان کرکے انصاف یا مشورہ کا طلبگار ہونا، کسی تحقیق طلب امر میں سچائی بیان کرنا وغیرہ مقصود ہوتا ہے۔ اس میں بھی ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے کہ نہ اندازے سے بات کی جائے اور نہ سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بڑھایا جائے۔ بلکہ اگر کسی کی متعین 
برائی یقینی علم یا واضح قرائن کی بنیاد پر علم میں آئے تبھی اسے سامنے لانا چاہیے۔

ستمبر2011.19 کی صبح کراچی


ستمبر2011.19 کی صبح کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے رہائشی علاقے میں ایک اعلیٰ پولیس افس کے گھر کوایک خود کش حملہ آور نء  باردود سے بھری گاڑی سے نشانہ بنایا ۔ وہ پولیس افسر تو بچ گیا،لیکن متعددمعصوم اور بے گناہ لوگ مارے گئے۔ ان میں سے ایک 8سالہ معصوم معید بھی تھا جو اسکول جاتے ہوئے اپنی ماں کے ہمرا اس حملے میں مارا گیا۔ یہ خط اسی معصوم بچے کو مخاطب کرکے لکھا گیا ہے۔]
معید میرے بیٹے! جب تک یہ خط شائع ہوگا لوگ تمھیں بھول چکے ہوں گے۔لیکن مجھے تو تمھیں خط لکھنا ہی ہے۔۔۔کیونکہ تمھارا  زندگی سے بھرپور چہرہ اور شرارت سے بھری آنکھیں دیکھ کر مجھے اس  پروردگار سے بے انتہا محبت محسوس ہوتی ہے جو اتنے معصوم اور خوبصورت چہرے تخلیق کرتا ہے۔مگر تمھارا کفنایا ہوا وجود، خون آلود تمھاری کتابیں اور لہو رنگ جوتے دیکھ کر مجھے خداکے اس غضب کا اندازہ ہورہا ہے جو جو تمھارے قاتلوں پر بھڑکنے والا ہے۔۔۔ اس لیے مجھے تمھیں تو خط لکھنا ہی ہوگا۔

 تم اگر اپنی نوعیت کے پہلے اور آخری ’ہابیل‘ ہوتے شائد میں یہ خط نہ لکھتا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ ان گنت ’قابیل‘ اس ملک کے گلی کوچوں میں دندناتے پھررہے ہیں۔ موت اتنی ازراں ہے کہ ایک بے گناہ ابھی کفنایا بھی نہیں جاتا کہ دوسرے بے گناہ کا خون مٹی میں رل مل جاتا ہے۔ اب تو میں یہ سوچتاہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نام پر حاصل کیا گیا ملک مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا سب سے بڑاذبیحہ خانہ اور مقتل بن چکا ہے ۔

 معید میرے بیٹے!میں تمھیں یہ خط نہیں لکھتا،اگر تم کسی ڈاکو کے ہاتھوں یا کسی ڈرون حملے میں مارے جاتے۔زمین میں فساد کرنے والوں سے کیا شکایت کی جائے!میں تمھیں مخاطب کرکے یہ خط نہیں لکھتا اگر اسلام کے نام لیوا  خود کش قاتلوں کا یہ آخری حملہ ہوتا۔حیوانی قالب میں ڈھلے ان روبوٹوں سے کیا شکایت کی جائے!ہوا میں اڑنے والے ڈرون ہوں یا زمین میں چلنے والے خود کش روبوٹ۔۔۔دونوں مشینیں ہیں۔ مشینوں  سے کوئی شکایت نہیں ہوتی۔

 میرے بیٹے معید !مجھے نہیں معلوم کہ تین سو کلو  بارود کے دھماکے نے موت سے قبل تمھیں سوچنے کی کتنی مہلت دی ہوگی۔شائد دھماکے اور موت کے درمیان لمحہ بھر سے کم کی زندگی میں تم نے یہ سوچا ہو کہ مجھے اور میری ماں کو کیوں مارا جارہا ہے۔اس آخری لمحے میں  شائدتمھیں یہ غلط فہمی ہوگئی ہو کہ تمھیں ان طالبان نے مارا ہے جنہوں نے اس خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تمھیں شائد یہ غلط فہمی ہوگئی ہو کہ تمھیں اس مشینی روبوٹ نے مارا ہو جس نے تین سو کلو بارود سے بھری گاڑی ایک رہائشی علاقے میں دھماکے سے اڑادی۔ میں تمھیں خط اسی لیے لکھ رہاں کہ تم اپنی یہ غلط فہمی دور کرلو۔ تمھیں ان لوگوں نے نہیں مارا۔ تمھیں ایک سوچ نے مارا ہے جو نفرت کے پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری کچھ نادانوں کی تخلیق ہے۔
 میرے بیٹے معید!یہی سوچ تمھاری اصل قاتل ہیں۔ یہی ہے جو مشینی روبوٹوں کو بتاتی ہے کہ ہدف کے ساتھ بے گناہوں کو بھی ماردو۔یہ سوچ سب سے پہلے مشینی روبوٹوں کا ضمیر قتل کرتی ہے ۔ یہ کہہ کر کہ ان کے دشمنوں کے ساتھ بے گناہ مارے جانے والے جنت میں جائیں گے۔ مگر  نفرت کی پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری یہ سوچ  خداوند ذوالجلال کا یہ حکم چھپا جاتی ہے کہ جس کسی نے کسی بے گناہ مسلمان کو مارا س کی سزا جہنم ہے،جہاں وہ ہمیشہ رہے گا،اس  پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اوروہاں اس کے لیے بہت بڑا  عذاب ہے،(نساء93:4)۔ قاتل نے ایک  انسان کو نہیں مارا پوری انسانیت کو مارڈالا ہے،(مائدہ32:5)۔
میرے بیٹے معید !ایک طرف تمھا ری قاتل، نفرت کی پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری  یہ سوچ ہے اور دوسری طرف کلام الہی جو بتاتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے وقت کفارمکہ کے درمیان موجود مسلمانوں کی بنا پر کفار کو ہلاک نہیں کیا گیا۔اگرصحابہ حملہ کرتے تو کفار کے ساتھ ان کے درمیان موجود معصوم مسلمان بھی مارے جاتے، (فتح25:48)۔دیکھا تم نے کہ  اللہ کے نزدیک  مسلمانوں کی جان کتنی قیمتی ہوتی ہے کہ ان کے لیے کافروں کو چھوڑدیا اور دوسری طرف نفرت کی پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری یہ سوچ ہے جو اپنے دشمنوں کو مارنے کے لیے معصوم مسلمانوں کوبے رحمی سے قتل کردینے  کو بہادری سمجھتی ہے۔
 میرے بیٹے معید!نفرت کی پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری یہی سوچ تمھاری قاتل ہے۔ یہی وہ  مجرم سوچ ہے جو دہشت گردوں کی ہر قتل و غارتگری پر یہ کہہ کر پردہ ڈال دیتی ہے کہ یہ امریکہ کے  ڈرون حملوں کا ردعمل ہے ۔نفرت کی پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری یہ سوچ نہیں بتاتی کہ قتل کا بدلہ اسی قاتل سے لیا جاتا ہے، نہ کہ بے گناہ  معصوموں سے ۔ یہ خائن سوچ آسمان وزمین کے مالک کا یہ حکم نہیں سناتی کہ قصاص کے علاوہ کسی شخص کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ قصاص بھی اسی قاتل سے لیا جائے گانہ کسی اور سے ،(بقرہ178:2)۔
 میرے بیٹے معید!یہی سوچ تمھاری بھی قاتل ہے اور بہت سے دوسرے معصوموں کے قتل کی بھی ذمہ دارہے۔   نفرت کی پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری اسی سوچ نے ایمان و اخلاق میں آخری پستی کا شکار قوم کو اپنے زمانے کی  سپر پاور سے ٹکرادیا۔ یہ جانے بغیر کے اس کا انجام جان، مال اور آبرو کی بربادی کی شکل میں نکلے گا۔ کاش یہ جانتے کہ اللہ کے محبوب انبیا کی یہ کبھی سنت نہیں رہی۔ یہ سنت اگر رہی ہے تو تو خدا کے مغضوب یہودیوں کی سنت رہی ہے۔  نفرت کی پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری یہ سوچ  لوگوں کو یہ نہیں بتاتی کہ ختم نبوت کے بعد امت کے کندھوں پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کے کام کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ہمارا غیر مسلمو ں سے تعلق اب عداوت کانہیں دعوت کا تعلق ہے۔
 میرے بیٹے معید!میں نے تمھاری روشن دیکھیں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسوں بہنے لگے۔ لیکن انہیں آنسوؤں ایک خوشخبری بھی تھی۔ وہ کہ یہ خدا وند دو عالم اس ناپاک  سوچ سے  اپنی زمین کو پاک کرنے کا ارادہ کرچکا ہے۔  نفرت کی پجای اور قرآن و سنت کے فہم سے عاری اس سوچ سے  امت کی فکری امامت چھین  لی گئی ہے۔
 اس سوچ نے بہت خون بہادیا۔۔بہت ہوگیا۔۔۔بس بہت ہوگیا۔اب  اس جھوٹی سوچ کا زمانہ گزرگیا ۔اس کی نفرت کی دکان بند کردی جائے گی۔خدا کے نام پر اپنے ذاتی اور قومی مفادات کی جنگیں لڑنے والی اس ناپاک سوچ کا وقت پورا ہوگیا۔۔ اسلام کا نفرت انگیز تعارف دنیا کو پیش کرنے والی اس سوچ  کا دور پورا ہوگیا۔

 میں یہ خط ختم کررہا ہوں ۔کیونکہ مسجد کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدا آنی شروع ہوگئی ہے۔یہ صدا بتارہی ہے کہ سچی خدا پرستی کا دور شروع ہوچکا ہے ۔ ایمان ،رحم اور ہمدردی جو اسلام کا اصل چہرہ ہے وہی اب دنیا کے سامنے آئے گا۔اسلام کی پرامن،خالص اور سچی دعوت؛ توحید کی دعوت اب لوگوں تک پہنچے گی۔ نفرتوں  کے پجاری سن لیں۔ خداوند دوعالم نے ان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ اب جس میں ہمت ہے وہ آئے اور خدا سے جنگ کرکے دیکھ لے اور جس کا دل چاہے وہ خدا کی طرف سے جنگ کے لیے اٹھ جائے۔  قیامت سے قبل خدا اوراس کے دشمنوں کی آخری جنگ شروع ہوچکی ہے۔یہ جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر ہی ختم ہوگی۔خدا کا ہر دشمن پامال ہوگا۔ خدا کی بادشاہی قائم ہوکر رہے گی۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر۔لاالہ الااللہ۔

یہ لڑکی تو بہت خوبصورت ہے


ہ گاڑی کتنی شاندار ہے‘‘۔’’ یہ لڑکی تو بہت خوبصورت ہے ‘‘۔’’ اُس کا بنگلہ تو زبردست ہے‘‘۔ ’’آج کل یہ فیشن اِن ہے‘‘۔ ’’میں تو گرمیو ں کی چھٹیاں ملک سے باہر ہی گزار تاہوں‘‘۔یہ اور ان جیسے جملوں کے درمیان آج کے انسان کی زندگی گزررہی ہے۔ یہ جملے بتاتے ہیں کہ آج کے انسان نے اپنے لیے جینے کی وہ سطح متعین کرلی ہے جو جانوروں کی سطح ہے۔

جانور اپنی پوری زندگی خواہشات کے پیچھے گزارتے ہیں۔ مگر ان کے لیے یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل کی نعمت نہیں دی ہے۔ وہ صرف بھوک اور جنس کی بنیادی جبلت کے تحت ہی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ انہیں اس دنیا میں جینا ہے اور یہیں ختم ہوجانا ہے۔

اس کے برعکس انسان ایک ہمیشہ رہنے والی مخلوق ہے۔اس کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ باقی ہیں، اس وقت تک وہ ان کے ساتھ رہے گا۔ وہ اللہ کی عبادت کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو ایسی نعمتیں عطا کریں گے جو اس کی آنکھیں ٹھنڈی کردیں گی۔اس جنت میں جانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں رہ کر خدا کی معرفت حاصل کرلے۔ اس دنیا میں خدا مادی آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ایسے میں انسان کا مشن پردۂ غیب میں چھپے رب کو پانے اور اس کی عظمت کے سامنے جھک جانے کا نام ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے انسان کو عقل دی ہے۔ غور و فکر کی صلاحیت دی ہے۔ دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان دیے ہیں۔یہ سب اس لیے دیے گئے ہیں کہ انسان چاند و سورج کی روشنی میں خدا کے نور کو دیکھے۔ سبزے کی ہریالی میں خدا کی ربوبیت کا اندازہ کرے۔ آسمان کی بلندی میں اس کی عظمت کو پہچانے۔ ستاروں کی چمک میں وہ اس کی قدرت کے جلوے دیکھے۔ساون کی برسات میں رب کی رحمت کو دیکھے۔ وہ کائنات میں پھیلی نشانیوں کو دیکھے اور رو رو کر اپنے رب کو پکارے۔ اس کی جنت کا طلبگار بنے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگے۔

مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اپنی عقل اور بصیرت کو خواہش کے اندھے کنویںمیں پھینک دیتا ہے۔ پیٹ ، جنس اور اَنا کے بتوں کو معبود بناکر ساری زندگی ان کے پیچھے دوڑتا رہتاہے۔ یہاں تک کہ موت آجاتی ہے۔ابدی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔ مگر اب ا س کے پاس سوائے ندامت کے کچھ نہیں رہتا۔

یہ وقت بہت لوگوں پر آچکا ہے ۔ آ پ پر آنے والا ہے۔ سو کیاآپ خود کو بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ اپنی عقل و بصیرت کو تسکینِ خواہش کے بجائے معرفتِ رب کا مشن دینے کے لیے تیار ہیں؟

حادیث میں ایک واقعے کا ذکر


حادیث میں ایک واقعے کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ ایک شخص نے حضور کے پیچھے نمازمیں رکوع سے سے اٹھتے ہوئے 'ربنالک الحمد(پروردگار ، حمد تیرے ہی لیے ہے)'کے بعد 'حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ( بہت زیادہ حمد، پاکیزہ اور بڑ یبابرکت) 'کے الفاظ کا اضافہ کر دیا۔ حضور نے اس شخص کے الفاظ پر یہ تبصرہکیا کہ میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کودیکھا ہے کہ ان الفاظ کو لکھنے کےلیے وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے ۔
یہواقعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ زندہ عبادت خدا کے ہاں کیسے مقبول ہوتیہے ۔ہمارے ہاں عبادات ایک رسمی چیز بن کر رہ گئی ہیں ، لیکن درحقیقت یہخدا کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا کر لینے کا نام ہے ۔ یہ تعلق تقاضا کرتاہے کہ انسان مقررہ اعمال و اذکارادا کرنے اور ممنوعات سے رکنے کے علاوہذہنی سطح پر بھی خدا کے ساتھ ایک شعوری رابطہ پیدا کرے ۔ جیسے ہی یہ رابطہپیدا ہوتا ہے ، یہ زندہ کیفیات، احساسات، اذکار اور اعمال میں ڈھل جاتا ہے۔یہ کبھی آنسوؤں کی شکل میں بہہ نکلتا ہے ، کبھی خدا کی عظمت اور کبریائیکے نئے پہلو دریافت کر لیتا ہے اور کبھی اس کی ثناو تمجید اور تسبیح وتعریف کے نئے اسالیب میں ڈھل جاتا ہے ۔
مگربدقسمتی سے جہاں نماز رٹے رٹائے الفاظ کا وہ مجموعہ ہو جن کے معنی نماز پڑھنے والے کو خود معلوم نہ ہوں ، وہاں پر نمازی اپنی طرف سے حمد و تسبیح کاکوئی اضافی جملہ کیسے کہہ سکے گا؟جہاں نماز بے دلی کے ساتھ کی جانے والیاٹھ بیٹھ کا نام ہو وہاں خدا کے حضور آنسوؤں کا نذرانہ کون پیش کرے گا؟جہاں لوگ نماز کے اندر خدا کو یاد نہیں کرتے وہاں نماز سے باہر خدا کو یادرکھنے کی زحمت کون گوارا کرے گا؟ ایسے میں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارینماز کو لینے کے لیے فرشتے آپس میں مسابقت کریں تو ہمیں اپنی نمازوں میںایمانی زندگی پیدا کرنی ہو گی۔

خوبصورت نظرآنا انسان


خوبصورت نظرآنا انسان کی ایک فطری خواہش ہے۔ہر زمانے میں انسان اپنے آپ کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔مگر اکثرلوگ اس معاملے میں افراط و تفریط کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے زیب و زینت کے معاملے میں اس نے انسان کے فطری ذوقِ جمال کو ملحوظ رکھ کر لوگوں کی بالکل صحیح رہنمائی کی ہے۔

ذوق جمال کے اعتبار سے انسانوں کے لیے خوبصورتی کے تین درجات ہیں۔پہلے درجے میں انسان بدبو، غلاظت اور میل کچیل سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ نجاستیں ذوقِ سلیم پر سخت گراں گزرتی ہیں۔گندگیوں کو اپنے سے دور کرکے اورصفائی ستھرائی حاصل کرکے انسان نہ صرف پاکیزگی حاصل کرتا ہے بلکہ خدا کی عطا کردہ فطری شکل و صورت میں لوگوں کو بھلابھی لگتا ہے۔خوبصورتی کایہ وہ درجہ ہے جس کا حصول لازمی ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دین میں کثرت کے ساتھ ایسے احکام ہیں جو صفائی ستھرائی اور پاکیزگی پر مبنی ہیں۔ جیسے ناخن تراشنا، غیر ضروری بال صاف کرنا اور غسل و وضو کے احکام وغیرہ۔ روایت میں بیان ہو اہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک صاحب کے بکھرے بال دیکھ کر اسے بال سنوارنے اور دوسرے کے میلے کپڑے دیکھ کرانہیں صاف رکھنے کی تلقین کی (ابی یعلیٰ رقم:2026)۔

خوبصورتی کا دوسرا درجہ وہ ہے کہ جس میں انسان باقاعدہ زیب و زینت اختیار کرتا ہے۔اس درجہ کا اختیار کرنا محمود و پسندیدہ ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں لباس اور جوتوں کی خوبصورتی کی یہ کہہ کر تحسین کی گئی ہے کہ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے(مسلم رقم:91)۔اس قسم کی زینت میں خواتین بہت اہتمام کرتی ہیں۔لباس کی خوبصورتی ، بالوں کی آرائش، چہرے اور دیگر کھلے رہنے والے اعضاء پر سنگھار اور زیورات وغیرہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔صنف نازک ہونے کی بنا پر ان کا ایسا کرناایک فطری عمل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اہتمام پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ ایک خاص قریبی حلقے میں اس کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی ہے(النور31:24)۔

تاہم خواتین پر اس حوالے سے کچھ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مردوں کے لیے خواتین میں ایک کشش فطری طور پر پائی جاتی ہے ۔خواتین کی اضافی زیب و زینت کا عمل اس کشش میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔اس کشش کو اگر آزاد اور بے روک ٹوک چھوڑدیا جائے تو یہ زنا کے اس جرم تک انسان کو پہنچادیتی ہے جو پورے معاشرتی ڈھانچے کو درہم برہم کردیتا ہے۔چنانچہ سورہ نور کی مذکورہ بالا آیت میں ،مردو زن کے اختلاط کے موقع پر، اللہ تعالیٰ نے دیگر احکام کے ساتھ خواتین کو دو ہدایتیں اضافی طور پر دی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی اوڑھنیوں کے آنچل سے اپنے گریبان اور سینے کو اچھی طرح ڈھانک لیں۔ دوسرے یہ کہ اس موقع پر وہ اپنی زینتیں ظاہر نہ کریں۔ان کو چھپانے کا اہتمام کریں۔

اس معاملے میں خواتین کو دو رعایتیں دی گئی ہیں۔ایک تو وہی جو ہم نے اوپر بیان کردی ہے کہ اخفائے زینت کی یہ پابندی قریبی حلقے کے لوگوں کے لیے نہیں ہے ۔ دوسری رعایت یہ ہے کہ زینت اگر ان اعضا پر ہو جو عادتاً کھلے رہتے ہیں جیسے ہاتھ کی انگھوٹھی ، آنکھوں کاکاجل یا ناک کی کیل وغیرہ تو یہ زینت اِس پابندی کی زد میں نہیں آتی۔

یہ رعایت آسانی کے نقطۂ نظر سے دی گئی ہے مگر اس کے باوجود خواتین پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ ایسے مواقع پر اصل حکم زینت چھپانے ہی کا ہے اس کی نمائش کا نہیں۔چنانچہ قرآن نے اس سلسلۂ احکام کے آخر میں، مثال کے طور پر، صرف ایک چیز کو بیان کردیا کہ خواتین اپنے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں کہ وہاں موجود لوگ ان کی مخفی زینت کے بارے میں جان لیں۔چنانچہ کوئی بھی ایسا رویہ اختیار کرنا جس سے خواتین مردوں کے لیے صنفی کشش پیدا کرنے کا سبب بن جائیںان احکام کی روح کے قطعاً خلاف ہوگا۔

خوبصورتی اختیار کرنے کا تیسرا درجہ وہ ہے جس میںلوگ فطری اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ مثال کے طور پرزیب و زینت میں اسراف کرنا،متکبرانہ انداز اختیار کرنا یا ہر کام سے ہٹ کر ہمہ وقت خود کو جاذب نظر بنانے میں لگ جانا یا پھر انسان کی فطری خلقت میں تبدیلی کرکے خوبصورت بننے کی کوشش کرنا وغیرہ۔ چنانچہ اسی پس منظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں مردوں کو سونا اور ریشم کے استعمال سے منع کیا (احمد:رقم16972) اور صنف مخالف کی مشابہت اختیار کرنے والے مرد و عورت پر لعنت کی ہے (احمد:رقم3151)۔ اس پس منظر میں آج بھی اخلاق اور فطرت کے خلاف خوبصورتی کا کوئی طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔

عید الاضحٰی


عید الاضحٰی کی آمد آمد ہے ۔ہر سال اس موقع پر قربانی کے جانوروں کی بہار آتی ہے ۔ہر گھر میں اِسی بات کاتذکرہ ہوتا ہے کہ گائے خریدی جائے ، بکرا لیا جائے یا کہیں حصہ ڈال دیا جائے ۔جہاں قربانی کے جانور آ جاتے ہیں وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے ۔ جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑ ے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں ۔جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کراپنا بھرم رکھتے ہیں ۔ غرض مقابلہ بازی کی اک فضا ہر جگہ طاری ہوجاتی ہے ۔جو لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ان کا غم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس مقابلے سے کیوں باہر ہیں ۔یا پھر یہ کہ۔ اِس موقع پر’۔گوشت ‘کی خود کفالت میں وہ دوسروں کے محتاج ہوں گے۔

جانوروں کی خریداری کے بعد گھر کے مردوں کی اگلی فکر قصائی کی تلاش اور قربانی کے دن اُس کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔جبکہ خواتین کے سامنے قربانی کے بعد گوشت کی جمع وتقسیم اور پھراُس کے پکانے کے تھکادینے والے مراحل ہوتے ہیں ۔بچے جانوروں کو گھمانے اور کِھلانے پلانے میں مگن رہتے ہیں ۔ان کے اس شوق کا منتہائے کمال عید کے دن ذبح ہوتے جانوروں کا نظارہ ہے ۔غرض یہ کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر دینِ اسلام کی یہ عظیم عبادت لوگوں میں اگر کسی پہلو سے اہم ہے تو وہ محض’ جانور‘ اور اُن کے ’ گوشت ‘کے حوالے سے ہے ۔ دین کے حوالے سے اگر کوئی چیز زیرِ بحث آتی بھی ہے تو وہ قربانی کی عبادت کا تاریخی پس منظر اور اُس کے فقہی مسائل ہیں ۔

دینِ اسلام میں قربانی کی حیثیت ایک عبادت کی ہے ۔اور دینِ خداوندی میں عبادات کی حقیقت یہ ہے کہ اُن کے ذریعے سے بندہ اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتا ہے ۔چنانچہ قربانی کی یہ عبادت بندہ اور اُس کے رب کے درمیان تعلق کا وہ مظہر ہے جسے سرِ عنوان بنا کر وہ اپنے مالک کی خدمت میں اپنا یہ پیام بندگی بھیجتا ہے :
’’ اے پروردگار! آج میں ایک جانور تیرے نام پر ذبح کر رہا ہوں ، اگر تیرا حکم ہوا تو میں اپنی جان بھی اِسی طرح تیرے حضور میں پیش کر دوں گا۔‘‘

در اصل اِس دنیا میں بدنی اور مالی عبادات کے مواقع نماز و انفاق وغیرہ کی صورت میں کثرت سے سامنے آتے رہتے ہیں ، جن سے ہم اپنے پروردگا رکے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتے اور اُسے زندہ کرتے ہیں ، تاہم خدا کے لیے جان دے دینا ’اسلا م‘ (یعنی اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دینے )کا سب سے بلند مقام ہے اور اس کے مواقع شاذ ہی زندگی میں آتے ہیں ۔اِس لیے قربانی کی یہ عبادت اُس کے علامتی اظہار کے طور پر مقرر کی گئی ہے ۔ گویا ایک بندۂ مومن اِس عظیم عبادت کے ذریعے سے اپنے رب کے سامنے یہ اقرار کرتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا ، میرا مرنا سب تیرے لیے ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’ اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی مشروع کی ہے تاکہ اللہ نے اُن کو جو چوپائے بخشے ہیں ، اُن پروہ (ذبح کرتے ہوئے ) اُس کا نام لیں ۔پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے چنانچہ تم اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کر دو۔اور خوشخبری دو اُن لوگوں کو جن کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں ۔‘‘ (الحج34:22)

یہ آیت بتاتی ہے کہ قربانی کی عبادت اپنی جان کو اپنے معبود کی نذر کر دینے کا علامتی اظہار ہے ۔ اس کے ذریعے سے بندہ اپنے وجود کو آخری درجہ میں اپنے آقا کے حوالے کرنے کا اعلان کرتا ہے ۔بندہ مومن کے یہ جذبات اس کے مالک تک پہنچ جاتے ہیں ۔جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ابدی رحمتوں کے لیے چن لیتا ہے ۔مزید براں دنیا میں بھی وہ ان جانوروں کا گوشت انھیں کھانے کی اجازت دے کر انھیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنی جان مجھے دے کر بھی تم مجھے کچھ نہیں دیتے ۔ بلکہ دینے والا میں ہی رہتا ہوں ۔ یہ گوشت کھاؤاور یاد رکھوکہ مجھ سے سودا کرنے والادنیا وآخرت دونوں میں نقصان نہیں اٹھاتا۔

ایک طرف قربانی کی یہ عظیم عبادت اور اس میں پوشیدہ حکمت ہے اور دوسری طرف ہمارا وہ طرزِ عمل ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے ۔ جس میں ایک عام آدمی کا ذہن کبھی بھولے سے بھی قربانی کی اِس حقیقت کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔اِس سے بڑ ھ کر یہ کہ ریاکاری اور نمود و نمائش کا عنصراِس عظیم عبادت میں اِس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ قیامت کے دن انسان کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔قربانی کے ذریعے سے اپنی بندگی کا اظہار تو دور کی چیز ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے ارشاد کے مطابق تو مخلوق کی نگاہ میں نمایاں ہونے کی نیت سے آدمی اگر حقیقت میں بھی اپنی جان دے دے تب بھی روزِ قیامت میں ایسے ’’شہید‘‘ کو جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔

ایک آخری بات اِس ضمن میں یاد رکھنے کی یہ ہے کہ دینِ اسلام کا اصل مقصود انسان کا ’تزکیہ‘ ہے ۔یعنی انسان کو پاکیزہ بنانا۔تاہم قربانی کے اِس عمل میں ہم لوگ نہ صرف جانور ذبح کرتے ہیں بلکہ اسلام کا یہ مقصودیعنی پاکیزگی بھی ذبح کر دیتے ہیں ۔جگہ جگہ گندگی کے جو مظاہر عید الاضحیٰ کے موقع پردیکھنے میں آتے ہیں اس کی توقع کسی اچھے مسلمان سے تو کیا ایک اچھے انسان سے بھی نہیں کی جا سکتی۔قرآن پاک میں قربانی کے جانوروں کے متعلق ارشاد ہوا ہے :
’’اللہ کو تمھاری ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچے گا‘‘ (الحج37:22)

تقویٰ اور بندگی کی دلی کیفیات تو ہمارے ہاں پہلے ہی ناپید ہیں ۔ اس پر مزید ستم ہم یہ کرتے ہیں کہ گوشت اپنے فرج میں رکھ کر ہم ، زبان حال سے ، رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں صرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر بھیجتے ہیں ۔چنانچہ قربانی کے دنوں میں اس کی حکمت و مصلحت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے گھر کی طرح اپنے علاقے کو صاف رکھنا ہماری دینی ذمہ داری ہے ۔ جس کی خلاف ورزی کم از کم ایک دینی تہوار کے موقع پر اور با لخصوص ایک عبادت کو انجام دیتے ہوئے بالکل نہیں ہونی چاہیے ۔

فلسفۂ تاریخ علم


فلسفۂ تاریخ علم کی وہ شاخ ہے جو یہ متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ تاریخ کا دھارا کسی خاص سمت میں کیوں مڑ تا ہے ؟ یہ علم تاریخ میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کی تہہ میں کارفرما عوامل کی کھوج کرتا ہے کیونکہ یہی وہ عوامل ہوتے ہیں جو قوموں کے عروج و زوال کا سبب بن جاتے ہیں ۔ اس طرح ہم ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی پیش گوئی کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔ تاریخ کو واقعات سے بلند ہوکر عوامل کی سطح پر پرکھنے کا کام سب سے پہلے عظیم مسلمان ماہرِ عمرانیات ابن خلدون (1332-1406) نے کیا تھا اور اس سلسلے کا آخری بڑ ا نام عظیم برطانوی مورخ ٹوائن بی Arnold J. Toynbee (1889-1975) کا ہے ۔

ابنِ خلدون نے مقدمہ ابنِ خلدون میں یہ بیان کیا ہے کہ اخلاقی امور قوموں کی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔ وہ اس بات کی تفصیل کرنے کے بعد خلاصۂ کلام کے طور پر کہتے ہیں :

’’جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ملک و سلطنت دینا چاہتا ہے تو پہلے اس کے اخلاق و اطوار کی تہذیب کرتا ہے اور بخلاف اس کے جب کسی قوم سے دولت و سلطنت سلب کرنا چاہتا ہے تو پہلے وہ قوم مرتکبِ مذام (مذموم اوصاف) ہوتی ہے اور فضائلِ پسندیدہ اس سے مفقود ہوجاتے ہیں ۔ اور برائیاں بڑ ھنے سے ملک اس کے ہاتھوں سے نکل کر دوسروں کے قبضہ میں آ جاتا ہے ۔‘‘ (مقدمہ: باب دوم فصل بیس)

ٹوائن بی نے اپنی معرکۃالآرا تصنیف A Study of History تقریباً 27 برس میں مکمل کی۔ مصنف نے اس کتاب میں دنیا کی تاریخ میں اپنی جگہ بنانے والی تقریباً تمام اہم تہذیبوں کا مطالعہ کیا ہے ۔ تہذیبوں کے عروج و زوال کے ضمن میں انھوں نے ایک بنیادی اصول Challenge and Response کے عنوان کے تحت اس طرح بیان کیا ہے کہ تہذیبوں کو اپنی زندگی میں پے در پے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے اور ہر مشکل وہ چیلنج پیدا کرتی ہے جس کے درست جواب ہی میں قوم کے عروج کا راستہ پوشیدہ ہوتا ہے ۔

ان دو عظیم اہلِ علم کی آرا کو پیشِ نظر رکھیے اور یہ دیکھیے کہ ہماری قوم آج کن حالات سے دوچار ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ۔ پاکستان یوں تو اپنے قیام کے بعد ہی سے پے در پے مشکل حالات سے گزرتا رہا ہے ، مگر غالباً اب یہ ملک اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ بدترین دہشت گردی اور معاشی عدمِ استحکام سے گھری اس قوم پر سیلاب کی وہ آفت نازل ہو چکی ہے جس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ بظاہر مرنے والوں کی تعداد 1500 سے 2000 بیان کی جا رہی ہے مگر درحقیقت مرنے والوں کی حقیقی تعداد اس سے کئی گناہ زیادہ ہے ۔ لاکھوں نہیں کروڑ وں لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ، جن کے پیارے ہی نہیں بلکہ ان کے گھر، فصلیں ، باغات اور زندگی بھر کی جمع پونجی سیلاب کی نذر ہو چکی ہے ۔ ملک کے ایک بڑ ے حصے کی زرعی پیداوار تباہ اور انفرا اسٹرکچر صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے ۔ مجموعی طور پر اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ جب سیلاب کا منظر نامہ صاف ہو گا تو واضح ہوجائے گا کہ ترقی کے اعتبار سے ملک کئی عشرے پیچھے جا چکا ہے ۔

اس صورتحال کو دیکھنے کا ایک زاویہ وہ ہے جو ہمارے ہاں کے بعض حلقے پیش کر رہے ہیں کہ یہ عذابِ الٰہی ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ مسجدوں میں آ کر استغفار کریں ۔ اللہ سے استغفار کرنا تو اپنی جگہ بہت محبوب عمل ہے مگر موجودہ صورتحال کو عذاب قرار دینا اللہ تعالیٰ کی سنن کا بہت غلط اندازہ ہے ۔ اس نوعیت کی قدرتی آفات عذاب نہیں ہوا کرتیں ۔ ان آفات میں بیشتر نقصان غریبوں اور کمزوروں کا ہوتا ہے اور اس طرح کی آفات دنیا بھر میں بلاتخصیص رنگ و نسل و مذہب آتی رہتی ہیں ۔ ان دونوں حقائق کی موجودگی میں ایسی آفات کو عذابِ الٰہی سمجھنا درست نہیں ہو سکتا۔ ان کو دیکھنے کا درست زاویہ یہی ہے کہ یہ آفات ایک چیلنج ہوتی ہیں ۔ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ان سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ زندہ قومیں یہی رویہ اختیار کرتی ہیں اور نتیجتاً ایسی عظیم تباہی بھی درحقیقت ان کی ترقی کا سبب بن جاتی ہے ۔

اس پہلو سے جب اس عظیم المیے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ہماری اپنی نا اہلی اور حماقتوں کی سزا ہے ۔ ملک میں آج اگر پانی کے بڑ ے ذخیرے بنانے کا اہتمام ہوتا تو یہی سیلاب نہ صرف شدت میں کم ہوتا بلکہ اگلے کئی خشک برسوں میں بہترین زرعی پیداوار کے حصول اور لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے نجات کا باعث بن جاتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خیبر پختونخواہ کے قوم پرست لیڈر کالا باغ ڈیم کی یہ کہہ کر مخالفت کرتے تھے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ مگر اب تو ہر پختون و غیرپختون کو معلوم ہو چکا ہے کہ نوشہرہ ڈوب چکا ہے ۔ کاش پختونوں میں اتنا شعور ہوتا کہ وہ اپنے قوم پرست لیڈروں کا گریبان پکڑ کر ان سے جواب طلب کرسکتے ۔

سیلاب کی اس شدت کا ایک اور سبب پہاڑ ی جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے ۔ جنگلات سیلاب کی راہ میں قدرتی رکاوٹ ہوتے ہیں ۔ مگر کرپشن کے زہر نے یہ کام اتنا آسان کر دیا ہے کہ جنگلات کی ناجائز کٹائی جیسا کام انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے اعلانیہ جاری رہتا ہے ۔ کرپشن ہی کے ناسور کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا مواصلاتی ڈھانچہ یعنی سڑ ک، پل وغیرہ اتنا ناقص اورکمزور تھے کہ سیلاب کے ساتھ سب کچھ بہہ گیا اور نتیجتاً امدادی کام بہت مشکل ہو گیا۔ یہی معاملہ کمزور دریائی پشتوں کا تھا۔ ان کو مضبوط کر کے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی بہتر تیاری کر کے نقصان کہیں کم کیا جا سکتا تھا۔ مگر اس طرح کی چیزیں ہمارے قومی ایجنڈے میں کبھی جگہ نہ پا سکیں ۔

ہمارے ملک کا سانحہ یہ ہے کہ ہماری حکمران کلاس اور بیوروکریسی کرپٹ ہے اور موجودہ دور میں حکمران کلاس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نا اہل بھی ہے اور بے حس بھی۔ عالمی برادری سے بھیک مانگنے کے بجائے اگر ذاتی ایثار اور بہتر کورڈینیشن اور انتظامی اقدامات کیے جاتے اور عوام میں سیاسی قیادت کا اعتبار قائم ہوتا تو صورتحال اتنی سنگین نہیں ہوتی۔

اس تجزیے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف عذاب کی نسبت کرنے کے بجائے اس آفت کو قدرت کے ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے اور ہونے والے نقصان کو اپنی سیاسی قیادت کی نا اہلی اور اجتماعی بے بصیرتی کا ایک ثبوت سمجھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہمیں اپنے سیاسی لیڈروں کا احتساب کرنا ہو گا۔ قوم پرستوں کے پھیلائے ہوئے تعصبات کے بجائے اجتماعی فائدے کی راہ اپنانا ہو گی۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہو گا۔ ہم نے اگر اس عظیم ترین سانحے کے بعد بھی خوداحتسابی اور اصلاح کی راہ اختیار نہ کی اور گزرے ہوئے واقعات کو بھول جانے کی اپنی روش جاری رکھی تو جلد ہی ہمارا وجود بھی ایک بھولی بسری داستان بن جائے گا۔ یہ قدرت کا قانون ہے ، اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔

جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے تو ان کی ہستی بہت حلیم اور کریم ہے ۔ انھیں عذاب دینے سے زیادہ اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سمجھانے کے لیے اپنے بہترین بندوں کو مقرر کریں جو لوگوں میں ایمان و اخلاق کا صور پھونکیں ۔ جیسا کہ ہم نے ابنِ خلدون کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ جس قوم میں اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جائے ، اس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اخلاقی طور پر پست ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ ہمارے ہر مسئلے کی تہہ میں جو اہم ترین سبب نظر آئے گا وہ اخلاقیات کی پامالی ہے ۔ کرپشن کرنے والے سرکاری ملازمین اور حکمران، مہنگائی کے ذمہ دار تاجر، قومی مسائل کو حل نہ ہونے دینے والے قوم پرست لیڈر، خودکش حملوں میں معصوموں کی جان لینے والے فدائی اور ان کے حامی علما، سب کے سب اصل میں مسلمہ انسانی اقدار کو ذبح کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں ۔

اس سیلاب سے سیکھنے کی اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہی ہے کہ ہمیں مشکلات کے سامنے ڈھہ جانے کے بجائے انھیں چیلنج سمجھ کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ سیاسی قیادت کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کر کے نیا لائحۂ عمل بنانا ہو گا۔ فکری قیادت کو ہر سانحے پر قوم کو عذابِ الٰہی کی نوید سنانے کے بجائے لوگوں میں ایمان و اخلاق کی شمع کو روشن کرنا ہو گا۔ عوام الناس کو بھول جانے کے مرض سے نکل کر احتساب کے اصول پر جینا ہو گا۔ ہم نے اگر یہ کر لیا تو ہم جلد ہی ایک عظیم ملک کے طور پر دنیا کے سامنے ابھر آئیں گے