اس بلاگ کا ترجمہ

Monday, November 5, 2012

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعارف
اگر دنیا کی آزمائش کے فلسفے کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے یہ صبر اور شکر کا امتحان ہے۔ انسان پر یا تو خدا کی نعمتوں کا غلبہ ہوتا ہے یا پھر وہ کسی مصیبت میں گرفتا ر ہوتا ہے۔ پہلی صور ت میں اسے اللہ کا شکر کرنے کی ہدایت ہے تو دوسری صورت میں صبر و استقامت کی تلقین۔ چنانچہ جو لوگ ایمان کے ساتھ شکر اور صبر کے تقاضے پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے وہی لوگ آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔
اکثر علماء کہتے ہیں کہ صبر کے مقابلے میں شکر کا امتحان زیادہ مشکل ہے۔ شکر کے امتحان میں انسان بالعموم خدا فراموشی اختیار کرتا، تکبر کی جانب مائل ہوتا اور دنیا میں زیادہ منہمک ہوجاتا ہے۔زیر نظر مضمون کا مقصد اسی شکر کے امتحان کا جائزہ لینا، ناشکری کی وجوہات معلوم کرنا اور ان سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ہے۔
قرآن ۱۔
اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو۔(البقرہ ۱۷۲:۲)
۲۔ اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں )(الفرقان ۶۲:۲۵)
۳۔ اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا۔ اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو۔ (مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے) کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔(ابراہیم ۳۴:۱۴)
حدیث
حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اسے نے شکر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 3003 )
شکر کی تعریف
شکر کے لغوی معنی نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرارِ کرنا اورکسی کی عنایت یا نوازش کے سلسلے میں اس کا احسان ماننے کے ہیں۔اصطلاحی طور پر اللہ کے شکر سے مراد اللہ کی بے پایاں رحمت، شفقت، ربوبیت، رزاقی اور دیگر احسانات کے بدلے میں دل سے اٹھنے والی کیفیت و جذبے کا نام ہے۔انسان جب شعور کی نگاہ سے انفس و آفاق کا جائزہ لیتا ہے تو اسے اپنا وجود، اپنی زندگی اور اس کا ارتقا ء ایک معجزہ نظر آتا ہے۔وہ اپنے اندر بھوک ،پیاس ، تھکاوٹ اور جنس کا تقاضا پاتا ہے تو خارج میں اسے ان تقاضوں کے لئے غذا، پانی، نیند اور جوڑے کی شکل میں اسباب کو دستیاب دیکھتا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ ساری کائنات اسکی خدمت میں لگی ہوئی ہے تاکہ اسکی زندگی کو ممکن اور مستحکم بنا سکے۔ چنانچہ وہ ان اسباب کے فراہم کرنے والے خدا کے احسانوں کو پہچانتا اور دل سے اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہی ابتدائی مفہوم ہے اللہ کے شکر کا۔ پھر جوں جوں یہ معرفت ارتقاء پذیر ہوتی ہے تو اس تشکر کی گہرائی اور صورتوں میں ارتقاء ہوتا چلا جاتا ہے۔
شکر کی وجہ
اللہ کا شکر کیوں کیا جائے ؟ یہ ایک سوال ہے جو اکثر لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک رسم کے طور پر مانتے ہیں اور کچھ لوگ یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ شکر خداوندی کیوں ضروری ہے۔
۱۔اجتماعی نعمتوں پر شکر کی وجوہات
اجتماعی شکر کرنے کی پہلی وجہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں شفقت اور رحمت ہے جو اس نے انسان کے ساتھ کی ہے۔ صفات رحم و کرم اللہ تعالیٰ کا مخلوق کے ساتھ انتہائی مہربانی، شفقت، رحم، نرم دلی اور سخاوت اور بخشش کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا ، ان میں تقاضے پیدا کئے اور پھر ان تقاضوں کو انتہائی خوبی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے اپنی رحمت، لطف اور کرم نوازی کا اظہار کیا۔چنانچہ کبھی وہ مخلوق پر محبت اور شفقت نچھاور کرتا نظر آتا ہے تو کبھی مخلوق کی بات سنتا، انکی غلطیوں پر تحمل سے پیش آتا، انکی خطاؤں سے درگذر کرتا ، نیکو کاروں کی قدر دانی کرتا اور اپنی حکمت کے تحت انہیں بے تحاشا نوازتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک بندہ جب مشکل میں گرفتا ر ہوتا تو وہ اسکے لئے سلامتی بن جاتا، اسے اپنی پناہ میں لے لیتا، اسکی مشکلات کے سامنے چٹان بن جاتا، آگے بڑھ کر اسکی مدد کرتا اور گھٹاگھوپ اندھیروں میں ہدایت کا نور بن جاتا ہے۔ یہی لطف و کرم اللہ کا پہلا تعارف ہے جو انسان کو اس کے سامنے جھکاتا، اسکا احسان مند بناتا اور اسے شکر پر مجبور کرتا ہے۔
اجتماعی شکر کی دوسری وجہ خدا کی صفت ربوبیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ مخلوقات کو پیدا کرکے ان سے غافل نہیں ہوگیا۔ بلکہ دن رات ان کو ہر قسم کی سہولت فراہم کررہا ہے ۔ وہ سانس کے لئے آکسیجن، حرارت کے لئے سورج کی روشنی، نشونما کے لئے سازگار ماحول، مادی کی نمو کے لئے غذا اور ذائقے کی تسکین کے لئے انواع و اقسام کے میوے اور پھل بنا کر اپنی ربوبیت و رزاقیت کا اظہار کررہا ہے ۔اسی طرح وہ ایک نومولود کو ماں کے پیٹ میں ایک سازگار ماحول اور رز ق فراہم کرتا، دنیا میں آتے ہی ماں کی گود میں اسکی نشونما کا بندوبست کرتا اور دنیا کے ماحول کو اس کی خدمت میں لگادیتا ہے۔
۲۔ انفرادی نعمتوں پر شکر کی وجہ 
اجتماعی شکر کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر شکر کرنے کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بندے کے ساتھ انفرادی معاملہ کرتے اور خاص طور پر اسے اپنی نعمتوں سے نوازتے ہیں تاکہ اسے شکر کے امتحان میں ڈال کر آزمائیں۔انفرادی طور پر شکر کرنے کے درج ذیل مواقع یا وجوہات ہوسکتی ہیں:
۱۔ مال اور جائدا د میں فراوانی پر شکر ۔ یعنی کیش ، بنک بیلنس، مکان، جائداد ، مویشی اور جائداد کی دیگر صورتوں میں فراوانی پر اللہ کا شکر ادا کرنا
۲۔ اولاد میں کثرت یا حسب توقع اولاد کے حصول میں کامیابی پر اللہ کا شکر گذار ہونا
۳۔ بہتر اور اعلی ٰمیعار زندگی پر تشکر ۔ یعنی ایسی زندگی جس میں مادی و روحانی دونوں پہلوؤں سے سکون حاصل ہو۔
۴۔صحت کی بہتری پر تشکر ۔ صحت میں تمام اعضاء کی سلامتی، بیماری سے حفاظت، یا بیماری سے صحتیابی، کسی بھی جسمانی معذوری سے مبراء ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
۵۔ ماں باپ کا سایہ سر پر موجود ہونے پر اللہ کا شکر گذار ہونا
۵۔ تعلیم میں اضافے پر شکر گذار ہونا
۶۔ غیر معمولی ظاہری حسن پر تشکر کرنا
۷۔ اچھے حافظہ اور عقل پر شکر گذار ہونا
۸۔ شہرت اور عزت حاصل ہو نے پر تشکر کرنا۔
۹۔ کسی مصیبت یا بیماری سے نجات پانے پر شکر گذار ہونا
۱۰۔کسی گناہ سے بچنے پر یا نیکی کرنے پر شکر کا اظہار کرنا
۱۱۔ نعمت کا کسی اور صورت میں ملنے پر شکر کرنا
شکر کے امتحان کی آفات
شکر کے امتحان سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ایک شخص کے لئے آسانیاں اور نعمتیں رکھی ہوئی ہیں اور وہ بحیثیت مجموعی جسمانی، روحانی ، نفسیاتی یا دیگر تکالیف سے محفوظ ہے۔ شکر کے امتحان میں درج ذیل مشکلات و آفات پیش آسکتی ہیں:
۱۔نعمت کو آزمائش کی بجائے خدا کا انعام سمجھ لینا
اگر کسی شخص پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہو تو اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو خدا کی رضا سمجھ بیٹھتا ہے اور وہ اس مغالطے میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اللہ اس سے راضی ہے۔ حالانکہ نعمتوں کا اس دنیا میں عطا کیا جانا آزمائش کے اصول پر ہے ناکہ خدا کی رضا اور ناراضگی پر۔
۲۔ تکبر 
خدا کی نعمتیں اگر تواتر کے ساتھ ملتی رہیں تو انسان عام طور پر خود کو دوسروں سے برتر محسوس کرتا ہے ۔ یہ برتری کا احساس ایک حد سے بڑھ جائے تو تکبر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نعمتیں محض آزمائش کے لئے دی گئی ہیں ۔
۳۔نعمتوں کو حق سمجھ لینا
شکر کے امتحان کی ایک اور آفت یہ ہے کہ انسان ملنے والی نعمتوں کو اپنا حق سمجھ لیتا ہے کہ یہ نعمتیں تو اسے ملنا ہی چاہئے تھیں۔ جب یہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے ان نعمتوں کو انسان ایک روٹین کی شے سمجھ لیتا ہے۔ یوں وہ ان کا عادی ہوجاتا اور شکر کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔
ً۴۔ نعمتوں کو معمولی و حقیر جاننا
جب انسان تواتر کے ساتھ کسی نعمت کو استعمال کرتا ہے تو وہ انہیں معمولی اور حقیر سمجھنے لگتا ہے بلکہ وہ انہیں نعمت کی حیثیت سے قبول کرنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتا ہے۔مثال کے طور پر آنکھیں بڑی نعمت ہیں۔ لیکن ان آنکھوں کا استعمال دن اور رات تواتر ہونے کی بنا پر انسان بینائی کی نعمت کو سراہنے سے قاصر رہ جاتا ہے اور وہ ان نعمتوں کو فار گرانٹڈ لے لیتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی جانب ایک نگاہ ڈالیں جو ان انمول نعمتوں سے محروم ہیں۔ اس کے لئے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
۵۔وسیلہ و اسباب کو منعم (نعمت فراہم کرنے والا )سمجھ لینا
شکر کے امتحان کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ اکثر نعمتیں حاصل کرنے والا شخص نعمتوں کے حصول کو اسباب و علل کا کرشمہ قرار دیتا اور ان نعمتوں کے اصل مالک یعنی خدا کی معرفت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ مثال کے طور پر تنخواہ کا حصول کا ذریعہ نوکری کو سمجھا جاتا، پھل اور سبزی کی فراہمی کو کاشتکاری کی مرہون منت مانا جاتا یا کسی اور دینی یا دنیاوی کامیابی سہرا اپنی تدبیر کے سر باندھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسا شخص اسباب کے پردے کو چاک کرکے اسباب بنانے والے کا ہاتھ دیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔
۶۔ نعمتوں کے حصول کو اپنی صلاحیتوں کا مرہون منت سمجھ لینا
ناشکری کی ایک اور وہ یہ ہے انسان دولت، صحت، اقتدار،ترقی اور شہرت وغیرہ حاصل کرنے کے بعد یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ سب کچھ اسکی ذاتی محنت کی وجہ سے ہوا ہے اور اس میں خدا کا کوئی رول نہیں۔ حالانکہ ان میں سے ہر چیز خدا کی عطا کردہ ہے ۔
۷۔ نسیان یافراموشی
انسان کی یادداشت وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دھندلی ہوتی چلی جاتی ہے جسکی بنا پر بھی وہ نعمتوں کا بہتر طور پر شکر ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نوازا۔ چنانچہ وہ اولاد کی پیدائش کے وقت تو خوب اللہ کا شکر ادا کرتا ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ اولاد اسے اللہ نے دعاؤں کے ذریعے عطا کی ہے اور یہ اسی رب کا احسان ہے۔
شکر کرنے کے طریقے
شکر کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔ ایک شخص اپنے ذوق، حالات اور ماحول کے مطابق ان مختلف طریقوں کا انتخاب کرسکتا ہے۔
۱۔زبان سے شکر
شکر کرنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ جب دل میں کسی نعمت کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو اس کا اظہار سب سے پہلے زبان ہی سے ہوتا ہے۔اس کے لئے ضروری نہیں کہ عربی میں ہی شکر ادا کیا جائے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے الفاظ میں شکر گذاری کی کیفیت کو بیان کردیا جائے۔البتہ کبھی کبھی اگر پیغمبر کی مانگی ہوئی شکر گزاری کی دعاؤں پر بھی غور کرلیا جائے تو شکر گذاری کے کئی مضامین ذہن میں آجائیں گے۔
۲۔ نماز کے ذریعے شکر
اللہ کی نعمتوں کی شکر گذاری کا ایک اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ نعمت کے ملنے پر دو رکعت نماز شکرانے کی ادا کی جائے۔اس میں طویل قیام اور مبے سجدے کئے جائیں اور خدا کا شکر ادا کیا جائے ۔
۳۔روزے یا انفاق کے ذریعے شکر
شکر گذاری کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے۔
۴۔عمل کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کے ذریعے شکر
سب سے مشکل لیکن مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کی جائے، اپنی خواہش کو خدا کے حکم کے تحت فنا کیاجائے۔ یہ شکر گذار ی کی حقیقی صور ت ہے کہ اپنے منعم کے احسانات پر ممنون ہوتے ہوئے اس کی کامل اطاعت کی جائے۔
۵۔بندوں کی مدد کے ذریعے شکر
اللہ کے بندوں کی مدد کرکے بھی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر گذاری اختیار کی جاسکتی ہے۔
ناشکری سے بچنے کی تدابیر
ناشکری سے بچنے کے لئے درج ذیل ہدایات کو غور سے پڑھیں
۱۔کائنات پر غور و فکر کرکے اللہ کے احسانات تلاش کرِیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کریں
۲۔ اپنے نفسیاتی، مادی اور دیگرتقاضوں اور کمزوریوں پر غور کریں اور ان کی تکمیل پر اللہ کے شکر گذار رہیں۔
۳۔ جب کوئی غیر معمولی نعمت(جیسے بیماری کے بعد صحت وغیرہ) ملے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی یاد میں تازہ کریں اور اللہ کے احسان مند ہوں۔
۴۔ ہمیشہ نعمتوں کا موازنہ کرتے وقت اپنے سے نیچے والوں پر غور کریں تاکہ اللہ کے شکر کی عادت پیدا ہو۔
۵۔ چوبیس گھنٹوں میں سے دس پندرہ منٹ خدا کی نعمتوں اور احسانات پر غور کرنے کے لئے نکالیں ۔