اس بلاگ کا ترجمہ

Wednesday, December 26, 2012

وضو کی ابتداء: بسم اﷲِ واالحمدُللہ


وضو کی ابتداء:    بسم اﷲِ واالحمدُللہ
جب ہا تھ دہوئیں تو یہ تصور کریں کے میرے ہاتھوں کی ساری خطائیں، عیب، اور گناہ دھل گئے ہیں۔
اسی طرح جب کُرلی کریں تو تصور کریں کی میرے مُہ کی ساری خطائیں، گناہ، بیماریاں، ناپاکیاں ساری کی ساری دھل گئی ہیں اور میں پاک ہو گیا ہوں۔
ہر عضو کو دہوتے وقت یہ تصور کریں کہ  اے اﷲ اس کو ایسا دہو دے کے یہ پھر کبھی ناپاک نہ ہو۔
جب ناک کو دہوئیں تو تصور کریں کے میں ناک کی ساری نافرمانیاں دہو رہا ہوں۔
جب چہرہ دھوئیں تو یہ تصور کریں کی چہرے کی گناہوں کی سیاہی اس وضو کی برکت سے دھل گئی ہے۔
یا اﷲ میرے وضو کے اضا ء کو قیامت کے دن اس وضو کی برکت سے چمکا دینا۔
جب پائوں دھوئیں تو بھی یہی تصور کریں کہﷲ میرے پائوں کی خطائیں اس وضو کی برکت سے دھل گئی آئندہ بھی ان کو خطائوں سے پاک کر دے۔
اےاﷲ میرے پائوں نیکی کے کاموں کی طرف چل کر جائیں نافرمانیوں کی طرف چل کر نہ جائیں۔
یہ وضو اﷲ کے دھیان والا وضو ہے مراقبہ والا وضو ہے۔

ایک مرتبہ میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ صبح اپنے کام پر جانے سے بیشتر 15،20 میل کا چکر کیا کرتا تھا۔ اس مشق کو کرتے کرتے میرا یہ یقین اور بھی مضبوط ہوگیا کہ سچ مچ ہی ٹہلنا خاص طور سے مفید ہے۔ اتنا تندرست میں کبھی بھی نہیں رہا جتنا میں ان دنوں میں تھا
سیر کے تجربات لکھتے ہوئے میکفیڈن لکھتا ہے: اگر آپ اپنی صحت کو ٹھیک اوربرقرار رکھنا چاہتے ہیں یا کھوئی ہوئی صحت کو ازسر نو حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں تو باقاعدہ سیر کرنا شروع کردیجئے۔ دیگر ورزشیں آپ بے شک چھوڑ دیں لیکن یہ ورزش یعنی ٹہلنا آپ کبھی نہ چھوڑئیے۔ آپ خواہ کوئی بھی پیشہ کیوں نہ کرتے ہوں اور آپ اپنے اعضاءکے ارتقاءکیلئے خواہ دوسری کتنی ہی قسم کی ورزشوں کے عادی کیوں نہ ہوں دن بھر میں کچھ دیر سیر کرنے کا پروگرام ضرور بنائیے۔ ایک مرتبہ میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ صبح اپنے کام پر جانے سے بیشتر 15،20 میل کا چکر لگایا کرتا تھا۔ اس مشق کو کرتے کرتے میرا یہ یقین اور بھی مضبوط ہوگیا کہ سچ مچ ٹہلنا خاص طورپرصحت وتندرستی کیلئے ازحد مفید ہے۔ اتنا تندرست میں کبھی بھی نہیں رہا جتنا میں ان دنوں میں تھا جب میں پندرہ بیس میل کا چکر روزانہ کاٹا کرتا تھا۔ برعکس حالات میں بھی اگر آپ تیزی کے ساتھ تین چار میل ٹہل لیں تو اس سے فائدہ ہی ہوگا لیکن جوتا پہنے یا بغیر جوتا پہنے جیسے آپ کی طبیعت ہو نکل جائیے۔ اس وقت ایک تو باہر نکلنے والے ہی بہت کم ہوتے ہیں اور جو ہوتے ہیں وہ اپنے کام کاج میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں آپ کی پوشاک کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں رہتی۔ میں اکثر ایک بغل میں کوٹ اور ٹوپی دوسرے ہاتھ میں جوتا دبا کر ننگے پاوں گھومنے کیلئے نکل جایا کرتا ہوں اور پھر جب بھلا آدمی بننے کی ضرورت سمجھتا ہوں سڑک کے کنارے نزدیک کسی جگہ پاوں کی گرد دھو کر کوٹ ٹوپی اور جوتا ڈال لیتا ہوں اور مہذب سوسائٹی کے افراد میں شامل ہوجاتا ہوں۔
چلنے میں بہت تیز چال سے نہیں چلنا چاہیے۔ گھنٹے بھر میں ساڑھے تین میل چلنے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اور مسرت مل سکتی ہے۔ اگر آپ اس سے تیز چلیں گے تو جلدی تھک جائیں گے اور اس ورزش سے خاص فائدہ نہ اٹھاسکیں گے۔ اپنے قدم رکھنے کیلئے آپ اس بات کی کوشش کیجئے کہ آپ کا ہر قدم اس قدم سے بڑا ہو جس سے چلنے کے آپ معمولی طور پر عادی ہیں۔ بلاشک و شبہ یہ بات سچ ہے کہ زیادہ تر لوگ چلتے وقت گھبرائے سے رہتے ہیں۔ ان کا قدم جھٹکے کے ساتھ پڑتا ہے اور اس میں یکسانیت نہیں ہوتی اگر وہ لمبے لمبے قدم رکھنے کی کوشش کریں تو وہ تھوڑے سے وقت میں کم کوشش سے زیادہ دور جاسکیں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ انہیں جو تھکاوٹ ہوگی وہ اس تھکاوٹ سے کہیں زیادہ قدرتی ہوگی جو چھوٹے قدم رکھنے میں ہوتی ہے۔ شروع شروع میں ایک دو میل چلنا کافی ہوگا۔ زیادہ لمبی سیر کرنے سے بیشتر چلنے کی پوزیشن درست کیجئے ہم کتنی دور چل سکتے ہیں۔ اس بات کا امتحان نہ کرنا ہی بہتر ہے ۔ہمارا مقصد اپنی سنجیونی طاقت کو بڑھانا ہے نہ کہ مسافت کو بڑھانا۔ ٹہلنے کا یہی خاص مقصد ہے اگر آپ بہت دبلے ہیں تو ٹہلنے سے آپ کی بھوک بڑھے گی اور کچھ دنوں میں آپ کا وزن بھی بڑھ جائے گا اگرچہ سیر شروع کرنے کے ایک یا دو ہفتے تک آپ کا وزن کچھ کم ہوجائے گا لیکن بعدازاں جلد آپ کا وزن ضرور ہی بڑھے گا۔ ہاں! یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سیر کرنے سے انسان نوجوان بنا رہتا ہے۔

وزن کم رکھئے
اگر کوئی شخص بہت موٹا ہے یا اس کا گوشت بہت ملائم ہے تو لمبی چہل قدمی سے اس کا وزن خودبخود کم ہوجائے گا۔اگر معمول سے آپ کا وزن 14 کلو زیادہ ہے تو پھر آپ کے امراض قلب، ذیابیطس، پتے کی پتھری اور گھنٹیا میں مبتلا ہونے کے خطرات بھی زیادہ ہیں۔ 1997ءمیں ہونے والی تحقیق کے مطابق وزن کم کرنے کا سب سے موثرطریقہ حراروں میں کمی ہے۔ ورزش کے ساتھ ساتھ اپنی غذا میں حراروں کی تعداد گھٹایئے۔ آئندہ پانچ سال میں آپ کے وزن میں 14کلو کمی ہو جائے گی اور آپ یوں مذکورہ امراض سے بچ جائیں گے۔شاید 14کلو وزن کم کرنا آپ کو مشکل لگ رہا ہے، لیکن اگر آپ نے 5کلو وزن بھی کم کر لیا تو کم از کم ہائی بلڈ پریشر سے آپ کو نجات مل جائے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ ذیابیطس کا خطرہ بھی ٹل جائے۔ 

تمباکو سے نجات پایئے
تمباکونوشی سے پرہیز کیجئے کیونکہ اس سے پھیپھڑوں‘ منہ اور معدے اور غذا کی نالی کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ امریکہ کے نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اگرچہ 30سال پہلے تمباکو نوشی ترک کرنے کے باوجود پھیپھڑوں کے سرطان کا خطرہ موجود رہتا ہے لیکن یہ خطرہ تمباکو نوشی جاری رکھنے والوں کے مقابلے میں بہت کم ہو جاتا ہے۔خوش قسمتی سے تمباکو نوشی کا استعمال ترک کرنے کے بعد خون کی رگیں اور قلب کے ریشے بڑی تیزی سے اپنی اصلاح کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ 60 اور 70 سال کے لوگوں کو بھی تمباکو نوشی ترک کرنے سے فائدہ ہوتا ہے اور دو سال کے اندر ان کے حملہ قلب سے ہلاک ہونے کا خطرہ 50 فیصد گھٹ جاتا ہے۔

پرسکون رہئے
سیراورورزش کو اپنی زندگی کا معمول بنائیے اور اپنے آپ کو غصے، نفرت، حسد اور رقابت وانتقام جیسے منفی جذبات پر قابو پانے کا گر سیکھانے کی مشق کریں۔ مراقبہ اور عبادت اس کا بہترین حل ہے ان کے ذریعے سے ان خیالات کا تدارک سو فیصد ممکن ہے۔ منفی خیالات وجذبات کے دماغ اور قلب کی صحت پر بڑے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک امریکی یونیورسٹی میں ہونے والے ایک مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ قلب کے جو مریض اپنے ان جذبات پر قابو پانے کا گر پا لیتے ہیں، ان کے قلب کے عضلات آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ناکارہ ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ قصہ مختصر، بات بالکل صاف ہے کہ اگر آپ واقعی بہتر صحت کے خواہاں ہیں تو آپ کی عادات میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

مشکلات کا سامنا


مشکلات کا سامنا سبھی کو کرنا پڑتا ہے۔ زندگی میں کسی نہ کسی وقت مشکل یا پریشانی ہر ایک کو پیش آتی ہے۔ اگر دوچار پریشانیاںجمع ہوجائیں تو کہا جاتا ہے کہ مصائب کاپہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ مشکلات اور برے دنوں سے نجات کی تمنا کس کو نہیں ہوتی۔
جب ہم کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے کوشش کی راہ میں کئی قسم کی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں جب ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی قدرت ہم میں نہیں رہتی تو ہم جھنجھلاتے ہیں اور ہمت ہار بیٹھتے ہیں جہاں ہم نے ہمت ہاری بس سمجھ لیجئے رائی بھی پہاڑ بن گئی اب پہاڑ ہم کیسے عبور کریں؟ کیسے کرنے کی بات تو بعد میں پیدا ہوگی‘ پہلے یہ بات ذہن میں اچھی طرح محفوظ کرلیجئے کہ اس پہاڑ کو تو عبور کرنا ہی پڑے گا کیونکہ یہ راستے میں حائل ہے جو کامیابی تک پہنچتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ اس پہاڑ کو عبور کرنے کا خیال دل سے نکال دیں گے تو پھر یقین کیجئے کہ مصیبتوں سے چھٹکارا پانا آپ کے بس کی بات نہیں رہے گا۔
مشکلات آپ کو اس وقت تک مصروف رکھتی ہیں جب تک آپ ان سے چھٹکارا حاصل نہ کرلیں جب تک آپ کے اندر مستقل عمل کی کیفیت پیدا نہ ہو اور آپ یکسو نہ ہوں اس وقت تک سکون ممکن نہیں۔ چنانچہ مشکلات کا ذکر بعض اوقات بے معنی سالگتا ہے۔ ان کا مقابلہ ہی آپ کو ان پر کامیابی اور فتح سے ہمکنار کریگا۔
مشکلات صرف اپنے ہی لیے عمل کرنے پر نہیں آمادہ کرتیں بلکہ دوسروں کے آڑے وقت میں کام آنے کیلئے بھی آمادہ کرتی ہیں۔ پھر یہ بھی کہ آپ نے جو کچھ عمل کیا ہے اس کا جائزہ لینے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ اب تک آپ نے اپنی دقتوں پر عبور حاصل کرنے کیلئے کون سی راہیں اختیار کی ہیں کن سے آپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور کتنی ناکامی‘ ناکامی کی وجوہ کیا تھیں اور آپ ان سے کیوں کربچ سکتے ہیں؟
مشکلات آپ کو بتاتی ہیں کہ آپ کاماحول ان کے پیدا کرنے میں اور ان کو دور کرنے میں کتنا دخل رکھتا ہے۔ آپ اپنے اس گردوبیش کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے اور اپنی راہ آپ پیدا کرنے کیلئے کون سا طریقہ اختیار کریں۔ مشکلات آپ میں ہمت‘ برداشت اور صبر کی قوت پیدا کرتی ہیں۔ جتنی بڑی مشکل ہوگی اتنی ہی زیادہ یہ قوتیں آپ میں پیدا ہوں گی۔ مشکلات سے آپ یہ بھی سیکھتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر آنے والی مصیبتوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
مشکلات: شاید آپ کو اعتبار نہ آئے کہ آپ کے اندر اچھے اخلاق اور روحانی قوت پیدا کرتی ہیں۔ آپ میں ارادے کی پختگی‘ کامیابی کی امید‘ صبروسکون کے ساتھ مقابلے کی صلاحیت‘ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے احتیاط کو پیش نظر رکھنے اور مستقل مزاجی اور تدبر اختیار کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔
ان صفات کی قدر اگر آپ کے دل میں ہے تو یہ مت سوچئے کہ مشکلات اور مصائب آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے ہی آتے ہیں۔ بہت کچھ کھو کر کچھ پانے کا انسانی تجربہ تو بہت پرانا ہے۔ مصیبت کے وقت میں آپ بھی یہی کرتے ہیں پھر اس سے آخر فرق کیا پڑتا ہے جو آپ اپنے دکھوں پر چیخ اٹھتے ہیں؟ یہ چیخ اٹھنا اور ناکامی پر پیچ وتاب کھانا توآپ کی شکست کی دلیل ہے۔ آپ اپنے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں بلکہ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ آپ صرف تمنائیں رکھتے ہیں۔ تمناؤں میں سے مناسب اور قابل عمل کا انتخاب اور ان کیلئے جدوجہد کرنا اپنا کام نہیں سمجھتے۔ پھر آپ ہی بتائیے کہ آپ کی تمناؤں کو کون پورا کرے؟ کیا دوسروں کے پاس اپنی تمنائیں نہیں؟ پھر آخر آپ کے لیے خود سے کون دست بردار ہوجائے؟
ہاں! ایک پہلو سے اور بھی سوچیے! کیا آپ کا محض چیخ اٹھنا اور پیچ وتاب کھانا آپ کی خواہش کو پورا کردے گا؟ اگر نہیں تو اٹھیے اور عمل کیجئے مشکلات سے چھٹکارا پانے کی راہ تلاش کیجئے۔
جب آپ کے سرپر مشکلات منڈلانے لگیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ عقل مندی تو یہ ہے کہ جب آپ طوفان میں گھر جائیں تو بے خوف ہوکر اس کا مقابلہ کریں۔ اس مقابلے کیلئے ضروری ہے کہ آپ پوری توجہ اور غور کے ساتھ پیش آمدہ مشکل کا جائزہ لیں اور پھر اپنے لیے ایک راہ عمل متعین کریں۔ آپ کے جائزے کا اندازہ کچھ اس طرح ہونا چاہیے:۔
٭ اس مشکل کے پیش آنے کا اصل سبب کیا تھا؟
٭ کہیں اس کا اصل سبب آپ خود تو نہیں تھے؟
٭ آئندہ اگر ایسے مواقع درپیش ہوں تو آپ کیا احتیاطی تدابیر اختیار کریں گے تاکہ آپ کو ایسے سخت حالات کا مقابلہ پھرنہ کرنا پڑے۔
٭ اس مشکل کے مقابلے کا کارگر طریقہ کون سا ہے؟
٭ کیا آپ اس وقت کوئی ایسا طریقہ اختیار کرسکتے ہیں جس سے آپ کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے؟
٭ کیا یہ مشکل کی گھڑی آپ کو آپ کی زندگی کیلئے کوئی اچھا سبق دے سکتی ہے؟

میرے ایک مولوی صاحب


میرے ایک مولوی صاحب سے کافی اچھے تعلقات تھے‘ کبھی کبھی ہماری ملاقات ہوتی رہتی تھی‘ ان کے پاس اکثر یرقان کے مریض آیا کرتے تھے وہ دم کرتے تو مریض ٹھیک ہوجاتے۔ ان کی کافی دور دور تک شہرت تھی۔ میں نے ایک دفعہ ان سے عرض کی کہ یرقان کی دوا تو مجھے معلوم ہے لیکن یہ جو آپ حیلہ کرتے ہیں یہ معلوم نہیں۔ اگر ممکن ہوسکے تو بتادیں۔ خوشی سے اجازت دیں تو ٹھیک ہے ورنہ میری مجبوری نہیں۔ مولانا صاحب ہنس پڑے اور فرمانے لگے کہ ہم سادے لوگ ہیں اور سادہ لوح غریب اور مسکین میرے پاس آتے ہیں۔ میں حیلہ کرتا ہوں اللہ شفا دے دیتا ہے۔ آپ لوگ کہاں ان چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ ہمیں جو لوگ پڑھے لکھے ہیں ٹونے ٹوٹکے والے کہتے ہیں۔ اگر آپ کو شوق ہے تو لکھ لیں اور عمل کریں۔ آپ کی دوائی پر خرچ بھی ہوگا اور محنت بھی۔ مگر اس حیلہ پر چند منٹ لگ جائیں گے دوسرا تماشا بھی دیکھ لیں کہ ہمارے حیلہ سے وقتی طور پر یعنی ظاہری طور پر کیسے اثر مرتب ہوتے ہیں اور مریض کس طرح ٹھیک ہوتا ہے جبکہ حکیم اور ڈاکٹر جگر اور تلی کے طرح طرح کی ادویات دیتے ہیں اور ڈرپ لگاتے ہیں کھانے پینے کا پرہیز سخت ہوتا ہے ہمارے حیلہ میں کوئی پرہیز نہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ مریض کیسے ٹھیک ہوگیا؟؟؟
عمل: تین جمعہ عمل کرنا ہے‘ مریض کوننگے پاؤں زمین پر بٹھالیں‘ پاؤں ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوں یعنی پاؤں کے بل۔
پیالی میں سرسوں کا تیل اور پانی ملا کر (نصف پیالی یا ذرا زیادہ) بیمار کے ہاتھ میں دیں اس کو کہیں کہ پیالی پاؤں کے اوپر رکھ کر ہاتھ میں پکڑے۔ کھبل (ایک گھاس ہوتی ہے جس کی جڑیں اِدھر اُدھر ہوتی ہیں) کی جڑیں اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ گیارہ دفعہ درودابراہیمی جو نماز کے آخر میں پڑھا جاتا ہے پڑھ کرپیالی میں پھونک ماریں اور کھبل کی جڑوں سے تیل کو خوب ہلاتے رہیں۔ پھر مریض کو کہیں کہ وہ پیالی پاؤں سے اٹھا کر زانوں گھٹنے(عام زبان جنوں) پر رکھ کر پکڑے۔ اسی طرح گیارہ دفعہ درودشریف پڑھ کر کھبل کی جڑوں سے تیل کو خوب ہلائیں اس کے بعد مریض کو کہیں کہ پیالی اٹھا کر سر پر رکھے اور یہی عمل دہرائیں۔ تیل زرد ہوتا جائیگا اور انڈے کی زردی کی طرح نظر آئیگا۔ انشاء اللہ تین جمعہ یہ عمل کرنے سے مریض یرقان سے شفاء یاب مکمل گارنٹی سے ہوجائیگا۔ تیل کو ہربار پھینک دیں۔ پاؤں‘ گھٹنے اور سر پر رکھنے کے بعد دوسرے جمعہ نیا تیل استعمال کریں۔ میرے سامنے مولوی صاحب نے یہ عمل مجھے یقین لانے کی خاطر کیا تھا۔
دوسرا عمل برائے یرقان: میرے اپنے قریبی رشتہ دار جو ماشاء اللہ90 سال سے زائد عمر کے ہیں‘ یرقان کے بیماروں کو ایک گٹ دیا کرتے ہیں جو گلے میں ڈالنے سے شفاء کا ذریعہ بنتا ہے‘ کسی سے کسی قسم کا شکرانہ نہیں لیتے‘ گٹ دینے کے بعد مسجد میں توفیق کے مطابق صحت یاب ہونے کے بعد دینے کا فرماتے ہیں۔عمل: اٹ سٹ کی جڑ کا یا ٹہنی (شاخ) کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لیں‘ چند دھاگے ملا کر ڈوری بنالیں جو مریض کے گلے میں باآسانی باندھی جاسکے‘ ڈوری کے درمیان میں اٹ سٹ کا ٹکڑا رکھیں اور گانٹھ لگائیں جب گانٹھ مضبوط یعنی کسنے لگیں اس وقت سلام قولا من رب الرحیم سات دفعہ پڑھ کر پھونک مار کر گانٹھ (گرہ) کس دیں تاکہ مضبوط ہوجائے اور نکل نہ سکے۔ اس کے بعد ڈوری کے دائیں جانب ایک گرہ ایک آدھ انچ کے برابر لگائیں جب کسنے لگیں تو سات دفعہ یہی آیت پڑھ کر گرہ یا گانٹھ مضبوط کریں۔ دائیں جانب دو اور اسی طریقہ سے اور بائیں جانب تین۔ اسی طریقہ سے پڑھ کر گرہ یا گانٹھ لگادیں۔ ایک درمیان میں اور تین دائیں اور تین بائیں طرف ہوں۔ کل سات ہوں گی۔ پھر وہ ڈوری مریض اپنے گلے میں بسم اللہ پڑھ کر ڈال دے۔ ایک ہی دفعہ عمل کرنے سے مریض صحت یاب ہوجاتا ہے اور پھر بھی ضرورت پڑے تو دوبارہ لے لے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میں نے اجازت طلب کی تو انہوں نے بڑی خوشی سے اور محبت سے اجازت بھی دی اور سارا طریقہ بھی سکھایا۔
احقر نے صرف ایک دفعہ ایک بیمار کو ڈوری بنا کردی۔ کچھ یقین نہ بھی آتا تھا کیونکہ اپنے اعمال تو معلوم ہوتے ہیں جبکہ عمل کرنے والے بڑے پارسا تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ جیسے گنہگار کے ہاتھوں بھی شفا دیدی۔ بڑی خوشی محسوس کی اللہ کا شکر ادا کیا۔ جناب میری طرف سے ان دونوں اعمال کی ہر مسلمان مرد اور عورت سب کو اجازت ہے۔ مجھے اللہ پاک پریقین ہے کہ عمل کرنے والے کو مایوس نہیں ہونے دیگا۔

وہ آج بہت خوش تھا



وہ آج بہت خوش تھا اور خوش کیوں نہ ہوتا۔ آج اسے برسوں پرانے سپنے کی تعبیر مل گئی تھی۔ وہ خوشی سے سرشار اپنے گھر میں داخل ہوا اور اپنی ماں سے لپٹ گیا۔
” امی! میں کامیاب ہوگیا۔ مجھے ائیر فورس میں پائلٹ کے طور پر منتخب کرلیا گیا ہے”۔
ماں اس کی بلائیں لینے لگی اور دعا دینے لگی۔ وہ ماں کو یہ خوشخبری دینے کے بعد بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگا تاکہ جلد از جلد رپورٹ کرکے اپنی ڈیوٹی جوائین کرسکے۔ ابھی مغرب ہی ہوئی تھی اور اسے پوری رات کاٹنی تھی۔ اس نے سوچا کہ کل دفتر جانے کے لئے کچھ اچھے کپڑے خرید لے۔ چنانچہ وہ ایک دوست کے ساتھ بازار گیا اور شاپنگ میں مصروف ہوگیا۔ ابھی و ہ دوکاندار سے بھاؤ تاؤ میں مصروف ہی تھا کہ اس کے کانوں میں ایک شدید دھماکے کی آواز آئی۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ چھت اس کے سر پر گرگئی ہو۔ پھر اس کا دماغ تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
جب ہوش آیا تو ابتدا میں کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ جب غور سے دیکھا تو علم ہوا کہ وہ اسپتا ل میں ہے۔ اس نے گھبرا کر اٹھنے کی کوشش کی تو درد کی ٹیسوں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر و ں کی ایک ٹیم داخل ہوئی۔ ان کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی جس کی آنکھیں رونے کے باعث سوجھ چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا ، ایک ڈاکٹر اس سے مخاطب ہوا۔
“مسٹر وقاص! آپ بازار میں ایک بلاسٹ کا شکار ہوگئے تھے۔ اس میں کئی جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ بچ گئے ہیں۔ لیکن ایک بری خبر یہ ہے کہ بلاسٹ میں آپ کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوچکی ہیں”۔
وقاص کے لئے یہ دھماکہ پہلے والے بلاسٹ سے شدید تر تھا۔ وقاص کی دنیا ویران ہوچکی تھی۔ دن گذرتے گئے لیکن وقاص مایوسی اور پژمردگی میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ اس کا وجود ایک زندہ لاش کی مانند تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ مر کیوں نہیں گیا۔ لیکن اس قسم کی سوچوں سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے بڑھنے لگا۔ وہ ایک دن اسی مایوسی کے عالم میں کتاب کے صفحات پلٹ رہا تھا کہ ایک دعائیہ جملے نے اس کی توجہ مبذول کرلی۔ وہ بار بار ڈاکٹر ربن ہولڈ کےاس جملے کو پڑھنے لگا۔
” اے اللہ ! مجھے اتنی عقل عطا فرما کہ میں ان حالات سے سمجھوتہ کرلوں جنہیں بدلنے پر میں قدرت نہیں رکھتا”۔
اس جملے نے اس کی زندگی بدل دی۔اس نے سوچ لیا کہ یہ ٹانگیں واپس نہیں آ سکتیں اور نہ ہی اسے پائلٹ کی نوکری دوبارہ مل سکتی ہے۔ لیکن دنیا دو ٹانگوں اور پائلٹ کی ملازمت پر ہی ختم نہیں ہوجاتی۔ چنانچہ اس نے ایک گھر کے قریب ایک کالج جوائین کرلیا اور درس و تدریس میں مشغول ہوگیا۔
آج کئی برس بعد اس کی بیوی بھی ہے اور بچے بھی۔ وہ اپنے بچوں کو خوش و خرم لہجے میں یہی درس دیتا ہے کہ ” جس حقیقت سے فرار ممکن نہیں اس حقیقت کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرو”۔
وضاحت:
زندگی میں ہمیں دو طرح کی ناخوشگوارحقیقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک وہ معاملات ہیں جنہیں ہم بدلنے پر قادر ہیں جیسے بیمار ہونے پر دوائی کھانا۔ دوسری جانب وہ امور ہیں جو ناخوشگوار تو ہیں لیکن ہم انہیں بدلنے پر قادر نہیں۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ ہی عقل مندی ہے۔ مثال کے طور پر معذوری، بدصورتی، کسی عزیز کی موت، کوئی مالی محرومی، کسی قیمتی شے کا کھوجانا وغیرہ۔ ان تمام معاملات میں اگر کوئی شخص خود کو ایڈجسٹ نہ کرپائے تو زندگی مشکل تر ہوجاتی بلکہ جہنم بن جاتی ہے۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ کرکے آگے کی طرف دیکھنا اور مثبت زندگی کا آغاز کرنا ہی واحد چارہ ہوتا ہے۔ایلسی میک کارمک کا کہنا ہے کہ جب ہم کسی ناگزیر صورت حال سے جنگ کرنا ترک کردیتے اور اسے قبول کرلیتے ہیں تو ہم وہ توانائی حاصل کرلیتے ہیں جو ایک کامیاب اور بھرپور زندگی کے لئے ضروری ہے۔
لیکن اس ضمن میں عام طور پر افراط و تفریط ہوجاتی ہے۔ چنانچہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آیا یہ حقیقت بدلی جاسکتی ہے یا نہیں۔ نیز کیا اس واقعہ کا ذمہ فرد خود ہے یا حالات۔ مثا ل کے طور پر ایک طالب علم امتحان میں ناکام ہوجاتا ہے۔ اب یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اسے یہ فیصلہ قبول کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ان اسباب کو بھی تلاش کرنا ہے جن کی بنا پر وہ ناکام ہوا۔ اگر وہ اس ناکامی کو اٹل حقیقت سمجھ کر بیٹھ جائے تو بے وقوفی ہوگی۔بالکل ایسے ہی اگر کوئی شخص بیمار ہے تو آخری حد تک اس بیماری سے لڑے گا کیونکہ یہ ایک اٹل اور ناقابل تبدیل حقیقت نہیں بلکہ اس صورت حال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔چنانچہ اٹل حقیقت کو اٹل سمجھنے کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اسائنمنٹ
۱۔ ان حقائق کی فہرست بنائیے جو آپ کے لئے ناخوشگوار ہیں لیکن اٹل ہیں یعنی تبدیل نہیں ہوسکتے۔
۲۔اٹل حقیقتوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لئے آُ پ کیا لائحہ عمل تیار کریں گے

مختلف پھلوں سے علاج


مختلف پھلوں سے علاج
گرمیوں میں تربوز اور کھیرے کی بہتات ہوتی ہے۔ دھوپ کی تمازت کم کرنے کیلئے دونوں پھل مفید ہیں اور یہ دونوں پھل معدے کی گرمی کو دور کرتے ہیں۔
کھیرا: دھوپ کی تپش سے چہرہ تمتما جائے تو ایک کھیرے کو کدوکش کرکے چہرے پر پھیلا لیں۔ ململ کا ٹکڑا چہرے پر رکھ لیں اور پندرہ منٹ کے بعد چہرہ دھولیں۔
کھیرے کے استعمال کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کے باریک قتلے کاٹ لیں۔ ایک گلاس گرم پانی کسی برتن میں ڈال کر کھیرے کے قتلوں کو بھگودیں۔ ایک گھنٹے بعد کھیرے کے قتلے چھان کر نکال لیں۔ اس محلول میں عرق گلاب ملالیں۔ تقریباً چارپانچ چمچ کے برابر اس محلول کو ششی میں ڈال کر فریج میں محفوظ کرلیں۔ وقت ضرورت روئی کے ٹکڑے کو اس محلول میں بھگو کر چہرے پر لگائیں۔ خاص طور پر ناک اور ٹھوڑی پر۔ روغنی جلد کیلئے آزمودہ نسخہ ہے۔
لیموں: لیموں میں زمانہ قدیم  سے خوبصورتی کی افزائش کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیموں سے جلد سکڑجاتی ہے کھلے مسام بند ہوجاتے ہیں اور سانولی رنگت میں نکھار آجاتا ہے۔ خشک جلد کیلئے لیموں کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ لیموں چکنی جلد کیلئے اکسیر کاکام دیتا ہے۔ ایک بڑے چمچ عرق گلاب میں ایک چمچ چائے والا لیموں کا رس ملا کر اس محلول سے چہرہ صاف کریں۔ چہرے کے علاوہ کہنیوں پر ملیں۔ سیاہ جلد سفید ہوجائے گی۔
سیب:سیب خشکی پیدا کرتا ہے۔ سیب کو کدوکش کرلیں۔ کٹے ہوئے سیب کوچہرے پر پھیلا لیں۔ اس کے لگانے سے جلدکی چکنائی کم ہوجاتی ہے۔ کھلے مسام بند ہوجاتے اور چہرے پر چمک پیدا ہوتی ہے۔ پندرہ منٹ کے بعد چہرہ دھولیں۔
ماسک:آپ کوجان کر حیرت ہوگی کہ بہت سے ماسک پھلوں‘ سبزیوں‘ انڈوں‘ دودھ اور وٹامن سے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ انڈوں کو ماسک کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ انڈے ہر قسم کی جلد کیلئے مفید ہوتے ہیں۔
تازہ پھلوں میں اسٹرابری کو کاٹیے یا اسے اچھی طرح کچل کر چہرے پر ملیے۔ اس طرح کیلے کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیلے میں وٹامن‘ کیلشیم‘فاسفورس اور پوٹاشیم کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کیلے حساس جلد کیلئے بہت مفید ہیں۔
مکئی ماسک: کارن یعنی بھٹے کے چند دانے لے کر اس کا جوس نکال لیں۔ جوس میں سے نکلنے والا سفید مادہ چہرے اور گردن پر لگا کر سوکھنے دیں۔ پھر چہرہ صاف کرلیں۔
مہاسے سے احتیاط اور علاج
 جلد کی نامکمل صفائی بھی مہاسوں کا سبب بنتی ہے۔ جلد کے معاملے میں بے احتیاطی‘ تھکن‘ نیند پوری نہ ہونا اور غیرمتوازن غذا کے اثرات براہ راست چہرے پر نظر آتے ہیں۔ ذہنی دباؤ بھی مہاسوں کا سبب بن جاتا ہے۔ دراصل ان حالات میں روغنی غدود زیادہ سرگرم ہوکر زائد چکنائی پیدا کرنے لگتے ہیں جو جلد کے مساموں کے ذریعے خارج ہونے لگتے ہیں۔ پہلے یہ چکنائی بلیک ہیڈز بناتی ہے جو جلد کی سطح کی مناسب دیکھ بھال اور صفائی سے ختم ہوجاتے ہیں اگر چہرے کی صفائی پر دھیان نہ دیا جائے تو چہرے پر اس کی مستقل موجودگی مہاسوں کی صورت اختیار کرلیتی ہے کیونکہ جلد کا معمولی انفیکشن بھی نظر اندازہ کیا جائے تو مہاسے اور جلدی پھوڑے میں موجودہ زہریلا مواد بدنما نشانات چھوڑ دیتا ہے۔
مہاسے کے مریض کو عموماً خون اور پیشاب ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ ممکن ہے اس کی وجہ پیٹ کے کیڑے‘ بڑی آنت یا چھوٹی آنت کا کوئی انفیکشن ہو۔ عموماً جلدی امراض کا تعلق پیٹ کی بیماریوں اور نظام ہضم کی خرابی سے ہوتا ہے۔ اگر پیٹ یا نظام ہضم میں کوئی خرابی نہ ہو اور تمام ٹیسٹ بھی کلیئر ہوں تو پھر وٹامن کی گولیوں‘ فریش فروٹ‘ جوس تازہ سبزیوں اور چکنائی کے بغیر کھانوں کے استعمال اور ہلکی ورزش سے آپ اس قسم کے مسائل پر قابو پاسکتی ہیں۔
مہاسوں کیلئے ضروری ہدایات
٭ بلیک اور وائٹ ہیڈز کی مستقل صفائی۔
٭ جلد پر موجود زائد چکنائی کو صاف کرنا۔
٭ مسامات کو بند کرنا اور جلدی انفیکشن کا بروقت علاج۔
٭ صحت مند جلد کیلئے ضروری چیز پانی بھی ہے۔ روزانہ دو لٹر پانی پینے کی روٹین بنالیں تاکہ جسم صحت مند اور جلد صاف ستھری رہے۔ ریشہ دار خوراک کے استعمال سے آپ کو باقاعدگی کے ساتھ اجابت ہوتی ہے جس کے باعث آپ کی رنگت صاف اور روشن ہوجاتی ہے۔ جلد کے بعض خلیوں کی افزائش و مرمت کیلئے وٹامن اے ضروری ہے۔ اس کی کمی سے خشکی اور خارش پیدا ہونے کی شکایت ہونے لگتی ہے اور جلد کی لچک کم ہوجاتی ہے۔ یہ وٹامن گاجر‘ گوبھی‘ پالک اور خوبانی میں پایا جاتا ہے جس وٹامن کی جسم میں کمی ہو وٹامن گولیوں کی بجائے خوراک کی شکل میں زیادہ فائدہ مند ہوں گے۔
وٹامن سی آپ کی جلد کو ٹائٹ یا تنا ہوا رکھتا ہے۔ یہ وٹامن سٹرابری‘ پھل‘ گوبھی‘ ٹماٹر اور سلاد میں پایا جاتا ہے۔
چہرے کی کیلیں دور کرنے کا طریقہ
 اگر چہرے پر کیلیں نکل آئیں تو پھٹکڑی پانی میں گھول کر لگانے سے یہ کیلیں ہفتہ دس دن میں ختم ہوجاتی ہیں۔
چہرے کی جھریاں دور کرنے کا طریقہ: کاغذی لیموں کے ایسے ٹکڑے لیں جن کا رس نکال لیا گیا ہو۔ اس کو چہرے پر ملیں۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد چہرہ دھولیں۔
داغ اور پھنسیاں دور کرنے کیلئے
 سنگترے کے چھلکوں کو سوکھا کر پیس لیں اور تازہ پانی میں ملا کر چہرے پرملیں۔

خواتین کا مرغوب پھل


خواتین کا مرغوب پھل: ’’فالسے لے لو‘ کھٹا مٹھا فالسہ آگیا‘‘ فائزہ کے کانوں سے فالسے والے کی آواز ٹکرائی تو بے اختیار اس کے منہ میںپانی بھرآیا‘ وہ جھٹ دروازے کی جانب لپکی اور خوانچے والے کو روک کر فالسے خرید لیے۔ انہیں دھویا‘ نمک چھڑکا اور مزے لے کرکھانے لگی۔ آدھے فالسوں کا شربت بنالیا جو ذائقے اور تاثیر میں لاجواب ہوتا ہے۔ اسے گرمی میں ٹھنڈا ٹھنڈا شربت پی کر سکون آگیا۔ اب تو فائزہ مہمانوں کی تواضع بھی اسی شربت سے کرنے لگی ہے۔
فالسہ گرم موسم کا خاص تحفہ ہے۔ یہ پھل تھوڑے عرصے کیلئے دستیاب ہوتا ہے اور گرم ملکوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں چھوٹے جھاڑی نماپودے پر لگنے والے فالسے اور دوسرے بیس پچیس فٹ اونچے درخت سے حاصل ہونے والے فالسے۔ پہلی قسم کے فالسے بہت میٹھے ہوتے ہیں اسے شربتی فالسہ کہتے ہیں۔ دوسری قسم میں مٹھاس کے ساتھ مزے دار ترشی کا ذائقہ بھی پایا جاتا ہے۔ دونوں قسم کا پھل ابتداء میں سبز رنگ کا ہوتا ہے اور ذائقہ کسیلا۔
اس کے بعد یہ سرخی مائل رنگت اختیار کرتے ہیں اور پھر پک کر سیاہی مائل ہوجاتے ہیں۔ فالسے میں نشاستہ‘ لحمیات‘ فولاد‘ پوٹاشیم‘ کیرٹین‘ آیوڈین اور چونے کے اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اس میں وٹامن اے‘ بی اور سی میں بھی موجود ہیں۔ ایک پاؤ فالسے میں ایک روٹی کے برابر غذائیت ہوتی ہے۔
اس کے ذائقے کی وجہ سے خواتین اور بچے اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ مزیدار ہونے کے ساتھ یہ بہت مفید بھی ہیں۔ موسم گرما میں فرحت دیتا ہے۔ اس کا مزاج سرد اور تر ہے جن مریضوں کو جگر کی گرمی اور آنتوں کی خشکی کی وجہ سے دائمی قبض رہتی ہو‘ وہ صبح کے وقت فالسے چوس چوس کر گٹھلیوں سمیت کھائیں اس سے خاصا افاقہ ہوتا ہے۔ یہ چڑچڑاپن بھی دور کرتا ہے اور پیاس کی شدت میں کمی کرتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کیلئے فالسے بہت مفید ہیں۔ اسے کھانے سے جلد کی چمک اور تازگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
گرمی کے تیز بخار میں ایک چھٹانک فالسہ آدھا کلو ٹھنڈے پانی میں مدھانی سے رگڑ کر اس میں چینی ملا کر گھونٹ گھونٹ پلاتے رہنے سے بخار‘ بے چینی اور اضطراب کم ہوجاتا ہے۔
فالسے کا اسکوائش: فالسے آدھا کلو‘ گلاب کی پتیاں ایک پاؤ‘ چینی تین پاؤ‘ پانی بارہ گلاس۔ترکیب: فالسے کو پانی میں ڈال کر رات بھر کیلئے رکھ دیں۔ صبح اسے پانی ہی میں مسل لیں اور گٹھلیاں الگ کرلیں۔ اب اسے چھان لیں اور فالسے کے پانی میں گلاب کی پتیاں اور چینی ڈال کر پکائیں۔ جب دو تارتگ گاڑھا ہوجائے تو ٹھنڈا کرکے بوتلوں میں بھرلیں۔ گرمیوں میں یہ اسکوائش بہترین ثابت ہوتا ہے‘ فرحت بخش ہونے کے ساتھ شفاء بخش بھی ہے۔ فالسے بھگوتے وقت اگر مٹی کا برتن استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
فالسے کا اچار: اچار ڈالنے کیلئے کچاپکا فالسہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ الگ سے بھی ڈالا جاتا ہے اور دیگر سبزیوں مثلاً لسوڑھے وغیرہ کے ساتھ ملا کر بھی اس کا اچار تیار کیا جاسکتا ہے۔ اچار بنانے کا طریقہ یہ ہے:۔ فالسے‘ آدھ پکے آدھا کلو‘ نمک حسب منشاء‘ مرچ حسب منشاء‘ کلونجی آدھا چمچ‘ رانی ایک چمچ‘ میتھرا ایک چمچ‘ سونف ایک چمچ‘ تیل حسب ضرورت۔
ترکیب: تمام مصالحے چن کر صاف کریں۔ انہیں ہلکا سا کوٹ لیں اور یکجان کرکے فالسوں میں شامل کردیں۔ تھوڑا سا تیل ڈال دیں تاکہ مصالحہ فالسوں سے چپک جائے۔ اب اسے گلنے کیلئے چھوڑ دیں۔ دو تین دن بعد مصالحہ رچ جائے اور فالسے کچھ نرم ہوجائیں تو اس میں تیل شامل کردیں اسے ایک دو دن دھوپ لگوائیں اور بوتلوں میں بھرلیں یا پھر مرتبان میں ڈال لیں۔ اچار کو ہمیشہ لکڑی کی ڈوئی سے ہلانا چاہیے ورنہ یہ خراب ہوسکتا ہے۔ تیل کی جگہ اچار میں سرکہ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ سرکے والا اچار بھی بہت لذیذ ہوتا ہے۔
فالسے کی چٹنی: آم‘ آلوبخارے اور املی کی چٹنی کی طرح فالسے کی چٹنی بھی بہت خوش ذائقہ ہوتی ہے۔ اسے بنانے کا طریقہ یہ ہے:۔فالسے آدھا کلو‘ چینی تین پاؤ‘ نمک حسب ذائقہ‘ سرکہ دوکھانے کے چمچ‘ پانی چھ گلاس۔ترکیب: دیگچی میں پانی اور فالسے ڈال کر اسے پکنے کیلئے رکھ دیں۔ جب فالسے گلنے لگیں اور پانی آدھا رہ جائے تو اس میں چینی ڈال دیں۔ تھوڑا سا نمک شامل کریں اور گاڑھا ہونے تک پکائیں۔ اس میں سرکہ بھی ڈال دیں۔ یہ دیکھنے میںسوکھے آلوبخارے کی چٹنی جیسی لگتی ہے اور مزے اور فوائد میں بے مثال ہے۔

قوت کردا ربعض اوقات اخلاقی بے عملی کے کھنڈرات سے پیدا ہوتی ہے


قوت کردا ربعض اوقات اخلاقی بے عملی کے کھنڈرات سے پیدا ہوتی ہے جب عمل بروئے کار آتا ہے تو پھر بے عملی دور ہوجاتی ہے
قوت ارادی پیدا کرنے کیلئے سب سے پہلی چیز ان کمزوریوں کو دور کرنا ہے جو اس راہ میں حائل ہورہی ہیں جو خیال آگے بڑھنے سے روکے اسے فوراً دل سے نکال دینا چاہیے اپنے ارادے پر قائم رہنے کی کوشش ہی قوت ارادی ہے۔وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کوشش تو بہت کی مگر اپنے ارادے پر قائم نہ رہ سکے۔ وہ لاشعوری طور پر قوت ارادی حاصل کرنے کی طرف جارہے ہیں کیونکہ جب آپ کو احساس ہوگا کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے تو لازماً آپ اور کوشش کریں گے۔ آپ کی پوشیدہ قوتیں بروئے کار آئیں گی۔ ایک دن میں قوت ارادی پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ ایک رات میں کردار بن جاتے ہیں۔اس کیلئے ایک مسلسل کوشش اور تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے جب آپ چاہیں کہ بڑی بات ہوجائے تو پہلے آپ چھوٹی بات کیلئے کوشش کریں۔قوت کردار بعض اوقات اخلاقی بے عملی کے کھنڈرات سے پیدا ہوتی ہے جب عمل بروئے کار آتا ہے تو پھر بے عملی دور ہوجاتی ہے اور انسانی ذہن کی خوابیدہ قوتیں نئی عمارت تیار کرنے لگتی ہیں اور یوں ساری ہی کمزوریاں اپنے آپ دور ہوجاتی ہیں۔ اس ذہنی ارتقاءکیلئے سب سے پہلا قدم اپنے آپ پر اختیار حاصل کرنا ہے۔ یہ اختیار آسان کام نہیں بلکہ اس کے خلاف خود اپنے اندر ایک بغاوت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خود اپنا دل مخالفت پرآمادہ ہوجاتا ہے ہمارے اندر پیدا ہونے والی یہ کشمکش بے فائدہ نہیں بلکہ اس کے بطن سے وہ بچہ پیدا ہوتا ہے جو بڑھتے بڑھتے کردار بنتا ہے انسان کی سب سے بڑی فتح وہ ہے جو اسے اپنے آپ پر حاصل ہوتی ہے۔

رونق چہرے والی بیوی دیکھن

ہمارے شوہر حضرات کا سارا دن نظریں بچا کر اپنے کام کرنا اور کھلے عام دعوت نظارہ سے منہ موڑ کر 
جب گھر لوٹنا تو ایک بے ترتیب حلئے والی اور بے رونق چہرے والی بیوی دیکھنا.... کس قدر ناانصافی ہے’یہ بیوی ہی ہے جسے سجے سنورے روپ میں دیکھنا شوہرکا حق ہے اسلام میں کہاں کہاں عورت کو بناو سنگھار کی تاکید ہے اور کہاں اس کے بے جا استعمال سے ممانعت ہے کن کے سامنے بناو نگھار اور زیب و زینت کا اظہار جائز اور کن کے سامنے جاتے ہوئے احتیاط برتنا ہوتی ہے۔ ان تمام معاملات سے قاریات ”عبقری“ بخوبی واقف ہوں گی لیکن ایک اہم بات کہ ہماری اکثر بہنیں سرجھاڑ منہ پھاڑ رہنے لگی ہیں۔ عزیز بہنو! خود پر توجہ دیں بلکہ بس تھوڑی سی توجہ دیں یہ توجہ آپ کو نہ صرف بظاہر تروتازہ رکھے گی بلکہ آپ کے مزاج میں بھی تبدیلی لائے گی۔ یہ شوہر حضرات کا حق ہے جس سے پہلو تہی شرعی طور پر منع ہے۔ آج کے دور میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے میڈیا کی تیز رفتاری نے ہماری عورتوں کو بے حجاب کردیا ہے اور حقوق نسواں کی تحریک نے اسے پتلی تماشا بنادیا ہے‘ ایسے میں ہمارے شوہر حضرات کا سارا دن نظریں بچا کر اپنے کام کرنا اور کھلے عام دعوت نظارہ سے منہ موڑ کر جب گھر لوٹنا تو ایک بے ترتیب حلیے والی اور بے رونق چہرے والی بیوی دیکھنا.... کس قدر ناانصافی ہے۔ یہ بیوی ہی ہے جسے سجے سنورے روپ میں دیکھنا شوہرکا حق ہے۔ آئیے میں آپ کو چند ایسے آسان آزمودہ طریقے بتاتی ہوں جس سے آپ کو اپنے شوہر کا حق ادا کرنے میں آسانی ہوگی‘ اس سے نہ صرف آپ کے مزاج بلکہ گھریلو ماحول میں بھی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی۔ اپنے دن کی ترتیب رکھیں وقت کو اپنے کاموں کے حساب سے تقسیم کریں‘ بہتر تو یہ ہے کہ صبح بچوں کو اسکول بھیج کر صفائی‘ کھانا بنانے اور کپڑے دھونے سے فارغ ہوجائیں۔ ہفتے میں دو دن کپڑے دھونے کیلئے مخصوص کردیں۔ بہرحال آپ اپنے کاموں کی ترتیب بنا کر وقت تقسیم کرلیں۔ اس طرح خود پر توجہ دینے کا وقت ملے گا۔ نمازوں کو بروقت ادا کریں۔ اب کسی دن بیٹھ کر بترتیب درج ذیل پروگرام پر عمل کریں۔ ایک مہینے میں ایک بار کرلینے سے مطلوبہ بہت زبردست نتائج حاصل ہوں گے‘ جن بہنوں کی شادی ہونے والی ہو وہ ہر ہفتے اس پر عمل کریں۔ وہ اس ترتیب کو شادی سے ایک ماہ قبل شروع کریں۔ ہاتھوں کی صفائی (مینی کیور) ایک چھوٹا برتن لیں باتھ سوپ کو گرم پانی میں ملا کر سلوشن بنالیں‘ اب اس میں ہاتھ ڈبولیں 5 سے 7 منٹ کے بعد نکالیں۔ کسی پرانی ٹوتھ برش کی مدد سے ناخن اچھی طرح صاف کریں۔ اونی جراب ہو تو اسے صابن والے پانی میں بھگو کر نچوڑ کر ہاتھوں پر نرمی سے رگڑیں۔ اب صاف پانی سے دھو کر خشک کرلیں اور کوئی سی بھی موئسچرائزنگ کریم یا لوشن ایک بڑا چمچ مقدار کے برابر لے کر اچھی طرح ہاتھوں کا مساج کریں۔ ہر جمعے باقاعدگی سے ناخن کاٹیں‘ ناخن ہمیشہ پوروں کے برابر کاٹیں‘ باقاعدگی سے ایسا کرنے سے ناخن کا سائز پور تک آجاتا ہے اگر آپ زیادہ گہرائی سے کاٹیں گی تو ناخن پور کے اندر گھستے جائیں گے۔ کچن کے کاموں سے یا کپڑے دھو کر فارغ ہوں تو بالائی میں ذرا سا شہد ملا کر ہاتھوں کا مساج کیا کریں آپ دیکھیں گی کہ کچھ ہی دنوں میں ہاتھ نرم وملائم ہوجائیں گے۔ بس ذرا سی توجہ.... پاوں کی صفائی (پیڈی کیور) ایک بڑا چمچ شیمپو لے کر اتنے نیم گرم پانی میں ڈال کر اتنی جھاگ بنالیں کہ آپ کے پاوں اس میں ڈوب جائیں۔ اس کے 15 منٹ بعد جھانویں سے اچھی طرح ایڑیاں رگڑیں‘ ٹخنوں اور پاوں کی جلد صاف کریں۔ پرانی ٹوتھ برش سے ناخن صاف کریں اور ایڑیوں پر ویزلین مل لیں۔ موئسچرائزنگ لوشن نہ ملے تو بالائی بھی کام میں لائی جاسکتی ہے۔ چہرے کی صفائی (فیشل) کسی کھلے منہ کے برتن میں پانی ابال لیں‘ ایک تولیہ پاس رکھ لیں ‘اب 2 بڑے چمچ موئسچرائزنگ لوشن لے کر اوپر کی طرف کرتے ہوئے اتنا مساج کریں کہ چہرہ اور گردن سرخ ہوجائے۔ اب ابلنے والا برتن چولہے سے اتار کر چہرے سے ایک فٹ دور رکھیں‘ سر کے اوپر تولیہ ڈال لیں اور جب خوب اچھا پسینہ آجائے تو تولیہ سے اچھی طرح پونچھ لیں‘ اب آپ کو ایک اچھا ماسک لگانا ہوگا۔ کریم کے بعد بھاپ لینے سے چہرے کے مسام کھل کر اپنا میل نکالتے ہیں‘ اب ان کو بند کرنے کیلئے ماسک ضروری ہے جس کیلئے بازار سے کسی بھی اچھی برانڈ کا ماسک بھی لیا جاسکتا ہے اور گھر میں بھی بنایا جاسکتا ہے۔ بازاری ماسک کو شہادت کی انگلی سے برابر سطح سے آنکھوں کے علاوہ چہرے اور گردن پر لیپ دیں۔ 15 منٹ عموماً خشک ہونے کا وقت ہے۔ جب چہرے پر اکڑاہٹ محسوس ہو تو کسی ایک سرے سے کھینچ کر اتار دیں۔ یہ ماسک لگانے کے بعد آپ چہرے کو زیادہ حرکت نہ دیں۔ اب ٹھنڈے پانی سے منہ دھولیں۔ گھریلو ماسک تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بڑا چمچ بالائی‘ ایک لیموں کا رس‘ ایک چائے کا چمچ عرق گلاب اور ایک چائے کا چمچ شہد مکس کرلیں اور چہرے پر 15 منٹ کیلئے لگالیں اور ٹھنڈے پانی سے منہ دھولیں‘ اب آپ کوئی فیئرنس کریم لگا کر لپ سٹک لگائیں اور آنکھوں میں سرمہ ڈالیں۔ چند اہم باتیں اگر مونچھیں یا ڈاڑھی کی طرح بال آجائیں تو ان کی صفائی ضروری ہے۔ غیرضروری بالوں کی باقاعدگی سے صفائی کریں چالیس دن کا انتظار نہ کریں۔ جن بہنوں کے چہرے پر چکنائی زیادہ ہو وہ بیسن میں عرق گلاب کے ساتھ 7 بار منہ دھوئیں۔ سر کے بال باقاعدگی سے شیمپو کریں اور جب بھی فرصت ملے تیل ضرور لگائیں ‘ہفتے میں ایک بار چھٹانک دہی‘ دو لیموں کا رس اور دو چمچ سرسوں کا تیل لے کر مکس کرکے بالوں کی جڑوں میں لگائیں‘ 2 گھنٹے بعد سردھولیں۔ زیادہ دیر نہ لگا رہنے دیں۔ عام پرچون کی دکان سے ابٹن مل جاتا ہے‘ جو بہنیں دلہن بننے والی ہوں‘ ان کو اپنے جسم پر ابٹن مل کر صفائی کرنی چاہیے اور چہرے ہاتھ پاوں اور بالوں کی صفائی پر ایک ماہ قبل توجہ دیں‘ ہر ہفتے اہتمام کریں یعنی 4 بار آپ کو بھی افاقہ ہوگا اور دولہا صاحب بھی خوش ہوں گے۔ عزیز بہنو! یہ ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے تاکہ آپ خود کو گھر بیٹھے تروتازہ بنائیں اور شرعی حدود کی پاسداری کریں۔ بیوٹی پارلر والوں کی کمائی میں اضافہ کرنے سے بچیں ‘اپنے گھروں کو خوشگوار ماحول دیں۔ ہاں ایک اہم بات کہ زیب و زینت کے ساتھ ہرگز غیرمحرموں کے سامنے نہ آئیں ‘یہ صرف اور صرف آپ کے شوہر کا حق ہے اور کسی کو اس حق میں شامل نہ کریں۔

عشق الٰہی اور محبت رسول ﷺ کیلئے ایک باکمال عمل


عشق الٰہی اور محبت رسول ﷺ کیلئے ایک باکمال عمل
آج کی بے چین اور پریشان دنیا کہ جس میں آنے والی ہر صبح بے دینی اور اللہ سے دوری کو لارہی ہے‘ دین پر چلنا ایسا ہوتا جارہا ہے جیسا ہاتھ پر انگارا لینا۔ ایسے پرفتن ماحول میں جن لوگوں کا ذکرو مراقبہ میں دل نہ لگتا ہو‘ خداتعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کی محبت میں ترقی چاہتے ہوں یا دین اسلام پر سچے دل سے عمل پیرا ہونے کی خواہش مند ہوں تو ایسے تمام حضرات کیلئے سچوں کے سچے حضور نبی کریم ﷺ کی مسنون دعا اگر اس خاص ترکیب سے یقین کے پیالے میں رکھ کر گناہوں سے مکمل بچتے ہوئے پڑھی جائے اور اس کا ایصال ثواب سید الانس والجآن حضور ﷺ کے وسیلے سے قطب الاقطاب حضرت خواجہ سید محمدعبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ہدیہ کیا جائے اور اللہ پاک سے دعا کی جائے تو اللہ کے فضل و کرم سے سکون دل‘ دوائے دل اور صفائے دل کی وہ نعمتیں حاصل ہوں گی کہ آپ خود حیران ہوجائیں گے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی لَہٗ
اور آگے آنے والی دعا 101 بار بعد نماز عشاء بغیر کسی سے بات کیے نہایت توجہ کے ساتھ ترجمہ کے لحاظ رکھتے ہوئے 40 روز پڑھیں اور عمل کی تاثیر کو برقرار رکھنے کیلئے ہر نماز کے بعد اول و آخر تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ تین مرتبہ اس دعا کو سابقہ ترتیب سے اپنے معمول میں رکھیں۔ نوٹ: آپ کو جو بھی کمالات حاصل ہوں ادارہ عبقری کو ضرور لکھیں لوگوں کیلئے نفع اور آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہوگا۔ اَللّٰھُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِیْ لِذِکْرِکَ وَرْزُقْنِیْ طَاعَتَکَ وَطَاعَۃَ رَسُوْلِکَ وَعَمَلًا بِکِتَابِکَ ( اے اللہ! میرے دل کے کان اپنے ذکر کیلئے کھول دے اور مجھے اپنی اور اپنی اطاعت کیلئے قبول فرما)
خادم تسبیح خانہ قادری ہجویری ‘محمداحمد مجذوبی‘ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ 

جنگ جمل ۔حضرت عائشہ اور حضرت علی کے درمیان جنگ کی حقیقت