اس بلاگ کا ترجمہ

Friday, December 21, 2012

باتوں سے خوشبو آئے


باتوں سے خوشبو آئے





رضا کا مطلب


حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رضا اپنے اختیار سے دستبردار ہونے کا نام ہے۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پرسکون اور اطمینان اختیار کرنے کو رضا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر قلب کا مسرور ہوجانا رضا ہے۔ رضا یہ ہے کہ بندہ قلب کو اللہ تعالیٰ کے دائمی اختیار کی طرف متوجہ رکھے کیونکہ وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے جو کچھ نتائج اپنے بندے کیلئے منتخب فرمائے ہیں وہ اس کیلئے مفید ہیں اس لیے بندے کو ہرحال میں اپنے رب سے راضی رہنا چاہیے اپنی جدوجہد میں رضا کو حاکم بنائو ایسا نہ ہوکہ رضا کو خود پر مسلط کرکے اس کی لذتوں اور حقیقتوں سے محروم ہوجائو۔





استغفار کی برکت


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ استغفار کو لازم پکڑلے (یعنی اللہ سے مغفرت مانگتا رہے) تو اللہ اس کیلئے تنگی اور مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنادے گا۔ اس کی ہر فکر پریشانی دور کرکے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گا اور ان طریقوں سے رزق عطا کرے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔





جنت میں کون جائیگا؟


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا ذکر فرمایا اور اس کی خوبیاں اور وسعت بیان کی۔ ایک صحابی جو مجلس میں حاضر تھے بے تابی سے بولے ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کس کو ملے گی؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے خوش کلامی کی‘ بھوکوں کو کھانا کھلایا‘ اکثر روزے رکھے اور اس وقت نماز پڑھی جب دنیا سوتی ہے۔





زبان کی اہمیت


ایک شخص نے دوسرے آدمی سے پوچھا کہ تم نے ایک آدمی میں کتنے عیب دیکھے۔ جواب ملا اتنے جتنے گنتی نہیں ہوسکتے۔ لیکن ان میں کتنی ایسی خصلت ہے وہ اگر ہرایک میں ہو تمام عیب چھپ جاتے ہیں ”زبان کی حفاظت“





خشیت الٰہی


 حضرت علی رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو ان کا چہرہ زرد پڑجاتا۔ اگر کوئی وجہ پوچھتا تو کہتے تجھے نہیں معلوم مجھے کس کے حضور کھڑے ہونا ہے۔ (عظمیٰ عبدالستارمیمن‘ سکھر)





میرے آزمودہ نسخہ جات


حضرت صاحب آج کل ضعف باہ کا مرض بہت عام ہوگیا۔ ایک تو وہ لوگ ہیںجو غلط کاری سے شادی سے پہلے یا شادی کے بعد ملوث ہوجاتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جن کو پوشیدہ امراض کاپتہ ہی نہیں اور اپنے آپ کو ان امراض یا ضعف باہ کا مریض سمجھتے ہیں۔


حضرت صاحب میرا لکھنا ایسا ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا مگر آپ کا حکم بھی ہے اس لیے جو سمجھا‘ دیکھا اور کیا اور پھر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور کیا فائدہ ہوا اور جومجرب ہے وہ تحریر کررہا ہوں۔


حکیم صاحب میں حکمت کو بہت پسند کرتا ہوں اور شروع سے ہی مجھے نسخے بنانے کا شوق ہے اور اب بھی ہے۔ چند اپنے نسخے پیش کررہا ہوں جو میں نے کافی مریضوں پر آزمائے ہیں اور بہت ہی مجرب اور تیربہدف پائے ہیں۔





زکاوت حس


 ذکاوت حس کیلئے میں دھنیا اور مصری برابر وزن میں کوٹ پیس کر بڑے کیپسولوں میں بھر کر صبح نہار منہ دو کیپسول دیتاہوں اور مریض کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔





جریان‘ ٹی بی سے نجات اور موٹا ہونے کیلئے خاص نسخہ


جریان کیلئے


 جریان کے مریض کو جو نسخہ دیتا ہوں وہ حسب ذیل ہے۔


ھوالشافی: چھلکا اسپغول خالص ایک چھٹانک‘ ستاور ڈیڑھ چھٹانک‘ سنگجراحت ڈیڑھ چھٹانک‘ آدھ سیر شہد خالص۔ سب دوائیوں کو کوٹ پیس کر شہد میں ملا کر معجون بنالیں۔


ایک چمچ ثابت صبح نہار منہ دودھ کے ساتھ اللہ کے فضل و کرم سے مریض کو ہفتہ دس دن بعد آرام آجاتا ہے۔


محترم حکیم صاحب یہ جریان والی دوائی جو میں مریضوںکو دیتا ہوں اس کی عجیب و غریب خاصیت جو میرے سامنے آئی ہے اس کی تفصیل بھی آپ کو بتاتا ہوں۔


میری بڑی بہن جو کہ اب بیوہ ہے اس کے چار بچے ہوگئے تھے اور پانچویں بچے کی ولادت ہوئی اور پھر اس کے بعد اس کو ٹی بی کا مرض دوبارہ ہوگیا پہلے بھی تھا مگر اس بار حملہ بہت شدید تھا کہ بہن کو ٹی بی سینٹوریم میں داخل کرنا پڑا اور تقریباً چھ ماہ بہن وہاں رہی اور جب واپس گھر آئی تو بہن صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی اور سر پر سے بال بالکل گررہے تھے گنجی ہوچکی تھی۔


والدہ نے مجھے کہا کہ تم لوگوں کو دوائیاں بنا کر دیتے ہو بہن کیلئے بھی کوئی دوائی بنائو تاکہ اس کو آرام آئے اسکے چار بچے ہیں اور یہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرسکے۔


حضرت صاحب میں نے بہن کیلئے گول لوکی اور گڑکی شکر صبح نہار منہ کھانے کو پابندی سے کہا بہن نے تقریباً دو ماہ پابندی سے صبح نہار منہ گول لوکی کو چھوٹے چھوٹے قتلے کاٹ کرگُڑ کی شکر کے ساتھ کھانا شروع کردیا۔ شروع میں کھایا نہیں جاتا تھا مگر میں نے کہا کہ زبردستی کھائو اور پھر کھانا شروع کردیا دو ماہ کے بعد بہن نے یہ چھوڑ دیا اور کہا کہ کوئی اور دوائی دو ان دنوں میں یہ جریان والا نسخہ اپنے دوست کیلئے بنارہا تھا تو میں نے ایک آدھا کلو کی بوتل بنا کر بہن کو دے دی اور کہا کہ صبح نہار منہ چائے کا ایک چمچ بھر کر ابلے ہوئے ایک پائو دودھ کے ساتھ کھائو۔


بس حضرت صاحب اللہ تعالیٰ نے ایسا کرم فرمایا کہ آج اس بات کو دس سال کا عرصہ ہوگیا ہے بہن کی بیماری جڑ سے ختم ہوگئی اور بہن یہ دوائی پابندی سے کھاتی تھی یہاں تک کہ ڈاکٹروںنے ٹیسٹ کروائے اور کہا کہ تمہارے پھیپھڑوں سے جراثیم تک ختم ہوگئے ہیں اور ڈاکٹروں نے دوائی بھی بند کردی۔


یہ دوائی کھانے کے بعد بہن پہلے سے زیادہ ماشاءاللہ صحت مند ہوگئی اور قوت مدافعت بھی زیادہ ہوگئی اور بہن کا سٹیمنا بھی زیادہ ہوگیا اور اب اس کا مقابلہ چلنے میں میں بھی نہیں کرسکتا وہ پہلے چلنے سے تھک جاتی تھی مگر اس دوائی نے اس کی تھکاوٹ بھی ختم کردی۔ اس دوائی کا یہ حیرت انگیز کمال چشم دید مجرب تجربہ میری زندگی میں ہوا۔


حضرت صاحب اس دوائی کا ایک اور فائدہ جو مجرب تجربہ شدہ ہے وہ یہ ہے کہ میرے بھانجے بہت کمزور تھے بچپن سے ماں کا دودھ نصیب نہیں ہوا اس لیے شروع سے ہی کمزور تھے اور کھانا کھا ہی نہیں سکتے تھے‘ بالکل کمزور دُبلے پتلے۔ پھر میں نے یہی دوائی ان کو بنا کردی۔ ماشاءاللہ کھانا کھانے لگے‘ جسم گوشت سے بھرتا جارہا ہے اور کبھی کبھی شہد نہیں ہوتا تو نسخہ سفوف کی شکل میں صبح نہار منہ دودھ کے ساتھ دیتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت فائدہ فرمایا اور اب بھی بھانجے کہتے ہیں ماموں دوائی بنادو تو میں کہتا ہوں کہ پیسے جمع کرکے دو میں دوائی بنادوں گا۔


حضرت صاحب میرا ایک دوست ہے جاوید پٹھان پشاور کا رہنے والا ہے مگر اب رہائش کراچی میں ہے۔ جاوید چرس‘ چائے اور غیرفطری عادات کا عادی تھا اور بقول جاوید کے کہ چرس چائے اور بری عادات نے اس کو بالکل ناکارہ کردیا تھا اور بہت سے حکیموں سے علاج بھی کراتا رہا اور طلاءوغیرہ بھی استعمال کیے مگر فائدہ بالکل نہ ہوتا تھا بلکہ وہ یہ کہتا تھا کہ میرا سارا سسٹم جام ہوگیا ہے اور دوائی میرے لیے ایسی ہوجاتی ہے کہ جیسے مٹی کھائی ہے کسی قسم کا کوئی فرق وغیرہ نہیں پڑتا۔


محترم حکیم صاحب میں نے اپنے دوست جاوید کو آپ کی کتاب ”کلونجی کے کرشمات“ میں سے یہ نسخہ لیا ہے۔ ھوالشافی: عقرقرحا 50گرام‘ کلونجی 50گرام‘ تخم ریحان 50 گرام‘ مصری 50 گرام بنا کردیا اور تین ٹائم پانی یا دودھ کے ساتھ کھانے کو کہا۔ اللہ تعالیٰ نے اتنا کرم کیا کہ جاوید کا سارا سسٹم بہترین ہوگیا اور وہ حیران ہوگیا اور جاوید کا سارا کام بن گیا۔


اب جاوید کہتا ہے کہ بڑے بڑے نسخے کام نہ کرسکے مگر اس نسخہ سے اس کا سسٹم ٹھیک ہوگیا۔ آپ کا یہ نسخہ میں نے اور لوگوں کو بھی بنا کردیا ہے اور جس کو بھی دیا ہے سب نے تعریف کی ہے۔ ایک اوردوست کو بنا کردیا اس کو یہ شکایت تھی کہ میرا بیوی سے ملنے کو دل کرتا ہے مگر کمزوری کی وجہ سے مل نہیں سکتا حضرت صاحب میں نے آپ کا یہ نسخہ بنا کردیا الحمدللہ اس کا بھی کام بن گیا اور اب آپ کے ان نسخوں کی وجہ سے میں بھی حکیم مشہور ہوگیا ہوں۔





خارش کا نایاب نسخہ


حضرت صاحب آج سے بیس بائیس سال پہلے مجھے پورے جسم پر خارش ہوگئی تھی اور خارش اتنی شدید تھی کہ سارے جسم پر چھوٹے چھوٹے لال سرخ دانے ہوجاتے اور میں دھوپ میں باہر نہیں نکل سکتا تھا اور سردیوں میں بھی لحاف اوڑھتا جب گرم ہوجاتا پھر سارے جسم پر خارش ہوجاتی پھرمیرے استاد محترم کے بڑے بھائی جو عالم باعمل ہیں ان کا نام مولانا شمس الرحمن صاحب ہے ان سے مجھے یہ نسخہ ملا جو میں نے بنا کر پیا اور الحمدللہ آج بیس بائیس سال ہوگئے مگر مجھے پھر یہ خارش کی بیماری نہیں ہوئی۔


یہ نسخہ میں نے بہت لاتعداد لوگوں کو دیا ہے اورسب کوبہت فائدہ ہوا ہے۔نسخہ حسب ذیل ہے۔نسخہ: ھوالشافی: کوڑ 50گرام‘ گلوڑ50گرام‘ سناءمکی50گرام‘ چرائتہ 50گرام۔ ان سب دوائیوں کو 6سیر پانی میں بھگو کر پھر چولہے پر نرم آنچ پر پکاتے رہیں اور وقفہ وقفہ سے چمچ سے ہلاتے رہیں جب تین کلو پانی خشک ہوجائے اتار کر ٹھنڈا کرکے چھان کربوتلوں میں بھر کر رکھ دیں۔ صرف صبح نہار منہ آدھی پیالی چائے والی۔ پرہیز: لال مرچ‘ گرم مصالحہ‘ بڑاگوشت۔(خالد محمود اعوان‘ کراچی)





رب پر پختہ یقین کا نتیجہ


میری بیٹی سکول ٹیچر ہے ان کے سکول کے پاس ایک گھر ہے بچوں کو چھوڑنے ان کی دادی ہمراہ آئی تو کہنے لگی کہ یہ میرا پوتا ہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اس پوتے کے ہونے کی جو تفصیل بتائی کہ ہمارے ہاں کزنز کی زیادہ تر شادیوں کا رواج ہے میری بہو بھی میری بھانجی ہے۔ اس کا بڑا بیٹا جو ہوا وہ بھی ابنارمل تھا دوسرے بھائی کی صرف دو بیٹیاں تھیں۔ جب تیسری دفعہ اللہ نے دینا چاہا تو سب پریشان تھے کہیں پھر بیٹی نہ ہوجائے لیکن میں نے ہر روز بلاناغہ سورہ مریم اور سورہ رحمن کا ورد جاری رکھا اور یہی دعا کی کہ یامولا کریم میرے بیٹے کو بیٹا عطا فرمانا۔ بات تو ساری یقین محکم کی ہے اور کلام اللہ برحق ہے کہ نجانے کتنے ڈاکٹرز سے الٹراسائونڈ کروایا مختلف لیڈی ڈاکٹروں نے بتایا کہ بیٹی ہے آخر دم تک لیکن جس دن پیدائش ہوئی تو بیٹا ہوا۔ الٹراسائونڈ غلط ثابت ہوئے اور بیٹا یہ سن کر میرے خوشی سے آنسو نہیں رکتے تھے اورفوراً سجدہ ریز ہوگئی میرے خاوند بھی رو کر کہنے لگے کہ یہ تیرا اپنے رب پر اور قرآن پر یقین کا نتیجہ ہے۔(نام نہیں ہے)





جوڑوں کے درد کیلئے


میری عمر 60سال ہے اورمیں عرصہ 17 سال سے جوڑوں کے درد کا شکار ہوں‘ حرکت کرنا اور چلنا‘ پھرنا میرے لیے سخت مشکل تھا۔ میں نے اس کا بہت علاج کرایا مگر سوائے وقتی افاقہ کے کچھ نہ ہوا۔


میں 4اپریل 2010ءمیں آہستہ آہستہ چل رہا تھا کیونکہ پائوں کے جوڑروں میں شدید درد ہورہا تھا۔


وہاں ایک دکان کے باہر ڈاکٹر علوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ میرے تمام حالات پوچھے۔ بیگ سے اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور میرا مسئلہ اس میں پڑھا اور مجھے بتایا کہ امریکہ میں یہ نئی ریسرچ جوڑوں کے دردپر ہوئی ہے جس سے کافی لوگوں کو فائدہ ہورہا ہے۔ مجھے کہا کہ آپ بھی یہ نسخہ آج ہی سے استعمال کرنا شروع کردیں۔


میں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا فوراً بازار سے دونوں چیزیں لے لیں اور گھر آکر استعمال کرنا شروع کردیا صرف تین دن کے استعمال سے جوڑوں کے درد میں فرق پڑنا شروع ہوگیا اور درد میں کافی کمی آنی شروع ہوگئی۔ آج یہ نسخہ استعمال کرتے ہوئے دو ماہ ہوچکے ہیں اور میرا مرض تقریباً 75فیصد ٹھیک ہوگیا ہے۔ مجھے امید ہے انشاءاللہ ایک ڈیڑھ ماہ اور استعمال سے مجھے اس مرض سے مکمل شفاءیابی نصیب ہوجائے گی۔ اس نسخہ کے ساتھ جو بہن بھائی انگلش دوائیاں استعمال کررہے ہیں وہ یکدم نہ چھوڑیں بلکہ آہستہ آہستہ انہیں کم کرنا شروع کردیں۔ اب میں یہ نسخہ لکھتا ہوں۔ نسخہ نہایت آسان ہے۔ خالص شہد کم از کم آدھ کلو لے لیں‘ دار چینی جو ایک پائولے کر اسے باریک گرائنڈ کرلیں‘ یعنی باریک کرلیں۔ دارچینی جو گرم مصالحہ میں استعمال ہوتی ہے۔ نہایت آسان نسخہ ہے۔ صبح نہار منہ دو چمچ چاول والے ایک گلاس گرم پانی میں ڈال لیں اور چھوٹا چمچ دار چینی اس میں ڈال لیں۔ آدھا لیموں کا رس بھی اس میں شامل کرلیں۔ ٹھنڈا ہونے پر پی لیں اور ناشتہ ایک گھنٹہ بعد کریں۔ یہی نسخہ ایک دفعہ شام کو بھی استعمال کریں۔ انشاءاللہ تعالیٰ جوڑوں کے درد سے نجات بھی مل جائیگی۔ 

باتوں سے خوشبو آئے


باتوں سے خوشبو آئے





رضا کا مطلب


حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رضا اپنے اختیار سے دستبردار ہونے کا نام ہے۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پرسکون اور اطمینان اختیار کرنے کو رضا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر قلب کا مسرور ہوجانا رضا ہے۔ رضا یہ ہے کہ بندہ قلب کو اللہ تعالیٰ کے دائمی اختیار کی طرف متوجہ رکھے کیونکہ وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے جو کچھ نتائج اپنے بندے کیلئے منتخب فرمائے ہیں وہ اس کیلئے مفید ہیں اس لیے بندے کو ہرحال میں اپنے رب سے راضی رہنا چاہیے اپنی جدوجہد میں رضا کو حاکم بنائو ایسا نہ ہوکہ رضا کو خود پر مسلط کرکے اس کی لذتوں اور حقیقتوں سے محروم ہوجائو۔





استغفار کی برکت


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ استغفار کو لازم پکڑلے (یعنی اللہ سے مغفرت مانگتا رہے) تو اللہ اس کیلئے تنگی اور مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنادے گا۔ اس کی ہر فکر پریشانی دور کرکے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گا اور ان طریقوں سے رزق عطا کرے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔





جنت میں کون جائیگا؟


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا ذکر فرمایا اور اس کی خوبیاں اور وسعت بیان کی۔ ایک صحابی جو مجلس میں حاضر تھے بے تابی سے بولے ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کس کو ملے گی؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے خوش کلامی کی‘ بھوکوں کو کھانا کھلایا‘ اکثر روزے رکھے اور اس وقت نماز پڑھی جب دنیا سوتی ہے۔





زبان کی اہمیت


ایک شخص نے دوسرے آدمی سے پوچھا کہ تم نے ایک آدمی میں کتنے عیب دیکھے۔ جواب ملا اتنے جتنے گنتی نہیں ہوسکتے۔ لیکن ان میں کتنی ایسی خصلت ہے وہ اگر ہرایک میں ہو تمام عیب چھپ جاتے ہیں ”زبان کی حفاظت“





خشیت الٰہی


 حضرت علی رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو ان کا چہرہ زرد پڑجاتا۔ اگر کوئی وجہ پوچھتا تو کہتے تجھے نہیں معلوم مجھے کس کے حضور کھڑے ہونا ہے۔ (عظمیٰ عبدالستارمیمن‘ سکھر)





میرے آزمودہ نسخہ جات


حضرت صاحب آج کل ضعف باہ کا مرض بہت عام ہوگیا۔ ایک تو وہ لوگ ہیںجو غلط کاری سے شادی سے پہلے یا شادی کے بعد ملوث ہوجاتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جن کو پوشیدہ امراض کاپتہ ہی نہیں اور اپنے آپ کو ان امراض یا ضعف باہ کا مریض سمجھتے ہیں۔


حضرت صاحب میرا لکھنا ایسا ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا مگر آپ کا حکم بھی ہے اس لیے جو سمجھا‘ دیکھا اور کیا اور پھر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور کیا فائدہ ہوا اور جومجرب ہے وہ تحریر کررہا ہوں۔


حکیم صاحب میں حکمت کو بہت پسند کرتا ہوں اور شروع سے ہی مجھے نسخے بنانے کا شوق ہے اور اب بھی ہے۔ چند اپنے نسخے پیش کررہا ہوں جو میں نے کافی مریضوں پر آزمائے ہیں اور بہت ہی مجرب اور تیربہدف پائے ہیں۔





زکاوت حس


 ذکاوت حس کیلئے میں دھنیا اور مصری برابر وزن میں کوٹ پیس کر بڑے کیپسولوں میں بھر کر صبح نہار منہ دو کیپسول دیتاہوں اور مریض کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔





جریان‘ ٹی بی سے نجات اور موٹا ہونے کیلئے خاص نسخہ


جریان کیلئے


 جریان کے مریض کو جو نسخہ دیتا ہوں وہ حسب ذیل ہے۔


ھوالشافی: چھلکا اسپغول خالص ایک چھٹانک‘ ستاور ڈیڑھ چھٹانک‘ سنگجراحت ڈیڑھ چھٹانک‘ آدھ سیر شہد خالص۔ سب دوائیوں کو کوٹ پیس کر شہد میں ملا کر معجون بنالیں۔


ایک چمچ ثابت صبح نہار منہ دودھ کے ساتھ اللہ کے فضل و کرم سے مریض کو ہفتہ دس دن بعد آرام آجاتا ہے۔


محترم حکیم صاحب یہ جریان والی دوائی جو میں مریضوںکو دیتا ہوں اس کی عجیب و غریب خاصیت جو میرے سامنے آئی ہے اس کی تفصیل بھی آپ کو بتاتا ہوں۔


میری بڑی بہن جو کہ اب بیوہ ہے اس کے چار بچے ہوگئے تھے اور پانچویں بچے کی ولادت ہوئی اور پھر اس کے بعد اس کو ٹی بی کا مرض دوبارہ ہوگیا پہلے بھی تھا مگر اس بار حملہ بہت شدید تھا کہ بہن کو ٹی بی سینٹوریم میں داخل کرنا پڑا اور تقریباً چھ ماہ بہن وہاں رہی اور جب واپس گھر آئی تو بہن صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی اور سر پر سے بال بالکل گررہے تھے گنجی ہوچکی تھی۔


والدہ نے مجھے کہا کہ تم لوگوں کو دوائیاں بنا کر دیتے ہو بہن کیلئے بھی کوئی دوائی بنائو تاکہ اس کو آرام آئے اسکے چار بچے ہیں اور یہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرسکے۔


حضرت صاحب میں نے بہن کیلئے گول لوکی اور گڑکی شکر صبح نہار منہ کھانے کو پابندی سے کہا بہن نے تقریباً دو ماہ پابندی سے صبح نہار منہ گول لوکی کو چھوٹے چھوٹے قتلے کاٹ کرگُڑ کی شکر کے ساتھ کھانا شروع کردیا۔ شروع میں کھایا نہیں جاتا تھا مگر میں نے کہا کہ زبردستی کھائو اور پھر کھانا شروع کردیا دو ماہ کے بعد بہن نے یہ چھوڑ دیا اور کہا کہ کوئی اور دوائی دو ان دنوں میں یہ جریان والا نسخہ اپنے دوست کیلئے بنارہا تھا تو میں نے ایک آدھا کلو کی بوتل بنا کر بہن کو دے دی اور کہا کہ صبح نہار منہ چائے کا ایک چمچ بھر کر ابلے ہوئے ایک پائو دودھ کے ساتھ کھائو۔


بس حضرت صاحب اللہ تعالیٰ نے ایسا کرم فرمایا کہ آج اس بات کو دس سال کا عرصہ ہوگیا ہے بہن کی بیماری جڑ سے ختم ہوگئی اور بہن یہ دوائی پابندی سے کھاتی تھی یہاں تک کہ ڈاکٹروںنے ٹیسٹ کروائے اور کہا کہ تمہارے پھیپھڑوں سے جراثیم تک ختم ہوگئے ہیں اور ڈاکٹروں نے دوائی بھی بند کردی۔


یہ دوائی کھانے کے بعد بہن پہلے سے زیادہ ماشاءاللہ صحت مند ہوگئی اور قوت مدافعت بھی زیادہ ہوگئی اور بہن کا سٹیمنا بھی زیادہ ہوگیا اور اب اس کا مقابلہ چلنے میں میں بھی نہیں کرسکتا وہ پہلے چلنے سے تھک جاتی تھی مگر اس دوائی نے اس کی تھکاوٹ بھی ختم کردی۔ اس دوائی کا یہ حیرت انگیز کمال چشم دید مجرب تجربہ میری زندگی میں ہوا۔


حضرت صاحب اس دوائی کا ایک اور فائدہ جو مجرب تجربہ شدہ ہے وہ یہ ہے کہ میرے بھانجے بہت کمزور تھے بچپن سے ماں کا دودھ نصیب نہیں ہوا اس لیے شروع سے ہی کمزور تھے اور کھانا کھا ہی نہیں سکتے تھے‘ بالکل کمزور دُبلے پتلے۔ پھر میں نے یہی دوائی ان کو بنا کردی۔ ماشاءاللہ کھانا کھانے لگے‘ جسم گوشت سے بھرتا جارہا ہے اور کبھی کبھی شہد نہیں ہوتا تو نسخہ سفوف کی شکل میں صبح نہار منہ دودھ کے ساتھ دیتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت فائدہ فرمایا اور اب بھی بھانجے کہتے ہیں ماموں دوائی بنادو تو میں کہتا ہوں کہ پیسے جمع کرکے دو میں دوائی بنادوں گا۔


حضرت صاحب میرا ایک دوست ہے جاوید پٹھان پشاور کا رہنے والا ہے مگر اب رہائش کراچی میں ہے۔ جاوید چرس‘ چائے اور غیرفطری عادات کا عادی تھا اور بقول جاوید کے کہ چرس چائے اور بری عادات نے اس کو بالکل ناکارہ کردیا تھا اور بہت سے حکیموں سے علاج بھی کراتا رہا اور طلاءوغیرہ بھی استعمال کیے مگر فائدہ بالکل نہ ہوتا تھا بلکہ وہ یہ کہتا تھا کہ میرا سارا سسٹم جام ہوگیا ہے اور دوائی میرے لیے ایسی ہوجاتی ہے کہ جیسے مٹی کھائی ہے کسی قسم کا کوئی فرق وغیرہ نہیں پڑتا۔


محترم حکیم صاحب میں نے اپنے دوست جاوید کو آپ کی کتاب ”کلونجی کے کرشمات“ میں سے یہ نسخہ لیا ہے۔ ھوالشافی: عقرقرحا 50گرام‘ کلونجی 50گرام‘ تخم ریحان 50 گرام‘ مصری 50 گرام بنا کردیا اور تین ٹائم پانی یا دودھ کے ساتھ کھانے کو کہا۔ اللہ تعالیٰ نے اتنا کرم کیا کہ جاوید کا سارا سسٹم بہترین ہوگیا اور وہ حیران ہوگیا اور جاوید کا سارا کام بن گیا۔


اب جاوید کہتا ہے کہ بڑے بڑے نسخے کام نہ کرسکے مگر اس نسخہ سے اس کا سسٹم ٹھیک ہوگیا۔ آپ کا یہ نسخہ میں نے اور لوگوں کو بھی بنا کردیا ہے اور جس کو بھی دیا ہے سب نے تعریف کی ہے۔ ایک اوردوست کو بنا کردیا اس کو یہ شکایت تھی کہ میرا بیوی سے ملنے کو دل کرتا ہے مگر کمزوری کی وجہ سے مل نہیں سکتا حضرت صاحب میں نے آپ کا یہ نسخہ بنا کردیا الحمدللہ اس کا بھی کام بن گیا اور اب آپ کے ان نسخوں کی وجہ سے میں بھی حکیم مشہور ہوگیا ہوں۔





خارش کا نایاب نسخہ


حضرت صاحب آج سے بیس بائیس سال پہلے مجھے پورے جسم پر خارش ہوگئی تھی اور خارش اتنی شدید تھی کہ سارے جسم پر چھوٹے چھوٹے لال سرخ دانے ہوجاتے اور میں دھوپ میں باہر نہیں نکل سکتا تھا اور سردیوں میں بھی لحاف اوڑھتا جب گرم ہوجاتا پھر سارے جسم پر خارش ہوجاتی پھرمیرے استاد محترم کے بڑے بھائی جو عالم باعمل ہیں ان کا نام مولانا شمس الرحمن صاحب ہے ان سے مجھے یہ نسخہ ملا جو میں نے بنا کر پیا اور الحمدللہ آج بیس بائیس سال ہوگئے مگر مجھے پھر یہ خارش کی بیماری نہیں ہوئی۔


یہ نسخہ میں نے بہت لاتعداد لوگوں کو دیا ہے اورسب کوبہت فائدہ ہوا ہے۔نسخہ حسب ذیل ہے۔نسخہ: ھوالشافی: کوڑ 50گرام‘ گلوڑ50گرام‘ سناءمکی50گرام‘ چرائتہ 50گرام۔ ان سب دوائیوں کو 6سیر پانی میں بھگو کر پھر چولہے پر نرم آنچ پر پکاتے رہیں اور وقفہ وقفہ سے چمچ سے ہلاتے رہیں جب تین کلو پانی خشک ہوجائے اتار کر ٹھنڈا کرکے چھان کربوتلوں میں بھر کر رکھ دیں۔ صرف صبح نہار منہ آدھی پیالی چائے والی۔ پرہیز: لال مرچ‘ گرم مصالحہ‘ بڑاگوشت۔(خالد محمود اعوان‘ کراچی)





رب پر پختہ یقین کا نتیجہ


میری بیٹی سکول ٹیچر ہے ان کے سکول کے پاس ایک گھر ہے بچوں کو چھوڑنے ان کی دادی ہمراہ آئی تو کہنے لگی کہ یہ میرا پوتا ہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اس پوتے کے ہونے کی جو تفصیل بتائی کہ ہمارے ہاں کزنز کی زیادہ تر شادیوں کا رواج ہے میری بہو بھی میری بھانجی ہے۔ اس کا بڑا بیٹا جو ہوا وہ بھی ابنارمل تھا دوسرے بھائی کی صرف دو بیٹیاں تھیں۔ جب تیسری دفعہ اللہ نے دینا چاہا تو سب پریشان تھے کہیں پھر بیٹی نہ ہوجائے لیکن میں نے ہر روز بلاناغہ سورہ مریم اور سورہ رحمن کا ورد جاری رکھا اور یہی دعا کی کہ یامولا کریم میرے بیٹے کو بیٹا عطا فرمانا۔ بات تو ساری یقین محکم کی ہے اور کلام اللہ برحق ہے کہ نجانے کتنے ڈاکٹرز سے الٹراسائونڈ کروایا مختلف لیڈی ڈاکٹروں نے بتایا کہ بیٹی ہے آخر دم تک لیکن جس دن پیدائش ہوئی تو بیٹا ہوا۔ الٹراسائونڈ غلط ثابت ہوئے اور بیٹا یہ سن کر میرے خوشی سے آنسو نہیں رکتے تھے اورفوراً سجدہ ریز ہوگئی میرے خاوند بھی رو کر کہنے لگے کہ یہ تیرا اپنے رب پر اور قرآن پر یقین کا نتیجہ ہے۔(نام نہیں ہے)





جوڑوں کے درد کیلئے


میری عمر 60سال ہے اورمیں عرصہ 17 سال سے جوڑوں کے درد کا شکار ہوں‘ حرکت کرنا اور چلنا‘ پھرنا میرے لیے سخت مشکل تھا۔ میں نے اس کا بہت علاج کرایا مگر سوائے وقتی افاقہ کے کچھ نہ ہوا۔


میں 4اپریل 2010ءمیں آہستہ آہستہ چل رہا تھا کیونکہ پائوں کے جوڑروں میں شدید درد ہورہا تھا۔


وہاں ایک دکان کے باہر ڈاکٹر علوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ میرے تمام حالات پوچھے۔ بیگ سے اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور میرا مسئلہ اس میں پڑھا اور مجھے بتایا کہ امریکہ میں یہ نئی ریسرچ جوڑوں کے دردپر ہوئی ہے جس سے کافی لوگوں کو فائدہ ہورہا ہے۔ مجھے کہا کہ آپ بھی یہ نسخہ آج ہی سے استعمال کرنا شروع کردیں۔


میں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا فوراً بازار سے دونوں چیزیں لے لیں اور گھر آکر استعمال کرنا شروع کردیا صرف تین دن کے استعمال سے جوڑوں کے درد میں فرق پڑنا شروع ہوگیا اور درد میں کافی کمی آنی شروع ہوگئی۔ آج یہ نسخہ استعمال کرتے ہوئے دو ماہ ہوچکے ہیں اور میرا مرض تقریباً 75فیصد ٹھیک ہوگیا ہے۔ مجھے امید ہے انشاءاللہ ایک ڈیڑھ ماہ اور استعمال سے مجھے اس مرض سے مکمل شفاءیابی نصیب ہوجائے گی۔ اس نسخہ کے ساتھ جو بہن بھائی انگلش دوائیاں استعمال کررہے ہیں وہ یکدم نہ چھوڑیں بلکہ آہستہ آہستہ انہیں کم کرنا شروع کردیں۔ اب میں یہ نسخہ لکھتا ہوں۔ نسخہ نہایت آسان ہے۔ خالص شہد کم از کم آدھ کلو لے لیں‘ دار چینی جو ایک پائولے کر اسے باریک گرائنڈ کرلیں‘ یعنی باریک کرلیں۔ دارچینی جو گرم مصالحہ میں استعمال ہوتی ہے۔ نہایت آسان نسخہ ہے۔ صبح نہار منہ دو چمچ چاول والے ایک گلاس گرم پانی میں ڈال لیں اور چھوٹا چمچ دار چینی اس میں ڈال لیں۔ آدھا لیموں کا رس بھی اس میں شامل کرلیں۔ ٹھنڈا ہونے پر پی لیں اور ناشتہ ایک گھنٹہ بعد کریں۔ یہی نسخہ ایک دفعہ شام کو بھی استعمال کریں۔ انشاءاللہ تعالیٰ جوڑوں کے درد سے نجات بھی مل جائیگی۔ 

گھر خوشگوار تبدیلی


آج آپ جس گھر میں داخل ہوں‘ مغربی طرز آرائش آپ کو حیران کردیتی ہے اور یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ مغرب ہم پر کتنا اثرانداز ہوچکا ہے۔


ہمارا پورا زندگی کا انداز مغربی ہے۔ ہمارا لباس ہمارے دفاتر ہمارے گھر‘ زبان اور کھانا پینا سب کچھ مغربی ہوچکا ہے۔ اب اتنا زیادہ مغربی ہوجانا بھی ٹھیک نہیں۔ آپ گھر کے معاملے میں یہ توازن گھر کی اندرونی سجاوٹ اور آرائش کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ یعنی اپنے گھر کو دیسی یا ثقافتی شکل دے سکتے ہیں۔


اب سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کریں؟ تو آپ کو ہم وہ وجوہات بتاتے ہیں جو آپ کو اس بات پر قائم کردیں گی۔





بنیادی اور خوشگوار تبدیلی


 ہوسکتا ہے کہ مغربی طرز آرائش دیکھ دیکھ کر آپ بیزار ہوچکے ہوں‘ جیسے کہ آپ کا گھر‘ دفتر‘ ہوٹل شاپنگ مالز سب کے سب مغربی اسٹائل کے ہیں۔ آپ جس طرف نگاہ اٹھائیں آپ کو فائبر گلاس اور سٹیل کی کارفرمائیاں ملیں گی۔یہ ماحول آپ کے دفتر کا ہے۔ آپ لنچ کیلئے اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹل گئے ہیں وہاں بھی آپ کو یہی سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پھر شام کو جب گھر واپس آتے ہیں تو گھر کی بھی یہی صورتحال ہے لہٰذا اس یکسانیت کو ختم کرنے کیلئے تبدیلی ضروری ہے اور یہ تبدیلی آپ دیسی طریقے سے لاسکتے ہیں۔ آپ اپنے گھر کو دیسی انداز سے سجا کر دیکھیں آپ کو بے پناہ خوشگواریت اور اطمینان کا احساس ہوگا۔


 اپنی چیز پھر اپنی ہوتی ہے۔ یہ آپ کو گرم جوشی کا احساس دلاتی ہے یہ آپ کے احساسات کو مہمیز کرتی ہے اور آپ کے جمالیاتی ذوق کی بھی آئینہ دار ہوتی ہے۔





روایت اور اسٹائل کا امتزاج


 آپ یقین جانیے! اس وقت پوری دنیا آپ کے اس دیسی سٹائل سے مسحورہوکر رہ گئی ہے بلکہ یہ سٹائل پوری دنیا میں فیشن اور اعلیٰ ذوق کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ انٹیریئر ڈیزائینرز نے ہمیشہ دیسی جنوب ایشیائی پاک و ہند سٹائل کو ترجیح دی ہے۔ وہ اس انداز سے ہمیشہ متاثر رہے ہیں اور اپنے غیرملکی صارفین کے لیے وہ رات دن اس میں نئی نئی جدتیں تلاش اور پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔


یہ آرائش خوبصورتی اور سادگی کا دلکش امتزاج ہے۔ یہ طرز آرائش ایک معنی میں تحریک دلانے والی آرائش ہے۔ اگر آپ نے اپنے گھر کو خالصتاً دیسی اندازمیں سجا لیا تو یقین کریں کہ آپ کی دیکھا دیکھی نہ جانے کتنے لوگ اپنے اپنے گھر کو آپ ہی کے انداز میں سجالیں گے اور آپ ایک جدت طراز خاتون کہلائیں گی۔





منفرد اور شاندار


 یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ روایتی دیسی (ہندوستانی اور پاکستانی) ہنرمندوں کی کاریگری اتنی منفرد اور شاندار ہے کہ کہیں اور اس کی نقل بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔


حالانکہ پوری دنیا اس آرٹ کے پیچھے ہے اور سب اپنے اپنے طور پر اس کی نقالی کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ مگر وہ بات کہاں جو انڈین و پاکستانی کاریگری کے بے مثال نمونوں میں پوشیدہ ہے۔ اب چاہے یہ کچھ بھی ہو۔


ملتان‘ بہاولپور‘ خانیوال‘ سکھر‘ خیرپور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ کشمیر‘ اڑیسہ اور گجرات کے دستکاروں کا کوئی بھی کام مختلف دھاتوں اور میٹریلز کو ایک دوسرے سے ملانے اور جوڑنے کا ہنر‘ شیشے‘ موتیوں اور دھاتوں کی کاریگری‘ کانتھاایمبرائڈری‘ قالین‘ میزیں‘ دیواریں‘ آئینے اور سجاوٹ کی چھوٹی موٹی بے شمار اشیاءغرض کچھ بھی ہو یہ سب اپنے ہنرمندوں کی انفرادیت کا مکمل اور واضح ثبوت ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے....


وہی حال قبائلی علاقوں کی ہنرمندی اور کاریگری کا ہے۔ پوری دنیا میں ان کا بھی کوئی ثانی نہیں ہے۔ آپ کو اگر بازار سے روایتی قبائلی جیولری مل جائے تو آپ اسے گھر لے جانے میں فخر محسوس کریں گی کیونکہ ان سب چیزوں میں خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ ساتھ انفرادیت بھی ہے اور یہ سستی بھی ہیں ۔


قبائلی علاقوں کے بنائے ہوئے زبردست کمان اور تیر‘ ترکش وغیرہ آپ کے گھر کی سجاوٹ میں غیرمعمولی کردار ادا کریں گے اور کوئی ان کی نقل بھی آسانی سے نہیں کرسکے گا۔


کئی نسلوں سے دستکاری کا فن ہماری طرز زندگی اور آرکیٹیکچر کا حصہ رہا ہے۔ لکڑی‘ پتھر اور دھات پر نقاشی‘ کندہ کاری اور دھاتی پینٹنگ شیٹ ورک اور روایتی کارپینٹری ہمارے معاشرے کا ایک لازمی جزو رہا ہے۔ قدیم زمانے میں گھروں کے ستونوں کو جو لکڑی یاپتھر کے ہوتے تھے ان پر نقش و نگار کندہ کیے جاتے تھے اور کارپینٹر ہفتوں اس پر اپنے فن کے جوہر دکھانے میں مصروف رہتے تھے۔ اس کام کے کاریگروں کی اس زمانے میں بھی قدر تھی۔ آج بھی قدر ہے۔آج کل مٹی کے ظروف جن پر منقش کام ہوتا ہے اور جومختلف سائز اور شیپ بھی دستیاب ہوتے ہیں کئی گھروں کے ڈرائنگ رومز کی زینت بنے ہوئے ہیں اور ان کی سج دھج ایک اپنا الگ مقام رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ تانبے اور پیتل کے ظروف بھی گھروں میں سجاوٹ کے طور پر استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ قابل خرید بھی اور باآسانی دستیاب بھی: اگرآپ کو راجھستانی انداز میں بنائی ہوئی سجاوٹ کی اشیاءدرکار ہیں۔ جیسے رنگ برنگے زیورات‘ پردے اور اسی قسم کی دوسری چیزیں تو ان کے لیے آپ کو راجھستان جانے کی ضرورت نہیں یا پھر ناگالینڈ میں بنے ہوئے بانسوں کے گلدان‘ دیواروں کی آرائش‘ شو پیس اور رنگ برنگی ناگا شالیں یا پھر اَڑیسہ میں بنائے ہوئے سیپیوں کے فانوس یہ سب آپ کو مقامی ہینڈی کرافٹس مارکیٹ میں باآسانی مل جاتی ہیں اور آپ کی جیبوں پر ان کا زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑتا۔


دیسی لکڑی کا فرش پائیدار بھی ہوتا ہے اور آسانی سے صاف بھی ہوجاتا ہے۔ فرش کی سجاوٹ کیلئے دیسی اسٹائل کی بہت سی چیزیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور ان کی قیمت بھی زیادہ نہیں ہوتی۔آپ کے پاس بے شمار آپشنز ہوتے ہیں جیسے جوٹ سے بنی ہوئی چٹائیاں‘ غالیچے‘ دریاں وغیرہ۔ یہ چیزیں فنکار اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں اور بہت ہی مناسب قیمتوں پر نمائش یا ہینڈی کرافٹس مارکیٹ وغیرہ میں دستیاب ہوتی ہیں۔بے شمار چیزوں کی طرح یہ سب بھی مختلف رنگوں میں دستیاب ہیں۔ ان میں گرد جمع نہیں ہوتی۔ اگر ہو بھی جائے توآپ انہیں باآسانی صاف کرسکتے ہیں۔ ان نادر نمونوں کو آپ سجاوٹ کے طور پر دیواروں کے ساتھ بھی لٹکا سکتی ہیں یا ان سے چھتوں کی آرائش کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔

ٹوٹے گھروں کیلئے انمول تحائف



”طلاق“ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ناپسندیدہ فعل ہے جس کی وجہ سے نہ صرف دو فریقین کے مابین ازدواجی رشتہ ختم ہوجاتا ہے بلکہ اس کے اثرات سے دوسرے افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو چند واقعات کے سوا واقعتاً دھوم دھام سے ہونے والی شادیوں کے المناک انجام کے پس پشت ہی حقیقت کارفرما ہوتی ہے۔ رشتہ ازدواج میںمنسلک افراد کے درمیان ابتداً جھگڑوں اور پھر بعد میںعلیحدگی کی نوبت تک آجاتی ہے اس فعل کے پیچھے کچھ عوامل کا عمل دخل ہوتا ہے جن سے ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے کہ سوائے طلاق کے اور کوئی حل نہیں نکالا جاتا۔ جہاں تک کامیاب زندگی گزارنے کا تعلق ہے تو اس مقصد کیلئے صبر برداشت‘ معاملہ فہمی‘ ذہنی ہم آہنگی‘ عزت نفس کا تحفظ اور ایک دوسرے کے جذبات کا احترام ایسی خصوصیات ہیں کہ اگر دونوں فریقین اپنے اپنے اندر پیدا کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خوبصورت رشتوں پر تعمیر کیا گیا گھرانہ وجود میں نہ آسکے۔ طلاق کو اسلام میں بھی تمام جائز کاموں میں سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے شریعت کے مطابق صرف بحالت مجبوری میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی اور معمولی قسم کی باتوں میں سے اسے اختیار کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ صرف دو زندگیوں کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور زندگیاں بھی منسلک ہوتی ہیں جن میں سے بچے سب سے اہم ہوتے ہیں ہر انسان میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں وہاں کچھ نہ کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں جس میں کوئی خامی نہ ہو۔ اس لیے میاں بیوی میں سے اگر دونوں باہمی عقل و فہم کے ساتھ ایک دوسرے کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی قبول کرلیں اور معمولی معمولی باتوں کو نظرانداز کرنا ہی مناسب سمجھیں تو وہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔


طلاق کی نوبت کیوںآتی ہے؟ تو اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مثلاً عمرمیں فرق‘ تعلیم کی کمی‘ خاندانی انا کا مسئلہ اور کبھی کبھار لڑکی کی منفی سوچ بھی ہوسکتی ہے۔میاں بیوی میں عمروںکے واضح فرق ہونے سے لڑکی کو نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں کافی دقت پیش آتی ہے کیونکہ وہ ذہنی ناپختگی کے باعث ماحول اور مسائل کو سمجھ نہیں پاتی جبکہ سسرال والوں کی یہ توقع ہوتی ہے کہ ان کی بہو ان کے مطلوبہ معیار پر پوری اترے اور بہو کا روایتی کردار ادا کرے لیکن جب وہ ان کے خیالات اور توقعات پر پوری نہیں اترتی تو آپس میں چپقلش اور باہمی رنجشیں جنم لیتی ہیں جن سے نوبت لڑائی جھگڑوں اور پھر طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔ تعلیم سے انسان میں شعور اور آگہی پیدا ہوتی ہے اور ایک پڑھا لکھا انسان ان پڑھ کی نسبت بہتر اندازمیں اپنے مسائل کا حل تلاش کرلیتا ہے کامیاب زندگی گزارنے کیلئے مرد اور عورت دونوں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔


اکثر طلاقیں لڑکے کے والدین کی ضد اور ہٹ دھرمی یا پھر لڑکی کے والدین کی انا کے باعث ہوتی ہیں‘ اکثر لڑکے کے والدین یہی چاہتے ہیں کہ بہو پر سب سے پہلے ان کا حق ہے اس لیے وہ سب سے پہلے ان کی خدمت کرے اور پھر بیٹے کی طرف توجہ دے اس سلسلے میں ساس‘ بہو یا بھاوج‘ نندوں کا جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کا دوسرا کردار لڑکا بھی ہوتا ہے۔ بعض مرد اپنی شکی طبیعت کے باعث اپنی بیویوں میں خامیاں تلاش کرتے رہتے ہیں اور ان خامیوں کی بناءپر وہ انہیں طلاق جیسے عذاب سے دوچار کردیتے ہیں اور مردوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو اپنی بیویوں میں اپنی توقعات کے مطابق خوبیاں نہ پاکر ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور موقع پاکر طلاق جیسا بڑا قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلاق کی ایک کڑی عورت بھی ہوتی ہے اس کی منفی سوچ کے باعث بھی ان کا گھر برباد ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ سسرال میں راج کرے اور اس کی ہر بات کو اہمیت دی جائے اس کا شوہر صرف اسی کا ہوکر رہے۔ اس قسم کے خیالات کے باعث جھگڑوں کی ابتدا ہوجاتی ہے اور اس کا انجام آخر کار طلاق پر ہوتا ہے۔


طلاق کے اثرات زیادہ تر مرد کی بجائے عورت کی زندگی پر پڑتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد بھی متاثر ہوتے ہیں جن کا تعلق لڑکی کے خاندان سے ہوتا ہے طلاق شدہ عورت کو ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اگرچہ اس کا قصور ہو یا نہ ہو لیکن زیادہ تر قصوروار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ اگر وہی طلاق شدہ عورت اپنے والدین کے گھر دوبارہ رہنا شروع کردیتی ہے تو اس کی وہاں وہ عزت نہیں ہوتی جو کہ شادی سے پہلے ہوا کرتی تھی وہاں بھی اسے دبے دبے لفظوں میں کئی باتیں سننا پڑتی ہیں کیونکہ کوئی بھی والدین یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیٹی شادی کے بعد ان کے گھر میںدوبارہ رہے۔ اس کے علاوہ طلاق کے بعد اکثر عورتوں کو اپنے بچوں سے محروم بھی ہونا پڑتا ہے اگر اسے عدالت کے ذریعے بچے مل بھی جائیں تو پھر ان بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے محنت مزدوری کرکے بھی وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم نہیں کرپاتی اور نتیجتاً بچے کم تعلیم حاصل کرپاتے ہیں اور پھر یہی بچے نہایت کم اجرت پر کوئی چھوٹے موٹے کام کرتے نظر آتے ہیں اس طرح ماں باپ کے غلط فیصلے کی بدولت ان کا پورا مستقبل دائو پر لگ جاتا ہے جس کا احساس والدین کو شاید بعد میںہوتا ہے۔


اگرچند ایک باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو طلاق کی شرح میں کسی حد تک کمی کرکے افراد کو اس کے منفی اثرات سے محفوظ کیا جاسکتا ہے سب سے پہلی بات یہ کہ لڑکے کے والدین جب بھی بہو تلاش کرتے ہیں تو انہیں اپنے بیٹے کی خوبیوں‘ خامیوں اور ذہنی سوچ کو مدنظر رکھ کر رشتہ تلاش کرنا چاہیے اور ایسی لڑکی کا انتخاب کرنا چاہیے جو کہ ان کے بیٹے کے معیار کے مطابق ہو اس مقصد کیلئے ان کے مابین ذہنی ہم آہنگی کا ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ دونوں فریقین کے مابین باآسانی سمجھوتہ ہوسکے اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکے کے والدین کوچاہیے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھیں کیونکہ وہ انہی کی خاطر اپنے والدین بہن بھائی سب کچھ چھوڑ کر آتی ہے اگر اس کی یہ کمی سسرال میں آکر پوری ہوجائے تو پھر اس کے اور سسرال والوں کے درمیان خوب بنتی ہے اور گھر ایک جنت کی مانند بن سکتا ہے۔ لڑکی کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اپنے ساس سسر کو اپنے والدین کی طرح سمجھے اور ان کی عزت کرنا اس پر لازم ہے۔ ساتھ اپنے شوہر کا بھی خیال رکھے اور شوہر کے سلسلے میں اگر اسے اپنے آپ کو تھوڑا تبدیل بھی کرنا پڑے تو کرے کیونکہ شوہر کی خوشی کا خیال رکھنا بیوی کا فرض ہوتا ہے اگر اسے اپنے شوہر میں کوئی خامی نظر بھی آئے تو نظرانداز کردے یا پھر اپنی عقلمندی سے اپنے شوہر کی خوبی میں تبدیل کردے اسی طرح شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی کمی کوتاہیوں اور خامیوں کو زیادہ اہمیت نہ دے بلکہ اس کی اچھائیوں پر نظر رکھے اگر اسی طرح شوہر بیوی آپس میں پیارو محبت سے سمجھوتہ کرلیں تو ایسی کوئی بات نہیں کہ جھگڑوں کی ابتداءہو اور معاملہ علیحدگی تک پہنچے۔

پانچ نکاتی باتیں


نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص ان پانچ قسم کے لوگوں کو حقیر سمجھے گا وہ پانچ چیزوں کے منافع سے محروم ہوجائے گا۔
٭ جو علماء کو گھٹیا سمجھے اس کا دین برباد ہوجائے گا۔ ٭ جو اہل وسعت کو گھٹیا سمجھے گا دنیاوی فوائد سے محروم ہوجائیگا۔ ٭ جو پڑوسیوں کو گھٹیا سمجھے گا وہ ہمسایوں کے نفع سے محروم ہوجائیگا۔ ٭ جو رشتہ داروں کو گھٹیا سمجھے گا وہ محبت و الفت سے محروم ہوجائیگا۔ ٭ جو اپنی بیوی کو گھٹیا سمجھے گا وہ اچھی زندگی سے محروم ہوجائیگا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جس کو ان پانچ اعمال کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو ساتھ ہی پانچ نعمتیں اور بھی عطا فرماتے ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ جسے شکر کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو ضرور نعمتوں میں زیادتی بھی عطا فرماتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ جسے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو قبولیت دعا سے بھی ضرور نوازتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ جسے استغفار کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو اس کی مغفرت بھی ضرور کردیتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو اس کی توبہ کوقبولیت بھی عطا فرماتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ جسے صدقہ کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو اس کا تکفل بھی فرماتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: ٭ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ٭صحت کو بیماری سے پہلے ٭ غناء کو فقر سے پہلے ٭ اپنی زندگی کو موت سے پہلے ٭فراغت کو مشغولی سے پہلے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: ٭ بات کو چھپانے سے رازوں کی حفاظت ہوتی ہے۔ ٭صدقہ مال کی حفاظت کرتا ہے۔ ٭اخلاص اعمال کی حفاظت کرتا ہے۔ ٭سچ اقوال کی حفاظت کرتا ہے۔ ٭مشورہ آراء کی حفاظت کرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ عنقریب میری امت پر ایک ایسا وقت آئیگا کہ پانچ چیزوں کو محبوب رکھیں گے اور پانچ چیزوں کو بھول جائیں گے:۔ ٭دنیا کو پسند کریں گے‘ آخرت کو بھول جائیں گے۔ ٭زندگی کو پسند کریں گے موت کو بھول جائینگے۔ ٭دنیا کے مکان کوپسند کریں گے قبروں کو بھول جائینگے۔ ٭مال کو محبوب رکھیں گے‘ حساب کو بھول جائینگے۔ ٭مخلوق کو محبوب رکھیں گے اور خالق کو بھول جائیں گے۔ (منبھات ابن حجرالعسقلانی)

نبویﷺ نسخہ جات سے زندگی سنواریں


  نبویﷺ نسخہ جات سے زندگی سنواریں
حضور نبی کریم ﷺ کی حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کو پانچ نصیحتیں:حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے پانچ باتوں کی وصیت کی۔ فرمایا:1۔ اے انس! کامل وضو کیا کرو‘ تمہاری عمر بڑھے گی۔
2۔ جو میرا امتی ملے‘ سلام کیا کرو‘ نیکیاں بڑھیں گی۔
3۔ گھر میں سلام کرکے جایا کرو‘ گھر کی خیریت بڑھے گی۔
4۔ چاشت کی نماز پڑھتے رہو‘ تم سےپہلے لوگ جو اللہ والے بن گئے تھے ان کایہی طریقہ تھا۔
5۔ اے انس! چھوٹوں پر رحم کرو‘ بڑوں کی عزت و توقیر کرو تو قیامت کے دن میرا ساتھی ہوگا۔
زبان کی تیزی کا نبوی علاج:حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ نے نبی پاک ﷺ سے اپنی زبان کی تیزی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا تم استغفار سے کیوں غفلت میں  پڑے ہو۔ میں روزانہ سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ ابونعیم کی دوسری روایت میں ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یارسول اللہﷺ میری زبان گھر والوں کے بارے میں تیز ہوجاتی ہے جس سے مجھے ڈر ہے کہ یہ مجھے آگ میں داخل کردے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں روزانہ سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں تم بھی استغفار کرو۔ استغفار کی کثرت سے زبان کی تیزی زائل ہوجائیگی۔ (حیاۃ الصحابہ)
جنت الفردوس کا وارث بننے کیلئے مجرب عمل:
قد افلح المومنون سے فیھا خلدون تک۔
سورۂ مومنون کی (پارہ 18) کی پہلی گیارہ آیات رات کو سوتے وقت ضرور پڑھ لیا کریں۔ یہ آیتیں عزت کی حفاظت کرتی ہیں‘ بے نمازیوں کو نماز کی رغبت دلاتی ہیں‘ بے ہودہ اور بری باتوں سے روکتی ہیں اور سب سے بڑی بات کہ جنت الفردوس کا وارث بنادیتی ہیں۔ ضرور عمل کریں۔
اولاد سے محروم حضرات کیلئے بہترین تحفہ:اگر آپ اولاد سے محروم ہیں تو اول و آخر درود ابراہیمی روزانہ ایک سو ایک دفعہ سورۂ کوثر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے ساتھ پڑھیں۔ انشاء اللہ آپ کی مراد پوری ہوگی۔
پائیدار جوانی کیلئے صدری راز: فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا  لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ  ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ  وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ،(سورہ روم 30)جو شخص یہ چاہتاہو کہ مرتے دم تک اس کے تمام اعضاء درست رہیں اور وہ تندرست رہے تو یہ آیت روزانہ تین دفعہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے۔ اللہ پاک کے فضل سے میں خود اس پر عمل کرتا ہوں اور ہمیشہ تندرست رہتا ہوں۔
مصیبتوں سے نجات اور حصول مقاصد کیلئے خاص ورد
اول آخر 11 مرتبہ درود شریف پڑھیں پھر حَسْبُنا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل۔ درج ذیل گنتی کے مطابق پڑھیں۔
1۔ شر اور فتنہ سے بچنے کیلئے 341 مرتبہ روزانہ۔2۔ وسعت رزق اور ادائے قرض کیلئے 308 مرتبہ روزانہ3۔ کسی خاص کام کی تکمیل کیلئے 111 مرتبہ روزانہ4۔ مصائب پریشانی سے نجات کیلئے 140 مرتبہ روزانہ۔
جب انسان سوتا ہے۔۔۔۔:نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب انسان سوتا ہے تو فرشتہ شیطان سے کہتا ہے کہ مجھے اپنا صحیفہ جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہیں دے۔ وہ دے دیتا ہے تو ایک ایک نیکی کے بدلے میں دس گناہ وہ اس کے صحیفہ سے مٹا دیتا ہے اور انہیں نیکیاں لکھ دیتا ہے پس تم میں سے جب بھی ارادہ کرے سونے کا تو وہ 33 مرتبہ سبحان اللہ۔33 دفعہ الحمدللہ اور34 دفعہ اللہ اکبر کہہ لیا کرے۔ یہ مل کر سو مرتبہ ہوگیا۔ (ابن کثیر

چار چیزیں



چار چیزوں سے جسم تباہ ہوجاتا ہے۔رنج‘ غم‘ فاقہ کشی اور شب بیداری۔
چار چیزوں سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔ سبزوشاداب چیزوں کی طرف دیکھنا‘آب رواں کا نظارہ کرنا‘ محبوب چیزکا دیدار‘ پھلوں کا نظارہ کرنا۔
چار چیزوں سے آنکھوں میں دھندلا پن پیدا ہوتا ہے۔ ننگے پاؤں چلنا‘ صبح و شام نفرت انگیز گراں چیز یا دشمن کو دیکھنا‘ زیادہ آہ وبکا کرنا‘ باریک خطوط کا زیادہ غور سے دیکھنا۔
چار چیزوں سے بدن کو تقویت ملتی ہے۔ نرم و ملائم ملبوسات زیب تن کرنا‘ اعتدال کے ساتھ حمام کرنا‘ مرغن اور شیریں غذا استعمال کرنا اور عمدہ خوشبو لگانا۔
چار چیزوں سے چہرہ خشک ہوجاتا ہے۔ اس کی شگفتگی شادابی اور رونق ختم ہوجاتی ہے۔ دروغ گوئی‘ بے حیائی‘ جاہلانہ طرز کے سوالات کی کثرت اور فسق و فجور کی زیادتی۔
چار چیزوں سے چہرے پر رونق اور شگفتگی آتی ہے۔ مروت‘ وفاداری جودو سخاوت اور پرہیز گاری۔
چار چیزیں باہم نفرت و عداوت کا سبب بنتی ہیں۔ تکبرو گھمنڈ‘ حسد و دروغ گوئی اور چغل خوری۔
چار چیزوں سے روزی بڑھتی ہے: نماز تہجد کی ادائیگی صبح سویرے بکثرت اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی طلب‘ صدقہ کرنا اور دن کے شروع اور آخر وقت میں خدا کاذکرو اذکار۔
چار چیزوں سے روزی روک دی جاتی ہے۔ صبح کے وقت سونا‘ نماز سے غفلت سستی اور خیانت۔
چار چیزیں فہم و ادراک کیلئے ضرر رساں ہیں۔ ترش چیزوں اور پھلوں کا دائمی استعمال‘ چت سونا‘ رنج و غم۔
چار چیزوں سے فہم وادراک کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کم گوئی‘ کم کھانا‘ اولیاء و صالحین کی صحبت اختیار کرنا‘ اچھی و دینی کتب کا مطالعہ کرنا۔
عقل کیلئے متعدد چیزیں ضرر رساں ہیں‘ جماع کی کثرت‘  بے ضرورت افکار و خیالات‘ مے نوشی زیادہ ہنسنا اور رنج و غم یہ تمام چیزیں عقل کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

ایک اللہ والے نے ایک نسخہ کیمیا برائے روحانی امراض


۔ ایک اللہ والے نے ایک نسخہ کیمیا برائے روحانی امراض رمضان کی مقدس ساعتوں میں ضرور بنائیں
سخن شیریں کے مغز‘ مروت کے پتے‘ تواضع کے پھول‘ حسن خلق کے بیج‘ فکر کا چھلکا‘ تدبر کی شاخ‘ شکر کا رس‘ خوشی کا پھول‘ تصور کا گوند‘ شوق کی خوشبو‘ حق کی تلخی‘ غم کی جڑ‘ ذکر کا جوہر‘ صبر کا شہد‘ استقامت کا پانی‘ ریاضت کا چٹھو‘ تقویٰ کا بٹہ‘ معرفت کی چھاننی‘ طریقت کی دیگچی‘ موتو قبل انت موتو کا چولہا‘ ہجر کا ایندھن ‘ پیار کی ہوا‘ عمل کا ڈبہ‘ عشق کی کسوٹی‘ ذکر و فکر کا نمک‘ اخلاص نیت کی ہریڑ‘ توبۃ النصوح کی کستوری‘ صبغۃ اللہ کا رنگ‘ فضل و کرم کا آملہ‘ مخفی راز کا ست‘ اخوت کا عرق‘ سب اجزاء کو ریاضت کے چٹھو میں تقویٰ کے بٹے پر کوٹ کر باریک کرلیں اور معرفت کی چھاننی سے چھان لیں پھر طریقت کی دیگچی میں ڈال کر موتو قبل انت موتو کے چولہے پر رکھ دیں اور نیچے ہجر کے ایندھن کی آگ جلائیں جب پکنے لگے تو توحید کے چمچ سے ہلاتے جائیں۔ خوب پک جائے تو نیچے اتار لیں اور پیار کی ہوا سے ٹھنڈا کریں۔ ٹھنڈا ہوجائے تو سچ کے ہاتھوں سے تین سو ساٹھ گولیاں بنالیں۔ یہ نسخہ ہر مریض روحانی کیلئے سال بھر کیلئے کافی ہے‘ ان گولیوں کو عمل کے ڈبہ میں بند رکھیں تاکہ خراب نہ ہوجائیں۔
طریقہ استعمال: جب ساری دنیا سوجائے تو رات کے پچھلے پہر تہجد کے وقت اٹھ کر حکم کے پیالے میں اللہ ھو کا پانی پی لیں اور اس کے ساتھ ایک گولی خاموشی کے ذہن میں ڈال کر اللہ ھو کا پانی پی لیں۔ واضح رہے کہ گولی کھانے سے قبل چھ گھونٹ وفاداری کے دودھ سے نوش کریں اور گولی کھانے کے بعد چھ گھونٹ وفاداری کے دودھ کے پی لیں۔
غذا: اسم ذات کی غذا کھائیں‘ اطاعت الٰہی کا لباس پہنیں‘ صراط مستقیم کا جوتا پہنیں۔ فاتقواللہ کی دستار باندھیں‘ رحمت کی چھڑی ہاتھ میں رکھیں۔ عمل کی مسواک کریں‘ حیا کا سرمہ آنکھوں میں لگائیں محبت کا خرچ جیب میں رکھیں اور دنیا سے پیار کا سودا خریدیں۔ پرہیز: چونکہ ہر دوائی کےساتھ پرہیز بھی ہوتا ہے اس لیے اس دوائی کے ساتھ بھی پرہیز ضروری ہے جس دوائی کے ساتھ پرہیز نہ ہو وہ دوائی شفاء نہیں دیتی بلکہ الٹا عذاب بن جاتی ہے۔
میرے بھائی‘ بہنو اور بزرگو! اب دوا ئے حقیقت کا پرہیز سنو اور اس پر عمل کرکے روحانی امراض سے چھٹکارا حاصل کرو۔
جھوٹ کا رزق‘ غیبت کی دال‘ گناہوں کا حلوہ‘ سود کا زردہ‘ تکبر کے چاول‘ شہوت کا گوشت‘ صرافہ کا پلاؤ‘ لالچ کا انڈا‘ غرور کا پھل‘ طمع کی مولی‘ ہلدی کا پیاز‘ غفلت کا چکوترہ‘ نخوت کالہسن‘ بدخلقی کا شلجم‘ حرص کی چائے ان سب اشیاء سے پرہیز کرنا لازم ہے جبکہ دوائے حقیقت کھارہے ہیںجو انسان اس نسخے کو استعمال کریگا اور درج بالا اشیاء سے پرہیز کریگا یقیناً سب روحانی بیماریوں سے شفاء پائیگا اور کامیاب ہوگا ایسے انسانوں پر جنت واجب ہے اور اس پر خدا کی رحمت ہے۔ یہ انسان دوزخ کی مصیبت سے بالکل بری ہے۔ ایسے انسان پر اللہ اور اس کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کو خلق عظیم ایثار کرنے کی توفیق بخشے۔
اے ہمارے پروردگار یہ حقیر سی کوشش وعمل آپ کی درگاہ اور آپ کے محبوب ﷺ کی درگاہ میں منظور و مقبول ہو۔ (آمین)

رمضان میں پیاس ختم


رمضان میں پیاس ختم
محترم حکیم صاحب! میرا یہ آزمایا ہوا نسخہ ہے جو آٹھ‘ نو سال سے آزماتا چلا آرہا ہوں جس آدمی نے روزہ رکھنا ہو اور وہ یہ چاہے کہ اسے سارا دن پیاس نہ ستائے وہ یہ عمل کرے‘ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہے اسے انشاءاللہ پیاس نہیں ستائے گی‘ وہ عمل یہ ہے جب سحری کا وقت ہو تین عدد کھجوریں لے لیں پہلی کھجور سے گٹھلی نکال لیں منہ میں ڈال کر دانتوں سے چبالیں پھر پانی کا ایک گھونٹ منہ میں ڈال کر ایک سے دو منٹ تک کھجور کے ذروں کو پانی کے ساتھ منہ کے اندر دائیں بائیں پھیرتے رہیں پھر وہی کھجور کے ذروں والا پانی نگل لیں اسی طرح دوسری مرتبہ بھی کھجور نگل لیں پھر تیسری مرتبہ بھی کھجور نگل لیں‘ انشاء اللہ سارا دن پیاس بھی نہیں ستائے گی اور بھوک بھی روزے کی حالت میں نہیں ستائے گی‘ یہ میرا آزمایا ہوا ہے چند سالوں کا عمل آرہا ہے جسے میں ہر سال رمضان میں عمل کرتا ہوں کیونکہ مجھے پیاس بہت لگتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی سحری اور افطار میں کھجور اور پانی کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اس عمل کو ان کی برکات سمجھتا ہوں جو بھی اس پاکیزہ عمل کو کرے گا وہ ضرور اس کا فائدہ بھی حاصل کریگا۔

ہر مسئلے کا حل دستیا ب ہے

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا توڑ ہے۔ یہاں خطرات کے مقابلہ میں ہمیشہ امکانات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ بشرطیکہ مسائل پیش آنے کے بعد آدمی اپنی ہمت کو نہ کھوئے۔ وہ خدا کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرکے خطرہ کا توڑ دریافت کرسکے۔یہی بات حدیث میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے کہ ’’ایک مشکل دو آسانی پر ہرگز غالب نہیں آسکتی‘‘ یعنی اس دنیا میں اگر عسر (مشکل) ایک ہے تو اس کے مقابلہ میں یسر (آسانی) کی مقدار اس کا دگنا ہے۔ یہاں اگر ایک راستہ میں رکاوٹ حائل ہوتی ہے تو وہیں دوسرا راستہ آگے بڑھنے کیلئے کھلا ہوا ہوتا ہے۔ایسی حالت میں فریاد اور احتجاج نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ وہ خود خدا کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ خدا کی خدائی کی تصغیر ہے۔ فریاد و احتجاج کرنے والا شخص بیک وقت دو نقصان کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی ناکامی کو دوبارہ کامیابی بنانے کے امکان کو استعمال کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی نظر میں اس بات کا مجرم قرار پاتا ہے کہ اس نے ایک کامل دنیا کو ناقص دنیا بنانے کی جسارت کی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا اتھاہ امکانات کی دنیا ہے۔ ماضی کی کوئی کوتاہی مستقبل کے مواقع کو برباد نہیں کرتی۔ دشمن کی کوئی کاروائی ایک نئی برتر کاروائی کے امکان کو ختم نہیں کرتی۔ ہرنقصان کے بعد یہ موقع بدستور باقی رہتا ہے کہ آدمی ازسر نو کوشش کرکے دوبارہ اپنے آپ کو کامیاب بنالے۔آدمی کو چاہیے کہ وہ ماضی کی طرف دیکھنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھے۔ وہ ہر کھونے کے بعد دوبارہ پانے کی کوشش کرے۔ وہ ہاری ہوئی بازی کو محنت اور عمل کے ذریعہ ازسر نو جیت لے

آج کل لوگ کاروبار کیلئے بہت پریشان ہیں



آج کل لوگ کاروبار کیلئے بہت پریشان ہیں میں نے دو وظائف کیے الحمدللہ بہت فائدہ ہوا۔ قارئین کی نذر پیش کرتی ہوں۔ میرا ایک بھائی ہے سعودیہ میں تھے لیکن گھر کے حالات نارمل سے رہے۔ دس سال بعد بھائی بحرین چلے گئے ہماری خواہش تھی کہ بھائی پاکستان میں سیٹ ہوجائیں اب اتنا پیسہ بھی نہیں تھا کہ کاروبار کرسکتے تو میں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر روزانہ اول وآخر 11,11 بار درود شریف کے بعد اکتالیس بار سورۂ مزمل پڑھنا شروع کردی میں اور میری فیملی عمرہ کی سعادت کیلئے گئے تو وہاں بھی ہم روزانہ سورۂ مزمل 41مرتبہ ضرور پڑھتے اور بھائی کے پاکستان سیٹ ہوجانے کی دعا کرتے جب بھی کوئی پریشانی ہوتی تو گیارہ دن اکتالیس مرتبہ سورۂ مزمل پڑھ لیتے۔ بھائی پاکستان سیٹ ہوگئے آج ماشاء اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا میرج ہال ہے اور بھائی کا کاروبار سیٹ ہوگیاہے بھائی اور گھر والے بہت خوش ہیں جب بھی اور کسی بھی مسئلے میں اکتالیس بار سورۂ مزمل گیارہ دن پڑھی تو ہمارے مسئلے حل ہوجاتے ‘ کمرشل میٹر نہیں لگ رہا تھا یہی سورۂ پڑھنے سے 15دن میں لگ گیا‘ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بھائی کومیرج ہال جیسا کاروبار دیں گے یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور سورۂ مزمل کا کمال ہے۔

امتحان میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے کیلئے


امتحان میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے کیلئے
1۔صبح 313 بار اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ
2۔رات کو 313باریَامُسَبِّبَ الْاَسْبَابْ (بعد نماز عشاء)
چونکہ میں نے وظیفہ نمبر دو کو میٹرک میں آزمایا تھا اور میں میٹرک میں بڑی آسانی کے ساتھ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ اس کو دوبارہ شروع کروں اور کم از کم بی ایس سی میں ناکام نہ ہوں۔ (اور جو طالب علم میرے پاس پڑھتے ہیں میں نے ان کو بھی یہی وظیفہ استعمال کروایا اور سب بڑے اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئے)
وظیفہ نمبر ایک میں نے اس لیے شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائیں اور جو بچوں کے والدین مجھے جان بوجھ کر فیسیں نہیں دیتے وہ وقت پر فیسیں دیں اور میرے رزق میں اضافہ اور برکت ہو۔ میں اگر مٹی میں بھی ہاتھ ڈالوں تو وہ سونا بن جائے والی کیفیت ہواور ایسا ہی ہوا اور میری تمام خواہشات پوری ہوئیں۔

خوشگوار زندگی کیلئے ورزش ضروری ہے


  خوشگوار زندگی کیلئے ورزش ضروری ہے
مرد ہو یا عورت ہلکی پھلکی ورزش کو بہرحال زندگی کا معمول بنالینا صحت و تندرستی کا ایک اہم ترین تقاضا ہے۔ ورزش کیلئے کون  سا وقت آپ کیلئے موزوں رہے گا اس کا انحصار آپ کی گھریلو اور پیشہ وارانہ مصروفیات پر ہے۔ ویسے ناشتہ سے قبل صبح کا وقت اس کیلئے بہترین قرار دیا گیا ہے۔ اگر شدید مصروفیات حائل ہوں تو پھر کھانے سے قبل شام کا وقت بھی اس کیلئے مناسب رہے گا۔ ورزش کیلئے جو وقت طے ہے اس کو معمولات زندگی میں جگہ دینا ضروری ہے ورنہ حادثات یا اتفاقات کے طور پر کی جانے والی کسی بھی قسم کی ورزش جسم پر بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اب آپ کس قسم کی ورزش اپنے لیے موزوں سمجھتے ہیں یا سمجھتی ہیں اس کا انتخاب آپ کی اپنی جسمانی ساخت عمر اور روزمرہ کی مصروفیات کے مطابق ہی ہوگا۔ بہرحال تیز چلنا‘ پیراکی‘ فٹ بال‘ والی بال‘ رسی کودنا یا اس طرح کے کسی کھیل کود سے وابستگی جس میں جسم کے اعضاء و جوارح حرکت میں آتے ہیں‘ خون کا دوران تیز ہوتا ہو اور ساتھ ہی ناکارہ اور فاسد مادے جسم سے پسینہ کی شکل میں خارج ہوتے ہوں تو پھر سمجھئے کہ ورزش کے مقاصد پورے ہوگئے اور یہ چیز معمول بن گئی تو پھر انشاء اللہ آپ بہت سے امراض سے نجات حاصل کرلیں گے۔
ورزش نہ کرنے کے نقصانات :ورزش کو معمول نہ بنالینے کے بہت سے نقصانات ہیں مثلاً بلند فشار خون‘ موٹاپا‘ جوڑوں کا درد‘ دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی‘ بے خوابی‘ بدہضمی و تیزابیت وغیرہ وغیرہ… یہ بیماریاں بظاہر الگ ہیں لیکن داخلی طور پر ایک دوسرے سے مربو ط ہیں۔ مثلاً فشار خون کا دل کی بے ہنگام حرکت سے‘ جوڑوں کے درد کا موٹاپے سے‘ بدہضمی کا بے خوابی سے اسی طرح دیگر اور امراض ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں اور ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ عورتیں عام طورپر ورزش کو مردوں کا ہی استحقاق سمجھتی ہیں اور اپنے حق میں گھریلو کام کاج کو ہی ورزش کا متبادل سمجھتی ہیں جو درست نہیں ہے۔ گھریلو کام اور معمول کے مطابق ورزش ایک دوسرے کے قائم مقام نہیںہیں۔ گھریلو کام کاج کو ورزش کا ہم معنی سمجھ لینا ورزش کی ذمہ داری سے دانستہ فرار ہے اور اسے مردوں کی ذات سے منسوب کردینا ایک غلط فہمی ہے۔ ورنہ عورتوں کے دل کا دورہ پڑنے کے بیشتر اسباب وہی ہیں جو مردوں میں ہوتے ہیں۔ مثلاً موٹاپا‘ ہائی بلڈپریشر‘ ذیابیطس‘ کولیسٹرول کی زیادتی اور عارضہ قلب کا خاندانی پس منظر وغیرہ۔ عورتوں کا موٹاپا اس مرض کا ہی نہیں بلکہ سب متذکرہ بالا امراض کا ایک اہم سبب ہے۔ مناسب اور متوازن غذا جس میں چاول‘ چربی (گوشت)‘ چینی اور چکنائی (گھی‘ تیل وغیرہ) کا کم سے کم استعمال ہو تو ایسی غذائیں تندرستی کی برقراری میں کلیدی رول ادا کرتی ہیں۔ احتیاط اور علاج‘ پرہیز اور ورزش ایک دوسرے کیلئے معاون و مددگار بنیں تو پھر تاثیر دگنی ہوگی اور اگر یہ دو چیزیں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں چل رہی ہیں تو بے چارہ جسم تختہ مشق بن جائے گا۔ اگر آپ روزانہ ورزش کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے خود کو تیار کرنا پڑے گا یا دوسرے معنوں میں اپنے آپ کو قائم کرنا پڑے گا۔ اس کی اہمیت اور افادیت بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حفظان  صحت کے اصول اور طبی نقطہ نظر سے ورزش کے فوائد اپنی جگہ اس کو محض مان لینے یا اس کے قائم ہوجانے سے کوئی بات نہیں بنے گی‘ اس کیلئے آپ کا ارادہ عمل ضروری ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا نعم البدل یا متبادل صرف اور صرف آپ کی اپنی ذات کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے۔
انسان کو پختگی پیدا کرنی چاہیے:ارادہ و عمل کی پختگی کو مستحکم کرنے نیز خیالات کو پختہ تر اور مرکوز کرنے کیلئے آپ کو سوچنا ہوگا۔ اپنے آپ کو ہمیشہ قائل کرتے رہنا ہوگا۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں ہے بلکہ اسے معمولات زندگی میں جگہ پانا ہے تو پھراس کی مسلسل ومتواتر آبیاری بھی اپنی سوچ وفکر کے ذریعہ کرنی ضروری ہے۔ آپ کو خیال کرنا پڑے گا اور قائل ہونا پڑے گا کہ ورزش نہ کرنے کے نتیجہ میں آپ کس قدر خسارے میں ہیں۔ ٭ آپ کا وزن بڑھتا جارہا ہے ٭ جسم بے ڈول اور بوجھل ٭ بیٹھ کراٹھنے میں پھرتی نہیں رہی ٭ ذرا سی محنت یا دوڑ دھوپ نظام تنفس کو درہم برہم کردیتی ہے ۔
یہ اور اس طرح کے نقصانات کی فہرست بنائیں اور اپنے دل و دماغ کو اس بات کا قائل کریں کہ اگر ورزش کو معمولات زندگی میں جگہ نہ دی جائے اور متوازن غذا پر توجہ نہ کی جائے گی تو پھر ان نقصانات کی فہرست طویل تر ہوتی جائے گی۔
ٹھیک اسی طرح ورزش کے فوائد پر مشتمل فہرست نہ صرف مرتب کریں بلکہ اسے پیش نظر بھی رکھیں اور وقتاً فوقتاً اس کی تجدید بھی کریں تاکہ سستی‘ کاہلی اور اضمحلال کے اثرات آپ کے ورزش کے معمولات پر نہ پڑیں۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وقت کی پابندی کے ساتھ کسی عمل کو تواتر سے انجام دینے کیلئے غیرمعمولی قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کی ورزش آپ سے وقت کی پابندی اور تواتر کا مطالبہ کرتی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس کے فوائد پر نظر رکھیں اور خود کلامی کے ذریعہ اپنے نفس کومخاطب کرکے کچھ اس طرح اسے قائل کرنے کی سعی کرتے رہیں کہ: ٭ جسمانی ورزش سے جسم میں پھرتی اور چستی پیدا ہوگی اور بوجھل پن دور ہوگا‘ نیز وزن اور جسمانی ساخت مناسب اور متناسب رہے گی۔ ٭ موت اور حیات‘ صحت اور بیماری اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ضرور ہے لیکن ہم عقل سلیم کو استعمال کرنے کے بھی تو مکلف ہیں اور اسی کا تقاضا ہے کہ ورزش کے ذریعہ صحت جیسی عظیم نعمت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور زندگی کو بے مزہ کرنے والی بیماریوں جیسے ذیابیطس‘ موٹاپا‘ تنفس کی خرابیاں اور اعصابی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے یا کم از کم ان کی آمد سے پہلے ہی ان کو ٹالا جاسکتا ہے۔ ٭دوران خون کا نظام درست ہوگا‘ غذا اچھی طرح ہضم ہوگی‘ طبیعت ہلکی پھلکی اور ہشاش بشاش ہوجائے گی‘ چہرے کو غازے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ٭ تناؤ اور بے خوابی کی زد میں آئی ہوئی زندگیاں بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ ہلکی سی ورزش راحت اور سکون کا باعث ہوتی ہے۔ بے خوابی کی شکایت میں تو یہ اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ ٭ بیماریوں کی تکلیف تو اپنی جگہ ڈاکٹروں کی فیس اور دواؤں کا بل مریض تو مریض‘ اس کے قریبی اعزاو اقربا تک کو بھی تیماردار سے بیمار بنا دیتا ہے۔ اگر تھوڑی سی محنت معمول کے مطابق ورزش اور متناسب غذا کے ذریعہ ان الجھنوں سے بچاجاسکتا ہے تو پھر یہ کوئی گھاٹے کاسودا نہیں ہے۔
ورزش کا صحت سے تعلق:مردوں اور عورتوں کو یہ احساس رکھنا چاہیے کہ خوشگوار ازدواجی زندگی اور معاشرتی امور کا صحت سے بڑا گہرا تعلق  ہے۔  بیمار جسم بحالت مجبوری مسکراہٹ کو چہرے پر پھیلا سکتا ہے لیکن دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ہنسنا بھی ایک تکلیف وہ عمل بن جاتا ہے۔ ایک عقل مند ماں نے رخصتی کے وقت اپنی بیٹی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ’’بیٹی! جب تم ناشتہ تیار کرکے دسترخوان پرکھانے کیلئے بیٹھو تو تمہارے بال بکھرے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں۔ اگرچہ یہ نصیحت ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے لیکن اس سے مراد یہی ہے کہ تمہاری عائلی ذمہ داریاں کہیں تمہیں اپنی ذات سے غافل نہ کردیں۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا کہ صحت ایک بڑی دولت ہے اور ایک عظیم نعمت بھی ہے نہ ہی اسے ضائع کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کی ناقدری کرنی چاہیے

بسم اللہ ‘تمام آفتوں سے نجات کا راستہ


حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ میں بسم اللہ  کے بعض خواص مجربہ تحریر فرمائے ہیں جو افادہ عوام کیلئے انہی کے الفاظ میں پیش کیے جارہے ہیں۔ امید ہے کہ مسلمان ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔
ہرمشکل اور حاجت کیلئے: جو شخص بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمکو بارہ ہزار مرتبہ اس طرح پڑھے کہ ہر ایک ہزار پورا کرنے کے بعد درود شریف کم از کم ایک مرتبہ پڑھے اور اپنے مقصد کیلئے دعا مانگے‘ پھر ایک ہزار اور اسی طرح پڑھ کر دعا کرے اور اسی طرح بارہ ہزار کردے تو انشاء اللہ ہر مشکل آسان اور حاجت پوری ہوگی۔
جو شخص بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے اعداد کے موافق کہ وہ 786 بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمکو متواتر سات روز تک پڑھے اور اپنے مقصد کیلئے دعا کرے انشاء اللہ مقصد پورا ہوگا۔
تسخیر قلب کیلئے:جو شخص بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو چھ سو مرتبہ لکھ کر اپنے پاس رکھے تو لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت و عزت ہوگی کوئی اس سے بدسلوکی نہ کرسکے گا۔
آفات سے حفاظت:جو شخص محرم کی پہلی تاریخ کو ایک سو تیرہ مرتبہ پوری بسم اللہ الرحمن الرحیم کاغذ پر لکھ کر اپنے پاس رکھے گا ہر طرح کی آفات و مصائب سے محفوظ رہے گا۔ مجرب ہے۔
چوری اور شیطانی اثرات سے حفاظت:سونے سے پہلے اکیس مرتبہ پڑھے تو چوری اور شیطانی اثرات سے اور اچانک موت سے محفوظ رہے گا۔
ظالم پر غلبہ:کسی ظالم کے سامنے پچاس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو مغلوب کرے گا اور اسے غالب کردیں گے۔
ذہن اور حافظے کیلئے:786مرتبہ پانی پر دم کرکے طلوع آفتاب کے وقت پیے تو ذہن کھل جائے اور حافظہ قوی ہوجائے۔
حب (محبت کیلئے):786 مرتبہ پانی پر دم کرکے جس کو پلائے اس کو گہری محبت ہوجائے (ناجائز کاموں میں استعمال کرے گا تو وبال کا خطرہ ہے)
اولاد کی حفاظت کیلئے:جس عورت کے بچے زندہ نہ رہتے ہو‘ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو اکسٹھ مرتبہ لکھ کر تعویذ بنا کر اپنے پاس رکھے تو بچے محفوظ رہیں گے‘ مجرب ہے۔
کھیتی کی حفاظت اور برکت کیلئے:ایک سو ایک مرتبہ کاغذ پر لکھ کر کھیت میں دفن کردے تو کھیتی تمام آفات سے محفوظ اور اس میں برکت ہو۔
حکام کیلئے:بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کسی کاغذ پر پانچ سو مرتبہ لکھے اور اس پر ڈیڑھ سو مرتبہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمپڑھے‘ پھر اس کاتعویذ اپنے پاس رکھے تو حکام مہربان ہوجائیں۔
درد سر کیلئے:اکیس مرتبہ لکھ کر درد والے کے گلے میں یا سر پر باندھ دیں تو درد سر جاتا رہے‘ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کی خصوصیات اور برکات بہت زیادہ ہیں ان میں سے چند بقدر ضرورت لکھی گئیں۔
بسم اللہ کی بعض حرکات:حدیث شریف میں تصریح ہے کہ گھر کا دروازہ بند کرتے وقت اسی طرح چراغ گل کرتے وقت نیز کھانا کھانے سواری پر سوار ہونے‘ اترنے‘ برتن ڈھانکنے کے وقت بسم اللہ کہو‘ اس سے تسمیہ کی برکت کا بخوبی علم ہوتا ہے۔
تفسیرابن کثیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک قبرستان سے گزرے‘ آپ کو معلوم ہوا کہ قبر میں مدفون شخص کو عذاب ہورہا ہے پھر کچھ عرصہ بعد وہاں سے گزر ہوا تو معلوم کہ وہ شخص نہایت آرام میں ہے‘ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عذاب ٹل جانے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میرے انتقال کے وقت میری اہلیہ امید سے تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا فرمایا جب وہ بڑا ہوا تو اس نے دین پڑھانے کیلئے اس کو بھیجا۔ یہ بچہ اپنی توتلی زبان میں بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم  پڑھتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیرا بچہ مجھے رحمان اور رحیم کہتا ہے مجھے شرم آتی ہے کہ میں تجھے عذاب دوں۔ لہٰذا میں تجھے نجات دیتا ہوں اب تم جنت میں عیش سے رہو۔

پرسکون نیند


۔ آپ باوضوہوکر مسنون طریقے سے دائیں کروٹ لیٹ کر سونے کی دعا پڑھ لیا کریں۔
اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِّی الْعَظِیْمِ

 پڑھتے پڑھتے سوجایا کریں۔ چند دن میں ہی یہ کیفیت ختم ہوجائے گی اور پرسکون نیند آئے گی

زیتون


۔ زیتون کے تیل پر ایک ہزار ایک بار سورۂ کافرون سات دن تک روزانہ پڑھ کر وہ تیل چنبل والی جگہ پر لگائیں تیل کو بڑھاتے جائیں ختم نہ ہونے دیں‘ بہت لاجواب روحانی ٹوٹکہ ہے۔ انشا ء اللہ ضرور فائدہ ہوگا۔ اس تیل کو پورے جسم پر بھی استعمال کرسکتےہیں۔

آپ ہر نماز کے بعد ایک


 آپ ہر نماز کے بعد ایک 

 تسبیح اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ 

پڑھیں اپنی بیماری کا تصور رکھیں۔ چند ماہ اس کی پابندی 
کریں انشاء اللہ بہت جلد فائدہ ہوگا۔

آزمودہ ٹوٹکہ


آپ کیلئے ایک آسان اور آزمودہ ٹوٹکہ دے رہا ہوں‘ مکھن‘ بالائی وغیرہ استعمال کرتے ہوئے اس پر حسب ذائقہ دارچینی چھڑک لیا کریں اس سے آپ کو بہت فوائد ملیں گے ایک تو چکنائی نالیوں میں جمے گی نہیں اور دوسرا ہاضمہ بھی ٹھیک رہے گا
ii۔آپ دودھ مکھن جب بھی استعمال کریں اس میں ایک چمچ شہد کا ملالیں‘ کوشش کریں کہ دودھ نیم گرم لیں اس سے جسم کے اعضاء کو بھی تقویت ملے گی اور اندر سے بلغم وغیرہ بھی خارج ہوگی۔ بہت آسان لیکن مفید نسخہ ہے۔

پودینہ اور اجوائن کے انوکھے کرشمے


 پہلے دیہاتی لوگوں کی صحت قابل رشک ہوتی تھی اور ہر طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے‘ موسم سرما میں اکثر زکام بخار اور کھانسی کی تکالیف میں مبتلا ہوجاتے تھے مگر وہ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کا نام تک نہ لیتے چولہے کی گرم راکھ میں آلو دبا دئیے جاتے جب پک جاتے تو نکال کر نمک لگا کر گرم گرم کھا کر بستر پرلیٹ جاتے۔ صبح کو بالکل ٹھیک ہوجاتے‘ اگر ایک دو دفعہ آلو سے نہ ٹھیک ہوں تو مکئی کا آٹا توے پر بھون کر گڑ ملا کر کھاکر سوجاتے۔ صبح زکام کا نام تک نہ ہوتا‘ اسی طرح اگر نمونیا ہوجاتا تو لسی پھٹا کر پانی پلایا کرتے تھے۔ مریض بھلا چنگا ہوجاتا تھا۔ گاؤں میں مولوی صاحبان پڑھے لکھے ہوتے تھے۔ جو دینی علوم کے علاوہ علم طب سے بھی تھوڑی بہت واقفیت رکھتے تھے۔ چائے وغیرہ کا رواج بالکل نہ تھا زکام کی صورت میں چائے بطور دوا استعمال کی جاتی تھی۔ ہر گھر میں خشک پودینہ‘ اجوائن‘ سنڈھ اور ہریڑ وغیرہ رکھی ہوتی تھیں۔
دیہاتی اکثر کھانا پیٹ بھر کر کھالیتے ہیں‘ اگر کام کاج نہ کریں تو پیٹ درد کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے پودینہ اور اجوائن گھروں میں رکھی ہوتی تھیں دو گرام سفید پودینہ لسی کے ہمراہ معمولی نمک ملا کر کھانے سے پیٹ کا درد کافور ہوجاتا۔ جن صاحبان کے گھروں میں لسی میسر نہ ہو تو متبادل کے طور پراجوائن دو گرام کے قریب نمک ملا کر پانی سے کھلائی جاتی پیٹ درد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اجوائن کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی کاشت شروع میں مصر میں ہوا کرتی تھی بعد میں مشرقی ہندوستان میں بھی کاشت کی گئی جو بہت کامیاب رہی۔ اجوائن سے حکیم صاحبان نے مختلف بیماریوں کے علاج دریافت کیے ہیں امراض معدہ کیلئے اکسیر سمجھی جاتی ہے ذیل میں دو نسخے نہایت ہی قابل قدر ہیں۔
ایک پاؤ اجوائن صاف شدہ میں ایک تولہ نمک سیاہ باریک کرکے ملا کر گھیگوار کے شیرہ یعنی لعاب میں اچھی طرح ملا کر دھوپ میں رکھ دیں۔ خشک ہونے پر شیشی میں محفوظ کرلیں۔ ایک گرام سے دو گرام تک پانی کے ساتھ کھانے سے پیٹ درد‘ قبض اور دیگر کئی امراض سے نجات مل جاتی ہے۔
اجوائن خشک صاف شدہ ایک پاؤ میں نمک سیاہ آدھا تولہ ملا لیں پھر لیموںکے عرق میں اس قدر تر کریں کہ لیموں کا عرق اجوائن سے تھوڑا اوپر آئے۔ پھر خشک ہونے پر بوتل میں ڈال دیں۔ بوقت ضرورت ایک گرام سے دو گرام تک پانی سے کھلائیں۔ بھوک نہ لگنے کا بہترین علاج ہے۔ اس کے علاوہ دل میلا ہورہا ہو‘ قے ہونے والی ہو‘ اپھارہ کی تکلیف محسوس کررہے ہوں ان سب کیلئے عمدہ تحفہ ہے۔ کھایا پیا فوراً ہضم ہوجاتا ہے۔
اکثر حکیم اجوائن کو تین بار لیموں کے عرق میں تر کرکے خشک ہونے پر سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ کمزور مریضوں کو طاقت بحال کرنے کیلئے ایک گرام پانی کے ساتھ کھانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ یہ کراماتی اجوائن کے نام سے مشہور ہے۔
یرقان کیلئے: ایک بڑا چمچ اجوائن ایک پاؤ پانی میں مٹی کے برتن میں بھگو کر رات کو اوس میں رکھ دیں۔ صبح نہار منہ رگڑ کر پلادیں۔ تین چار دن میں آرام آجاتا ہے۔
قبض کا شافی علاج
ایک عبدالجلیل صاحب زرگر نے ایک کھتری حکیم کا بڑا دلچسپ قصہ سنایا کہنے لگے کہ کافی سال پہلے ان کے ایک بھتیجے کا معدہ خراب ہوگیا‘ شدید قبض ہونے لگی‘ شروع میں گھر ہی میں دیسی ٹوٹکے کرتے رہے پھر ہسپتالوں کے چکر کاٹتے رہے۔ معمولی تکلیف میں افاقہ ہوتا پھر بیماری کی وہی حالت ہوتی۔ حکیم صاحبان سے مشورہ کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بھی قبض کشائی کیلئے ادویات دیں۔ وقتی طور پر آرام ہوجاتا مگر بعد میں تکلیف میں دگنا اضافہ ہونے لگا۔ ان کے دادا صاحب جن کی عمر سو سال کے لگ بھگ تھی بڑے پریشان ہوئے ہری پور سے چند میل کے فاصلہ پر ایک کھتری حکیم کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ دادا صاحب نے فرمایا کہ اس کو کھتری حکیم کے پاس لے جانا ضروری ہے۔ ہمارے ساتھ دادا صاحب بھی تیار ہوگئے ان کی صحت قابل رشک تھی۔ صبح کو اللہ کا نام لے کر ہم کچھ پیدل اور کچھ گاڑی میں سفر کرکے حکیم صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ حکیم صاحب کو نچلے دھڑ کا فالج تھا۔ ایک صوفہ پر تشریف فرما تھے۔ نچلے حصہ پر چادر ڈالی ہوئی تھی۔ ہاتھ کی انگلیاں بھی دو ہی کام کرتی تھیں۔ ایک انگوٹھا اور دوسری انگشت شہادت۔ باقی تین دیکھنے میںمڑی ہوئی لگتی تھیں۔ حکیم صاحب نے ان کے بھتیجے کو اپنی باری پر اپنے پاس بلایا۔ نبض پر ہاتھ رکھا اور کچھ سوال پوچھتے رہے۔ پھر کہنے لگے کہ اس کی بیماری میری سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ اس طرح کریں کہ آج سے اس کو ہر قسم کی بادی اور ثقیل اشیاء کھلانا بند کردیں اور آٹھ دن کے بعد اس کو پھر لے آئیں۔ پھر دیکھ کر دوائی دوں گا۔ حکیم صاحب کی عمر سوا سو سال لوگ بتارہے تھے۔
 میرے دادا نے عرض کی ہم دور دراز پہاڑی علاقے سے آئے ہیں ہمیں کوئی دوائی دے دیں مگر حکیم صاحب نے دوائی دینے سے یہ کہہ کرصاف انکار کردیا کہ کس بیماری کی دوا دوں۔ مجھے جب تک بیماری کا اچھی طرح پتہ نہ چلے گا میں کوئی دوائی نہیں دے سکتا۔میں پیشہ ور نہیں ہوں کہ بغیر تشخیص کیے دوائی دیکر پیسے بٹورلوں۔ آپ جائیں میرے مشورہ پر عمل کریں اور دوبارہ جیسی بھی صورت ہو میرے پاس لائیں۔ ہم مایوس ہوکر واپس لوٹے۔ غذا جس طرح حکیم صاحب نے فرمایا تھا کھلانی شروع کردی۔ آٹھ دن بعد پھر سفر کرکے حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حکیم صاحب نے نبض دیکھی اور کہنے لگے کہ اس کو کوئی بیماری نہیں کہ دوا دی جائے۔ اس کا علاج آپ نے خود کرنا ہے۔ یہ بالکل ٹھیک ہوجائیگا۔ کسٹرآئل گھر واپس جاتے وقت کسی پنساری کی دکان50 گرام لے جائیں۔ دال مونگ ثابت پکائیں۔ ایک پیالہ نیم گرم دال میں کسٹر آئل کی شیشی کا تیسرا حصہ ملا کر رات کو پلادیں۔ دوسرا حصہ اسی طرح دال میں دوسری رات اور تیسرا حصہ تیسری رات پلادیں۔ چند دن بادی چیزیں نہ کھلائیں اس کی بیماری ختم ہوجائیگی۔ حکیم صاحب کہنے لگے کہ انشاء اللہ آپ کو دوبارہ آنے کی تکلیف نہ ہوگی۔
ہم نے راستے سے کسٹرآئل لی اور گھر پہنچ گئے۔ مونگ کی دال میں ایک حصہ کسٹرآئل مریض کو پلایا گیا۔ صبح پاخانہ میں بکری کی مینگنوں کی طرح مواد اندر سے نکلا۔ دوسری رات دینے سے مزید گولیوں کے ہم شکل مواد خارج ہوا۔ تیسرے دن کچھ مواد گولیوں کا اور کچھ عام۔ ہمارا بھتیجا بالکل ٹھیک ہوگیا۔ چند دن پرہیز کروایا اور آج تک دوبارہ قبض نہ ہوئی۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص ان پانچ قسم


نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص ان پانچ قسم کے لوگوں کو حقیر سمجھے گا وہ پانچ چیزوں کے منافع سے محروم ہوجائے گا۔
٭ جو علماء کو گھٹیا سمجھے اس کا دین برباد ہوجائے گا۔ ٭ جو اہل وسعت کو گھٹیا سمجھے گا دنیاوی فوائد سے محروم ہوجائیگا۔ ٭ جو پڑوسیوں کو گھٹیا سمجھے گا وہ ہمسایوں کے نفع سے محروم ہوجائیگا۔ ٭ جو رشتہ داروں کو گھٹیا سمجھے گا وہ محبت و الفت سے محروم ہوجائیگا۔ ٭ جو اپنی بیوی کو گھٹیا سمجھے گا وہ اچھی زندگی سے محروم ہوجائیگا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جس کو ان پانچ اعمال کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو ساتھ ہی پانچ نعمتیں اور بھی عطا فرماتے ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ جسے شکر کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو ضرور نعمتوں میں زیادتی بھی عطا فرماتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ جسے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو قبولیت دعا سے بھی ضرور نوازتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ جسے استغفار کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو اس کی مغفرت بھی ضرور کردیتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو اس کی توبہ کوقبولیت بھی عطا فرماتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ جسے صدقہ کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تو اس کا تکفل بھی فرماتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: ٭ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ٭صحت کو بیماری سے پہلے ٭ غناء کو فقر سے پہلے ٭ اپنی زندگی کو موت سے پہلے ٭فراغت کو مشغولی سے پہلے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: ٭ بات کو چھپانے سے رازوں کی حفاظت ہوتی ہے۔ ٭صدقہ مال کی حفاظت کرتا ہے۔ ٭اخلاص اعمال کی حفاظت کرتا ہے۔ ٭سچ اقوال کی حفاظت کرتا ہے۔ ٭مشورہ آراء کی حفاظت کرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ عنقریب میری امت پر ایک ایسا وقت آئیگا کہ پانچ چیزوں کو محبوب رکھیں گے اور پانچ چیزوں کو بھول جائیں گے:۔ ٭دنیا کو پسند کریں گے‘ آخرت کو بھول جائیں گے۔ ٭زندگی کو پسند کریں گے موت کو بھول جائینگے۔ ٭دنیا کے مکان کوپسند کریں گے قبروں کو بھول جائینگے۔ ٭مال کو محبوب رکھیں گے‘ حساب کو بھول جائینگے۔ ٭مخلوق کو محبوب رکھیں گے اور خالق کو بھول جائیں گے۔ (منبھات ابن حجرالعسقلانی)

اصول زندگی


                                                                اصول زندگی


یہ بات اس قدر مایوس کن ہے کہ لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نماز و روزہ کی عدم ادائیگی سے بھی ان کے ایمان یا اسلام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ عبادت کیلئے بڑھاپے کا وقت مخصوص ہے چنانچہ بڑھاپا آئے گا تو دیکھ لیں گے۔ کچھ لوگ نماز کی ادائیگی سے محرومی پر بھی خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نماز نہیں پڑھتے لیکن ہم کسی کو دھوکہ و فریب نہیں دیتے یا کسی کے حقوق غضب نہیں کرتے۔ اکثر لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دکھاوے کی نماز نہیں پڑھنا چاہتے‘ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے قوم کے 94فیصد لوگ نماز روزہ کی پابندی سے روک دئیے گئے ہیں۔ مسلمان اپنے دین سے اس لیے دور ہوگیا ہے کہ اس کو مادی دنیا کی محبت میں الجھا دیا گیا ہے۔ اس بات کا یقین ہے اور تجربے سے ثابت ہوچکا ہے کہ اگر نماز‘ روزہ کے متعلق ضروری معلومات لوگوں کے سامنے بیان کردی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ فاسق ترین مسلمان بھی ان عبادات کی طرف راغب اور عمل پیرا نہ ہوجائے۔
مسلمانوں کی دوری کا سبب:مسلمانوں کی دین سے دوری مخالفین اسلام کی طویل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ان کو کس آسانی سے دوسرے راستے پر ڈالا گیا ہے کہ ان کے دلوں سے اسلام کو سرد کردیا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ان کو دین سے بہت دور کردیا ہے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت نے آخرت کو فراموش کردیا ہے صرف دنیا کا ہوکر رہنا کفار کا شیوہ ہے۔ قرآن میں ہے کہ کفار اس دنیا کے علاوہ دوسری زندگی پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ مسلمانوں کی اکثریت بھی دنیاوی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگئی ہے کہ آخرت کی زندگی سے قطعاً لاتعلق ہوچکی ہے مسلمانوں کی یہ روش ان کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔
 عریانی‘ عیش پرستی نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس کا نشہ اس قدر تیز ہے کہ مسلمان اسلام اور دین سے دور ہوگئے ہیں۔ اخلاق سوز فلمیں اور سامان عیش نے ان پر پنجے گاڑھ دئیے ہیں۔ اسلام کے دشمن نہیں چاہتے کہ مسلمان جدید علوم اور ٹیکنالوجی حاصل کریں بلکہ مادی وسائل میں ہی الجھے رہیں۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسلام کے دشمن مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ اسلام نکالنے میںکامیاب ہوگئے ہیں۔
آج مسلمان مسلمان کا دشمن ہے۔ فریقوں کو آپس میں لڑارہے ہیں‘ ان مشکلات پر کس طرح قابو پایا جائے‘ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ صراط مستقیم پر چلے‘ نماز پڑھے‘ اللہ کو یاد کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ یاد رکھتا ہے۔ اس سے مدد مانگنے والوں کی مشکل ہمیشہ دور ہوئی ہے‘ اس قدر بے حسی کہ دن میں آدھ گھنٹہ پانچ نمازوں کیلئے نہیں نکال سکتے؟؟؟
دین سے دوری: ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر چھوٹا بڑا اور امیر غریب اپنا معیار زندگی اپنی اوقات سے بلند کرنا چاہتا ہے۔ لباس‘ رہائش اور زندگی دوسرے شعبوں میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا عام انسانوں کی خواہش ہے۔ مثلاً شادی‘ بیاہ‘ جہیز ایک غیرضروری رسم کو پورا کرنے کیلئے دن رات جائز و ناجائز پیسہ کمانے میں مصروف رہتے ہیں اور اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو بھول ہی جاتے ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے اپنی زندگی کو اس انداز سے بسر کیا کہ جس پر چل کر دونوں جہانوں کی فلاح ممکن ہے۔ مغرب زدہ مسلمان دنیا کی دوڑ میں اپنے دین کو بھول چکا ہے۔ ایسے لوگوں کو نہ تو دنیا ملتی ہے اور نہ خدا کو منہ دکھانے کے قابل رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے جو انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے اور ان لوگوں کی راہ سے بچائے جو اللہ پاک کے غضب کا شکار ہوئے اور جوگمراہ ہیں نہ خود ہدایت کی راہ کے متعلق سوچتے ہیں اور نہ ہدایت کی بات سنتے ہیں اور نہ حالات اور واقعات کو دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی ہمارا حقیقی مشکل کشا اور حاجت روا ہے ہمیں صرف اس کے در سے مل سکتا ہے اور یہی ایک ایسا در ہے جہاں سے کبھی کسی کو دھتکارہ نہیں جاتا۔ اللہ کے گنہگار بندوں کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے ہمیں توبہ کرکے اللہ پاک سے معافی مانگنی چاہیے وہ معاف کردیتا ہے اور دین کے راستے کومضبوطی سے پکڑلینا چاہیے اورنماز کو اپنی زندگی کا حصہ بنالینا چاہیے کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اس سے ہی مومن اور کافر کی تمیز ہوتی ہے۔ نماز کی ہی غفلت نے ہمیں دین سے دور کردیا ہے۔ اللہ کے واسطے اپنی آخرت کا سامان پیدا کرو نماز پڑھو اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں پر چلو شیطان کا راستہ چھوڑو‘ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت  268 میں فرماتا ہے کہ ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیارکرنے کی ترغیب دیتا ہے‘‘ اللہ تم سے بخشش اور فضل و کرم کا وعدہ کرتا ہے اب بھی وقت ہے اپنے رب کے سامنے جھک جاؤ اور صراط مستقیم کو اپنا کر اپنے رب کو راضی کرلو‘ وہ تومعاف کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا۔ حضور اکرم ﷺ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ سے پیار بھری گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’کیا میں تجھے وہ چیز بھی بتادوں جس پر گویا ان سب چیزوں کی نجات کا دارو مدار ہے میں نے کہا ضرور ارشاد فرمادیجئے آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا اس کی حفاظت کرو اور اس کو روک کررکھو۔
             (  عدیل اختر خان کی کتاب سے اقتباس (اصول زندگی

سینے کا انوکھا راز عبقری کیلئے


  سینے کا انوکھا راز عبقری کیلئے
ایک عمر رسیدہ بزرگ بیان فرما رہے تھے کہ انگریزوں کے دور حکومت میں اعلیٰ آفیسر سے ادنیٰ ملازم تک کو ڈیوٹی کا بڑا پابند ہونا پڑتا تھا ملکی حالات یا موسمی تبدیلیاں آڑے نہیں آتی تھیں‘ وقت کی پابندی کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا‘ ایک جنرل بھی ایک دومنٹ لیٹ ہونے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ ڈیوٹی میں کوتاہی اور لاپرواہی کا سخت نوٹس لیا جاتا تھا۔ حیلے بہانے کارگر ثابت نہ ہوتے تھے۔ سردیوں کے موسم میں خوب برفباری ہوتی تھی‘ سڑکیں گلیاں وغیرہ بند ہوجایا کرتی تھیں‘ دکاندار لوگ بڑی تگ و دو کرکے دکانیں کھولتے‘ اس زمانے میں آج کی طرح سہولتیں میسر نہ تھیں۔ گرم لباس بھی کم میسر تھا‘ بھیڑوں کی اون کتر کر کات کر گھروں میں بنیان (سویٹر) اور جرابیں بنائی جاتی تھیں‘ سوتی کپڑے کھدر وغیرہ اور ملیشیا جیسے کپڑوں کا استعمال تھا۔ ایک جوڑا کپڑا کئی کئی سال پہننا پڑتا تھا جہاں سے پھٹ جاتا وہاں پیوندکاری کردی جاتی۔ ہر چیز نہایت ارزاں تھی مگر پیسہ کم تھا۔ آسودہ حال لوگ شلوار اور قمیص پہنتے اور سخت سردی میں کمبل اوڑھ لیتے۔ لکڑی کوئلہ عام تھا۔ چند ٹکوں میں اچھا گزر ہوجاتا۔ دکانوں میں کوئلہ کی انگیٹھی جلائی جاتی‘ ہاتھ پاؤں گرم کیے جاتے۔ ایک سویپر صبح سویرے سڑکیں اور گلیاں صرف ایک قمیص اور شلوار میںصاف کرتا نظر آتا۔ ہم حیران ہوئے کہ اس کو سردی نہیں لگتی ایک دن ہم نے اس کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ بھائی تم اس سردی میں ایک قمیص پہنتے ہو تمہیں سردی نہیں لگتی؟ یہ بات سن کر ہنس پڑا اور جواب دیا کہ بالکل نہیں۔ اگر سردی لگتی تو اوپر کوئی چادر وغیرہ اوڑھ لیتا‘ ہم نے کہا کہ کیا کھاتے ہو ہمیں بھی بتاؤ۔ کہنے لگا ڈیوٹی کا ٹائم ہے چھٹی کرکے آؤں گا اور پھر بتاؤں گا۔ شام کو وہ چھٹی کرکے آیا اور گرم رہنے کا نسخہ بتانے لگا۔ کہنے لگا کہ ایک دن ایک سنیاسی بابا سردیوں میں اس کے مہمان ہوگئے اس نے ان کی خاطر تواضع شروع کردی۔ انگیٹھی میں کوئلہ جلا کر سامنے رکھ دی پھر بابا جی کہنے لگے کہ کوئلہ کا دھواں زہریلا ہوتا ہے اس کو باہر لے جاؤ‘ مجھے سردی نہیں لگتی اور پھر مخاطب ہوئے کہ گھوڑوں یا خچروںکاپیشاب اور ایک تولہ ہڑتال ورقی اورایک چھوٹی کنی لانے کو کہا۔ تھوڑے ہی فاصلہ پر فوجیوں کی خچریں تھیں۔ ان سے سوال کیا تو انہوں نے پیشاب لانے کی اجازت دے دی۔ دو تین منٹ میں مجھے پیشاب مل گیا پھر پنساری کے پاس سے ہڑتال بھی لے لی اور راستے سے واپسی پر برتن والوں کی دکان سے ایک کنی بھی خرید کر واپس لوٹ آیا اور باباجی کے سامنے رکھ دیں۔ باباجی نے کنی میں نصف تک پیشاب ڈالا اور ہڑتال ڈال دی کنی کے اوپر ڈھکنا رکھا پھر گیلی مٹی میں روئی وغیرہ ملا کر ڈھکن کے اردگرد خوب لیپ دیا۔ مٹی ذرا ذرا خشک ہوئی تو کوئلوں کی ہلکی آنچ پر کنی کو رکھ دیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ بعد کنی اٹھائی اور فرش پر رکھدی جب خوب ٹھنڈی ہوگئی تو باباجی نے بڑی احتیاط سے ڈھکن پر لگی مٹی ہٹائی اور ڈھکن اٹھایا۔ ڈھکن کے ساتھ پوڈر کی طرح دوائی لگی ہوئی تھی ڈھکن کاغذ پر رکھا اور چھری سے وہ دوائی کھرچ کر شیشی میں ڈال دی۔ کہنے لگے کہ آدھی رتی تا ایک رتی مکھن یا بالائی میں صبح گھی سے ناشتہ کرنے کے بعد کھالیا کرو اور ایک پاؤ دودھ نیم گرم پی لینا پھر جدھر مرضی ہے‘ جاؤ کام کرو۔ ایک خوراک میں نے ان کی موجودگی میں کھائی۔ بعد میں ہفتہ دس دن کھا کر چھوڑ دی۔ گھر سے نکل کرسردی سے لطف اندوز ہوتا ہوں جس طرح گرمیوں میں لوگ مری اور نتھیاگلی جاکر ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دوسرا ایک نسخہ بابا نے بتایا کہ بارہ سنگا کے سینگ کا ایک ٹکڑا گھیگوار میں لپیٹ کر جلتے تندور میں رکھ دو گھیگوارجل کر سیاہ ہوجائے گی اور سفید حالت میں سینگ کا ٹکڑا آرام سے آگ بجھ جانے کے بعد نکال کر سفوف کرکے شیشی میں رکھ لیا کرو۔ آدھی آدھی رتی معصوم بچوں کو اور ایک رتی بڑوں کو نمونیہ اور سرد امراض میں دیا کرو یہ دونوں چیزیں بقول اس کے وہ ہر سال تیار کرکے رکھ لیتا تھا اور مفت تقسیم کرتا تھا۔ بزرگ فرمانے لگے کہ یہ سن کر ہم سے بھی رہا نہ گیا ہم نے بھی دوائی بنانی شروع کردی اور سردیاں مزے سے گزرنے لگیں۔ آج کل وہ نہیں بناتے کیونکہ اس دور میں ڈالڈا اور چائے کا نام نہ تھا ہر امیرو غریب دیسی گھی استعمال کرتا تھا آج کل لوگوں کو ڈالڈا کھانا ہی نصیب نہیں ہوتا دیسی گھی کہاں سے کھائیں گے؟؟؟؟
موجودہ صدی کے بھی حکیم صاحبان نے جڑی بوٹیوں پر بہت ریسرچ کی ہے اور نہایت ہی آسان علاج بہت ہی مہلک امراض کیلئے دریافت کیے ہیں۔ راقم کو بھی اس شعبہ سے بہت دلچسپی رہی مگر بدقسمتی سے علم نہ حاصل کرسکا۔ وجہ کسی مخلص رہنما کا نہ مل سکنا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے پیارے ملک میں جگہ جگہ جعلی حکیموں اور جعلی پیروں نے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں جدھر دیکھو ’’ایرا غیرا نتھو خیرا‘‘ حکیم‘ ڈاکٹر نظر آتے ہیں‘ بڑے بڑے بورڈ مطب کے سامنے آویزاں ہیں۔ انتہائی دکھ ہوتا ہے جب ہم ایک ان پڑھ جاہل مطلق کو بھی حکیم صاحب یا ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارتے ہیں اورایک اونچے درجہ کے پڑھے لکھے فاضل طب کو بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ کتنا ظلم اور ناانصافی ہے۔ یہ اناڑی حکیم و ڈاکٹر اور جعلی پیر اپنے جہالت کے تیروں سے مخلوق خدا کی زندگیاں تباہ کررہے ہیں۔ یہ صحت اور ایمان کے ڈاکو ہیں جو ان کے ہاتھوں برباد ہوگیا ان کو اصل حکیم/ ڈاکٹر اور اولیاء بھی شاید ٹھیک نہیں کرسکتے تمام قارئین سے التماس ہے کہ عبقری رسالہ کو باقاعدگی اور غور سے پڑھیں۔ اس میں سینے کے راز روحانی اور جسمانی بیماریوں کیلئے صرف رضائے الٰہی کی خاطر لکھنے کا بیڑا جناب حکیم صاحب نے اٹھایا ہے۔ ان پر بغیر سوچے سمجھے عمل کریں اللہ پاک تمام بیماری چاہے جسمانی ہوں یا روحانی دور کردیں گے۔ حکیم صاحب کیلئے دل کی گہرائیوں سے دعا کریں کیونکہ ایسے لوگ دنیا میں کم پیدا ہوتے ہیں۔
ایک نسخہ تلی کی خرابی کیلئے مخلوق خدا کی خدمت اور رضائے الٰہی کیلئے پیش کررہا ہوں جو کہ سوفیصد مجرب ہے۔ حکیم جالی نوس کا قول ہے کہ تلی جتنی چھوٹی ہوگی اتنا ہی بدن موٹا اور تندرست ہوگا بڑی تلی ہونے سے بدن لاغر اور کمزور ہوتا ہے۔ تلی کا بڑھ جانا یا ورم ہونا دنیا کے لطف سے محروم کردیتا ہے۔ بعض حکماء نے اس کے علاج کیلئے انجیر کا اچار مفید قرار دیا ہے مگر ایوب صاحب نے دارچینی کا سفوف بتایا ہے جو انہوں نے ایک بزرگ حکیم سے حاصل کیا ہے۔ دارچینی کا سفوف کرلیں۔ انڈا فرائی کرکے اس پرا یک یا دو چٹکی دارچینی کا سفوف چھڑک کر ناشتہ میں کھالینے سے تلی کی ہر بیماری ختم ہوجاتی ہے۔کچھ عرصہ پابندی سےکریں۔

اے لوگو!


اے لوگو!

"اللہ کا "ذکر" کیا کرو،
کیونکہ اس میں "شفاء" ہے .اورلوگوں کے"عیب" بیان نہ کیا کرو،کیونکہ اس میں "بیماری" ہے

تعلیمی کامیابیاں



میں ایک طالب علم ہوں اور حصول علم کا بہت شوق ہے لیکن دماغ ساتھ نہیں دیتا ذہن مائوف رہتا ہے کوئی بات دماغ میں ٹھہرتی نہیں اگر یاد ہو جائے تو چند گھنٹوں بعد ذہن کے اسکرین سے مٹ جاتی ہے کسی بات کو سمجھنے میں بھی دیر لگتی ہے فہم و ذکاوت بھی کم محسوس ہوتی ہے ذہنی یکسوئی کی کمی ہے مطالعے کے لیے بیٹھتا ہوں تو دماغ مختلف سمتوں میں بھٹکنے لگتا ہے اگر یہی حال رہا تو تعلیم میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکوں گا۔(شائستہ خان ‘پشاور)
جواب:9 انچ لمبے اور چھ انچ چوڑے عمدہ کاغذ پر قطاروں میں 9 کا ہندسہ نیلی روشنائی سے لکھ لیں اس کاغذ کو کسی گتے وغیرہ پر چسپاں کر لیں تاکہ سامنے رکھنے میں آسانی ہو رات کو سونے سے پہلے اور صبح بیدار ہونے کے بعد دس دس منٹ تک نظریں جما کر اس کاغذ کو پانچ فٹ کے فاصلے سے دیکھا کریں مسلسل اس عمل کو جاری رکھنے سے انشاء اللہ ذہنی کارکردگی کو فائدہ ہو گا۔

محترم حکیم صاحب السلام علیکم!



محترم حکیم صاحب السلام علیکم! بندہ رات کو جب سویا تو سوتے وقت ارادہ کیا کہ آج سے انشاء اللہ معمول سے ایک گھنٹہ قبل اٹھ کر اللہ سے راز و نیاز کی باتیں کرونگا اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا اور اللہ سے کہوں گا یااللہ مجھے آپ سے اور آپ کے رسول ﷺ سے اپنی جان مال اور اولاد‘ ماں‘ باپ سے بھی زیادہ محبت ہے۔ الحمدللہ بندہ معمول سے ایک گھنٹہ قبل اٹھ گیا‘ تہجد پڑھی‘ صلوٰۃ التوبہ پڑھی اور اس کے بعد بہت زیادہ دیر دعا میں اللہ کو پکارتا رہا‘ اللہ میری ہر پکار کا جواب دیتا رہا‘ میں مانگتا رہا وہ دیتا رہا‘ میں بخشش طلب کرتا رہا‘ وہ بخشتا گیا‘ میں گناہوں سے معافی مانگتا رہا وہ معاف کرتا رہا‘ جو بھی میں مانگتا گیا وہ لبیک کہتا گیا‘ پھردعا میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگئی یااللہ میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں مجھے سب سے زیادہ تیرے ساتھ اور تیرے رسول ﷺ کے ساتھ محبت ہے حتیٰ کہ میں نے بھی سورۂ یٰسین پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھائی کہ یااللہ مجھے آپ سے اور آپ کے رسول ﷺ سے محبت ہے اب میں مانگتا جارہا ہوں وہ دیتا جارہا ہے‘ پھر ایک ایسی کیفیت بنی میں بارگاہ الٰہی میں التجا کی درخواست کی یااللہ دنیا کے جھوٹے عاشقوں کا قانون ہے کہ وہ اپنے محبوب کو یا عاشق کو بلاتے ہیں اگر وہ ناراض ہوتو منتیں کرتے ہیں واسطے دلواتے ہیں تو وہ عاشق و محبوب اپنے معشوق و محب کی آواز پر لبیک کہتا ہے‘ ساری غلطیاں بھلا کر نئے سرے سے محبت کا آغاز کرتے ہیں تو یااللہ میں بھی اب تک تجھ سے دور رہا اب تجھے بلانے آیا ہوں‘ آجا بس… آجا بس… آجا… رات کے اندھیرے میں تیرے سوا کوئی نہیں دیکھ رہا‘ بس اب آجا… اب تو خلوت ہوگئی‘ یااللہ آجا…میں تجھے راضی کرنے آیا ہوں‘ تو راضی ہوجا‘ تو دل سے ایک دم آواز آتی ہے بس اب اللہ راضی ہوگیا خدا کی قسم سے کہتا ہوں اس آواز کو میں نے دل کے کانوں سے سنا کہ اے میرے بندے میں تجھ سے راضی ہوگیا ہوں‘ تو پھر محبوب محب جب محبت کرتے ہیں تو پھر محبت میں بے تکلفی بھی ہوا کرتی ہے تو میں نے فوراً دعا میں اپنے محبوب اللہ سے درخواست کی یااللہ! اگر میری یہ ادا تجھے پسند آئی ہے تو پھر مجھے اپنے محبوب رسول ﷺ کی زیارت نصیب فرمادے تو اسی رات معمولات سے فارغ ہوکر جب میں سوگیا تو جوں ہی آنکھ لگی تو کیا دیکھتا ہوں حضور نبی کریم ﷺ میرے گھر تشریف لائے ہیں ایک آدمی نے میرے کمرے کا دروازہ کھولا اور پاؤں پکڑ کر جگایا اٹھو حضور ﷺ تشریف فرما ہیں تو بندہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔

عاشورہ


عاشورہ کے دن کے اعمال: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رحمۃ اللعالمین ﷺ نے فرمایا جو شخص عاشورہ کے دن یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے یتیم کے سر کے بال کے عوض ایک درجہ جنت میں بلند فرمائیں گے۔(غنیۃ الطالبین ج 2ص53)
عاشورہ کے روز غسل کرنا ہر مرض سے محفوظ: ارشاد نبی کریم ﷺ ہے جس نےعاشورہ (دسویں محرم) کے روز غسل کیا تو وہ مرضِ موت کے سوا کسی مرض میں مبتلا نہ ہوگا۔(غنیۃ الطالبین ج 2ص53)
یوم عاشورہ گناہوں سے توبہ کا حکم: سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی اور حکم ہوا:۔ ترجمہ’’اپنی قوم کو حکم دو کہ دس محرم الحرام کو توبہ کریں اور جب یوم عاشورہ ہو تو میری طرف نکلیں (یعنی توبہ کریں)میں ان کی مغفرت فرمادوں گا(فیض القدیر شرح جامع الصغیر)
یوم عاشورہ آنکھوں کا علاج: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص عاشورہ کے دن اثمد سرمہ آنکھوں میں لگائے تو اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی۔ (شعب الایمان ج3 ص367)
یوم عاشور پر اہل و عیال پر خرچ کرنے برکات: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال کے کھانے پینے میں خوب زیادہ فراخی اور کشادگی کرے گا الہ کریم سال بھر تک اس کےر زق میں وسعت اور خیروبرکت عطا فرمائے گا۔ (ماثیت من السنۃ اشہر الحرام صفحہ 17)
تجربہ: حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 170)
حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی: شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین جلد 2 صفحہ54 پر فرماتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے پچاس سال اس کا تجربہ کیا تو وسعت ہی دیکھی۔ اسی طرح علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فیض القدیر جلد 6 ص236 میں لکھتے ہیں کہ سیدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اس کو صحیح پایا اور سیدنا ابن عینیہ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ ہم نے پچاس یا ساٹھ سال اس کا تجربہ کیا تو وسعت ہی پائی لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ دسویں محرم کو وسیع پیمانے پر کھانا پکانا اور کھلانا چاہیے۔
بیمار پرسی کرنا: ترجمہ: ’’جو کوئی عاشورہ کے روز مریض کی بیمارپرسی کرے گا گویا اس نے تمام بنی آدم کی بیمار پرسی کی۔‘‘ (غنیۃ الطالبین ج2 ص54)یوم عاشور پانی پلانے کا ثواب: حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے عاشورہ کے دن لوگوں کو پانی پلایا گویا اس نے تھوڑی دیر کیلئے بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ (غنیۃ الطالبین ج 2 ص 54)
روزے: سیدنا انس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی محرم کے پہلے جمعہ کو روزہ رکھے تو اس کےگزشتہ گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ارشاد نبی اکرم ﷺ ہے جو کوئی محرم کے تین دن جمعرات جمعہ ہفتہ کے روزے رکھے تو اس کیلئے نوسال کی عبادت کو ثواب لکھا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوکوئی محرم کے پہلے دس دن عاشورہ تک روزے رکھے تو وہ فردوس اعلیٰ کا وارث و مالک ہوگا۔ (نزہۃ المجالس ج1ص145)
شب عاشورہ کے نوافل: عاشورہ کی رات میں چار رکعت نماز نفل اس ترتیب سے پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد کے بعد آیۃ الکرسی ایک بار اور سورۂ اخلاص تین بار پڑھے اور نماز سے فارغ ہوکر ایک سو مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے۔ گناہوں سے پاک ہوگا اور بہشت میں بے انتہا نعمتیں ملیں گی۔ (جنتی زیور صفحہ 157) جو شخص اس رات میں چار رکعت نماز نفل اس ترکیب سے پڑھے کہ ہررکعت میں الحمدشریف کے بعد سورۂ اخلاص پڑھے تو رب العزت اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس سال آئندہ کے گناہ بخش دیتا ہے اور اس کیلئے ملاء اعلیٰ میں ایک ہزار محل تیار کرتا ہے