اس بلاگ کا ترجمہ

Tuesday, March 19, 2013

House wife ki zindagi bohat asaan hoti hai



‎"Nahi Mummy aap nahi samjahti aap nahi samajh sakteen.Kiun k aap nay apni zindagi "Mansoor" kay saath guzari hai "Haider" kay saath nahi.Aap Working Woman nahi hain aik House Wife rahi hain aap nay bohat comfortable zindagi guzaari hai pehlay Nana k ghar phir Papa k saath aap ko kia pata aik Working Woman ki zindagi kitni mushkil hoti hai."
"Tumharay nazdeek aik working woman kiya hai?Woh aurat jo 9 to 5 job karti hai.Haftay mai aik baar us ko 1 chutti milti hai maheenay k aakhir mai uss ko Pay mil jati hai,Bonus milta hai aur kuch extra chuttiyan mil jati hain?Yehi hai na Working woman?Aur aik house wife woh hoti hai jo ghar mai takht per beth kar hukm chalati hai nokaron per.Haina?Main tumhain bataoon aik house wife kiya hoti hai beta?Aik house wife 24 ghantay kaam karti hai apna ghar dekhti hai bacchay paalti hai miyaan ka khayal rakhti hai aur susraal ko khush rakhti hai saara din mehnat karti rehti hai laiken us ko is ki ujrat nahi milti hai.Aik unpaid worker hoti hai aur us ki saari mehnat koi notice bhi nahi karta aur uss ko apnay liye aik minute nahi milta.Aur tum samajhti ho aik house wife ki zindagi bohat asaan hoti hai"

سچ



سچ کبھی کڑوا نہیں ہوتا . سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے . 
ہم سچ نہیں بولتے دراصل دوسرے کو ذلیل کر رہے ھوتے ہیں
اور
توقع رکھتے ہیں 
ہماری ذلیل کرنے کی حرکت کو سچ سمجھا جائے 

بے حجابی



اکثر لوگ آج کی عورت کی بے حجابی کا ذمے دار میڈیا اور والدین کو ٹھہراتے ہیں ، بات یہ بھی غلط تو نہیں مگر یہاں سارا قصور والدین کا بھی نہیں کیونکہ کئی لڑکیاں اپنے والدین کے گھر میں حجاب اوڑھتی ہیں مگر ان کے نام نہاد ماڈرن شوہر ان کا حجاب اتروا دیتے ہیں کیونکہ پردے سے ان کو شرم محسوس ہوتی ہے ، پردہ ان کو دور قدیم کی یادگار دکھائی دیتا ہے
نام نہاد سیکولر سوچ کے مالک ماڈرن لوگ جو پردے کو پرانی اور دقیانوسی شے سمجھتے ہیں ان کو پتا ہونا چاہئے کہ
آج کے نیم عریاں لباس زمانہ قدیم کے اس دور کی یاد دلاتے ہیں جب انسان برہنہ گھوما کرتا تھا
اس کو شعور آیا تو اس نے اپنا جسم ڈھانپا اور پھر اس نے بدرجہ ترقی کے منازل طے کئے !
اور اگر آج کے اس دور میں عریانیت ہی ماڈرن ہونے کی پہچان ہے تو جانوروں سے بڑھ کر کوئی ماڈرن نہیں !

میری بات سے کوئی متفق نہ بھی ہو تو اس سچائی کو جھٹلایا نہیں جا سکتا .....

عورت




عورت
--------
اسلام نے عورت کو چار بہترین روپ میں عصمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ عورت ماں کے روپ میں شفقت کی دیوی، بہن کے روپ میں پیکر ایثار، بیوی کے روپ میں پیار کا سمندر اور بیٹی کے روپ میں باپ کی بخشش کا سامان اور عزت و تکریم کا نشان ہے۔

میڈیا اور ترقی نے عورت کو اس کے مقام سے کہیں دور دھکیل دیا ہے۔ شرم وحیا کی پیکر آج نہایت بلیغ انداز میں انڈین فلموں پہ تبصرے کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہیں۔ مغرب ممالک نے ہماری دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھ کے فیشن کی مار مارا ہے۔ انہی ممالک کی دیکھا دیکھی مسلم معاشرے بھی جدت پسند بنتے جا رہے ہیں اور کچھ تعلیم یافتہ لوگوں نے پردے کو ترقی کی راہ میں حائل قرار دیتے ہوئے عورت کو جو ترقی دی ہے اس کا صحیح اور جائز حق نظر نہیں آتا۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے جس قوم کی عورت کو دیکھ کر کافر ادب سے کھڑے ہو جایا کرتے تھے آج اسی قوم کی بیٹیاں سر پہ ڈوپٹہ اوڑھنا اور پردہ کرنا جہالت سمجھتی ہیں اور اپنے لیے نمائش پسند کرتی ہیں۔ شاید انہیں یہ علم ہی نہیں کہ خود کو ڈھانپنے کا حکم اللہ کی طرف سے ہے مگر نوجوان نسل اتنی منہ زور ہو چکی ہے کہ مائیں سمجھانے سے پہلے سو بار خود سوچتی ہیں۔ فیشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والی لڑکیاں اپنے دائمی نفع کو اور بخشش چھوڑ کر عارضی آشائشوں میں مگن عذاب جہنم کو خوب دعوت دے رہی ہیں۔

کہاں سے لائی جائیں وہ مائیں جنہوں نے......

عذاب قبر سے امن


عذاب قبر سے امن
میت کو دفن کرتے وقت جو مٹی قبر کی کھدائی میں اندر سے نکلتی ہو اسی مٹی کو ہاتھ میں لیکر سات بار سورةالقدر پڑھ کر دم کریں اور پھر وہ مٹی میت کے پاس اس لحد میں رکھ دیں۔ان شاءاﷲ تعالیٰ وہ میت عذاب قبر سے محفوظ و مامون ہوگی۔

پیٹ کا درد


صدر ضیا ءالحق کے ذاتی معا لج
میری عمر 80سال ہے۔ رےٹائرڈ زندگی گزار رہا ہوں۔ صحت اﷲکے فضل وکرم سے ٹھیک ہے۔ کوئی عارضہ نہیں ہے آپکے رسالہ کیلئے ایک تجربہ لکھ رہا ہوں شاید کسی کا بھلاہوجائے ۔ آج سے 23سالہ پہلے میرے پےٹ میں درد ہوا۔ سی ایم اےچ راولپنڈی کے ڈاکٹر نے مجھے 5دن کی دوادی۔ ایک خوراک لینے سے معدہ ہانڈی کی طرح ابلنے لگا اور مجھے جلاب آنے شروع ہوگئے۔ دودن ایسی حالت رہی پھر میںنے محلے کے ڈاکٹر سے ڈرپ لگوائی اور جلاب بند ہوئے لیکن اس کے بعد میرے معدہ کا فعل بند ہوگیا اور پانچ سال نشاستہ دار غذا ےعنی روٹی چاول نہ کھاسکا ۔میں نے علاج کیلئے صدر ضیا کے ذاتی ڈاکٹر سے رجو ع کیا۔ چھ ماہ علاج سی ایم اےچ سے کرایا مگر تکلیف بدستور رہی ےعنی روٹی یا چاول کھانے کے بعد منہ سے سفیدی مائل پانی آتا اور منہ کا ذائقہ خراب رہتا۔ میں نے ہر اچھے حکیم ،ہومیو پیتھک او رڈاکٹر سے علاج کروایا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ عرصہ پانچ سال تک روٹی نہ کھاسکاصرف دودھ پر گزارہ کیا۔ ایک دن ایک بزرگ مل گئے انہوں نے چنے اور امرود کھانے کامشورہ دیا۔ ہاں حکیم ڈاکٹر دونوں کی رائے تھی کہ معدہ میں تیزابیت ہے خیر چنے کھانے سے معمولی فائدہ ہوا لیکن امرود صرف تین دن پاﺅ بھر کھائے کہ یہ بیماری بالکل ختم ہوگئی اور میں نے 5سال بعد روٹی کھائی اور اﷲکا شکر اداکیا تب سے قدرتی علاج اور جڑی بوٹیوں سے دلچسپی ہے۔

دانت درد کا مجرب اور آسان ٹوٹکہ



دانت درد کا مجرب اور آسان ٹوٹکہ 
ایک گاہک نے مجھے یہ نسخہ دیا۔ دانت درد کے لیے یا دانت ہلتے ہوں۔ 6-5ماہ قبل دیا ۔ڈراپر میں ڈال کر دیتے اور روئی پر ڈال کردرد والی جگہ پر لگا تے ہیں ۔وہ بھی تندر ست ہو گئے جو دانت کے نےچے کوئی چند چباہی نہیں سکتے تھے۔سیرپ متیٹھی لیٹڈ جو عام طو پر زخموںپر اورپالش برائے فرنےچر کے لیے استعمال ہو تاہے 50گرام اورست اجوائن 5گرام ملاکر محفوظ رکھیںاور ضرورت کے وقت استعمال کریں ۔جس صاحب نےیہ نسخہ دیا اس نے کہا 35سال سے اعتماد کے ساتھ استعما ل کررہا ہوں ۔

کن لوگوں سے نکاح کرنا حرام ہے




مسئلہ۔ اپنى اولاد کے ساتھ اور پوتے پڑپوتے اور نواسے وغيرہ کے ساتھ بھی نکاح درست نہيں اور باپ دادا۔ پردادا۔ نانا۔ پرنانا وغيرہ سے بھى درست نہيں۔یعنی اولاد چاہے کتنی ہی نیچے ہو اور والدین اور اجداد چاہے کتنے ہی اوپر ہوں۔


مسئلہ۔ اپنے بھائى اور ماموں اور چچا اور بھتيجے اور بھانجے کے ساتھ نکاح درست نہيں اور شرع ميں بھائى وہ ہے جو ايک ماں باپ سے ہو۔ يا ان دونوں کا باپ ايک ہو اور ماں دو ہوں۔ يا ان دونوں کى ماں ايک ہو اور باپ دو ہوں۔ يہ سب بھائى ہيں اور جس کا باپ بھى الگ ہو اور ماں بھى الگ ہو وہ بھائى نہيں اس سے نکاح درست ہے۔


مسئلہ۔ داماد کے ساتھ بھى نکاح درست نہيں ہے چاہے لڑکى کى رخصتى ہو چکى ہو اور دونوں مياں بى بى ايک ساتھ رہے ہوں يا ابھى رخصتى نہ ہوئى ہو ہر طرح نکاح حرام ہے۔


مسئلہ۔ کسى کا باپ مر گيا اور ماں نے دوسرا نکاح کيا ليکن ماں ابھى اس کے پاس رہنے نہ پائى تھى کہ مر گئى يا اس نے طلاق دے دى تو اس سوتيلے باپ سے نکاح کرنا درست ہے۔ ہاں اگر ماں اس کے پاس رہ چکى ہو تو اس سے نکاح درست نہيں۔


مسئلہ۔ سوتيلى اولاد سے نکاح درست نہيں۔ يعنى ايک مرد کے کئى بيبياں ہيں تو سوکن کى اولاد سے کسى طرح نکاح درست نہيں چاہے اپنے مياں کے پاس رہ چکى ہو يا نہ رہى ہو ہر طرح نکاح حرام ہے۔


مسئلہ۔ خسر اور خسر کے باپ دادا کے ساتھ بھى نکاح درست نہيں۔


مسئلہ۔ جب تک اپنى بہن نکاح ميں رہے تب تک بہنوئى سے نکاح درست نہيں۔ البتہ اگر بہن مر گئى يا اس نے چھوڑ ديا اور عدت پورى ہو چکى تو اب بہنوئى سے نکاح درست ہے اور طلاق کى عدت پورى ہونے سے پہلے نکاح درست نہيں۔


مسئلہ۔ اگر دو بہنوں نے ايک ہى مرد سے نکاح کيا تو جس کا نکاح پہلے ہوا وہ صحيح ہے اور جس کا بعد ميں کيا گىا وہ نہيں ہوا۔


مسئلہ۔ ايک مرد کا نکاح ايک عورت سے ہوا تو اب جب تک وہ عورت اس کے نکاح ميں رہے اس کى پھوپھى اور اس کى خالہ اور بھانجى اور بھتيجى کا نکاح اس مرد سے نہيں ہو سکتا۔


مسئلہ۔ جن دو عورتوں ميں ايسا رشتہ ہو کہ اگر ان دونوں ميں سے کوئى عورت مرد ہوتى تو آپس ميں دونوں کا نکاح نہ ہو سکتا۔ ايسى دو عورتيں ايک ساتھ ايک مرد کے نکاح ميں نہيں رہ سکتيں۔ جب ايک مر جائے يا طلاق مل جائے اور عدت گزر جائے تب دوسرى عورت اس مرد سے نکاح کرے۔


مسئلہ۔ ايک عورت ہے اور اس کى سوتيلى لڑکى ہے يہ دونوں ايک ساتھ اگر کسى مرد سے نکاح کر ليں تو درست ہے۔


مسئلہ۔ لے پالک کا شرع ميں کچھ اعتبار نہيں۔ لڑکا بنانے سے سچ مچ وہ لڑکا نہيں ہو جاتا۔ اس ليے متبنے سے نکاح کر لينا درست ہے۔


مسئلہ۔ سگا ماموں نہيں ہے بلکہ کسى رشتہ سے ماموں لگتا ہے تو اس سے نکاح درست ہے اسى طرح اگر کسى دور کے رشتہ سے چچا يا بھانجا يا بھتيجا ہوتا ہو اس سے بھى نکاح درست ہے ايسے ہى اگر اپنا بھائى نہيں ہے بلکہ چچا زاد بھائى ہے يا ماموں زاد يا پھوپھى زاد۔ خالہ زاد بھائى ہے اس سے بھى نکاح درست ہے۔


مسئلہ۔ اسى طرح دو بہنيں اگر سگى نہ ہوں ياماموں زاد يا چچا زاد يا پھوپھى زاد يا خالہ زاد بہنيں ہوں تو وہ دونوں ايک ساتھ ہى ايک مرد سے نکاح کر سکتى ہيں ايسى بہن کے رہتے بھى بہنوئى سے نکاح درست ہے۔ يہى حال پھوپھى اور خالہ وغيرہ کا ہے کہ اگر کوئى دور کا رشتہ نکلتا ہو تو پھوپھى بھتيجى اور خالہ بھانجى کا ايک ساتھ ہى ايک مرد سے نکاح درست ہے۔


مسئلہ۔ جتنے رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہيں وہ رشتے دودھ پينے کے اعتبار سے بھى حرام ہيں۔ يعنى دودھ پلانے والى کے شوہر سے نکاح درست نہيں کيونکہ وہ اس کا باپ ہوا۔ اور دودھ شريکى بھائى سے نکاح درست نہيں جس کو اس نے دودھ پلايا ہے اس سے اور اس کى اولاد سے نکاح درست نہيں کيونکہ وہ اس کى اولاد ہوئى۔ دودھ کے حساب سے ماموں بھانجا چچا بھتيجا سب سے نکاح حرام ہے۔


مسئلہ۔ دودھ شريک دو بہنيں ہوں تو وہ دونوں بہنيں ايک ساتھ ايک مرد کے نکاح ميں نہيں رہ سکتيں۔ غرضيکہ جو حکم اوپر بيان ہو چکا دودھ کے رشتوں ميں بھى وہى حکم ہے
مسئلہ۔ مسلمان عورت کا نکاح مسلمان کے سوا کسى اور مذہب والے مرد سے درست نہيں ہے۔

مسئلہ۔ کسى عورت کے مياں نے طلاق دے دى يا مر گيا تو جب تک طلاق کى عدت اور مرنے کى عدت پورى نہ ہو چکے تب تک دوسرے مرد سے نکاح کرنا درست نہيں۔


مسئلہ۔ جس عورت کا نکاح کسى مرد سے ہو چکا ہو تو اب بے طلاق ليے اور عدت پورى کيے دوسرے سے نکاح کرنا درست نہیں۔


مسئلہ۔ جس مرد کے نکاح ميں چار عورتيں ہوں اب اس سے پانچوں عورت کا نکاح درست نہيں اور ان چار ميں سے اگر اس نے ايک کو طلاق دے دى تو جب تک طلاق کى عدت پورى نہ ہو چکے کوئى اور عورت اس سے نکاح نہيں کر سکتى۔


مسئلہ۔ سنى لڑکى کا نکاح شيعہ مرد کے ساتھ بہت سے عالموں کے فتوے ميں درست نہيں ہے۔

نکاح



نکاح بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ دین اور دنیا دونوں کے کام اس سے درست ہوجاتے ہیں۔اور اس میں بہت فائدے اور بے انتہا مصلحتیں ہیں۔ آدمی گناہ سے بچتا ہے، دل ٹھکانے ہو جاتا ہے۔ نیت خراب اور ڈانواں ڈول نہیں ہونے پاتی اور بڑی بات یہ ہے کہ فائدہ کا فائدہ اور ثواب کا ثواب۔ کیونکہ میاں بیوی کا پاس بیٹھ کر محبّت پیار کی باتیں کرنا، ہنسی دِل لگی میں دل بہلانا نفل نمازوں سے بھی بہتر ہے۔
حديث ميں ہے کہ دنيا صرف ايک استعمال کى چيز ہے اور دنيا کى استعمالى چيزوں ميں سے کوئى چيز نيک عورت سے افضل نہيں يعنى دنيا ميں اگر نيک عورت ميسر جائے تو بہت بڑى غنيمت اور حق تعالى کى رحمت ہے کہ خاوند کى راحت اور اس کى فلاح دارين کا سبب ہے دنيا ميں بھى ايسى عورت سے راحت ميسر ہوتى ہے اور آخرت کے کاموں ميں بھى مدد ملتى ہے حديث ميں ہے کہ فرمايا جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے نکاح ميرا طريقہ اور ميرى سنت موکدہ ہے سو جو نہ عمل کرے ميرى سنت موکدہ پر تو وہ مجھ سے نہيں ہے يعنى مجھ سے اور اس سے کوئى علاقہ نہيں۔ يہ زجر اور ڈانٹ ہے ايسے شخص کو جو سنت پر عمل نہ کرے اور جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى خفگى کا بيان ہے ايسے شخص پر سو اس سے بہت کچھ پرہيز لازم ہے اور مسلمان کو کيسے چين پڑسکتا ہے کہ ذرا دير بھى جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ وسلم اس سے ناراض رہيں اللہ اس دن سے پہلے موت دے ديں جس روز مسلمان کو اللہ و رسول کى ناراضى گوارا ہو اور حديث ميں ہے نکاح کرو اس ليے کہ ميں فخر کروں گا قيامت ميں تمہارے ذريعہ سے اور امتوں پر يعنى جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کو يہ بات بہت پسند ہے کہ آپ کى امت کثرت سے ہو اور دوسرى امتوں سے زيادہ ہو تاکہ ان کى کثرت اعمال کى وجہ سے آپ کو بھى ثواب اور قرب الہى زيادہ ميسر ہو۔ اس ليے کہ جو کوئى آپ کى امت ميں جو کچھ بھى عمل کرتا ہے وہ آپ ہى کى تعليم کے سبب کرتا ہے۔ پس جس قدر زيادہ عمل کرنے والے ہوں گے اسى قدر آپ کو ان کى تعليم کرنے کا ثواب زيادہ ہوگا۔ يہاں سے يہ بات بھى معلوم ہو گئى کہ جہاں تک بھى اور جس طرح بھى ہو سکے قرب الہى کے وسيلے اور اعمال کثرت سے اختيار کرے اور اس ميں کوتاہى نہ کرے۔ اور حديث ميں ہے کہ قيامت کے دن کل صفيں ايک سو بيس ہوں گى جن ميں چاليس صفيں اور امتوں کے لوگوں کى ہوں گى اور اسى صفيں جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى امت کى ہوں گى۔ سبحان اللہ کيا دلدارى منظور ہے حق تعالى کو جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى اور جو شخص صاحب وسعت ہو يعنى روزہ رکھے اس سے شہوت ميں کمى ہو جائے گى پس بے شک روزہ اس کے ليے مثل رگ شہوت مل دينے کے ہے اگر عورت کى خواہش مرد کو بہت زيادہ نہ ہو بلکہ معتدل اور درميانى درہ کى ہو اور عورت کے ضرورى خرچ اٹھانے پر قادر ہو تو ايسے شخص کے ليے نکاح سنت موکدہ ہے۔ اور جس کو اعلى درجہ کا تقاضا ہو يعنى بہت خواہش ہو تو ايسے شخص کے ليے نکاح واجب اور ضرورى ہے اس ليے کہ انديشہ ہے خوانخواستہ زنا ميں مبتلاہو گيا تو حرام کارى کا گناہ ہوگا۔ اور اگر باوجود سخت تقاضائے شہوت کے اس قدر طاقت نہيں کہ عورت کے ضرورى حقوق ادا کر سکے گا تو يہ شخص کثرت سے روزے رکھے پھر جب اتنى گنجائش ہو جائے کہ عورت کے حقوق ادا کرنے پر قادر ہو تو نکاح کر لے ۔
حديث ميں ہے کہ اولاد جنت کا پھول ہے۔ مطلب يہ ہے کہ جنت کے پھولوں سے جيسى مسرت اور فرحت حاصل ہوگى ويسى ہى راحت اور مسرت اولاد کو ديکھ کر حاصل رہتى ہے اور اولاد نکاح کے ذريعہ سے ميسرہو تى ہے ۔حديث ميں ہے کہ تحقيق آدمى کا درجہ جنت ميں بلند کيا جاتا ہے سو وہ کہتا ہے کہاں سے ہے ميرے ليے يہ يعنى وہ کہتا ہے کہ يہ رتبہ مجھے کيسا ملا ميں نے تو ايسا عمل کوئى نہيں کيا جس کا يہ ثواب ہو پس کہا جاتا ہے اس آدمى سے يہ بسبب مغفرت طلب کرنے تيرى اولاد کے ہے تيرے ليے يعنى تيرى اولاد نے ہم سے تيرے ليے استغفار کى اس کى بدولت يہ درجہ تجھ کو عنايت ہوا 
حديث ميں ہے تحقيق وہ بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے يعنى بغير دن پورے ہوئے پيدا ہو جاتا ہے اپنے پروردگار سے جھگڑے گا جبکہ اس کے ماں باپ جہنم ميں داخل ہوں گے يعنى حق تعالى سے مبالغہ کے ساتھ سفارش کرے گا کہ ميرے والدين کو دوزخ سے نکال دو اور حق تعالى اپنى عنايت کى وجہ سے اس کے اس جھگڑنے کو قبول فرمائيں گے اور اس کى ناز بردارى کريں گے پس کہا جائے گا اے سقط جھگڑا کرنے والے اپنے رب سے داخل کر دے اپنے والدين کو جنت ميں۔ پس کھينچ لے گا بچہ ان دونوں کو اپنے نار سے يہاں تک کہ داخل کرے گا ان دونوں کو جنت ميں معلوم ہوا کہ خرت ميں ايسى اولاد بھى کام آئے گى جو نکاح کا نتيجہ ہے۔
حديث ميں ہے کہ بے شک جس وقت ديکھتا ہے مرد اپنى عورت کى طرف اور عورت ديکھتى ہے مرد کى طرف تو ديکھتا ہے اللہ تعالى دونوں کى طرف رحمت کى نظر سے۔ رواہ ميسرة بن على فے مشيختہ والرافعى فى تاريخہ عن ابن سعيد مرفوعہ بلفظ ان الرجل اذا نظرالى امراتہ ونظرت اليہ نظر اللہ تعالى اليہما نظرة رحمة الخ 
حديث ميں ہے کہ حق تعالى پر حق ہے يعنى حق تعالى نے اپنى رحمت سے اپنے ذمہ يہ بات مقرر فرمائى ہے مدد کرنى اس شخص کى جو نکاح کرے پاکدامنى حاصل کرنے کو اس چيز سے جسے اللہ نے حرام کيا ہے۔ يعنى زنا سے محفوظ رہنے کے ليے جو شادى کرے اور نيت اطاعت حق کى ہو تو خرچ وغيرہ ميں اللہ تعالى اس کى مدد فرمائيں گے حديث ميں ہے کہ عيالدار شخص کى دو رکعتيں نماز کى بہتر ہيں مجرد شخص کى بياسى رکعتوں سے اور دوسرى حديث ميں بجائے بياسى کے ستر کا عدد يا ہے سو مطلب يہ ہو سکتا ہے کہ ستر اس شخص کے حق ميں ہے جو ضرورى حق اہل و عيال کا ادا کرے اور بياسى اس کے حق ميں ہيں جو ضرورى حقوق سے زيادہ ان کى خدمت کرے جان اور مال اور اچھى عادت سے الحديث رواة تمامر فى فوائدہ والضيائ عن انس مرفوعابلفظ رکعتان من المتاہل خير من اثنين و تمانين رکعة من العرب وسندہ صحيح ۔
حديث ميں ہے بے شک بہت بڑا گناہ خدا کے نزديک ضائع کرنا اور ان کى ضرورى خدمت ميں کمى کرنا ہے مرد کا ان لوگوں کو جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے۔ رواہ الطبرانى عن ابن عمرو مرفوعا بلفظ ان اکبر الاثم عنداللہ ان يضيح الرجل من يقوت کذافى کنزالعمال 
حديث ميں ہے کہ ميں نے نہيں چھوڑا اپنے بعد کوئى فتنہ جو زيادہ ضرر دينے والا ہو مردوں کو عورتوں کے فتنہ سے يعنى مردوں کے حق ميں عورت کے فتنہ سے بڑھ کر کوئى فتنہ ضرر دينے والا نہيں کہ ان کى محبت ميں بے حس ہو جاتے ہيں اور خدا اور رسول کے حکم کى پرواہ نہيں کرتے۔ لہذا چاہيے کہ ايسى محبت عورتوں سے کرے کہ جس ميں شريعت کے خلاف کام کرنے پڑيں مثلا وہ مرد کى حيثيت سے زيادہ کھانے پہننے کو مانگيں تو ہرگز ان کى خاطر کرنے کو رشوت وغيرہ نہ لے بلکہ مال حلال سے جو اللہ تعالى دے ان کى خدمت کر دے۔ اور عورتوں کو تعليم و تاديب کرتا رہے اور بيباک و گستاخ نہ کر دے۔ عورتوں کى عقل ناقص ہوتى ہے ان کى اصلاح کا خاص طور پر انتطام لازم ہے۔ 
حديث ميں ہے کہ پيغام نکاح کا کوئى تم ميں سے نہ دے اپنے بھائى کے پيغام پر يہاں تک کہ وہ بھائى نکاح کر لے ياچھوڑ دے يعنى جب ايک شخص نے کہيں پيغام نکاح کا ديا ہو اور ان لوگوں کى کچھ مرضى بھى پائى جاتى ہو کہ وہ اس شخص سے نکاح کرنے کو کچھ راضى ہيں تو دوسرے شخص کو اس جگہ ہرگز پيغام نہ دينا چاہيے۔ ہاں اگر وہ لوگ خود اس پہلے شخص کو انکار کر ديں يا وہ خود ہى وہاں سے اپنا ارادہ منقطع کر دے يا ان لوگوں کى ابھى بالکل مرضى اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے کى نہيں پائى جاتى تو اب دوسرے کو اس لڑکى کا پيغام دينا درست ہے۔ اور يہى حکم خريدوفروخت کے بھاؤ کرنے کا ہے کہ جب ايک شخص کسى سے خريدنے يا فروخت کرنے کا بھاؤ کر را ہے تو دوسرے کو جب تک اس کا معاملہ عليحدہ نہ ہو جائے اس کے بھاؤ پر بھاؤ کرنا نہيں چاہيے جبکہ باہم خريدو فروخت کى کچھ مرضى معلوم ہوتى ہو خوب سمجھ لو اور اس حکم ميں کافر بھى داخل ہے۔ يعنى اگر کوئى کافر کسى سے لين دين کا بھاؤ کر را ہے اور دوسرے شخص کے معاملہ کرنے کى اس کے ساتھ کچھ مرضى بھى معلوم ہوتى ہے تو مسلمان کو زيبا نہيں کہ اس کافر کے بھاؤ پر اپنا بھاؤ پيش کرے۔ حديث ميں ہے کہ تحقيق عورت نکاح کى جاتى ہے اپنے دين کى وجہ سے اور اپنے مال کى وجہ سے اور اپنے حسن کى وجہ سے سو تو لازم پکڑ لے صاحب دين کو تيرے ہاتھ خاک ميں مليں يعنى کوئى مرد تو عورت ديندار پسند کرتا ہے اور کوئى مالدار اور کوئى خوبصورت تو جناب رسول کريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں کہ بدشکل ہے کہ طبيعت کسى طرح اسے قبول نہيں کرتى اور انديشہ ہے کہ اگر ايسى عورت سے نکاح کيا جائے تو باہم مياں بى بى ميں موافقت نہ رہے گى اور عورت کے حق ادا کرنے ميں کوتاہى ہوگى تو ايسے وقت ايسى عورت سے نکاح نہ کرے اور تيرے ہاتھ خاک مل جائيں يہ عربى محاورہ ہے اور مختلف موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔ يہاں پر اس سے ديندار عورت کى رغبت دلانا مراد ہے۔ حديث ميں ہے بيبيوں ميں بہتر وہ بى بى ہے جس کا مہر بہت آسان ہو يعنى مرد سہولت سے اس کو ادا کر سکے۔ آجکل زياتى مہر کا دستور بہت ہو گيا ہے لوگوں کو اس رسم سے بچنا چاہيے۔ 
حديث ميں ہے کہ اپنے نطفوں کے ليے عمدہ محل وجہ پسند کرو اس ليے کہ عورتيں بچے جنتى ہيں اپنے بھائيوں اور بہنوں کى مانند يعنى نيک بخت اور شريف خاندان کى عورت سے نکاح کرو اس ليے کہ اولاد ميں ننھيال کى مشابہت ہوتى ہے اور گو باپ کا بھى اثر ہوتا ہے مگر اس حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا اثر زيادہ ہوتا ہے تو اگر ماں ايسے لوگوں ميں سے ہوگى جو بداخلاق ہيں اور ديندار اور شريف نہيں ہيں تو اولاد بھى ان ہى لوگوں کى مثل پيدا ہوگى ورنہ اولاد اچھى اور نيک بخت ہوگى۔ رواہ ابن عدى و ابن عساکر عن عائشہ مرفوعا بلفظ تخير والنطفکم فان النساء يلدن اشباہ اخوانہن واخواتہن حديث ميں ہے کہ سب سے بڑا حق لوگوں ميں خاوند کا ہے عورت پر اور مرد پر سب سے بڑا حق لوگوں ميں اس کى ماں کا ہے يعنى بعد اللہ و رسول کے حقوق کے عورت کے ذمہ خاوند کا بہت بڑا حق ہے حتى کہ اس کے ماں باپ سے بھى خاوند کا زيادہ حق ہے اور مرد کے ذمہ سب سے زيادہ حق بعد اللہ و رسول کے حق کے ماں کا حق ہے اس سے معلوم ہوا کہ مرد کے ذمہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے رواہ الحاکم عن عائشة مرفوعا بلفظ اعظم الناس حقا على المراة زوجہا واعظم الناس حقا على الرجل امہ وسندہ صحيح۔ 
حديث ميں ہے اگر کوئى تم ميں ارادہ کرے اپنى بيوى سے ہم بسترى کا تو کہے بسم اللہ جنب ا الشيطان وجنب الشيطان مارزقتنا تو اگر ان کى تقدير ميں کوئى بچہ مقدر ہوگا اس صحبت سے نہ ضرر دے گا اس کو شيطان کبھى۔ ايک لمبی حديث ميں ہے کہ جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے حصرت عبدالرحمن بن عوف سے فرمايا اولم ولوبشاة يعنى وليمہ کرو اگرچہ ايک ہى بکرى ہو۔ مطلب يہ ہے گو تھوڑا ہى سامان ہو مگر دينا چاہيے۔ بہتر يہ ہے کہ عورت سے ہمبسترى کرنے کے بعد وليمہ کيا جائے گو بہت علماء نے صرف نکاح کے بعد بھى جائز فرمايا ہے اور وليمہ مستحب ہے۔