اس بلاگ کا ترجمہ
Tuesday, December 11, 2012
وہ عمل ہے تہجد کی نماز
افادات نوری
ذیل میں قابل صد احترام ڈاکٹر نور احمد نور صاحب پروفیسر آف میڈیسن نشتر میڈیکل کالج ملتان، کی نماز پر تحقیق پیش ہے۔
نماز تہجد کا فائدہ
مایوسی یعنی ڈیپریشن(Depression)کے امراض کا علاج مغربی ڈاکٹروں نے ایک اور دریافت کیا ہے۔ یہ بات مجھے خیبر میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات نے بتائی۔ مغربی ممالک کے ڈاکٹروں نے دیکھا کہ جو مسلمان تہجد کے وقت جاگتے ہیںانہیں مایوسی کا مرض نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ تہجد کے وقت جاگنا، مایوسی کے مرض کا علاج ہے۔ علم نفسیات (Psychology)کے ماہرین نے مایوسی کے مریضوں پر یہ تجربہ کیا۔ انہوں نے مایوسی کے مریضوں کو تہجد کے وقت جگانا شروع کیا۔ یہ مریض جاگ کر کچھ پڑھ لیتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔ یہ معمول جب کئی مہینے تک مسلسل جاری رکھا گیا تو مایوسی کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوا اوروہ دواﺅں کے بغیر ٹھیک ہو گئے۔ چنانچہ اس مغربی ڈاکٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آدھی رات کے بعد جاگنا مایوسی کے مریضوں کا علاج ہے۔
میں نے عبقری رسالے کے مضمون ”دکھی خط“میں پڑھا ہے کہ کوئی بہن یا بھائی یا کوئی شخص بہت ہی سخت مشکل میں گرفتار ہے اس کی پوری داستان لکھی جاتی ہے۔ آخر میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ کوئی صاحب اس کے حل کے بارے میں بتائے۔ تو آج میں آپ کو ان تمام بھائی بہنوں کی مشکلات کا حل بتاتا ہوں اس پر عمل کرکے دیکھیں پھردیکھئے کہ کس طرح رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے‘مشکلات کے بادل چھٹتے ہیں مگر اس عمل کی مداوت نہایت ضروری ہے ‘ کیونکہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی مشکل اگر 6 سال کی لکھی ہے تو جب آپ اس عمل کو کریں گے تو رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے کبھی فوراً مشکل حل ہوجاتی ہے کبھی کسی مصلحت کے تحت دیر ہوتی تو دیر کی وجہ سے تنگ آکر یا جھنجھلا کر عمل کو بند نہ کریں کیونکہ شیطان بہت کوشش کرتا ہے آپ کو طرح طرح سے بہکائے گا کہ اتنا عرصہ ہوگیا مشکل حل نہیں ہوتی مگر آپ شیطان کی بات بالکل نہ مانیں بلکہ اور زیادہ عمل میں لگ جائیں انشاءاللہ دکھ و تکلیف کے بادل چھٹ جائیں گے بعد میں دفع ہوجائیں گی۔ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ۔
وہ عمل ہے (تہجد کی نماز)
میں ایک صاحب کی سچی کہانی انہی کی زبانی آپ کو بتاتا ہوں۔ میں ایک عرصے سے بیروزگار تھا۔ نوکری اور روزگار کیلئے جگہ جگہ دھکے کھاتا رہا مگر ہرطرف سے جواب نہ میں آتا۔ کبھی کبھی میں خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا۔ میری والدہ نے میرے انتہائی منع کرنے کے باوجود میری شادی کردی‘ میری والدہ کا کہنا تھا کہ تمہاری شادی کے بعد تمہاری روزگار کی پریشانی ختم ہوجائیگی اور آنیوالی دلہن اپنی تقدیر اور اپنا رزق ساتھ لائیگی۔ ایک مخلص دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کسی شپنگ ایجنٹ کے ذریعے باہر چلے جائو اور جہاز پر تنخواہ بھی اچھی ہوتی ہے اور ملک ملک کی سیر مفت میں ملے گی۔ میں اپنی بیوی کا زیور بیچ کر ایک شپنگ ایجنٹ کو بیس ہزار کی رقم دیدی یہ تقریباً 1980 کا سال تھا اس وقت میں حیدرآباد میں رہتا تھا شپنگ ایجنٹ کا دفتر کراچی میں واقع تھا جس کی وجہ سے مجھے بار بار کراچی جانا پڑتا چونکہ میرے سسرال کراچی میں تھے اور مجبوراً وہاںرہنا پڑتا تھا مجھے وہاں رہتے بڑی شرم آتی تھی۔ دوسری مصیبت یہ تھی کہ میرے سسر کو مجھ سے خدا واسطے کا بیر تھا وہ شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کی بیٹی کو میں بھوکا ماررہا ہوں۔ میں اپنے سسر سے چھپ کر مجبوراً سسرال میں رہتا تھا۔ میں جب بھی ایجنٹ کے پاس جاتا تو وہ دوسرے دن آنے کو کہتا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ ایک دفعہ رمضان کا مہینہ تھا میں سسرال میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایجنٹ وعدہ پر وعدہ کررہا تھا آفس کے باہر لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا‘ لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھی لوگ بڑے بڑے لوگوں کی سفارشیں لے کرآتے تھے روزانہ لوگوںکی فلائٹ ہوتی تھی مگر میں کس کی سفارش لاتا؟ ایجنٹ کی بڑی منتیں کرتا مگر وہ منہ نہیں لگاتا تھا زیادہ ضد کرتا تو کہتا کہ تم سے پہلے کئی لوگ موجود ہیں ان کے بعد تمہارا نمبر آئیگا۔ ایک دن میں ذہنی طور پر بہت زیادہ پریشان تھا میں نے رات کو اپنی بیوی کو اٹھا کر اس سے جائے نماز اور قرآن لے کر مکان کی چھت پر چڑھ گیا رات کو چھت پر ہوکا عالم تھا‘ اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا اور ایک جگہ جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔
تہجد کی نماز پڑھی پھر 2رکعت صلوٰة الحاجت پڑھی اور قرآن سر پر رکھ کر اپنے رب سے دعا مانگنے لگا۔ میرا دل بھر آیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کہ (اے میرے رب میں کہاں جائوں تیرے علاوہ کوئی اور سنتا بھی نہیں‘ میں روزگار سے بے انتہا پریشان ہوں اے میرے رب اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میرے کام کو بنادے اور مجھے جلد سے جلد باہر ملک جہاز پر نوکری لگوادے) بس رو رو کر میری ہچکی بندھ گئی پھر میں سجدے میں گرگیا اور کافی دیر تک دعائیں مانگتا رہا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور عید میں تقریباً پندرہ دن باقی تھے میں روزانہ رات کو چھت پر چڑھ جاتا تہجد پڑھتا اور اپنے رب سے دعا مانگتا رہتا۔ میں بے انتہا روتا اور گڑگڑاتا رہتا۔ ابھی عید کے آنے میں تقریباً چھ دن رہ گئے تھے میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے عید سے پہلے پاکستان سے باہر نکال دے مجھے نوکری عطا کردے۔ میں بہت دلبرداشتہ ہورہا تھا۔ اتنی دعائیںاور تہجد پڑھنے کے باوجود دعا کی قبولیت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ ہر دفعہ شپنگ ایجنٹ ٹکا سا جواب دیدیتا ایک دن اتوار کو میں نے اپنے ایک دوست سے ایجنٹ کے دفتر چلنے کو کہا تو میرا دوست حیرت سے بولا کہ بھائی آج اتوار ہے اور اتوار کو تمام دفتر بند ہوتے ہیں مگر اپنے دوست سے بضد رہا۔ میرے زور دینے پر اپنے دوست کے ساتھ ایجنٹ کے دفتر پہنچا۔ دفتر کے باہر چوکیدار نے ہمیں روک لیا میں نے چوکیدار سے کہا ہمیں دفتر میں جانا ہے تو وہ بولا کہ آج دفتر بند ہے۔ میں نے کہا کہ دفتر میں کوئی تو ہوگا مجھے اس سے ملنا ہے مگر چوکیدار بھی کوئی ضدی بندہ تھا اس نے ہمیں دفتر میں جانے نہیں دیا۔ میں واپس جانے ہی والا تھا کہ چوکیدار بولا اندر افتخار صاحب ہیں جائو اس سے مل لو۔ بس میں فوراً دفتر میں داخل ہوا اندر افتخار صاحب (کلرک) بیٹھے ہوئے تھے سلام وغیرہ کے بعد میں نے اپنے باہر جانے اور نوکری کے بارے میں پوچھا وہ بولے کہ ابھی تو مہینوں بعد تمہارا نمبر آئیگا کیونکہ تم سے پہلے کئی لوگ انتظار میں بیٹھے ہیں میرا دل ایک دم دھک سے رہ گیا کہ یاالٰہی !میں تو بڑی امید لے کر آیا تھا میں ٹوٹے ہوئے دل سے واپس ہونے لگا کہ اچانک افتخار صاحب بولے کہ بھائی تمہارا نام کیا ہے میں نے اپنا نام بتایا تو فوراً انہوں نے اپنے رجسٹر کو کھولا اور اس کے اندر سے پاسپورٹ اور فلائٹ کا ٹکٹ نکالا اور چہک کر بولے ارے یہ تو تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ ہے میں تمہارا ہی تو انتظار کررہا ہوں۔ آج رات کی آپ کی فلائٹ ہے جرمنی کی۔ میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا کہ میرے کام کا دور دور تک پتا نہیں تھا نہ ہی سوچ تھی اتوار کو آفس بند ہوتا ہے میں ہی ضد کرکے یہاں پر آیا اور ناممکن کام ممکن ہوگیا۔ بس یہ تہجد ہی کی برکت تھی کہ میرے پیارے رب نے میری فریاد سن لی اور میں کامیاب ہوگیا۔ اسی رات میں فلائٹ میں بیٹھ کر باہر روانہ ہوگیا اور اللہ نے میری قسمت کھول دی
درس ہدایت (حکیم طارق محمود چغتائی عبقری مجذوبی چغتائی)
(ہفتہ وار درس سے اقتباس)
نفل و عبادات میں مجاہدہ یا مشقت کا اجر
تہجد کے وقت عبادت کے لیے اٹھنا مشقت طلب امر ہے۔ تہجد کے نفل مشقت والے ہیں لیکن اشراق کے نفل مشقت والے نہیں ہیں۔ تہجد کے نفل کم از کم دو اور زیا دہ سے زیادہ جتنے مرضی ادا کرتے جا ﺅ۔ بعد کے دوسرے نفل ہیں۔ تہجد اور اشراق کے نفل اجر کے لحاظ سے برابر ہیں؟ جس عمل میں جتنا مجا ہد ہ ہو گا، جتنی قربانی ہو گی۔ جتنی خواہشات اور جتنی ضروریات اور جتنی اندر کی کیفیا ت ٹوٹے گی۔ یا د رکھنا اس عمل پر اتنا ہی اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہا ں اصل قربانی ہے ، مجاہدہ اور ایمان بنانے میں ، قربانی دینے میں سب سے پہلی چیز ہے کہ ایمان بنانا ہے۔ ایمان بچانا ہے اوربچا کر حفاظت سے قبر تک ساتھ لے جا نا ہے۔ یا د رکھنا پیسہ کو شش سے نہیں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کو شش سے پیسہ مل جا تا ہے۔ جب پیسہ آجاتا ہے پھر اس کی حفا ظت بھی لازمی ہے اس کو سنبھالنا بھی ضروری ہوتا ہے اور یا د رکھنا جس کے پا س زیادہ پیسہ ، مال و دولت آجا تا ہے۔ اس کی نیند کم ہو جا تی ہے۔ یہ مال کا خاصہ ہے۔ چاہے ایمان کا مال ہو ، چاہے دنیا کا مال ہو۔ نیند کم ہو جا تی ہے۔ امید ہے آپ سمجھ رہے ہوں گے ہرن ہے نا ” مشکی ہر ن “ ، ” آہو مشکی “ چشم غزالی ، چشم غزال۔ آہو کہتے ہیں ہرن کو ، غزال کہتے ہیں ہر ن کو۔ اس سے نکلی ہے غزل اور غزل ہرن کی اس چیخ کو کہتے ہیں جب شکاری اس کو پہلا تیر ما رتا ہے اور اس کے اندر سے دل گداز ، پر سوز ایک آہ سی نکلتی ہے اس کو غزل کہتے ہیں یہ جو ہر ن ہوتا ہے جس کے اندر مشک ( کستوری ) ہوتا ہے۔ کستوری بہت مہنگی ہو تی ہے۔ قریباًبیس ہزار روپے تولہ ہے۔ یہ کستوری جب ہر ن کے اندر آتی ہے۔ اس کے نا ف کے اند رہو تی ہے۔ جسے نا فہ کہتے ہیں۔ یہ سال میں ایک دفعہ آتی ہے۔ تو ہرن کو پتہ چل جا تا ہے۔ کہ میرے پا س ایک نہا یت قیمتی چیز آگئی ہے ا ور شکاریوں کو بھی پتہ چل جا تاہے کہ یہ کستوری کا موسم ہے اور وہ تاک میں رہتے ہیں شکار کر نے کے۔
ایمان قیمتی متاع، حفاظت لازمی
جیسے ہم یہا ں آتے ہیں تو شیطان ہمارا شکار ی ہے۔ وہ جا ل ڈالتا ہے کسی کو نیند کا ،کسی کووہ جا ل ڈالتا ہے کہ وہ درس کی کوئی بات اس کے اندر نہ پڑے۔ یہا ں سب مشقت کر کے کا روبار زندگی چھوڑ کر آیا ہے۔ اس کو نیند کا غلبہ ڈال دیا۔ کسی کا جسم یہا ں ہے تو دل حاضر نہیں ہے۔ ایک دفعہ ایک صاحب میر سامنے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا السلام علیکم !انہیں ایک دم جھٹکا لگا بے توجہی اور غفلت میں تھے۔ میں نے پو چھا سچ بتاﺅ کہاں بیٹھے تھے؟ کہنے لگے دہلی دروازے تانگے پربیٹھا تھا ! جسم یہا ں مو جو د ہے تو روح کی تیز پرواز کہاں سے کہاں لئے پھر تی ہے اور یہ شیطان کی کار ستانی ہے کہ وہ کہاں سے کہاں کھینچ کر لے جا تاہے۔ کہنے لگے بڑی مشقت کر کے یہا ں آیا تھا کہ ایمان و اعمال کی بات سنو ں گا۔ شیطان نے کہا، کوئی بات نہیں۔ آیا ہے تو پھربیٹھنے نہیں دوں گا۔ اگربیٹھ گیا ہے تو توجہ نہیں کرنے دو ں گا۔ اگر تو جہ بھی کرنی ہے تو یا تو نیند ڈال دوں گا یا ادھر ادھر مشغول کر دو ں گا تاکہ یہا ں سے کچھ لیکر نہ جا ئے۔ تو جب ہر ن کے اندر مشک آتاہے تو اس کی نیند کم ہوجاتی ہے وہ ہمہ وقت چو کس رہتا ہے۔ سوتا نہیں ہے کھڑے کھڑے اپنی نیند پور ی کر لیتا ہے ہر آہٹپر لرز جا تا ہے چوکنا ہو جا تاہے اس کو ہر وقت مشک والی نا ف کا غم اور فکر ہوتا ہے کہ شکاری کہیں شکار نہ کر لے۔ قیمتی متا ع بھی جائے اور جان بھی جائے۔
مومن کے اندر جب ایمان آتا ہے اور مو من کے اندر جب اللہ کی محبت آتی ہے اور مومن کے اندر تقوی آتا ہے۔ پھر مومن بھی چوکنا ہو جا تاہے کہ کوئی شکاری لو ٹ نہ لے۔ کہیں مجھے نظر وں سے شکار نہ کر لیاجائے۔ کہیں کا نو ں سے شکار نہ کر لیا جائے ہا تھو ں سے شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ نیند کی غفلت کا شکار نہ ہو جاﺅ ں۔ کہیں گنا ہوں کا شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ یہی فکر اسے ہر لمحہ اسے بے چین رکھتی ہے۔ کسی بزرگ نے شیطان کو دیکھا کہ پھٹے پرانے جال لئے پھر رہا ہے۔ کہنے لگا ارے یہ پھٹے پرانے جا ل کہاں ہیں؟ کہا ان لو گو ں کو تلا ش کر رہا ہوں جوان جا لو ں کو توڑ کر نکل بھا گ گئے تھے اور وہ کیا سمجھتے ہیں کہ میں انہیں چھوڑ دو ں گا؟ میں انہیں نہیں چھوڑوں گا؟ اگر میرے ساتھ فیصلہ جہنم کا ہو اہے تو ان سب کو ساتھ لیکر جاﺅں گا۔ یہ پرانے جا ل کیو ں کہتے ہو وہ نئے جا ل لا یا یا پرانے شکا ری اسی طر ح کہتے ہیں۔ میرے دوستوبزرگو ! ایمان بچانا ہے اور قبرمیں ساتھ لیکر جا نا ہے ایمان مومن کی سب سے قیمتی متا ع ہے۔
مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں
ایمان کیسے آئے گا۔ ایمان کا پتہ کیسے چلے گا میں مومن ہوں ، کیسے پتہ چلے گا۔ اپنے دن رات کی مصروفیا ت کو دیکھ کر مومن کا پتہ چل جا تاہے۔ شیشے میں سب کچھ نظر آتاہے کہ نہیں۔ آئینہ میں اپنی شکل نظر آتی ہے یا کسی اور کی تو مومن کا آئینہ کیا ہے؟ مومن کاآئینہ نما زہے۔ مو من کا آئینہ خلوت ، تنہا ئیاں ہیں۔ تنہائیوں میں مجھے رب کتنا یا د ہوتا ہے اور سب کتنا یا د ہوتے ہیں۔ مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں۔ جب میں تنہا ئیو ں میں ہوتا ہوں اس وقت اللہ پا ک جل شانہ کے ساتھ میرا کیا معاملہ ہوتاہے اور اس اللہ کے ساتھ کیا ہوتا ہوں۔ اب تو شریف ہو گیا ہوں اس وقت بد معاش ہوتا ہوں؟ اب تو شریف ہو گیا ہوں۔ اس وقت خبیث ہوتا ہوں؟ اب رحمان کا بندہ ہوں کیا اس وقت کہیں شیطان کا بندہ تو نہیں ہوتا (تنہائیوں میں )ایمان تنہا ئیو ں میں گناہوں سے بچا تا ہے ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کی محبت کو لا تا ہے۔ ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کے تعلق کو لا تاہے۔ اور چلتے چلتے انسان کے ایمان میں کمی نہیں آتی اور چلتے چلتے انسان کا ایمان بڑھتا ہے اور جب انسان راہ عمل پر چل رہا ہوتاہے۔ ایمان کم ہو رہا یا زیادہ ہو رہا ہوتاہے۔
قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
دو رکعت نفل صلوة الحاجت پڑھیں سلام کے بعد اسی حالت میں کسی سے گفتگو کیے بغیر 3 بار درود ابراہیمی 3 بار سورة یٰسین اور پھر 3 بار درود ابراہیمی ضرور پڑھیں اور نہایت خشوع توجہ دھیان سے اللہ تعالیٰ سے اپنے مسائل اورمشکلات کیلئے دعا کریں یہ عمل کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے اگر تہجد کے وقت کرلیں تو بہتر ہے یہ عمل دن میں کئی بار بھی کیا جاسکتا ہے۔
تمام قارئین کو اجازت ہے آپ کسی اور کو بھی بتا سکتے ہیں۔ ایک نہایت متقی صالح درویش کی خدمت سے یہ عمل حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا مسئلہ چاہے کسی بھی قسم کا ہو دنیاوی ہویا کسی شخص سے کاروبار کا ہو اولاد کا ہو یا رشتوں کا تمام مسائل کے لیے یہ نفل پڑھنے کو بتائے۔ آخر میں یہ فرمایا کہ ایک ہی بار پڑھنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا ورنہ 3 دن یہ نفل پڑھ لیں اور اگر ساری زندگی کا معمول بنالیں تو حیرت انگیز فوائد اور برکات آنکھوں سے دیکھیں گے۔ قارئین! ایک شخص اپنی مشکل لے کر آیا کہ بیماری سے عاجز آگیا کوئی علاج نہیں چھوڑا تھا اور خوب پرہیز کیے لیکن افاقہ نہ ہوا کہنے لگاعلاج کرتے کرتے اب دوائی اور معالج کے نام سے الرجی ہے حتیٰ کہ اگر دوائی کے اشتہاری سے گولی یا کیپسول کی آواز سنتے ہی غصہ آجاتا ہے۔ اس کے مطابق تمام حکیم ڈاکٹر فراڈ ہیں سب جھوٹے اور دھوکے باز ہیں۔
کسی کے پاس کوئی دوائی نہیں میرا کوئی علاج نہیں کرسکتا یقینا وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا تھا اور گالیاں دیتا تھا۔ میں نے اس مریض کو دیکھا بھی نہیں بلکہ میں نے تو ایک دوسرے مریض کو بتایا تھا اللہ تعالیٰ نے اس مبارک عمل کی برکت سے اسے شفاءعطا فرمائی تو اس نے دوسروں کو بتایا ۔یہ مریض اس کے فلیٹ سے اوپر کی منزل پر رہتا تھا۔اس نے اسے بھی بتایا اس نے یہ نفل پڑھنے شروع کردئیے ایک دن ملا کہ میں پہلے سے اتنا تندرست ہوں کہ بتا نہیں سکتا وہ کم ازکم 1/2 گھنٹے اپنی صحت کی داستان بیان کرتا رہا پھر ایک بار مجھے ملنے آیا تو ایک رومال میں ادویات کی گٹھڑی باندھی ہوئی تھی وہ دکھا کر کہنے لگا ایسی کئی گٹھڑیاں نوٹوں کی خرچ کرچکا ہوں واقعی یہ عمل لاجواب ہے یہ شخص دراصل ڈاکیہ تھا اب اسنے ایک لاجواب کام کیا جہاں بھی جاتا کسی کو کسی بھی قسم کی مشکل میں مبتلاءدیکھتا تو فوراً اسے نفل کی ترکیب بتادیتا چونکہ نفل آسان اور بالکل تھوڑے وقت میں پڑھے جاتے ہیں۔
اس لیے ہر شخص آسانی سے پڑھ لیتا پھر یہ شخص ہرپڑھنے والے کے پاس وقتاً فوقتاً جاتا رہتا اور اسے یقین توجہ اور دھیان جما جما کر پڑھنے کی ترغیب دیتا رہتا پھر اس عمل سے جن جن لوگوں کے مسائل حل ہوئے اس نے ان لوگوں کے نام مسائل بمع ایڈریس لکھنا شروع کیے‘ یہ ڈاکیہ اب تک اپنے مشن میں لگا ہوا ہے میرے خیال میں یہ مبارک اور نفع بخش کاروبار ہے۔
ایک دائی میرے پاس اکثر عورتوں کے امراض کا مشورہ کرنے آتی ہے میںاسے رجوع الی اللہ کی ترغیب دیتا ہوں وہ دوسری عورتوں کواعمال پر لگائے رکھتی ہے کیونکہ مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی چاہت پورا کرنے سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی چاہت کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیںایسے اعمال دئیے ہیں جنہیں کرکے ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی مرادیں اور مشکلات حل کراسکتے ہیں۔ اس دائی کو میں نے یہ نفل سمجھا دئیے چونکہ وہ تجربہ کار پرانی خاتون ہے اور سلیقہ مند بھی ہے۔ اس نے میری بات کو لیا اور خواتین کو یہ نفل بتانے شروع کیے دائی نے بتایا کہ بہت سی خواتین کی اولاد نہیں تھی وہ علاج کرکے تھک گئی تھیں کئی خواتین بیرون ملک بھی علاج کرواکے آئیں لیکن ناکام رہیں آخر کار انہوں نے یہ نفل توجہ اور اعتماد سے پڑھنے شروع کیے اللہ تعالیٰ نے اولاد عطاءفرمائی۔ دائی نے مزید بتایا کہ اکثر گھروں میں ناچاقی تھی میاں بیوی کے آپس میں لڑائی جھگڑے اور حاسدین کی نظر تھی جب سے خواتین نے یہ نفل شروع کیے حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے کئی گھروں کے مسائل تھے کہ اولاد نافرمان ہے یا اولاد بے روزگار ہے یا کسی بیماری میں مبتلا ءہے یا ایسے لوگ جن کی اولاد کی شادیاں نہیں ہورہیں ان تمام کو یہ عمل بتایا گیا اللہ تعالیٰ نے نہایت کریمی فرمائی کچھ عرصہ مستقل مزاجی سے یہ نفل اپنے معمول میں رکھیں بلکہ جو مایوس لوگ ہر قسم کی کوشش کرکے تھک گئے ان کیلئے یہ نوافل امید کی آخری کرن ہیںکچھ عرصہ کم 40 دن حد 90 دن یہ نفل پڑھیں اگر کسی کو سورة یٰسین یاد ہو تو نفل صلوٰة حاجت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة یٰسین ملا کر پڑھ لیں اگر یاد نہیں تو کوئی بھی سورة ملا کر نفل پڑھ سکتے ہیں۔
آپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہیاپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہے
میرے گاﺅں کے ایک ڈاکئے حاجی عبدالحمید کے مرشد مولانا فقیر اللہ صاحب کبھی کبھی وہاں تشریف لاتے تھے جو کہ شریعت کے پابند تھے۔ پانچ وقت کی نماز با جماعت کے علاوہ تہجد گزار تھے۔ پردہ کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے درخواست کی کہ حضرت ! مجھے کوئی ایسا وظیفہ عطا فرمائیں کہ اسے پڑھوں اور میری کلاس کے تمام بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوں اور اعزازی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے مجھے ایک دعا لکھ دی اور فرمایا کہ اس دعا کے اول و آخر درود پاک پڑھنا ہے۔ دعا کو سات دفعہ پڑھنا ہے اور آخری دفعہ آخرمیں ”وَ بَارِک وَسَلِّم “ کا اضافہ بھی کرنا ہے‘ دعا یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرِ قَلبِی بِعِلمِکَ وََاستَعمِل بَدَ نِی بِطَا عَتِک۔ میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ کلاس کے بچے یہ دعا پڑھنے کے بعد کلاس ورک شروع کرتے اور برکات کا نزول ہوتا رہا۔ 100% رزلٹ کے علاوہ اعزازی پوزیشنیں بھی آتی رہیں اور دیکھنے والے حیران رہ جاتے ۔ میں خود بھی دعا پڑھ کر کلاس کو کام شروع کراتا۔ میں نے تجربہ کیا ہے کہ وہ بچے جو اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام روزانہ پڑھتے ہیں۔ اس میں ناغہ نہیں کرتے ‘انہیں بہت جلد علم حاصل ہوتا ہے۔ میں خود سابقہ 38 سالوں سے متواتر اور بلا ناغہ ان مبارک ناموں کو پڑھ رہا ہوں اور ان کے فیض سے دل و دماغ کو روشن پا رہا ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭
میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول وریام والا‘ تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ میں بطور پرنسپل کام کرتا رہا ہوں۔ وہاں میں نے اگست 1993 تا فروری 2002 ءکام کیا ہے۔ اس دوران میں نے جھنگ صدر میں ایک مکان خریدا تاکہ شہر میں کبھی رہنا پڑے تو کسی کے ہاں محتاج نہ ہوں۔ ایک روز بندہ وریام والا سے جھنگ صدر آیا۔ مکان پر چونکہ کوئی رہائش پذیر نہ تھا اور نہ ہی کرایہ پر دیا تھا‘ مکان کھول کر اپنے سامان کو چیک کرنے لگا کہ کہیں دیمک وغیرہ نہ لگی ہو‘ غلطی سے اپنے مین دروازہ کو اندر سے کنڈی لگانا بھول گیا۔ دروازہ ویسے ہی بند تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ 18‘ 19 سالہ ایک نوجوان لڑکی اندر داخل ہو گئی اور ایک کمرے میں بیٹھ کر اس نے میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ اس سے نہ میری جان نہ پہچان‘ نہ اس نے اندر آنے کی اجازت لی اور نہ ہی اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ میراامتحان شروع ہو گیا۔ عجیب و غریب خیالات آنے شروع ہو گئے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک اور کمرے میں بند کر دیا اور دعا مانگنی شروع کی کہ اللہ پاک اسے یہاں سے لے جا اور میری خلاصی ہو۔ خیال آیا کہ ممکن ہے کوئی سازش ہو اور مجھے پکڑانے کا کوئی منصوبہ ہو۔ شیطان وسوسہ ڈالتا کہ شکار تیرے گھر آیا ہے دیر نہ کر ‘ پھر میں سوچتا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو تھوڑی سی لذت کے بدلے عمر بھر یہ گناہ میرے ساتھ ہو گا۔
ایک گھنٹہ کے بعد میں نے ہمت کی کہ چپکے سے کمرے سے نکل کر دیکھا وہ چلی گئی ہے یا نہیں۔ باہر نکل کر ساتھ والے کمرے میںجھانکا وہ زمین پر کپڑا پھیلا کر ایسے بیٹھی ہے گویا کسی کے انتظار میں ہے اور خوب میک اپ کیا ہوا ہے۔ میں دبے پاﺅں اپنے کمرے میں گیا اندر سے دوبارہ کنڈی لگا لی۔ اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا مانگنی شروع کی کہ یا اللہ! مجھے اس امتحان سے بچا۔ امتحان لمبا ہوتا گیا ‘ دوبارہ جھانکا مگر وہ موجود‘ پھر کمرے میں آکر دعاکی پھر باہر نکل کر دیکھا تو وہ بڑے انتظار کے بعد باہر چلی گئی۔ میری زندگی میں میرے لئے یہ بہت بڑا امتحان تھا۔
وہ عمل ہے (تہجد کی نماز)
افادات نوری
ذیل میں قابل صد احترام ڈاکٹر نور احمد نور صاحب پروفیسر آف میڈیسن نشتر میڈیکل کالج ملتان، کی نماز پر تحقیق پیش ہے۔
نماز تہجد کا فائدہ
مایوسی یعنی ڈیپریشن(Depression)کے امراض کا علاج مغربی ڈاکٹروں نے ایک اور دریافت کیا ہے۔ یہ بات مجھے خیبر میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات نے بتائی۔ مغربی ممالک کے ڈاکٹروں نے دیکھا کہ جو مسلمان تہجد کے وقت جاگتے ہیںانہیں مایوسی کا مرض نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ تہجد کے وقت جاگنا، مایوسی کے مرض کا علاج ہے۔ علم نفسیات (Psychology)کے ماہرین نے مایوسی کے مریضوں پر یہ تجربہ کیا۔ انہوں نے مایوسی کے مریضوں کو تہجد کے وقت جگانا شروع کیا۔ یہ مریض جاگ کر کچھ پڑھ لیتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔ یہ معمول جب کئی مہینے تک مسلسل جاری رکھا گیا تو مایوسی کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوا اوروہ دواﺅں کے بغیر ٹھیک ہو گئے۔ چنانچہ اس مغربی ڈاکٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آدھی رات کے بعد جاگنا مایوسی کے مریضوں کا علاج ہے۔
میں نے عبقری رسالے کے مضمون ”دکھی خط“میں پڑھا ہے کہ کوئی بہن یا بھائی یا کوئی شخص بہت ہی سخت مشکل میں گرفتار ہے اس کی پوری داستان لکھی جاتی ہے۔ آخر میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ کوئی صاحب اس کے حل کے بارے میں بتائے۔ تو آج میں آپ کو ان تمام بھائی بہنوں کی مشکلات کا حل بتاتا ہوں اس پر عمل کرکے دیکھیں پھردیکھئے کہ کس طرح رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے‘مشکلات کے بادل چھٹتے ہیں مگر اس عمل کی مداوت نہایت ضروری ہے ‘ کیونکہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی مشکل اگر 6 سال کی لکھی ہے تو جب آپ اس عمل کو کریں گے تو رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے کبھی فوراً مشکل حل ہوجاتی ہے کبھی کسی مصلحت کے تحت دیر ہوتی تو دیر کی وجہ سے تنگ آکر یا جھنجھلا کر عمل کو بند نہ کریں کیونکہ شیطان بہت کوشش کرتا ہے آپ کو طرح طرح سے بہکائے گا کہ اتنا عرصہ ہوگیا مشکل حل نہیں ہوتی مگر آپ شیطان کی بات بالکل نہ مانیں بلکہ اور زیادہ عمل میں لگ جائیں انشاءاللہ دکھ و تکلیف کے بادل چھٹ جائیں گے بعد میں دفع ہوجائیں گی۔ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ۔
وہ عمل ہے (تہجد کی نماز)
میں ایک صاحب کی سچی کہانی انہی کی زبانی آپ کو بتاتا ہوں۔ میں ایک عرصے سے بیروزگار تھا۔ نوکری اور روزگار کیلئے جگہ جگہ دھکے کھاتا رہا مگر ہرطرف سے جواب نہ میں آتا۔ کبھی کبھی میں خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا۔ میری والدہ نے میرے انتہائی منع کرنے کے باوجود میری شادی کردی‘ میری والدہ کا کہنا تھا کہ تمہاری شادی کے بعد تمہاری روزگار کی پریشانی ختم ہوجائیگی اور آنیوالی دلہن اپنی تقدیر اور اپنا رزق ساتھ لائیگی۔ ایک مخلص دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کسی شپنگ ایجنٹ کے ذریعے باہر چلے جائو اور جہاز پر تنخواہ بھی اچھی ہوتی ہے اور ملک ملک کی سیر مفت میں ملے گی۔ میں اپنی بیوی کا زیور بیچ کر ایک شپنگ ایجنٹ کو بیس ہزار کی رقم دیدی یہ تقریباً 1980 کا سال تھا اس وقت میں حیدرآباد میں رہتا تھا شپنگ ایجنٹ کا دفتر کراچی میں واقع تھا جس کی وجہ سے مجھے بار بار کراچی جانا پڑتا چونکہ میرے سسرال کراچی میں تھے اور مجبوراً وہاںرہنا پڑتا تھا مجھے وہاں رہتے بڑی شرم آتی تھی۔ دوسری مصیبت یہ تھی کہ میرے سسر کو مجھ سے خدا واسطے کا بیر تھا وہ شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کی بیٹی کو میں بھوکا ماررہا ہوں۔ میں اپنے سسر سے چھپ کر مجبوراً سسرال میں رہتا تھا۔ میں جب بھی ایجنٹ کے پاس جاتا تو وہ دوسرے دن آنے کو کہتا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ ایک دفعہ رمضان کا مہینہ تھا میں سسرال میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایجنٹ وعدہ پر وعدہ کررہا تھا آفس کے باہر لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا‘ لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھی لوگ بڑے بڑے لوگوں کی سفارشیں لے کرآتے تھے روزانہ لوگوںکی فلائٹ ہوتی تھی مگر میں کس کی سفارش لاتا؟ ایجنٹ کی بڑی منتیں کرتا مگر وہ منہ نہیں لگاتا تھا زیادہ ضد کرتا تو کہتا کہ تم سے پہلے کئی لوگ موجود ہیں ان کے بعد تمہارا نمبر آئیگا۔ ایک دن میں ذہنی طور پر بہت زیادہ پریشان تھا میں نے رات کو اپنی بیوی کو اٹھا کر اس سے جائے نماز اور قرآن لے کر مکان کی چھت پر چڑھ گیا رات کو چھت پر ہوکا عالم تھا‘ اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا اور ایک جگہ جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔
تہجد کی نماز پڑھی پھر 2رکعت صلوٰة الحاجت پڑھی اور قرآن سر پر رکھ کر اپنے رب سے دعا مانگنے لگا۔ میرا دل بھر آیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کہ (اے میرے رب میں کہاں جائوں تیرے علاوہ کوئی اور سنتا بھی نہیں‘ میں روزگار سے بے انتہا پریشان ہوں اے میرے رب اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میرے کام کو بنادے اور مجھے جلد سے جلد باہر ملک جہاز پر نوکری لگوادے) بس رو رو کر میری ہچکی بندھ گئی پھر میں سجدے میں گرگیا اور کافی دیر تک دعائیں مانگتا رہا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور عید میں تقریباً پندرہ دن باقی تھے میں روزانہ رات کو چھت پر چڑھ جاتا تہجد پڑھتا اور اپنے رب سے دعا مانگتا رہتا۔ میں بے انتہا روتا اور گڑگڑاتا رہتا۔ ابھی عید کے آنے میں تقریباً چھ دن رہ گئے تھے میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے عید سے پہلے پاکستان سے باہر نکال دے مجھے نوکری عطا کردے۔ میں بہت دلبرداشتہ ہورہا تھا۔ اتنی دعائیںاور تہجد پڑھنے کے باوجود دعا کی قبولیت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ ہر دفعہ شپنگ ایجنٹ ٹکا سا جواب دیدیتا ایک دن اتوار کو میں نے اپنے ایک دوست سے ایجنٹ کے دفتر چلنے کو کہا تو میرا دوست حیرت سے بولا کہ بھائی آج اتوار ہے اور اتوار کو تمام دفتر بند ہوتے ہیں مگر اپنے دوست سے بضد رہا۔ میرے زور دینے پر اپنے دوست کے ساتھ ایجنٹ کے دفتر پہنچا۔ دفتر کے باہر چوکیدار نے ہمیں روک لیا میں نے چوکیدار سے کہا ہمیں دفتر میں جانا ہے تو وہ بولا کہ آج دفتر بند ہے۔ میں نے کہا کہ دفتر میں کوئی تو ہوگا مجھے اس سے ملنا ہے مگر چوکیدار بھی کوئی ضدی بندہ تھا اس نے ہمیں دفتر میں جانے نہیں دیا۔ میں واپس جانے ہی والا تھا کہ چوکیدار بولا اندر افتخار صاحب ہیں جائو اس سے مل لو۔ بس میں فوراً دفتر میں داخل ہوا اندر افتخار صاحب (کلرک) بیٹھے ہوئے تھے سلام وغیرہ کے بعد میں نے اپنے باہر جانے اور نوکری کے بارے میں پوچھا وہ بولے کہ ابھی تو مہینوں بعد تمہارا نمبر آئیگا کیونکہ تم سے پہلے کئی لوگ انتظار میں بیٹھے ہیں میرا دل ایک دم دھک سے رہ گیا کہ یاالٰہی !میں تو بڑی امید لے کر آیا تھا میں ٹوٹے ہوئے دل سے واپس ہونے لگا کہ اچانک افتخار صاحب بولے کہ بھائی تمہارا نام کیا ہے میں نے اپنا نام بتایا تو فوراً انہوں نے اپنے رجسٹر کو کھولا اور اس کے اندر سے پاسپورٹ اور فلائٹ کا ٹکٹ نکالا اور چہک کر بولے ارے یہ تو تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ ہے میں تمہارا ہی تو انتظار کررہا ہوں۔ آج رات کی آپ کی فلائٹ ہے جرمنی کی۔ میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا کہ میرے کام کا دور دور تک پتا نہیں تھا نہ ہی سوچ تھی اتوار کو آفس بند ہوتا ہے میں ہی ضد کرکے یہاں پر آیا اور ناممکن کام ممکن ہوگیا۔ بس یہ تہجد ہی کی برکت تھی کہ میرے پیارے رب نے میری فریاد سن لی اور میں کامیاب ہوگیا۔ اسی رات میں فلائٹ میں بیٹھ کر باہر روانہ ہوگیا اور اللہ نے میری قسمت کھول دی
درس ہدایت (حکیم طارق محمود چغتائی عبقری مجذوبی چغتائی)
(ہفتہ وار درس سے اقتباس)
نفل و عبادات میں مجاہدہ یا مشقت کا اجر
تہجد کے وقت عبادت کے لیے اٹھنا مشقت طلب امر ہے۔ تہجد کے نفل مشقت والے ہیں لیکن اشراق کے نفل مشقت والے نہیں ہیں۔ تہجد کے نفل کم از کم دو اور زیا دہ سے زیادہ جتنے مرضی ادا کرتے جا ﺅ۔ بعد کے دوسرے نفل ہیں۔ تہجد اور اشراق کے نفل اجر کے لحاظ سے برابر ہیں؟ جس عمل میں جتنا مجا ہد ہ ہو گا، جتنی قربانی ہو گی۔ جتنی خواہشات اور جتنی ضروریات اور جتنی اندر کی کیفیا ت ٹوٹے گی۔ یا د رکھنا اس عمل پر اتنا ہی اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہا ں اصل قربانی ہے ، مجاہدہ اور ایمان بنانے میں ، قربانی دینے میں سب سے پہلی چیز ہے کہ ایمان بنانا ہے۔ ایمان بچانا ہے اوربچا کر حفاظت سے قبر تک ساتھ لے جا نا ہے۔ یا د رکھنا پیسہ کو شش سے نہیں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کو شش سے پیسہ مل جا تا ہے۔ جب پیسہ آجاتا ہے پھر اس کی حفا ظت بھی لازمی ہے اس کو سنبھالنا بھی ضروری ہوتا ہے اور یا د رکھنا جس کے پا س زیادہ پیسہ ، مال و دولت آجا تا ہے۔ اس کی نیند کم ہو جا تی ہے۔ یہ مال کا خاصہ ہے۔ چاہے ایمان کا مال ہو ، چاہے دنیا کا مال ہو۔ نیند کم ہو جا تی ہے۔ امید ہے آپ سمجھ رہے ہوں گے ہرن ہے نا ” مشکی ہر ن “ ، ” آہو مشکی “ چشم غزالی ، چشم غزال۔ آہو کہتے ہیں ہرن کو ، غزال کہتے ہیں ہر ن کو۔ اس سے نکلی ہے غزل اور غزل ہرن کی اس چیخ کو کہتے ہیں جب شکاری اس کو پہلا تیر ما رتا ہے اور اس کے اندر سے دل گداز ، پر سوز ایک آہ سی نکلتی ہے اس کو غزل کہتے ہیں یہ جو ہر ن ہوتا ہے جس کے اندر مشک ( کستوری ) ہوتا ہے۔ کستوری بہت مہنگی ہو تی ہے۔ قریباًبیس ہزار روپے تولہ ہے۔ یہ کستوری جب ہر ن کے اندر آتی ہے۔ اس کے نا ف کے اند رہو تی ہے۔ جسے نا فہ کہتے ہیں۔ یہ سال میں ایک دفعہ آتی ہے۔ تو ہرن کو پتہ چل جا تا ہے۔ کہ میرے پا س ایک نہا یت قیمتی چیز آگئی ہے ا ور شکاریوں کو بھی پتہ چل جا تاہے کہ یہ کستوری کا موسم ہے اور وہ تاک میں رہتے ہیں شکار کر نے کے۔
ایمان قیمتی متاع، حفاظت لازمی
جیسے ہم یہا ں آتے ہیں تو شیطان ہمارا شکار ی ہے۔ وہ جا ل ڈالتا ہے کسی کو نیند کا ،کسی کووہ جا ل ڈالتا ہے کہ وہ درس کی کوئی بات اس کے اندر نہ پڑے۔ یہا ں سب مشقت کر کے کا روبار زندگی چھوڑ کر آیا ہے۔ اس کو نیند کا غلبہ ڈال دیا۔ کسی کا جسم یہا ں ہے تو دل حاضر نہیں ہے۔ ایک دفعہ ایک صاحب میر سامنے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا السلام علیکم !انہیں ایک دم جھٹکا لگا بے توجہی اور غفلت میں تھے۔ میں نے پو چھا سچ بتاﺅ کہاں بیٹھے تھے؟ کہنے لگے دہلی دروازے تانگے پربیٹھا تھا ! جسم یہا ں مو جو د ہے تو روح کی تیز پرواز کہاں سے کہاں لئے پھر تی ہے اور یہ شیطان کی کار ستانی ہے کہ وہ کہاں سے کہاں کھینچ کر لے جا تاہے۔ کہنے لگے بڑی مشقت کر کے یہا ں آیا تھا کہ ایمان و اعمال کی بات سنو ں گا۔ شیطان نے کہا، کوئی بات نہیں۔ آیا ہے تو پھربیٹھنے نہیں دوں گا۔ اگربیٹھ گیا ہے تو توجہ نہیں کرنے دو ں گا۔ اگر تو جہ بھی کرنی ہے تو یا تو نیند ڈال دوں گا یا ادھر ادھر مشغول کر دو ں گا تاکہ یہا ں سے کچھ لیکر نہ جا ئے۔ تو جب ہر ن کے اندر مشک آتاہے تو اس کی نیند کم ہوجاتی ہے وہ ہمہ وقت چو کس رہتا ہے۔ سوتا نہیں ہے کھڑے کھڑے اپنی نیند پور ی کر لیتا ہے ہر آہٹپر لرز جا تا ہے چوکنا ہو جا تاہے اس کو ہر وقت مشک والی نا ف کا غم اور فکر ہوتا ہے کہ شکاری کہیں شکار نہ کر لے۔ قیمتی متا ع بھی جائے اور جان بھی جائے۔
مومن کے اندر جب ایمان آتا ہے اور مو من کے اندر جب اللہ کی محبت آتی ہے اور مومن کے اندر تقوی آتا ہے۔ پھر مومن بھی چوکنا ہو جا تاہے کہ کوئی شکاری لو ٹ نہ لے۔ کہیں مجھے نظر وں سے شکار نہ کر لیاجائے۔ کہیں کا نو ں سے شکار نہ کر لیا جائے ہا تھو ں سے شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ نیند کی غفلت کا شکار نہ ہو جاﺅ ں۔ کہیں گنا ہوں کا شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ یہی فکر اسے ہر لمحہ اسے بے چین رکھتی ہے۔ کسی بزرگ نے شیطان کو دیکھا کہ پھٹے پرانے جال لئے پھر رہا ہے۔ کہنے لگا ارے یہ پھٹے پرانے جا ل کہاں ہیں؟ کہا ان لو گو ں کو تلا ش کر رہا ہوں جوان جا لو ں کو توڑ کر نکل بھا گ گئے تھے اور وہ کیا سمجھتے ہیں کہ میں انہیں چھوڑ دو ں گا؟ میں انہیں نہیں چھوڑوں گا؟ اگر میرے ساتھ فیصلہ جہنم کا ہو اہے تو ان سب کو ساتھ لیکر جاﺅں گا۔ یہ پرانے جا ل کیو ں کہتے ہو وہ نئے جا ل لا یا یا پرانے شکا ری اسی طر ح کہتے ہیں۔ میرے دوستوبزرگو ! ایمان بچانا ہے اور قبرمیں ساتھ لیکر جا نا ہے ایمان مومن کی سب سے قیمتی متا ع ہے۔
مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں
ایمان کیسے آئے گا۔ ایمان کا پتہ کیسے چلے گا میں مومن ہوں ، کیسے پتہ چلے گا۔ اپنے دن رات کی مصروفیا ت کو دیکھ کر مومن کا پتہ چل جا تاہے۔ شیشے میں سب کچھ نظر آتاہے کہ نہیں۔ آئینہ میں اپنی شکل نظر آتی ہے یا کسی اور کی تو مومن کا آئینہ کیا ہے؟ مومن کاآئینہ نما زہے۔ مو من کا آئینہ خلوت ، تنہا ئیاں ہیں۔ تنہائیوں میں مجھے رب کتنا یا د ہوتا ہے اور سب کتنا یا د ہوتے ہیں۔ مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں۔ جب میں تنہا ئیو ں میں ہوتا ہوں اس وقت اللہ پا ک جل شانہ کے ساتھ میرا کیا معاملہ ہوتاہے اور اس اللہ کے ساتھ کیا ہوتا ہوں۔ اب تو شریف ہو گیا ہوں اس وقت بد معاش ہوتا ہوں؟ اب تو شریف ہو گیا ہوں۔ اس وقت خبیث ہوتا ہوں؟ اب رحمان کا بندہ ہوں کیا اس وقت کہیں شیطان کا بندہ تو نہیں ہوتا (تنہائیوں میں )ایمان تنہا ئیو ں میں گناہوں سے بچا تا ہے ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کی محبت کو لا تا ہے۔ ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کے تعلق کو لا تاہے۔ اور چلتے چلتے انسان کے ایمان میں کمی نہیں آتی اور چلتے چلتے انسان کا ایمان بڑھتا ہے اور جب انسان راہ عمل پر چل رہا ہوتاہے۔ ایمان کم ہو رہا یا زیادہ ہو رہا ہوتاہے۔
قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
دو رکعت نفل صلوة الحاجت پڑھیں سلام کے بعد اسی حالت میں کسی سے گفتگو کیے بغیر 3 بار درود ابراہیمی 3 بار سورة یٰسین اور پھر 3 بار درود ابراہیمی ضرور پڑھیں اور نہایت خشوع توجہ دھیان سے اللہ تعالیٰ سے اپنے مسائل اورمشکلات کیلئے دعا کریں یہ عمل کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے اگر تہجد کے وقت کرلیں تو بہتر ہے یہ عمل دن میں کئی بار بھی کیا جاسکتا ہے۔
تمام قارئین کو اجازت ہے آپ کسی اور کو بھی بتا سکتے ہیں۔ ایک نہایت متقی صالح درویش کی خدمت سے یہ عمل حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا مسئلہ چاہے کسی بھی قسم کا ہو دنیاوی ہویا کسی شخص سے کاروبار کا ہو اولاد کا ہو یا رشتوں کا تمام مسائل کے لیے یہ نفل پڑھنے کو بتائے۔ آخر میں یہ فرمایا کہ ایک ہی بار پڑھنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا ورنہ 3 دن یہ نفل پڑھ لیں اور اگر ساری زندگی کا معمول بنالیں تو حیرت انگیز فوائد اور برکات آنکھوں سے دیکھیں گے۔ قارئین! ایک شخص اپنی مشکل لے کر آیا کہ بیماری سے عاجز آگیا کوئی علاج نہیں چھوڑا تھا اور خوب پرہیز کیے لیکن افاقہ نہ ہوا کہنے لگاعلاج کرتے کرتے اب دوائی اور معالج کے نام سے الرجی ہے حتیٰ کہ اگر دوائی کے اشتہاری سے گولی یا کیپسول کی آواز سنتے ہی غصہ آجاتا ہے۔ اس کے مطابق تمام حکیم ڈاکٹر فراڈ ہیں سب جھوٹے اور دھوکے باز ہیں۔
کسی کے پاس کوئی دوائی نہیں میرا کوئی علاج نہیں کرسکتا یقینا وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا تھا اور گالیاں دیتا تھا۔ میں نے اس مریض کو دیکھا بھی نہیں بلکہ میں نے تو ایک دوسرے مریض کو بتایا تھا اللہ تعالیٰ نے اس مبارک عمل کی برکت سے اسے شفاءعطا فرمائی تو اس نے دوسروں کو بتایا ۔یہ مریض اس کے فلیٹ سے اوپر کی منزل پر رہتا تھا۔اس نے اسے بھی بتایا اس نے یہ نفل پڑھنے شروع کردئیے ایک دن ملا کہ میں پہلے سے اتنا تندرست ہوں کہ بتا نہیں سکتا وہ کم ازکم 1/2 گھنٹے اپنی صحت کی داستان بیان کرتا رہا پھر ایک بار مجھے ملنے آیا تو ایک رومال میں ادویات کی گٹھڑی باندھی ہوئی تھی وہ دکھا کر کہنے لگا ایسی کئی گٹھڑیاں نوٹوں کی خرچ کرچکا ہوں واقعی یہ عمل لاجواب ہے یہ شخص دراصل ڈاکیہ تھا اب اسنے ایک لاجواب کام کیا جہاں بھی جاتا کسی کو کسی بھی قسم کی مشکل میں مبتلاءدیکھتا تو فوراً اسے نفل کی ترکیب بتادیتا چونکہ نفل آسان اور بالکل تھوڑے وقت میں پڑھے جاتے ہیں۔
اس لیے ہر شخص آسانی سے پڑھ لیتا پھر یہ شخص ہرپڑھنے والے کے پاس وقتاً فوقتاً جاتا رہتا اور اسے یقین توجہ اور دھیان جما جما کر پڑھنے کی ترغیب دیتا رہتا پھر اس عمل سے جن جن لوگوں کے مسائل حل ہوئے اس نے ان لوگوں کے نام مسائل بمع ایڈریس لکھنا شروع کیے‘ یہ ڈاکیہ اب تک اپنے مشن میں لگا ہوا ہے میرے خیال میں یہ مبارک اور نفع بخش کاروبار ہے۔
ایک دائی میرے پاس اکثر عورتوں کے امراض کا مشورہ کرنے آتی ہے میںاسے رجوع الی اللہ کی ترغیب دیتا ہوں وہ دوسری عورتوں کواعمال پر لگائے رکھتی ہے کیونکہ مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی چاہت پورا کرنے سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی چاہت کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیںایسے اعمال دئیے ہیں جنہیں کرکے ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی مرادیں اور مشکلات حل کراسکتے ہیں۔ اس دائی کو میں نے یہ نفل سمجھا دئیے چونکہ وہ تجربہ کار پرانی خاتون ہے اور سلیقہ مند بھی ہے۔ اس نے میری بات کو لیا اور خواتین کو یہ نفل بتانے شروع کیے دائی نے بتایا کہ بہت سی خواتین کی اولاد نہیں تھی وہ علاج کرکے تھک گئی تھیں کئی خواتین بیرون ملک بھی علاج کرواکے آئیں لیکن ناکام رہیں آخر کار انہوں نے یہ نفل توجہ اور اعتماد سے پڑھنے شروع کیے اللہ تعالیٰ نے اولاد عطاءفرمائی۔ دائی نے مزید بتایا کہ اکثر گھروں میں ناچاقی تھی میاں بیوی کے آپس میں لڑائی جھگڑے اور حاسدین کی نظر تھی جب سے خواتین نے یہ نفل شروع کیے حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے کئی گھروں کے مسائل تھے کہ اولاد نافرمان ہے یا اولاد بے روزگار ہے یا کسی بیماری میں مبتلا ءہے یا ایسے لوگ جن کی اولاد کی شادیاں نہیں ہورہیں ان تمام کو یہ عمل بتایا گیا اللہ تعالیٰ نے نہایت کریمی فرمائی کچھ عرصہ مستقل مزاجی سے یہ نفل اپنے معمول میں رکھیں بلکہ جو مایوس لوگ ہر قسم کی کوشش کرکے تھک گئے ان کیلئے یہ نوافل امید کی آخری کرن ہیںکچھ عرصہ کم 40 دن حد 90 دن یہ نفل پڑھیں اگر کسی کو سورة یٰسین یاد ہو تو نفل صلوٰة حاجت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة یٰسین ملا کر پڑھ لیں اگر یاد نہیں تو کوئی بھی سورة ملا کر نفل پڑھ سکتے ہیں۔
آپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہیاپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہے
میرے گاﺅں کے ایک ڈاکئے حاجی عبدالحمید کے مرشد مولانا فقیر اللہ صاحب کبھی کبھی وہاں تشریف لاتے تھے جو کہ شریعت کے پابند تھے۔ پانچ وقت کی نماز با جماعت کے علاوہ تہجد گزار تھے۔ پردہ کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے درخواست کی کہ حضرت ! مجھے کوئی ایسا وظیفہ عطا فرمائیں کہ اسے پڑھوں اور میری کلاس کے تمام بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوں اور اعزازی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے مجھے ایک دعا لکھ دی اور فرمایا کہ اس دعا کے اول و آخر درود پاک پڑھنا ہے۔ دعا کو سات دفعہ پڑھنا ہے اور آخری دفعہ آخرمیں ”وَ بَارِک وَسَلِّم “ کا اضافہ بھی کرنا ہے‘ دعا یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرِ قَلبِی بِعِلمِکَ وََاستَعمِل بَدَ نِی بِطَا عَتِک۔ میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ کلاس کے بچے یہ دعا پڑھنے کے بعد کلاس ورک شروع کرتے اور برکات کا نزول ہوتا رہا۔ 100% رزلٹ کے علاوہ اعزازی پوزیشنیں بھی آتی رہیں اور دیکھنے والے حیران رہ جاتے ۔ میں خود بھی دعا پڑھ کر کلاس کو کام شروع کراتا۔ میں نے تجربہ کیا ہے کہ وہ بچے جو اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام روزانہ پڑھتے ہیں۔ اس میں ناغہ نہیں کرتے ‘انہیں بہت جلد علم حاصل ہوتا ہے۔ میں خود سابقہ 38 سالوں سے متواتر اور بلا ناغہ ان مبارک ناموں کو پڑھ رہا ہوں اور ان کے فیض سے دل و دماغ کو روشن پا رہا ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭
میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول وریام والا‘ تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ میں بطور پرنسپل کام کرتا رہا ہوں۔ وہاں میں نے اگست 1993 تا فروری 2002 ءکام کیا ہے۔ اس دوران میں نے جھنگ صدر میں ایک مکان خریدا تاکہ شہر میں کبھی رہنا پڑے تو کسی کے ہاں محتاج نہ ہوں۔ ایک روز بندہ وریام والا سے جھنگ صدر آیا۔ مکان پر چونکہ کوئی رہائش پذیر نہ تھا اور نہ ہی کرایہ پر دیا تھا‘ مکان کھول کر اپنے سامان کو چیک کرنے لگا کہ کہیں دیمک وغیرہ نہ لگی ہو‘ غلطی سے اپنے مین دروازہ کو اندر سے کنڈی لگانا بھول گیا۔ دروازہ ویسے ہی بند تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ 18‘ 19 سالہ ایک نوجوان لڑکی اندر داخل ہو گئی اور ایک کمرے میں بیٹھ کر اس نے میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ اس سے نہ میری جان نہ پہچان‘ نہ اس نے اندر آنے کی اجازت لی اور نہ ہی اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ میراامتحان شروع ہو گیا۔ عجیب و غریب خیالات آنے شروع ہو گئے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک اور کمرے میں بند کر دیا اور دعا مانگنی شروع کی کہ اللہ پاک اسے یہاں سے لے جا اور میری خلاصی ہو۔ خیال آیا کہ ممکن ہے کوئی سازش ہو اور مجھے پکڑانے کا کوئی منصوبہ ہو۔ شیطان وسوسہ ڈالتا کہ شکار تیرے گھر آیا ہے دیر نہ کر ‘ پھر میں سوچتا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو تھوڑی سی لذت کے بدلے عمر بھر یہ گناہ میرے ساتھ ہو گا۔
ایک گھنٹہ کے بعد میں نے ہمت کی کہ چپکے سے کمرے سے نکل کر دیکھا وہ چلی گئی ہے یا نہیں۔ باہر نکل کر ساتھ والے کمرے میںجھانکا وہ زمین پر کپڑا پھیلا کر ایسے بیٹھی ہے گویا کسی کے انتظار میں ہے اور خوب میک اپ کیا ہوا ہے۔ میں دبے پاﺅں اپنے کمرے میں گیا اندر سے دوبارہ کنڈی لگا لی۔ اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا مانگنی شروع کی کہ یا اللہ! مجھے اس امتحان سے بچا۔ امتحان لمبا ہوتا گیا ‘ دوبارہ جھانکا مگر وہ موجود‘ پھر کمرے میں آکر دعاکی پھر باہر نکل کر دیکھا تو وہ بڑے انتظار کے بعد باہر چلی گئی۔ میری زندگی میں میرے لئے یہ بہت بڑا امتحان تھا۔
پتھر
ایک متمول کاروباری شخص اپنی نئی جیگوار کار پر سوار سڑک پر رواں دواں تھا کہ دائیں طرف سے ایک بڑا سا پتھر اُسکی کار کو آ ٹکرایا۔
اُس شخص نے کار روک کر ایک طرف کھڑی کی اور تیزی سے نیچے اُتر کر کار کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھنا چاہا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ پتھر مارا کس نے تھا!!
پتھر لگنے والی سمت میں اُسکی نظر گلی کی نکڑ پر کھڑے ایک لڑکے پر پڑی جس کے چہرے پر خوف اور تشویش عیاں تھی۔
آدمی بھاگ کر لڑکے کی طرف لپکا اور اُسکی گردن کو مضبوطی سے دبوچ کر دیوار پر لگاتے ہوئے پوچھا؛ اے جاہل لڑکے، تو نے میری کار کو پتھر کیوں مارا ہے؟ جانتے ہو تجھے اور تیرے باپ کو اِسکی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
لڑکے نے بھرائی ہوئی آنکھوں سے اُس آدمی کو دیکھتے ہوئے بولا؛ جناب میں نے جو کُچھ کیا ہے اُسکا مجھے افسوس ہے۔ مگر میرے پاس اسکے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ میں کافی دیر سے یہاں پر کھڑا ہو کر گزرنے والے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی بھی رُک کر میری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ لڑکے نے آدمی کو گلی کے وسط میں گرے پڑے ایک بچے کی طرف اِشارہ کرتے
ہوئے بتایا؛ وہ میرا بھائی ہے جو فالج کی وجہ سے معذور اور چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔ میں اِسے پہیوں والی کُرسی پر بِٹھا کر لا رہا تھا کہ سڑک پر پڑے ایک چھوٹے گڑھے میں پہیہ اٹکنے سے کُرسی کا توازن بگڑا ا ور وہ نیچے گر گیا۔ میں نے کوشش تو بہت کی ہے مگر اتنا چھوٹا ہوں کہ اُسے نہیں اُٹھا سکا۔ میں آپکی منت کرتا ہوں کہ اُسے اُٹھانے میں میری مدد کیجیئے ۔ میرے بھائی کو گرے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے اِسلئے اب تو مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے۔۔۔ اِس کے بعد آپ کار کو پتھر مارنے کے جُرم میں میرے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں گے میں حاضر ہونگا۔ آدمی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، فورا اُس معذور لڑکے کی طرف لپکا، اُسے اُٹھا کر کرسی پر بٹھایا، جیب میں سے اپنا رومال نکال کر لڑکے کا منہ صاف کیا، اور پھر اُسی رومال کو پھاڑ کر ، لڑکے کو گڑھے میں گر کر لگنے والوں چوٹوں پر پٹی کی۔۔
اسکے بعد لڑکے نے آدمی سے پوچھا؛ جی جناب، آپ اپنی کار کے نقصان کے بدلہ میں میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟
آدمی نے مختصر سا جواب دیا؛ کچھ بھی نہیں بیٹے، مجھے کار پر لگنے والی چوٹ کا کوئی افسوس نہیں ہے۔
آدمی اُدھر سے چلا تو گیا مگر کار کی مرمت کیلئے کسی ورکشاپ کی طرف نہیں، کار پر لگا ہوا نشان تو اُس نے اِس واقعہ کی یادگار کے طور پر ویسے ہی رہنے دیا تھا، اِس انتظار کے ساتھ کہ شاید کوئی اور مجبور انسان اُس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اُسے ایک پتھر ہی مار دے۔۔۔
کیا ہم بھی کسی کی مدد کرنے کے لیے کسی پتھر کا انتظار کر رہے ہیں
وہ عمل ہے (تہجد کی نماز)
افادات نوری
ذیل میں قابل صد احترام ڈاکٹر نور احمد نور صاحب پروفیسر آف میڈیسن نشتر میڈیکل کالج ملتان، کی نماز پر تحقیق پیش ہے۔
نماز تہجد کا فائدہ
مایوسی یعنی ڈیپریشن(Depression)کے امراض کا علاج مغربی ڈاکٹروں نے ایک اور دریافت کیا ہے۔ یہ بات مجھے خیبر میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات نے بتائی۔ مغربی ممالک کے ڈاکٹروں نے دیکھا کہ جو مسلمان تہجد کے وقت جاگتے ہیںانہیں مایوسی کا مرض نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ تہجد کے وقت جاگنا، مایوسی کے مرض کا علاج ہے۔ علم نفسیات (Psychology)کے ماہرین نے مایوسی کے مریضوں پر یہ تجربہ کیا۔ انہوں نے مایوسی کے مریضوں کو تہجد کے وقت جگانا شروع کیا۔ یہ مریض جاگ کر کچھ پڑھ لیتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔ یہ معمول جب کئی مہینے تک مسلسل جاری رکھا گیا تو مایوسی کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوا اوروہ دواﺅں کے بغیر ٹھیک ہو گئے۔ چنانچہ اس مغربی ڈاکٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آدھی رات کے بعد جاگنا مایوسی کے مریضوں کا علاج ہے۔
میں نے عبقری رسالے کے مضمون ”دکھی خط“میں پڑھا ہے کہ کوئی بہن یا بھائی یا کوئی شخص بہت ہی سخت مشکل میں گرفتار ہے اس کی پوری داستان لکھی جاتی ہے۔ آخر میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ کوئی صاحب اس کے حل کے بارے میں بتائے۔ تو آج میں آپ کو ان تمام بھائی بہنوں کی مشکلات کا حل بتاتا ہوں اس پر عمل کرکے دیکھیں پھردیکھئے کہ کس طرح رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے‘مشکلات کے بادل چھٹتے ہیں مگر اس عمل کی مداوت نہایت ضروری ہے ‘ کیونکہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی مشکل اگر 6 سال کی لکھی ہے تو جب آپ اس عمل کو کریں گے تو رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے کبھی فوراً مشکل حل ہوجاتی ہے کبھی کسی مصلحت کے تحت دیر ہوتی تو دیر کی وجہ سے تنگ آکر یا جھنجھلا کر عمل کو بند نہ کریں کیونکہ شیطان بہت کوشش کرتا ہے آپ کو طرح طرح سے بہکائے گا کہ اتنا عرصہ ہوگیا مشکل حل نہیں ہوتی مگر آپ شیطان کی بات بالکل نہ مانیں بلکہ اور زیادہ عمل میں لگ جائیں انشاءاللہ دکھ و تکلیف کے بادل چھٹ جائیں گے بعد میں دفع ہوجائیں گی۔ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ۔
وہ عمل ہے (تہجد کی نماز)
میں ایک صاحب کی سچی کہانی انہی کی زبانی آپ کو بتاتا ہوں۔ میں ایک عرصے سے بیروزگار تھا۔ نوکری اور روزگار کیلئے جگہ جگہ دھکے کھاتا رہا مگر ہرطرف سے جواب نہ میں آتا۔ کبھی کبھی میں خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا۔ میری والدہ نے میرے انتہائی منع کرنے کے باوجود میری شادی کردی‘ میری والدہ کا کہنا تھا کہ تمہاری شادی کے بعد تمہاری روزگار کی پریشانی ختم ہوجائیگی اور آنیوالی دلہن اپنی تقدیر اور اپنا رزق ساتھ لائیگی۔ ایک مخلص دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کسی شپنگ ایجنٹ کے ذریعے باہر چلے جائو اور جہاز پر تنخواہ بھی اچھی ہوتی ہے اور ملک ملک کی سیر مفت میں ملے گی۔ میں اپنی بیوی کا زیور بیچ کر ایک شپنگ ایجنٹ کو بیس ہزار کی رقم دیدی یہ تقریباً 1980 کا سال تھا اس وقت میں حیدرآباد میں رہتا تھا شپنگ ایجنٹ کا دفتر کراچی میں واقع تھا جس کی وجہ سے مجھے بار بار کراچی جانا پڑتا چونکہ میرے سسرال کراچی میں تھے اور مجبوراً وہاںرہنا پڑتا تھا مجھے وہاں رہتے بڑی شرم آتی تھی۔ دوسری مصیبت یہ تھی کہ میرے سسر کو مجھ سے خدا واسطے کا بیر تھا وہ شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کی بیٹی کو میں بھوکا ماررہا ہوں۔ میں اپنے سسر سے چھپ کر مجبوراً سسرال میں رہتا تھا۔ میں جب بھی ایجنٹ کے پاس جاتا تو وہ دوسرے دن آنے کو کہتا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ ایک دفعہ رمضان کا مہینہ تھا میں سسرال میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایجنٹ وعدہ پر وعدہ کررہا تھا آفس کے باہر لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا‘ لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھی لوگ بڑے بڑے لوگوں کی سفارشیں لے کرآتے تھے روزانہ لوگوںکی فلائٹ ہوتی تھی مگر میں کس کی سفارش لاتا؟ ایجنٹ کی بڑی منتیں کرتا مگر وہ منہ نہیں لگاتا تھا زیادہ ضد کرتا تو کہتا کہ تم سے پہلے کئی لوگ موجود ہیں ان کے بعد تمہارا نمبر آئیگا۔ ایک دن میں ذہنی طور پر بہت زیادہ پریشان تھا میں نے رات کو اپنی بیوی کو اٹھا کر اس سے جائے نماز اور قرآن لے کر مکان کی چھت پر چڑھ گیا رات کو چھت پر ہوکا عالم تھا‘ اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا اور ایک جگہ جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔
تہجد کی نماز پڑھی پھر 2رکعت صلوٰة الحاجت پڑھی اور قرآن سر پر رکھ کر اپنے رب سے دعا مانگنے لگا۔ میرا دل بھر آیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کہ (اے میرے رب میں کہاں جائوں تیرے علاوہ کوئی اور سنتا بھی نہیں‘ میں روزگار سے بے انتہا پریشان ہوں اے میرے رب اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میرے کام کو بنادے اور مجھے جلد سے جلد باہر ملک جہاز پر نوکری لگوادے) بس رو رو کر میری ہچکی بندھ گئی پھر میں سجدے میں گرگیا اور کافی دیر تک دعائیں مانگتا رہا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور عید میں تقریباً پندرہ دن باقی تھے میں روزانہ رات کو چھت پر چڑھ جاتا تہجد پڑھتا اور اپنے رب سے دعا مانگتا رہتا۔ میں بے انتہا روتا اور گڑگڑاتا رہتا۔ ابھی عید کے آنے میں تقریباً چھ دن رہ گئے تھے میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے عید سے پہلے پاکستان سے باہر نکال دے مجھے نوکری عطا کردے۔ میں بہت دلبرداشتہ ہورہا تھا۔ اتنی دعائیںاور تہجد پڑھنے کے باوجود دعا کی قبولیت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ ہر دفعہ شپنگ ایجنٹ ٹکا سا جواب دیدیتا ایک دن اتوار کو میں نے اپنے ایک دوست سے ایجنٹ کے دفتر چلنے کو کہا تو میرا دوست حیرت سے بولا کہ بھائی آج اتوار ہے اور اتوار کو تمام دفتر بند ہوتے ہیں مگر اپنے دوست سے بضد رہا۔ میرے زور دینے پر اپنے دوست کے ساتھ ایجنٹ کے دفتر پہنچا۔ دفتر کے باہر چوکیدار نے ہمیں روک لیا میں نے چوکیدار سے کہا ہمیں دفتر میں جانا ہے تو وہ بولا کہ آج دفتر بند ہے۔ میں نے کہا کہ دفتر میں کوئی تو ہوگا مجھے اس سے ملنا ہے مگر چوکیدار بھی کوئی ضدی بندہ تھا اس نے ہمیں دفتر میں جانے نہیں دیا۔ میں واپس جانے ہی والا تھا کہ چوکیدار بولا اندر افتخار صاحب ہیں جائو اس سے مل لو۔ بس میں فوراً دفتر میں داخل ہوا اندر افتخار صاحب (کلرک) بیٹھے ہوئے تھے سلام وغیرہ کے بعد میں نے اپنے باہر جانے اور نوکری کے بارے میں پوچھا وہ بولے کہ ابھی تو مہینوں بعد تمہارا نمبر آئیگا کیونکہ تم سے پہلے کئی لوگ انتظار میں بیٹھے ہیں میرا دل ایک دم دھک سے رہ گیا کہ یاالٰہی !میں تو بڑی امید لے کر آیا تھا میں ٹوٹے ہوئے دل سے واپس ہونے لگا کہ اچانک افتخار صاحب بولے کہ بھائی تمہارا نام کیا ہے میں نے اپنا نام بتایا تو فوراً انہوں نے اپنے رجسٹر کو کھولا اور اس کے اندر سے پاسپورٹ اور فلائٹ کا ٹکٹ نکالا اور چہک کر بولے ارے یہ تو تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ ہے میں تمہارا ہی تو انتظار کررہا ہوں۔ آج رات کی آپ کی فلائٹ ہے جرمنی کی۔ میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا کہ میرے کام کا دور دور تک پتا نہیں تھا نہ ہی سوچ تھی اتوار کو آفس بند ہوتا ہے میں ہی ضد کرکے یہاں پر آیا اور ناممکن کام ممکن ہوگیا۔ بس یہ تہجد ہی کی برکت تھی کہ میرے پیارے رب نے میری فریاد سن لی اور میں کامیاب ہوگیا۔ اسی رات میں فلائٹ میں بیٹھ کر باہر روانہ ہوگیا اور اللہ نے میری قسمت کھول دی
درس ہدایت (حکیم طارق محمود چغتائی عبقری مجذوبی چغتائی)
(ہفتہ وار درس سے اقتباس)
نفل و عبادات میں مجاہدہ یا مشقت کا اجر
تہجد کے وقت عبادت کے لیے اٹھنا مشقت طلب امر ہے۔ تہجد کے نفل مشقت والے ہیں لیکن اشراق کے نفل مشقت والے نہیں ہیں۔ تہجد کے نفل کم از کم دو اور زیا دہ سے زیادہ جتنے مرضی ادا کرتے جا ﺅ۔ بعد کے دوسرے نفل ہیں۔ تہجد اور اشراق کے نفل اجر کے لحاظ سے برابر ہیں؟ جس عمل میں جتنا مجا ہد ہ ہو گا، جتنی قربانی ہو گی۔ جتنی خواہشات اور جتنی ضروریات اور جتنی اندر کی کیفیا ت ٹوٹے گی۔ یا د رکھنا اس عمل پر اتنا ہی اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہا ں اصل قربانی ہے ، مجاہدہ اور ایمان بنانے میں ، قربانی دینے میں سب سے پہلی چیز ہے کہ ایمان بنانا ہے۔ ایمان بچانا ہے اوربچا کر حفاظت سے قبر تک ساتھ لے جا نا ہے۔ یا د رکھنا پیسہ کو شش سے نہیں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کو شش سے پیسہ مل جا تا ہے۔ جب پیسہ آجاتا ہے پھر اس کی حفا ظت بھی لازمی ہے اس کو سنبھالنا بھی ضروری ہوتا ہے اور یا د رکھنا جس کے پا س زیادہ پیسہ ، مال و دولت آجا تا ہے۔ اس کی نیند کم ہو جا تی ہے۔ یہ مال کا خاصہ ہے۔ چاہے ایمان کا مال ہو ، چاہے دنیا کا مال ہو۔ نیند کم ہو جا تی ہے۔ امید ہے آپ سمجھ رہے ہوں گے ہرن ہے نا ” مشکی ہر ن “ ، ” آہو مشکی “ چشم غزالی ، چشم غزال۔ آہو کہتے ہیں ہرن کو ، غزال کہتے ہیں ہر ن کو۔ اس سے نکلی ہے غزل اور غزل ہرن کی اس چیخ کو کہتے ہیں جب شکاری اس کو پہلا تیر ما رتا ہے اور اس کے اندر سے دل گداز ، پر سوز ایک آہ سی نکلتی ہے اس کو غزل کہتے ہیں یہ جو ہر ن ہوتا ہے جس کے اندر مشک ( کستوری ) ہوتا ہے۔ کستوری بہت مہنگی ہو تی ہے۔ قریباًبیس ہزار روپے تولہ ہے۔ یہ کستوری جب ہر ن کے اندر آتی ہے۔ اس کے نا ف کے اند رہو تی ہے۔ جسے نا فہ کہتے ہیں۔ یہ سال میں ایک دفعہ آتی ہے۔ تو ہرن کو پتہ چل جا تا ہے۔ کہ میرے پا س ایک نہا یت قیمتی چیز آگئی ہے ا ور شکاریوں کو بھی پتہ چل جا تاہے کہ یہ کستوری کا موسم ہے اور وہ تاک میں رہتے ہیں شکار کر نے کے۔
ایمان قیمتی متاع، حفاظت لازمی
جیسے ہم یہا ں آتے ہیں تو شیطان ہمارا شکار ی ہے۔ وہ جا ل ڈالتا ہے کسی کو نیند کا ،کسی کووہ جا ل ڈالتا ہے کہ وہ درس کی کوئی بات اس کے اندر نہ پڑے۔ یہا ں سب مشقت کر کے کا روبار زندگی چھوڑ کر آیا ہے۔ اس کو نیند کا غلبہ ڈال دیا۔ کسی کا جسم یہا ں ہے تو دل حاضر نہیں ہے۔ ایک دفعہ ایک صاحب میر سامنے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا السلام علیکم !انہیں ایک دم جھٹکا لگا بے توجہی اور غفلت میں تھے۔ میں نے پو چھا سچ بتاﺅ کہاں بیٹھے تھے؟ کہنے لگے دہلی دروازے تانگے پربیٹھا تھا ! جسم یہا ں مو جو د ہے تو روح کی تیز پرواز کہاں سے کہاں لئے پھر تی ہے اور یہ شیطان کی کار ستانی ہے کہ وہ کہاں سے کہاں کھینچ کر لے جا تاہے۔ کہنے لگے بڑی مشقت کر کے یہا ں آیا تھا کہ ایمان و اعمال کی بات سنو ں گا۔ شیطان نے کہا، کوئی بات نہیں۔ آیا ہے تو پھربیٹھنے نہیں دوں گا۔ اگربیٹھ گیا ہے تو توجہ نہیں کرنے دو ں گا۔ اگر تو جہ بھی کرنی ہے تو یا تو نیند ڈال دوں گا یا ادھر ادھر مشغول کر دو ں گا تاکہ یہا ں سے کچھ لیکر نہ جا ئے۔ تو جب ہر ن کے اندر مشک آتاہے تو اس کی نیند کم ہوجاتی ہے وہ ہمہ وقت چو کس رہتا ہے۔ سوتا نہیں ہے کھڑے کھڑے اپنی نیند پور ی کر لیتا ہے ہر آہٹپر لرز جا تا ہے چوکنا ہو جا تاہے اس کو ہر وقت مشک والی نا ف کا غم اور فکر ہوتا ہے کہ شکاری کہیں شکار نہ کر لے۔ قیمتی متا ع بھی جائے اور جان بھی جائے۔
مومن کے اندر جب ایمان آتا ہے اور مو من کے اندر جب اللہ کی محبت آتی ہے اور مومن کے اندر تقوی آتا ہے۔ پھر مومن بھی چوکنا ہو جا تاہے کہ کوئی شکاری لو ٹ نہ لے۔ کہیں مجھے نظر وں سے شکار نہ کر لیاجائے۔ کہیں کا نو ں سے شکار نہ کر لیا جائے ہا تھو ں سے شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ نیند کی غفلت کا شکار نہ ہو جاﺅ ں۔ کہیں گنا ہوں کا شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ یہی فکر اسے ہر لمحہ اسے بے چین رکھتی ہے۔ کسی بزرگ نے شیطان کو دیکھا کہ پھٹے پرانے جال لئے پھر رہا ہے۔ کہنے لگا ارے یہ پھٹے پرانے جا ل کہاں ہیں؟ کہا ان لو گو ں کو تلا ش کر رہا ہوں جوان جا لو ں کو توڑ کر نکل بھا گ گئے تھے اور وہ کیا سمجھتے ہیں کہ میں انہیں چھوڑ دو ں گا؟ میں انہیں نہیں چھوڑوں گا؟ اگر میرے ساتھ فیصلہ جہنم کا ہو اہے تو ان سب کو ساتھ لیکر جاﺅں گا۔ یہ پرانے جا ل کیو ں کہتے ہو وہ نئے جا ل لا یا یا پرانے شکا ری اسی طر ح کہتے ہیں۔ میرے دوستوبزرگو ! ایمان بچانا ہے اور قبرمیں ساتھ لیکر جا نا ہے ایمان مومن کی سب سے قیمتی متا ع ہے۔
مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں
ایمان کیسے آئے گا۔ ایمان کا پتہ کیسے چلے گا میں مومن ہوں ، کیسے پتہ چلے گا۔ اپنے دن رات کی مصروفیا ت کو دیکھ کر مومن کا پتہ چل جا تاہے۔ شیشے میں سب کچھ نظر آتاہے کہ نہیں۔ آئینہ میں اپنی شکل نظر آتی ہے یا کسی اور کی تو مومن کا آئینہ کیا ہے؟ مومن کاآئینہ نما زہے۔ مو من کا آئینہ خلوت ، تنہا ئیاں ہیں۔ تنہائیوں میں مجھے رب کتنا یا د ہوتا ہے اور سب کتنا یا د ہوتے ہیں۔ مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں۔ جب میں تنہا ئیو ں میں ہوتا ہوں اس وقت اللہ پا ک جل شانہ کے ساتھ میرا کیا معاملہ ہوتاہے اور اس اللہ کے ساتھ کیا ہوتا ہوں۔ اب تو شریف ہو گیا ہوں اس وقت بد معاش ہوتا ہوں؟ اب تو شریف ہو گیا ہوں۔ اس وقت خبیث ہوتا ہوں؟ اب رحمان کا بندہ ہوں کیا اس وقت کہیں شیطان کا بندہ تو نہیں ہوتا (تنہائیوں میں )ایمان تنہا ئیو ں میں گناہوں سے بچا تا ہے ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کی محبت کو لا تا ہے۔ ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کے تعلق کو لا تاہے۔ اور چلتے چلتے انسان کے ایمان میں کمی نہیں آتی اور چلتے چلتے انسان کا ایمان بڑھتا ہے اور جب انسان راہ عمل پر چل رہا ہوتاہے۔ ایمان کم ہو رہا یا زیادہ ہو رہا ہوتاہے۔
قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
دو رکعت نفل صلوة الحاجت پڑھیں سلام کے بعد اسی حالت میں کسی سے گفتگو کیے بغیر 3 بار درود ابراہیمی 3 بار سورة یٰسین اور پھر 3 بار درود ابراہیمی ضرور پڑھیں اور نہایت خشوع توجہ دھیان سے اللہ تعالیٰ سے اپنے مسائل اورمشکلات کیلئے دعا کریں یہ عمل کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے اگر تہجد کے وقت کرلیں تو بہتر ہے یہ عمل دن میں کئی بار بھی کیا جاسکتا ہے۔
تمام قارئین کو اجازت ہے آپ کسی اور کو بھی بتا سکتے ہیں۔ ایک نہایت متقی صالح درویش کی خدمت سے یہ عمل حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا مسئلہ چاہے کسی بھی قسم کا ہو دنیاوی ہویا کسی شخص سے کاروبار کا ہو اولاد کا ہو یا رشتوں کا تمام مسائل کے لیے یہ نفل پڑھنے کو بتائے۔ آخر میں یہ فرمایا کہ ایک ہی بار پڑھنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا ورنہ 3 دن یہ نفل پڑھ لیں اور اگر ساری زندگی کا معمول بنالیں تو حیرت انگیز فوائد اور برکات آنکھوں سے دیکھیں گے۔ قارئین! ایک شخص اپنی مشکل لے کر آیا کہ بیماری سے عاجز آگیا کوئی علاج نہیں چھوڑا تھا اور خوب پرہیز کیے لیکن افاقہ نہ ہوا کہنے لگاعلاج کرتے کرتے اب دوائی اور معالج کے نام سے الرجی ہے حتیٰ کہ اگر دوائی کے اشتہاری سے گولی یا کیپسول کی آواز سنتے ہی غصہ آجاتا ہے۔ اس کے مطابق تمام حکیم ڈاکٹر فراڈ ہیں سب جھوٹے اور دھوکے باز ہیں۔
کسی کے پاس کوئی دوائی نہیں میرا کوئی علاج نہیں کرسکتا یقینا وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا تھا اور گالیاں دیتا تھا۔ میں نے اس مریض کو دیکھا بھی نہیں بلکہ میں نے تو ایک دوسرے مریض کو بتایا تھا اللہ تعالیٰ نے اس مبارک عمل کی برکت سے اسے شفاءعطا فرمائی تو اس نے دوسروں کو بتایا ۔یہ مریض اس کے فلیٹ سے اوپر کی منزل پر رہتا تھا۔اس نے اسے بھی بتایا اس نے یہ نفل پڑھنے شروع کردئیے ایک دن ملا کہ میں پہلے سے اتنا تندرست ہوں کہ بتا نہیں سکتا وہ کم ازکم 1/2 گھنٹے اپنی صحت کی داستان بیان کرتا رہا پھر ایک بار مجھے ملنے آیا تو ایک رومال میں ادویات کی گٹھڑی باندھی ہوئی تھی وہ دکھا کر کہنے لگا ایسی کئی گٹھڑیاں نوٹوں کی خرچ کرچکا ہوں واقعی یہ عمل لاجواب ہے یہ شخص دراصل ڈاکیہ تھا اب اسنے ایک لاجواب کام کیا جہاں بھی جاتا کسی کو کسی بھی قسم کی مشکل میں مبتلاءدیکھتا تو فوراً اسے نفل کی ترکیب بتادیتا چونکہ نفل آسان اور بالکل تھوڑے وقت میں پڑھے جاتے ہیں۔
اس لیے ہر شخص آسانی سے پڑھ لیتا پھر یہ شخص ہرپڑھنے والے کے پاس وقتاً فوقتاً جاتا رہتا اور اسے یقین توجہ اور دھیان جما جما کر پڑھنے کی ترغیب دیتا رہتا پھر اس عمل سے جن جن لوگوں کے مسائل حل ہوئے اس نے ان لوگوں کے نام مسائل بمع ایڈریس لکھنا شروع کیے‘ یہ ڈاکیہ اب تک اپنے مشن میں لگا ہوا ہے میرے خیال میں یہ مبارک اور نفع بخش کاروبار ہے۔
ایک دائی میرے پاس اکثر عورتوں کے امراض کا مشورہ کرنے آتی ہے میںاسے رجوع الی اللہ کی ترغیب دیتا ہوں وہ دوسری عورتوں کواعمال پر لگائے رکھتی ہے کیونکہ مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی چاہت پورا کرنے سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی چاہت کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیںایسے اعمال دئیے ہیں جنہیں کرکے ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی مرادیں اور مشکلات حل کراسکتے ہیں۔ اس دائی کو میں نے یہ نفل سمجھا دئیے چونکہ وہ تجربہ کار پرانی خاتون ہے اور سلیقہ مند بھی ہے۔ اس نے میری بات کو لیا اور خواتین کو یہ نفل بتانے شروع کیے دائی نے بتایا کہ بہت سی خواتین کی اولاد نہیں تھی وہ علاج کرکے تھک گئی تھیں کئی خواتین بیرون ملک بھی علاج کرواکے آئیں لیکن ناکام رہیں آخر کار انہوں نے یہ نفل توجہ اور اعتماد سے پڑھنے شروع کیے اللہ تعالیٰ نے اولاد عطاءفرمائی۔ دائی نے مزید بتایا کہ اکثر گھروں میں ناچاقی تھی میاں بیوی کے آپس میں لڑائی جھگڑے اور حاسدین کی نظر تھی جب سے خواتین نے یہ نفل شروع کیے حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے کئی گھروں کے مسائل تھے کہ اولاد نافرمان ہے یا اولاد بے روزگار ہے یا کسی بیماری میں مبتلا ءہے یا ایسے لوگ جن کی اولاد کی شادیاں نہیں ہورہیں ان تمام کو یہ عمل بتایا گیا اللہ تعالیٰ نے نہایت کریمی فرمائی کچھ عرصہ مستقل مزاجی سے یہ نفل اپنے معمول میں رکھیں بلکہ جو مایوس لوگ ہر قسم کی کوشش کرکے تھک گئے ان کیلئے یہ نوافل امید کی آخری کرن ہیںکچھ عرصہ کم 40 دن حد 90 دن یہ نفل پڑھیں اگر کسی کو سورة یٰسین یاد ہو تو نفل صلوٰة حاجت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة یٰسین ملا کر پڑھ لیں اگر یاد نہیں تو کوئی بھی سورة ملا کر نفل پڑھ سکتے ہیں۔
آپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہیاپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہے
میرے گاﺅں کے ایک ڈاکئے حاجی عبدالحمید کے مرشد مولانا فقیر اللہ صاحب کبھی کبھی وہاں تشریف لاتے تھے جو کہ شریعت کے پابند تھے۔ پانچ وقت کی نماز با جماعت کے علاوہ تہجد گزار تھے۔ پردہ کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے درخواست کی کہ حضرت ! مجھے کوئی ایسا وظیفہ عطا فرمائیں کہ اسے پڑھوں اور میری کلاس کے تمام بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوں اور اعزازی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے مجھے ایک دعا لکھ دی اور فرمایا کہ اس دعا کے اول و آخر درود پاک پڑھنا ہے۔ دعا کو سات دفعہ پڑھنا ہے اور آخری دفعہ آخرمیں ”وَ بَارِک وَسَلِّم “ کا اضافہ بھی کرنا ہے‘ دعا یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرِ قَلبِی بِعِلمِکَ وََاستَعمِل بَدَ نِی بِطَا عَتِک۔ میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ کلاس کے بچے یہ دعا پڑھنے کے بعد کلاس ورک شروع کرتے اور برکات کا نزول ہوتا رہا۔ 100% رزلٹ کے علاوہ اعزازی پوزیشنیں بھی آتی رہیں اور دیکھنے والے حیران رہ جاتے ۔ میں خود بھی دعا پڑھ کر کلاس کو کام شروع کراتا۔ میں نے تجربہ کیا ہے کہ وہ بچے جو اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام روزانہ پڑھتے ہیں۔ اس میں ناغہ نہیں کرتے ‘انہیں بہت جلد علم حاصل ہوتا ہے۔ میں خود سابقہ 38 سالوں سے متواتر اور بلا ناغہ ان مبارک ناموں کو پڑھ رہا ہوں اور ان کے فیض سے دل و دماغ کو روشن پا رہا ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭
میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول وریام والا‘ تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ میں بطور پرنسپل کام کرتا رہا ہوں۔ وہاں میں نے اگست 1993 تا فروری 2002 ءکام کیا ہے۔ اس دوران میں نے جھنگ صدر میں ایک مکان خریدا تاکہ شہر میں کبھی رہنا پڑے تو کسی کے ہاں محتاج نہ ہوں۔ ایک روز بندہ وریام والا سے جھنگ صدر آیا۔ مکان پر چونکہ کوئی رہائش پذیر نہ تھا اور نہ ہی کرایہ پر دیا تھا‘ مکان کھول کر اپنے سامان کو چیک کرنے لگا کہ کہیں دیمک وغیرہ نہ لگی ہو‘ غلطی سے اپنے مین دروازہ کو اندر سے کنڈی لگانا بھول گیا۔ دروازہ ویسے ہی بند تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ 18‘ 19 سالہ ایک نوجوان لڑکی اندر داخل ہو گئی اور ایک کمرے میں بیٹھ کر اس نے میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ اس سے نہ میری جان نہ پہچان‘ نہ اس نے اندر آنے کی اجازت لی اور نہ ہی اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ میراامتحان شروع ہو گیا۔ عجیب و غریب خیالات آنے شروع ہو گئے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک اور کمرے میں بند کر دیا اور دعا مانگنی شروع کی کہ اللہ پاک اسے یہاں سے لے جا اور میری خلاصی ہو۔ خیال آیا کہ ممکن ہے کوئی سازش ہو اور مجھے پکڑانے کا کوئی منصوبہ ہو۔ شیطان وسوسہ ڈالتا کہ شکار تیرے گھر آیا ہے دیر نہ کر ‘ پھر میں سوچتا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو تھوڑی سی لذت کے بدلے عمر بھر یہ گناہ میرے ساتھ ہو گا۔
ایک گھنٹہ کے بعد میں نے ہمت کی کہ چپکے سے کمرے سے نکل کر دیکھا وہ چلی گئی ہے یا نہیں۔ باہر نکل کر ساتھ والے کمرے میںجھانکا وہ زمین پر کپڑا پھیلا کر ایسے بیٹھی ہے گویا کسی کے انتظار میں ہے اور خوب میک اپ کیا ہوا ہے۔ میں دبے پاﺅں اپنے کمرے میں گیا اندر سے دوبارہ کنڈی لگا لی۔ اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا مانگنی شروع کی کہ یا اللہ! مجھے اس امتحان سے بچا۔ امتحان لمبا ہوتا گیا ‘ دوبارہ جھانکا مگر وہ موجود‘ پھر کمرے میں آکر دعاکی پھر باہر نکل کر دیکھا تو وہ بڑے انتظار کے بعد باہر چلی گئی۔ میری زندگی میں میرے لئے یہ بہت بڑا امتحان تھا۔
وہ عمل ہے (تہجد کی نماز)
افادات نوری
ذیل میں قابل صد احترام ڈاکٹر نور احمد نور صاحب پروفیسر آف میڈیسن نشتر میڈیکل کالج ملتان، کی نماز پر تحقیق پیش ہے۔
نماز تہجد کا فائدہ
مایوسی یعنی ڈیپریشن(Depression)کے امراض کا علاج مغربی ڈاکٹروں نے ایک اور دریافت کیا ہے۔ یہ بات مجھے خیبر میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات نے بتائی۔ مغربی ممالک کے ڈاکٹروں نے دیکھا کہ جو مسلمان تہجد کے وقت جاگتے ہیںانہیں مایوسی کا مرض نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ تہجد کے وقت جاگنا، مایوسی کے مرض کا علاج ہے۔ علم نفسیات (Psychology)کے ماہرین نے مایوسی کے مریضوں پر یہ تجربہ کیا۔ انہوں نے مایوسی کے مریضوں کو تہجد کے وقت جگانا شروع کیا۔ یہ مریض جاگ کر کچھ پڑھ لیتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔ یہ معمول جب کئی مہینے تک مسلسل جاری رکھا گیا تو مایوسی کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوا اوروہ دواﺅں کے بغیر ٹھیک ہو گئے۔ چنانچہ اس مغربی ڈاکٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آدھی رات کے بعد جاگنا مایوسی کے مریضوں کا علاج ہے۔
میں نے عبقری رسالے کے مضمون ”دکھی خط“میں پڑھا ہے کہ کوئی بہن یا بھائی یا کوئی شخص بہت ہی سخت مشکل میں گرفتار ہے اس کی پوری داستان لکھی جاتی ہے۔ آخر میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ کوئی صاحب اس کے حل کے بارے میں بتائے۔ تو آج میں آپ کو ان تمام بھائی بہنوں کی مشکلات کا حل بتاتا ہوں اس پر عمل کرکے دیکھیں پھردیکھئے کہ کس طرح رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے‘مشکلات کے بادل چھٹتے ہیں مگر اس عمل کی مداوت نہایت ضروری ہے ‘ کیونکہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی مشکل اگر 6 سال کی لکھی ہے تو جب آپ اس عمل کو کریں گے تو رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے کبھی فوراً مشکل حل ہوجاتی ہے کبھی کسی مصلحت کے تحت دیر ہوتی تو دیر کی وجہ سے تنگ آکر یا جھنجھلا کر عمل کو بند نہ کریں کیونکہ شیطان بہت کوشش کرتا ہے آپ کو طرح طرح سے بہکائے گا کہ اتنا عرصہ ہوگیا مشکل حل نہیں ہوتی مگر آپ شیطان کی بات بالکل نہ مانیں بلکہ اور زیادہ عمل میں لگ جائیں انشاءاللہ دکھ و تکلیف کے بادل چھٹ جائیں گے بعد میں دفع ہوجائیں گی۔ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ۔
وہ عمل ہے (تہجد کی نماز)
میں ایک صاحب کی سچی کہانی انہی کی زبانی آپ کو بتاتا ہوں۔ میں ایک عرصے سے بیروزگار تھا۔ نوکری اور روزگار کیلئے جگہ جگہ دھکے کھاتا رہا مگر ہرطرف سے جواب نہ میں آتا۔ کبھی کبھی میں خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا۔ میری والدہ نے میرے انتہائی منع کرنے کے باوجود میری شادی کردی‘ میری والدہ کا کہنا تھا کہ تمہاری شادی کے بعد تمہاری روزگار کی پریشانی ختم ہوجائیگی اور آنیوالی دلہن اپنی تقدیر اور اپنا رزق ساتھ لائیگی۔ ایک مخلص دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کسی شپنگ ایجنٹ کے ذریعے باہر چلے جائو اور جہاز پر تنخواہ بھی اچھی ہوتی ہے اور ملک ملک کی سیر مفت میں ملے گی۔ میں اپنی بیوی کا زیور بیچ کر ایک شپنگ ایجنٹ کو بیس ہزار کی رقم دیدی یہ تقریباً 1980 کا سال تھا اس وقت میں حیدرآباد میں رہتا تھا شپنگ ایجنٹ کا دفتر کراچی میں واقع تھا جس کی وجہ سے مجھے بار بار کراچی جانا پڑتا چونکہ میرے سسرال کراچی میں تھے اور مجبوراً وہاںرہنا پڑتا تھا مجھے وہاں رہتے بڑی شرم آتی تھی۔ دوسری مصیبت یہ تھی کہ میرے سسر کو مجھ سے خدا واسطے کا بیر تھا وہ شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کی بیٹی کو میں بھوکا ماررہا ہوں۔ میں اپنے سسر سے چھپ کر مجبوراً سسرال میں رہتا تھا۔ میں جب بھی ایجنٹ کے پاس جاتا تو وہ دوسرے دن آنے کو کہتا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ ایک دفعہ رمضان کا مہینہ تھا میں سسرال میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایجنٹ وعدہ پر وعدہ کررہا تھا آفس کے باہر لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا‘ لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھی لوگ بڑے بڑے لوگوں کی سفارشیں لے کرآتے تھے روزانہ لوگوںکی فلائٹ ہوتی تھی مگر میں کس کی سفارش لاتا؟ ایجنٹ کی بڑی منتیں کرتا مگر وہ منہ نہیں لگاتا تھا زیادہ ضد کرتا تو کہتا کہ تم سے پہلے کئی لوگ موجود ہیں ان کے بعد تمہارا نمبر آئیگا۔ ایک دن میں ذہنی طور پر بہت زیادہ پریشان تھا میں نے رات کو اپنی بیوی کو اٹھا کر اس سے جائے نماز اور قرآن لے کر مکان کی چھت پر چڑھ گیا رات کو چھت پر ہوکا عالم تھا‘ اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا اور ایک جگہ جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔
تہجد کی نماز پڑھی پھر 2رکعت صلوٰة الحاجت پڑھی اور قرآن سر پر رکھ کر اپنے رب سے دعا مانگنے لگا۔ میرا دل بھر آیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کہ (اے میرے رب میں کہاں جائوں تیرے علاوہ کوئی اور سنتا بھی نہیں‘ میں روزگار سے بے انتہا پریشان ہوں اے میرے رب اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میرے کام کو بنادے اور مجھے جلد سے جلد باہر ملک جہاز پر نوکری لگوادے) بس رو رو کر میری ہچکی بندھ گئی پھر میں سجدے میں گرگیا اور کافی دیر تک دعائیں مانگتا رہا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور عید میں تقریباً پندرہ دن باقی تھے میں روزانہ رات کو چھت پر چڑھ جاتا تہجد پڑھتا اور اپنے رب سے دعا مانگتا رہتا۔ میں بے انتہا روتا اور گڑگڑاتا رہتا۔ ابھی عید کے آنے میں تقریباً چھ دن رہ گئے تھے میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے عید سے پہلے پاکستان سے باہر نکال دے مجھے نوکری عطا کردے۔ میں بہت دلبرداشتہ ہورہا تھا۔ اتنی دعائیںاور تہجد پڑھنے کے باوجود دعا کی قبولیت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ ہر دفعہ شپنگ ایجنٹ ٹکا سا جواب دیدیتا ایک دن اتوار کو میں نے اپنے ایک دوست سے ایجنٹ کے دفتر چلنے کو کہا تو میرا دوست حیرت سے بولا کہ بھائی آج اتوار ہے اور اتوار کو تمام دفتر بند ہوتے ہیں مگر اپنے دوست سے بضد رہا۔ میرے زور دینے پر اپنے دوست کے ساتھ ایجنٹ کے دفتر پہنچا۔ دفتر کے باہر چوکیدار نے ہمیں روک لیا میں نے چوکیدار سے کہا ہمیں دفتر میں جانا ہے تو وہ بولا کہ آج دفتر بند ہے۔ میں نے کہا کہ دفتر میں کوئی تو ہوگا مجھے اس سے ملنا ہے مگر چوکیدار بھی کوئی ضدی بندہ تھا اس نے ہمیں دفتر میں جانے نہیں دیا۔ میں واپس جانے ہی والا تھا کہ چوکیدار بولا اندر افتخار صاحب ہیں جائو اس سے مل لو۔ بس میں فوراً دفتر میں داخل ہوا اندر افتخار صاحب (کلرک) بیٹھے ہوئے تھے سلام وغیرہ کے بعد میں نے اپنے باہر جانے اور نوکری کے بارے میں پوچھا وہ بولے کہ ابھی تو مہینوں بعد تمہارا نمبر آئیگا کیونکہ تم سے پہلے کئی لوگ انتظار میں بیٹھے ہیں میرا دل ایک دم دھک سے رہ گیا کہ یاالٰہی !میں تو بڑی امید لے کر آیا تھا میں ٹوٹے ہوئے دل سے واپس ہونے لگا کہ اچانک افتخار صاحب بولے کہ بھائی تمہارا نام کیا ہے میں نے اپنا نام بتایا تو فوراً انہوں نے اپنے رجسٹر کو کھولا اور اس کے اندر سے پاسپورٹ اور فلائٹ کا ٹکٹ نکالا اور چہک کر بولے ارے یہ تو تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ ہے میں تمہارا ہی تو انتظار کررہا ہوں۔ آج رات کی آپ کی فلائٹ ہے جرمنی کی۔ میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا کہ میرے کام کا دور دور تک پتا نہیں تھا نہ ہی سوچ تھی اتوار کو آفس بند ہوتا ہے میں ہی ضد کرکے یہاں پر آیا اور ناممکن کام ممکن ہوگیا۔ بس یہ تہجد ہی کی برکت تھی کہ میرے پیارے رب نے میری فریاد سن لی اور میں کامیاب ہوگیا۔ اسی رات میں فلائٹ میں بیٹھ کر باہر روانہ ہوگیا اور اللہ نے میری قسمت کھول دی
درس ہدایت (حکیم طارق محمود چغتائی عبقری مجذوبی چغتائی)
(ہفتہ وار درس سے اقتباس)
نفل و عبادات میں مجاہدہ یا مشقت کا اجر
تہجد کے وقت عبادت کے لیے اٹھنا مشقت طلب امر ہے۔ تہجد کے نفل مشقت والے ہیں لیکن اشراق کے نفل مشقت والے نہیں ہیں۔ تہجد کے نفل کم از کم دو اور زیا دہ سے زیادہ جتنے مرضی ادا کرتے جا ﺅ۔ بعد کے دوسرے نفل ہیں۔ تہجد اور اشراق کے نفل اجر کے لحاظ سے برابر ہیں؟ جس عمل میں جتنا مجا ہد ہ ہو گا، جتنی قربانی ہو گی۔ جتنی خواہشات اور جتنی ضروریات اور جتنی اندر کی کیفیا ت ٹوٹے گی۔ یا د رکھنا اس عمل پر اتنا ہی اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہا ں اصل قربانی ہے ، مجاہدہ اور ایمان بنانے میں ، قربانی دینے میں سب سے پہلی چیز ہے کہ ایمان بنانا ہے۔ ایمان بچانا ہے اوربچا کر حفاظت سے قبر تک ساتھ لے جا نا ہے۔ یا د رکھنا پیسہ کو شش سے نہیں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کو شش سے پیسہ مل جا تا ہے۔ جب پیسہ آجاتا ہے پھر اس کی حفا ظت بھی لازمی ہے اس کو سنبھالنا بھی ضروری ہوتا ہے اور یا د رکھنا جس کے پا س زیادہ پیسہ ، مال و دولت آجا تا ہے۔ اس کی نیند کم ہو جا تی ہے۔ یہ مال کا خاصہ ہے۔ چاہے ایمان کا مال ہو ، چاہے دنیا کا مال ہو۔ نیند کم ہو جا تی ہے۔ امید ہے آپ سمجھ رہے ہوں گے ہرن ہے نا ” مشکی ہر ن “ ، ” آہو مشکی “ چشم غزالی ، چشم غزال۔ آہو کہتے ہیں ہرن کو ، غزال کہتے ہیں ہر ن کو۔ اس سے نکلی ہے غزل اور غزل ہرن کی اس چیخ کو کہتے ہیں جب شکاری اس کو پہلا تیر ما رتا ہے اور اس کے اندر سے دل گداز ، پر سوز ایک آہ سی نکلتی ہے اس کو غزل کہتے ہیں یہ جو ہر ن ہوتا ہے جس کے اندر مشک ( کستوری ) ہوتا ہے۔ کستوری بہت مہنگی ہو تی ہے۔ قریباًبیس ہزار روپے تولہ ہے۔ یہ کستوری جب ہر ن کے اندر آتی ہے۔ اس کے نا ف کے اند رہو تی ہے۔ جسے نا فہ کہتے ہیں۔ یہ سال میں ایک دفعہ آتی ہے۔ تو ہرن کو پتہ چل جا تا ہے۔ کہ میرے پا س ایک نہا یت قیمتی چیز آگئی ہے ا ور شکاریوں کو بھی پتہ چل جا تاہے کہ یہ کستوری کا موسم ہے اور وہ تاک میں رہتے ہیں شکار کر نے کے۔
ایمان قیمتی متاع، حفاظت لازمی
جیسے ہم یہا ں آتے ہیں تو شیطان ہمارا شکار ی ہے۔ وہ جا ل ڈالتا ہے کسی کو نیند کا ،کسی کووہ جا ل ڈالتا ہے کہ وہ درس کی کوئی بات اس کے اندر نہ پڑے۔ یہا ں سب مشقت کر کے کا روبار زندگی چھوڑ کر آیا ہے۔ اس کو نیند کا غلبہ ڈال دیا۔ کسی کا جسم یہا ں ہے تو دل حاضر نہیں ہے۔ ایک دفعہ ایک صاحب میر سامنے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا السلام علیکم !انہیں ایک دم جھٹکا لگا بے توجہی اور غفلت میں تھے۔ میں نے پو چھا سچ بتاﺅ کہاں بیٹھے تھے؟ کہنے لگے دہلی دروازے تانگے پربیٹھا تھا ! جسم یہا ں مو جو د ہے تو روح کی تیز پرواز کہاں سے کہاں لئے پھر تی ہے اور یہ شیطان کی کار ستانی ہے کہ وہ کہاں سے کہاں کھینچ کر لے جا تاہے۔ کہنے لگے بڑی مشقت کر کے یہا ں آیا تھا کہ ایمان و اعمال کی بات سنو ں گا۔ شیطان نے کہا، کوئی بات نہیں۔ آیا ہے تو پھربیٹھنے نہیں دوں گا۔ اگربیٹھ گیا ہے تو توجہ نہیں کرنے دو ں گا۔ اگر تو جہ بھی کرنی ہے تو یا تو نیند ڈال دوں گا یا ادھر ادھر مشغول کر دو ں گا تاکہ یہا ں سے کچھ لیکر نہ جا ئے۔ تو جب ہر ن کے اندر مشک آتاہے تو اس کی نیند کم ہوجاتی ہے وہ ہمہ وقت چو کس رہتا ہے۔ سوتا نہیں ہے کھڑے کھڑے اپنی نیند پور ی کر لیتا ہے ہر آہٹپر لرز جا تا ہے چوکنا ہو جا تاہے اس کو ہر وقت مشک والی نا ف کا غم اور فکر ہوتا ہے کہ شکاری کہیں شکار نہ کر لے۔ قیمتی متا ع بھی جائے اور جان بھی جائے۔
مومن کے اندر جب ایمان آتا ہے اور مو من کے اندر جب اللہ کی محبت آتی ہے اور مومن کے اندر تقوی آتا ہے۔ پھر مومن بھی چوکنا ہو جا تاہے کہ کوئی شکاری لو ٹ نہ لے۔ کہیں مجھے نظر وں سے شکار نہ کر لیاجائے۔ کہیں کا نو ں سے شکار نہ کر لیا جائے ہا تھو ں سے شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ نیند کی غفلت کا شکار نہ ہو جاﺅ ں۔ کہیں گنا ہوں کا شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ یہی فکر اسے ہر لمحہ اسے بے چین رکھتی ہے۔ کسی بزرگ نے شیطان کو دیکھا کہ پھٹے پرانے جال لئے پھر رہا ہے۔ کہنے لگا ارے یہ پھٹے پرانے جا ل کہاں ہیں؟ کہا ان لو گو ں کو تلا ش کر رہا ہوں جوان جا لو ں کو توڑ کر نکل بھا گ گئے تھے اور وہ کیا سمجھتے ہیں کہ میں انہیں چھوڑ دو ں گا؟ میں انہیں نہیں چھوڑوں گا؟ اگر میرے ساتھ فیصلہ جہنم کا ہو اہے تو ان سب کو ساتھ لیکر جاﺅں گا۔ یہ پرانے جا ل کیو ں کہتے ہو وہ نئے جا ل لا یا یا پرانے شکا ری اسی طر ح کہتے ہیں۔ میرے دوستوبزرگو ! ایمان بچانا ہے اور قبرمیں ساتھ لیکر جا نا ہے ایمان مومن کی سب سے قیمتی متا ع ہے۔
مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں
ایمان کیسے آئے گا۔ ایمان کا پتہ کیسے چلے گا میں مومن ہوں ، کیسے پتہ چلے گا۔ اپنے دن رات کی مصروفیا ت کو دیکھ کر مومن کا پتہ چل جا تاہے۔ شیشے میں سب کچھ نظر آتاہے کہ نہیں۔ آئینہ میں اپنی شکل نظر آتی ہے یا کسی اور کی تو مومن کا آئینہ کیا ہے؟ مومن کاآئینہ نما زہے۔ مو من کا آئینہ خلوت ، تنہا ئیاں ہیں۔ تنہائیوں میں مجھے رب کتنا یا د ہوتا ہے اور سب کتنا یا د ہوتے ہیں۔ مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں۔ جب میں تنہا ئیو ں میں ہوتا ہوں اس وقت اللہ پا ک جل شانہ کے ساتھ میرا کیا معاملہ ہوتاہے اور اس اللہ کے ساتھ کیا ہوتا ہوں۔ اب تو شریف ہو گیا ہوں اس وقت بد معاش ہوتا ہوں؟ اب تو شریف ہو گیا ہوں۔ اس وقت خبیث ہوتا ہوں؟ اب رحمان کا بندہ ہوں کیا اس وقت کہیں شیطان کا بندہ تو نہیں ہوتا (تنہائیوں میں )ایمان تنہا ئیو ں میں گناہوں سے بچا تا ہے ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کی محبت کو لا تا ہے۔ ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کے تعلق کو لا تاہے۔ اور چلتے چلتے انسان کے ایمان میں کمی نہیں آتی اور چلتے چلتے انسان کا ایمان بڑھتا ہے اور جب انسان راہ عمل پر چل رہا ہوتاہے۔ ایمان کم ہو رہا یا زیادہ ہو رہا ہوتاہے۔
قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
دو رکعت نفل صلوة الحاجت پڑھیں سلام کے بعد اسی حالت میں کسی سے گفتگو کیے بغیر 3 بار درود ابراہیمی 3 بار سورة یٰسین اور پھر 3 بار درود ابراہیمی ضرور پڑھیں اور نہایت خشوع توجہ دھیان سے اللہ تعالیٰ سے اپنے مسائل اورمشکلات کیلئے دعا کریں یہ عمل کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے اگر تہجد کے وقت کرلیں تو بہتر ہے یہ عمل دن میں کئی بار بھی کیا جاسکتا ہے۔
تمام قارئین کو اجازت ہے آپ کسی اور کو بھی بتا سکتے ہیں۔ ایک نہایت متقی صالح درویش کی خدمت سے یہ عمل حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا مسئلہ چاہے کسی بھی قسم کا ہو دنیاوی ہویا کسی شخص سے کاروبار کا ہو اولاد کا ہو یا رشتوں کا تمام مسائل کے لیے یہ نفل پڑھنے کو بتائے۔ آخر میں یہ فرمایا کہ ایک ہی بار پڑھنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا ورنہ 3 دن یہ نفل پڑھ لیں اور اگر ساری زندگی کا معمول بنالیں تو حیرت انگیز فوائد اور برکات آنکھوں سے دیکھیں گے۔ قارئین! ایک شخص اپنی مشکل لے کر آیا کہ بیماری سے عاجز آگیا کوئی علاج نہیں چھوڑا تھا اور خوب پرہیز کیے لیکن افاقہ نہ ہوا کہنے لگاعلاج کرتے کرتے اب دوائی اور معالج کے نام سے الرجی ہے حتیٰ کہ اگر دوائی کے اشتہاری سے گولی یا کیپسول کی آواز سنتے ہی غصہ آجاتا ہے۔ اس کے مطابق تمام حکیم ڈاکٹر فراڈ ہیں سب جھوٹے اور دھوکے باز ہیں۔
کسی کے پاس کوئی دوائی نہیں میرا کوئی علاج نہیں کرسکتا یقینا وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا تھا اور گالیاں دیتا تھا۔ میں نے اس مریض کو دیکھا بھی نہیں بلکہ میں نے تو ایک دوسرے مریض کو بتایا تھا اللہ تعالیٰ نے اس مبارک عمل کی برکت سے اسے شفاءعطا فرمائی تو اس نے دوسروں کو بتایا ۔یہ مریض اس کے فلیٹ سے اوپر کی منزل پر رہتا تھا۔اس نے اسے بھی بتایا اس نے یہ نفل پڑھنے شروع کردئیے ایک دن ملا کہ میں پہلے سے اتنا تندرست ہوں کہ بتا نہیں سکتا وہ کم ازکم 1/2 گھنٹے اپنی صحت کی داستان بیان کرتا رہا پھر ایک بار مجھے ملنے آیا تو ایک رومال میں ادویات کی گٹھڑی باندھی ہوئی تھی وہ دکھا کر کہنے لگا ایسی کئی گٹھڑیاں نوٹوں کی خرچ کرچکا ہوں واقعی یہ عمل لاجواب ہے یہ شخص دراصل ڈاکیہ تھا اب اسنے ایک لاجواب کام کیا جہاں بھی جاتا کسی کو کسی بھی قسم کی مشکل میں مبتلاءدیکھتا تو فوراً اسے نفل کی ترکیب بتادیتا چونکہ نفل آسان اور بالکل تھوڑے وقت میں پڑھے جاتے ہیں۔
اس لیے ہر شخص آسانی سے پڑھ لیتا پھر یہ شخص ہرپڑھنے والے کے پاس وقتاً فوقتاً جاتا رہتا اور اسے یقین توجہ اور دھیان جما جما کر پڑھنے کی ترغیب دیتا رہتا پھر اس عمل سے جن جن لوگوں کے مسائل حل ہوئے اس نے ان لوگوں کے نام مسائل بمع ایڈریس لکھنا شروع کیے‘ یہ ڈاکیہ اب تک اپنے مشن میں لگا ہوا ہے میرے خیال میں یہ مبارک اور نفع بخش کاروبار ہے۔
ایک دائی میرے پاس اکثر عورتوں کے امراض کا مشورہ کرنے آتی ہے میںاسے رجوع الی اللہ کی ترغیب دیتا ہوں وہ دوسری عورتوں کواعمال پر لگائے رکھتی ہے کیونکہ مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی چاہت پورا کرنے سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی چاہت کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیںایسے اعمال دئیے ہیں جنہیں کرکے ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی مرادیں اور مشکلات حل کراسکتے ہیں۔ اس دائی کو میں نے یہ نفل سمجھا دئیے چونکہ وہ تجربہ کار پرانی خاتون ہے اور سلیقہ مند بھی ہے۔ اس نے میری بات کو لیا اور خواتین کو یہ نفل بتانے شروع کیے دائی نے بتایا کہ بہت سی خواتین کی اولاد نہیں تھی وہ علاج کرکے تھک گئی تھیں کئی خواتین بیرون ملک بھی علاج کرواکے آئیں لیکن ناکام رہیں آخر کار انہوں نے یہ نفل توجہ اور اعتماد سے پڑھنے شروع کیے اللہ تعالیٰ نے اولاد عطاءفرمائی۔ دائی نے مزید بتایا کہ اکثر گھروں میں ناچاقی تھی میاں بیوی کے آپس میں لڑائی جھگڑے اور حاسدین کی نظر تھی جب سے خواتین نے یہ نفل شروع کیے حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے کئی گھروں کے مسائل تھے کہ اولاد نافرمان ہے یا اولاد بے روزگار ہے یا کسی بیماری میں مبتلا ءہے یا ایسے لوگ جن کی اولاد کی شادیاں نہیں ہورہیں ان تمام کو یہ عمل بتایا گیا اللہ تعالیٰ نے نہایت کریمی فرمائی کچھ عرصہ مستقل مزاجی سے یہ نفل اپنے معمول میں رکھیں بلکہ جو مایوس لوگ ہر قسم کی کوشش کرکے تھک گئے ان کیلئے یہ نوافل امید کی آخری کرن ہیںکچھ عرصہ کم 40 دن حد 90 دن یہ نفل پڑھیں اگر کسی کو سورة یٰسین یاد ہو تو نفل صلوٰة حاجت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة یٰسین ملا کر پڑھ لیں اگر یاد نہیں تو کوئی بھی سورة ملا کر نفل پڑھ سکتے ہیں۔
آپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہیاپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہے
میرے گاﺅں کے ایک ڈاکئے حاجی عبدالحمید کے مرشد مولانا فقیر اللہ صاحب کبھی کبھی وہاں تشریف لاتے تھے جو کہ شریعت کے پابند تھے۔ پانچ وقت کی نماز با جماعت کے علاوہ تہجد گزار تھے۔ پردہ کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے درخواست کی کہ حضرت ! مجھے کوئی ایسا وظیفہ عطا فرمائیں کہ اسے پڑھوں اور میری کلاس کے تمام بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوں اور اعزازی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے مجھے ایک دعا لکھ دی اور فرمایا کہ اس دعا کے اول و آخر درود پاک پڑھنا ہے۔ دعا کو سات دفعہ پڑھنا ہے اور آخری دفعہ آخرمیں ”وَ بَارِک وَسَلِّم “ کا اضافہ بھی کرنا ہے‘ دعا یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرِ قَلبِی بِعِلمِکَ وََاستَعمِل بَدَ نِی بِطَا عَتِک۔ میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ کلاس کے بچے یہ دعا پڑھنے کے بعد کلاس ورک شروع کرتے اور برکات کا نزول ہوتا رہا۔ 100% رزلٹ کے علاوہ اعزازی پوزیشنیں بھی آتی رہیں اور دیکھنے والے حیران رہ جاتے ۔ میں خود بھی دعا پڑھ کر کلاس کو کام شروع کراتا۔ میں نے تجربہ کیا ہے کہ وہ بچے جو اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام روزانہ پڑھتے ہیں۔ اس میں ناغہ نہیں کرتے ‘انہیں بہت جلد علم حاصل ہوتا ہے۔ میں خود سابقہ 38 سالوں سے متواتر اور بلا ناغہ ان مبارک ناموں کو پڑھ رہا ہوں اور ان کے فیض سے دل و دماغ کو روشن پا رہا ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭
میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول وریام والا‘ تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ میں بطور پرنسپل کام کرتا رہا ہوں۔ وہاں میں نے اگست 1993 تا فروری 2002 ءکام کیا ہے۔ اس دوران میں نے جھنگ صدر میں ایک مکان خریدا تاکہ شہر میں کبھی رہنا پڑے تو کسی کے ہاں محتاج نہ ہوں۔ ایک روز بندہ وریام والا سے جھنگ صدر آیا۔ مکان پر چونکہ کوئی رہائش پذیر نہ تھا اور نہ ہی کرایہ پر دیا تھا‘ مکان کھول کر اپنے سامان کو چیک کرنے لگا کہ کہیں دیمک وغیرہ نہ لگی ہو‘ غلطی سے اپنے مین دروازہ کو اندر سے کنڈی لگانا بھول گیا۔ دروازہ ویسے ہی بند تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ 18‘ 19 سالہ ایک نوجوان لڑکی اندر داخل ہو گئی اور ایک کمرے میں بیٹھ کر اس نے میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ اس سے نہ میری جان نہ پہچان‘ نہ اس نے اندر آنے کی اجازت لی اور نہ ہی اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ میراامتحان شروع ہو گیا۔ عجیب و غریب خیالات آنے شروع ہو گئے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک اور کمرے میں بند کر دیا اور دعا مانگنی شروع کی کہ اللہ پاک اسے یہاں سے لے جا اور میری خلاصی ہو۔ خیال آیا کہ ممکن ہے کوئی سازش ہو اور مجھے پکڑانے کا کوئی منصوبہ ہو۔ شیطان وسوسہ ڈالتا کہ شکار تیرے گھر آیا ہے دیر نہ کر ‘ پھر میں سوچتا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو تھوڑی سی لذت کے بدلے عمر بھر یہ گناہ میرے ساتھ ہو گا۔
ایک گھنٹہ کے بعد میں نے ہمت کی کہ چپکے سے کمرے سے نکل کر دیکھا وہ چلی گئی ہے یا نہیں۔ باہر نکل کر ساتھ والے کمرے میںجھانکا وہ زمین پر کپڑا پھیلا کر ایسے بیٹھی ہے گویا کسی کے انتظار میں ہے اور خوب میک اپ کیا ہوا ہے۔ میں دبے پاﺅں اپنے کمرے میں گیا اندر سے دوبارہ کنڈی لگا لی۔ اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا مانگنی شروع کی کہ یا اللہ! مجھے اس امتحان سے بچا۔ امتحان لمبا ہوتا گیا ‘ دوبارہ جھانکا مگر وہ موجود‘ پھر کمرے میں آکر دعاکی پھر باہر نکل کر دیکھا تو وہ بڑے انتظار کے بعد باہر چلی گئی۔ میری زندگی میں میرے لئے یہ بہت بڑا امتحان تھا۔
سمندری فیصل آباد
٭٭٭٭٭٭
1983-84 میں بندہ گورنمنٹ ڈگری کالج سمندری فیصل آباد میں بطور لیکچرار اسلامیات کام کرتا رہا ہے۔ وہاں ہفتے میں تین دن میری اور تین دن پروفیسر اے نذر محمد صاحب کی ڈیوٹی تھی کہ اسمبلی میں درس قرآن دیں۔ ایک دن میں نے ڈاڑھی کی شرعی اہمیت کے بارے میں درس دیا۔ اس کے تمام پہلوﺅں پر روشنی ڈالی۔ جب میں نے کہا کہ ڈاڑھی کا منڈوانا اللہ من الزنا ہے کیونکہ زنا کا فعل عارضی ہے لیکن آدمی ڈاڑھی منڈواتا ہے اور نماز پڑھتا ہے‘ ڈاڑھی منڈواتا ہے اور ذکر کرتا ہے۔ ڈاڑھی منڈواتا ہے اور روزہ رکھتا ہے۔ ڈاڑھی منڈواتا ہے اور حج کرتا ہے گویا یہ فعل اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ڈاڑھی منڈوانے کا مطلب ہے اسے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی صورت پسند نہیں۔ شعبہ فزکس کے ایک پروفیسر صاحب یہ ساری باتیں سن رہے تھے۔ درس کے بعد مجھے لیبارٹری میں لے گئے اور خوب برا بھلا کہا کہ ڈاڑھی رکھنے سے ثواب ہے اور منڈوانے سے کوئی گناہ نہیں۔ پھر وہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی بے تکی مثالیں پیش کرنے لگ گیا۔ میں نے اسے کہا کہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ یا قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نہیں ہیں۔ وہ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ان کا از حد احترام ہے۔ ان کے احسانات بھلائے نہیں جا سکتے مگر وہ ہمارے لئے نمونہ نہیں۔ اس نے ایک نہ سنی اور خوب بے عزتی کی۔ میری رہائش ہاسٹل کے ایک کمرے میں تھی۔ رات کو میں نے اکیلے رونا شروع کر دیا کہ یا اللہ ! میں نے بات تو سچی کی ہے مگر میری بے عزتی کیوں کی گئی ہے۔ بار بار اللہ تعالیٰ سے عرض کی یااللہ! میں نے بات سچی کی ہے مگر مجھے اس قدر ذلیل کیوں کیا گیا۔ دوسری رات پھر اللہ تعالیٰ سے میر ایہ مکالمہ ‘ تیسری رات پھر یہی حالت۔
تیسری رات خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینہ مبارک سے لگایا ہوا ہے اور میری تشفی فرما رہے ہیں۔ میں آنسوﺅں سے شرابور کہ میں کہاں اور یہ مقام کہاں۔ جن کی خاطر دنیا‘ زمین‘ آسمان پیدا کئے گئے ہیں ‘ اس ہستی نے مجھے اپنے سینہ مبارک سے لگایا ہوا ہے۔ جب نیند کھلی تو واقعی میرے آنسوﺅں کی لڑی جاری تھی۔ خیال آیا کہ میں نے کوئی مار نہیں کھائی صرف زبان سے پروفیسر صاحب نے میری بے عزتی کی تھی‘ وہ حضرات جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنے جسم کے ٹکڑے کروائے‘ جلاوطنی اختیار کی‘ ہجرت کی‘ مال اولاد اللہ کی راہ میں قربان کئے‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ا ن کا کتنا مقام ہوگا اور کتنے انعامات سے وہ مالا مال ہو ں گے۔
جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کی وفات ہوئی کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا۔ ایک بڑے میدان میں جنازہ پڑھنے کیلئے لایا گیا۔ ایک مخلوق جنازہ پڑھنے کیلئے نکل پڑی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو جہاں تک نگاہ جاتی تھی وہاں تک نظر آتا تھا.... یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی طرح یہ مجمع ہے۔ جب جنازہ پڑھانے کا وقت آیا ایک آدمی بڑھا۔ کہتا ہے کہ....! میں وصی ہوں یعنی مجھے حضرت رحمة اللہ علیہ نے وصیت کی تھی۔ میں اس مجمع تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمع خاموش ہوگیا‘ وصیت کیا تھی خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ نے یہ وصیت (مرنے سے پہلے کی خاص نصیحت اور خواہش) کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔ پہلی خوبی یہ کہ زندگی میں س کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو یعنی نماز شروع کرتے وقت جب امام صاحب تکبیر اول کہیں تو وہ شخص اسی وقت نماز میں شامل ہو۔ دوسری شرط اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔ تیسری بات یہ کہ اس نے غیرمحرم پر کبھی بھی بری نظرنہ ڈالی ہو۔ چوتھی بات یہ کہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی فرض نماز سے پہلے کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے۔ جب یہ بات کی گئی تو مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ یعنی سناٹا چھا گیا‘ لوگوں کے سر جھک گئے کون ہے جو قدم آگے بڑھائے کافی دیر گزر گئی حتیٰ کہ ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آیا جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ آپ خود تو فوت ہوگئے مجھے رسوا کردیا اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھائی میرے اندر یہ چاروں خوبیاں اللہ کے حکم اور فضل سے موجود ہیں۔ لوگوں نے دیکھا یہ وقت کا بادشاہ شمس الدین التمش تھا۔ اگر بادشاہی کرنے والے دینی زندگی گزار سکتے ہیں تو کیا ہم دکان کرنے والے یا دفتر میں جانے والے ایسی زندگی نہیں گزار سکتے؟ اللہ رب العزت ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پیارے بچو! اس واقعہ سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ انسان جب کسی نیک کام کا ارادہ اور عزم کرلیتا ہے تو اس کیلئے اللہ رب العزت تمام راستے کھول دیتے ہیں‘ پھر نہ بادشاہی رکاوٹ بنتی ہے نہ دکانداری اور نہ پڑھائی وغیرہ اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انسان کو صرف اللہ کی رضا کیلئے تمام کام کرنے چاہئیں۔اپنے نیک کام مخلوق کو بتلاتا نہ پھرے اس صورت میں وہ نیک کام بجائے اجرو ثواب کے گناہ کا سبب بنتے ہیں۔ جیسے اس دیندار سلطان نے اب مجبوری میں یہ راز کھولا.... اس سے پہلے کسی سے خود اپنی ان اچھی باتوںکا تذکرہ تک نہ کیا تھا۔ہاں ہمارے نہ چاہتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور حکمت سے لوگوں میں عزت اور چرچا دے دے تو یہ دوسری بات ہے مگر ہمارا کام یہ ہے کہ پھر بھی ڈرتے رہیں۔
دودھ کیوں خراب ہوتا ہے؟؟؟
انور کا منہ پھولاہوا تھا اس کے سکول کے ساتھی حیران تھے کہ اسے آج کیا ہوا؟ سکول میں پڑھائی کے دوران تو کوئی اس سے کچھ پوچھ نہ سکا لیکن جوں ہی تفریح کا وقفہ ہوا ‘ دوستوں نے اسے گھیر لیا۔”لگتا ہے‘ آج گھر میں خوب خاطرہوئی ہے جب ہی منہ پھولا ہوا ہے۔“انور نے کوئی جواب نہ دیا ‘ ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔دیکھو دوست! یوں جان نہ چھوٹے گی ہوا کیا‘ یہ بتائو؟ ہاں اور کیا صبح سے منہ بند ہے مجال ہے جو تم نے کسی سے ایک بات بھی کی ہو........؟جب تک بتائو گے نہیں‘ ہم یہیں کھڑے رہیں گے‘ یہاں تک کہ تفریح کا وقت ختم ہوجائے گا۔اچھابابابتاتا ہوں‘ بات کوئی خاص نہیں‘ رات کو سونے سے پہلے امی جان نے کہا ”باورچی خانے میں دودھ رکھا ہے اٹھا کر فریج میں رکھ دو‘ ورنہ خراب ہوجائے گا۔“
میں نے ان سے کہہ دیا: جی اچھا! امی جان“ لیکن دودھ فریج میں رکھنا بھول گیا‘ صبح امی جان نے اٹھ کر دیکھا تو دودھ کا برتن جوں کا توں باورچی خانے میں رکھا تھااور تم جانتے ہو آج کل گرمی کا موسم ہے بس دودھ پھٹ گیا‘ امی جان کو غصہ آگیا‘ انہوں نے صبح دو چار سنا دیں اور ایک دو تھپڑ بھی رسید کردئیے‘ بس اس وقت سے میں جھلایا ہوا ہوں‘ پتا نہیں! دودھ کو کیا ہے‘ اس کو فریج میں نہ رکھا جائے تو آخر یہ پھٹ کیوں جاتا ہے ‘ تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے‘ دودھ کیوں پھٹ جاتا ہے؟
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ اندر کلاس میں استاذ صاحب ان کی باتیں سن رہے تھے انہوں نے پکار کر کہا:
بھئی ادھر آجائو ‘ میں بتا دیتا ہوں دودھ کیوں پھٹ جاتا ہے؟
وہ سب چونک اٹھے اور پھر کمرے میں داخل ہوگئے جب سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تب انہوں نے کہا: ”یہ ہم سب کے ساتھ ہوتا رہتا ہے جہاںکوئی چیز فریج میں رکھنا بھولے اور خراب ہوئی۔معاملہ دراصل یہ ہے کہ جب ہم دودھ اور دوسری چیزوں کو 10 سے 15 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر رکھتے ہیں تو ان میں بیکٹیریا کی نشوونما نہیں ہوتی‘ لہٰذا دودھ اور دوسری چیزیں خراب ہونے سے محفوظ رہتی ہیں‘ جب کہ باورچی خانے میں جب ہم کوئی چیز بھول جاتے ہیں تو وہاں درجہ حرارت اتنا کم نہیں ہوتا اور ہوا میں بیکٹیریا بھی موجود ہوتے ہیں وہ دودھ اور دوسری چیزوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہاں ان کی نشوونما جاری رہتی ہے اس طرح دودھ پھٹ جاتا ہے اور آپ لوگوں کو امی ابو کی ڈانٹ کھانا پڑتی ہے۔
لیکن جناب ہم نے سنا تھا کہ بیکٹیریا ہمارے دوست ہیں“ فاروق نے پوچھا۔ ہاں....! یہ بات بھی ٹھیک ہے کچھ بیکٹیریا ہمارے دوست ہیں کچھ دشمن۔ بیکٹیریا ہمیں ‘ ہمارے جانوروں اور پودوں کو بیمار کردیتے ہیں۔ اسی طرح بعض بیکٹیریا ہمارے کھانے پینے کی چیزوں کو خراب کردیتے ہیں‘ اسی طرح آپ نے دیکھا ہوگا کہ گرمیوں میں سالن جلند خراب ہوجاتے ہیں جبکہ سردیوں میں ایک دو دن تک خراب نہیں ہوتے‘ اس لیے کہ سردی کے موسم میں درجہ حرارت کم ہوتا ہے کم درجہ حرارت بیکٹیریا کی نشوونما کیلئے مناسب نہیں‘ استاذ صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے‘ اب پوری کلاس یہ بات جان چکی تھی کہ دودھ کیوں پھٹ جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صدقہ کی کرامات ()
دنیا کے اکثر ممالک میں بے روزگاری کے سیلاب سے جو اثرات پوری دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اس کا اثر ہمارے ملک پاکستان پر بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک دنیا کی ہر قوم پر کسی نہ کسی وجہ سے اپنی ناراضگی کا اظہار اسی طرح کے عذا ب اور آزمائش سے کیا ہے۔ مگر اپنے ان نیک بندوں پر نہیں جو ایسے وقت میںنماز اور صبر سے کام لیتے ہیں اور صدقہ سے آنے والی بلاﺅں کا رخ موڑتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ہے کہ مشکل وقت میں نماز اور صبر سے کام لو۔ سورة العصر کا خلاصہ بھی یہی نوید دیتا ہے کہ جس نے اللہ پر بھروسہ کیا اور صبر کیا وہ خسارے والوں میں سے نہیں۔
میرا بیٹا تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی کئی مہینوں سے روزگار کی تلاش میں تھا۔ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش میں لگا ہوا تھا ‘ ادھر میں ایک ماں کی حیثیت سے صرف اللہ سے دعا کر سکتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دل میں ناامیدی کا بوجھ بڑھنے لگا جو صرف شیطان کا پیدا کیا ہوا تھا۔ پھر ایک دن خیال آیا کہ اللہ نے تو انسان کے علاوہ تمام مخلوقات‘ بے زبان جانور‘ چرند‘ پرند سب کی روزی اپنے ذمہ لی ہے ‘جو شروع سے لیکر قیامت تک جاری رہے گی۔ اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ غیر مسلموں کو بھی روزی دیتا ہے۔ اللہ نے ان پر ہوا‘ پانی بند نہیں کیا۔ جب کہ وہ شرک کرتے ہیں اور اللہ اور اس کی نعمتوں کو جانتے تک نہیں۔ پھر ہم تو اشرف المخلوقات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ پھر یہ ناممکن ہے کہ وہ ہمارے حال سے بے خبر ہو۔ اس کے بعد سے میرے دل میں سکون اور صبر کا احساس ہوااور عبادت کے طریقہ کو اپنا معمول بنانے کی کوشش کی جو مندرجہ ذیل لکھے ہیں۔ پابندی سے تہجد کی نماز کی ادائیگی‘ جو حاجت ہو سجدے میں دعا کریں سُبحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمدِہ سُبحَانَ اللّٰہِ العَظِیمِ کی تسبیح پڑھیں۔
فجر کی نماز کے بعد قرآن پڑھیں چاہے جتنا پڑھیں مگر ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ تھوڑا تھوڑا جتنا میسر ہو ‘پڑھیں۔ فجر کے وقت قرآن پڑھنے سے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ نماز خضوع و خشوع کے ساتھ پڑھیں۔ ہر آیت کے ترجمہ پر غور کریں‘ نماز حاضر دماغ کے ساتھ پڑھیں۔ ہم اللہ کو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ توہم کو دیکھتا ہے۔ ہر دعا کے اول و آخر میں تین تین بار درود شریف پڑھیں ۔ ہر دعا یا تسبیح کے مطلب کو توجہ سے پڑھیں۔ اللہ ہر بندے کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ اس لئے اپنے دل کی بات اللہ سے اس طرح کریں جیسے آپ اپنے بہت ہی ہم درد اور اور ہمراز انسان سے کرتے ہیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ دیں‘ صدقہ بلاﺅں کو ٹالتا ہے۔ اس کے بعد اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دو تین دن کے بعد ہی ملازمت کی خوشخبری ملی‘ شکرانے کے نفل ادا کئے اور درود شریف کی تسبیح پڑھی۔ (خورشید بانو ‘ کراچی)
دنیا کے اکثر ممالک میں بے روزگاری کے سیلاب سے جو اثرات پوری دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اس کا اثر ہمارے ملک پاکستان پر بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک دنیا کی ہر قوم پر کسی نہ کسی وجہ سے اپنی ناراضگی کا اظہار اسی طرح کے عذا ب اور آزمائش سے کیا ہے۔ مگر اپنے ان نیک بندوں پر نہیں جو ایسے وقت میںنماز اور صبر سے کام لیتے ہیں اور صدقہ سے آنے والی بلاﺅں کا رخ موڑتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ہے کہ مشکل وقت میں نماز اور صبر سے کام لو۔ سورة العصر کا خلاصہ بھی یہی نوید دیتا ہے کہ جس نے اللہ پر بھروسہ کیا اور صبر کیا وہ خسارے والوں میں سے نہیں۔
میرا بیٹا تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی کئی مہینوں سے روزگار کی تلاش میں تھا۔ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش میں لگا ہوا تھا ‘ ادھر میں ایک ماں کی حیثیت سے صرف اللہ سے دعا کر سکتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دل میں ناامیدی کا بوجھ بڑھنے لگا جو صرف شیطان کا پیدا کیا ہوا تھا۔ پھر ایک دن خیال آیا کہ اللہ نے تو انسان کے علاوہ تمام مخلوقات‘ بے زبان جانور‘ چرند‘ پرند سب کی روزی اپنے ذمہ لی ہے ‘جو شروع سے لیکر قیامت تک جاری رہے گی۔ اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ غیر مسلموں کو بھی روزی دیتا ہے۔ اللہ نے ان پر ہوا‘ پانی بند نہیں کیا۔ جب کہ وہ شرک کرتے ہیں اور اللہ اور اس کی نعمتوں کو جانتے تک نہیں۔ پھر ہم تو اشرف المخلوقات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ پھر یہ ناممکن ہے کہ وہ ہمارے حال سے بے خبر ہو۔ اس کے بعد سے میرے دل میں سکون اور صبر کا احساس ہوااور عبادت کے طریقہ کو اپنا معمول بنانے کی کوشش کی جو مندرجہ ذیل لکھے ہیں۔ پابندی سے تہجد کی نماز کی ادائیگی‘ جو حاجت ہو سجدے میں دعا کریں سُبحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمدِہ سُبحَانَ اللّٰہِ العَظِیمِ کی تسبیح پڑھیں۔
فجر کی نماز کے بعد قرآن پڑھیں چاہے جتنا پڑھیں مگر ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ تھوڑا تھوڑا جتنا میسر ہو ‘پڑھیں۔ فجر کے وقت قرآن پڑھنے سے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ نماز خضوع و خشوع کے ساتھ پڑھیں۔ ہر آیت کے ترجمہ پر غور کریں‘ نماز حاضر دماغ کے ساتھ پڑھیں۔ ہم اللہ کو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ توہم کو دیکھتا ہے۔ ہر دعا کے اول و آخر میں تین تین بار درود شریف پڑھیں ۔ ہر دعا یا تسبیح کے مطلب کو توجہ سے پڑھیں۔ اللہ ہر بندے کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ اس لئے اپنے دل کی بات اللہ سے اس طرح کریں جیسے آپ اپنے بہت ہی ہم درد اور اور ہمراز انسان سے کرتے ہیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ دیں‘ صدقہ بلاﺅں کو ٹالتا ہے۔ اس کے بعد اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دو تین دن کے بعد ہی ملازمت کی خوشخبری ملی‘ شکرانے کے نفل ادا کئے اور درود شریف کی تسبیح پڑھی
بے گمان رزق پایئے
بے گمان رزق پایئے
بے گمان رزق پایئے
کیا عجیب روایت ہے کہ جس شخص کے عمل سے پہلے اور عمل کے بعد بھی استغفار ہو‘ توبہ ہو ،ندامت ہو تو اللہ جل شانہ اس کے درمیان جو کچھ ہے اس کو قبول فرما لیتے ہیں اور اس کو بخش دیتے ہیں ۔ کثرتِ استغفار سے جہاں گنا ہو ں کی معا فی ہے وہا ں دنیا کے مسائل کا بھی حل ہے ۔ ابنِ عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص استغفار میں لگا رہے، اللہ جل شانہ اس کے لیے ہر دشواری سے نکلنے کا را ستہ بنا دیتے ہیں۔ ہر فکر کو اس سے ہٹا کر کشا دگی فرما دیتے ہیں اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرما تے ہیں جہا ں سے اس کا گمان اور دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کا تصور بھی نہیں ہو تا۔ پھر سنیں فرمایا کہ جو شخص استغفار میں لگا رہے گا اللہ جل شانہ اسکے لیے ہر دشواری سے نکلنے کا را ستہ بنا دیتے ہیں اور ہر فکر کو ہٹا کر اللہ جل شانہ اس کے لیے کشا دگی فرمائیں گے۔ اس کے لیے راہیں کھو ل دیں گے۔ جو استغفار کر تا ہے‘ ندامت کرتا‘ اللہ جل شانہ اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فر ما تے ہیں جہاں سے اس کا دھیان بھی نہیں ہو تااور اس کا گما ن بھی نہیں ہوتا۔ سوچیں تو سہی ہمیں کتنا استغفار کرنا چاہیے۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے تا بعی تھے۔ ولیو ں کے ولی تھے۔ وقت کے قطب‘ ابدال تھے۔ اللہ کے نیک بندے تھے۔ حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنہا اُم المومنین کا د ودھ پیا تھا اور سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کا دور پا یا اور چھوٹے ہونے کی وجہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیںکی تھی۔ اس لیے تا بعی تھے۔ کسی نے قحط سالی اوربارش نہ ہونے کی شکا یت کی، فرمایا استغفار کرو۔ ایک دوسرا بندہ آیا اس نے تنگ دستی کی شکا یت کی کہ پیسے نہیں،کا رو بار برباد ، ہر چیز ختم۔ فرمایا استغفار کرو، تیسرا آدمی آیا کہنے لگا میری اولا د ہی نہیں ہے کہ اللہ نے نعمتیں دی ہیں مگر اولاد ہی نہیں ہے میں چاہتا ہو ں کہ میرا کوئی وارث ہو تو فرمایا استغفار کر و۔ چو تھا آدمی آیا اُس نے کہا میری زمین کی پیداوار میں کمی ہے فصل صحیح نہیں ہو تی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا استغفار کرو ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مریدین بیٹھے تھے۔ انہو ں نے کہا شیخ آج ہم نے دیکھا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پا س چار آدمی آئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ہر کسی کو استغفار کے لیے فرمایا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ” وہ تم پر با رش بھیجے گا ۔ تمہا رے مال، اولاد میں تر قی دیگا ۔تمہا رے لیے با غ بنائے گااور تمہارے لیے نہریں جا ری فرمائے گا ۔“وہ چا ر چیزیں جن کو فرمایا اس آیت میں ان چیزوں کا وعدہ ہے ۔اس لیے کہتے ہیں جس کے بیٹا نہیں وہ استغفار کثرت سے کرے۔ جس کی اولاد نافرمان ہے۔ وہ استغفار کثر ت سے کرے کہ الٰہی میرے گناہو ں کے اثرات میری اولاد پر ہیں۔ فرمایا جو عورت حاملہ ہو وہ اللہ سے استغفار اور تو بہ کر تی رہے،اللہ جل شا نہ صالح بیٹا عطا فرمائیں گے ، صالح اولا د عطا فرمائیں گے۔ رزق کی پریشانی، مالی پریشانی، معا شی پریشانی ،مشکلا ت میں گھر ا ہو اہو، مسائل میں گھر ا ہو ا ہو، استغفار کر ے ، ندامت کر ے، گنا ہوں سے بچے۔ جو ہو چکا اس پر معافی مانگے اور آئندہ سے احتیا ط کرے۔ اس پر اللہ جل شانہ اس کے ساتھ کر م، عافیت اور فضل کا معاملہ فرمائیں گے یہ”رَبِّ اغفِر وَارحَم وَاَنتَ خَیرُ الرّٰحِمِینَo (سورہ المومنون آیت نمبر 118 ) یہ استغفار ہے۔”اَللّٰھُمَّ غفِرلِی “۔یہ استغفا ر ہے ۔” نَستَغفِرُ کَ وَنَتُوبُ اِلَیکَ“ یہ استغفار ہے۔” اَستَغفِرُ اللّٰہَ الَّذِی لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالحَیُّ القَیُّومُ وَاَتُوبُ اِلِیہِ “ یہ استغفار ہے۔میرے دوستو آج ضرورت ہے اس چیز کی۔ ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمارا رب نارا ض ہے۔ رب بہت نا را ض ہے ۔ اس کی ناراضگی کی علاما ت یہی ہیں ۔ آج پوری دنیا میں، پورے عالم میں ہنگامے ہیں۔ گھر گھر میں ہنگامے ہیں۔ کاروبار میں ہنگامے، بے چینی، بے قراری اور بے سکونی کا ایک نظام ہے۔کچھ ہے تو پریشان اور نہیں ہے تو پریشان۔کچھ ملا تو پریشان اور چھن گیا تو پریشان۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آج ندامت کی کمی ہے۔ استغفار کی کمی ہے۔ جب بندے کے مزاج میں گڑ گڑاناآتا ہے۔جب بندے کے مزاج میں ندا مت آتی ہے تو اس پر اللہ کو بڑا تر س آتا ہے اورمیرے رب کو اُس پر بڑا رحم آتا ہے۔ میں نے آپ کو مثال دی ہے کہ گھر کاکوئی بڑا یا با دشا ہ یا والد یا کوئی سر دار یا استاد اگر وہ ناراض ہوتو اس کو آپ لاکھ ہدئیے دو لیکن ایک سب سے بڑا ہدیہ ہے کہ معافی مانگ لیں اور معافی بھی ایسی کہ آئندہ نہیں کر و نگا ایسی معافی ۔ جب یہ معافی ہو تو پھر ایک ٹافی دیدو تو وہ بہت بڑی سونے کی ڈلی سے زیا دہ قیمتی ہو گی۔ اگرمعافی نہیں مانگی اور سونے کی ڈلی دو اس کی قیمت ٹافی سے زیا دہ نہیں بڑھے گی ۔
بہترین فائدہ
اللہ جل شانہ نے آج مو قع دیا ہے۔ استغفار کا ایک اور بہترین فائدہ یہ ہے کہ بالفر ض اگر کسی کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں اور اس کی ساری زندگی مشکلات میں،تنگدستی میں،پریشانی میں، مسائل میں، مصائب میں گزری ۔ اب اگر اس نے استغفار کا سلسلہ شروع کر دیا اور گناہو ں سے احتیاط کی اور جو ہو چکے اس پر استغفار کیا۔ تو اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ دنیا کی زندگی تو جیسے تیسے گزر گئی، اللہ اس کو آخر ت کی بر با دی سے بچالیں گے اور یاد رکھیں مو من کے لیے سب سے پہلے آخرت ہے پھر بعد میں دنیا ہے اور اگر یہ آخرت کی بربادی سے بچ گیا تو یقین جانئیے اس سے بڑا کامیاب ہی کوئی نہیں۔ توآج سے میرے دوستو اپنے اندر کی ندامت، اللہ جل شانہ سے گڑگڑانا اور استغفار کرنا‘اس کواپنے ذمے لے لیں۔ جب ہمار ے بڑے بیعت کرتے ہیں توصبح و شام کی تین تسبیحات بتاتے ہیں ایک درود شریف کی تسبیح، (سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانا ت کو سامنے رکھتے ہوئے) ایک تیسرے کلمے کی تسبیح (اللہ جل شانہ کی عظمت کوسامنے رکھتے ہوئے) اور ایک استغفار کی تسبیح (اپنے گناہوں پر ندامت کرتے ہوئے ) اوریہ کم از کم تسبیحات ہیں۔
جب دیکھتا ہوں کوئی کام نہیں بنتا
بے گمان رزق پایئے
جب دیکھتا ہوں کوئی کام نہیں بنتا
اس لئے جب دیکھتا ہوں کوئی کام نہیں بنتا میں نماز نہیں پڑھتا میں نے ان سے عرض کیا کہ نماز تو پڑھنی چاہئے کہنے لگے جی کچھ ملتا ہی نہیں مجھے میں نے کہا آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ غریب ہیں کہنے لگے نہیں میرا مسئلہ نہیں بچوں کا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا ان کے بچوں کے ساتھ یہ وہ تھا ان کے بچوں نے مائوں کے سینے پہ بلک بلک کے جان دے دی تھی۔ غربت کی وجہ سے بھوک اور افلاس کی وجہ سے مائوں کی چھاتیوںمیں دودھ ختم ہو گیاتھا۔ ارے دودھ تو اس وقت آتا جب مائوں کے پیٹوں میں کچھ جاتا، جہاں پونے تین اور اڑھائی سال شعب ابی طالب کے اندر اس گھاٹی کے اندر انہیں محسور کر دیا تھا غربت تنگدستی،اور افلاس نے ان کو گھیر لیاتھا اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ درختوں کے پتے ہی ختم ہو گئے تھے ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںمیںپیشاب کرنے حاجت کرنے جا رہا تھا میرے پائوں پہ ایک چیز لگی میں نے دیکھا کہ ایک سوکھا چمڑا ہے میں نے اس کو آگ لگائی پھر اس کی راکھ کو پھانکا اور اوپر سے پانی پیا پھر رب کعبہ کی قسم کھا کر کہنے لگے اللہ کی قسم کئی دنوں کے بعد یہ پہلی خوراک تھی جو میرے اندر گئی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس سے بھی زیادہ غریب ہے۔ کیا تیرے بچے مائوں کے سینے پہ بلک بلک کر مرگئے ہیں کہنے لگا نہیںتیرے پیٹ پہ پتھرہیںکہنے لگا نہیں تو میں نے کہا پھرانہوں نے تو اللہ کا نام نہیں چھوڑا تھا اللہ کا تعلق نہیں چھوڑا تھا اللہ کی محبت نہیں چھوڑی تھی اللہ کے ساتھ ناطہ نہیںچھوڑا تھا تجھے تھوڑی سی غربت آئی۔ اور غربت بھی نہیں آئی۔ جو غریب کہتے ہیں ناں اگر ان کے سارے گھر کا اسباب بیچ دیا جائے سچی بات کہہ رہا ہوں پانچ سال تک بیٹھ کے کھا سکتے ہیں گھر کا سونا گھر کی چیزیں گھر کے اسباب اگر سارے بیچ دئیے جائیں جو غربت کا آج سب سے زیادہ رونا رو رہا ہے۔ اس کی بات کر رہا ہوں اس لئے کہ میرا سارا دن ایسے لوگوں سے واسطہ ہے۔ ان کی داستانوں کو سنتارہتا ہوں۔گھر کے سارے اسباب بیچ دو اور ایک ایک کپڑا رکھو تن ڈھانپنے کیلئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے پاس تو وہ بھی نہیں تھا۔ اصل میں ایک چیز جو سب سے زیادہ گئی ہے وہ شکر ختم ہو گیا ہے جب شکر ختم ہو جائے تو کل ختم ہو جائے اللہ کی طرف دھیان ختم ہوجائے پھراللہ کہتا ہے۔ ٹھیک ہے جیسے گمان کرتا ہے ویسے معاملہ کروں گا۔ تو نے کہا ہے کہ میں نہیں دیتاتو پھر میں تجھ سے دروازے بند کردیتا ہوں اور قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ عرض کر رہا ہوں جب تک شکر کرو گے میری نعمتیں بڑھتی رہیں گی ۔اور جس دن شکر بند کرلوگے۔ اس دن نعمتیں تجھ سے چھین لوں گا۔ امت میں سے اجتماعی طور پہ دو چیزیں ختم ہو چکی ہیں ایک رجوع اللہ اور توبہ ۔ توبہ ختم ہو چکی ہے یہ امت جس میں یہ طبقہ ہے پچھلی امتوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو عذاب آئے تھے تو عذاب آئے۔ لیکن اس ا مت کا اکثر طبقہ توبہ کرتا تھا عذاب کبھی کبھی آتے تھے۔اس امت کا اکثر طبقہ توبہ کرتا تھا۔اور وہ امت ساری کی ساری توبہ کرنے والی تھی اس امت کا ڈاکو بھی توبہ کرنے والا، چور بھی توبہ کرنے والا، اس کا نمازی بھی توبہ کرنے والا،اس کا تہجد گزار بھی توبہ کرنے والا، اس اک عبادت گزار بھی توبہ کرنے والا، اس کا خطا کار بھی توبہ کرنے والا،آج میرے دوستو اندر سے توبہ نکل گئی ہے۔ اپنے لئے توبہ اور پوری امت کیلئے توبہ کرنا بھول گئے۔یاد رکھنا تو بہ سب سے بڑا عمل ہے۔ اللہ توبہ کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔اور توبہ کرنے والے پر رحمت کے دروزے کھلتے ہیں ۔ خطا کار ہے راتیں سیاہ ہو گئیں دن سیاہ ہو گئے میری صبحتیں سیاہ ہو گئیں میری شامیں سیاہ ہو گئیں لیکن توبڑاکریم ہے بس معاف کر دے آیا ہوں تیرے در پہ پھر نہیں جائوں گا لوٹ کر توبہ ٹوٹ گئی تھی میری اپنی توبہ کا پیالہ اور کہنے لگے ایک مے خانے میں گیا ایک پیالہ دیکھا وہاں میں نے شکستہ پیالے دیکھے شکستہ کہتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیالے کو اب تو مجھے اردو بولنا بھی بڑا عجیب لگتا ہے۔
ایک دن میں نے ایک جوان سے کہا یہ مضمون پڑھو پڑھتے پڑھتے کہنے لگا ایک لفظ نہیں پڑھا گیا میںنے کہا کیا لفظ لکھا ہو اتھا”گنبد خضرا“ میں نے کہا سبحان اللہ۔ جو تعلیم دیں گے وہی پڑھی جائے گی۔ یہ اس جوان کی شامت اعمال نہیں ہے یہ سب کی ہے۔ یہ تو مثال دے رہا ہوں اس سے گنبد خضرا نہیں پڑھا گیا اور بیٹھا میں باتیں کر رہا تھا۔ ایک صاحب تھا اس کا بھائی اس سے کہنے لگا طارق یہ جو لفظ بخاری بار بار کہہ رہا ہے یہ بخاری کیا ہوتا ہے۔اس نے سمجھا شاید جس کو بخار ہو جائے وہ بخاری ہوتا ہے۔ اس نے کہا بھائی ایک امام گزرے ہیں جنہوں نے حدیث کی ایک کتاب لکھی ہے اس کو امام محمد اسماعیل بخاری کہتے ہیں اس کا نام امام بخاری ہے۔ بخاری شریف حدیث کی ایک کتاب کا نام ہے اس نے کہا اچھا اچھا کوئی کتاب ہو گی سلیبس کی۔یا کسی چیز کی ہو گی یہ امت کا اجتماعی میرے دوستو قصور ہے۔ ایک شخص کا نہیں عرض کررہا امت کا اجتماعی قصور ہے توبہ کرنے والے کی برکت سے اللہ دعائوں کو قبول کرلیتا ہے۔ دہلی کے اندر بارش نہیں ہو رہی تھی۔طوائفوں نے سنا کہ بارش نہیں ہو رہی حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں آئیں کہ سنا ہے۔ کہ آپ نماز استسقاءپڑھ رہے ہیں دھوپ میں کھڑے ہو ہو کے نماز یں پڑھ رہے ہیں اور بارش نہیں ہو رہی۔ لگتا یہ ہے کہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے بارش نہیں ہو رہی ہائے میری شامت اعمال ہے جوبارش نہیں ہو رہی ۔ جنگل میں نکل گئیں۔اور جا کے اللہ سے معافی مانگی اور اللہ کے سامنے توبہ کی اور گڑ گڑائیں ایسی توبہ کی جسے توبتہ ة النصوح کہیں گڑ گڑائے اللہ پاک نے بارش بھیجی۔
انگریزی Lemon
انگریزی Lemon
عر بی لیبک /لیبو
فارسی لیبک /لیبو
سندھی لیمو
انگریزی Lemon
اس کا رنگ زرد اور کچے لیمو ں کا رنگ سبز ہو تاہے ۔ اس کا ذائقہ تر ش ہو تاہے ۔ اس میں سٹرک ایسڈ پا یا جا تاہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں ۔ سب سے اعلیٰ قسم کا غذی لیمو ں کی ہے جس کا چھلکا کا غذ کی طر ح پتلا ہو تاہے ۔ اس کا مزاج سرد دوسرے درجے اور تر پہلے درجے ہو تا ہے ۔ اس کی مقدار خوراک چھ ما شہ لیمو ں کا رس ہے جبکہ روغن لیمو ں کی مقدار ایک سے تین قطرے تک ہے ۔ لیمو ں کے بے شما ر فوائد ہیں
لیمو ں کے فوائد
(1) وٹا من بی اور سی اور نمکیا ت کی بہترین ما خذ ہے اس میں وٹا من اے معمولی مقدارمیں پا یا جاتا ہے-
(2 ) اس کا گودا اور رس دونو ں مفید ہو تے ہیں-
(3) یہ مفر ح اور سردی پہنچا تا ہے-
(4 )دافع صفرا ہوتا ہے-
(5 ) بھوک لگا تا ہے اور پیاس کو تسکین دیتا ہے-
(6 ) متلی اور صفرا وی قے کو بے حد مفید ہے-
(7) تا زہ لیمو ں کی سکنجبین بنا کر بخار میں پلا نے سے افا قہ ہوتاہے-
(8) ملیریا بخا ر کی صورت لیمو ں کو نمک اور مر چ سیا ہ لگا کر چو سنا بخا ر کی شد ت کوکم کر تا ہے-
(9 )ہیضہ میں لیمو ں کا رس ایک تولہ ، کا فو رایک رتی ، پیا ز کا ر س ایک تولہ ملا کر دن میں تین یا چار دفعہ استعمال کرنے سے صحت ہو تی ہے(یہ ایک خوراک ہے )
(10) خون کے جو ش کو ٹھیک کر تاہے ۔
(11) معدہ اور جگر کو قوت دیتا ہے اور خاص طور پر جگر کے گرم مواد کا جاذ ب ہے-
(12) لیمو ں کو کاٹ کر اگر چہرے پر ملا جائے تو چھائیا ں اور کیل مہا سے ٹھیک ہو جا تے ہیں-
(13)یر قان میں لیمو ں کے رس کا استعمال بے حد مفید ہے سکنجبین بنا کر دن میں تین بار استعمال کریں-
(14)لیمو ں کے بیج اگر بریا ں کرکے کھا ئے جائیں تو قے اوردستو ں کو فور ی بند کرتے ہیں ۔ لیکن بیجو ں کو ہمیشہ چھیل کر استعمال کرنا چاہیے ۔ بچوں کی قے اور دستو ں میں بھی بے حد مفید ہے ۔ اس کی خورا ک دو سے تین دانو ں کا سفوف ہے-
(15 ) کیڑے مکو ڑو ں کے زہر کے اثر کو لیمو ں کا رس پلا نے اور کا ٹی گئی جگہ پر لگا نا بے حد مفید ہوتاہے اس سے زہر کا اثر دور ہوجا تا ہے-
(16 ) لیمو ں کا سونگھنا نزلہ کو بند کر تا ہے-
(17 ) اگر لیمو ں کے رس کو چاکسومیں حل کر کے جست کے بر تن میں رگڑ کر آنکھو ں میں لگا یا جا ئے تو آشو ب چشم کے لیے بے حد مفید ہے۔
(18 )بینائی کی کمزوری ، آنکھو ں کی سر خی اور دھند وغیر ہ کو دور کرنے کے لیے آب لیموں آدھ پا ﺅ کانسی کے بر تن میںبانس کی لکڑی سے روزانہ چا ر گھنٹے تک رگڑتے رہیں ۔ آٹھویں دن سرمہ کی مانند خشک ہو جائے گا۔ اگر تھوڑی بہت نمی رہ جائےگی تو پھر کم دھو پ میں خشک کر کے بطور سرمہ استعمال کر یں ۔ بہت مفید ہے۔
(19 ) تا زہ لیمو ں کے چھلکو ں سے روغن لیموں تیا ر کیا جا تاہے ۔ جو کہ پیٹ کی گیس میں بے حد مفید ہے-
(20 ) بیرو نی ممالک میں لیمو ں کے چھلکو ں سے مربہ بنا تے ہیں ۔ جس کو ماملیڈ کہتے ہیں ۔ جو بچوں کی پسندیدہ چیز ہے۔
(21 ) لیمو ں کا اچار بڑھی ہوئی تلی کے لیے مفید ہوتا ہے-
(22 ) چا و لو ں کو ابا لتے وقت اگر ایک چمچہ لیمو ں کا رس اس میں نچوڑ دیا جائے توچا ول خوش رنگ اور خوشبو دار بنتے ہیں-
(23) روسٹ اشیا ءپراگر لیمو ں نچوڑ کر کھا یا جا ئے تو کھا نے کا ذائقہ اچھا ہو جا تا ہے اور کھانا بھی جلدی ہضم ہو جاتا ہے-
(24) مچھلی کی بو دور کرنے کے لیے اس پر لیمو ں مل کر رکھنا چاہیے اس سے مچھلی خوش ذائقہ بھی پکتی ہے-
(25 ) لیموں کے چھلکو ں سے دانت صاف کرنے سے کبھی دانت درد کی شکا یت نہیں ہو تی-
(26 ) اگر نکسیر کثرت سے ہو تی ہوتو جس وقت نکسیر ہو رہی تو فوراً لیمو ں کے چند قطرے دونو ںنتھنوں میں لٹا کر ڈالنے سے فوراً بند ہو جا تی ہے اور پھر دو با رہ کبھی نکسیر نہیں ہو تی-
(27 ) وزن کم کرنے کے لیے لیمو ں کا رس دو چمچے، شہد دو چمچے ایک گلا س پانی میں ملا کر صبح نہار منہ پینا بہت مفید ہے۔ دو ہفتے کے مسلسل استعمال سے وزن میں خاصی تبدیلی آجا تی ہے ۔ اگر سر دی کا موسم ہو تو نیم گرم پانی میں شہد اور لیموں حل کر کے پئیں-
(28 ) سر دھو نے کے بعد اگر لیمو ں کا رس ملا کر پانی دوبا رہ با لو ں میں لگا یا جائے اور تولیے سے خشک کر لیا جائے تو بالوںمیں چمک آجا تی ہے-
(29 ) سلا د والی سبزیاں مثلاً پو دینہ وغیرہ اگر مرجھا جائیں تو لیمو ں کا رس ملا پانی ان پر چھڑکنے سے دوبارہ تا زہ ہو جاتی ہے-
(30 )لیمو ں مصفی خون ہے-
(31 ) سو ز ش اور پیشا ب کی تکلیف کو فا ئدہ دیتا ہے-
(32 ) داد کی جلدی بیماری پر اگر لیمو ں کا رس دس گرام ، تلسی کے پتو ں کا ر س دس گرام ملا کر لگانے سے ایک ہفتہ کے اندر درد جڑ سے غائب ہو جا تی ہے-
(33 ) اگر کان بہتے ہو ں تو ایک چٹکی سہا گہ کا سفو ف کا ن میں ڈال کر پھر دو قطرے لیمو ں کے رس کے ڈالے جائیں تو کا ن بہنا بند ہو جائیں گے-
(34 ) لیمو ں کا رس ایک چھٹانک معہ ہم وزن پانی ملا کر دن میں تین دفعہ غرارے کرنے سے منہ کی بد بو فوری طور پر ختم ہو جا تی ہے اگر کسی وجہ سے منہ کی بد بو دور نہ ہو تو پھر فوری طور پر دانتو ں کے ڈاکٹر سے رجو ع کرنا چاہیے اور دانتو ں کی مکمل صفائی کروانی چاہیے-
(35 ) خارش خشک و تر کی صورت میں لیمو ں کا رس پانچ گرام ، عرق گلا ب دس گرام اور چنبیلی کا تیل پندرہ گرام ، تینوںملا کر خارش والی جگہ پر لگانے سے چند ر وز میں افا قہ ہو جا ئے گا-
(36 )درد گر دہ میں لیمو ں کا رس دس گرام ، سہا گہ ایک گرام ، شورہ قلمی ایک گرام اور نو شا در ایک گرام، تینو ں کو لیموں کے رس میں حل کر کے درد کے وقت استعمال کرنے سے فائدہ ہو تاہے-
(37 ) آگر آنکھ کا درد ہو تو نصف لیمو ںپر سندھور چھڑ ک کر اس طر ف کے پیر کے انگوٹھے پر باندھنا ایک روز میں درد کو ختم کر دیتا ہے-
(38 ) لیموں جرا ثیم کا خاتمہ کر تاہے اگر بواسیری مسوں پر لگایا جا ئے تو وہ جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں اور پھوڑے پھنسیو ں پر لگانے سے زخم جلدی مندمل ہو جاتے ہیں-
(39 ) لیمو ں کا رس بیسن میںملا کر چہرے پر لگانے سے داغ ، دھبے دور ہو جا تے ہیں-
(40 ) لیمو ں کا رس بیرونی طور پر جلد کو نرم اور حسین بنا تاہے-
(41 ) بعض دفعہ لیمو ں کے رس کو شہد میں ملا کر چٹانے سے کھانسی ٹھیک ہو جا تی ہے-
(42 )لیمو ں کا تا زہ رس سر سے لیکر پا ﺅ ںتک پو ری جسمانی مشینری کو اوور ہا ل کر تا ہے اور اس کا اعتدال کے ساتھ استعمال صحت و مسرت کا ضامن ہے-
(43 ) اگر دانتو ں سے خون آتا ہو تو ایک عدد لیموں کا رس ، ایک گلا س نیم گرم پانی اور شہد دو بڑے چمچے ملا کر روزانہ غرارے کرنے سے یہ بیماری دور ہو جاتی ہے اس کو پائیوریا کی بیماری بھی کہتے ہیں۔
(44 )گر د ے اور مثانے کی چھوٹی مو ٹی پتھری کو لیمو ں کی سکنجبین نکال دیتی ہے-
(45 )پیٹ ہلکا اور نرم کر تا ہے اور قبض کشا بھی ہو تاہے-
(46 )بعض لوگوں کا خیا ل ہے کہ لیمو ںتیزابیت پیدا کر تا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے بلکہ تیزابی ما دو ں کو خارج کر تا ہے، البتہ بہت زیاد ہ استعمال مناسب نہیں-
(47 )سکروی کی مر ض ( یہ مر ض خون کی خرا بی سے پیدا ہو تا ہے) اس مر ض میں مسوڑھے سو ج جاتے ہیں ، جسم پر سیاہ داغ پڑ جا تے ہیں اور جسم میں مسلسل درد رہتا ہے، لیمو ں کے مسلسل استعمال سے شفا ہو تی ہے-
(48 ) لیمو ںمیں فا سفور س ، فولا د ، پو ٹاشیم اور کیلشیم کی وافر مقدار ہو تی ہے جو انسانی صحت کے لیے ضروری ہے ۔
نوٹ : لیکن ان تمام تر خوبیو ں کے با وجود زیا دہ مقدار میں لیمو ں کا استعمال نقصان دہ ہے، لیموں کا تیز محلول دانتوں کے لیے مضر ہے اور لیمو ں کی زیا دہ تر شی پٹھو ں میں درد کا باعث ہو سکتی ہے ، لہذا اس کا مناسب حد تک یعنی اس کو مقررہ مقدار تک کھا نا ہی مفید ہے ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)