اس بلاگ کا ترجمہ

Sunday, November 17, 2013

نومبر میں تندرست رہنے کے سنہری اصول



صحت کو برقرار رکھنے کیلئے یوں تو ہر موسم میں مختلف اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہمارے پیش نظر چونکہ موسم سرما ہے اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ خواتین کن اصولوں کو اپنا کر اپنی صحت بحال رکھ سکتی ہیں۔ سردیوں کی سب سے زیادہ پیش آنے والی بیماری نزلہ اور زکام ہے جو ذرا سی حرارت میں تبدیلی کے باعث لاحق ہو سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حرارت میں تبدیلی سے بچاجائے۔ سردیوں میں دھند کی وجہ سے فضا نم آلودہو جاتی ہے اور خواتین صبح سویرے گھریلو کام کیلئے حفاظتی تدابیر کے بغیر ہی دن کا آغاز کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ دھویں اور گرد کے ذرات بھی ہوا کو پراگندہ کرتے ہیں اور اس فضاءمیں بچے بھی سانس لیتے ہیں۔ باورچی خانوں اور دوسرے کمروں میں باریک جالیوں کا مناسب انتظام بہرحال کرنا چاہیے۔ سردیوں میں عموماً کمروں کا درجہ حرارت کھلی فضاءکی نسبت بہتر ہوتا ہے جبکہ کمروں سے باہر سردی زیادہ ہوتی ہے۔ سردیوں میں جب خواتین بے احتیاطی سے اپنے کمروں سے باہر نکلتی ہیں تو باہر دو فضاﺅں میں نا مناسب فرق کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں جس میں سر درد ‘جوڑوں کا درد اور نزلہ زکام وغیرہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ پھیپھڑے اس فوری تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں جس سے سانس کی بیماری پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں نمونیہ کی شکایت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ دمہ کے مریضوں کا مرض شدت اختیار کر سکتا ہے۔ بچوں کو صبح سکول کی تیاری کے سلسلے میں بے احتیاطی کی جاتی ہے۔ بچے بستر سے نکلتے ہی باتھ روم میں گھس جاتے ہیں یا بغیر جوتوں اور جرابوں کے چلتے پھرتے ہیں یا پھر انہیں نہلا کر فوری تولیے سے خشک کر کے مناسب لباس نہیں پہنایا جاتا۔شہروں میں خواتین بجلی‘ گیس کے ہیٹروں اور دیہاتوں میں کوئلوں کی انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر کام کاج کرتی ہیں سوئیٹر بُنتی ہیں‘ سبزیاں بناتی ہیں‘ پھر اچانک کسی ضروری کام کے یاد آنے پر درجہ حرارت کی پروا کئے بغیر کھلی فضا میں چلی جاتی ہیں جو صحت کیلئے بے حد مضر ہے یا پھر ننگے پاﺅں گھریلو کام کاج میں لگ جاتی ہیں۔ شال یا سوئیٹر استعمال نہیں کرتی ہیں‘ جس سے ہوا لگ سکتی ہے۔ نامکمل گرم لباس (خواہ آپ کو سردی نہ لگ رہی ہو) آپ کو بیمار کر سکتا ہے۔ جن خواتین کو شدید سردیوں میں بھی گرمی کا احساس ہوتا ہے انہیں اپنا بلڈ پریشر چیک کروانا چاہیے اور بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی صورت میں علاج کروانا ضروری ہے۔
جسمانی صحت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہمیں نامناسب غذاﺅں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے ۔یہ محض مفروضہ ہے کہ چائے اور کافی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بعض خواتین میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ موسم سرما میں گرم تاثیر والی خوراک کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے ‘یہ بات کسی حد تک تو درست ہو سکتی ہے مگر ہر چیز کو اعتدال میں ہی رکھ کر استعمال کرنا صحت کیلئے مفید ہے۔ سردیوں میں اچار سے خاص طور پر پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اچار اور کھٹی چیزیں گلے کی رگوں کو پکڑ لیتی ہیں اور بیمار ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ سبزیوں اور دالوں میں حیاتین کی مقدار کافی ہوتی ہے ‘اس کا زیادہ استعمال صحت کیلئے مفید ہے۔ بعض خواتین اپنے بچوں کو نہلانے اور خود بھی نہانے سے گھبراتی ہیں اور تین چار دن کے بعد صرف سر دھو کر کام چلا لیتی ہیں یہ طریقہ بھی صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سر تو گیلا ہو جاتا ہے جب کہ جسم کا باقی حصہ نم آلود نہیں ہوتا اس تفریق سے جسم کی حرارت یکساں نہیں رہتی۔ صفائی ستھرائی تو ہر موسم میں صحت کیلئے مفید ہے کہ سر دھونے کی بجائے ہفتے میں کم از کم دو تین بار ضرور نہا لیا جائے ۔حالانکہ ماہرین سردیوں میں بھی روزانہ دوپہر کے وقت نہانے کو صحت کی علامت قرار دیتے ہیں۔
بعض خواتین مختلف بیماریوں خصوصاً درد وغیرہ اور نزلہ زکام کا علاج گھر پر ہی کر لیتی ہیں۔ سر درد‘ بخار‘ نزلہ‘ زکام میں عام فروخت ہونے والی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ بھی مناسب نہیں ہے ۔نمونیہ یا اس جیسے دوسرے امراض جو سردی کے موسم میں وباءکی صورت میں پھوٹ سکتے ہیں ‘سے بچنے کیلئے حیاتین (وٹامن) کا استعمال کرتے رہنا مفید ہے۔ تاہم بیماری کی شدت کی صورت میں اپنے معالج کے مشورے کے بغیر کوئی بھی دوائی استعمال کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات گھریلو علاج بیماریوںمیں طوالت پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر گھر پر علاج ضروری کرنا ہے تو نزلہ زکام کیلئے جوشاندہ ہر لحاظ سے فائدہ پہنچاتا ہے اور اس کے کوئی ما بعد اثرات بھی نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ زیتون بہت محفوظ اور صحت بخش غذا ہے ۔اس میں بہت مقوی اجزا ءپائے جاتے ہیں۔ عربوں کے بہت سے کھانوں میں زیتون کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا تیل سلاد اور چٹنیوں میں بھی ڈالتے ہیں جو انہیں خوشبودار بنا دیتا ہے اور ذائقہ بھی دوبالا کر دیتا ہے ۔جبکہ ہمارے ہاں اسے صرف مالش کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ سردیوں میں انڈوں کا استعمال بڑھا دیتے ہیں یا بعض انڈے کا استعمال بالکل نہیں کرتے۔ ایک لاکھ افراد پر ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ روزانہ ایک انڈہ صحت کیلئے نہایت مفید ہے۔بہر حال حد سے زیادہ انڈوں کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ زیادہ سبزیاں یا صرف دالیں استعمال کرنا اور گوشت کا استعمال تر ک کر دینا بھی نقصان دہ ہے۔ انسان فطری طور پر گوشت کھانا پسند کرتا ہے۔ اس طرح سنگتروں‘ مالٹوں کا استعمال بھی اس موسم میں مفید ہے۔ کینیڈا اور برطانیہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق ماہرین نے بتایا کہ اورنج جوس جسم میں ایچ ڈی ایل کوبڑھاتا ہے جو کہ انسان کیلئے مفید ہے۔ خاص طور پر دل کے مریضوں کیلئے تو بہت مفید ہے۔ جسم میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو کنٹرول بھی کرتا ہے۔ بعض لوگ سردیوں میں وٹامنز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامنز کی بہت زیادہ مقدار استعمال کرنے سے صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ وٹامنز کی گولیوں کے استعمال میں کمی لائیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزانہ جتنے وٹامنز کی ضرورت ہوتی ہے صحت مند افراد کو اپنی روزمرہ غذا میں اتنے وٹامنز مل جاتے ہیں ۔ لوگوں کو روزانہ ایسی چیزیں کھانی چاہئیں جن میں قدرتی طور پر وٹامن کی کافی مقدار ہو۔
وٹامن سی سنگترہ‘ مالٹا‘ آلو‘ سٹرابری اور سبزپتوں والی ترکاریوں میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ البتہ بیمار لوگوں کو اپنے معالج کے مشورے سے وٹامنز کی گولیاں استعمال کرنی چائیں یا پھر کمزور افراد کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ روزانہ دو ہزار ملی گرام سے زیادہ وٹامن نہیں لینا چاہیے کیونکہ بہت زیادہ وٹامن سی اسہال کا سبب بن سکتا ہے۔ لوگوں کو وٹامن ای کیلئے مناسب مقدار میں مونگ پھلی ‘ بادام اور خشک میوہ جات استعمال کرنے چاہئیں لیکن گولیوں کی صورت میں وٹامن ای روزانہ ایک ہزار ملی گرام سے زائد نہیںلینا چاہیے۔ گولیوں کی صورت میں بہت زیادہ وٹامن ای لینے سے جسم کے اندر زائد خون بننے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ بعض لوگ سردیوں میں پانی کا استعمال بہت کم کر دیتے ہیں۔ بہت کم افراد کو یہ علم ہوتا ہے کہ جسم پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے ۔پیاس میں انسان کی ذہنی کارکردگی متاثر ہوتی ہے‘ اس لئے سردیوں میں پانی کا استعمال کم یا ترک کر کے خود کو نت نئی بیماریوں سے بچانا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ پانی کے کم استعمال سے خون کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں اور دل کو جسم میں خون پہنچانے کیلئے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اس لئے سردیوںمیں مناسب مقدار میں پانی کااستعمال آپ کی اچھی صحت کیلئے ضروری ہے۔ خاص طور پر جوڑوں کے درد اور بلڈ پریشر کے مریض پانی کا استعمال ترک نہ کریں۔

سردی سے بچنے کے خاص گُر


کچھ خواتین سردی سے بہت الرجک ہوتی ہیں۔ سردی آئی اور ان کے ہاتھ پائوں کی انگلیاں سوج گئیں۔ ہاتھ‘ ٹھنڈے یخ رہتے ہیں۔ پورا سردی کا موسم نزلہ‘ زکام‘ بخار اور دیگر تکالیف میں گزرتا ہے۔ سردی میں گھر سے باہر نکلنا بھی ان کیلئے ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔
سردی لگنے کا عام سبب خون میں فولاد کی کمی ہوتا ہے۔ خون کے خلیات میں کمی آجاتی ہے جس کی وجہ سے پوری مقدار میں خون آکسیجن جذب نہیں کرتا اور جسم گرم نہیں ہوتا۔ جسم کے اندرونی اعضاءکا درجہ حرارت کم ہونے لگتا ہے اس وقت قدرتی طور پر ہمارا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ ہاتھ اور پائوں کے آخری سرے کی رگیں سکڑ کر وہاں سے خون اہم اندرونی اعضاءکی طرف مڑجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھ پائوں سب سے پہلے یخ ہوتے ہیں اور ان کے یخ ہونے سے جسم کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
ہمارے خون میں فولاد کی جب کمی ہوتی ہے تو اس سے چہرہ بھی متاثر ہوتا ہے‘ چہرے کا رنگ پھیکا پڑجاتا ہے۔ نیند کم آتی ہے۔ اس موسم میں مچھلی‘ کلیجی‘ مرغی بغیر چربی کے بڑا گوشت‘ دالیں اور ہرے پتے والی سبزیاں کھانی چاہئیں۔ کینو‘ فروٹر‘ گریپ فروٹ میں وٹامن سی موجود ہوتا ہے۔ یہ وٹامن جسم میں فولاد کی کمی کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خشک میوہ جات کا استعمال ضرور کریں۔ مچھلی ہفتہ میں ایک بار ضرور کھائیں۔ مچھلی کا تیل یا مچھلی کے تیل کے کیپسول بھی آپ کو سردی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ سخت سردی میں آپ گھر سے جب بھی باہر نکلیں کوئی گرم چیز کھا کر جائیں۔ گرم دودھ کے کپ میں ایک چمچ شہد‘ مونگ کی گرم پتلی دال کا سوپ‘ چنوںکا شوربہ‘ ہڈیوں کی یخنی‘ آپ کو سردی سے محفوظ رکھے گی۔ تھوڑی سی ورزش بھی آپ کے جسم کو گرما سکتی ہے۔ ہلکے سوتی موزے گرم جرابوں کے نیچے پہنیں تاکہ پائوں گرم رہیں۔ ایک بھاری موٹے سویٹر سے بہتر دو ہلکے سویٹر ہیں یہ آپ کو سردی سے بچائیں گے۔
آپ موسمی سبزیوں اور پھلوں سے بھی سردی کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ آج کل چقندر‘ پالک‘ ساگ‘ شلجم سستے داموں دستیاب ہیں۔ بڑے گوشت کے ساتھ ہڈیاں ہوتی ہیں آپ ان ہڈیوں کا سوپ بنا سکتی ہیں جو سستے داموں پورے گھر کی ضرورت پوری کرسکتا ہے آپ ایسی چند چیزیں بناکر خود بھی استعمال کریں اور دوسری خواتین کو بھی بتائیے۔

ہڈیوں کا سوپ

ہڈیاں 250 گرام‘ پیاز درمیانہ ایک عدد‘ لہسن درمیانہ چھیل کر ڈالیں‘ نمک حسب ذائقہ‘ گرم مسالا ثابت ایک چاول والا چمچ‘ ادرک ایک چھوٹا ٹکڑا‘ دھنیا پسا ہوا آدھا چائے کا چمچ
ترکیب: ہڈیاں دھو کر اس میں خاصا پانی ڈالیں‘ تیار ہوکر وہ ہڈیوں سے ایک انچ اوپر رہے (اتنا اندازہ کرلیں) پیاز کے چار ٹکڑے کریں اور سب چیزیں چڑھا دیں۔ سوپ پریشر ککر میں اچھا بنتا ہے۔ دیگچی میں بنانا ہو تو اسے دو تین گھنٹے ہلکی آنچ پر پکائیں۔ پانی کم ہوجائے تو اور ڈال لیں۔ اسے گرم گرم پئیں تاکہ آپ کے جسم میں توانائی آئے اور سردی سے محفوظ رہیں۔

ہری سبزی کا سوپ

پالک کاٹا ہوا ایک گٹھی‘ آلو درمیانہ ایک عدد‘ مٹر پوناکپ‘ ہری پیاز ایک عدد‘ ہرا لہسن ایک ایک عدد‘ ہڈیاں 250 گرام‘ ثابت گرم مسالا ایک بڑا چمچ‘ نمک حسب ذائقہ‘ ادرک ایک چھوٹا ٹکڑا۔

ترکیب: 
ہری پیاز‘ ہرا لہسن چھیل کر موٹا موٹا کاٹ لیں۔ آلو کے چار ٹکڑے کرلیں۔ پالک ڈنٹھل کے ساتھ کاٹیں۔ سب چیزوں کو ملا کر پکائیں۔ جب تیار ہوجائیں تو چھلنی میں چھان لیں۔ آپ اس میں ڈبل روٹی کے توس سینک کر ڈال سکتی ہیں اسے سوپ کی طرح سادہ بھی استعمال کرسکتی ہیں۔ بچوں کیلئے اس میں آدھا کپ نوڈلز ابال کر پلاسکتی ہیں۔

چقندر گاجر کا سوپ
ایک عدد بڑا چقندر لے کر پتوں اور ڈنٹھل کے قریب حصے سمیت چوکور ٹکڑے کاٹ لیں‘ ایک بڑی گاجر کے لمبے ٹکڑے کرلیں‘ پیاز ایک عدد‘ لہسن ایک عدد‘ ادرک ایک چھوٹا ٹکڑا‘ گوشت لگی ہوئی ہڈیاں 200گرام‘ بند گوبھی 2پتے‘ نمک حسب ذائقہ‘ گرم مسالا پسا ہوا پونا چائے کا چمچ۔
ترکیب: 
چقندر‘ گاجر‘ بندگوبھی‘ لہسن‘ پیاز‘ ادرک‘ ہڈیاں ڈال کر ہلکی آنچ پر پکائیں۔ تیار ہوجائے تو چھان لیں۔ گرم مسالا چھڑک کر سوپ استعمال کریں۔ یہ سوپ بڑا مقوی اور صحت بخش ہوتا ہے۔ پیشاب کھل کر آتا ہے جسم سے زہریلے مادے خارج ہوجاتے ہیں۔
چقندر کے پتوں میں غذائی اجزا زیادہ ہوتے ہیں۔ پالک سے زیادہ فولاد اور دیگر غذائی اجزاءچقندر کے اوپری حصہ میں پائے جاتے ہیں۔ جن لوگوں کو پتھری کی شکایت ہو انہیں زیادہ مقدار میں چقندر یا اس کے پتے نہیں کھانے چاہئیں اس میں اوگزیلک ایسڈ زیادہ ہوتا ہے۔
سردیوں کے موسم میں چقندر ضرور پکانے چاہئیں۔ چقندر خون کی کمی کو دور کرتا ہے۔ تازہ خون بناتا ہے۔ قبض کو دور کرتا ہے۔ جن خواتین کے چہرے پر کیل مہاسے بہت نکلتے ہوں ان کیلئے مفید ہے۔ گومڑیاں‘ رسولیاں بھی اس سے دور ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ لیوکیمیا جیسے موذی مرض میں کچے چقندر کدوکش کرکے کھانا مفید ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سے پوچھ کر استعمال کریں۔ جن خواتین کو ایام کی خرابی کی شکایت ہو ان کو چقندر کھانے چاہئیں۔
سردیوں میں پائوں کی انگلیاں سوج جاتی ہیں۔ اس کیلئے آپ دو شلجم مع چھلکوں کے کاٹ لیں اور پانی میں خوب ابالیں۔ کسی تسلے یا ٹب میں یہ گرم پانی ڈالیں اس میں تھوڑا سا سادہ پانی ملائیں۔ پونا چمچ نمک ڈالیں اور دس منٹ کیلئے اس پانی میں پائوں ڈال کر بیٹھ جائیں۔ تین چار روز شلجم کے پانی میں پائوں بھگونے سے سوجے ہوئے پائوں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ایڑیاں پھٹ جائیں تب بھی شلجم کے پانی میں پائوں ڈالیں۔
پائوں میں کالے نشان پڑجائیں تو جھانوے سے صاف کرکے شلجم کے ابلے قتلے پائوں پر ملیں۔ شلجم کے پانی میں پائوں بھگوئیں پندرہ منٹ بعد پائوں دھو کر پٹرولیم جیلی یا زیتون کا تیل ملیں۔ پائوں میں چیر یا شگاف گہرے ہوں تو پائوں بھگو کر صاف کرکے ایک چمچ موم بتی کا موم یا سادہ موم 3 چمچ زیتون یا سرسوں کے تیل میں گرم کریں۔ موم پگھل کر تیل میں مل جائے تو ہلکا گرم گرم پائوں کے چیر میں انگلی سے بھردیں۔ سوتی موزے پہنیں۔ دوچار دن ایسا کرنے سے پائوں کے چیر صحیح ہوجائیں گے۔

سب سے بڑا مسئلہ غربت اور جہالت



ایک دیرینہ دوست نے فون کیا کہ بلوچ فوت ہوگیا۔ یکایک جھٹکا لگا کہ پچھلے دنوں تو میرے سامنے بیٹھا اپنے گھریلو مسائل بیان کررہا تھا پھر کیا ہوا ‘ کہا بیٹھے بٹھائے دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہوگیا۔ بس اسی پل میرے خیالات میں وہ نقشہ اور گزری پچھلی زندگی گھومنا شروع ہوگئی۔ بلوچ جوان ہوا گھر میں غربت تنگدستی اور مسائل ہی مسائل تھے بس سب سے بڑا مسئلہ غربت اور جہالت تھا بلکہ غربت سے بھی بڑا مسئلہ جہالت ہے جس نے سب کی شناسائی اور اعلیٰ ڈگری دی معاشرے نے کہا کہ علم ملا یہ فن تو ملا لیکن علم نہ ملا۔ علم تو پیدا کرنے والے اور زندگی میں آنے کے مقصد کو پہچاننے کا نام ہے۔ بلوچ کے پاس نہ دنیا کا فن یعنی علم اور نہ ہی آخرت اور رب شناسی تھی۔ ایک گائوں کا رہنا والا تھا‘ بڑے شہر لاہور کا رخ کیا۔ اندرون شہر کی ایک لڑکی سے آنکھیں چار ہوئیں دونوں دل دے بیٹھے۔ یوں شادی ہوگئی‘ مٹھائی کی دکان پر ملازمت کی پھر خود کاریگر بن گیا۔ یہاں لاہور میں اپنی دکان لگالی۔ بہت کام کیا‘ بہت رقم تھی سب سے پہلا اس علاقے میں ٹیلی فون بلوچ کا لگا جس دور میں بہت مشکل سے ٹیلی فون لگتے تھے بس یہ دولت کی فراوانی اور مال کی زیادتی پھر آخرت کے علم سے بھرپور جہالت یہ سب مل کر بلوچ کو اپنی سیدھی راہوں سے بھٹکا بیٹھی۔ بلوچ کی بیوی غربت میں ساتھی تھی جب ایک ٹوٹی چارپائی گھر میں تھی اور ہر طرف بچے ہی بچے تھے پھر مال و زر نے جگہ پائی تو بلوچ کو جوئے کی لت پڑ گئی۔ میرے ساتھ صبح کی سیر میں ایک جہاں دیدہ عمر رسیدہ بزرگ حاجی محمدافضل صاحب ہوتے ہیں وہ اکثر فرماتے ہیں کہ کھانے پینے والی چیزیں بنانے والوں کو جوئے کی عادت ہوتی ہے چونکہ اس میں آمدن زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے اکثر کھانے پینے والے جوئے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بس یہی کہانی بلوچ کی بھی بن گئی۔ مال کی کمی نہیں‘ دولت بھرپور تھی ہر طرف عروج اور نام تھا۔ محسوس نہ ہوا لیکن برائی آخر برائی ہوتی ہے۔ جوئے کا انجام غربت پریشانی تنگدستی ضرور ہے۔
ہوا یہ کہ بلوچ کو کسی نے مشورہ دیا کہ بیوی کو سیاست میں لے آ‘ اگر یہ کونسلر بن جائے گی تو بڑے بڑے لوگ تیرے گھر میں ووٹ لینے کیلئے چکر لگائیں گے تیری ہر طرف واہ واہ ہوگی‘ بلوچ کے تعلقات تھے‘ بیوی سیاست میں آگئی اور کونسلر بن گئی۔ بلوچ بہت خوش تھا۔ واقعی واہ واہ ہوگئی لیکن جوا اپنا کام دکھاتا گیا کاروبار میں زوال آنا شروع ہوا پھر اس کو سہارا دینے کیلئے سود کا سودا کیا لیکن سود نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ زوال بڑھتا چلا گیا آخر وہی غربت مفلسی جہاں سے زندگی کی ابتدا شروع ہوئی واپس وہیں پہنچی۔ اتنی غربت کے بس قلم اور زبان سے بیان نہ ہوسکے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ بیوی نے جب سیاست کے نام پر گھر سے باہر قدم رکھا نئے چہرے‘ نئی دنیا اور نیا انداز دیکھا بس کسی سے دوستی ہوگئی جس عورت کی بیٹی کی بھی اولاد تھی وہی کسی غیرمرد سے مبتلا گناہ ہوگئی۔ بلوچ پر یہ سچائی کھلی تو میرے پاس آیا‘ کہنے لگا کیا کروں؟ میں نے کہا کہ نرمی اور محبت۔ لیکن اس نے سختی کی بیوی نے ہمیشہ نجات کیلئے تنسیخ نکاح کا دعویٰ کردیا کچھ بچے بیوی کے پاس‘ کچھ بلوچ کے پاس‘ زندگی کی شام یعنی بڑھاپے میں یہ غم بلوچ کو کھاگیا۔ آخر بلوچ سود‘ جوا اور سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا بس بیٹھے بیٹھے دل کو زندگی دے بیٹھا اور فوت ہوگیا۔

عظیم بننے کے لیے عورت کا ساتھ


عظیم بننے کے لیے عورت کا ساتھ

خالق کائنات نے جہاں مجھے مرد بنایا‘ ذہانت‘ قوت‘ محنت‘ برداشت جیسی نعمتوں سے نوازا ۔ صبح جاتا ہوں سارا دن دھوپ‘ گرمی‘ گرد‘ پسینہ‘ شور وغیرہ کو برداشت کرتا ہوں۔ رات کو تھکا ہارا گھر لوٹتا ہوں تو دروازے پر جس مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر تمام تھکن دور‘ پسینہ خشک‘ دل میں ٹھنڈک ‘ سکون اور آرام ملتا ہے وہ میری ماں یا میری بیوی یا میری پیاری بیٹی ہی تو ہوتی ہے۔ میں جب سو کر اٹھتا ہوں تو جلدی میں ہوتا ہوں دکان یا آفس جانا ہوتا ہے۔ صاف ستھرے استری کئے ہوئے کپڑے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘ پانی گرم ہوتا ہے۔ صابن‘ تولیہ (دھلا ہوا) موجود ہے۔ میں نہا کر نکلتا ہوں پہنے ہوئے کپڑے‘ گیلا تولیہ وہیں چھوڑ دیا۔ باہر آکر ناشتہ تیار‘ مزے سے ناشتہ کیا ۔برتن وہیں چھوڑ دئیے۔ بوٹ پالش‘ دوپہر کے کھانے کا باکس تیار۔ یہ جا! وہ جا!۔ اب میرے میلے کپڑے‘ گیلا تولیہ‘ ناشتہ کے برتن کھانے کے برتن‘ میرے نئے کپڑے استری‘ رات کے کھانے کی تیاری‘ سبزی لینا‘ کاٹنا‘ پکانا‘ روٹی کے لئے آٹا گوندھنا‘ روٹی گرمی میں بیٹھ کر پکانا‘ گھر کی صفائی‘ دھلائی‘ جھاڑو وغیرہ‘ گھر کو سنوارنا‘ سجانا‘ خود بھی آپ کیلئے سنورنا سجنا ۔
عبداللہ اور فاطمہ کو ناشتہ کروانا‘اسکول کےلئے تیار کرنا‘ واپسی پر کپڑے بدلوانا‘کھاناکھلانا‘ا سکول کا کام‘ ان کے کپڑے دھونا‘ استری کرنا وغیرہ۔ آپ کے بوڑھے والدین کے کپڑے‘ ان کا پرہیزی کھانا‘ ان کی ادویات و غذا کا خیال رکھنا‘ ان کی چھوٹی موٹی باتوں کو برداشت کرنا‘ اس دوران آپ کے چھوٹے صاحبزادے جو کہ 3,4 ماہ کے ہیں ان کو اپنے تمام کاموں کو سرانجام دیتے ہوئے سنبھالنا‘ اس کی غذااور صحت اور اس سے متعلقہ تمام امورکو مستقل دیکھنا بھی شامل ہے۔ (گھبرائیے نہیں بلکہ خاموشی سے پڑھیے اور اعتراف کرتے جائیے) اس کے علاوہ اگر وہ اپنے ماہانہ ایام میں ہے تو ان تمام کاموں میں کوئی کمی نہیں آتی ہے بلکہ روز ہر چیز وقت پر خوبصورتی کے ساتھ ملتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ آپ کے ہونے والے ولی عہد کو اپنے خون سے سینچ رہی ہے تو تب بھی جناب کے کاموں کو 99% پورا کرنے کی کوشش میں ہے۔
اگر آپ باہر دھوپ میں پسینہ بہاتے ہیںتو وہ سارا دن منے کو گود میں اٹھائے کچن میں ہانڈی روٹی اور کپڑے دھوتی ہے۔ اگر آپ کے ہاتھ منہ کام سے کالے پیلے ہوتے ہیں اور جسم تھک کر چکناچور ہوتا ہے تو وہ بھی صبح 8 بجے سے آپ کے گھر بار کی حفاظت اور تمام تر امور کو مکمل احسن طریقے سے پورا کرتے کرتے تھک چکی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ تھک کر جب گھر آتے ہیں تو آپ کے چہرے سے تھکن عیاں ہوتی ہے بلکہ اس کا اظہار آپ کی کمر پکڑ کر انگڑائیاں لینے سے بھی ظاہر ہو رہا ہوتا ہے مگر اس کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ جو اندر ہی اندر آپ کی تھکاوٹ اور کمزوری کو دور کرچکی ہوتی ہے اب یہ مسکراہٹ چاہے ماں کی ہو آپ کی بیوی کی ہو یا آپ کی پیاری بہن یا بیٹی کی ہو یہ تمام مسکراہٹیں اپنے اپنے رشتہ کے اعتبار سے نہایت پراثراورباعث فرحت ہوتی ہیں۔
کیا میں نے اعتراف کرلیا؟کیا آپ نے اعتراف کرلیا؟
تو آئیے! چھٹی کے دن ہم منے کو سنبھال لیتے ہیں۔ بوڑھے والدین کی دوائی‘ ان کی خدمت‘ کچھ ہم بھی کرلیتے ہیں۔ آج سبزی ہم خرید لاتے ہیں۔ گھر میں آنے جانے والوں کی مہمان نوازی کا کام آج ہم سرانجام دے لیتے ہیں۔ عبداللہ اور فاطمہ کو ہوم ورک کروا دیتے ہیں۔ گھر کو سنوارنے اور سجانے میں اس کا ہاتھ بٹالیتے ہیں۔ اگرآپ یہ کام نہیں بھی کریں گے تب بھی آپ کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آئیگی کیونکہ آج آپ کے گھر بہترین ڈش اور میٹھا آپ کے 3 وقت کے Menu میں شامل ہوگا۔ ارے بھائی صاحب!اب تو اعتراف کرہی لیں۔
اس کاآپ پرحق ہے اگر آپ اس کے مجازی خدا ہیں تو وہ بھی آپ کی مجازی بندگی میں اپنی حیاءاپنی عزت حتیٰ کہ اپنا سب کچھ آپ پر لٹاچکی ہے۔
ارے جناب!اگر آپ کی دعا(بحیثیت باپ ہونے کے) آسمان سے واپس خالی نہیں لوٹتی تو اس کے بھی پاوں تلے جنت ہے ۔
اگر آپ کا رتبہ( بحیثیت باپ) کے بلند ہے توبحیثیت ماں ہونے کے اس کی شان بھی انتہائی بلند وبالا ہے۔ اگر آپ دیندار ہوکر دین گھر لاتے ہیں تو وہ دین گھر کی دہلیز سے گھر کے اندر آپ کی بیوی ماں یا بہن‘ بیٹی پہنچاتی ہے۔ ورنہ آپ اپنی نسل کی خیر منائیں۔ اگر آپ بیٹا بن کر گھر کی تمام ضروریات کی فکر میں سارا دن پھرتے ہیں تو وہ بیٹی بن کر گھر کے تمام امور کو احسن طریقے سے پورا کرنے کی کوشش میں شب وروز مصروف عمل ہے۔اگر آپ بڑا بھائی بن کر ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کی فکر میں ہیں تو وہ بڑی بہن بن کر چھوٹے بہن بھائیوں اور ماں باپ کی خدمت میں ہے اور انکی ضرورتوں کا بڑے احسن انداز سے خیال رکھے ہوئے ہے۔
اگر آپ شوہر بن کر حلال رزق سے تمام گھر کی پرورش‘ ضروریات و خواہشات کو پورا کررہے ہیں تو وہ نیک بیوی بن کر آپ کے حلال مال کو احسن طریقے سے خرچ کرکے آپ کا بہترین امانت دار ساتھی ہونے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے ۔
اگر آپ باپ بن کر بیٹے بیٹیوں کے رشتے کی فکر میں وسائل اکٹھے کررہے ہیں تو وہ بیٹی کی بہترین تربیت کرکے اسے اس قابل بنارہی ہے کہ باپ کی عزت دوسرے گھر میں بنی رہے اور بیٹے کو باپ کی عزت اور مقام اور ادب کی ہمیشہ سے یاد دہانی کروارہی ہے۔ارے صاحب! کون کونسی باتوں میں اس ساتھی کو نظرانداز کریں گے؟
کیا آپ کی جائز لذت و خواہش آپ کے ہمسفر کے بغیر پوری ہوسکتی ہے؟ کیا آپ کی نسل کی بقاءو ارتقاءہمسفر کے بغیر ممکن ہے؟ کیا آپ کا حلال محنت سے کمایا ہوا مال جائز‘ امانتداری کے ساتھ احسن طریقے سے اس کے بغیر خرچ ہوسکتا ہے؟ کیا آپ کی نام نہاد عزت کہ میرا گھر‘ میری بیٹی‘ میری بیوی میری غیرت ہے میرا گھر باپردہ ہے یہ سب باتیں آپ کے ہمسفر کے بغیر ہوسکتی ہیں؟
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو اس بے چینی و گھبراہٹ میں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی و تشفی دی اور آپ کا حوصلہ بلند کیا وہ بھی ایک ہمسفر ‘ ایک عورت ہی تھی۔

بال سنواریئے شخصیت نکھاریئے



  بال سنواریئے شخصیت نکھاریئے   

موسم سرما کی شروعات ہیں۔ سردی جلد ہی نہیں بالوں کی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے اس کے علاوہ بالوں میں آنے والی خشکی‘ دھول اور گرد و غبار سے پیدا ہونے والے مسائل بھی اسی موسم میں شدت اختیار کرجاتے ہیں جس سے بال ناصرف روکھے اور بے جان دکھائی دیتے ہیں بلکہ تیزی سے گرنا بھی شروع ہوجاتے ہیں۔ کچھ خواتین اس موسم میں بالوں کو روزانہ واش نہیں کرتی ہیں جس کی وجہ سے بالوں میں بڑھتی ہوئی خشکی اور گرد و غبار سے پیدا ہونے والی صورتحال کو روزمرہ بنیادوں پر کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ روزانہ واشنگ نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سر اٹھانے لگتے ہیں۔
بلا شبہ سخت سردی اور خشک موسم بالوں کی صحت کو حد درجہ نقصان پہنچاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ موسم کی سختی کا خیال رکھتے ہوئے بالوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ موسم سرما میں کچھ لڑکیاں چہرے اور ہاتھ پیروں کی جلد کو تو سردی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں لیکن بالوں کے معاملے میں بالکل احتیاط نہیں کرتیں حالانکہ جس طرح سرد ہوائیںچہرے کی جلد کو متاثر کرتی ہیں بالکل اسی طرح بالوں کی رنگت کو بھی خراب کردیتی ہیں خاص طور پر ڈائی کئے ہوئے بالوں کی تو بالکل ہی رنگت بدل جاتی ہے اور جس طرح سے آج کل نو عمر لڑکیوں کے بال تیزی سے سفید ہورہے ہیں یا پھر وہ مختلف شیڈز میں ڈائی، ری بونڈنگ، یا سٹریکنگ کروارہی ہیں تو ضروری ہے کہ انہیں سرد اور خشک ہواوں سے محفوظ رکھا جائے تاکہ انکا اصل شیڈ برقرار رہے خاص طور پر برکنڈی اور مہاگنی شیڈز کے بالوں کا رنگ سرد ہواوں میں جلدی اڑ جاتا ہے جبکہ بلیک کلر میں ڈائی کئے گئے بالوں کے رنگ جلدی فیڈ نہیں ہوتے۔(یادرہے کہ بالوں کو ڈائی کرناناصرف بالوں کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ شرعی طور پر بھی نامناسب ہے) سردی اور خشکی کی وجہ سے نارمل بال بھی اس موسم میں خشک ہوجاتے ہیں اس سے بال اترنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ دراصل خشکی آنے سے بالوں کی جلد میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے جس سے وہ جڑوں سے اکھڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ سرکی جلد کازیادہ چکنائی چھوڑنا بھی بالوں کی کمزوری کی علامت ہے اس لئے دن میں تین مرتبہ پانچ منٹ یا سونے سے پہلے روزانہ سو مرتبہ بالوں میں برش کریں۔ یہ ایسا نسخہ ہے جس سے فالتو اور کمزور بال نکل جائیں گے اور صحت مند بالوں کی چمک اور بڑھوتری میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسکا ٹیکسچر بھی بہتر ہوگا۔
شیمپو کے استعمال اور انتخاب کے حوالے سے آپ کو اپنے بالوں کی قسم کا ضرور علم ہونا چاہیے تاکہ اسکے مطابق ہی شیمپو خریدا جاسکے اگر بالوں کی قسم کے برعکس شیمپو منتخب کیا جائے گا تو یقیناً نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔عموماً ہمارے معاشرے میں شیمپو خریدتے وقت اس چیز کا خیال نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ شیمپو خریدتے وقت کبھی بھی کنڈیشنر ملا شیمپو منتخب نہ کریں۔ کیونکہ کنڈیشنر بالوں کی جڑوں کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔ بدقسمتی سے شیمپو بنانے والی کمپنیوں نے ایسے شیمپو متعارف کروائے ہوئے ہیں جس میں دونوں اجزا کو مکس کردیا جاتا ہے اور الگ کنڈیشنر اور الگ شیمپو خریدنے کی بجائے خواتین ایک ہی ایسا شیمپو خرید لیتی ہیں جس میں دونوں موجود ہوں۔ یہ سستا ہوتا ہے اور استعمال میں وقت بھی بچ جاتا ہے مگر یہ سب بالوں کی صحت کیلئے نقصان دہ ہے ہمیشہ کنڈیشنر اور شیمپو الگ الگ خریدیں اور کنڈیشنر کو بالوں کی جڑوں میں بالکل نہ لگنے دیں۔ 
اس سے بال تیزی سے گرنا شروع ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ شیمپو اگر تین ماہ بعد بدل لیا جائے تو بھی بالوں کی صحت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے مگر اس کے لئے بہت احتیاط کرنی چاہیے۔کوشش یہی کریںکہ کیمیکل ملے شیمپو استعمال کرنے کی بجائے مہندی‘ آملہ‘ ریٹھا اور قدرتی جڑی بوٹیوں سے بنے مکسچراستعمال کریںکیونکہ قدرتی اجزاءہر قسم کے بالوں کیلئے فائدہ مند ہوتے ہیں۔بعض خواتین سر میں خشکی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے اینٹی ڈینڈرف شیمپو کا استعمال شروع کرتی ہیں، افاقہ ہوتا ہے تو اسے جاری رکھتی ہیں۔ مگر یہ نہیں کرتیں کہ خشکی کا مسئلہ ختم ہونے پر یہ شیمپو استعمال کرنا چھوڑدیں کیونکہ یہ تو میڈیکیٹڈ ہوتا ہے جس طرح کسی دوائی کو بیماری کے خاتمے کے بعد تک استعمال کرتے رہنا درست نہیں اسی طرح میڈیکیٹڈ شیمپو کا مسلسل استعمال بھی کسی طرح درست نہیں اس سے صحت مند بال بھی ڈسٹرب ہوجاتے ہیں اور گرنا شروع ہوسکتے ہیں اگر خشکی کے دوبارہ ہوجانے کا احتمال ہو تو پھر بھی ٹھیک ہونے کے بعد مسلسل استعمال کے بجائے ہفتے عشرے میں ایک بار کرلیں جبکہ ڈائی کئے ہوئے بالوں کیلئے آفز کلر شیمپو استعمال کریں اس سے بالوں کا رنگ خراب نہیں ہوتا۔ بالوں کی اچھی بڑھوتری کیلئے مہینے میں ایک بار ٹرمنگ کروائیں اس سے دو شاخہ بالوں سے نجات مل جائے گی۔ موسم سرما میں ہفتے میں ایک مرتبہ دودھ کا مساج کریں۔ دودھ فریج کا یعنی ٹھنڈا نہ ہو اور باڈی ٹمپریچر کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اگر ہوسکے تو گھر میں ایلوویرا کا پودا گملے میں لگالیں اور پھر اس کی جیلی کو کپڑے میں باندھ کر سرکی جلد پر رگڑیں۔
بالوں کی خوبصورتی ایسی بڑھے گی کہ سبھی اس کا راز پوچھیں گے۔ شیمپو کرتے وقت کبھی بھی ڈائریکٹ شیمپو سر پر نہ لگائیں اس سے کیمیکلز بالوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ شیمپو کو پہلے تھوڑے سے پانی میں مکس کریں اور پھر انگلیوں کی پوروں کی مدد سے سر کی جلد پر لگائیں۔ بالوں کو دھونے کے بعد گیلے بالوں کو کبھی تولئے سے نہ رگڑیں اور نہ ہی برش یا کنگھی کریں۔ بال سکھانے کیلئے تولیے کا استعمال بہترین ہے لیکن اس کا طریقہ یہ ہے کہ دھونے کے بعد انہیں آرام سے تولیے میں چند منٹ کیلئے نرمی سے لپیٹ دیا جائے۔ 
بعض خواتین سمجھتی ہیں کہ روزانہ بلوڈرائی کرنے سے بالوں کو نقصان پہنچتا ہے یہ درست نہیں کیونکہ ڈرائر بالوں کے اندر موجود نمی کو ختم کرتا ہے جونہی بال خشک ہونے لگیں ڈرائر آف کردیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ویسے تو آج کل اینٹی ہیٹ یا ہیٹ پروٹیکٹر مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔

خاص طاقت کی بحالی



  چھوہارے سے خاص طاقت کی بحالی

عام مشہور میوہ ہے۔ ہر جگہ کریانہ کی دکانوں پر ہر موسم میں دستیاب ہے۔ عربی میں خرمائے یابس‘ تمر‘ فارسی میں خرمائے خشک انگریزی میں Date کے نام سے پکارا جاتا ہے چھوہارہ کی بہت سی اقسام ہیں عام طور پر زرد چھوہارے زیادہ طاقت ور سمجھے جاتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق سب سے اچھا چھوہارہ بصرہ کا ہوتا ہے۔ چھوہارے کو سب بخوبی اچھی طرح جانتے ہیں مگر اس کی قدر نہیں۔ اگر کسی محفل میں کھجور پیش کی جائے تو لوگ خوش ہوکر کھاتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں اگر چھوہارے پیش کیے جائیں تو کچھ لوگ ہاتھ بھی نہیں لگاتے اگر لینے بھی پڑجائیں تو غریب بچوں کو دے دیتے ہیں۔ ہماری طرف اکثر جنازہ پڑھنے کے بعد بچوں اور مسکینوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں پہلے پہلے بہت رواج تھا مگر الحمدللہ کافی کمی ہوگئی ہے۔ اس حقیر میوہ کے چند مجربات پیش خدمت ہیں اس کا مزاج گرم خشک ہے۔
٭چھوہارہ بلغمی امراض کیلئے نہایت فائدہ مفید ہے۔ نزلہ زکام میں دو تین چھوہارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے تھوڑے سے پانی میں بھگو دیں جب پھول جائیں تو بمعہ پانی دیگچی میں ڈال دیں اور ایک پاو کے قریب دودھ ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں جب خوب عرق نکل آئے تو اتار لیں۔ چھوہارے کھا کر نیم گرم دودھ پی کر سوجائیں۔ تین چار دن عمل کریں اس سے دماغی کمزوری بھی دور ہوجائے گی۔
٭سرطان دم میں اسی طریقہ سے استعمال کریں۔ نہایت مفید ہے۔ جن کو یہ شکایت ہو وہ براہ کرم ایک بڑا چمچ شہد ابلے ہوئے ایک پیالہ پانی میں ملا کر دن میںتین چار دفعہ پی لیا کریں۔ خون میں سرخ جراثیم کی کمی کیلئے انتہائی مفید ٹانک ہے۔
٭کمزور خواتین جو سیلان رحم جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوں۔ حمل نہ ٹھہرتا ہو کمر درد‘ لاغر اور کمزور ہوں۔ اس کے استعمال سے صحت یاب ہوجاتی ہیں گرم اغذیہ بند کردیں۔ اس کے چند دن کے استعمال سے عضلات رحم قوی ہوجاتے ہیں۔
٭اس کے استعمال سے کمزوری سے پیدا ہونے والا کمردرد اور پیشاب کی زیادتی جو بوجہ شوگر نہ ہو کیلئے بھی مفید ہے۔ چہرہ پر رونق آجاتی ہے۔
٭کمزور دانتوں کو طاقت دینے کیلئے ایک پاو دودھ میں دس عدد چھوہارے ابال کر کھانا بے حد مفید ہوتاہے۔ اس سے دانت مضبوط ہوتے ہیں اور مسوڑھوں سے خون بہنا رک جاتا ہے۔
٭جوڑوں کے درد اور سوجن کیلئے سات عدد چھوہارے اور سونٹھ پسی ہوئی پانچ ماشے دودھ میں جوش دے کر صبح نہار منہ پینے سے بے حد فائدہ ہوتا ہے۔
٭سات دانے چھوہارے ایک پاو دودھ میں جوش دے کر حاملہ کوپلانا بچے کی پیدائش میں آسانی پیدا کرتا ہے۔
٭بھوک کھل کر لگانے کیلئے چھوہارے کا اچار استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اچار بنانے کی ترکیب یوں ہے کہ چھوہارے ایک پاو ‘ رس لیموں آدھ کلو‘ دار چینی‘ سیاہ مرچ‘ سیاہ زیرہ‘ بڑی الائچی کا دانہ ہر ایک چھ ماشہ پیس کر اچار بنالیں۔ مقدار خوراک ایک تا تین دانہ چھوہارہ۔
٭چھوہارہ ہوا پیدا کرتا ہے اور دیر ہضم بھی ہے اس لیے کمزور معدہ والے احتیاط سے اس کا استعمال کریں۔

کمزور حضرات کیلئے خاص الخاص تحفہ
سفید موٹے چنے دس پندرہ دانے (ہاضمہ کو مدنظر رکھیں۔ اگر معدہ کمزور ہوتو مقدار کم کردیں) دو تین چھوہارے ٹکڑے کرکے آدھ پیالہ پانی میں رات کو بھگودیں۔ صبح چھوہارے کھائیں اور پانی پی لیں۔ بعد میں ایک یا ڈیڑھ پاو دودھ پی لیں۔ قوت باہ میں حیران کن اضافہ ہوگا۔ جسم میں طاقت عود کر آئے گی۔ چہرہ پر سرخی نمودار ہوگی۔
نوٹ: جن حضرات کو جماع کے بعد کمزوری محسوس ہو وہ مہربانی فرما کر ایک پاو دودھ میں ایک بڑاچمچ شہد اور پسی ہوئی دارچینی ایک چھوٹا چمچ ملا کر بعداز جماع پی لیا کریں۔ تمام ضائع شدہ طاقت بحال ہوجائیگی عجیب ٹوٹکہ ہے۔ آزما کر دیکھیں اور حکیم صاحب کے حق میں دعائے خیر کریں۔

صرف مردوں کے لیے جنسی مسائل اور الجھی ازدواجی زندگی





زندگی کی ساری راحتیں اور مسرتیں صحت وتندرستی کے ساتھ ہیں۔ صحت نہیں تو نہ کھانے پینے کا کوئی مزہ نہ سیر و تفر یح کا کوئی لطف۔ نہ عزیزوں اور دوستوں کی انجمن آرائی سے کوئی خوشی اور نہ بیوی بچوں کے درمیان کوئی راحت۔ زندگی اپنی ساری آسائشوں کے باوجود دردِمجسم بن کررہ جاتی ہے۔ کون ہے جو جانتے بوجھتے زندگی بھر کے اس عذاب کو مول لینے کے لیے تیارہو۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں صحیح معنوں میں صحت مند وتندرست لوگوں کاتناسب بہت حقیر ہے۔ ہر طرف زردچہرے پچکے گال اور نحیف ولاغر جسم، زندہ لاشوں کی صورت میں چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔سکون ومسرت کی دولت سے محرومی نے ہر ایک کوزندگی سے بیزار کررکھاہے۔ خصوصیت کے ساتھ عورتوں میں تو سومیں ایک بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہے۔
یہ ایک عظیم قومی مسئلہ ہے لیکن ہمارے یہاں شاید سب سے کم توجہ اگر کسی چیز کی طرف دی گئی ہے تو وہ یہی مسئلہ ہے اور اس کا نتیجہ نہایت خطرناک شکل میں اب ہمارے سامنے آرہاہے۔ گھریلو زندگی کا امن وسکون غارت ہوگیا ہے۔ آمدنی کا ایککثیر حصہ ڈاکٹروں حکیموں کی نذر ہوجاتاہے۔ گھروں میں عورتوں کی بیماری سے گھر کاشیرازہ درہم برہم ہوتاہے۔ بچوں کی دیکھ بھال اورتربیت کی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی اور اولاد ماں کے پیٹ سے ہی طرح طرح کے امراض ساتھ لے کر پیدا ہوتی ہے۔ مردوں کی بیماری گھر کواقتصادی تباہی میں مبتلا کرتی ہے۔ بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتاہے اور بحیثیت مجموعی قومی تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کا مفصل اور ہر جہتی جائزہ لینا تو اُن لوگوں کا کام ہے۔ جوانسانی جسم کی مشینری کی تمام جزئیات پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن پر روزمرہ کے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں ہم جیسے عامی بھی کچھ نہ کچھ رائے قائم کرتے اور اظہار خیال کرسکتے ہیں۔ 
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے روگ محض اس لیے جانوں کو چٹ کر جاتے ہیں کہ لوگ اپنی خوراک اوراپنی جنسی زندگی کے بارے میں بعض نہایت بنیادی معلومات وحقائق سے ناآشنا اور بے بہرہ رہتے ہیں اور لاعلمی وجہالت کے سبب ایسی اعتدالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کہ اُن کی جسمانی مشینری کے سارے کل پُرزے ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ اور وہ اپنی عمر سے بہت بوڑھے ہوکر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ عورتیں گھریلو مُسرت سے حقیقتاً کبھی آشناہی نہیں ہوپاتیں کیونکہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہوتی ہیں جن کی والدین کوخبر بھی نہیں ہونے پاتی اور شادی کے بعد پتہ چلتاہے کہ جس کو صحت مند تصورکیاجاتاتھا اس کی جان کو کیسے کیسے مہلک اورپرانے روگ لگے ہوئے تھے۔لیکن یہ صورت حالات ہمیشہ سے یوں ہی نہیں ہے بلکہ اب سے صرف پچاس ساٹھ سال پہلے حالات بالکل مختلف تھے اس وقت نہ لوگوں کی صحت کا ایسا تباہ حال تھا اور نہ ہر ایک اپنی جان سے بیزار نظر آتاتھا۔ اس وقت خاندانی نظام کی گرفت مضبوط اوربزرگوں کی رہنمائی اور ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی ساری سہولتیں موجود تھیں۔ خاندانی روایات کا پاس واحترام اور حفظ مراتب کالحاظ کیاجاتاتھا۔ گھر کے بڑے بوڑھے اپنی عمر بھر کے تجربات بلکہ پشت ہاپشت سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی نصیحتوں اورہدایات کی روشنی میں گھر کے نظام کو چلاتے تھے اور یہ نظام زندگی کے سارے معاملات پر اس طرح محیط اور حاوی ہوتاتھا کہ گھر کے افراد کے صبح سے شام تک کے ساتھ معمولات ایک قاعدے اور ضابطے کے پابند ہوجاتے تھے۔ اس ضابطہ بندی میں جسمانی ذہنی اور اخلاقی صحت کے سارے بنیادی اصول اور اس سلسلے کی ضروری احتیاطیں اس طرح سمودی جاتی تھیں کہ کسی خارجی امداد کی احتیاج ہی باقی نہ رہتی تھی۔
انقلابات زمانہ کے طفیل آج نہ تو خاندانی نظام کی شیرازہ بندی باقی رہی اور نہ وہ بزرگ ہی رہے جو زندگی کی پر پیچ راہوں میں انتہائی شفقت ورحمت کے ساتھ ہماری رہنمائی اور ہمارے معمولات زندگی کی ضابطہ بندی کرتے تھے۔ نئی پود کو سرے سے گھر کی درس گاہ ہی نصیب نہیں ہوتی۔ مرد سارادن معاش کے کولھو میں بیلوں کی طرح جتے رہتے ہیں اور رات کو جب تھکے ماندے گھر آتے ہیں تو انہیں اپنی سُدھ بُدھ نہیں رہتی۔ عورتیں الگ بیماری اوربچوں کی ریں ریں میں گھر سے بیزار اور موت کی طلبگار رہتی ہیں۔ایسے میں کسی کو بچوں کی طرف نہ توجہ کا موقع نصیب ہوتاہے نہ ذہن اس لائق رہتے ہیں۔ والدین کی اپنی زندگی کسی ضابطہ کی پابند نہیں رہتی تو بچوں کی زندگی میں باقاعدگی کیوں کر پیدا ہو جو جی چاہتا ہے اور جب جی چاہتاہے، کھاتے اور مناسب نگرانی ورہنمائی نہ ہونے کے سبب اُن کی نہ صرف جسمانی صحت تباہ برباد ہوتی ہے بلکہ ذہنی وجنسی صحت بھی بے اعتدالی کی نذر ہوجاتی ہے۔ اور موقع پرست نیم حکیم اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایسے لوگوں کوخوب خوب بیوقوف بناتے اوران کی رہی سہی صحت کو بھی تباہ کرڈالتے ہیں۔
یہ ہے وہ صورت حال جو یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہمارے ارباب فکروفن اس طرف توجہ دیں اور اس خلاءکوپُر کریں جوخاندانی نظام میں انتشار اور بڑے بوڑھوں کے تجربہ ورہنمائی سے محرومی کی وجہ سے پیدا ہو رہاہے۔
اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی کمزوری جنسی مسائل ومعاملات ہیں۔ ایک طرف اخلاقی حدود اوراحترام اورشرم وحیا کی بچی کچھی روایات کااثر یہ ہے کہ ہم دنیا زمانے کے ہرمسئلے پرزبان کھول سکتے ہیں اور قلم اٹھاسکتے ہیں۔ لیکن یہ موضوع ایسا شجر ممنوع ہے کہ اُس کی طرف ادنیٰ سا اشارہ بھی طبائع لطیف پرگراں گزرتاہے۔ اُدھر اسی تصویر کا دوسرارُخ یہ ہے کہ سینما فحش لڑیچر اور روز افزوں عُریانی جذبات جنسی میں بے پناہ اشتعال پیدا کرکے ناقابلِ تصور بے اعتدالیوں اور برائیوں کا دروازہ کھول چکی ہے اورانجان وناتر اشیدہ نئی پودنتائج وعواقب سے بے خبربڑی تیزی کے ساتھ تباہی کے غار کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔
اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم بے جاقسم کی شرم میں پڑے رہیں اورزندگی کے اس ہم پہلو کو راز سربستہ ہی رکھنے پر مصررہیں تاکہ ہم خود بھی اس کارگہ حیات میں ایک رازبن کرتاریخ کے اوراق میں مستور ہوجائیں اوریایہ ہم حالات کے چیلنج کوپورے عزم واعتماد کے ساتھ قبول کریں اور نئی نسل کی اس طرح ذہنی تربیت کریں کہ جنس اس کے لیے راز سربستہ نہ ہو بلکہ زندگی میں بھی وہ اپنے بُرے اور بھلے میں امتیاز کرنے کے قابل ہوجائے اور اُسے یہ معلوم ہو کہ اُسے کن چیزوں کوقبول واختیار کرناچاہیے اور کن چیزوں میں احتیاط واجتناب کی روشنی اختیار کرنی چاہیے۔ ہوسکتاہے کہ بعض لوگ اور احباب کویہ بُری انوکھی سی بات معلوم ہولیکن میرے نزدیک جب قرآن مجید میں انسان کی جنسی زندگی کے بارے میں ضروری پہلو کاذکر آسکتاہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان فیض ترجمان نے ان مسائل کی عقدہ کشائی میں کسی بے جاتکلف سے کام نہیں لیا تو ہمارے لیے کیا اس معاملے میں اُن کااسوہ،مشعل راہ نہیں ہوسکتا۔ اخلاقی ضوابط کاپورا احترام ہوناچاہیے۔ حیااورشرم کوکماحقہ، ملحوظ رکھا جا نا چاہیے۔ لیکن ان معاملات میں ہمیں اپنے لیے من گھڑت قاعدے اورضابطے بنانے صحیح نہیں اور ان مسائل پرہمارے اہل علم وفن قرآن وحدیث کے اسلوب بیان کا ابتاع کرتے ہوئے نئی پود کی تعلیم وتربیت کابڑا کام کرسکتے ہیں۔ یقیناً یہ کام بڑا مشکل ہے اور شاید اسی وجہ سے آج تک اس سے اجتناب وپرہیز بھی کیاگیا ہے لیکن اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ وقت کے چلینج کوقبول کرنا ہی پڑے گا۔ اوران مسائل کو بھی موضوع فکر ونظر بنانا ہی ہوگا۔

چہرے کے بالوں سے یقینی چھٹکارا


نوجوان بچیوں کے چہروں پر با ل عموماً نظر آتے ہیں۔ یہ مسئلہ بہت عام ہو گیا ہے۔ بعض چہروں پر یہ بال نہایت باریک ہو تے ہیں۔ جنہیں ’رواں ‘ کہا جا تا ہے۔ لیکن کچھ خواتین کے چہروں پر کا فی نمایاں ہو تے ہیں۔ عموماً پندرہ سے سولہ سال کی عمر میں یہ بال نکلنے لگتے ہیں۔ ان کے نمودار ہونے کی چند وجوہ درج ذیل ہیں۔ 
1۔ وراثت 
لڑکیوں کا لڑکوں والے طور طریقے اپنانا
ماہانہ نظام کی خرا بی 
یہ بال رواں کی طر ح ہیں، تو ان سے نجا ت پانے کے لیے آدھی چمچی دہی چہرے پر ملئے، اتنی شدت سے کہ رواں خود اترنے لگے۔ اس کے بعد بیسن سے منہ دھو لیجئے۔ اگر بال کالے اور سخت ہیں، تو زیادہ تر خواتین ’تھریڈنگ ‘ کے ذریعے ان سے چھٹکا را پاتی ہیں۔ لیکن اس طریقہ کا ر کی خامی یہ ہے کہ بال جلد دوبارہ نکل آتے ہیں اور عموما ان کی تعداد بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ مزید برآں ویکسنگ بھی ایسے بالوں کا ایک علا ج ہے جو کچھ بہتر ہے کیو نکہ ویکس کرنے کے بعد بال دوبارہ دیر سے نکلتے ہیں اور آہستہ آہستہ بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ 
آپ چاہیں، تو ویکس گھر میں بھی بنا سکتی ہیں۔ اس کی سادہ سی ترکیب یہ ہے کہ گڑ کو آٹے میں ملا کر پگھلا لیں۔ جب آمیزہ ٹھنڈا ہو جائے، تو بالوں پر لگائیں۔ جب بال آمیزے سے اچھی طر ح ڈھک جائیں، تو اس پر سوتی کپڑا چپکا لیں۔ تھوڑی دیر بعد کپڑا کھینچ لیں۔ لیکن خیال رہے کہ کپڑا بالوں کی مخالف سمت کھینچنا ہے۔ بال ساتھ ہی اتر آئیں گے۔ 
پہلے خواتین توری یا کدو کی سبی سے جسم دھوتی تھیں، تو ان کے جسم پر بال نہیں نکلتے تھے کیونکہ سبی رگڑنے سے بال آہستہ آہستہ ختم ہو جا تے ہیں۔ آج کل بال ختم کرنے کے لیے کئی سہو لیات دستیا ب ہیں مگر مسائل بھی اتنے ہی زیا دہ ہیں۔ اس لیے جسم سے رواں ختم کرنے کے لیے سبی کا استعمال ہی بہترین ہے۔ چہرے کو بیسن سے دھویا جائے تب بھی بال آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔ ایک ضروری بات، ویکس کے بعد جہاں سے بال اتارے گئے ہوں، وہاں برف ملئیے تا کہ بالوں کی نشوو نما کم سے کم ہو۔ 
فیشل کرنے سے بھی بال کم ہو تے ہیں لیکن اس کا سامان مہنگا ہے اور عموماً کئی خواتین خریدنہیں سکتیں۔ ان کے لیے میں دیسی فیشیل کا طریقہ لکھ رہی ہوں۔ 
(1) سب سے پہلے چہرے اور ہاتھوں پر بیس منٹ تک لیموں کے عرق کا مساج کیجئے۔ لیکن آنکھوں پر لیموں یا فیشیل کی کوئی چیز نہیں لگانی 
(2) اس کے بعد چہرے پر بیس منٹ تک بالائی کا مساج کریں 
(3) پھر بیس منٹ تک بھاپ لیں 
(4) بھا پ لینے کے بعد روئی سے آہستہ آہستہ نا ک کی جلد صاف کر یں 
(5) بعد میں ترش مالٹے کے چھلکے کے اندر والے حصے سے اپنا چہرہ اچھی طر ح رگڑیں۔ اگر جلن ہو رہی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ مندرجہ بالا مراحل طے کرنے کے بعد صحیح نتا ئج برآمد ہو رہے ہیں۔ ورنہ پھر آپ نے مساج کرنے میں کا م چوری دکھائی ہے۔ بہرحال بیس منٹ تک چھلکے سے اچھی طر ح مساج کرنا ہے۔ 
(6) اس کے بعد ایک انڈے کی سفیدی، شہد ایک چمچ اور دودھ دو چمچ اچھی طر ح ملا کر چہرے پر یہ آمیزہ لگائیں۔ یہ ماسک آدھ گھنٹے تک لگا رہنا ضروری ہے۔ 
(7) جب آمیزہ خشک ہو جائے تو نیم گرم دودھ میں روئی ڈبو کر اس کی مدد سے اوپر سے نیچے کی جانب یہ ماسک اتارلیں۔ 
(8) اس کے بعد نیم گرم پانی سے منہ دھولیں۔ 
یہ یا د رکھیں کہ مساج ہمیشہ شہا دت کی انگلی کی مدد سے نیچے سے اوپر کی جانب کرنا چاہیے۔ اور یہ بھی یا درکھیں بال ایک دم کبھی ختم نہیں ہو تے۔ اگر آپ مہینے میں چار دفعہ فیشیل کرتے ہوئے روزانہ دہی لگائیں اور مسلسل بیسن سے منہ دھوئیں، تو تین ماہ تک آپ کے 75% بال ختم ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ بال ختم کرنا چاہتی ہیں، تو آج ہی سے عمل شروع کریں تا کہ آپ احساس کمتری سے چھٹکا را پاسکیں

ماہ دسمبر اور آپ کی صحت



  ماہ دسمبر اور آپ کی صحت  


اس مہینے میں جہاں ایک اوسط درجہ کی صحت رکھنے والاآدمی زندگی کے تمام ما دی تقاضوں میں ایک غیر معمولی انقلاب محسو س کر تا ہے وہاں اس کی صحت کا معیا ر بھی رویہ تغیر ہونے لگتاہے۔ ہر ذی روح اپنے اپنے طور پر خدشات اور احتیاطوںکے مختلف النوع سانچوں میںڈھلنے لگتاہے۔ کیونکہ اس ماہ کی خنک تا بی اور انجمادی کیفیت کسی وقت بھی کسی بھی ذی روح کو اپنی گر فت میں گرفت میں لینے پر کمر بستہ رہتی ہے۔ یخ بستگی اور ٹھٹھراﺅ کا دہانہ کسی وقت بھی کھل سکتا ہے۔ اور موسمی تقاضوں کے مطابق نہ چلنے والے افراد اچانک اور غیر متو قع طور پر سردی کی لپیٹ میں آکر زکا م، سر درد، اعصابی ٹھٹھراﺅ، پسلیوں کے سکڑ پن، سر سام دماغی، نخاع دماغی کے جمو د، نمو نیہ ایسے عوارض میں مبتلا ہو جایا کرتے ہیں۔
امراء، و صاحب حیثیت افراد تو مو سم سرما کے اس شدید زمانے میں حسب ضرورت گر م ملبو سات، حفاظتی تدابیر اور انڈہ، مچھلی، مر غ اور میوہ جا ت پر مشتمل اعلیٰ غذاﺅں سے اپنے نظام صحت کے گر د منا سب حفا ظتی حصار استوار کئے رہتے ہیں۔ لیکن غریب اور مزدور پیشہ افرا د اپنی ا قتصادی و معا شی نا ہمواریوں کے تحت شدید سردی کے ان ایام میں مو سم کے برفیلے تھپیڑے سہنے پر مجبور ہو تے ہیں۔ نا کا فی لبا س اور مطلوبہ لو ازم میسر نہ آسکنے کی وجہ سے ایسے افرا د مو سمی شدائد میں گھرے رہتے ہیں اور سوائے مصنو عی طور پر پیدا کر دہ جسمانی قوت مدافعت، محنت و مشقت کے کام او ر گلا بی دھو پ سینکنے اور رات کوکمبل یا لحاف میں منہ لپیٹ کر سو رہنے کے ان کو اور کوئی اطمینان بخش لا زمہ حیا ت اور ذریعہ سکو ن نہیں ہوتا۔ یہ بات الگ ہے کہ اس مہینے میں موسمی اثرات کا با عث بیمار ہو نے والوں میں با حیثیت اور متمول افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہو تی۔ 

ماہ دسمبر کی نعمتیں 

بادام مو سم سرما کے میو ہ جا ت میں سے ایک ایسا میوہ ہے جس کی شہرت و ہر دلعزیزی کسی بھی مو سم و ما حول کی پابند نہیں۔بادام ذائقہ و تاثیر اور غذائیت و افا دیت کے لحاظ سے گو نا گوں فوائد کا ایک مخفی خزانہ ہے۔ چند ایک خصوصیا ت ملاحظہ ہوں۔ 
٭ طبیعت کو نرم اور حلق و سینہ کو صاف کر تا ہے۔ 
٭مصری کے ساتھ اس کا کھا نا جوہر دما غ کا بہترین محافظ ہے۔
٭کھا نسی، دمہ اور ذات الجنب جیسے امرا ض میں نبات کے ساتھ شیرہ بادام کا استعمال بمنزلہ اکیسر ہے۔
٭بریاں صورت میں کھا یا جائے تو اگرچہ قابض ہے لیکن مقوی اعصاب و باہ ہے۔ ٭پیچش رطوبی کو دور کر تا ہے۔ ٭طبیعت رطوبی کو دور کر تا ہے۔ 
٭ طبیعت میں فرحت و بشاشت پیدا کر تا ہے۔
 ٭دل و دماغ کو تقویت بخشتا ہے۔سر دیوں میں روغن بادام ایک غیر متر قبہ نعمت اور بڑے بڑے قیمتی کشتہ جا ت کے پائے کی ایک گرانقدر ٹانک ہے۔ جس سے متعدد فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں۔
 بادام روغن پیچش، قولنج اور عسر البول جیسے مو ذی امرا ض میں کثیر الفوائد علا ج کی حیثیت رکھتا ہے علا وہ ازیں یہ تشنج، ذات الجنب اور سر سام نیز بے خوا بی کے عوارض میں بھی مفید ہے۔.
 جن لو گوں کے جسم میں چر بی زیادہ ہو ان کے لیے مفید نہیں۔
 ایسے لوگ جن کے ہاں دل کا عارضہ ہو ہر چکنی غذا خاص کر بادام سے پرہیز لا زم ہیں۔
 دبلے پتلے جسم میں فربہی عطا کر تاہے۔ 

پھلوں سے جلد کی حفاظت اور حُسن


(وہ خواتین جو اپنی صحت اور تندرستی کی خواہش مند ہوں، توجہ فرمائیں)


کیلا 
اگر آپ بہت دبلی ہیں تو روزانہ دو کیلے کھا کر اپنے وزن میںمنا سب اضافہ کر سکتی ہیں۔ اس کے بر عکس آپ کا جسم فربہی کی جا نب مائل ہے اور آپ آج کل ڈائٹنگ کر رہی ہیں تو روزانہ ایک کیلے کا استعمال بطور غذا آپ کے جسم کو مطلوبہ غذائیت بہم پہنچائے گا ۔ یہ بات غلط ہے کہ جو خواتین ڈائٹنگ کر رہی ہوں، کیلا ، آم، انگوریا چیکو سے حتی الامکان پرہیز کریں ۔ ہر پھل اپنے اندر غذائیت کا خزینہ لیے ہوئے ہے ۔لہذا ان سے کنا رہ کشی اختیار کرنا کسی طور پربھی درست نہیں ، البتہ اعتدال سے کھائیے ۔ جن خواتین کو ذیا بیطس کی شکایت ہو وہ میٹھے پھل معالج کے مشورے کے بغیر نہ کھائیں۔ کیلا خشک جلد کے لیے بے حد مفید ہے ۔ آپ ایک کیلا اور ایک چھوٹا چمچ شہداچھی طر ح ملا کر چہرے پر لگائیں۔ بیس منٹ بعد چہرہ دھولیں ۔ یہ ماسک آپ کے چہر ے سے سارا میل کچیل کھینچ لے گا اور آپ کی جلد دمک اٹھے گی ۔ 

خربوزہ 
خربوزے کا باقاعدہ استعمال چہرے سے داغ دھبوں کو دور کرتا ہے ۔ رنگت صاف کرنے کے لیے خربوزے کے بیج ، سنگترے کے چھلکے ، سونف اور جو کا آٹا چاروں چیزیں ہم وزن لیکر باریک پیس لیں اور روزانہ چہرے پر ملیں ۔ چہرے سے رواں بھی دور ہو گا اور جلد بھی صاف شفاف ہو جائے گی ۔ 

سنگترہ 
سنگترہ خو ن صاف کرتا ہے ۔ اس کے چھلکے بھی فائدہ مند ہوتے ہیں ۔ آپ چھلکوںکو اپنے ہا تھوے ، کہنیوں اور پیر پر متواتر ملیں اور پھر ٹھنڈے پانی سے دھو لیں ۔ سنگترے کے چھلکے ہا تھ پیروں کو نرم بنائیں گے ۔ 

لیموں 
لیموں کا رس یا گو دا اگر چہرے پر ملا جائے تو چھائیاں دور ہو جاتی ہیں ۔ اگر دانتوں اور مسوڑھوں پر لیموں کا رس ملا جائے تو دانتوں پر جما ہو اسخت میل بھی اترنے لگتا ہے ۔ اور پائیوریا ٹھیک ہو جا تاہے ۔ اگر لیموں کے چھلکوں کو باریک پیس کر حسب ضرورت کسی بھی کریم میں ملا کر، آنکھوں کے گرد سیا ہ حلقوں پر لگا یا جائے تو حلقے دور ہو جاتے ہیں ۔ 

چکو ترا 
چکو ترے کے چھلکوں میں تیل ہو تاہے ، لہذا انھیں نہ پھینکیں ۔ ایک پیالے میں ابلا ہو اٹھنڈا پانی لیکر اس میں چکوترے کے چھلکے چھوٹے چھوٹے کر کے ڈال کر رات بھر رکھ دیں ۔ صبح ان چھلکوں کو نچوڑ کر پھینک دیں اور اس پانی سے منہ دھوئیں ۔ میک اپ سے قبل منہ دھونے کے لیے بھی یہ پانی استعمال کریں ۔ 

آم
ایک پا ﺅ آم کے رس میں کھا نے کے دو چمچے گا ئے کا دودھ ، دو کھا نے کے چمچ ادرک کا رس، ایک کھانے کا چمچہ شکر ملا کر روزانہ مسلسل دو ما ہ استعمال کریں ۔ یہ مرکب افزائش خون کے لیے بے حد مفید ہے اور چہرے پر تا زگی بھی پیدا ہوتی ہے ۔ یا د رکھیں کہ نہا ر منہ آم کھانا صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ لہذا احتیاط رکھیں ۔

سیب 
مثل مشہور ہے کہ روزانہ ایک سیب کا استعمال معالج سے دور رکھتا ہے ۔ صبح نا شتے میں اس کا استعمال صحت کے لیے بے حد مفید ہے ۔ چکنی جلد کی حامل خواتین سیب کو کدو کش کر کے چہرے پر لگائیں ۔ دس پندرہ منٹ بعد ٹھنڈے پانی سے منہ دھو لیں ۔ اس طر ح چہرے کی چکناہٹ کا خاتمہ ممکن ہے ۔