اس بلاگ کا ترجمہ

Saturday, December 22, 2012

اطباءکے حیرت انگیز کارنامے



بقراط کو ایک یونانی بادشاہ نے علاج کیلئے بلایا اور اس کا امتحان لینے کی غرض سے بیل کا پیشاب اس کے پاس بھیجا اور پوچھا کہ اس کو کیا شکایت ہے؟ بقراط نے دیکھتے ہی کہا کہ مریض چارے اور دانے کی کمی کی شکایت کررہا ہے۔ بادشاہ بقراط کی اس تشخیص سے بہت خوش ہوا
ایک دن اسقلی بیوس عبادت الٰہی میں مشغول تھا اس کے پاس ایک حاملہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ آئی اور پیدا ہونے والے بچے کے متعلق دریافت کرنے لگی۔ اسقلی بیوس نے کہا کہ جب تمہارا شوہر عبادت کررہا تھا اسی درمیان تم نے بدکاری کی تھی یہ اس کی سزا ہے کہ تمہارا پیدا ہونے والا بچہ بدشکل ہوگیا۔ چنانچہ جب اس عورت کے بچہ پیدا ہوا تو اس کے دونوں ہاتھ سینے میں گھسے ہوئے تھے۔

چارے اور دانے کی کمی
بقراط کو ایک یونانی بادشاہ نے علاج کیلئے بلایا اور اس کا امتحان لینے کی غرض سے بیل کا پیشاب اس کے پاس بھیجا اور پوچھا کہ اس کو کیا شکایت ہے؟ بقراط نے دیکھتے ہی کہا کہ مریض چارے اور دانے کی کمی کی شکایت کررہا ہے۔ بادشاہ بقراط کی اس تشخیص سے بہت خوش ہوا اور اسے کافی انعام و اکرام سے نوازا۔

گرمی سے علاج
افلاطون کے استاد کے پاس ایک مریض آیا۔ اس کے سر پر ہزار پایہ چمٹا ہوا تھا۔ استاد نے چمٹی سے پکڑ کر اسے علیحدہ کرنا چاہا مگر افلاطون نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ اس عمل سے سر کی جلد بھی ہزارپایہ کے ساتھ اکھڑکر چلی آئے گی۔ پھر اس نے ایک ترکیب بتائی کہ پہلے اس کو آگ کی حرارت پہنچائیں گرمی کی وجہ سے یہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا پھر اس کو چمٹی سے پکڑ کر الگ کرلیں چنانچہ اس کی اس تدبیر پر عمل کیا گیا جس سے مریض کو اس مصیبت سے نجات مل گئی۔

قلب کی دھڑکن سے تشخیص
مشہور یونانی حکیم ارسطو نے اینٹی کولس نام کے ایک شہزادے کو دیکھا جو بغیر کسی سبب کے روز بروز کمزور ہوتا جارہا تھا۔ ارسطو کو مرض عشق کا شبہ ہوا۔ اس نے شاہی محل کی تمام خواتین کا نام لیا اور خود مریض کے قلب پر ہاتھ رکھے رہا۔ جب شہزادے کی خوشدامن کا نام لیا گیا تو اس کا دل یکایک زور زور سے دھڑکنے لگا۔ طبیب نے تشخیص کی کہ یہ اپنی خوشدامن کے عشق میں گرفتار ہے۔

آواز کے زائل ہونے کا علاج
جالینوس کے پاس ایک مریض آیا جس کی گردن میں گلٹی نکل آئی تھی کسی جراح نے اسے نکال دیا جس سے گلٹی تو ٹھیک ہوگئی لیکن آواز بیٹھ گئی اور بھوک بھی بند ہوگئی جالینوس نے اچھی طرح معائنہ کیا اور گردن میں کچھ گرم دوائوں کا لیپ کرایا جس سے چند دنوں میں مریض ٹھیک ہوگیا۔ جالینوس نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ گردن کے قریبی اعصاب میں سردی کا اثر پہنچ گیا تھا اسی لیے آواز بیٹھ گئی تھی گرمی کے پہنچنے سے یہ اثر دور ہوگیا اور آواز ٹھیک ہوگیا۔

شانے کی چوٹ سے انگلیاں بے حس
ایک شخص کو گھوڑے سے گرنے پر جسم کے مختلف مقامات اور خاص کر دونوں شانوں کے درمیان کافی چوٹ آگئی، علاج کرنے پر چوٹ تو ٹھیک ہوگئی مگر اس کی دونوںہاتھ کی انگلیوں کی حس ختم ہوگئی۔ اطباءوقت نے انگلیوں میں خارجی دوائیں لگوائیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر میں جالینوس کی طرف رجوع کیا گیا جالینوس نے حالات معلوم کیے اور کہا کہ انگلیوں کے پٹھے ان کی جڑوں اور ان کے مبداءکو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے ایک مرہم دیا اور ہدایت کی کہ اس کو دونوں شانوں کے درمیان چوٹ کے مقام پر لگایا جائے مریض نے ایسا ہی کیا جس سے اس کی تکلیف دور ہوگئی اور قوت حس دوبارہ لوٹ آئی۔

بچوں کا صفحہ


                                 بچوں کا صفحہ  

خود بھی روشن، دوسرے بھی روشن
راجو بے انتہا خوش تھا، اس نے باہر جاکر تمام بچوں کو فخریہ یہ فخر سنائی کہ آج ہمیں چندا ماموں نے چاند نگر سے روٹیاں بھیجی تھیں لیکن کسی نے بھی اس کی بات پر یقین نہیں کیا بلکہ الٹا اس کا مذاق اڑانے لگے جس کی وجہ سے راجو کی کئی لڑکوں سے لڑائی بھی ہوگئی
”اماں چندا ماموں کتنے پیارے لگتے ہیں، ہیں ناں؟،، راجو نے سیاہ آسمان پر چمکتے تاروں کے جھرمٹ میں روشن چودھویں کے چاند کو دل چسپی سے تکتے ہوئے کہا تو اس کی ماں نے پیار سے راجو کے سر میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔”ماں! ماں! مجھ کو چاند بہت اچھا لگتا ہے، مجھے یہ دلا دو، میں اس سے کھیلوں گا اور باتیں بھی کروں گا۔،،
راجو تیری ضد بڑھتی جارہی ہے، کبھی تجھے اچھے کپڑے چاہیے، کبھی اچھا گھر، کبھی کھلونے اور آج تو مجھ سے چاند مانگ رہا ہے، پاگل ہوگیا ہے؟،،راجو ماں کے اس طرح ڈانٹنے پر بالکل اداس نہ ہوا، وہ جانتا تھا جب سے بابا کا انتقال ہوا ہے تب سے ماں اسی طرح اکثر اس پر غصہ کرنے لگی ہے۔
راجو کو تیسری جماعت سے سکول بھی چھوڑنا پڑا تھا، کیونکہ اب اس کے ابو دنیا میں نہیں رہے تھے، لہٰذا اب گھر میں رہ کر وہ اپنے الٹے سیدھے سوالات کرکے ماں سے جھڑکیاں کھاتا رہتا تھا۔ اس وقت بھی وہ ماں کی ڈانٹ سننے کے بعد پھر چندا ماموں کے سحر میں کھوگیا۔”ماں! چندا ماموں بالکل گول ہیں جیسے سکہ اور ایسے جیسے روٹی۔،، اب راجو کی نظریں چاند پر سے ہٹ کر اپنی ماں پر ٹک گئی تھیں۔”ماں! مجھے روٹی چاہیے، بہت بھوک لگ رہی ہے،، اس کے لہجے میں ایک دم نقاہت اتر آئی اور اس کی ماں کی آنکھوں میں بے بسی۔ کوئی نہیں جانتا تھاکہ یہ دونوں ماں بیٹے آج پھر فاقے سے ہیں۔ہمیشہ کی طرح آج بھی جب راجو کو ماں پیار سے نہ بہلاپائی تو مجبوراً ماں کو اس پر ہاتھ اٹھانا پڑا۔ کچھ دیر بعد راجو روتے روتے سوچکا تھا۔ اس کے بعد ماں نے راجو کے معصوم وجود کو خود سے لپیٹ لیا اور اپنی آنکھوں میں چھپے آنسوئوں کی پونچھ کر خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگی۔
اتفاق سے آج جب یہ دونوں ماں بیٹے صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹے باتیں کررہے تھے تو گھر کے سامنے سے گزرنے والے ایک نیک آدمی نے ان کی باتیں سن لیں۔ تمام حالات کا اندازہ ہوتے ہی اس نے دل میں ان کی مدد کرنے کی ٹھان لی، دوسرے روز صبح جب راجو اور اس کی ماں کی آنکھ کھلی تو صحن میں چند میٹھی روٹیاں پڑی ملیں جن پر لکھا تھا”چاند نگر،،
راجو بڑی حیرت اور خوشی سے چلایا: ”ماں دیکھو! ماموں نے ہمیں چاند نگر سے روٹیاں بھیجی ہیں۔،، ماں کا بھی حیرت سے برا حال تھا، لیکن چونکہ یہ دونوں کل سے بھوکے تھے اور روٹی دیکھ کر ان کی بھوک مزید چمک اٹھی تھی، لہٰذا انہوں نے جلدی جلدی مزے سے روٹی کھالی۔راجو بے انتہا خوش تھا، اس نے باہر جاکر تمام بچوں کو فخریہ یہ فخر سنائی کہ آج ہمیں چندا ماموں نے چاند نگر سے روٹیاں بھیجی تھیں لیکن کسی نے بھی اس کی بات پر یقین نہیں کیا بلکہ الٹا اس کا مذاق اڑانے لگے جس کی وجہ سے راجو کی کئی لڑکوں سے لڑائی بھی ہوگئی اور وہ جلد ہی گھر واپس آگیا۔ اب اسے شدت سے رات ہونے کا انتظار تھا تاکہ جلدی سے وہ اپنے چندا ماموں کا شکریہ ادا کرسکے۔
اس دن کے بعد سے راجو نے ماں سے فرمائشیں کرنا چھوڑدیں بلکہ اب وہ اپنی تمام فرمائشیں چندا ماموں سے کرتا تھا، کیونکہ چندا ماموں اس کی تمام فرمائشیں پوری ضرور کرتے تھے، اب چاند نگر سے راجو کیلئے روٹیوں کے ساتھ ساتھ اچھے کپڑے، جوتے، کھلونے اور رنگ برنگی کتابیں بھی آنے لگی تھیں۔ اب کبھی انہیں بھوکا نہیں سونا پڑتا تھا۔ گویا چندا ماموں نے ان کی زندگی بدل دی تھی۔ایک چندا ماموں نے چاند نگر سے رقعہ لکھ کر بھیجا جس میں راجو کو تاکید کی گئی تھی کہ اب وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردے کیونکہ چندا ماموں کو سکول جانے والے، محنت سے پڑھنے لکھنے والے بچے پسند ہیں، ساتھ ہی اس کام کیلئے ایک معقول رقم بھی لفافے میں تھی۔ماں نے اسی دن راجو کو ایک اچھے سکول میں داخل کرادیا، کیونکہ راجو کو بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اب جب چندا ماموں نے اسے دل لگا کر پڑھنے کی تاکید کی تھی تب سے اس کا ذوق شوق کچھ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ بہترین نمبروں سے پاس ہوتا اور چندا ماموں خوش ہوکر اسے اور بھی تحفوں سے نوازتے۔
دیکھتے دیکھتے راجو کامیابیوں کی سیڑھیاں طے کرتا ہوا میڈیکل کالج میں پہنچ گیا۔ جس دن وہ ڈاکٹر بنا، اس روز وہ بیک وقت انتہائی خوش بھی تھا اور اداس بھی۔ خوشی ڈاکٹر بن جانے کی تھی وہ جانتا تھا کہ اب بھی مزید کئی کامیابیاں اس کی منتظر ہیں اور اداس اس لیے کہ وہ اب تک اس نیک انسان کو نہیں دیکھ سکا جس نے چندا ماموں کے نام سے اس کی مدد کرکے زندگی بنائی تھی اور آج ہی اسے چندا ماموں کا آخری خط موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا: ”راجو بیٹا! یہ میرا آخری خط سمجھو، کیونکہ اب تمہیں اپنے چندا ماموں کی ”چاندنی،، کی کوئی ضرورت نہیں رہی، اب تم صرف راجو نہیں رہے بلکہ دھرتی کے آسمان پر چمکنے والا ستارہ بن گئے ہو۔ ایک نیا اور روشن ستارہ۔ راجو! تمہارے لیے تمہارے چندا ماموں کا ایک پیغام ہے اگر ہوسکے تو کوشش کرنا کہ تم بھی زمین کے کسی ذرے کو ستارہ بناسکو۔ اس حقیر ذریعے کو، جسے دنیا بغیر دیکھے روندتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے، مگر جب تم اسے اپنے ہی جیسا ستارہ بنادوگے تو یہی دنیا سر اٹھا کر اسے دیکھنے پر مجبور ہوجائے گی۔ یقیناً تم دیکھو گے کہ ایسا کرنے سے تمہاری روشنی اور جگمگاہٹ میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔،،

اس چڑیل نے مجھے تھپڑ کیوں مارا؟ عبدالغفار ثاقب، ایبٹ آباد
میں نے آہستہ آہستہ نگاہ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو وہاں پر مجھے پانچ فٹ لمبی کالی بالوں سے بھری انسان کی طرح ہاتھ، پائوں والی کوئی چیز کھڑی دکھائی دی جو مجھے غور سے دیکھ رہی تھی پہلے تو میں نے اپنا وہم سمجھا جب میں نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں پر ایک انسان نما چیز کھڑی تھی
یہ جو واقعہ میں تحریر کررہا ہوں، یہ چھ، سات سال پہلے کا واقعہ ہے اس وقت میری عمر تقریباً بارہ، تیرہ سال تھی یہ واقعہ تقریباً 2004ءکا ہے۔جون جولائی کا مہینہ تھا، گرمی اپنے عروج پر تھی، ان دنوں میری والدہ کی طبیعت اکثر اوقات خراب رہتی تھی اور میری والدہ ہفتہ میں کم سے کم ڈاکٹر کے پاس ایک دو بار ضرور جاتی تھیں۔ ہسپتال جاتے وقت میری والدہ ہم میں سے کسی بہن بھائی کو ضروری لے جاتی تھیں۔ ہسپتال ہمارے گھر سے تھوڑے سے فیصلے پر آتا تھا۔ لوڈشیڈنگ اس وقت بھی ہوا کرتی تھی اس وقت بھی بجلی گئی ہوئی تھی اور رات کے تقریباً آٹھ بج رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح اس دن بھی ہسپتال میں کافی زیادہ رش تھا، بعض مریضوں کو ڈرپ بھی لگی ہوئی تھی اور وہ لیٹے ہوئے تھے کافی انتظار کے بعد ہماری باری بھی آہی گئی جب ہم وہاں سے دوائی لیکر نکل رہے تھے تو وہاں ہی میری والدہ کو (لیڈیز ویٹنگ روم) میں ایک جان پہچان والی عورت مل گئی وہ عورت والدہ سے باتیں کرنے لگی اور والدہ بھی بیٹھ کر عورت کیساتھ باتیں کرنے لگی اور میں وہاں سے چلتا ہوا مردانہ ویٹنگ روم میں پہنچ گیا وہاں مریضوں کو ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ وہاں ایک گتے کا بڑا سا ڈبہ پڑا ہوا تھا جس میں خالی ڈرپ مریضوں کو لگانے کے بعد پھینک دی جاتی ہے۔ اس وقت بھی اس ڈبے میں چار، پانچ ڈرپ پڑی ہوئی تھیں۔ (ڈرپ کو آپ پہنچانتے ہی ہونگے ڈرپ ایک ہلکے پلاسٹک کی سفید بوتل ہوتی ہے جس میں پانی کی طرح کی دوائی پڑی ہوتی ہے اور ڈرپ کے ساتھ پتلی اور تقریباً ایک میٹر کی نلکی بھی لگی ہوتی ہے)
میں نے ان پانچ ڈرپ میں سے ایک ڈرپ پانی ڈال کر کھیلنے کیلئے وہاں سے اٹھالی میں جب اپنی والدہ کے پاس پہنچا اس وقت میری والدہ اس عورت کیساتھ باتیں کررہی تھی میری والدہ کو نامیرے آنے کا پتہ چلا اور ناجانے کا تھوڑی دیر اور باتیں کرنے کے بعد میری والدہ وہاں سے واپس آگئی میں نے ڈرپ والدہ سے چھپائی ہوئی تھی اگر وہ دیکھ لیتیں تو مجھے کبھی ڈرپ گھر نا لے جانے دیتیں جب میں اور میری والدہ گھر واپس آئے تو تقریباً رات کے نوبج رہے تھے ہمارے گھر آنے کے بعد تھوڑی دیر بعد بجلی بھی آگئی اس وقت گھر کے باقی افراد کمرے میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے ڈرپ میں نے واپس گھر آتے ہی صحن میں چھپا دی تھی۔ تقریباً رات کے دس بجے میں آہستہ سے کمرے سے نکلا اور صحن سے ڈرپ لی اور نل میں ڈرپ میں پانی ڈالنے لگا۔ کمرے سے باہر کو بلب وغیرہ نہیں لگا ہوا تھا باہر اس وقت صحن میں مجھے روشنی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
کیونکہ اس وقت چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ہر طرف چاند کی چاندنی بکھری ہوئی تھی چاند کی چاندنی میں ہر شے دکھائی دے رہی تھی۔ ہماری چھت پر ادھر سے ہی سیڑھیاں جاتی تھیں نلکا سیڑھیوں سے پانچ فٹ ہی دور تھی۔ میں اس وقت بڑی توجہ دیکر پانی ڈال رہا تھا ڈرپ میں پانی ڈالنا کوئی آسان کام نہیں تھا میں پھر بھی کوشش کررہا تھا ڈرپ میں پانی ڈالتے وقت میں جس کمرے میں سب بیٹھے تھے اس کمرے سے کافی دور تھا۔ ابھی بھی پانی ڈال ہی رہا تھا کہ مجھے اپنے قریب آہٹ سنائی دی اور میری چٹھی حس نے مجھے خبردار کیا کہ میرے آس پاس کوئی ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے سیڑھیوں کے آس پاس کوئی ہے۔
میں نے آہستہ آہستہ نگاہ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو وہاں پر مجھے پانچ فٹ لمبی کالی بالوں سے بھری انسان کی طرح ہاتھ، پائوں والی کوئی چیز کھڑی دکھائی دی جو مجھے غور سے دیکھ رہی تھی پہلے تو میں نے اپنا وہم سمجھا جب میں نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں پر ایک انسان نما چیز کھڑی تھی اس چیز کے جسم پر سر سے لیکر پائوں تک تین تین انچ تک کالے بال تھے انڈے کی طرح بیضوی آنکھیں تھی جو انتہائی سرخ تھیں وہ مجھے غور سے دیکھ رہی تھی جونہی میں نے اسے دیکھا تو چیختا چلاتا ہوا کمرے کی طرف بھاگ گیا لیکن اس چیز نے میرے کمرے تک پہنچتے ہی میری ران پر زور سے تھپڑ مارا وہ کمرے کے اندر نہیں آئی بلکہ باہر سے ہی چلی گئی۔ میرے بھائی اور والدہ بھی ڈر گئے میرے بھائیوں اور والدہ کا کہنا ہے جب میں چیختا، چلاتا اندر آیا اس کے بعد ہی چھت پر کودنے کی اور چلانے کی آوازیں آتی رہی اور چھت ایسے ہل رہی تھی جیسے زلزلہ آگیا ہو میرا بڑا بھائی جو حافظ قرآن مجید ہے قرآن پڑھتا، پڑھتا چھت پر گیا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
میرے بھائی نے مجھ پر کچھ آیتیں پڑھ کر پھونکیں تب میری حالت سنبھلی۔ جو تھپڑ مجھے اُس نے مارا تھا اس کے نشانات کافی عرصے تک میری ران پر ثبت ہورہے اور پھر ختم ہوگئے۔
حکیم صاحب یہ واقعہ بالکل سچا ہے میری والدہ اور میرے بھائی اس بات کے گواہ ہیں۔

حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی



قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں، آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
میرے مرشد حضرت خواجہ سید محمد عبداللہ ہجویری رحمة اللہ علیہ جو حضرت علی ہجویری رحمة اللہ علیہ کی خاص آل میں سے تھے ایک بار مجھے فرمانے لگے کہ طارق! تجھے ایک تحفہ دوں، میں نے کہا حضور فرمائیں، فرمانے لگے کہ سورة البقرہ کی یہ تاثیر ہے کہ جو خاتون حمل کے معلوم ہونے کے بعد ہرماہ ہر چاند کے پہلے سات دن روزانہ ایک بار سورة البقرہ پڑھے اور یہ عمل نوماہ تک جاری رکھے تو انشاءاللہ شرطیہ بیٹا ہوتا ہے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں گزشتہ 45 سال سے یہ لوگوں کو بتا رہا ہوں اور یہ چیز مجھے ایک درویش سے ملی تھی اور پھرخود ہی فرمایا کہ مجھے یہ چیز خواب حضرت خواجہ اویس قرنی رحمة اللہ علیہ نے دی تھی اور فرمایا تھا یہ آپ کو اجازت ہے۔
حضرت کے فرمان کے بعد میں نے لوگوں کو بتانا شروع کیا اور مجھے یاد پڑتا ہے یہ 1986ءمیں یہ چیز (یعنی سورة البقرہ کا یہ تحفہ) مجھے حضرت نے دیا تھا۔ قارئین! کتنے بے شمار لوگ میرے پاس آئے اورمیں نے انہیں سورة البقرہ کا یہ عمل بتایا اور اللہ کریم جل شانہ نے انہیں بیٹا عطا فرمایا۔ اگر عورت خود نہیں پڑھ سکتی تو اُس کی طرف سے اس کا شوہر پڑھے۔ اگر شوہر بھی بدقسمتی سے قرآن پڑھا ہوا نہیں ہے تو اس کے گھر کا کوئی فرد پڑھے۔ یعنی کرائے کا آدمی نہ پڑھے۔ کرائے کا آدمی میںاکثر انہیں کہتا ہوں کہ کہیں سے بندہ تلاش کیا اور اسے پیسے دے کر قرآن پڑھوا دیا اس کے بارے میں میں اکثر منع کیا کرتا ہوںاور جب بھی یہ عمل کسی نے کیا اللہ جل شانہ نے انہیں بیٹا عطافرمایا۔ اس سلسلے میں چند واقعات آپ کی خدمت میں عرض ہیں:۔
یہ اسی 1986ءہی کا واقعہ ہے ایک خاندان میرے پاس آیا کہ ہمارے ہاں صرف بیٹیاں ہی بیٹیاں ہوتی ہیں، ہم تو بیٹے کو ترستے ہیں، ہمارا ہرحمل اس امید سے ہوتا ہے کہ اس میں بیٹا ہوگا اور لوگوں کے اعتماد دلانے اور کوئی عمل کرانے کے بعد ہم بیٹوں کے کپڑے بنواتے ہیں لیکن پھر بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ اب تو ہمارے گھر عالم یہ ہے کہ جب بھی بیٹی ہوتی ہے ماتم کا سا سماں ہوتا ہے بیٹے کو ترس گئے ہیں اور کسی نے جادو بتایا تو اس کا علاج کرایا، کسی نے جنات بتائے تو اس کا علاج کرایا۔ کسی نے فولاد اور وٹامن کی کمی بتائی تو اس کیلئے ادویات کھلائیں۔ دنیا کا کوئی طریقہ ایسا نہیں یا کوئی عمل ایسا نہیں کہ ہم نے چھوڑا ہو۔ لیکن اس کے باوجود بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں آپ کا کسی نے بتایا آئے ہیں اگر ممکن ہوسکے تو آپ ہمیں کوئی عمل بتائیں جس سے بیٹیاں پیدا نہ ہوں بلکہ اللہ پاک بیٹے کی نعمت عطا فرمائے۔
میں نے انہیں سورة البقرہ کا یہی عمل بتایا کہ ہر اسلامی چاند کے پہلے سات دن روزانہ ایک بار سورة البقرہ بیٹے کی نیت سے پڑھیں۔ انہوں نے عمل شروع کردیا۔ بلکہ اُس وقت ان کے خاندان میں چند خواتین حاملہ تھیں سب کو عمل شروع کرادیا، چونکہ بیٹیاں زیادہ تھیں تو خود حاملہ نے بھی پڑھا اور گھر کے اور افراد نے بھی پڑھا اور اللہ کریم کی شان کریمی دیکھیں کہ جس نے بھی عمل کیا اُس کو بیٹا ہوا۔ اب تو ان کا سورة البقرہ پر اتنا یقین ٹھہر گیا کہ انہوں نے باقاعدہ ایک کاغذ چھپوایا اس کو فوٹو سٹیٹ کرایا اور لوگوں کو بانٹنا شروع کردیا کہ جو حضرات بیٹے چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ سورة البقرہ کا یہ عمل کریں ایک اور انوکھا کام کیا کہ اپنی بیتی چند واقعات کے ساتھ جو میرے بتانے کے بعدانہیں حاصل ہوئے وہ سارے تجربات و مشاہدات ایک چھوٹا سا رسالہ چھپوایا اس کا عنوان رکھا ”شرطیہ بیٹا،، اور ہر شادی میں جہاں کسی کی شادی ہوتی تھی اس کو پوسٹ کرکے یا خود اس میں شامل ہوکر اُن کو یہ دے آتے تھے اور بقول ان کے کہ جب سے میں نے آپ سے یہ سنا پھر خود آزمایا پھر خود کیا اور خود اس پفلیٹ کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جس نے بھی کیا آج تک مجھے کوئی ایک شخص ایسا نہیں ملا جس کو بیٹا نہ ہوا ہو سبھی کو بیٹے ہوئے اور اللہ پاک نے ان کو بہت برکت سے رکھا۔
سورة البقرہ کی برکت سے جو بیٹا اللہ پاک عطا فرماتے ہیں ایک تجربہ اور ہوا ہے تندرست ہوتے ہیں صحیح سالم ہوتے ہیں، داغدار یعنی معذور نہیں ہوتے اور طویل الامت اور صحت باسلامت رہتے ہیں۔
ایک صاحب مجھ سے ایک مسئلہ بیان کرنے لگے کہ ہمارے گھر میں ایک تکلیف رہتی ہے اٹھہرا کا مرض ہے۔کہنے لگے کہ میرے اپنے تین بچے فوت ہوگئے ہیں اور اکثر بیٹے فوت ہوتے ہیں بیٹیاں بچ جاتی ہیں میں نے انہیں کہا کہ آپ سورة البقرہ پڑھیں اور سورة البقرہ ہر چاند کے سات دن پڑھیں اور اگر ممکن ہوتو روزانہ سورة البقرہ ایک بار اس کے علاوہ بھی پڑھتے رہے انہوں نے عزم کیا میں یہ عمل کروں گاجب انہوں نے یہ عمل کرنا شروع کیا تو اللہ کریم نے ایسی کریمی فرمائی کہ ان کے گھر بیٹا پیدا ہوا ایک بڑی سی ٹوکری مٹھائی کی بھر کر میرے پاس لے آئے وہاں جتنے افراد بیٹھے تھے ان تک میں نے مٹھائی بانٹ دی اتنے خوش کہ فرمانے لگے کہ اس کا نام کیا رکھوں۔ میرے دل میں اللہ پاک میں ڈالا باقی بیٹے نہیں بچے تھے یہ بچ گیا اس کو اللہ نے اس کو باقی رکھا تو اس کا نام عبدالباقی رکھا جائے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس بیٹے کا نام عبدالباقی رکھیں۔ اب ماشاءاللہ بہت تندرست ہے، صحت مند ہے۔
قارئین! اس عمل کے کتنے واقعات ایسے ہیں جو اٹھرا کے مرض میں یا ایسے لوگوں جن میں بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔اعظم کلاتھ مارکیٹ لاہور کے ایک تاجر کہنے لگے کہ اب اللہ نے بیٹے بہت دئیے ہیں ہر بار حمل ہوتا ہے تو سورة البقرہ کا یہ عمل کرتے ہیں تو اس کی برکت سے اللہ پاک بیٹے عطا فرماتے ہیں اب جی چاہتا ہے کہ بیٹی ہو تو میں نے اُن سے عمل کیا کہ سورة البقرہ نہ پڑھیں انہوں نے سورة البقرہ نہ پڑھی تو انہیں بیٹی مل گئی۔
حج کے ایام میں منیٰ میں بیٹھے تھے ایک صاحب میرے ساتھ بیٹھے مسلسل رو رہے تھے اور ایک بات کہہ رہے تھے اے اللہ تیرے پاس کونسی کمی ہے تو اپنے خزانے سے بیٹے عطا کردے، یااللہ ہماری قسمت میں صرف بیٹیاں ہی ہیں بیٹے نہیں ہیں؟ اللہ میں تو حج میں تیرے پاس صرف بیٹے لینے آیا ہوں اللہ میری نسلیں بڑھا دے، ان کی دعا سنتا رہا، میں بھی اللہ سے راز و نیاز کررہا تھا بعد میں میں نے ان سے پوچھا تعارف ہوا تو کہنے لگے کہ ہمارے خاندان میں بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں بیٹے نہیں۔ صرف ایک ہمارے کزن میں ایک بیٹا ہوا باقی سب کی بیٹیاں ہیں۔ میں نے حج کیا لیکن حج صرف اس نیت سے کیا کہ اللہ پاک سے اس دفعہ حج پر بیٹا ہی لے کر آئوں گا میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کی دعا قبول ہوگئی ہے، دعا کی قبو لیت سے ہی اللہ پاک اسباب پیدا فرماتے ہیں آپ صرف سورة البقرہ کا یہ عمل کریں۔ سورة البقرہ کا یہ عمل کریں اور تفصیل میں نے سمجھا دی، وہ پاکستانی تھے لیکن بہت عرصے سے کینیڈا ٹورنٹو میں رہتے تھے اور وہاں سے ڈائریکٹ حج کرنے سعودی عرب آئے تھے۔ ان کو یہ عمل دیا اسی وقت انہوں نے فون کیا اور سب گھر والوں کو سمجھایا کہ یہ عمل کرنا شروع کردیں اور فرمایا کہ منیٰ میں دعا کے وقت اللہ پاک نے یہ عمل دیا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ان کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی کہ ہمارے گھر میں اللہ جل شانہ نے اس عمل کی برکت سے دو حاملہ خواتین کو بیٹا دیا ہے اور جن صاحب کے ذریعے سے مجھے یہ پیغام ملا وہ کہہ رہے تھے کہ وہ صاحب مسلسل رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کسی طرح میری حکیم صاحب سے ملاقات ہو اور میں انہیں اپنے جذبات سے خود آگاہ کروں کہ اللہ کریم نے سورة البقرہ کی برکت سے مجھے بیٹے عطا فرمائے۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ میرے پاس 14 کیس ایسے ہیں جو میں آپ کو گن کر بتا سکتا ہوں کہ جن کو میں نے بتایا اور ان کو اللہ پاک نے سورة البقرہ کے اس عمل سے بیٹے عطا فرمائے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے سورة البقرہ کا ایک عمل حیاءڈائجسٹ کی ایڈیٹر مسز راحت ارشد صاحبہ کا چھپا تھا، موصوفہ ایک صالح اور نیک خاتون ہیں، پوتے پوتیوں والی ہیں۔ ایک بار فون پر اپنے تجربات و مشاہدات مجھے بتانے لگیں کہ جب بھی ہمیں کوئی مشکل پیش آتی ہے اور اپنی ایک بڑی بوڑھی کا تجربہ بھی بتایا کہ اس وقت ہم صرف سورة البقرہ میں لگ جاتے ہیں اور سورة البقرہ ہر مشکل کا آخری حل ہے، ویسے بھی قارئین میری سالہاسال کے تجربات میں یہ بات آئی ہے سورة البقرہ جہاں مشکلات کا حل ہے وہاں جادو جنات کا آخری اور تیربہدف حل ہے۔ جس گھر میں جادو ہو، جنات ہوں، بندش ہو آپ سورة البقرہ پڑھیں اور کیسٹ میں سورة البقرہ لگادیں۔ مجھے یہ شکایت بھی عجیب سی ملی کہ جنات کیسٹیں توڑ دیتے ہیں یا ٹیپ ریکارڈر خراب کردیتے ہیں، یا سورة البقرہ کی کیسٹ غائب ہوجاتی ہے۔ لیکن چلانے والے اپنے عزم سے نہ ہٹیں تو ایک وقت آیا کہ شریر جنات سے نجات مل گئی۔ قارئین! یہ میری طرف سے آپ کو تحفہ ہے سورة البقرہ کا کہ ہزاروں واقعات میرے پاس ایسے ہیں مایوس لوگ آئے انہیں سورة البقرہ بتایا اور جس کو بھی سورة البقرہ بتایا شان کریمی نے اسے بیٹا عطاکیا۔ ایک خاتون مسلسل بیٹھی رو رہی تھی اس کی رقت طاری ہوئی آواز رندھ گئی، دوسری خواتین بیٹھی اسے مسلسل پوچھ رہی تھیں کہ تیرے رونے کی وجہ کیا ہے۔ میں مریضوں میں مصروف بیٹھا دور یہ بات سن رہا تھا آخر بولی تو کہنے لگی کہ میں اپنا درد حکیم صاحب کو سنائوں گی جب ان کی باری آئی تو میں نے ان سے پوچھا تو مجھ سے کہنی لگی کہ میں ایک ایسی مایوس خاتون ہوں کہ ہمارے مقدر میںبیٹیاں ہیں، بیٹے نہیں تومیں نے ان سے فوراً کہا کہ بیٹیاں تو نعمت ہیں ان کے بارے میں کہیں آپ کے دل میں حقارت تو نہیں۔ کہنے لگی حقارت تو نہیں ہے لیکن بیٹے بھی تو نعمت ہیں اللہ پاک نے ہمیں یہ نعمت نہیں دی۔ ہمارے ہر حمل میں مشہور ہے حتیٰ کہ اب تو رشتہ کرنے والے بھی ڈرتے ہیں کہ ان کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں، ہمارے بعض رشتے اس کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ آخر ہم کیا کریں؟ میں نے ان سے عرض کیا آپ مایوس نہ ہوں آپ سورة البقرہ کا یہ عمل کریں اور سورة البقرہ کے اس عمل میں بڑی طاقت اور تاثیر ہے اور میں نے انہیں ایک واقعہ پھر سنایا اپنا ذاتی واقعہ سنایا کہ ہماری قریبی رشتے دار ہماری والدہ کو انہوں نے بہت عرصہ تکلیف تھیں لیکن میری والدہ رحمة اللہ علیہ صبر کرنے والی معاف کرنے والی تھیں۔ والدہ نے بہت عرصہ صبرکیا۔ والدہ کی وفات کے بعد میرے پاس آئیں کہنے لگی کہ ہمارے ہاں بیٹے بھی ہیں بیٹیاں بھی ہیں لیکن بیٹے تھوڑے ہیں، کوئی عمل بتائیں میں نے انہیں سورة البقرہ کا عمل بتایا اب ان کے ہاں بیٹے ہی بیٹے ہیں اس روتی خاتون کو میں نے بتایا کہ تسلی کریں آپ یہ عمل کریں انشاءاللہ اللہ آپ کو بیٹا عطا فرمائیں گے اور ایسے بیٹے عطا فرمائیں گے جو صحتمند اور سلامت ہونگے اور بابرکت ہونگے۔ قارئین! اس روتی خاتون کو میں نے تسلی دی اور انہوں نے یہ عمل شروع کردی پھر اللہ کی شان کریمی کہ اللہ کریم نے نعمتیں عطا فرمائیں اور بیٹوں کی برکتیں عطا فرمائیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس بیٹے والے عمل کو ہزاروں لوگوں تک پہنچایا اور بعض اوقات دل میں گمان ہوتا ہے کہ یا اللہ تونے مجھے ذریعہ بنایا اپنے قرآن کے پڑھنے کا لوگوں کی جھولیاں بھرنے کا اللہ تیرا شکر ہے خیر کا مجھے ہمیشہ ذریعہ بنائے رکھنا۔

دماغ کو گلوکوز پہنچنا



-1کسی وقت کا کھانا نہ چھوڑئے:اگر آپ چھ گھنٹے کچھ نہیں کھاتے تو خون میں شکر کم ہوجاتی ہے۔ دماغ کو گلوکوز پہنچنا ضروری ہے لہٰذا خون کی رگیں سکڑ کر گلوکوز نچوڑ کر دماغ کو پہنچاتی ہیں۔
-2دردِ سر پیدا کرنے والی غذاﺅں سے بچئے: امونیا اور امینو ایسڈز والی غذائیں یا مشروبات ان سے بچیں۔ (مثلاً پنیر، مغزیات، شراب، رس دار پھل (کینو، مالٹا وغیرہ) اور گردے، کلیجی وغیرہ)
-3بقدر ضرورت فولاد اور حیاتین ”ب،، استعمال کیجئے:خون میں پایا جانے والا فولاد اوکسیجن کو منتقل کرتا ہے۔ جب فولاد کم ہو تو اوکسیجن کم ہوجاتی ہے اور خون کی رگیں پھیل جاتی ہیں۔ لہٰذا آپ ایسی غذا استعمال کریں جس میں فولاد اور حیاتین ب دونوں ہوں۔
-4صحت مند طرزِ حیات اپنائیے: پوری نیند سونے سے دردِ سر کم ہی ہوتا ہے۔ ہفتے میں 20 سے 30 منٹ کی تین چار بار ورزش جس سے جسم کے اندر زیادہ آکسیجن پہنچے، مفید ہوتی ہے ۔سگریٹ پینے سے آکسیجن کم ہوجاتی ہے اور رگیں پھیل جاتی ہیںاس سے دردِ سر ہوجاتا ہے۔
-5گھنٹوں اپنی میز پر نہ بیٹھے رہئیے:انسانی جسم کئی گھنٹوں تک ایک ہی وضع پر نہیں رہ سکتا۔ کئی گھنٹوں تک بلاحرکت رہنے سے عضلات کی طرف خون کا بہاﺅ کم ہوجاتا ہے اس لئے دن میں کئی بار جسم کی وضع بدلنی ضروری ہے۔ بیٹھتے وقت صحیح انداز یہ ہے کہ کمر سیدھی رہے، پیر مضبوطی سے فرش پر جمے ہوئے ہوں، سر آگے جھکانے کے بجائے سیدھا رکھا جائے۔
6 ۔کیمیائی اجزاءدردِ سر پیدا کرنیوالے کیمیائی اجزاءسے بچئے:پینٹ، حل کرنے والی چیزیں، پیٹرول کا دھواں، سخت قسم کی خوشبوئیں یہ سب چیزیں دردِ سر شروع کرسکتی ہیں جن سے خون کی رگیں، بعض صورتوں میں غیر معمولی طور پر سکڑ جاتی ہیں اور دفعتاً پھیل جاتی ہیں۔ اگر آپ ان سے بچ نہیں سکتے تو اپنی جگہ کو ہوادار رکھئے۔
-7دھوپ سے بچئے: دیر تک سورج کی طرف مسلسل دیکھنے سے چہرے کے عضلات میں تناﺅ آجاتا ہے اور اس سے سخت قسم کا دردِ سر ہوسکتا ہے۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز معلومات کیلئے عبقری کی فائل پڑھنا نہ بھولیں!

حرکت اور تندرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے



حرکت اور تندرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ متحرک و فعال آدمی بالعموم فائدے میں رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اچھا محسوس کرتے ہیں بلکہ بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی غذا کی اصلاح بہتر طرح اور کرب سے نمٹنے کے لائحہ عمل کو اچھی طرح اختیار کرسکتے ہیں
اگر اعضائے جسم کو استعمال نہ کیا جائے تو نشوونما صحیح نہیں ہوتی اور بڑھاپا جلد آتا ہے۔ (بقراط)
میں آپ کیلئے ایسا نسخہ تجویز کرتا ہوں جس کے استعمال سے آپ بہتر محسوس کریں گے، بے خوابی کم ہوگی، کرب و فکر کا ازالہ ہوگا، بھوک میں کمی آئے گی، وزن کم کرنے میں مدد ملے گی، پٹھوں میں قوت آئے گی، بڑھاپے کی رفتار میں کمی ہوگی، کام کرنے کی اہلیت بڑھے گی، اعتماد صلاحیت میں اضافہ ہوگا، عارضہ قلب اور ذیابیطس کا سدباب ہوگا۔ اس وقت آپ خواہ کیسا ہی محسوس کرتے ہوں، اس وقت آپ اچھا محسوس کرنے لگیں گے۔”اس سے بہتر کیا بات ہوسکتی ہے مگر یہ نسخہ تو بہت گراں ہوگا؟،، ”نہیں! یہ بالکل مفت ہے، یعنی صرف 40-35 منٹ کی روزانہ صبح سویرے تیز قدم سیر۔،،
صدر امریکہ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل جب وہ دو ایوان نمائندگان کے رکن تھے، ہیری ٹرومین کی صحت اچھی نہیں رہتی تھی، آئے دن کی بیماریوں سے تنگ آکر انہوں نے ایوان کے معالج سے مشورہ کیا اس کی ہدایت تھی ”مسٹر ہیری آپ کو چہل قدمی کرنا ہوگی۔،،
اگر لوگ اپنے وقت کا صرف پانچ فیصد حصہ صحت درست کرنے کی مساعی میں خرچ کریں تو انہیں اپنے وقت کا 100 فیصد حصہ شفاخانے اور مرض سے افاقہ حاصل کرنے میں صرف نہیں کرنا پڑے گا۔ ٹرومین نے اس نصیحت پر عمل کیا، انہیں لوگ صبح سویرے چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھتے تھے، ان کا یہ معمول آخر عمر تک رہا اور 83 سال کی عمر پائی۔ امریکی قومی ادارہ صحت کا سربراہ جب موسم درست ہوتا ہے تو دفتر سائیکل پر جاتا ہے۔
”خود مجھے ہمیشہ سے چلنے پھرنے کا شوق رہا ہے۔ مدرسے تک جو نصف ساعت کی مسافت پر تھا، پیدل جایا کرتا تھا، علی گڑھ سے ہوسٹل سے کالج تک کی آمدورفت میں خاصی ورزش ہوجاتی تھی۔ لاہور میں ہوسٹل سے میڈیکل کالج تک صبح، عصر اور رات میں کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر جایا کرتا تھا۔ شام کی روزانہ سیر براستہ مال، لارنس باغ تک اس زمانے کا معمول تھا جس کی دلچسپ یاد آج بھی باقی ہے۔ انگلستان میں پیدل چلنے کیلئے مواقع نکال لیتا تھا اور دور دور تک جایا کرتا تھا۔ اب بھی چلنے کیلئے بہانے تلاش کرتا ہوں۔ اگر دل چسپی لی جائے تو چلنا باعث لطف ہے کہ دل چسپی ذہنی رویے کا نام ہے۔ ورزش کے ساتھ سزا کا تصور نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ اٹھک بیٹھک کرانے سے ہوتا ہے اور جس سے خوف و بیزاری پیدا ہوتی ہے۔،، (ایک طبیب کی یادداشتیں)
حرکت اور تندرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ متحرک و فعال آدمی بالعموم فائدے میں رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اچھا محسوس کرتے ہیں بلکہ بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی غذا کی اصلاح بہتر طرح اور کرب سے نمٹنے کے لائحہ عمل کو اچھی طرح اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں معذوریت اور قبل ازوقت موت کا امکان بھی کم ہے۔ عمر کے ساتھ سال خوردگی کی رفتار کا تعلق بھی فعالیت سے ہے۔ مشہور کتاب ”دریائے کوائی کے پل،، میں ایک ایسے کماندار کا ذکر ہے جسے جاپانیوں نے دوران جنگ عظیم دوم ایک تنگ جگہ میں مقید کررکھا تھا۔ ہمیشہ نشینی کی وجہ سے اس کی فعالیت صرف پندرہ دن میں اس قدر کم ہوگئی کہ وہ کھڑا نہیں ہوسکتا تھا کھڑا ہوتا تو چل نہیں سکتا تھا۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ اگر کسی حصہ جسم کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ بے کار اور جامد ہوسکتا ہے۔
ورزش اپنی اہمیت میں غذا سے کم اہم نہیں، گو اس کی افادیت سے اکثر لوگ بے خبر ہیں جس طرح محبت کرنے سے محبت میں اضافہ اور کسی کام کے کرنے سے کارکردگی بہتر ہوتی ہے اسی طرح ورزش کرنے سے اہلیت جسم بہتر ہوجاتی ہے۔ ورزش کرنے والے تندرست رہتے ہیں اور بغیر تھکے ہوئے زیادہ دیر تک کام کرسکتے ہیں۔
اول اول 1950ءمیں حملہ قلب اور ناگہانی اموات کے سدباب میں ورزش کے مفید اثرات کا علم ہوا۔ یہ ہمیشہ سے معلوم ہے کہ ڈاکیے، ساحلی مزدور اور بڑی موٹرگاڑیوں کے رہدار (کنڈیکٹر) عارضہ قلب میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں ورزش کے ضمن میں ہمارے خیالات و افعال میں انقلابی تبدیلی آئی ہے اورروشن خیال افراد میں اب ورزش طریق زندگی میں شامل ہوتی جارہی ہے جس طرح ذہن کیلئے پڑھنا ضروری ہے اسی طرح بدن کیلئے ورزش اہم ہے۔ مشہور عالمی ماہر قلب پال وہائٹ کے بقول ”جدید طرز زندگی کا سب سے بڑا نقصان ہمیں سڑک سے اٹھا کر موٹرگاڑی میں بٹھانا ہے۔،، اس کا نسخہ صحت ہے: میں ہر شخص کو سائیکل سوار بنانا چاہتا ہوں۔ یہ عارضہ قلب کو روکنے کا اہم طریقہ ہے اگر کوئی شخص روزانہ پانچ میل سیر کرے تو ایک ناخوش آدمی کو اس قدر فائدہ ہوگا جس قدر تمام ادویہ اور علم النفس کے طریقوں سے نہیں ہوسکتا۔،،
ورزش نہ کرنے والوں کے مقابلے میں ورزش کرنے والوں میں ایک سال میں دل ایک کروڑ مرتبہ کم دھڑکتا ہے، کم رفتار سے دھڑکتا ہے اور تھکتا نہیںہے۔ آہستہ رفتار دل میں خون بھی زیادہ آتا ہے اور ایسا دل اپنا کام بھی زیادہ چابکدستی سے کرتا ہے۔ ورزش سے رگوں کی صحت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ پٹھوں کی چھوٹی رگوں میں اضافہ زیادہ ہوکر گردش خون اور آکسیجن کی رسد زیادہ ہوجاتی ہے۔ جسم کے تمام پٹھوں میں ورزش کرنے سے توانائی پہنچانے والی خلیاتی خیتی ریزے (مائیو کانڈریا) زیادہ ہوجاتے ہیں اور پٹھوں کی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ورزش کرنے سے کولیسٹرول خون کی سطح درست رہتی ہے خراب کولیسٹرول (ایل ڈی ایل جو عارضہ رگ دل میں اہم کردار کرتا ہے) کم ہوجاتی ہے اس کے برعکس اچھی کولیسٹرول (ایچ ڈی ایل جو عارضہ رگ دل سے تحفظ فراہم کرتا ہے) زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ مفید اثرات صرف غذائی اصلاح سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ ورزش کرنے سے مضر افراط حلوین (ٹرائی گلیسرائڈ) بھی کم ہوتی ہے۔ خون میں سدے ساخت ہونے کا امکان گھٹتا ہے جس کے نتیجے میں حملہ قلب کے امکان میں کمی آتی ہے۔ چنانچہ عارضہ رگ دل کے سدباب شکایات قلب کی کمی اور عارضہ قلب کے بعد ورزش کی افادیت مسلم ہے۔ روزانہ پابندی سے 40 منٹ تیز قدموں سے سیر کرنے سے عارضہ رگ دل کا خطرہ 30سے 60 فیصد کم ہوجاتا ہے اور ناگہانی اموات کا امکان گھٹتا ہے۔ ورزش سے جسم کی مضافاتی رگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ جن افراد کو چلنے پھرنے سے ٹانگوں میں درد ہوتا ہے آہستہ آہستہ اضافہ کی جانے والی چہل قدمی سے ٹانگوں کے درد میں کمی آسکتی ہے۔

خوشبو سے پیچیدہ امراض علاج


ایک اور فرانسیسی معالج ڈاکٹر والنے خوشبودار تیلوں کو نہ صرف جلدی امراض بلکہ پریشانی اور بے خوابی جیسے عوارض کیلئے استعمال کرنے لگا۔ والنے جنگ عظیم دوم میں فوج میں سرجن تھا۔ وہ جسم کے جلے ہوئے حصوں اور دیگر زخموں کا علاج لونگ، پودینے اور کیمولا کے تیلوں سے کرتا رہا
دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف ثقافتوں میں کئی متبادل طریق ہائے علاج رائج ہیں لیکن امراض ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ سرطان اور مرض قلب تو قاتل ہیں۔ فالج (اسٹروک) معذور کردینے والا ہے۔ ذیابیطس مختلف امراض کی ماں ہے جہاں تک سائنسی معلومات اور شہادتوں کا تعلق ہے متبادل علاج ان قاتل اور معذور کردینے والے اور زندگی بھر وبال جان بن جانے والے جلدی امراض کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتے تاہم وہ دردوں اور بعض دیگر تکلیفوں میں افاقہ لاتے ہیں۔ ایک مریض کیلئے عارضی افاقہ بھی بڑی بات ہے۔ انہی متبادل طریق ہائے علاج میں سے ایک خوشبوئوں سے علاج کا طریقہ بھی ہے۔
خوشبوئیں اتنی ہی پرانی ہیں جتنا کہ انسان۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ بعض خوشبوئیں دل کو فرحت پہنچاتی ہیں تو بعض دماغ کو معطر بنا کر تحریک دیتی ہیں۔ بعض خوشبودار تیلوں کی مالش فائدہ پہنچاتی ہے بعض خوشبوئیں جنہیں ہمارے باپ دادا یا دادی نانی استعمال کرتی ہیں ہمارے ذہن میں آبائو اجداد کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ مشہور ماہر نفسیات فرائڈ کا خیال تھا کہ شہری زندگی ہمیں پھولوں اور جڑی بوٹیوں کی خوشبوئوں سے محروم کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں خلل دماغ کی تکلیف عام ہوتی ہے۔
خوشبو مذہبی رسومات میں بھی استعمال ہوتی ہیں لوگوں کے بڑے بڑے اجتماعات میں جہاں طرح طرح کی ناخوشگوار بوئیں ہوتی ہیں ان پر قابو پانے کیلئے بھی لوگ خوشبوئیں استعمال کرتے ہیں بعض پودوں کی بو مچھروں کو بھگاتی ہے۔
تاہم جدید دور میں 1920ءکا عشرہ اس لیے اہم ہے کہ اس میں بعض خوشبوئوں کا طبی نگہداشت سے تعلق قائم ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ایک فرانسیسی کیمیا داں رینے موریس گانے فوس ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ اس کا ہاتھ بہت جل گیا۔ وہاں کوئی علاج دستیاب نہیں تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ خالص لیونڈر کے تیل میں ڈال دیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ درد اور سرخی جلد دور ہوگئی۔ گانے فوس نے بتایا کہ چند گھنٹوں میں اس کے ہاتھ کی جلد زخم کے نشان کے بغیر ٹھیک ہوگئی۔ اس نے اپنی سوچ کے مطابق شفابخشی کی وجہ لیونڈر کے تیل کی مانع عفونت خاصیت کو قرار دیا۔ اس کے بعد اس نے کئی تیلوں کو جلد کی مختلف تکلیفوں میں استعمال کرکے دیکھا بعض میں اسے شفاءکے شواہد بھی ملے۔
ایک اور فرانسیسی معالج ڈاکٹر والنے خوشبودار تیلوں کو نہ صرف جلدی امراض بلکہ پریشانی اور بے خوابی جیسے عوارض کیلئے استعمال کرنے لگا۔ والنے جنگ عظیم دوم میں فوج میں سرجن تھا۔ وہ جسم کے جلے ہوئے حصوں اور دیگر زخموں کا علاج لونگ، پودینے اور کیمولا کے تیلوں سے کرتا رہا۔ اس نے یہ بھی معلوم کیا کہ بعض خوشبوئیں نفسیاتی عوارض میں افاقہ لاتی ہیں۔ اس نے مشہور کتاب خوشبوئوں سے علاج کی تصنیف کی۔
فرانس خوشبو سازی کا مرکز چلا آتا ہے۔ یہاں جڑی بوٹیوں اور پودوں کے چالیس تیل تیار ہوتے ہیں۔ بعض اسپرے کیے جاتے ہیں، بعض مالش کیلئے استعمال ہوتے ہیں، بعض گرم یا ٹھنڈی پٹیاں رکھنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض تیل جن کی تعداد کم ہے دوا کے طور پر بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔صنعت خوشبو سازی اور طبی خوشبو سازی الگ الگ چیزیں ہیں۔ سینٹ، عطر وغیرہ جیسی چیزوں کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے جسم سے خوشگواربو آئے۔
خوشبوئوں سے علاج کرنے والے کہتے ہیں کہ خوشبو کے سماجی فوائد کے علاوہ خوشبو آدمی کے مزاج کو بہتر بنا کر صحت کی بہتری کا کردار ادا کرتی ہے۔ کچھ تیل دردوں کو آرام پہنچاتے ہیں یا تحریک دیتے ہیں اور طاقت پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح خوشبو جسمانی افعال کو فائدہ پہنچاتی ہے، مثلاً نبض اور بلڈپریشر کو۔ لونگ، روز میری، لیونڈر اور پودینہ منہ کے لعابی غدود کو تحریک دیتے ہیں۔ کافور، وج، زوفا کے تیل قلب اور گردش خون کیلئے مفید ہیں۔ بعض خوشبوئیں لمف بے نالی کے غدودوں اعصاب اور نظام بول کو متاثر کرتی ہیں۔ اترنج (لیموں کی ایک قسم)لیونڈر اور دیودار کی بعض اقسام دافع عفوفیت خواص پائے جاتے ہیں۔ یہ تیل بعض جلدی امراض میں لگائے جاتے ہیں۔ چشم گائو کا تیل خراشوں کے دردوں میں استعمال ہوتا ہے۔ خوشبوئوں سے علاج زیادہ تر فرانس میں ہے امریکہ میں اب اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

خوشبودار تیلوں کا استعمال مالش
عام طور پر عضلے کی موچ اور درد کیلئے اختیار کی جاتی ہے۔ ایک قسم کی سمندر سوکھ ساج اور لیونڈر کے تیل کو بادام کے تیل میں ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک بڑے چمچے تیل میں پانچ قطرے خوشبو کے کافی ہوتے ہیں۔ مالش کے بعد فوراً دھوپ میں نہیں جانا چاہیے۔

خوشبو بدن کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟
ہماری ناک میں ایسے حساس اعصاب ہوتے ہیں جو خوشبو یا بدبو دونوں سے فوری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ بدبو یا خوشبو کو وصول کرتے ہیں اس لیے ان کو وصول کنندہ یا آخذ کہا جاتا ہے۔ یہ باریک بالوں کی طرح کے آخذ اعصاب گھس کر ختم بھی ہوجاتے ہیں لیکن بوڑھوں میں زیادہ دیر لگتی ہے۔ آخذ اعصاب خوشبو یا بدبو کا پیغام دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ دماغ ہی میں یادداشت، جذبات اور جنس کے مقامات ہوتے ہیں۔ خوشبو یا بدبو ہمارے اندر محبت، نفرت، شہوت، پریشانی اور غم کو برانگیختہ کرسکتی ہے اور یہ کیفیات ہماری نبض، فشار خون، تنفس اور شاید دفاعی نظام کو متاثرکرسکتی ہے۔ یہ عمل سنگین امراض میں شفاءبخشی کا باعث نہیں بن سکتی۔

خوشبوئوں سے علاج کے علم برداروں کے دعوے
خوشبوئوں سے علاج کے ماہرین و معالجین کا دعویٰ ہے کہ خوشبوئوں میں جراثیم کو ہلاک کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مثلاً صندل کا تیل ورم حنجرہ (حلق میں آواز پیدا کرنے والے حصے میں ورم) میں مفید ہے یا یہ کہ دارچینی اور سفیدے میں جراثیم کو ہلاک کرنے کی طاقت ہے۔ 

جوڑوں کا ورم
جوڑوں کے ورم اور درد میں جوڑوں پر لونگ، دارچینی، صحرائی پودینہ اور سفیدے کا تیل ملنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

بعض مطالعات کے نتائج
جو معمر لوگ نیند کیلئے نیند لانے والی دوا کی بہت سی گولیاں استعمال کرتے تھے، ان کے سونے کے کمرے میں جب لیونڈر کی خوشبو بکھیر دی گئی تو وہ بچوں کی طرح مزے سے سوتے رہے۔ لیونڈر کی خوشبو خواب آور تاثیر کیلئے مشہور ہے۔

ایک بات نے کایا پلٹ دی


ایک بات نے کایا پلٹ دی


غالباً 1982ءکی بات ہے میں کلاس میں پڑھارہا تھا اسی دوران ڈاکیہ آیا اور اس نے میرا لفافہ میرے حوالے کیا۔ میں نے اسے کھولنے کیلئے ابتدا ہی کی تھی کہ میرے ایک ساتھی ٹیچر صوفی عبدالستار صاحب باز کی طرح جھپٹے اور میرا لفافہ میرے ہاتھوں چھین کر باہر لے گئے۔ میں نے ناراضگی کی شکل میں انہیں کہا کہ لفافہ میرا ہے اور تم نے کیوں چھینا ہے؟ جواباً فرمانے لگے۔ ”یہ وقت امانت ہے‘ خیانت نہ کرو“


انہوں نے میرے ضمیر کو ایک ایسی ضرب لگائی اور اس دن کے بعد آج تک میری یہ کوشش رہی ہے کہ بچوںکو پڑھانے کیلئے جو وقت امانتاً مجھے ملا ہے اس میں خیانت نہ کروں اگر کبھی کچھ کوتاہی ہوجائے تو اوور ٹائم لے کر کمی دور کردوں۔

خواتین کا رول



جس طرح گھر میں خواتین کا رول بہ حیثیت ماں اور بیوی بڑی سماجی اہمیت کا حامل ہے اسی طرح مردوں کا یہ گھریلو رول بہ حیثیت باپ اور شوہربرابر کا اہم ہے۔ اس سلسلے میں شوہر یا بیوی دونوں میں سے کسی کو خود کو برتر‘ افضل یا خودمختار کل تصور نہیں کرنا چاہیے


ازدواجی زندگی کو پُرمسرت بھرپور اور ہم آہنگی بنانا زن و شوہر میں سے کسی ایک کی ذمہ داری نہیں بلکہ ایسے خوشگوار سے ماحول کیلئے دونوں کی عملی ذہنی اور نفسیاتی ہم آہنگی اور تعاون لازمی ہے۔ اس طرح کا خوشگوار گھریلو ماحول نہ صرف عمدہ اور کامیاب گرہستی‘ ازدواجی زندگی اور صحت کیلئے ضروری ہے بلکہ گھر کے عمدہ ماحول یا زن و شوہر میں گہری رفاقت کا یہ احساس شوہر کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور بچوں کی نفسیاتی اور اخلاقی تربیت پر بھی دور رس طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسلام نے بھی جو لوگوں کی مادی‘ اخلاقی اور روحانی سربلندی کا پیام بر ہے زن و شوہر کے درمیان گہری مفاہمت ہم آہنگی محبت اور تعاون پر زور دیا ہے اس کا واضح سبب یہ ہے کہ اچھے اور صحت مند معاشرے کا آغاز گھر کی چار دیواری یا خاندان سے ہوتا ہے۔


جس طرح گھر میں خواتین کا رول بہ حیثیت ماں اور بیوی بڑی سماجی اہمیت کا حامل ہے اسی طرح مردوں کا یہ گھریلو رول بہ حیثیت باپ اور شوہربرابر کا اہم ہے۔ اس سلسلے میں شوہر یا بیوی دونوں میں سے کسی کو خود کو برتر‘ افضل یا خودمختار کل تصور نہیں کرنا چاہیے۔ عموماً یہ غلطی مردوں سے سرزد ہوتی ہے کہ وہ گھر میں ہر معاملے میں عورت کو محکوم اور خود کو حاکم دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کے بے شمار نقصانات ہیں۔ گھریلو اور ازدواجی زندگی میں بدمزگی یا عورتوں کی مظلومیت اور گھٹن کا اثر بچوں‘ خود شوہر اور بیوی کی صحت‘ نفسیاتی عوامل اور کارکردگی پر پڑتا ہے۔ اس کے مضراثرات سے خاص طور پر بچوں کے طرز عمل‘ عادات‘ اخلاق اور نفسیات کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔





خاتون! آپ پر بہت کچھ منحصر ہے....!!!


چونکہ مرد کام کاج اور ملازمت کی غرض سے زیادہ تر گھر سے باہر رہتے ہیں اس لیے گھر کو حقیقی معنے میں گوشہ عافیت بنانے میں بڑا حصہ عورت یا بیوی کا ہوتا ہے لیکن وہ بے چاری مرد کے تدبر‘ تعاون اور خلوص عمل کے بغیر آخر کیسے اس ذمہ داری میںکامیاب ہوسکتی ہے؟ خواتین کو شوہر کے تعاون کی بہت ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ تعاون اور خلوص اور فکری ربط حاصل کرنا بھی تو اپنی جگہ تربیت اور شعور کا طالب ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ”خاتون آپ پر بہت کچھ منحصر ہے“ تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ آپ شوہر کو ڈھالنے میں بہت اہم رول ادا کرتی ہیں۔ اس سلسلہ میں زن و شوہر کے درمیان ذہنی قربت اور تعاون کا انحصار چھوٹی چھوٹی گھریلو باتوں پر ہوتا ہے جو بظاہر اہم نہیں معلوم ہوتیں لیکن بہت اہم ہوتی ہیں۔ ماہرین کی رائے میں چند اہم عوام درج ذیل ہیں:۔


٭ زن و شوہر کا رویہ اور گھریلو عادتیں۔ ٭ کام اور اوقات کار میں تعاون‘ گھریلو مشاغل اور دلچسپیاں۔ ٭ ایک دوسرے کیلئے خلوص اور فکر۔ ٭ مزاج میں یکسانیت اور باہمی ہمدردی جس کا اظہار عمل کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی زبانی بھی کرنا چاہیے۔ ٭ توصیفِ باہمی اور حوصلہ افزائی۔ ٭ ایک دوسرے کی حفاظت اور دیکھ بھال جس سے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٭ ایک دوسرے پر مالی‘ اخلاقی‘ جنسی اور نفسیاتی بھروسہ اور کلی اعتماد۔





خاتون ماہر نفسیات کی رائے اور مشورہ


امریکہ کی مشہور ماہر نفسیات خاتون ڈاکٹر لزووڈ نے سرد مہری سے پیش آنے والے شوہروں اور بیویوں کیلئے گھریلو اور ازدواجی ماحول میں گرما گرمی اور رونق پھر سے لوٹانے کیلئے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں چند دلچسپ اور مفید تجاویز اور مشورے پیش کیے ہیں جو خواتین اور مردوں دونوں کیلئے یکساں طور پر سود مند اور مفید ثابت ہوئے ہیں۔ ان کا سب سے پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کو اپنی مشکلات‘ مسائل‘ الجھنوں‘ خوشیوں‘ کامیابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں اعتماد میں لیں اور مطلع رکھیں نیز ایک دوسرے سے مشورے کرتے رہیں ان کے مشوروں کی ترتیب اس طرح سے ہے:۔


کلی رفاقت اور ساتھ اس سے مراد بچوں کی نگہداشت‘ گھریلو کاموں اور مسائل میں تعاون‘ کتابوں کے مطالعے میں تبادلہ خیال اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں پسند وغیرہ کو حتی الامکان یکساں بنانے کی کوشش‘ ایک دوسرے کی خوشی‘ دکھ‘ الجھن‘ اور جذبات میں گہری شمولیت ہے۔ چھوٹی چھوٹی الجھنوں کو باہمی طور پر حل کرکے اُن بڑی الجھنوں سے بچایا جاسکتا ہے جو بعد کو پیش آسکتی ہیں۔ مردوں کیلئے ملازمت گھر کی اقتصادی بہبود کیلئے ناگزیر ہے اس لیے وہ زیادہ وقت اسی تگ و دو میں صرف کرنے پر مجبور ہیں۔ اسے دور کرنے میں انہیں کئی طرح کی الجھنوں‘ تلخیوں‘ کامیابیوں یا ناکامیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کے تمام احساسات میں بیویاں شوہروں کو مشورہ دے سکتی ہیں یا کم سے کم ہمدردانہ باتوں سے ان کا ذہنی بوجھ ہلکا کرسکتی ہیں۔ اس میں شوہروں کو بھی بیویوں کی رائے اور ہمدردانہ جذبات کی قدر کرنی چاہیے اور انہیں یہ احساس دلانا چاہیے کہ ان کی رائے اور ہمدردی بہت اہم ہے۔ ڈاکٹر لزووڈ نے بتایا ہے میرے اس مشورے پر عمل کرکے کئی گھر‘ ماحول کو حیرت انگیز طور پر خوشگوار بناچکے ہیں۔ مثلاً اگر شوہر کسی بک کا مطالعہ کررہا ہے تو بیوی بور ہو کر چڑچڑا پن نہیں کرتی اور جب بیوی سلائی یا کڑھائی میں لگی ہوتی ہے تو شوہر گھر کے چھوٹے موٹے کام کرکے اس کی مدد کرتا ہے بلکہ اب تو کئی گھروں میں ان مشوروں سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی شوہر کے بک کے مطالعہ کے اوقات میں اسے کافی یا کیک بنا کر کھلاتی ہے اور جب بیوی کپڑے دھوتی ہے یا کڑھائی بنائی کرتی ہے تو شوہر بچوں کو پڑھاتا ہے۔ بیوی کہتی ہے کہ ”اچھا میں تمہارے ساتھ کیرم بورڈ کھیلوں گی تم میرے ساتھ سہیلی کے گھر چلو“ لیجئے سارا جھگڑا ہی ختم!

گردے کیلئے مجرب ترین نسخہ



گردے کیلئے مجرب ترین نسخہ


میٹھا سوڈا تین گرام کے گیارہ پیکٹ بنالیں‘ ایک پیکٹ مریض کو صبح نہار منہ پانی سے دیں اور دن میں تقریباً زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے چاہے پیاس ہویا نہ ہو۔ اگر مرض پرانی ہے تویہ نسخہ اکتالیس دن استعمال کریں۔ورنہ گیارہ دن میں انشاءاللہ آرام ہوگا۔


ہر مقصد میں کامیابی کیلئے


ہر مقصد میں کامیابی کیلئے

یہ عمل میرا آزمایا ہوا ہے ‘ میں نے جب بھی کیا ہے سوفیصد زرلٹ ملے ہیں۔صبح کی نماز کے بعد سو مرتبہ اول و آخر درود شریف سورہ توبہ کی آخری آیات کا ورد کریں۔ آیت یہ ہے:۔

حَسبِی اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیہِ تَوَکَّلتُ وَھُوَ رَبُّ العَرشِ العَظِیمَo (حرا بی بی‘ ڈیرہ اسماعیل خان)

جوڑوں کے درد کیلئے آسان نسخہ


جوڑوں کے درد کیلئے آسان نسخہ


عقر قرحا‘ سونڈ ہم وزن پیس کر اس میں چھوٹا شہد ملا کر گولیاں بنائیں‘ ایک رتی کی ایک گولی ہو۔ریح بادی اور جوڑوں کے درد کیلئے بہت مفید ہے۔ رات کو سوتے وقت ایک گولی دودھ سے لیں۔سید شہباز بخاری‘ احمد پور شرقیہ)

گنجے پن کا شرطیہ علاج


گنجے پن کا شرطیہ علاج


رتن جوت‘ ریٹھا‘ آملہ‘ سکاکائی‘ امربیل ان چیزوں کو ہم وزن لے کر باریک کرلیں‘ مشین میں باریک نہ کریں اس طرح تاثیر ختم ہوجائیگی۔ ان کو مکس کرکے ایک کلو سرسوں کے تیل میں ڈال دیں اور تیل پانچ دن بعد استعمال کریں اس وقت تک تیل کا رنگ سرخ ہوجائیگا۔ چند عرصہ مستقل استعمال سے آپ کے گرتے بال رک جائینگے اور گرے ہوئے بال بھی دوبارہ اگ آئینگے۔

خسرہ کیلئے مجرب نسخہ


خسرہ کیلئے مجرب نسخہ


ھوالشافی: خوب کلاں 10 گرام‘ منقہ 5 دانے‘ گائو زبان 5 گرام‘ لونگ 4دانے‘ الائچی خورد 3 دانے‘ انجیر آدھا دانہ۔ ان چیزوں کو مکس کرکے دس پڑیاں بنالیں‘روزانہ ایک پڑی کو ابال کر پانی کو چھان لیں دو چمچے دن میں 6-5 دفعہ دیں‘ دو تین دن میں بخار اتر جائیگا‘ خسرہ کے دانے بھی ختم ہوجائینگے۔

جنت میں پہنچانے والا عمل


جنت میں پہنچانے والا عمل


طبرانی شریف کی روایت ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس کے کرنے سے مجھے جنت مل جائے نبی علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا:۔ غصہ نہ کیا کر‘ اللہ رب العزت اس عمل کی وجہ سے تجھے جنت عطا فرمادیں گے۔ حدیث میں آتا ہے جو جنت میں اونچے محل اور اونچے درجات چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ جو توڑے اس سے وہ جوڑے‘ جو محروم کرے اسے وہ عطا کرے جو ظلم کرے اس کو معاف کردے۔ یعنی ان تین کاموں کے کرنے والے بندوں کو اونچے محل اور اونچے درجات نصیب ہونگے۔

کینسر‘ ہیپاٹائٹس‘ رسولی‘ ٹی بی اور دوسریموذی امراض کیلئے میرا تجربہ شدہ روحانی نسخہ


کینسر‘ ہیپاٹائٹس‘ رسولی‘ ٹی بی اور دوسریموذی امراض کیلئے میرا تجربہ شدہ روحانی نسخہ


٭ اول و آخر گیارہ‘ گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھنا ہے۔ ٭ بسم اللہ الرحمن الرحیم 786مرتبہ ٭سورہ  فاتحہ 101مرتبہ ٭ سورہ  رحمن 7مرتبہ ٭سورہ  قریش 1001 مرتبہ ٭ آیت کریمہ 313 مرتبہ ٭ چاروں قل 4000مرتبہ (یعنی ہر سورة ایک ہزار مرتبہ) ٭آیة الکرسی 41 مرتبہ۔ ٭ آیت الشفاء(التوبہ 14‘ یونس 57‘ النحل 41‘ الاسراء82‘ الشعراء80‘ حٰم السجدہ 44) 33مرتبہ۔ یہ سب پانی پر دم کرکے وہ پانی اکیس دن تک مریض کو پلائیں۔ نوٹ: پانی پینے کا طریقہ یہ ہے:۔ پانی دن میں تین مرتبہ باوضو پینا ہے۔


فجر کی نماز کے بعد‘ ظہر کی نماز کے بعد‘ عشاءکی نماز کے بعد۔ ہردفعہ پانی پیتے وقت اکیس مرتبہ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ اور سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر پانی پر دم کریں اورپانی پی لیا کریں۔ اکیس دن کے بعد کسی اچھی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائیں تو انشاءاللہ آپ کو یہ بیماری نہیں ہوگی۔ ( ایم آر مروت)


٭٭٭٭٭

دانتوں کی پیلاہٹ دور کرنے کیلئے


٭٭٭٭


دانتوں کی پیلاہٹ دور کرنے کیلئے


ایک چائے کا چمچ میٹھا سوڈا‘ ایک چمچ پسا ہوا نمک او ر ایک چمچ پسا ہوا سہاگہ لیکر تینوں کو مکس کرلیں۔ روزانہ اس سے دانت صاف کریں۔ انشاءاللہ دانتوں کی پیلاہٹ دو رہوجائیگی نیز منہ سے پیاز کی بودور کرنے کیلئے تھوڑا سا دھنیا چبالیں یا شکر کھالیں۔(ا۔ ب۔ احمد پور شرقیہ)


٭٭٭٭٭

خاوند کی نظروں میں محبوب بننے کیلئے


خاوند کی نظروں میں محبوب بننے کیلئے


جس عورت کا خاوند اسے اچھا نہ جانتا ہو 7 دن لگاتار یہ عمل کرے‘ اول غسل کرے پھر دو رکعت نماز نفل پڑھے۔ دونوں رکعت میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ ایک مرتبہ سورہ اخلاص نماز کا سلام پھیر کر کھڑے ہوکر 3 ہزار مرتبہ یَاعَزِیزُ پڑھے پھر چوتھے دن سے پانچ ہزارمرتبہ یَاعَزِیزُ بیٹھ کر پڑھے اسی طرح سات دن پورے کرے۔ انشاءاللہ خاوند کی نظروں میں نہایت عزت والی اور محبوب بن جائیگی۔(خالد محمود‘ احمد پورشرقیہ)

دوائی کیسے پہنچی‘ اسے کون لایا؟


دوائی کیسے پہنچی‘ اسے کون لایا؟


ایک ماہ قبل کا واقعہ ہے میرے گھر‘ میرے بستر پر ”اکسیرالبدن“ کی ڈبی پائی گئی پتا چلا کہ ہمسائے دے گئے ہیں جنہیں کوئی اجنبی میرے لیے دے گیا ہے۔ میں نے فوراً بذریعہ فون دفتر ماہنامہ عبقری لاہور رابطہ کیا وہاں سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔


حکیم صاحب سے التماس ہے کہ اس بارے مجھے رہنمائی فرمائیں کہ یہ دوائی بغیر مانگے کس طرح میرے پاس پہنچی؟ یہ بذریعہ ڈاک بھی نہیں آئی‘ میں نے کسی کو لانے کیلئے بھی نہیں کہا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے اس کی اشد ضرورت تھی۔ اس کی قیمت کس نے ادا کی؟ اور کون وہاں لایا یہ ابھی تک معمہ حل نہیں ہوا۔

سردرد جاتا رہا



سردرد جاتا رہا    

میرے بیٹے محمد خطیب الرحمن جس نے ابھی ایف ایس سی کا امتحان دیا ہے عرصہ دو سال سے سردرد کی تکلیف میں مبتلا تھا‘ پہلے دیسی نسخے استعمال کیے‘ عارضی آرام آتا رہا‘ پھر انگریزی ادویات/ ٹیسٹ وغیرہ پر ہزاروں روپے خرچ کیے مگر عارضی فائدہ ہوتا رہا۔ پھر اچانک ایک دن حکیم صاحب میرے ادارہ میں تشریف لائے ان کا یہ دورہ اچانک تھا۔ صرف دو تین گھنٹے پہلے فون پر رابطہ ہوا تھا‘ میری کتنی خوش نصیبی تھی کہ لوگ ان کی زیارت و محفل کیلئے ترستے ہیں اور وہ میرے پاس تشریف لائے۔ اس دوران میرا بیٹا محمد خطیب الرحمن بھی وہاں موجود تھا جو کہ ننگے سر تھا۔ حکیم صاحب کی نگاہ جونہی میرے بیٹے پر پڑی تو فرمایا ”خطیب الرحمن! اللہ والے! ایک بات یاد رکھنا کہ آئندہ تم نے ننگے سر نہیں پھرنا“ اُس دن سے بچہ ننگے سر باہر نہیں نکلا اور اس دن سے لیکر آج تک اس کے سر میں تکلیف بھی نہیں ہوئی۔ اللہ والوں کی زبان میں کتنی تاثیر ہوتی ہے۔ انہیں تو بچے کی سردرد کی تکلیف کے بارے کچھ بھی نہیں کہا تھا مگر انہوں نے ازراہ شفقت ایک سنت پر عمل کی نصیحت کی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کے صدقے بچے کے سردرد کی تکلیف جاتی رہی۔


خارش کا نسخہ


خارش کا نسخہ


مجھے کافی عرصہ سے خارش تھی میں نے کئی نسخہ جات استعمال کیے لیکن فائدہ وقتی ہوتا تھا پھر مجھے کسی نے یہ نسخہ استعمال کرنے کا کہا میں نے کچھ عرصہ استعمال کیا تو مجھے خارش سے نجات مل گئی۔ اس کے بعد میں نے جس کسی کو بھی یہ نسخہ دیا اللہ نے سب کو شفاءدی۔ نسخہ درج ذیل ہے:۔





ھوالشافی


 گندھک“نیلاتھوتھا‘ بابچی‘ پارہ تمام 50,50 گرام لیں۔طریقہ استعمال: سب کو پیس کر گائیں یا بھینس کے مکھن میں حل کریں اس کے بعد پارہ بھی حل کریں اور خارش زدہ جگہ پر لگائیں۔(نوٹ: پارہ اور نیلا تھوتھا زہر ہیں احتیاط سے صرف خارش زدہ جگہ پرلگائیں کہیں منہ میں نہ چلا جائے۔

کاکروچ



کاکروچ جسے ہمارے ہاں لال بیگ کہا جاتا ہے‘ زمین پر بسنے والے قدیم ترین جانوروں میں سے ہے۔ 17 کروڑ برس پہلے جب کرہ ارض پر طویل قامت حیوانوں کا دور شروع ہوا جنہیں ہم ڈائینوساروں کے نام سے یاد کرتے ہیں تو یہ ننھا سا کیڑا انہیں خوش آمدید کہنے کیلئے موجود تھا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی چھوٹی چھوٹی تیز آنکھیں 35 کروڑ سال سے کائنات کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کررہی ہیں۔ آئیے ہم اس ننھے منے کیڑے کی زندگی پر ایک نظر ڈالیں۔


کاکروچ بلا کا سخت جان ہے‘ تپتے ہوئے صحرائوں سے لے کر انتہائی سرد اور برفانی علاقوں تک‘ ہرجگہ پایا جاتا ہے۔ کتابوں‘ کاپیوں‘ میزوں‘ کرسیوں اور گھریلو استعمال کی دوسری چیزوں میں اکثر چھپا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ریڈیو کھولیں تو اندر سے نکل کر بھاگ جاتا ہے۔ یہ گھروں‘ کھلے میدانوں‘ نہری علاقوں اور جنگلوں وغیرہ میں رہتا ہے اور پرندوں اور جانوروں کی محفوظ شدہ خوراک پر ہاتھ صاف کرتا ہیں۔ کاکروچ کی سخت جانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ہر چیز کھاجاتا ہے۔ پودوں کی کونپلیں‘ جوتے‘ پرانی چیزوں پر لگی ہوئی پھپھوندی‘ کپڑوںپر مکھن اور گھی کے داغ‘ وارنش‘ کپڑے دھونے کا صابن‘ نرم لکڑی وغیرہ اس کی دل پسند خوراک ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اپنی اتاری ہوئی کھال تک چٹ کر جاتاہے۔‘ بھوکا ہو تو اپنے انڈے تک کھانے سے نہیں چوکتا۔ کاکروچ ایک ماہ تک خوراک اور پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے‘ دو ماہ تک صرف پانی پر گزارا کرسکتا ہے‘ پانچ ماہ تک اسے پانی کے بغیر صرف خشک خوراک ملتی رہے‘ تو بھی صحیح سالم رہتا ہے۔ ہمارے ہاں مکانوں‘ دکانوں اور فصلوں کے علاوہ کاکروچ گاڑیوں میں بھی عام ملتا ہے۔ گاڑی کے ڈبوں میں نشستوں کے نیچے اور دراڑوں میں ان کے قبیلے کے قبیلے آباد ہوتے ہیں جو مسافروں کی پھینکی ہوئی گنڈیریوں‘ مونگ پھلی کے چھلکوں‘ کاغذ کے پرزوں اور روٹی کے ٹکڑوں پر گزارا کرتے ہیں۔


کاکروچ سے عموماً بدبو کی وجہ سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہ بواس کے بچائو کا ایک ذریعہ ہے اور جسم کے بعض غدودوں سے نکلتی ہے۔ بہت سے کیڑے مکوڑے کھانے والے جانور محض بدبو کی وجہ سے کاکروچ کو نہیں کھاتے۔ مجموعی طور پر کاکروچ بہت صاف جانور ہے۔ باقاعدہ میک اپ کرتا ہے اور اپنے ہاتھ پائوں اور مونچھیں وغیرہ صاف کرنے میں کئی گھنٹے صرف کردیتا ہے۔


عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ کاکروچ ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کے جراثیم پھیلاتا ہے۔ سائنسدانوں کی نظر میں یہ ایک بے بنیاد الزام ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جنگلوں میں رہنے والے بعض کاکروچ جسامت میں چھوٹے پرندوں کے برابر ہوتے ہیں۔ ان کے جسم کی لمبائی اڑھائی سے تین فٹ ہوجاتی ہے۔


خطرے کے وقت کاکروچ اپنی پچھلی ٹانگوں سے دولتیاں جھاڑتا ہے اور دشمن کو بھگا دیتا ہے۔ دن بھر کاکروچ بل میں رہتا ہے۔ بالعموم رات کے وقت باہر نکلتا ہے۔ اندھیرے میں اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھتا ہے۔ اس کے سر پر تین عام آنکھیں اور دو مرکب آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دور دور تک دیکھ سکتا ہے۔ ویسے اگر اسے اندھا کردیا جائے تو بھی کسی نہ کسی طرح روشنی کو پہچان لیتا ہے۔ مونچھیں اس کی رہنمائی کرتی ہیں اور روزمرہ کے افعال انجام دینے میں اسے بہت مدد دیتی ہیں۔اوپر ہم نے کاکروچ کی سخت جانی کا ذکر کیا تھا اس ضمن میں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اگر اسے برف میں دبا دیا جائے تو برف پگھلنے پر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ بعض اوقات اگر آپ اس پر پائوں رکھ دیں‘ تو بھی یہ نہیں مرتا اور جونہی پائوں اٹھایا جائے صحیح سلامت اپنے راستے پر چل دیتا ہے۔ ضرورت کے وقت یہ اپنے جسم کو سکیڑ لیتا ہے۔ اس خاصیت کی وجہ سے کاکروچ اپنے جسم سے کہیں چھوٹے سوراخوں میں گھس جاتا ہے۔کاکروچ بہت تیزی سے اپنی نسل پھیلاتا ہے۔ مادہ 303 دنوں میں 180 انڈے دیتی ہے۔ بچے ایک ماہ میں جوان ہوجاتے ہیں اور دوبارہ نسل بڑھانے لگتے ہیں۔ اوسط عمر ایک سال ہے۔ایک مرتبہ روسی ماہرین حشرات الارض نے ایک کھوہ میں سے 475000 مردہ کاکروچ نکالے جو صرف ایک جوڑے کی اولاد تھے۔

دوسروں کی خامیوں پر نظر



کیا آپ کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو دوسروں کی خامیوں پر نظر رکھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اپنے بارے میں یہ خوش فہمی دل سے نکال دیں کہ لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں؟ یا لوگ آپ کی قدر کرتے ہوں گے۔ اگر آپ کا رویہ ہر وقت ناقدانہ رہتا ہے تو آپ دوسروں سے یہ توقع رکھنی چھوڑ دیں کہ وہ آپ کے اچھے کاموں کو سراہتے ہوں گے اور آپ کا دل سے احترام کرتے ہوں گے۔ اسی طرح اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ دوسروں کو ان کی خامیاں بتائیں گے اور وہ اس کی اصلاح کرلیں گے تو شاید آپ غلطی پر ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کے روشن پہلو‘ ان کی ذاتی خوبیوں اور اچھائیوں کو تلاش کرنے کی عادت ڈالیں۔ پھر آپ دیکھئے کہ وہ لوگ خودبخود اپنی کمزوریوں اور عیوب کا اعتراف کرلیں گے۔

اگرچہ یہ مثال ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ ہمارے کئی ساتھیوں نے نہ سنی ہو اس لیے اسے بیان کرنا ہی بہتر ہوگا۔ ایک تجارتی مشیر کا کہنا تھا کہ شروع میں جب اس نے یہ پیشہ اختیارکیا تو اسے اس میں بہت کامیابی ہوئی۔ وہ کسی بھی جگہ پہنچ کر ذرا سی دیر میں لوگوں کی خامیوں کو تلاش کرلیتا اور ان کو بتادیتا کہ ان کے کام میں کیا کیا خامیاں اور کیا کیا عیب ہیں لیکن اس کا کہنا ہے کہ اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ لوگ اس بات کو ناپسند کرتے تھے اور ناگواری کا اظہار کرتے تھے حالانکہ اس کا ارادہ کوئی ان کی دل آزاری کرنا ہرگز نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اس خامی کو دور کرنے سے وہ کمپنی یا وہ شخص زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اپنے معاشرتی حلقے میں بھی لوگ اس کی صحبت کو ناپسند کرنے لگے اور بعض تو مشتعل بھی ہوجاتے تھے تب اس نے اپنے ایک اوردوست سے مشورہ کیا جو ہر دلعزیز سمجھا جاتا تھا۔ اس نے اسے بتایا کہ جب کبھی میں کسی تجارتی حلقہ میں جاتا ہوں تو سب سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ سیلز مینوں کے کام میں کون کون سی خوبیاں ہیں اور پھر میں انہیں ان خوبیوں پر مبارکباد دیتا ہوں اور ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ تعاون کرکے مزید ایسی خوبیاں اور کامیابی کی راہیں تلاش کرسکتے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ یہ سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ یہ طریقہ زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے اگر آپ کسی شخص کو یہ اطمینان دلائیں کہ اس کی ذات میں بہت سی خوبیاں ہیں آپ ایک دو کی نشاندہی بھی کریں اور پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ خود اس بات کا اعتراف کرے گا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اسمیں ابھی فلاں خامیاں بھی ہیں۔ نہ صرف اپنی ذات میں بلکہ اپنے شعبے سے متعلق بھی وہ چند کمزوریوں کی خود نشاندہی کردے گا لیکن کیا کیا جائے اس حضرت انسان کا کہ وہ عام طور پر تنقیدی رویہ اختیار کرتاہے۔ کم لوگ ہیں جو تنقید برائے تعمیر کا راستہ منتخب کرتے ہیں ایک ماہر نفسیات اپنی کتاب میں اسی پہلوپر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ ایک شخص اس کے پاس آیا اور اپنی بیوی کی شکایت کرنے لگا۔ شکایت کیا بلکہ شکایتوں کے ڈھیرکہیں۔ چند منٹ میں اس نے یہ ثابت کردیا کہ اس کی بیوی دنیا کی نالائق ترین عورت ہے اور اب وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ اسے طلاق دے دیگا۔ اس کے خیال میں اب اس کے علاوہ کوئی اور صورت باقی نہیں بچی تھی۔

ماہر نفسیات نے اس کی باتیں غور سے سنیں اور پھر کہا کہ دیکھو تمہاری بیوی میں اتنی ساری برائیاں ہیں لیکن کچھ اچھائیاں بھی تو ہوں گی کیونکہ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس میں برائیاں ہی برائیاں ہوں۔ ماہر نفسیات نے اسے کاغذ اور قلم دیا اور کہا کہ اس پر اپنی بیوی کی چند اچھائیاں بھی لکھو اور پندرہ منٹ تک ماہر نفسیات کمرے سے باہر چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس شخص نے چار خوبیاں لکھی تھیں جو اس کی بیوی میں موجود تھیں۔

اب ماہر نفسیات نے اسے بتایا کہ اس پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ تم دونوں میاں بیوی بھی اسی غلطی کا شکار ہو جس میں عام ازدواجی جوڑے نظر آتے ہیں۔ تم دونوں ایک دوسرے کو غیرضروری طور پر نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہو۔ ایک دوسرے پر تنقید کرنے کے عادی ہو اور صرف ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھتے ہو۔ تم ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے لیکن تم چاہو تو اپنی یہ بری عادت تبدیل کرسکتے ہو ۔ صرف ان چار خوبیوں کو لے لو جو اس وقت تم کو اپنی بیوی میںنظر آرہی ہیں اور ان کے علاوہ بھی اپنی بیوی میں خوبیاں تلاش کرو جو ہو سکتا ہے کہ دل میں تم انہیں تسلیم کرتے ہو لیکن زبان پر نہیں لانا چاہتے۔ شاید اس سے تمہاری انا کو تسکین ملتی ہے۔ ماہر نفسیات نے اس سے کہا کہ دیکھو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے ایک دوسرے کو بلند کرو اور اسے سمجھائو کہ وہ بھی یہی رویہ اختیار کرے۔ صرف چند ہفتے اس پر عمل کرکے دیکھو اور پھر مجھے نتیجے سے آگاہ کرو۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ پھر اس شخص کے دل میں کبھی بیوی کو طلاق دینے کا خیال پیدا نہیں ہوا۔ اگر آپ کسی کے عمل کو پسند کرتے ہیں تو اس سے کہیں کہ آپ کا یہ کام مجھے بہت پسند ہے۔ اگر آپ کسی کے عمل کو پسند کرتے ہیں تو اس سے کہیں کہ آپ کا یہ کام مجھے بہت پسند ہے۔ اگر آپ کسی کے عاجزانہ رویے سے متاثرہیں تو اس سے کہیں کہ اس کا یہ رویہ انتہائی متاثر کن ہے اور آپ اس کی قدر کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو اچھائیوں پر نہ صرف دوسروں کو قائم رہنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے بلکہ انہیں مزید اچھے رویوں اور اچھی عادات اختیار کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ ان کے دفتر میں فیکٹری میں یا جہاں بھی وہ کام کرتے ہیں ان کے افسران اور ان کے ساتھیوں میں کیا برائیاں ہیں کم لوگ ایسے ہیں جو اچھائیوں کو تلاش کرتے ہیں۔

اس بات سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہر شخص اور ہر جگہ میں صرف اچھائیاں اور خوبیاں ہی ہوتی ہیں اور برائیاں یاعیوب یکسر نہیں ہوتے اور نہ ہمارا یہ مقصد ہے کہ لوگوں اور ماحول میں موجود خامیوں کو یکسرنظرانداز کردیا جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش ہی نہ کی جائے۔

کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انسان خواہ کیسے بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں سب یکساں ہیں۔ اگر آپ ان سے لڑتے ہیں ان کی مخالفت کرتے ہیں اگر آپ ہمیشہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ لوگوں میں کون کون سی خامیاں اور کیا کیا کمزوریاں ہیں تو آپ ہمیشہ دشواریوں کا شکار رہیں گے اور لوگ آپ کو ناپسند کریں گے۔ لیکن اگر آپ خود میں یہ عادت ڈالیںگے کہ لوگوں‘ جگہوں اور خیالات میں خوبیاں اور اچھائیاں کیا کیا ہیں؟ تو آپ لوگوں کو اپنا دوست بنائیں گے لوگ آپ کو پسند کرینگے اور یہ بھی کہ وہ خود اپنی کمزوریوں کا نہ صرف اعتراف کرینگے بلکہ انہیں دور کرنے کی کوشش بھی کرینگے۔

اطباءنے ہر سال کو سردی



اطباءنے ہر سال کو سردی‘ گرمی‘ خزاں اور بہار چار موسموں میں تقسیم کیا ہے۔دسمبر سے فروری تک سخت سردی کا موسم ہوتا ہے آسمانی اور زمینی تغیرات کے ساتھ یہ موسم کبھی اپریل کے شروع تک قائم رہتا ہے اس موسم میں بھوک کم‘ معدہ بوجھل اور سر کے چکر آنے کی شکایت عام ہوتی ہے۔ بار بار دست اور قے آنے کی شکایت اکثر سننے میں آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سردیوں میں ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق طاقتور غذا زیادہ سے زیادہ کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ موسم بہار میں بھاری کپڑے بدن سے اترنے شروع ہوجاتے ہیں سردی سے بچائو کیلئے پیٹ کے اندر خون زیادہ جمع ہوتا ہے جو ہلکی بھاری غذا کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ موسم بہار میں خون کی آمد باہر کی طرف زیادہ رہتی ہے جس سے بیرونی حصہ گرم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل سے ہمارے معدے اور آنتوں کی ہلکی پھلکی جلد ہضم ہوجانے والی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ سمجھدار لوگ اس موسم میں حلوہ پوری‘ پراٹھا اور چائے چھوڑ کر دہی کی پتلی لسی بنا کر یا دہی دودھ کا ناشتہ شروع کردیتے ہیں اور علاج معالجہ کے لیے بھی قدرتی اشیاءکی طرف رجوع کرتے ہیں۔ موسم بہار کا ایک قدرتی علاج گلاب کا پھول ہے جو خون کے جوش کو کم کرکے طبیعت میں فرحت اور سکون پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سفید رنگ والے سیوتی کے پھول‘ انچ بھر چوڑی اور دو تین انچ لمبی سرخ پنکھڑیوں والے لال رنگ کے آدھ آدھ چھٹانک وزنی سنبل کے درخت کے سڑکوں پر جابجا بکھرے پھول ہمارے معدہ آنتوں کی صفائی جگر کو طاقت دینے اور کمر گردوں میں اٹکی ہوئی ریح اور کھچائو دور کرنے کیلئے بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں۔ صبح سویرے سیر کرتے ہوئے دوچار گلاب یا سیوتی کے پھول کا ناشتہ کرلیں تو بدن مضبوط اور قبض دور ہونے کے ساتھ طبعیت میں فرحت پیدا ہوتی ہے۔ ان پھولوں سے دل کو طاقت ملتی ہے اور رگوں میں جمی ہوئی چربی کم ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت کے مطابق پروٹین‘ فاسفورس‘ فولاد اور خون صاف کرنے والے نمکیات اور حرارے بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔

سنبل کے موٹے موٹے پھول جو اس موسم میں بکثرت ملتے ہیں گردوں اور مثانہ کو خاص طورپر طاقت دیتے ہیں۔ ان پھولوں میں گیارہ فیصد لحمی اجزاءاور تیس فیصد گلوکوز موجود ہوتی ہے۔

سفید رنگ سو ہانجنہ کے پھول انڈوں کے برابر پروٹین مہیا کرتے ہیں۔ ان پھولوں سے جوڑوں میں جمے ہوئے زہریلے فضلات پیشاب کے راستے بدن سے خارج ہوجاتے ہیں۔ ہضم کے اعضاءکی بادی دور ہوکر بھوک کھل جاتی ہے۔ سوہانجنہ کے پھولوں کو سادہ یاگوشت میں پکا کر کھائیں تو اس چٹ پٹے سالن سے بدن میں حیاتین ب اور حراروں کی کافی مقدار حاصل ہوجاتی ہے۔

شہر سے ذرا دور لہلہاتے کھیتوں میں آسمانی رنگ کے السی کے پھول ہمارے سانس لینے والے اعضاءکو ریشہ‘ بلغم اور زہریلے فضلات سے پاک کرنے کیلئے صحت بخش خوشبو فضا میں بکھیرتے رہتے ہیں۔ اس سے نزلہ‘ زکام کے ستائے ہوئے اور سل دمہ والے تنگ حال مریض ان نیلے رنگ کے پھولوں کو سونگھیں تو سانس لینے کی نالیاں صاف ہوکر بیماری میں افاقہ ہوجاتا ہے۔ السی کے پھول روزانہ آدھ سے سوا تولہ تک کھانے سے مفت کا ناشتہ ہونے کے علاوہ جوڑ مضبوط اور قدرت کے کیمیا گر کا بنایا ہوا عمدہ نباتاتی گھی بھی تھوڑی مقدار میں حاصل ہوجاتا ہے۔ اس سے اعصابی تھکن اوربدن کا ٹوٹنا بھی بند ہوجاتا ہے۔

اسی موسم میں کچنار کے پھول پیٹ کی گیس‘ سختی‘ بھوک کی کمی اور ڈکاروں کا آتے رہنا بند کرنے کیلئے مفید ہیں۔ سویا کے پودے میں کارمی نیٹو اجزاءقدرت نے کوٹ کوٹ کر بھردئیے ہیں۔ اس جابجا کاشت ہونے والی گھاس کے ننھے ننھے تیز خوشبودار پھول اور بیج دوتین انچ چوڑی چھتری کے مانند دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے پھولوں کی خوشبو سے ہوا خارج‘ اپھارہ اور پیٹ کی سختی دور ہوجاتی ہے۔ ننھے بچوں کا پیٹ درد‘ مروڑ اور ہڈیوں کی پرورش کیلئے یہ جادواثر گھاس بہت ہی کارآمد اثرات رکھتی ہے۔ اس کا ساگ پکا کر کھانے سے گیس دور‘ پیٹ ہلکا اور ریح کھل کر خارج ہوتی ہے۔

کچنال یعنی کچنار کا چٹ پٹہ سالن دنیا بھر میں شوق سے کھایا جاتا ہے۔ جوبدہضمی‘ مروڑ‘ دائمی قبض اور دل کی دھڑکن کو فائدہ دیتا ہے۔

 اس کے پھول صبح کے وقت خالی پیٹ تین سے گیارہ عدد تک ناشتہ کرلیے جائیں تو دل مضبوط‘ کچاپاخانہ خارج ہونا بند‘ گیس کم اور پتلا خون گاڑھا ہوکر نسیر‘ پیچش‘ سل اور خون تھوکنے کو شفاءہوجاتی ہے۔

فقیر کی دعا سے سب کام بن گئے


  فقیر کی دعا سے سب کام بن گئے



 ایک صاحب نے اپنے ماموں کا قصہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ اس کے ماموں ایک پہلوان ٹائپ انسان تھے۔ راج (مستری) کاکام کرتے تھے۔ چند دن کام نہ ملا۔ شہر کا چکر لگاتے رہے‘ کمایا ہواخرچ کرڈالا۔ ایک دن شہر سے واپس ہوئے تو دیکھا کہ چند ساتھی گائوں سے باہر پتھروں پر بیٹھے ہوئے گپیں لگارہے ہیں۔ یہ بھی ان کے پاس چلے گئے سلام و دعا کے بعد پوچھا کہ کیا خاص باتیں کررہے ہو کیا مجھے بھی بتائوگے؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں بیٹھو اور سن لو۔ وہ بولے ہم نے پیدل حج جانے کا پروگرام بنایا ہے۔ تم نے بھی اگر جانا ہے تو تیاری کرو اور ایک دن مقرر کرکے روانہ ہوجائیں گے۔


پیسے کسی کے پاس نہیں کوئی مال مویشی فروخت کرکے چلے جائیں گے‘ کہنے لگے کہ ماموں یہ بات سن کر تڑپ گئے‘ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے لگے۔ شام کا وقت تھا گھر والے مکئی کی روٹی پکانے میں مصروف تھے گھر میں ایک ہی گنڈی پیاز پڑا ہوا تھا۔ میرے ماموں نے گنڈی اٹھائی اور جیب میں ڈال لی۔ روٹی پکنے کا انتظار کرنے لگے۔ خیال تھا کہ پیاز کاٹ کر لسی کے ساتھ روٹی کھائیں گے۔ گھر سے باہر ایک جگہ پر جاکر بیٹھ گئے۔ آگے سے راستہ گزرتا تھا۔ دیکھا کہ عام کپڑوں میں ایک شخص چلا آرہا ہے‘ سر دائیں بائیں مار رہا ہے‘ ایسا لگتا کہ گردن میں ہڈی نہیں‘ نزدیک آیا تو ماموں نے بیٹھنے کا کہا‘ وہ بیٹھ گیا۔


 ماموں نے پوچھا کہ پانی پینا ہے یا لسی؟ وہ بولا لسی لے آئو ‘ ماموں ایک بڑے کٹورے میں لسی لائے اور پیش کردی‘ فقیر نے پینے کے بجائے ہاتھ دھو کر کٹورہ خالی کردیا۔ ماموں نے سوچا کہ اس کو پسند نہ آئی ہوگی اس لیے ہاتھ دھولیے‘ ماموں نے کٹورہ دھویا اور دودھ سے بھر کر پیش کیا۔ اس شخص نے دودھ سے بھی ہاتھ دھولیے۔


 ماموں سمجھ گیا کہ یہ کوئی مجذوب یا فقیر ہے۔ ماموں نے گھر والوں کو کہا کہ گھی نیم گرم کرکے دیں۔ وہ پیالہ میں ڈالا اور لاکر سامنے رکھ دیا۔ فقیر نے اس سے بھی ہاتھ دھولیے اور ماموں کے جیب میں پڑی پیاز کی گنڈی مانگ لی۔ ماموں نے نکال کر بخوشی پیش کردیا۔ ماموں حیران ہوئے کہ اس نے کھانے کی پاک چیزوں سے ہاتھ کیوں دھوئے ہیں؟ روٹی کا پوچھا تو اس نے انکار کردیا۔ پیاز کی گنڈی ہاتھ میں رکھ کر سفر پر روانہ ہوگیا۔


سارے گھر والے حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ دوسرے دن صبح سویرے شہر سے ایک آدمی آیا اس نے ماموں کو کہا کہ مکان تعمیر کرنا ہے اس کے ساتھ چلے‘ ماموں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ساتھ ہولیے۔ مزدور بھی ساتھ لے لیا‘ کام شروع کردیا‘ روزانہ جو اجرت ملتی اس میں سے کچھ کا سودا سلف لے آتا اور باقی رقم حج کیلئے جمع کرتے رہتے۔ پانچ چھ دن گزر گئے‘ ماموں نے مالک مکان کو کہا کہ اگر وہ برا نہ مانے تو وہ ٹھیکہ پر اس سے کام کرائے۔ ماموں نے بتایا کہ ٹھیکہ سے وہ دن رات لگا کر مکان کی تعمیر مکمل کردے گا اور جلدی مکان تیار ہوجائیگا۔ روزانہ اجرت پر کام میں کافی دن لگ جائیں گے۔ مالک راضی ہوگیا۔ ماموں نے دن رات کام شروع کردیا‘ پندرہ دن میں مکان مکمل کردیا۔


مالک مکان اتنی جلدی کام مکمل کرنے پر بہتخوش ہوگیا کام بھی ایسا کیا کہ دیکھنے والے بھی تعریفیں کرنے لگے‘ مالک نے آخری دن تمام طے شدہ رقم دیکر ایک ہزار روپیہ بطور انعام بھی دیا۔ ماموں خوشی خوشی گائوں آئے دوسرے لوگوں سے کہا کہ جلدی تیاری کرو میں بالکل تیار ہوں۔ سب تیار ہوکر حج کو روانہ ہوگئے۔ مکہ مکرمہ میں چند پاکستانی ملے اور روزگار پر لگانے کی درخواست کی۔


 انہوں نے سب کو روزگار پر لگادیا۔ بلڈنگیں تعمیر ہورہی تھیں شیخ کام دیکھ کر ماموں پر مہربان ہوگئے اور کھلا پیسہ اجرت میں دینے لگے۔ ماموں نے پانچ سال پورے کیے جب گائوں واپس آئے تو امیر ترین انسان تھے جب تک زندہ رہے شاہ خرچ رہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ گھر میں سوائے ایک گنڈی پیاز کے کچھ روٹی کے ساتھ کھانے کو نہ تھا اور ایک وقت وہ آیا کہ جب گھر میں مرغ اور بکرے پکنے لگے۔ فقیر نے جو اعمال کیے وہ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ یہ راز کی باتیں اللہ اور اس کے نیک بندے ہی جانتے ہیں جو روشن ضمیر ہیں۔

حیا کی قدر اسلام اور سائنس میں


جناب ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ غیرت کرتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم بے شک میں غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے اور اللہ کی غیرت کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس نے فحش (بے شرمی اور بے حیائی اور بدکاری) سے منع فرمایا ہے۔“ (احمد)





ایک حدیث میں ہے:


مومن نہ تو طعنے دینے والا‘ نہ لعنت و ملامت کرنے والا نہ فحش (یعنی بے شرم و بے حیاءو بدکار) اور نہ زبان دراز ہوتا ہے۔“





بچوں کے عریاں لباس کے مضراثرات


پھول جیسے معصوم نرم و نازک بچے گھر کی رونق ہیں۔ انہی کے دم سے گھر میں خوشیاں رقص کرتی ہیں۔ ان کی معصوم باتوںپر پیار آتا ہے‘ ان کی کھلکھلاتی ہنسی سے دل خوش ہوجاتا ہے۔ بچے نہ ہوں تو گھر بھراپرا ہونے کے باوجود ویران نظر آتا ہے۔ ایک معصوم چھوٹا بچہ پورے گھر کو اپنے ننھے منے وجود کے ساتھ مصروف رکھتا ہے لیکن زمانے کی بدلتی اقدار کے ساتھ ساتھ اب بچوں کے ملبوسات میں مغربی رنگ جھلکنے لگا ہے۔ نوجوان بچیاں اسکرٹ اور بلاوز پہنتی ہیں جن کو دیکھ کر دوسرے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اب ہمارا ماحول ایسا ہوگیا ہے کہ جو برہنگی یا نیم عریانی سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ تجارتی اشتہاروں میں بھی شہوانیت کی آمیزش لازمی ہوگئی ہے اور ہمارے تمدن میں جنس ایسی رچ بس گئی ہے کہ امریکی زندگی کے ہربُنِ موسے ٹپکنے لگتی ہے۔


اب آپ ایک شہوت پرست انسان کے طبعی و نفسیاتی حالات کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ وہ کس طرح کے مہلک اور تباہ کن جراثیم کی اپنے اندر پرورش کرتا رہتا ہے۔


شہوت پرستی کا پہلا اثر تو انسان کی جسمانی توانائی اور قوت پر پڑتا ہے قدرت نے انسان کو کچھ قوتیں عطا کی ہیں۔ یہ قوتیں لامحدود نہیں بلکہ محدود ہیں ان قوتوں کے مسرفانہ استعمال سے ان کی توانائیوں کا گھٹ جانا لازمی ہے۔


شہوانی قوت انسان کی توانائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اتنا بڑا ذریعہ کہ اس سے بہت سے نئے وجود جنم پاسکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی اس قوت کو ضائع کرتا ہے تو اپنے اندر سے اتنی بڑی قوت نکال پھینکتا ہے جو اس جیسی کئی ایک زندگیوں کا باعث بن سکتی تھی اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غلط طریقے پر شہوت رانی انسان کی طبعی قوتوں کو کس قدر تباہ کرتی ہے چنانچہ اس کے نتیجے میں ہر طرح کا جسمانی اختلال آج تک یقینی سمجھا جاتا ہے۔





جنسیت آگ کا دریا ہے


ول ڈیورنٹ لکھتا ہے کہ جنسیت آگ کا دریا ہے ضروری ہے کہ اس کے کناروں پر بند باندھے جائیں اور مختلف پابندیاں لگا کر اس آگ کو ٹھنڈا کیا جائے۔


ایک اور مغربی مصنف کے مطابق آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی ہرگز نہیں‘ آزادی کو مادرپدر آزادی سمجھ لینے سے جنسیت کی شیطانی اور تباہ کن قوتوں کو کھیل کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور اگر جنسیت کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ قوموں کیلئے زوال اورتباہی کا باعث بنتی ہیں۔





فحاشی سے بچائو اور ڈاکٹر این فیٹن کی رپورٹ


ڈاکٹر این فیٹن پیشن گوئی کرتا ہے کہ یہ صرف عورت ہی ہے جو دنیا کی فواحش سے بچاسکتی ہے۔ گنہگارانہ زندگی بسر کرنے والی عورتیں مردوں کے عہد کی تاریخی یادگار ہیں۔ ان سے تہذیب اور انسانیت حیاءسوز تکلیف اٹھارہی ہے۔ یہ پیشہ انسانی ترقی کے راستے میں ایک سد راہ کا کام دے رہا ہے۔


مزید تفصیل کیلئے ادارہ عبقری کی شہرہ آفاق کتاب ”سنت نبوی اور جدید سائنس“ ضرور پڑھیں۔

سورہ بقرہ غور سے پڑھیں


ہم ہر وقت مہنگائی کا تذکرہ کرتے زبان کو مسلسل مصروف رکھتے ہیں۔ مسلسل بولنے سے ذہن تھک جاتا ہے‘ اس گفتگو سے آپ کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ افسوس ہے کہ جتنی دالیں‘ مرچ‘ مصالحے‘ گھی‘ چینی نکالتی جاتی ہیں تو اس کے ریٹ جاننے کے بعد اونچی آوازوں میں دکانداروں کو بہت برا بھلا کہتی ہیں۔ میری بہنو! جتنی دیر آپ یہ اشیاءنکالیں گی باوضو ہوکر سارا رزق نکالیں اور سورة الکوثر پڑھتی رہیں‘ دالیں‘ لہسن‘ پیاز‘ نکالیں تو بنی اسرائیل کی ناشکری کو مدنظر رکھیں۔ وہ دھتکار دئیے گئے تھے اللہ کی ناشکری کی وجہ سے۔ سورہ بقرہ غور سے پڑھیں کہیں ہماری حرکتیں ویسی ہی تو نہیں؟ اگر ہم بنی اسرائیل جیسی حرکتیں کررہے ہیں تو اپنا خصوصی جائزہ لیں اور پھر اپنی ایک بری عادت اپنے اندر سے رخصت کریں جس قبیح عادت کو رخصت کریں اس کو دوبارہ اپنے اندر داخل نہ ہونے دیں۔ آپ آج پالک صاف کررہی ہیں آپ ایسا کرتی ہیں پالک کے پتے تو پکا لیتی ہیں لیکن اس کے ڈنٹھل کچرے میں ڈال دیتی ہیں۔ آپ ڈنٹھل ضائع نہ کریں انکو محفوظ کرلیں۔
آپ شامی کباب کا مصالحہ لیں اور چنے کی دال بھگولیا کریں اگر ایک کلو ڈنٹھل ہیں تو اس میں ایک پائو چنے کی دال ڈالیں باقی سارا شامی کباب والا مصالحہ مقدار بھی اتنی۔ جب خوب گل جائے تو پھر چولہے سے نیچے اتار کر پیس لیں۔ کباب بنانے سے پہلے دو انڈے شامل کریں اس کے کباب بنالیجئے۔ اس کا ذائقہ شامی کباب والا ہے۔ بلڈپریشر کے جو لوگ مریض ہیں انہیں بھی کھلائیں کیونکہ وہ قیمہ کباب کو نہیں کھاسکتے ایک کلوقیمہ کی رقم بھی بچی اورکباب بھی کھائیے۔
آج کل لال مرچ پسی ہوئی بازار سے منگاتی ہیں اس سے لاتعداد امراض ہوجاتے ہیں یاد رکھیے! یہ مرچ بے دھلی‘ نہ جانے کیا کچھ ملا کر پیستے ہیں‘ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی یہ پسی مرچ استعمال نہیں کیں۔ مرچ بازار سے منگائیے گرمی میں کم قیمت میں ملتی ہے۔ اب آپ کے پاس مرچ ہے ایک ہفتے کے استعمال کیلئے ان کو دھو لیجئے‘ ڈنٹھل توڑ لیں ڈنٹھل توڑنے میں وقت ضائع ہوگا کسی بھی مضبوط بلکہ ہاون دستے کی دستی لے لیں اور مرچوں کو چوٹ لگائیں ڈنٹھل نکال دیں اب مرچوں کو اچھی طرح پتیلے میں ڈال کر دھوئیے اب پلاسٹک کی سوراخ دار چھلنی لیں اور اس میں مرچ ڈال دیں اب آپ جار لیں اور اس میں پانی ڈال کر مرچ بھگو دیں اورفرج میں رکھیں۔ آپ سوچ رہی ہیں کہ شیشے کا مہنگا جار لانا پڑے گا اس میں صرف عقل کو استعمال کیا جائے تو بے شمار چیزیں کارآمد ہوسکتی ہیں۔ آپ کے پاس اتنے جار پڑے ہیں جگ بنالیں‘ آٹا رکھنے کا ٹفن بنائیے‘ لسی کا جگ بنائیں‘
پھل رکھ سکتی ہیں‘ آپ کے آس پاس خالی بوتلیں پڑی ہیں آپ اس بوتل کو لیجئے چولہے پر چھڑی گرم کرلیں یا بوتل کا اوپر کا حصہ پانچ انچ کاٹ لیں اوپر کا حصہ پھینک دیں نیچے والے بوتل کے حصے میں مرچ بھگودیجئے۔ پانی اتنی مقدار میں ڈالیں کہ مرچوں سے ایک انچ اوپر رہے۔ ایک مرچ فرج میں رکھ دیں۔ جب مرچ گل جائے تو گرائینڈر میں گلی ہوئی مرچ اور پانی بھی ڈالیے ایک منٹ تک گرائینڈ کریں پھر وقفہ کریں پھر چلا دیں اب مرچ بہت باریک پس چکی ہیں جب آپ کوسالن پکانا ہو تو یہی مرچ ڈالیں جب مرچوں کو پیسیں تو اس میں پانی کے ساتھ اگر ایک پائو آئل ڈال دیں پھر سالن میں گھی کم استعمال ہوگا اور جب سالن پک کے تیار ہوگا تو آپ محسوس کریں گی اگر چکن وغیرہ پکائیں تو ڈونگے میں سالن اتاریں گی تو محسوس ہوگا کہ دیگ کا سالن ہے۔ذائقہ بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ اس طریقے سے مرچ استعمال کریں گی تو جلن نہیں ہوگی۔
اگر ایک ماہ کیے لیے مرچ آدھا کلو منگواتی ہیں تو سالانہ چھ کلو‘ ثابت مرچ صرف تین کلو منگوائیں سالانہ کافی ہیں۔ آدھا کلو مرچ دھو کرسکھا کر ہاون دستے میں کوٹ لیں دال ہا ہنڈی وغیرہ میں ڈال دیں کھانے کا مزہ آجاتا ہے بہنو! صرف توبہ کی بات ہے۔ آخرت و قبر کو یاد رکھیں۔ ہر کام کرنے میں مزہ آتا ہے‘ گھر سے لاپرواہی کرنا‘ بچوں کو وقت نہ دینا‘ میکے پر توجہ‘ چوبیس گھنٹے توجہ بہن بھائیوں پر‘ جب کسی لمحے گھر پر توجہ ہی نہیں‘ ہر کام میں لاپرواہی‘ بے توجہی سے مارے باندھے کام کیے‘ پھر شوہر سے تقاضا گزارہ نہیں ہوتا‘ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے‘ ہر روز تنخواہیں نہیں بڑھا کرتیں‘ شوہر صبح قیمہ کے پیسے دے گئے منگالینا وہ پیسے تو پرس میں پہنچ گئے سر پر پٹی باندھ لی‘ شوہر نے آکر بہت لاڈ سے کھانا مانگا پلیٹ میں دال دیکھی تو سخت غصے ہوگئے‘ قیمہ پکانے کو کہا تھا بیگم کہہ دیتی ہے کہ میری طبیعت خراب ہوگئی تھی سر میں شدید درد‘ ان پیسوں کی دوا لے آئی۔ سر پر پٹی باندھ لی کرہانے کی ایکٹنگ شروع کردی۔ یہ سب کچھ میں نے مختلف گھرانوں میں آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں لکھوں گی۔ بہنو! یہ مکرفریب اتنا بڑا گناہ ہے‘ یہ گھر کی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رزق کو دیمک چاٹ جاتی ہے‘ پناہ مانگ لیں ان عادات سے۔ محنت سے کام کریں رزق بڑھے گا.... اور گھر کا سکون بھی نصیب ہوگا....!

حسن و خوبصورتی کیلئے عرق گلاب سے حسن و صحت میں نکھار



ہمارے یہاں عموماً حسن و خوبصورتی کیلئے مختلف قسم کی بازاری چیزوں پر انحصار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے چہرہ دلکشی کے چند منظر دکھانے کے بعد مختلف عوارض میں مبتلا ہوجاتا ہے کیونکہ حسن و زیبائش کیلئے استعمال ہونے والی یہ کاسمیٹکس اشیاءعموماً کیمیائی اجزاءسے تیار کی جاتی ہیں۔ اس لیے زیادہ تر غیرمعیاری ثابت ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسانی چہرہ مختلف بیماریوں کا مسکن بن کر رہ جاتا ہے۔


حقیقت تو یہ ہے کہ آج سے دو تین عشروں قبل ہمارے یہاں ایسی بازاری کاسمیٹکس کا کوئی رجحان نہیں تھا۔ خواتین اپنے چہرے کی دلکشی کیلئے قدرتی اجزاءسے بنی اشیاءاستعمال کرتی تھیں اور قدرتی اشیاءاور جڑی بوٹیوں کے استعمال سے ان کا چہرہ صاف شفاف اور تروتازہ رہتا تھا۔ جو خواتین حسن و زیبائش اور خصوصاً جلدی امراض سے محفوظ رہنے کیلئے عرق گلاب اور لیموں کا رس استعمال کرتی تھیں انہیں یہ جان کر اطمینان ہوگا کہ بعد میں جدید طب نے ان دونوں چیزوں کو دلکشی اورجلد کی صحت کا امین قرار دیا۔


عرق گلاب انسانی جلد کیلئے گوہر نایاب ہے اور جلدی امراض کے ماہر انہیں متعدد بیماریوں میں استعمال کراتے ہیں۔ عرق گلاب جلد کی قوت مدافعت بڑھانے کے ساتھ ساتھ جلد میں پانی کی صحیح مقدار قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے جس کی وجہ سے جلد ملائم‘ چمکدار اور ہموار رہتی ہے۔ سردیوں میں بچوں کے چہرے پر عموماً سفید اور کھردرے نشان سے بن جاتے ہیں جن کو عموماً کیلشیم کی کمی سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ یہ نشان ایک جلدی بیماری ہیں۔ عرق گلاب کے مسلسل استعمال سے نہ صرف اس مرض کا علاج ممکن ہے بلکہ اس مرض کی روک تھام کیلئے یہی قدرتی دوا سستی اور موثر ترین ہے۔ عرق گلاب جلد سے پانی کے غیرضروری اخراج کو روکتا ہے۔ عموماً گرمیوں کے دنوں میں جنہیں زیادہ پسینہ آتا ہے ان کیلئے عرق گلاب کا استعمال نہ صرف پسینے کی زیادتی کو روکتا ہے بلکہ انہیں پسینے کی بدبو سے بھی نجات دلاتا ہے۔


عرق گلاب جلد کی بیماریوں میں نہایت مفید ہے۔ چہرے کی جھائیاں دور کرنی ہوں یا جلد کی رنگت میں نکھار پیدا کرنا ہو تو عموماً بازاری کریمیں استعمال کی جاتی ہیں مگر ماہرین امراض جلد عرق گلاب کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ نیز ان ماہرین کا مشورہ ہے کہ چہرے کو جھریوں سے بچانے اور رنگت صاف کرنے کیلئے عرق گلاب میں گلیسرین اور لیموں کا رس ملا کر استعمال کیا جائے تو مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ گھریلو خواتین جن کے ہاتھوں کی انگلیاں کپڑے اور برتن دھونے والے صابن‘ سرف اور وم کے استعمال سے کھردری ہوکر پھٹ جاتی ہیں ان میں زخم بن جاتے ہیں اگر وہ گلیسرین اورعرق گلاب ملا کر دن میں تین سے چار مرتبہ استعمال کریں تو اس موذی مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ بعض مرد و خواتین کی ایڑیاں پھٹ جاتی ہیں اگر وہ عرق گلاب اور گلیسرین کا مکسچر لگائیں توان کی یہ بیماری ختم ہوسکتی ہے۔


عرق گلاب زیتون اور شہد کے ساتھ ملا کر پیا جائے تو یہ جلد اور معدہ کی حفاظت کے متعدد امور انجام دیتا ہے۔ خصوصاً صرف عرق گلاب پینے سے قبض دور ہوجاتا ہے اور یہ انتڑیوں کو جراثیم سے پاک کردیتا ہے۔ گویا عرق گلاب حسن اور صحت کا ایسا مظہر ہے جس کے اندر قدرت نے انسانوں کیلئے شفا رکھی ہے۔ عرق گلاب جلدی امراض کے علاوہ جسم انسانی کے دیگر اعضاءکیلئے بھی کارآمد دوا کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید طب نے عرق گلاب کوآنکھوں کا نور کہا ہے اور آج ماحولیاتی آلودگی کے اس دور میں اس کا استعمال ناگزیر قرار دیا ہے۔


ڈاکٹر صاحبان کا تو یہ کہنا ہے کہ آنکھوں کی حفاظت کے لیے ادویات کا استعمال بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر اس بات پر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ گردو غبار اور دھوئیں کے مضراثرات سے بچنے کیلئے آنکھوں میں چند قطرے عرق گلاب ڈال لینے سے بھی آنکھوں کی مکمل صفائی ہوجاتی ہے جب کہ اطباءکہتے ہیں کہ عرق گلاب سب سے موثر دوا ہے کیونکہ یہ آنکھوں کو صاف ستھرا رکھ کر جراثیم سے محفوظ کرتا ہے۔ آشوب چشم جیسے خوفناک مرض سے نجات حاصل کرنے کے لیے عرق گلاب کے چند قطرے موثر دوا ثابت ہوتے ہیں۔ عرق گلاب آنکھوں کا ایک ایسا محافظ ثابت ہوتا ہے جس سے نہ صرف بصارت تیز ہوتی ہے بلکہ آنکھوں میں طلسماتی چمک بھی پیدا ہوتی ہے اور آنکھوں کا گدلا پن ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہوجاتا ہے۔ لیزر اور کمپیوٹر کے سامنے کام کرنے والے روزانہ عرق گلاب کے چند قطرے آنکھوں میں ڈال لیا کریں تو ان کی آنکھیں لیزر شعاعوں کے اثرات سے بچ سکتی ہیں۔


عرق گلاب دل اور دماغ کیلئے ایک مقوی اور راحت آمیز دوا ہے۔ یہ کمزور دل اور دماغ کو توانا اور چست کردیتا ہے۔ ہمارے یہاں ڈیپریشن اور اعصابی دبائو کی وجہ سے اکثر لوگ سکون آور ادویات استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی کے معمولات بدل کر رہ گئے ہیں۔ یہ لوگ فطرت سے اس قدر دور ہوچکے ہیں کہ ان کی زندگیاں بے سکونی کا شکار ہوکر رہ گئی ہیں۔ زندگی کی گہماگہمی کا شکار یہ لوگ عرق گلاب شہد اور اسپغول کو اپنی خوراک کا حصہ بنالیں تو انہیں ان تمام عوارض سے نجات مل سکتی ہے۔ وہ مصنوعی انداز میں جینا چھوڑ دیں گے اور ان کیلئے جینا سہل ہوجائے گا کیونکہ یہ تینوں قدرتی غذائیں معجزاتی اثرات کی حامل ہیں۔ ذہنی دبائو اور اعصابی تنائو کے شکار لوگوں کیلئے یہ نسخہ کیمیا ثابت ہوتی ہیں۔ یہ اعصاب کو مضبوط اورذہن کو توانا بنادیتی ہیں مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان فائدہ مند قدرتی ادویات کو چھوڑ کر انگریزی اور مضرصحت ادویات کا استعمال کرنے لگتے ہیں حالانکہ عرق گلاب‘ شہد اور اسپغول ان ادویات سے زیادہ اثرانگیز ہیں۔


اطباءکا کہنا ہے کہ ذہنی اور جسمانی مشقت کرنے والے افراد کیلئے ان کا استعمال نہایت ضروری ہے اگر یہ لوگ انہیں اپنی خوراک کا حصہ بنالیں تو وہ کبھی بیمار نہ ہوں گے۔

اچھی‘ گہری اور پرسکون نیند کیلئے نہانے کا عمل بے


اچھی‘ گہری اور پرسکون نیند کیلئے نہانے کا عمل بے حد مفید ثابت ہوا ہے۔ ذیل میں ایک نئے علم شافی (ہائیڈرو پیتھی) کے تجویز کردہ چار قسم کے غسل کا ذکر کیا جاتا ہے۔

٭ فرکشن ہپ باتھ۔ ٭ سن باتھ۔٭ سٹیم باتھ۔ ٭فرکشن سٹز باتھ۔



فرکشن ہپ باتھ

 نہانے کا ایک ٹب تازہ پانی سے اس طرح بھریں جو ناف اور رانوں تک پہنچ جائے۔ غسل کرنے والا شخص اس ٹب میں بیٹھ جائے اور بغیر سہارا لیے اس میں ٹھہرا رہے۔ اس کے بعد سوتی کپڑے سے اپنے جسم کو ملنا شروع کردے۔ ناف سے نیچے کی جانب‘ پھر رانوں سے گھٹنوں کی جانب، بغلوں سے پسلیوں کی جانب رگڑ کر پھیرتا رہے۔ اس کے بعد پسلیوں سے پیچھے کولہوں کی جانب رگڑ کر یہی کپڑا پھیرتا رہے۔ نہانے کا یہ عمل دس منٹ تک جاری رہنا چاہیے۔ اس کے بعد ٹب سے نکل کر موسم کے لحاظ سے ٹھنڈے‘ نیم ٹھنڈے‘ نیم گرم یا گرم پانی کے ٹب یا شاور سے نہالے۔

اس کے بعد کوئی بھی غذا استعمال کرلی جائے۔ اس فرکشن ہپ باتھ کی فلاسفی یہ ہے کہ یہ جسم کے مرکزی حصوں کو فعالیتی تحریک پہنچاتا ہے اور رات کو جب بستر پر انسان لیٹتا ہے تو بہت جلد ہی نیند کیلئے دماغی لہروں کا بہائو اور ارتعاش شروع ہوجاتا ہے اور اس طرح انسان کم از کم پانچ گھنٹوں تک اچھی نیند سویا رہتا ہے۔



سن باتھ

 اس غسل کیلئے دھوپ میں چارپائی کرکے لیٹ جائیں۔ جسم پر عام کپڑے ہوں۔ جرابیں‘ سویٹر اور لیگئگ وغیرہ نہ پہنی ہوئی ہو۔ سراور چہرہ سورج کی کرنوں کے سامنے زیادہ دیر تک نہ رہے۔ نصف گھنٹہ سے ڈیڑھ گھنٹہ تک دھوپ لی جاسکتی ہے۔ دھوپ لینے کے بعد موسم کے لحاظ سے مناسب پانی سے نہالیا جائے۔ اس غسل کا فائدہ یہ ہے کہ انسانی جسم کی جلد کو شمسی کرنوں سے ایک خوشگوار حرکی سکون حاصل ہوتا ہے جو رات کو اچھی نیند کا باعث بنتا ہے۔



سٹیم باتھ

 یہ غسل براہ راست گرم پانی سے نہیں کیا جاتا۔ باتھ روم کو اچھی طرح بند کرکے گرم پانی کی ٹونٹی کو ایک ٹب میں کھول دیا جاتا ہے۔ سخت گرم پانی کے گرنے اور ٹب میں جمع ہونے کے باعث باتھ روم تھوڑی ہی دیر میں بھاپ سے بھرجاتا ہے۔ انسان اس باتھ روم میں داخل ہوجاتا ہے اور اس سٹیم کے ذریعے اس کے جسم کا غسل ہوجاتا ہے۔

سٹیم باتھ کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک کمبل کو سخت تیز پانی میں ڈبو کر خوب بھگولیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے ایک سٹیل پائپ کے ذریعے اچھی طرح نچوڑ لیا جاتا ہے اور پھر اس کمبل کو جسم پر اوڑھ لیا جاتا ہے اور پانچ منٹ کے بعد اسی کمبل سے اپنے جسم کے مختلف حصے رگڑ لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد نیم گرم پانی سے اچھی طرح غسل کرلیا جائے تو بہتر ہے لیکن ضروری نہیں۔ کمبل باتھ کے بعد بھی کپڑے پہنے جاسکتے ہیں۔ بذریعہ کمبل اس سٹیم باتھ کے باعث ہمارے جسم کی جلد اور عضلات کو وہ تحریک حاصل ہوجاتی ہے جو رات کو اچھی نیند کیلئے ضروری ہے۔



فرکشن سٹز باتھ

 غسل خانے میں باتھ ٹپ کو سخت گرم پانی سے نصف تک بھرلیا جاتا ہے اب اس ٹب میں بیٹھنے کی بجائے انسان فرش پر بیٹھ جاتا ہے اور ایک بڑے تولیے کو ٹب میں بھگو کر نچوڑ کر اپنے جسم پر ملتا اور رگڑتا رہتا ہے۔ یہ عمل کئی بار اس انداز سے دہرایا جاتا ہے کہ بیٹھنے کے مختلف انداز اختیار کیے جاسکیں۔ اس تولیے کو رانوں‘ کولہوں‘ پسلیوں‘ پنڈلیوں‘ سینے اور پیٹ کے بعد سر پر رگڑنے سے جسم میں حرکی رو بیدار ہوجاتی ہے اور رات کو نیند کے وقت دماغی لہریں بہتر طور پر متحرک ہوجاتی ہے۔



ملٹی شاور باتھ

 اس باتھ سسٹم میں ایک ہی شاور کی بجائے تین سے پانچ شاورز سے نہایا جاتا ہے اس طرح پورے جسم پر آبشار کی طرح پانی پریشر سے پڑتا ہے اور جسم کے تمام اعضاءاور عضلات تک تازگی پہنچتی ہے اور بھرپور طریقے سے غسل ہوتا ہے۔ اس سسٹم میں تجویز دی گئی ہے کہ نہانے والا فرد اپنے جسم کے کئی رخ بدلے تاکہ جسم کے ہر حصے کی غسلانہ ورزش ہو۔ اس باتھ کی بدولت جسم میں تازگی کے علاوہ چستی‘ پھرتی اور توانائی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔



ڈائون ڈرین باتھ

 اس باتھ تکنیک میں شاور کی بجائے ایک پریشر ٹیپ سسٹم فٹ کیا ہوتاہے اور پانی حسب ضرورت درجہ حرارت کے موافق ایک ہی تیز دھار سے نکلتا ہے۔ اس باتھ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جسم کے مختلف اعضاءپر پانی مرتکز ہوکر پورے دبائو کے ساتھ پڑے تاکہ پٹھوں میں تازگی اور چستی پیدا ہوسکے۔



سٹیم پائپ باتھ

 اس سٹیم باتھ میں ایک پائپ کے ذریعے بھاپ مہیا کی جاتی ہے۔ باتھ روم کے باہر گیزر کے ساتھ ایسا سسٹم فٹ کردیا جاتا ہے کہ گرم پانی سے حاصل شدہ سٹیم کو پائپ کے ذریعہ براہ راست باتھ روم میں لایا جاتا ہے۔ پائپ کو ہاتھ میں پکڑ کر جسم کے مختلف اعضاءکو سٹیم دی جاتی ہے۔ اس باتھ کے باعث جسم کے مسام کھل جاتے ہیں‘ عضلات میں تازگی آجاتی ہے۔ جسم کی اچھی طرح ٹہل اور ٹکور ہوجاتی ہے۔ پائپ کے ساتھ ہی ریگولیشن کنٹرول بٹن ہوتا ہے جس سے سٹیم کی مطلوبہ مقدار حسب ضرورت حاصل کرنے میں سہولت رہتی ہے۔



وارم ایئر باتھ

 اس باتھ کی ٹیکنیک میں پانی کا براہ راست استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ ایک دیگچے میں پانی ابل رہا ہوتا ہے۔ نہانے والا فرد اس دیگچے کے پاس ایک سٹول پر بیٹھ جاتا ہے۔ اس دیگچے کے دوسری جانب پنکھا لگا دیا جاتا ہے۔ ابلتے ہوئے پانی کی بھاپ باقی ہوا کے ساتھ مل کر ”وارم ایئر“ کی صورت میں جسم پر اثر کرتی ہے۔ نہانے والا فرد سٹول پر بیٹھ کر کئی رخ بدلتا رہتا ہے۔ اس کے جسم کے مساج کھل جاتے ہیں‘ جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ یہ باتھ موسم سرما میں زیادہ مفید ہے۔

چہرے کی خوبصورتی کیلئے


  چہرے کی خوبصورتی کیلئے   



سردی کے امراض سے بچائو کیلئے نایاب ترین نسخے (حکیم سعید احمد، بہاولپور)


ابریشم سفید20گرام‘ صندل سفید20گرام‘ گائو زبان20گرام‘ ٹاٹری (ست لیموں)5گرام‘ آب انار 250گرام‘ آب کنوں 250گرام‘ آب سیب 250گرام۔





ترکیب تیاری


 تمام جڑی بوٹیوں کا جوشاندہ نکال کر حاصل شدہ جوشاندہ میں چینی750 گرام ڈال کر شربت تیار کریں ٹاٹری یعنی کہ لیموں کا ست شربت بناتے وقت ڈالیں۔ شربت تیار ہے۔





طریقہ استعمال


 صبح و شام ایک ایک چمچہ صبح نہار منہ اور شام کو عصر کے وقت استعمال کریں۔ انشاءاللہ فائدہ ہوگا۔ جن عورتوں کے چہرے پر جھائیاں خون کی کمی کی وجہ سے پڑجاتی ہیں اور جن عورتوں کو ماہواری زیادہ ہواور انہیں خون کی کمی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے چہرے پر جھائیوں کے دھبے پڑجاتے ہیں ایسی بہت سی خواتین کو یہ نسخہ استعمال کرایا ہے ان کو بہت زیادہ فائدہ ہوا اور ان کے چہرے بالکل صاف ستھرے ہوگئے ہیں۔ یہ نسخہ کم ازکم دو ماہ استعمال کروائیں۔ یہ مستقل علاج ہے۔





موسم سرما کیلئے نایاب پھکی


یہ پھکی خاص ان افراد کیلئے ہے جن کی سردیاں ایک عذاب کی طرح گزرتی ہیں‘ سردیوں میں جن کے ہاتھ پائوں سردی کی وجہ سے سوج جاتے ہیں‘ اور سردی میں گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ جن کو سردی میں زکام‘ نزلہ اور بخار ہوجاتاہے وہ یہ پھکی استعمال کریں۔ ہم نے بہت لوگوں پر آزمائی ہے اور اللہ نے سب کو شفاءدی ہے۔ آپ بھی استعمال کریں اور دعا دیں۔


نسخہ یہ ہے:زیرہ سفید1000گرام‘ کچور 250گرام‘ ہڑہڑ زرد 1000گرام‘ آملہ مقشر 400 گرام‘ بہیڑے 500گرام‘ کالی مرچ250 گرام‘ سنڈھ 250 گرام‘ دار چینی 200گرام‘ لونگ 150گرام‘ نشادر ٹھیکری 500گرام‘ سناءمکی 1000 گرام‘ اجوائن دیسی 300 گرام‘ کالا نمک 1000 گرام‘ ٹاٹری دانے دار 50گرام‘ سوڈا میٹھا 500گرام‘ نمک شیشہ 500گرام‘ آمچور 1000گرام‘ ست پودینہ 50گرام‘ ست اجوائن 50گرام‘ سونف 500گرام ۔ ان تمام چیزوں کا سفوف تیار کرلیں۔


کھانا کھانے کے بعد ایک چمچ نیم گرم پانی کے ساتھ استعمال کریں۔ اس پھکی سے بدہضمی‘ گیس‘ تبخیر معدہ‘ دائمی قبض‘ تیزابیت‘ جلن وغیرہ نہیں ہوتی۔





معجون دماغی(10 دن میں مرض نسیان دور)


نسخہ: کشتہ مرجان 30گرام‘ عود لکڑ 15 گرام‘ گائوزبان 100 گرام‘ باورنجیوبہ 30 گرام‘ صندل سفید 50 گرام‘ پھول گلاب 50گرام‘ تخم بلنگو 30 گرام‘ چھڑجھڑیلہ 50گرام‘ بہن سفید 30گرام‘ بہن سرخ 30گرام‘ درنج عقربی 50 گرام‘ کشنیر 50گرام‘ تودری سرخ 50گرام‘ دارچینی 50گرام‘ الائچی کلاں 50گرام‘ آملہ مقشر 50گرام‘ تخم خرفہ 50گرام‘ شہد ساڑھے 3 کلو۔





تیاری نسخہ


 ان تمام چیزوں کا سفوف تیار کریں اور شہد میں معجون بنائیں۔ افعال و استعمال: پانچ پانچ گرام صبح و شام نہار منہ استعمال کریں۔ اگر آپ دس دن مغز بادام کو رات کے وقت پانی بھگودیں۔ صبح ان تمام مغز بادام کو چھیل لیں اور پھر ان باداموں کوکوٹ کر ایک دوکپ دودھ لے کر ان کوٹے ہوئے باداموں دودھ میں ڈال دیں جب ایک یا دو ابال آجائے تو اس دودھ کو اتارلیں۔ ایک چمچہ معجون دماغی کا نوش فرمائیں اور اوپر سے بادام والا دودھ پئیں انشاءاللہ دس دن میں ہی آپ کو نسیان یعنی بھول جانا ٹھیک ہوجائے گا اور نظر بھی ٹھیک ہونا شروع ہوجائے گی۔


اس نسخہ سے اللہ کے کرم سے بہت سے بچے حافظ قرآن بنے اور بڑوں کی بھی اس معجون کے کھانے سے یادداشت ٹھیک ہوجاتی ہے اور سینکڑوں بچے ایسے تھے جن کو یاد نہیں ہوتا تھا لیکن اب اس معجون کے استعمال سے وہ بالکل ٹھیک ہیں اور بہت جلد سبق یاد کرلیتے ہیں۔ میں نے آج تک جس کسی کو بھی نسیان کے مرض کیلئے اس معجون کا بتایا اللہ نے اس کو شفاءضرور دی ہے۔ آپ بھی استعمال کریں اور فائدہ اٹھائیں۔





تریاق نزلہ(نزلہ و زکام کا موثر ترین نسخہ)


نسخہ: اجوائن خراسانی 300گرام‘ اسطخدوس 50 گرام‘ پوست خشخاش 300گرام‘ تخم کاہو 200گرام‘ کشنیز خشک 100گرام‘ تخم خشخاش 400گرام‘ گل گائوزبان 100گرام‘ رب السوس 50گرام‘ گوند کتیرا 50گرام‘ گل سرخ 50گرام‘ گوند کیکر50گرام‘ مرمکی 50گرام‘ نشاستہ گندم 50گرام‘ چینی 3کلو‘ ست لیموں 3گرام۔





ترکیب بناوٹ


 پہلی سات دوائوں کو رات کے وقت پانی چھ لیٹر میں بھگو کر رکھیں۔ صبح کو جوش دیں جب پانی تقریباً آدھا رہ جائے تو اس کو مل کر چھان لیں اور اس میں چینی اور ست لیموں مقررہ مقدار میں ڈالیں اور قوام بنائیں۔


آگ سے نیچے اتار کر خمیرہ کی مانند گھوٹیں اور باقی دوائوں کا سفوف بنا کر تھوڑا تھوڑا ڈال کر ڈربی سے ہلاتے جائیں جب یہ سفوف حل ہوجائے تو محفوظ کرلیں۔





خوراک مقدار


 صبح و شام ایک ایک چمچہ چائے والا پانی کے ساتھ استعمال کریں۔ انشاءاللہ فائدہ ہوگا۔


جس مریض کو بھی دیا ہے اللہ نے اس کو ٹھیک کیا ان میں سے کئی ڈاکٹروں اور حکیموں سے مایوس ہوچکے تھے لیکن جب ان کو یہ نسخہ استعمال کرایا گیا تو اللہ نے ان کو چند ہی دنوں میں شفاءیابی دی۔ نزلہ زکام چاہے سردی کا ہو یا گرمی کا یہ نسخہ بے حد مجرب ہے

عامل بننے




آئیں! میں آپ کو عامل بننے کا طریقہ بتائوں۔ عامل مجموعہ ہے عملیات کا جس کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے جو شخص ایک کام کیلئے مسلسل عمل سے گزر رہا ہو۔ وہ اس کام کا عامل کہلاتا ہے۔ میں آپ کو مرض کی شناخت نہیں پہچان مرض کا عامل بننے کا چلہ یعنی یہ عمل چالیس دن کا ہے۔ اس کام کو شروع کرنے کیلئے ہفتہ کے دنوں میںسے جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے لہٰذا آپ اپنا یہ عمل جمعہ کے دن سے اس طرح شروع کریں کہ آپ چالیس دنوں کی نماز فرض باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنے کی نیت کریں کہ فجر کی نماز شروع ہونے سے دوچار منٹ پہلے صف میں کھڑے ہوں اور پوری (اقامت الصلوٰة) آپ اور امام کے اللہ اکبر کہنے کے ساتھ ہی آپ بھی اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ لیں اور دونوں رکعتیں پوری ہونے کے بعد سلام پھیرنے کے بعد آپ استغفار‘ کلمہ طیبہ‘ آیت الکرسی‘ تسبیحات فاطمة الزہراءرضی اللہ عنہا‘ دعا کے بعد آپ مسجد میں بیٹھے رہیں اور اس دوران کلمہ سوئم کے پہلے حصہ کا ورد زیادہ کریں۔ ایک تسبیح درودشریف کی اور ایک تسبیح استغفار پڑھیں اور پھر نماز اشراق ادا کرکے اپنے گھر جائیں اور ناشتہ وغیرہ کریں اور کاروبار زندگی میں مصروف ہوجائیں آپ جو کاروبار بھی کررہے ہوں اس میں بے ایمانی کا عنصر موجود نہ ہو۔


 کھانے پینے میں کسی قسم کاپرہیز نہیں ہے۔ سوائے حرام اشیاءکے۔ پھر آپ صبح نو بجے سے گیارہ بجے تک ایک وقت مقرر کرلیں یہ وقت تقریباً ایک گھنٹہ آپ کے عمل میں لگے گا اور چالیس دن تک یہ عمل وقت مقررہ پر ہی کریں۔ پہلے دو دو رکعت کرکے 4 نوافل نماز چاشت ادا کریں۔ پھر چار رکعت نماز نفل کی نیت کریں اور ثنائ‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد سورة الفاتحہ یعنی الحمدشریف پوری آمین تک اس کے بعد آیة الکرسی دس دفعہ سورة الکافرون دس دفعہ‘ سورة الاخلاص دس دفعہ‘ سورة الفلق دس دفعہ‘ سورة الناس دس دفعہ پڑھنے کے بعد پہلے دو دو رکعت کرکے چار نوافل نماز چاشت ادا کریں۔ پھر چار رکعت نماز نفل کی نیت کریں اور ثنائ‘ تعوذ اور تسمیہ کے بعد سورة الفاتحہ یعنی الحمدشریف پوری یعنی آمین تک ایک دفعہ اس کے بعد آیة الکرسی دس دفعہ سورة الکافرون دس دفعہ‘ سورة الاخلاص دس دفعہ‘ سورة الفلق دس دفعہ‘ سورة الناس دس دفعہ پڑھ کر رکوع کریں اور پھر دونوں سجدوں کے بعد دوسری‘ تیسری اور چوتھی رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھیں اور سلام کے بعد سرسجدہ میں رکھ کر تیسرے کلمہ کاپہلا حصہ ستر مرتبہ پڑھ کر سر سجدہ سے اٹھا کر ستر مرتبہ آیت کریمہ پڑھیں اور اپنے مقصد کیلئے دعا کریں۔


 اس کے بعد جمعہ کے دن نماز جمعہ سے پہلے اور عام دنوں میں ظہر کی نماز سے پہلے پہلے چار رکعت نماز نفل صلوٰة التسبیح ادا کریں۔ مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعت اوابین پڑھیں۔ پھر رات کو صبح یعنی فجر کی اذان سے کچھ وقت پہلے اٹھ کر نماز تہجد ادا کریں۔ اس تمام عمل کو چالیس دن تک خصوصی طور پر اور باقی زندگی میں نماز باجماعت تکبیراولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی فکر کریں۔ چالیس دن کے اندر اندر آپ اپنے اندر مخصوص قسم کی تبدیلی اور خاص قسم کے اثرات محسوس کریں گے۔ اکثر خواب میں آپ ہوائی سفر وغیرہ کررہے ہوں گے یہ آپ کی کامیابی کی دلیل ہے۔