اس بلاگ کا ترجمہ

Monday, November 5, 2012

دور جدید میں سائنسی علوم نے غیر معمولی ترقی




دور جدید میں سائنسی علوم نے غیر معمولی ترقی کی ہے ۔ اس ترقی نے انسانی زندگی کو ہر اعتبار سے بہتر کیا ہے ۔ مگر سائنسی ترقی کے جس پہلو نے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا ہے وہ بلاشبہ میڈیکل سائنس کی ترقی ہے ۔ انسان کا سب سے بڑ ا مسئلہ زندگی کی بقا ہے ۔بیماریوں نے ہر دور میں اس بقا کو شدید خطرے میں ڈالے رکھا تھا۔یہی وجہ ہے کہ سوائے عصر حاضر کو چھوڑ انسانوں میں شرح پیدائش ہمیشہ بہت زیادہ مگر انسانی آبادی ہمیشہ بہت کم رہی ہے ۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاوں سال سے زمین پر بسنے والے انسانوں کی آبادی پہلی دفعہ سن 1804میں ایک ارب کے عدد کو پہنچی تھی۔ جبکہ آج یہ تعداد سات ارب سے اوپر ہے ۔حالانکہ پچھلی دو صدیوں میں انسانی شرح پیدائش بتدریج بہت کم ہو چکی ہے ۔
آج میڈیکل سائنس کی ترقی نے ملیریا اور فلو جیسی بیماریوں کو ایک معمولی بیماری بنادیا ہے ۔ ہم میں سے کون ہو گا جسے زندگی میں یہ دو بیماریاں نہ ہوئی ہوں اور چند خوراکوں سے افاقہ نہ ہو گیا ہو۔مگر قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ وہ قاتل بیماریاں ہیں جنہوں نے ہر دور اور ہر زمانے میں لاکھوں کروڑ وں لوگو ں کی جانیں لی ہیں ۔
یہ گزارشات میں نے کسی نشست میں اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت کے طور پر بیان کیں تو ایک صاحب نے بڑ ے زوروشور سے فرمایاکہ اس سے کیا فرق پڑ تا ہے آج کے دور میں اور نئی بیماریاں سامنے آ گئی ہیں ۔ یہ بات ناشکری پر مبنی ایک انتہائی منفی انداز فکر کا اظہا رہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ نئی بیماریاں سامنے آئی ہیں جیسے کینسر ہیپاٹائٹس سی وغیرہ وغیرہ مگر نہ ان کا پھیلاؤ اس درجہ کا ہے اور نہ یہ اس طرح ناقابل علاج ہیں ۔مثال کے طور پر 1918-1919کے فلو کی عالمی وبا میں تقریباً دس کروڑ لوگ مارے گئے تھے جو دو عظیم جنگوں میں مرنے والوں کی تعداد (تقریباً نو کروڑ ) سے زیادہ ہے ۔ ایسی تباہ کن بیماریو ں کا کینسر سے کیا موازنہ؟کینسر آج سب سے بڑ ی قاتل بیماری ہے ، مگر اس سے مرنے والوں کی تعداد سات ارب کی انسانی آبادی میں آج بھی ستر لاکھ سالانہ ہی ہے ۔ظاہر ہے یہ اُن تباہ کن بیماریوں کا عشر عشیر بھی نہیں جن کا واسطہ انسان کو ہمیشہ سے رہا ہے ۔ جب کہ آج انسانی آبادی شرح اموات میں غیر معمولی کمی کی بنا پر تاریخ کے ہر دور سے زیادہ ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شکر گزاری کے لیے مثبت انداز فکر چاہیے ۔ جب انسان کو فلو یا ملیریا جیسی کوئی بیماری ہوجائے تو اسے وہ وقت یاد کرنا چاہیے جب ان بیماریوں کی ویکسی نیشن تھی نہ علاج۔ نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ اکثر حالات میں لوگ مرجایا کرتے تھے ۔خاص کر بچے جو اکثر و بیشتر بیمار پڑ تے ہیں ، ان کی ایک بڑ ی تعداد جوانی کو پہنچنے سے پہلے ہی رخصت ہوجایا کرتی تھی۔
انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ جیسا اس کا انداز فکر ہو گا، اسی پہلو سے وہ حقائق کو دیکھے گا اور رد عمل کا اظہار کرے گا۔اس کا انداز فکر اگر منفی ہے تو دنیا کی ہر نعمت پا کر بھی وہ نعمت کو نعمت نہیں سمجھے گا۔ وہ اس کا کبھی ذکر نہیں کرے گا ۔ اس پر شکر نہیں کرے گا۔البتہ جو چند دو چار چیزیں اس کے پاس نہیں ہوں گی وہ انہی کا رونا روتا رہے گا۔ معاشرے میں اسے صرف منفی چیزیں نظر آئیں گی۔اسے کینسر نظر آئے گاجو ہزار میں سے صرف ایک شخص کو ہوتا ہے مگر طاعون کی وہ وبا نظر نہیں آئے گی جوتاریخ میں ہزاروں لاکھو ں کی آبادیوں کو قبرستان میں تبدیل کرتا رہا ہے ۔
اس کے برعکس مثبت انداز فکر کا انسان وہ ہوتا ہے جو ہر وقت اور ہر معاملے میں نعمت کا پہلو ڈھونڈتا رہتا ہے ۔ وہ معمولی نعمت کو بھی غیر معمولی نعمت سمجھتا ہے ۔ وہ اجتماعی نعمت کو بھی ذاتی نعمت کی صورت میں دیکھتا ہے ۔ وہ دوسروں پر آنے والی مصیبت میں اپنی عافیت اور دوسرے کی محرومی کی روشنی میں خود پر عطائے رب کی بارش کو دریافت کر لیتا ہے ۔ وہ خود کو ملی ہوئی ہاتھ پیر جیسی وہ بیش قیمت نعمتیں دیکھتا ہے جن کا کوئی مول نہیں اور مال و دولت جیسی اس آنی جانی چیز کا رونا نہیں روتا جو آنی جانی چیز ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک انتہائی نازک امتحان میں ہے ۔ اس امتحان میں ناکامی کی شکل میں اسے ابدی طور پر جہنم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ کامیابی کی شکل میں ختم نہ ہونے والی ابدی بادشاہی اس کی منتظر ہے ۔دنیا میں انسان کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ شکر گزار بنتا ہے یا ناشکرا(دھر3:76)۔اس امتحان میں منفی انداز فکر انسان کو ناشکرا بنا کر ناکام کروا سکتا ہے ۔جبکہ مثبت انداز فکر کا انسان شکر گزار بنتا ہے ۔وہ اپنے رب کی حمد کرتا اور اس کی تعریف کے گیت گاتا ہے ۔ وہ اس کی بندگی کی طرف لپکتا اور عبادت کو اپنا شوق بنالیتا ہے ۔ یہی وہ بندہ ہے جو کل قیامت کے دن جنت کے نعمت بھرے باغوں میں ہمیشہ کے لیے بسادیا جائے گا۔




میرا  خیال ہے کہ انسانوں سے متعلق معملات کو کسی فارمولے میں فٹ کرنا مشکل ہیں۔ فلو کا علاج نہیں تھا تو لوگ مرگیے یا اسی طرح کی اور باتیں۔ ایسا لگتا ہے انسانی حالات کا تعلق کسی اور فارمولے سے ہے جسکا سمجھنا ایک طرف بہت آسان لگتا ہے تو دوسری طرف بہت مشکل بھی ہے۔ وبای مرض میں مرنا ایک طرف مشیت الہی ہے تو علاج سے یا ویسے ہی بچ جانا بھی مشیت الہی ہی ہے۔ جب رب تعلی نے چاہا کہ کوی قوم کسی وبا سے ختم ہو جاے تو علاج تو کیا احتیاط کی بھی قوم کو سمجھ نہیں آتی ۔ اورہلاک ہونے کی وجوہات بھی تاریخ میں درج نہیں ہوتیں صرف اپنے زہنی اندازے لگاے جاتے ہیں۔ دراصل تو یہ ڈوری رب تعلی سے ہی جڑی ہوی ہے۔ جب قومیں فلو سے یا کسی اور مرض سے ہلاک ہورہی تھیں تو کیا رب تعلی انسان کو علاج کا علم نہیں دے سکتے تھَے۔ مقصد تو ہلاک کرنا تھا علاج کا علم کیسے ملتا۔ اس طرح جب کسی کو قوم کو قایم رکھنا اور اسکو ترقی دینا ہو تو پھر اسکے فایدے کے بہت سے علوم اس عطا کر دیے جاتے ہیں۔ اسکی بھی کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ ان پر غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ رب تعلی کا قانون ایک ہی ہے ''' جیسا کرو گے ویسا بھرو گے""۔ باقی سب اپنے زہنی عقلی اندازے ہیں کہ ایسا کرتے تو ایسا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ لوگوں نے غزوہ احد کے موقعہ پر کہا تھا ہماری بات مان لیتے اور لڑای میں نہ جاتے تو نہ مارے جاتے۔ کیا خوب عقل یا زہن تھا۔