اس بلاگ کا ترجمہ

Friday, November 9, 2012

بیٹی


بیٹی


دور جہالت کے پروردہ ایک شخص نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کے ساتھ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا عالم دیکھا تو حیرت زدہ رہ گيا ۔ آنکھوں سے آنسو نکل آئے سوچنے لگا کہ آہ کس بے دردی سے میں نے اپنی پارۂ جگر کو صرف دور جہالت کی عصبیت کی بنا پر زندہ در گور کر دیا تھا۔ اور پھر نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کے استفسار پر اپنی داستان بیان کرنا شروع کردی ۔

میری بیوی حاملہ تھی ، ان ہی دنوں میں ایک سفر پر مجبور ہوگیا عرصے بعد پلٹ کر آیا تو اپنے گھر میں ایک بچی
 کو کھیلتے دیکھا بیوی سے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو بیوی نے کہا یہ تمہاری بیٹی ہے اور پھر کسی نامعلوم خوف کے تحت، التجا آمیزلہجے میں کہا: ذرا دیکھو تو کس قدر پیاری بچی ہے اس کے وجود سے گھر میں کتنی رونق ہے، یہ اگر زندہ رہے گی تو تمہاری یادگار بن کر تمہارے خاندان اور قبیلے کا نام زندہ رکھے گی۔ میں نے گردن جھکا لی، بیوی کو کوئی جواب دیے بغیر لڑکی کو بغور دیکھتا رہا لڑکی کچھ دیر تو اجنبی نگاہوں سے مجھے تکتی رہی پھر نہ جانے کیا سوچ کر بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے لپٹ گئی، میں نے بھی جذبات کی رو میں اس کوآغوش میں بھر لیا اور پیار کرنے لگا کچھ عرصہ یونہی گزر گیا لڑکی آہستہ آہستہ بڑی ہوتی رہی اور ہوشیار ہوئی سن بلوغ کےقریب پہنچ گئی اب ماں کو میری طرف سے بالکل اطمینان ہو چکا تھا میرا رویہ بھی بیٹی کے ساتھ محبت آمیز تھا ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا: ذرا اس کو بنا سنوار دو،میں قبیلے کی ایک شادی میں اسے لے جاؤں گا ماں بیچاری خوش ہو گئی اور جلدی سے سجا سنوار کر تیار کردیا۔ میں نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ ا اور گھر سے روانہ ہوگيا۔ ایک غیر آباد بیابان میں پہنچ کر پہلے سے تیار شدہ ایک گڑھے کے قریب میں کھڑا ہوگیا لڑکی جو بڑی خوشی کے ساتھ اچھلتی کودتی چلی آرہی تھی میرے قریب آ کر رک گئی اور بڑی معصومیت سے سوال کیا: بابا یہ گڑھا کا ہے کے لیے ہے؟ میں نے سپاٹ لہجے میں اس سے کہا: اپنے خاندانی رسم و رواج کے مطابق میں تم کو اس میں دفن کردینا چاہتا ہوں تاکہ تمہاری پیدائش سے ہمارے خاندان اور قبیلے کو جو ذلت و رسوائی ہوئی ہے اس سے نجات مل جائے۔ لڑکی کو صورت حال کا اندازہ ہوا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گيا اور قبل اس کے اس کی طرف سے کسی رد عمل کا اظہار ہو، میں نے اس کو گڑھے میں دھکیل دیا ۔ لڑکی دیر تک روتی اور گڑ گڑاتی رہی لیکن مجھ پر اس کے نالہ و فریاد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے گڑھے کو مٹی سے بھر دیا ، اگرچہ آخر وقت تک وہ ہاتھ اٹھائے مجھ سے زندگی کی التجا کر رہی تھی لیکن افسوس! میں نے اپنے دل کے ٹکڑے کو زندہ در گور کردیا لیکن اس کی آخری التجا اب بھی میرے کانوں میں لاوے ٹپکاتی رہتی ہے: " بابا تم نے مجھے تو دفن کردیا لیکن میری ماں کوحقیقت نہ بتانا کہہ دینا کہ میں بیٹی کو اپنے قبیلے والوں میں چھوڑ آیا ہوں"۔

اپنے عرب صحابی سے ایک بیٹی کے زندہ درگور کر دیے جانے کی داستان سنی تو حضور صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا ۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش میں جناب فاطمہ سلام اللّہ علیہا بیٹھی ہوئی تھیں ان کی آنکھوں میں بھی نمی نظر آئی نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کے ہونٹوں پر یہ جملے جاری ہوگئے: بیٹی تو رحمت ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: میں فاطمہ کو دیکھ کر اپنے مشام جان کو بہشت کی خوشبو سے معطر کرتا ہوں۔

بار الٰہی میں تجھ سے موت کے وقت آرام و راحت اور قیامت کے حساب و کتاب کے وقت عفوو مغفرت کا طالب ہوں



tips 4 your life : )




















ا س پوسٹ کو ایک بار ضرور پڑھئیے


ا س پوسٹ کو ایک بار ضرور پڑھئیے، آپ کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہو گا :)

The real Conqueror of the World
 اصل فاتح اعظم  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ


ہم  نے بچپن میں پڑھا تھا کہ مقدونیہ کا الکزنڈر ٢٠ سال کی عمر میں بادشاہ بنا، ٢٣ سال کی عمر میں مقدونیہ  سے نکلا، سب سے پہلے یونان فتح کیا پھر ترکی میں داخل ہوا، پھر ایران کے دارا کو شکست دی، پھر شام میں داخل ہوا اور وہاں سے یروشلم اور بابل کا رخ کیا اور پھر مصر پہنچا- وہاں سے ہندوستان آیا اور راجہ پورس کو شکست دی، اپنے عزیز از جان گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کیا اور پھر مکران کے راستے واپسی کے سفر میں ٹائیفوا یڈ میں مبتلا ہو کر بخت نصر کے محل میں ٣٣ سال کی عمر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا- دنیا کو بتایا گیا کہ وہ اپنے وقت کا عظیم فاتح جنرل اور بادشاہ تھا اور اسی وجہ سے دنیا اس کو الکزنڈر دی گریٹ یعنی سکندر اعظم - بمعنی فاتح اعظم - کے لقب سے یاد کرتی ہے

آج اکیسویں صدی میں دنیا کے مورخین کے سامنے یہ سوال رکھا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کے ہوتے ہوے کیا واقعی الکزنڈر فاتح اعظم کے لقب کا حقدار ہے ؟  سوچئے، الکزنڈر جب بادشاہ بنا تو اسے بہترین ماہروں نے گھڑ سواری اور تیراندازی سکھائی، اسے ارسطو جیسے استادوں کی صحبت ملی اور جب ٢٠ سال کا ہوا تو تخت و تاج پیش کر دیا گیا - حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کی سات پشتون میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا اور وہ اونٹ چراتے چراتے جوان ہوئے تھے- آپ نے نیزہ بازی اور تلوار چلانے کا ہنر بھی کسی استاد سے نہیں سیکھا تھا - الکزنڈر نے ایک منظم فوج کے ساتھ دس برسوں میں ١٧ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے بغیر کسی بڑی منظم فوج کے دس برسوں میں ٢٢ لاکھ مربع میل کا علاقہ زیرنگوں کیا جس میں روم اور ایران کی دو عظیم مملکت بھی شامل ہیں

یہ تمام علاقہ جو گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہو کر فتح ہوا اس کا انتظام و انصرام بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے بہترین انداز میں چلایا- الکزنڈر نے جنگوں کے دوران بے شمار جرنیلوں کا قتل بھی کرایا اور اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں- ہندوستان میں اسکی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کیا لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کے کسی ساتھی کو انکے کسی حکم کی سرتابی کی جرات نہ تھی وہ ایسے جرنیل تھے کہ عین میدان جنگ میں حضرت خالد بن ولید جیسے سپہ سالار کو معزول کیا، حضرت سعد بن ابی وقاص کو کوفے کی گورنری سے ہٹایا، حضرت حارث بن کعب سے گورنری واپس لی، حضرت عمرو بن العاص کا مال ضبط کرنے کا حکم دیا اور حرص کے علاقے کے ایک اور گورنر کو واپس بلا کر سزا کے طور اونٹ چرانے پر لگا دیا- آپ کے ان تمام سخت فیصلوں کے خلاف کسی کو حکم عدولی کی جرات نہ ہوئی سب کو معلوم تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ فیصلہ صرف عدل کی بنیاد پر کرتے ہیں اور عدل کے خلاف وہ کچہ برداشت نہیں فرماتے

الکزنڈر نے ١٧ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا لیکن دنیا کو کوئی نظام نہ دے سکا - حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے دنیا کو ایسے ایسے نظام دیے جو آج تک تک کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہیں - دینی فیصلوں میں آپ نے فجر کی اذان میں أصلوأة خير من النوم کا اضافہ فرمایا، آپ کے عہد میں با قاعدہ تراویح کا سلسلہ شروع ہوا، شراب نوشی کی سزا مقرر ہوئی اور آپ نے سنہ ہجری کا آغاز کروایا، موذنوں کی تنخواہ مقرر کی اور تمام مسجدوں میں روشنی کا بندوبست فرمایا - دنیاوی فیصلوں میں آپ نے ایک مکمل عدالتی نظام تشکیل دیا اور جیل کا تصّور دیا، آبپاشی کا نظام بنایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا با قاعدہ محکمہ قائم کیا- پ نےدنیا بھر میں پہلی مرتبہ دودھ پیتے بچوں، بیواؤں اور معذوروں کے لئے وظایف مقرر کیۓ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں ہوتے تھے، سفر کے دوران نیند کے وقت زمین پر اینٹ کا تکیہ بنا کر سو جایا کرتے تھے، آپ کے کرتے پر کئی پیوند رہا کرتے تھے، آپ موٹا کھردرا کپڑا پہنا کرتے تھے اور آپ کو باریک ملایم کپڑے سے نفرت تھی - آپ جب بھی کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو تاکید کرتے تھے کہ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑا نہ پہننا، چھنا ہوا  آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا - آپ فرماتے تھے کہ عادل حکمران بے خوف ہو کر سوتا ہے - آپ کی سرکاری مہر پر لکھا تھا 'عمر - نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے
'
آپ فرماتے 'ظالم کو معاف کرنا مظلوم پر ظلم کرنے کے برابر ہے'، اور آپ کا یہ فقرہ آج دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے چارٹر کا درجہ رکھتا ہے کہ ' مائیں اپنے بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا؟ ' آپ کے عدل کی وجہ سے رسول الله صل اللہ علیھ وسلّم نے آپ کو 'فاروق' کا لقب دیا اور آج دنیا میں عدل فاروقی ایک مثال بن گیا ہے - حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ شہادت کے وقت مقروض تھے چنانچہ وصیّت کے مطابق آپ کا مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کیا گیا

اگر آج دنیا بھر کے مورخین الکزنڈر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کا موازنہ کرتے ہیں تو انھیں  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کی پہاڑ جیسی شخصیت کے سامنے الکزنڈر ایک کنکر سے زیادہ نہیں  معلوم ہوتا کیونکہ الکزنڈر کی بنائی سلطنت اسکے مرنے کے پانچ سال بعد ہی ختم ہو گئی تھی جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے جس جس خطّے میں اسلام کا جھنڈا لگایا وہاں آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا سنایی دیتی ہے - الکزنڈر کا نام آج صرف کتابوں میں ملتا ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کے دئیے ہوے نظام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے ٢٤٥ ملکوں میں رائج ہیں - آج بھی جب کبھی کوئی خط کسی ڈاک خانے سے نکلتا ہے، یا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، یا وہ چھٹی پر جاتا ہے، یا پھر کوئی معذور یا بیوہ حکومت سے وظیفہ  پاتے ہیں تو بلا شبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کی عظمت تسلیم کرنی پڑتی ہے

تقسیم ہند کے دوران لاہور کے مسلمانوں نے ایک مرتبہ انگریزوں کو دھمکی دی کہ 'اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آ جاۓ گا' .. اس پر جواھر لال نہرو نے کہا کہ 'افسوس یہ مسلمان بھول گئے کہ ان کی تاریخ میں کوئی عمر فاروق (رضی اللہ عنھ) بھی تھا'... اور واقعی آج ہم یہ بھولے ہوے ہیں کہ رسول الله صل اللہ علیھ وسلّم نے فرمایا تھا کہ "اگر میرے بعد کوئی
 نبی ہوتا تو وہ عمربن خطاب ہی ہوتا""

حدیث شریف ہے کہ



حدیث شریف ہے کہ
حیاء اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے۔( راوی حضرت ابن عمر بہیقی فی شعب الاایمان140/6 حدیث 7727 )
آنچل کی ہوتی موت کو دیکھ کر شاعر کہتا ہے ۔
جلتے ہوئے آنچل کو کچھ اور ہوا دیجئے
اب راکھ بنا دیجئے سب کچھ ہی جلا دیجئے
کوئی پردہ کرے یا نہ کرے یہ اس کا اپنا فعل ہے۔ اور نہ کسی پر جبر کرسکتا ہوں مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ جب گھر کے مردوں کی غیرت سو جاتی ہے تو ان کے گھروں کی خواتین میں آزاد ہونے کا خیال جاگ اٹھتا ہے !
آزادئ نسواں آخر صرف پردہ اتروانے تک کیوں محدود ہے ؟
آزادئ نسواں کا مطالبہ اس حد تک ٹھیک ہے کہ عورت کو تعلیم کا حق حاصل ہو ، ایک بہن، بیوی اور بیٹی کی صورت میں تحفظ حاصل ہو اور پیار و محبت ، شفقت کا سلوک میسر ہو ،
آزادئ نسواں کا مطلب اخلاقی بےراہ روی نہیں ہونا چاہئے!
مغرب کی نقالی میں یہ مت بھولیں کہ آپ ایک مسلمان بھی ہیں اور اسلام وہ پاک مذہب ہے جس نے عورت ذات کو اس وقت عزت دی جب پوری دنیا میں عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی بد تر سمجھا جاتا تھا ،
ایک وقت تھا دوپٹہ صنف نازک کی پہچان تھا مگر آج یہ صنف نازک کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ بازار ہو یا شادی کا فنکشن یا کوئی ٹی وی چینل غرض جس جگہ بھی ملاحظہ فرمائیں خواتین دوپٹے سے جان چھڑاتی نظر آتی ہیں۔دوپٹہ عورت کے لباس کا ایک اہم جز ہے مگر بدن صنف نازک پر یہ ایک لاوارث لاش کی طرح پڑا نظر آتا ہے۔
پتا نہیں عورت ذات کو آنچل سے کیا الرجی ہو گئی ہے؟ ایک وقت تھا کہ یہ رنگین آنچل ماحول کو رنگین بناتے تھے۔ آنچل سے ماحول سات رنگی ہو جاتا تھا۔آج دوُپٹہ ایک فیشن ہے پردہ نہیں۔
آج کی صنف نازک چند نام نہاد آرڈیننس کا سہارا لیکر اپنے آپ کو ایکسپوز کروا رہی ہیں۔ایک طرف تو یہ خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں دوسری طرف اس قسم کے فیشن اور رسمیں اللہ اکبر۔ کوئی درمیانہ راستہ ہی اختیار کر لیں۔
دوپٹہ تو چلو گیا سو گیا اوپر سے قمیض کے بازو بھی غائب ہو رہے ہیں۔ زرا دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ میں سچ کہہ رہا ہوں یا نہیں۔ ایک دن آئے گا کہ بدن پر چند برائے نام کپڑے ہی ہوں گے جو فیشن کہلائے گا۔
میڈیا اور یہ رئیس لوگ اس کام میں پیش پیش ہیں۔ خواتین میڈیا کی اندھا دھند نقالی کرتی ہیں بلکہ اسکو اختیار کرنا باعث فخر سمجھتی ہیں۔ایک طرف وہ عورت ہے جو حجاب کی وجہ سے شہید کر دی جاتی ہے اور ایک طرف یہ عورتیں ہیں کہ بدن پر کپڑے کم سے کم کرتی جا رہی ہیں۔
عورتوں کی اس حالت کے مرد بھی برابر کے ذمےدار ہیں جو پردے کے ذکر پر کہتے ہیں کہ ہماری بیوی نیک ہے ، ہمیں اپنی بیوی پر پورا بھروسہ ہے اور پردہ تو نظر کا ہوتا ہے ، یہاں تک دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ بعض مردوں نے اپنی با پردہ بیوی کو مجبور کر کے برقعہ اتروا دیا .
اب کوئی ان مردوں سے یہ تو پوچھے کہ انکی بیوی جتنی بھی نیک پارسا ہو ، امہات المؤمنين رض سے بڑھ کر تو نیک ، پارسا اور عبادت گزار تو ہر گز بھی کسی صورت بھی نہیں ہو سکتی، جب امہات المؤمنين رض کو بھی پردے کا حکم تھا تو پھر آج کی عورت کو کیوں نہیں؟ اور پھر عورت کے لفظی معانی ہی پردے کے ہیں !
عورت وہ چاند نہیں ہونا چاہئے جس کو ہر کوئی بےنقاب دیکھے
بلکہ عورت وہ سورج ہونی چاہئے جسے دیکھنے سے پہلے ہی آنکھ جھک جاۓ !
الله تعالیٰ کا فرمان ہے
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ‌هِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ‌ أُولِي الْإِرْ‌بَةِ مِنَ الرِّ‌جَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُ‌وا عَلَىٰ عَوْرَ‌اتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِ‌بْنَ بِأَرْ‌جُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ-
’’ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔‘‘
اے میری ماؤں، بہنوں
توبہ کیجئے ! اللہ کو آپ کی توبہ کا انتظار ہے .آپکی توبہ سے آپکے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جائیں گے اللہ کا وعدہ ہے، دیکھئے الله تعالیٰ کا یہ فرمان
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا
مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔