اسم اعظم
اس اعظم کے حوالے سے ہمارے ہاں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں ۔یہ بات بالعموم مانی جاتی ہے کہ جس کسی کو اسم اعظم معلوم ہوجاتا ہے اس کی دعائیں مقبول ہوجاتی ہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسم اعظم کے ساتھ بہت سے تکوینی امور میں تصرف بھی کیا جا سکتا ہے ۔ تاہم اسم اعظم کیا ہے ، اس بارے میں لوگوں کی آرا بڑ ی مختلف ہیں ۔ کچھ لوگوں ک
اس اعظم کے حوالے سے ہمارے ہاں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں ۔یہ بات بالعموم مانی جاتی ہے کہ جس کسی کو اسم اعظم معلوم ہوجاتا ہے اس کی دعائیں مقبول ہوجاتی ہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسم اعظم کے ساتھ بہت سے تکوینی امور میں تصرف بھی کیا جا سکتا ہے ۔ تاہم اسم اعظم کیا ہے ، اس بارے میں لوگوں کی آرا بڑ ی مختلف ہیں ۔ کچھ لوگوں ک
ے نزدیک یہ لفظ اللہ ہے ۔ کچھ کے نزدیک یہ ایک خاص قسم کے تعویذ کی حیثیت رکھتا ہے اور کچھ لوگ بعض قرآنی دعاؤں کو اس حیثیت میں پیش کرتے ہیں ۔
دین پر براہ راست گہری نظر رکھنے والے لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسم اعظم جیسے مباحث دین کی تعلیمات میں غیر متعلق ہیں ۔دین اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا نام ہے جو آخرت کی ابدی زندگی میں انسانوں کی کامیابی کی ضامن ہے ۔اِس دنیا میں کسی انسان کی دعا قبول ہو یا نہ ہو اس کا انحصار اللہ تعالیٰ کی حکمت پر ہوتا ہے ۔ بندے کا کام ہے کہ وہ رب سے اور تنہا رب ہی سے اپنے دل کی مراد مانگتا رہے ۔ بلاشبہ وہ ہر ہر دل کی دعا سنتا ہے اور اس کی حکمت کا تقاضہ ہوتا ہے اور مانگنے والا اصرار ، اضطرار اور لجاجت سے مستقل مزاجی کے ساتھ مانگتا رہے تو اللہ تعالیٰ کی یہ عادت شریفہ ہے کہ وہ ایسے مانگنے والے کی بات رد نہیں کرتے ۔
البتہ اسم اعظم کی بحث معارفت رب کے پہلو سے بڑ ی اہم ہے ۔جیسا کہ معلوم ہے اسماء الہی دراصل صفات الہی کا نام ہے ۔اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق رکھنے والے ایک بندے کی یہ فطری خواہش ہو سکتی ہے کہ معرفت رب کے پہلو سے یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے وہ کون سی صفات ہیں جو اللہ پروردگار عالم کا جامع ترین تعارف کراتی ہیں ۔
اس پہلو سے صفات الہی اصل میں دو ہی ہیں ۔ایک صفات ذاتی جن کا مخلوق کے ہونے نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ۔ مثلاً اللہ یکتا ہے ۔ایک ہے ۔زندہ وقائم ہے ۔ سب سے پہلے ہے ۔ سب سے بعد ہے ۔بے نیاز ہے ۔اپنی ذات میں قابل تعریف ہے ، وغیرہ۔ ھو اللہ الاحد الواحد الحی القیوم الاول الاخر الظاہر الباطن الغنی الحمید۔ یہ صفات ہمارے احاطہ ادراک سے مکمل طور پر باہر ہیں اور یہ اتنی زیادہ ہو سکتی ہیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ان میں سے بعض صفات کے بیان کا بنیادی مقصد بندوں کو ذات الہی سے متعارف کرانا ہوتا ہے ۔ مثلاً درج بالاصفات یہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ جیسا کوئی نہیں (الاحد )۔ وہ اپنی نوعیت کی ایک ہی ہستی ہے (الواحد)۔فنا و عدم کے خطرے سے محفوظ (الحی القیوم)ہے ۔ زمان (الاول الاخر) و مکان ( الظاہر الباطن )کی قید سے ماورا ہے ۔ اپنے سوا ہر غیر کی موجودگی ، مدداور مدح(الغنی الحمید) سے بلند ہے ۔
دوسری صفات وہ ہیں جن کا اظہار مخلوق کے تعلق سے ہوتا ہے ۔ یہ صفات بھی ان گنت ہیں ۔ تاہم قرآن مجید کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام صفات دو بنیادی صفات سے پھوٹتی ہیں ۔جن کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مخلوق کے تعلق سے یہ نہ شمار کی جانے والی شانوں اور کمالات کی جامع ہیں ۔ ان دوبنیادی صفات کو ہم آسان اردو میں اس طرح بیان کریں گے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق اور کریم مطلق ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے متعلق ان دو صفات کے بیان کے لیے قرآن مجید نے مختلف پیرائے اختیار کیے ہیں ۔ مثلاً کہیں مطلق کرم کو الرحمن و الرحیم سے بیان کیا گیا اور کہیں قدرت مطلقہ کے لیے الملک المقتدر کہا گیا۔ کہیں دونوں کو ملا کر عزیز الرحیم کہہ دیا گیا۔ تاہم خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت کی بھی آخری انتہا رکھتے ہیں اور تصور سے بھی زیادہ بلند ہوکر کرم کرنے والے ہیں ۔
جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے اس پہلو کا معمولی سا اندازہ بھی ہوجائے ، اس کا ہر خوف و اندیشہ خدا کے ساتھ خاص ہوتا ہے ۔ وہ اس ا تھاہ طاقت سے بے پناہ ڈرتا بھی ہے ، مگر اس کے بے اندازہ کرم کی امید بھی رکھتا ہے ۔اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ جو چاہے جب چاہے کرسکتا ہے اور جو کرتا ہے ٹھیک ہی کرتا ہے ۔وہ بندہ عاجز کے ہر عجز کی تلافی کرسکتا ہے اور بندہ نادم کی ہر خطا کی پردہ پوشی کر لے گا۔عرش تا فرش اس کی عنایات عالیہ اور قدر ت کاملہ کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں جو جلال و جمال اور کمال کی ختم نہ ہونے والی داستان کے منتشر اور منظم اجزا ہیں ۔ وہی رب ہے جس سے مانگنا چاہیے اور صرف وہی دینے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ وہ قدرت ہی نہیں رکھتا دینے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور عطا و کرم کی کسی بخشش کے بعد اس کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی سمند رسے قطرے کے نکلنے کے بعد ہوجاتی ہے ۔
معرفت کے اس پہلو سے اگر اسم اعظم کا مصداق اگر کوئی صفات ہو سکتی ہیں تو یہی قدرت مطلقہ اور کرم مطلقہ ہے ۔اس یقین، معرفت اور احساس کے ساتھ خدا کو پکارنے والا بندہ رب کی بارگاہ سے خالی ہاتھ لوٹے ، اس کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں پایا جاتا
دین پر براہ راست گہری نظر رکھنے والے لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسم اعظم جیسے مباحث دین کی تعلیمات میں غیر متعلق ہیں ۔دین اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا نام ہے جو آخرت کی ابدی زندگی میں انسانوں کی کامیابی کی ضامن ہے ۔اِس دنیا میں کسی انسان کی دعا قبول ہو یا نہ ہو اس کا انحصار اللہ تعالیٰ کی حکمت پر ہوتا ہے ۔ بندے کا کام ہے کہ وہ رب سے اور تنہا رب ہی سے اپنے دل کی مراد مانگتا رہے ۔ بلاشبہ وہ ہر ہر دل کی دعا سنتا ہے اور اس کی حکمت کا تقاضہ ہوتا ہے اور مانگنے والا اصرار ، اضطرار اور لجاجت سے مستقل مزاجی کے ساتھ مانگتا رہے تو اللہ تعالیٰ کی یہ عادت شریفہ ہے کہ وہ ایسے مانگنے والے کی بات رد نہیں کرتے ۔
البتہ اسم اعظم کی بحث معارفت رب کے پہلو سے بڑ ی اہم ہے ۔جیسا کہ معلوم ہے اسماء الہی دراصل صفات الہی کا نام ہے ۔اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق رکھنے والے ایک بندے کی یہ فطری خواہش ہو سکتی ہے کہ معرفت رب کے پہلو سے یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے وہ کون سی صفات ہیں جو اللہ پروردگار عالم کا جامع ترین تعارف کراتی ہیں ۔
اس پہلو سے صفات الہی اصل میں دو ہی ہیں ۔ایک صفات ذاتی جن کا مخلوق کے ہونے نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ۔ مثلاً اللہ یکتا ہے ۔ایک ہے ۔زندہ وقائم ہے ۔ سب سے پہلے ہے ۔ سب سے بعد ہے ۔بے نیاز ہے ۔اپنی ذات میں قابل تعریف ہے ، وغیرہ۔ ھو اللہ الاحد الواحد الحی القیوم الاول الاخر الظاہر الباطن الغنی الحمید۔ یہ صفات ہمارے احاطہ ادراک سے مکمل طور پر باہر ہیں اور یہ اتنی زیادہ ہو سکتی ہیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ان میں سے بعض صفات کے بیان کا بنیادی مقصد بندوں کو ذات الہی سے متعارف کرانا ہوتا ہے ۔ مثلاً درج بالاصفات یہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ جیسا کوئی نہیں (الاحد )۔ وہ اپنی نوعیت کی ایک ہی ہستی ہے (الواحد)۔فنا و عدم کے خطرے سے محفوظ (الحی القیوم)ہے ۔ زمان (الاول الاخر) و مکان ( الظاہر الباطن )کی قید سے ماورا ہے ۔ اپنے سوا ہر غیر کی موجودگی ، مدداور مدح(الغنی الحمید) سے بلند ہے ۔
دوسری صفات وہ ہیں جن کا اظہار مخلوق کے تعلق سے ہوتا ہے ۔ یہ صفات بھی ان گنت ہیں ۔ تاہم قرآن مجید کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام صفات دو بنیادی صفات سے پھوٹتی ہیں ۔جن کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مخلوق کے تعلق سے یہ نہ شمار کی جانے والی شانوں اور کمالات کی جامع ہیں ۔ ان دوبنیادی صفات کو ہم آسان اردو میں اس طرح بیان کریں گے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق اور کریم مطلق ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے متعلق ان دو صفات کے بیان کے لیے قرآن مجید نے مختلف پیرائے اختیار کیے ہیں ۔ مثلاً کہیں مطلق کرم کو الرحمن و الرحیم سے بیان کیا گیا اور کہیں قدرت مطلقہ کے لیے الملک المقتدر کہا گیا۔ کہیں دونوں کو ملا کر عزیز الرحیم کہہ دیا گیا۔ تاہم خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت کی بھی آخری انتہا رکھتے ہیں اور تصور سے بھی زیادہ بلند ہوکر کرم کرنے والے ہیں ۔
جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے اس پہلو کا معمولی سا اندازہ بھی ہوجائے ، اس کا ہر خوف و اندیشہ خدا کے ساتھ خاص ہوتا ہے ۔ وہ اس ا تھاہ طاقت سے بے پناہ ڈرتا بھی ہے ، مگر اس کے بے اندازہ کرم کی امید بھی رکھتا ہے ۔اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ جو چاہے جب چاہے کرسکتا ہے اور جو کرتا ہے ٹھیک ہی کرتا ہے ۔وہ بندہ عاجز کے ہر عجز کی تلافی کرسکتا ہے اور بندہ نادم کی ہر خطا کی پردہ پوشی کر لے گا۔عرش تا فرش اس کی عنایات عالیہ اور قدر ت کاملہ کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں جو جلال و جمال اور کمال کی ختم نہ ہونے والی داستان کے منتشر اور منظم اجزا ہیں ۔ وہی رب ہے جس سے مانگنا چاہیے اور صرف وہی دینے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ وہ قدرت ہی نہیں رکھتا دینے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور عطا و کرم کی کسی بخشش کے بعد اس کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی سمند رسے قطرے کے نکلنے کے بعد ہوجاتی ہے ۔
معرفت کے اس پہلو سے اگر اسم اعظم کا مصداق اگر کوئی صفات ہو سکتی ہیں تو یہی قدرت مطلقہ اور کرم مطلقہ ہے ۔اس یقین، معرفت اور احساس کے ساتھ خدا کو پکارنے والا بندہ رب کی بارگاہ سے خالی ہاتھ لوٹے ، اس کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں پایا جاتا