اس بلاگ کا ترجمہ

Sunday, November 4, 2012

یہ کمیونزم کے زمانے کا ذکر ہے


یہ ۱۹۳۰ کے عشرے میں (یہ کمیونزم کے زمانے کا ذکر ہے) ایک طالبعلم نے جب مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقت ہونے پر اُس نے نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی تو اُسے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کی جگہ تو نہیں ہے۔ ہاں مگر تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں اگر کوئی چاہے تو وہاں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
طالبعلم یہ بات سوچتے ہوئے کہ دوسرے طالبعلم اور اساتذہ نماز پڑھتے بھی ہیں یا نہیں، 
تہہ خانے کی طرف اُس کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔
وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ نماز کیلئے کمرے کے وسط میں ایک پھٹی پرانی چٹائی تو بچھی ہوئی ہے مگر کمرہ صفائی سے محروم اور کاٹھ کباڑ اور گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ایک ادنیٰ ملازم وہاں پہلے سے نماز پڑھنے کیلئے موجود ہے۔ طالبعلم نے اُس ملازم سے پوچھا کیا تم یہاں نماز پڑھو گے؟
ملازم نے جواب دیا، ہاں، اوپر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی ادھر نماز پڑھنے کیلئے نہیں آتا اور نماز کیلئے اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔
طالبعلم نے ملازم کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا؛ مگر میں یہاں ہرگز نماز نہیں پڑھوں گا اور اوپر کی طرف سب لوگوں کو واضح دکھائی دینے والی مناسب سی جگہ کی تلاش میں چل پڑا۔ اور پھر اُس نے ایک جگہ کا انتخاب کر کے نہایت ہی عجیب حرکت کر ڈالی۔
اُس نے بلند آواز سے اذان کہی! پہلے تو سب لوگ اس عجیب حرکت پر حیرت زدہ ہوئے پھر انہوں نے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیئے۔ اُنگلیاں اُٹھا کر اس طالبعلم کو پاگل اور اُجڈ شمار کرنے لگے۔ مگر یہ طالبعلم تھا کہ کسی چیز کی پرواہ کیئے بغیر اذان پوری کہہ کر تھوڑی دیر کیلئے اُدھر ہی بیٹھ گیا۔ اُس کے نماز پڑھنا شروع کردی۔ اُسکی نماز میں محویت سے تو ایسا دکھائی تھا کہ گویا وہ اس دنیا میں تنہا ہی ہے اور اُسکے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں۔
دوسرے دن پھر اُسی وقت پر آ کر اُس نے وہاں پھر بلند آواز سے اذان دی، اور خود ہی نماز پڑھ کر اپنی راہ لی۔ اور اس کے بعد تو یہ معمول ہی چل نکلا۔ ایک دن، دو دن، تین دن۔۔۔وہی صورتحال۔۔۔ پھر قہقہے لگانے والے لوگوں کیلئے اُس طالبعلم کا یہ دیوانہ پن کوئی نئی چیز نہ رہی اور آہستہ آہستہ قہقہوں کی آواز بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ اسکے بعد پہلی تبدیلی کی ابتداء ہوئی۔ نیچے تہہ خانے میں نماز پڑھنے والے ملازم نے ہمت کر کے باہر اس جگہ پر اس طالبعلم کی اقتداء میں نماز پڑھ ڈالی۔ ایک ہفتے کے بعد یہاں نماز پڑھنے والے چار لوگ ہو چکے تھے۔ اگلے ہفتے ایک اُستاذ بھی آ کر اِن لوگوں میں شامل ہوگیا۔
یہ بات پھیلتے پھیلتے یونیورسٹی کے چاروں کونوں میں پہنچ گئی۔ پھر ایک دن چانسلر نے اس طالبعلم کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور کہا: تمہاری یہ حرکت یونیورسٹی کے معیار سے میل نہیں کھاتی اور نہ ہی یہ کوئی مہذب منظر دکھائی دیتا ہے کہ تم یونیورسٹی ہال کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اذانیں دو یا جماعت کراؤ۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ یہاں اس یونیورسٹی میں ایک کمرے کی چھوٹی سی صاف سُتھری مسجد بنوا دیتا ہوں، جس کا دل چاہے نماز کے وقت وہاں جا کر نماز پڑھ لیا کرے۔
اور اس طرح مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پہلی مسجد کی بنیاد پڑی۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رُکا نہیں، باقی کی یونیورسٹیوں کے طلباء کی بھی غیرت ایمانی جاگ اُٹھی اور ایگریکلچر یونیورسٹی کی مسجد کو بُنیاد بنا کر سب نے اپنے اپنے ہاں مسجدوں کی تعمیر کا مطالبہ کر ڈالا اور پھر ہر یونیورسٹی میں ایک مسجد بن گئی۔
اِس طالبعلم نے ایک مثبت مقصد کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور پھر اِس مثبت مقصد کے نتائج بھی بہت عظیم الشان نکلے۔ اور آج دن تک، خواہ یہ طالبعلم زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، مصر کی یونیورسٹیوں میں بنی ہوئی سب مسجدوں میں اللہ کی بندگی ادا کیئے جانے کے عوض اجر و ثواب پا رہا ہےاور رہتی دُنیا تک اسی طرح اجر پاتا رہے گا۔ اس طالب علم نے اپنی زندگی میں کار خیر کر کے نیک اعمالوں میں اضافہ کیا۔
میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ
ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسا کونسا اضافہ کیا ہے؟ تاکہ ہمارا اثر و رسوخ ہمارے گردو نواح کے ماحول پر نظر آئے، ہمیں چاہیئے کہ اپنے اطراف میں نظر آنے والی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہا کریں۔ حق و صدق کہنے اور کرنے میں کیسی مروت اور کیسا شرمانا؟ بس مقاصد میں کامیابی کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی دعا مانگتے رہیں۔
اور اسکا فائدہ کیا ہوگا؟
اپنے لیئے اور دوسرے کیلئے سچائی اور حق کا علم بُلند کر کے اللہ کے ہاں مأجور ہوں کیونکہ جس نے کسی نیکی کی ابتداء کی اُس کیلئے اجر، اور جس نے رہتی دُنیا تک اُس نیکی پر عمل کیا اُس کیلئے اور نیکی شروع کرنے والے کو بھی ویسا ہی اجر ملتا رہے گا۔
لوگوں میں نیکی کرنے کی لگن کی کمی نہیں ہے بس اُن کے اندر احساس جگانے کی ضرورت ہے۔ قائد بنیئے اور لوگوں کے احساسات کو مُثبت رُخ دیجیئے۔
اگر کبھی اچھے مقصد کے حصول کے دوران لوگوں کے طنز و تضحیک سے واسطہ پڑے تو یہ سوچ کر دل کو مضبوط رکھیئے کہ انبیاء علیھم السلام کو تو تضحیک سے بھی ہٹ کر ایذاء کا بھی نشانہ بننا پڑتا تھا۔

طبی تحقیق نے ثابت



طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب دل کے اَمراض سے بچاؤ میں بہت مُمِد ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔

ایک وقت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھا جانا یا ہر روز بھ
اری ناشتہ کرنا یا روزانہ دوپہر کا بھرپور کھانا، شام کا بھرپور کھانا، اچھی صحت کے لئے ضروری خوراک سے کافی زیادہ ہے۔ روزانہ دن میں تین وقت کا بھرپور کھانا، خاص طور پر زیادہ کیلوریز پر مشتمل خوراک اور سیرشدہ چکنائیاں نہ صرف صحت کے لئے سخت نقصان دِہ ہیں بلکہ اَمراضِ قلب اور دُوسری بہت سی خطرناک بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا سبب بھی بنتا ہے۔

قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

كُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO

(الاعراف، 7 : 31)

کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاo

قرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے :

إنّ المؤمنَ يأکلُ في معيٍ واحدٍ، وَ الکافر يأکلُ في سبعة أمعاء.

(صحيح البخاري، 2 : 812)
(جامع الترمذي، 2 : 4)
(سنن الدارمي، 2 : 25)

مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے فرمایا :

إنّ اﷲَ يبغض الأ کلَ فوق شبعه.

(کنزالعمال : 44029)

اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

بسیارخوری بیماری کی جڑ ہے اِس لئے اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔ تاجدارِ حکمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :

أکثر الناسِ شبعاً في الدُّنيا أطولهم جوعاً يومَ القيامةِ.

(سنن ابن ماجه : 248)

جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔

اِسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید اِرشاد فرمایا :

حسب الآٰدمي لقيمات، يقمن صلبه، فإنْ غلبت الآٰدمي نفسه فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس.

(سنن ابن ماجه : 248)

اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک تہائی سانس لینے میں آسانی کے لئے چھوڑ دو۔

کثرتِ طعام ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار ایسا ہونے سے لبلبے کے خلیے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی کمی کا ایک بڑا سبب بسیارخوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا ہے

جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد سے زیادہ کیوں ہے ؟

جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد سے زیادہ کیوں ہے ؟

الحمد للہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہے ۔

عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( میں نے جنت میں جھانکا تو اس میں اکثر لوگ فقراء تھے اور میں نے جہنم میں جھانکا تو اس میں اکثر عورتیں تھیں )

صحیح بخاری حدیث نمبر 3241 صحیح مسلم حدیث نمبر 2737

اور اس کے سبب کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے وہ بھی بیان فرمایا کہ :

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(مجھے آگ دکھائی گئي تو میں آج جیسا خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ہے تو صحابہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اپنے کفر کی وجہ سے تو آپ سے یہ کہا گیا وہ اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرتی ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاوند اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زندگی بھر احسان کرتے رہو تو پھر وہ آپ سے کوئی چیز دیکھ لے تو یہ کہتی ہے کہ میں نے ساری زندگی تم سے کوئی خیر ہی دیکھی ) صحیح بخاری حدیث نمبر 1052

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عید الفطر کے لۓ عید گاہ کی طرف نکلے تو عورتوں کے پاس گزرے تو فرمانے لگے :

( اے عورتوں کی جماعت صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک مجھے دکھایا گیا ہے کہ تمہاری جہنم میں اکثریت ہے تو وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی نافرمانی کرتی ہو میں نے دین اور عقل میں ناقص تم سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا تم میں سے کوئی ایک اچھے بھلے شخص کی عقل خراب کر دیتی ہے ۔

وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارا دین اور ہماری عقل میں نقص کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی نصف مرد کے برابر نہیں تو وہ کہنے لگیں کیوں نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو یہ اس کی ع‍قل کا نقصان ہے کیا جب کسی کو حیض آئے تو وہ نماز اور روزہ نہیں چھوڑتی تو وہ کہنے لگيں کیوں نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس کے دین کا نقصان ہے )

صحیح بخاری حدیث نمبر 304

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کے دن نماز میں حاضر تھا تو آپ نے خطبہ سے قبل بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی پھر نماز کے بعد بلال رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئےاور اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا اور اس کی اطاعت کرنے پر ابھارا اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کی پھر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور کہنے لگے :

( اے عورتو ! صدقہ و خیرات کیا کرو کیونکہ تمہاری اکثریت جہنم کا ایندھن ہے تو عورتوں کے درمیان سے ایک سیاہ نشان والے رخساروں والی عورت اٹھ کر کہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس لۓ کہ تم شکوہ اور شکایت بہت زیادہ کرتی اور خاوند کی نافرمانی اور نا شکری کرتی ہو جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے زیورات میں سے صدقہ کے لۓ اپنی انگھوٹھیاں اور بالیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ذالنے لگیں ) صحیح مسلم حدیث نمبر 885

اس لیےان مسلمان بہنوں پر ضروری ہے کہ جو اس حدیث کو جانتی ہیں کہ ان کے معاملات بھی ان صحابیات کی طرح ہونے ضروری ہیں کہ جب ان کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے خیر اور بھلائی کی جو کہ اللہ تعالی کے حکم سے انہیں اس اکثریت سے دور لے جائے گی اور وہ جہنم میں داخلے سے بچ جائيں گی ۔

بہنوں کو ہماری یہ نصیحت ہے کہ وہ اسلام کے شعار اور فرائض پر عمل کریں اور خاص کر نماز پڑھیں اور ان اشیاء سے دور رہیں جو کہ اللہ تعالی نے حرام کی ہیں خاص کر اس شرک سے جو کہ عورتوں کے اندر مختلف صورتوں میں پھیلا ہوا ہے م‍ثلا اللہ تعالی کے علاوہ دوسروں سے حاجات پوری کروانا اور جادو گروں اور نجومیوں کے پاس جانا ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور ہمارے سب بہن بھائیوں کو آگ سے دور کرے اور ایسے قول وعمل کرنے کی توفیق دے جو اللہ تعالی کے قریب کریں ۔

واللہ اعلم

عورت اللہ کے ڈر سے کانپنے لگی


عورت اللہ کے ڈر سے کانپنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کئی بار یہ سنا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے کہ بنی اسرائیل میں کفل نامی
ایک شخص تھا جو ہمیشہ رات دن برائی م
یں پھنسا رہتا تھا. کوئی سیاہ کاری ایسی نہ تھی جو اس سے چھو ُٹی ہو. نفس کی کوئی ایسی خواہش نہ تھی جو اس نے پوری نہ
کی ہو.ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ(60) دینار دے کر بدکاری کیلئے آمادہ کیا . جب وہ تنہائی میں اپنے برے کام کے ارادے پر مستعد ہوتا ہے تو وہ نیک بخت بید لرزاں کی طرح
تھرانے لگتی ہے . اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں. چہرے کا رنگ فق پڑجاتا ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، کلیجہ بانسوں اچھلنے لگتا ہے، کفل حیران ہو کر
پوچھتا ہے کہ اس ڈر ، خوف ، دہشت اور وحشت کی کیا وجہ ہے؟
پاک باطن ، شریف النفس ، باعصمت لڑکی اپنی لڑکھڑاتی زبان سے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیتی ہے . مجھے اﷲ کے عذابوں کا خیال ہے اس زبوں کام کو ہمارے پیدا کرنے والے اﷲ نے حرام کردیا ہے. یہ فعل بد ہمارے مالک ذوالجلال کے سامنے ذلیل و رسول کرے گا.
منعم حقیقی محسن قدیمی کی یہ نمک حرام ہے. واﷲ! میں نے کبھی بھی اﷲ کی نافرمانی پر جرات نہ کی. ہائے حاجت اور فقر و فاقہ ، کم صبر اور بے استقلالی نے یہ روز بد دکھایا کہ جس کی لونڈی ہوں اس کے سامنے اس کے دیکھتے ہوئے اس کی نافرمانی کرنے
پر آمادہ ہوکر اپنی عصمت بیچنے اور اچھوت دامن پر دھبہ لگانے پرتیار ہوگئی. لیکن اے کفل ! بخدائے لایزال ، خوف اﷲ مجھے گھلائے جارہا ہے. اس کے عذابوں کا کھٹکا کانٹے کیطرح کھٹک رہا ہے. ہائے آج کا دو گھڑی کا لطف صدیوں خو ن تھکوائے گا اور عذاب الہٰی کا لقمہ
بنوائے گا. اے کفل ! اﷲ کیلئے اس بدکاری سے باز آ اور اپنی اور میری جان پر رحم کر . آخر اﷲ کو منہ دکھانا ہے.
اس نیک نہاد اور پاک باطن اور عصمت بآب خاتون کی پر اثر اور بے لوث مخلصانہ سچی تقریر اور خیر صوابی نے کفل پر اپنا گہرا اثر ڈالا اور چونکہ جو بات سچی ہوتی ہے دل ہی میں اپنا
گھر کرتی ہے. ندامت اور شرمندگی ہر طرف سے گھیر لیتی ہے اور عذاب الہٰی کی خوفناک شکلیں ایک دم آنکھوں کے سامنے آکر ہر طرف سے حتیٰ کہ در و دیوار سے دکھائی دینے لگتی ہیں . جسم بے جان ہوجاتا ہے ، قدم بھاری ہوجاتے ہیں، دل تھرا جاتے ہیں . سو ایسا
ہی کفل کو معلوم ہوا. وہ اپنے انجام پرغور کرکے اپنی سیاہ کاریاں یاد کرکے رو دیا اور کہنےلگا . اے پاکباز عورت ! تو محض ایک گناہ وہ بھی ناکردہ پر اس قدر کبریائے ذوالجلال سے لرزاں ہے . ہائے میری تو ساری عمر اپنی بدکاریوں اور سیہ اعمالیوں میں بسر ہوگئی میں نے اپنے منہ کی طرح اپنے اعمال نامے کو بھی سیاہ کردیا. خوف اﷲ کبھی پاس بھی نہ بھٹکنے دیا. عذاب الہٰی کی کبھی بھولے سے بھی پرواہ نہ کی. ہائے میرا مالک مجھ سے
غصے ہوگا. اس کے عذاب کے فرشتے میری تاک میں ہوں گے. جہنم کی غیظ و غضب اور قہر آلودہ نگاہیں میری طرف ہوں گے. میری قبر کے سانپ بچھو میرے انتظار میں ہوں گے. مجھے
تو تیری نسبت زیادہ ڈرنا ڈچاہیے. نہ جانے میدان محشر میں میرا کیا حال ہوگا. اے بزرگ عورت گواہ رہ. میں آج سے تیرے سامنے سچے دل سے توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ رب کی ناراضگی کا کوئی کام نہ کروں گا. اﷲ کی نافرمانیوں کے پاس نہ پھٹکوں گا. میں نے وہ رقم
تمہیں اﷲ کے واسطے دی اور میں اپنے ناپاک ارادے سے ہمیشہ کیلئے باز آیا. پھر گریہ زاری کے جناب باری تعالیٰ توبہ واستغفار کرتا ہے. اور رو رو کر اعمال کی سیاہی دھوتا ہے. دامن
امید پھیلا کر دست دعا دراز کرتا ہے کہ یا الہٰا العالمین میری سرکشی سے درگزر فرما. مجھے اپنی دامن عفو می میں چھپالے . میرے گناہوں سے چشم پوشی کر مجھے اپنے
عذابوں سے آزاد کر . حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی رات اس کا انتقال ہوگیا. صبح کو لوگ دیکھتے ہیں اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا ہے. ان اﷲ قد غفر الکفل . یعنی اﷲ تعالیٰ نے کفل کے گناہ معاف کردئیے.
(ترمذی)

اللہ سُبحانہ و تعالٰی تم سے پیار کرتا ہے



اللہ سُبحانہ و تعالٰی
تم سے پیار کرتا ہے

ایک مرتبہ کہیں دو میاں بیوی رہتے تھے صدق و محبت اور دوستی کے رشتوں میں جڑے ہوئے۔ ایک دوسرے کے قرب کے بغیر تو چین بھی نہ پاتے تھے مگر طبیعتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے قطعی مختلف، خاوند نہایت پُرسکون اور کسی بھی حالت میں غصہ نہ کھانے والا تو بیوی نہایت ہی تیز و طرار اور معمولی سے معمولی بات پر غصے سے بھڑک اُٹھنے والی۔

ایک بار دونوں میاں بیوی ایک بحری سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ جہاز کئی دن تک تو سمندر میں پُر سکون طریقے سے چلتا رہا مگر ایک دن اُسے طوفانوں نے آ گھیرا۔ ہوائیں مخالف ہو گئیں اور موجوں کے طلاطم نے سب کچھ اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ طوفان سے سمندری پانی جہاز کے اندر تک بھر گیا۔ جہاز پر موجود مسافروں کے چہروں پر تو پریشانی تھی ہی، جہاز کا ناخدا کپتان بھی اپنی پریشانی نہ چُھپا سکا۔ اُس نے مسافروں سے صاف صاف کہہ دیا کہ موجودہ حالات میں تو اللہ کی طرف سے کوئی معجزہ ہی جہاز کو اِس طوفان سے بچا سکتا ہے۔
کپتان کے اِس بیان سے مسافروں کے دِلوں میں بچنے کی رہتی سہتی اُمیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ موت کو قریب پا کر مسافروں نے خوف سے چیخنا اور چلانا شروع کر دیا۔ اُس آدمی کی بیوی پر تو جنونی کیفیت طاری ہو گئی۔ اُسے تو کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کرے۔ بھاگتے ہوئے اپنے خاوند کے پاس پہنچی کہ شاید مصیبت کی اِس گھڑی میں فرار و نجات کیلئے وہ کوئی بہتر حل جانتا ہو ، یہ دیکھ کر تو اُسے اور بھی طیش آ گیا کہ گرد و نواح میں مسافروں کے آہ و پُکار سے مچی قیامت سے بے تعلق اُسکا خاوند حسبِ سابق پُر سکون طریقے سے بیٹھا ہوا ہے۔ بیوی نے جِھلا کر خاوند کے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور اُسے جھنجھوڑ ڈالا اور چیختے ہوئے بولی کہ تُم کیسے بے حِس انسان ہو۔ اچانک خاوند کی آنکھوں میں سُکون کی جگہ غصے کے آثار دِکھائی دیئے اور اُس نے اپنی جیب سے ایک خنجر نکال کر بیوی کے سینے پر ٹِکا دیا، سپاٹ چہرے اور خشک لہجے میں اُس سے پوچھا: اب بتا، اِس خنجر سے ڈر لگ رہا ہے کیا؟

بیوی نے خاوند کے چہرے پر آئی ہوئی خونخواری کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا: نہیں۔


خاوند نے پوچھا: کیوں؟

بیوی نے جواب دیا: کیونکہ یہ خنجر ایسے ہاتھوں میں ہے جو اُس سے پیار کرتا ہے اور اُسے اِن ہاتھوں پر مکمل بھروسہ بھی ہے۔
خاوند نے مُسکراتے ہوئے کہا: بالکل اِسی طرح ہی تو میری مثال ہے۔
یہ خونخوار اور پُر ہیبت موجیں اُس ہستی کے ہاتھوں میں ہیں جو مجھ سے پیار کرتا ہے اور مُجھے اُن ہاتھوں پر پورا بھروسہ بھی ہے۔
پِھر ڈرنا کِس بات کا، اَگر وہ ذات پاک اِن سب موجوں اور طوفانی ہواؤں پر مکمل تسلط اور قابو رکھنے والی ہے تو؟


ٹھہریئے!
اگر آپ بھی زندگی کی موجوں سے لڑتے لڑتے تھک گئے ہیں،
اور حالات آندھیوں کی مانند تمہیں مُخالف سمتوں میں دھکیل دیتے ہیں،


تو مت ڈریئے!
کہ اللہ سُبحانہ و تعالٰی تم سے پیار کرتا ہے۔
وہی تو ہے جسے ہر طوفان اور ہر آندھی پر مکمل قُدرت ہے۔


تو مت ڈریئے!
کہ وہ تمہیں اُس سے بھی زیادہ جانتا ہے جتنا تُم اپنے آپ کو جانتے
ہو۔

وہی تمہارے مُستقبل کو سنوارے گا جِس مُستقبل کا تُمہیں تو کُچھ پتہ ہی نہیں مگر وہ تُمہارے سارے رازوں سے واقف ہے۔
اگر تمہیں بھی اُس سے پیار ہے تو اُس پر پورا بھروسہ کیجیئے اور اپنے سارے معاملات اُس پر چھوڑ دیجیئے۔
کیونکہ وہ تم سے پیار کرتا ہے۔

عام طور پر خاوند حضرات



عام طور پر خاوند حضرات یہ کرلیتے ہیں کہ
اپنی بیوی کی کسی غلطی پر اسے لوگوں کے سامنے روک ٹوک کرتے ہیں ۔
لوگوں کے سامنے اس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔لوگوں کے سامنے بے عزت کے دیتے ہیں او ر ڈانٹ پلادیتے ہیں۔ اپنے طور پر تو وہ اچھے بن جاتے ہیں۔ دوسروں کوتأثر یہ مل جاتا ہے کہ دیکھو گھر میں میرا کتنا کنٹرول ہے بہن کے سامنے بیوی کو ڈانٹ پلادی ۔ ماں کے سامنے بیوی کو ڈانٹ دیا۔ اور ماں کی نظر میں بڑے اچھے بن گئے کہ ہاں ہمارا بیٹا تو گھر میں بہت کنٹرول رکھ
تا ہے ۔
بہن کہتی ہے کہ میرے بھائی کا تو گھر میں بہت کنٹرول ہے۔ یوں وہ اپنی ماں بہن کی نظر میں بڑے اچھے بن گئے مگر حقیقتاً اپنی بیوی کی نظر میں انہوں نے اپنے وقار کو صفر بنا دیا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی اپنی عزت نفس ہوتی ہے۔ جب کسی کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے تو پھر اس انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے
اور یہ چیزگناہ میں شامل ہے ۔ اگر ایک چھوٹے بچے کو لوگوں کے سامنے ڈانٹ دیا جائے تو وہ رونا شروع کردیتا ہے کیونکہ اس کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔ تو پھر عورت تو بالآخر بڑی ہوتی ہے، اس کوتو عزت نفس کی زیادہ پروا ہوتی ہے ۔
لہٰذا ااس کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اس کو نصیحت کرنی ہے تو تنہائی میں کرو اور اگر تعریف کرنی ہے لوگوں کے سامنے کرو۔ اس نصیحت کو زندگی کا اصول بنالو تنہائی میں اگر بیوی کو جلی کٹی بھی سنادو گے بیوی بیچاری برداشت کرلے گی
مگر لوگوں کے سامنے کی ذلت برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اس لئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بیوی کو دوسروں کے سامنے کبھی بھی اس طرح تنقید کا نشانہ نہ بناوٴ ۔ وہ زندگی کی ساتھی ہے۔ تھوڑا وقت جو دونوں کو علیٰحد گی میں ملتا ہے
اس میں ایک دوسرے کو سمجھا دو جو سمجھانا ہے لوگوں میں تم اس قسم کی باتیں نہ کرو۔
علماء نے لکھا ہے کہ بچہ جب تنہائی میں گرتا ہے اس کو زیادہ چوٹ لگتی ہے وہ نہیں روتا اور اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ لیکن اگر لوگوں کے سامنے گر جائے ، اس سے آدھی چوٹ بھی لگے تو
رونا شروع کر دیتاہے۔
اس لئے کہ لوگوں کے سامنے اس کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔ وہ درد سے نہیں رورہا ہوتا عزت نفس مجروح ہونے کی وجہ سے رورہا ہوتا ہے ۔ لہٰذا کبھی انسان کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے ۔

آئیں


: آئیں۔۔۔ پیارے رسول کی پیاری سنتیں سیکھیں



السّلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


اللہ سبحانہ وتعالٰی کا ارشاد پاک ہے۔

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُو۔۔۔

اور جو کچھ رسول (کریم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لو- اور جس چیز سے تمہیں منع فرمائیں سو اُس سے رُک جاؤ۔۔۔

سورۃ الحشر۔ آیت 7۔۔۔

حضرت کثیر بن عبد اللہ مزنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک دین (یا فرمایا : اسلام) کی ابتداء غریبوں سے ہوئی اور غریبوں میں ہی لوٹے گا جس طرح کہ اس کا آغاز ہوا تھا، سو غریبوں کو مبارک ہو۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! غرباء کون ہیں؟ فرمایا : وہ لوگ جو میری سنتوں کو زندہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ان کی تعلیم دیتے ہیں۔

۔(امام بیہقی فی کتاب الزھد ، والامام سیوطی فی مفتاح الجنہ)۔

آج کا دور، جس میں فتنے اس قدر پھیل چکے ہیں کہ دین پر چلنا مشکل معلوم ہوتا ہے. پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کو چھوڑا جا رہا ہے. سنتوں پر عمل کرنے والوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے. مختلف طریقوں سے سنتوں سے بیزاری پھیلائی جا رہی ہے. اور گستاخیاں کی جا رہی ہیں. ایک مسلمان ہونے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے امتی ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں کو سیکھیں اور ان پر مضبوطی سے عمل پیرا ہو کر سنتوں کو زندہ کرنے والے بن جائیں۔کہ سنتوں کو زندہ کرنے والے کے لئے سو شہیدوں کے برابر ثواب کی بشارت ہے۔۔۔
آج سے کوشش کریں گے کہ آقا علیہ الصلاہ والسلام کی چھوٹی چھوٹی گراں قدر سنتوں کو سیکھنے اور سکھانے کا اہتمام کریں اور پھر ان پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے فضل سے ان لوگوں میں شامل ہو جائیں کہ جن کو آقا علیہ الصلاہ والسلام نے اوپر بیان کی گئی حدیث میں اپنی مبارکباد سے نوازا ہے۔۔۔
اور ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرتے رہیں کہ کون کون سی سنتیں ہم اپنا چکے ہیں اور کس سنت پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی عمل کی توفیق دے اور ہمارے اعمال کو اپنی اور اپنے حبیب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے لئے خالص کر دے۔۔۔


آمین۔

خالی معدے میں آب نوشی کے فوائد



خالی معدے میں آب نوشی کے فوائد

صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتے ہی پانی پینے کا عمل دیرینا اور پیچیدہ امراض کے علاوہ جدید بیماریوں کا موثر علاج ثابت ہوا ہے

نہارمنہ پانی پینا انتہائی فائدہ مند ہے۔
صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتے ہی پانی پینے کا عمل دیرینا اور پیچیدہ امراض کے علاوہ جدید بیماریوں کا موثر
علاج ثابت ہوتا ہے-
پانی کے ذریعے چند بیماریوں کا 100 فیصد کامیاب علاج ممکن ہے- مثلاً سر اور جسم کا درد، قلب کے نظام میں پایا جانے والا نقص، آرتھرائٹس، ہارٹ بیٹ یا دل کی دھڑکن کی غیر معمولی تیزی، مرگی، موٹاپے کے سبب جنم لینے والی بیماریاں، برونکائٹس ایستھما یا دمہ، ٹی بی، گردن توڑ بخار یا پردہ دماغ کا ورم، گردے کی خرابی، میدے کی بیماریاں، ذیابیطیس، قبض، امراض چشم، آنکھ، ناک اور کان کی بیماریاں اور شکم مادر یا رحم کے سرطان اور دیگر زنانہ امراض سے بچنے کے لئے خالی پیٹ پانی پینا 100 فیصد مفید ثابت ہوتا ہے-

ایک شہنشاہ جب دنیا



ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔

یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح اور مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے‘ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔

کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔

مدعی نے کہا۔
”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“

مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔
”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے ، میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے “

سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔
”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟“

”ہاں ہے!“

پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔
”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟“

”جی ہاں....“ مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔

”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔“

اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا ۔ وہ فکر مند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔

سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“

”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“

سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“

شہنشاہ نے کہا کہ ۔ ” پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ مقدمہ ہمارے ملک میں ہوتا تو زمین خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ : میں نے اسے زمین بیچی ہے اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ہے ، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت تو میں نے وصول ہی نہیں کی ، اس لیے یہ میرا ہے ۔
جبکہ خریدنے والا کہتا کہ:
میں نے اس سے زمین خریدلی ہے ، تو اب اس میں جو کچھ ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے ۔

سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ ، پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟

شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فورا جواب دیا کہ:
ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔“

”بادشاہ کی ملکیت!“ سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“

”جی ہاں کیوں نہیں؟“

”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....“

”بالکل!“

”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟“

”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“

”اوہ خوب‘ میں اب سمجھا۔“

سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔

”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے۔“

یا الٰہی ہم تجھ ہی سے مانگتے ہیں


یا الٰہی ہم تجھ ہی سے مانگتے ہیں

تجھ سے نہ مانگیں تو پھر کس سے مانگیں ۔

اے اللہ تو بڑا مہربان ہے ، بہت رحمت کرنے والاہے۔

بے پناہوں کو پناہ دینے والے!

ڈرنے والوں کو امن دینے والے!

او بے سہاروں کے سہارا !

او بے پناہوں کی پناہ!

او ناتوانوں کی پشت وپناہ!

تیرے ہی سے بڑی امید ہے!

اے ہمارے پیارے رب

ہم تجھ سے راضی ہیں،

تو بھی ہم سے راضی ہو جا۔

ہماری تمام غلطیاں گناہ معاف کر دے۔

تو اپنے فضل و کرم اور رحمت سے ہمیں کامل ایمان والوں میں شامل کر دے۔

اور پیارے نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پر ہر وقت برکتیں اور رحمتیں نازل فرما ۔

آمین يارب العالمين

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
صبـــــــــــــــــــح بخیــــــــــــــــــــر

تم کتنے بھی غریب کیوں نہ ہو جاؤ، کتنے بھی تنہا کیوں نہ ہو جاؤ، کتنے بھی بے بس کیوں نہ ہو جاؤ، کبھی بھی انسانوں سے امیدیں وابستہ نہیں کرنا، کبھی کسی سے اپنے انسان ہونے کا حق نہیں مانگنا، کبھی کسی سے اپنی وفاؤں کا حق نہیں مانگنا۔ 

تمھاری دوستیاں، تمھاری دشمنایاں، تمھاری محبتیں، تمھاری نفرتیں، تمھارے جھگڑۓ، تمھاری وفائیں، تمھاری خواہشیں، سب اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ہی ہونی چاہیے۔۔۔

اے اللہ، تو ہماری مدد فرما، اور تو ہم سے راضی ہو جا، اور ہمیں اپنے اور اپنے نبئ کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلیۓ خالص کر لے
۔۔ آمین، ثم آمین۔۔ یا ربّ العلمین۔
صلی اللہ علیہ وسلما تسلیما کثیرا

AURAT JB MAA BNTY HA


AURAT JB MAA BNTY HA

Aurat jb sahibe-e-aolad or bachon ki maa ban jati ha
to
is per mazeed zimedaryon ka bojh barh jata ha
keunky suhr aur walden wagera k huqooq k ilawa use bachon k huqooq bhi ada krny hoty hein
or
in huqooq ko ada krna hr Aorat ka farze mansabi ha.
Jo Maa apny bachon ka haq ada na kre wo sharyt k nazdeek bht bare gunhegar
or
samaaj ki nazron me zaleel-o-khwar ho ge...

Recpected Mothers, Sisters, daughters
plz do comments about this post
JAZAKILLAH-O-KHERA

AURAT SHADI K BAD


AURAT SHADI K BAD

NIKAH:
jb lakri balig ho jae to aprents per lazim ha
k
koi munasib rishta talash kr k us ke shadi kr dein.
rishte ki talash me khas tor pr is bat ka dehan rakhna zarori ha
k
kisi badmazhm se rishta na hony pay


HADITH

Hamare Pyare Nabi sallallaho alehe walehewaslm ne frmaya:
Aorat se shadi krny me 4 cezen dekhi jati hein

(1) Dolatmandi
(2) khandani sharafat
(3)Khubsurti
(4)Deen dari

likn tm den dare ko in sb cezon me mukadam samjho
sahe bukhare:
kitabul nikah 67 babul ikfa'fedeen(16) rakumul hadith 5090 jild 3 page 429

Aulad ki tamana
or
apny ap ko badkari se bachany ki niyet k ly nikah krna sunnat ha
or
bht bare ijr-o-sawab ka kam ha.
Allah Pak ne Quran shareef me irshad frmaya ha k:


(surah Noor 32)


وَأَنكِحُوا الْأَيَامَی مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ
"yani tm log be suhr wale aorton ka Nikah kr do or apny neek chalan gulamon or londyon ka bhi nikah kr do"

HADITH

Allah Pak ne 3 shaks k zimedari apny zimy kr li ha:
(1) Ak wo gulam jo apny Aqa se azad hony k ly kisi Qadr raqm ada krny ka ahd kre or apny ahd ko pora krny ke niyet rakhnta ho

(2) ALLAH ki rah me jehad krny wala

(3) Nikah krny wala ya Nikah krny wali
jo nikah k zare haram kari se bachna cahta ho

Jma-e-Tirmizee, Kitabul jahad, jild3, page 247

Aurat jb tk shadi nahi hoti
Maa Bap ki beti kehlati ha
magr
shadi k bad wo apny husbnd ki BIWI ban jati ha
or
is k fariz or zemedaryan pehly se barh jaty heon
or
tamam huqooq or faraiz ka ada krna Aurat ke sb se bara fareza ha.
Aurat agr husbnd k huqooq ko ada na kre gi
to
is k dunyave zindagi bhi tabah-o-barbad ho jae gi
or
akhirt me bhi wo dozakh ki bharakte hoi agg me jalti rahy gi
or
wo dono jahanon me zalel-o-khwar ho gi
ye sb is lye k
sharyt me hr Aurat per farz ha
k wo apny shoher k huqooq ko ada krti rahy
or
umer bhr apny husbnd ki farma brdari krti rahy

AURAT JB BALIG HOTI HA


AURAT JB BALIG HOTI HA

jb Aurat balig ho jati ha
to ALLAH or is k RASOOL sallallaho alehe waslm ki taraf se Sharyt ke taraf se tamam ahkamat ke pabnd ho jati ha.
Ab
is per namaz,
Roza,
Haj
or baki k sb masail per amal krna farz ho ga
or
Allah pak k huqooq or bandon k huqooq ko ada krny ki wo zimedar ho gai
or
ab us per lazim ha
k
wo tamam fariz ko ada kre,
Gunhaon se bachy.
Apny se baron ke izat kre
or
choton ko pyar de
or
sb jany walon se acha sulooq kre.
achy achy adaten sekhy or bure adaton se apny ap ko bachy rakhe
or
shart per pabnde se aml kr k ak neek insan bn jaee.
shadi l laiq umer ho jae to shadi se mutalq malomat hasil kre
masln apny maa se sekhy
k shadi k bad ghr ka nizam kese sanbhala jatah,
or
jb shadi ho jaee to apny ap ko ka zemar insan k tor p sabit kre
husbnd ko kesy khus rakhna
ha susral walon se kesy nibha krna ha
in sb k ly apny ap ko tyar rakhy sath he zehn me rakhy
k
wo apny husbnd k dukh sukh ke sathy ha
or
hr kisim k halat m use un ka or susral walon ka sath dena h ya
k
sabr azma marhala hota ha jis me sabit kaqm rehna ha.



Ak achy saleqa mand or islamic mahol me pali bari larki
shadi k bad is bat ka khyal rakhty ha
k
cahy khud kine bhi dukh or takleef uthe
magr apny ghr walon ko sukon farahm kre
khas kr un ko apny zat se koi takleef na de
jo bhi kam kre apny baron ki raza mande sa kre,
kahi ana jana ho kisi ko kuch dena ho ya koe bhi chota ya bara mamla ho ghr walon ke raza mandi or husbnd ke ijazat se kre,
hr wo amal kre jis se wo apny maa, baap ke cahety bety or susral walon ki pasandida baho ban jaee


Parde ka khas tor pr khyal
or
dehan rakhee,
ger mehram mardon k samny jana un se hansi mazak se intehae parhez kre.
be haya orton se bhi parda kre
or ashiqana isteharat or rasail prhny se bhi gurez kren.
Mazahabi kitaben pehny ki abat dalen
or
ibadat me waqt guzare,
fazr namazon k sath sath nifl namaz ada krne ki bhi adat bneen Quran pak ko daily pehny ki adt bna k beshumar barkaten or rehmaten hasil kren.

AURAT KA BACHPAN

AURAT KA BACHPAN

Aurat bachpan me jb wo na balig bachi hoti ha
apny maa bap k pyari Beti kehlati ha.
is umer me wo sharyt k pabnd nahi hoti. 
Wo sirf kahti, peti, hansti, bolti ha
or
haq dar hoti ha
apny parents or apny behen bhiyon k pyar ki
wo hr kism ke fikron se dor ho kr khush-o-khurm or khushal rehti ha.
Walden per farz h k
jb wo bolna sekhy to us ko Allah or Rasol sallallaho alehewaslm ka name sikhaeen oar us ko kalma prhaen.



jb wo kuch bare ho jae to us ko kuch saleka or zindagi guzarny k bunyadi dhand sikheen or us ko achy baton or bure baton me tamez krna sikhaeen.
jb wo prhny k qabil ho jae to us ko Quran pak prhaen.


jb thore or samajhdar ho jaen to in ko paki napaki, wazoo, usal k bare me kuch taleem dein.
use islamic adab sikhaen or jb wo 7 baras ke ho jae to us ko Namaz sikhen sare ahm malomat farahm kren,
pardy me rehny ke adat krwaen.
sath sath ghr k kam bhi saleky se krna sikaen or dosre zarori hunr bhi sikahen,
warna
un me kahily or be prwahe ke adat devolup ho jae gy jo k agy chal k ap k ly or khud us k ly nuksan dy bhi ho sakty ha,
mothers ko cahy k un ko choty choty baton per narmi se rok tok krty rahy ayse ghron m jany ke ijazat na den jahan ka mahol non islamic ho
ya
us ghr k afrad p kisi bhi kism ka koi shuba ho,
ayse mehfilon me jany se bachen jin me gany bajany ka silsila hota ho
is ly k ye umer ak kachi umer ha jesa ap tarbiat kren gy wesy he ap ki aold cahy beta ho ya beti us k kirdar
or
adat se wazhy ho gy,
is umer m bachy na samajh hoty hein achy bure ka fesla nahi kr sakty
is lye hr Maa bap ka ye islamic fareza ha
k
apny bachon ke tarbiat pe pora dehan den or un ke tarbiat ak islamic mahol me krein warna wo sakht gunhegar hon gy

کام کو وقت پر سمیٹنے


کام کو وقت پر سمیٹنے کی عا دت بنا نے کی نصیحت

ہر کا م کو اپنے وقت پر سمیٹنے کی عاد ت ڈال لیجئے ۔ آ ج کا کا م کل پر نہ چھو ڑ یے کہ یہ بھی کل کر لو ں گی ، یہ بھی کل کر لو ں گی ۔ کل کل کر تے اتنے کام جمع ہو جا تے ہیں کہ پھر انسان ان میں سے کچھ بھی نہیں کر پا تا ۔ سیدہ فا طمة الزہرا ء رضی اللہ عنہا کی زند گی کو دیکھئے وہ اپنا کا م خود سمیٹتی تھیں ۔ حتیٰ کی حد یث پا ک میں آیا ہے کہ ان کے ہا تھوں کے ان
د ر گٹے پڑ گئے تھے ۔ سیدہ عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کا م خود کر تی تھیں ۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کام خود کر تی تھیں ۔ جس طرح مر د مصلے پر بیٹھ کر عباد ت کر ے تو آپ سمجھتی ہیں کہ اس کو اجر مل رہا ہے ، اس سے زیادہ آپ کو اجر اس وقت ملتا ہے جب آپ گھر کے کام کاج کو سمیٹ رہی ہو تی ہیں ۔
با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ نے ایک نو جوان کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد میں نوافل میں مصروف رہتا ۔ انہوں نے پو چھا ، تیرا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا کہ میرا بڑا بھا ئی ہے ، اس نے میرے کا روبار کو سنبھا ل لیا ہے اور میری روزی کا ذمہ لے لیا ہے ، مجھے عبا دت کے لئے فا رغ کر دیا ہے ۔ با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے ، تیرا بھا ئی بڑا عقلمند ہے تیری سا ری عبا دت کا اجر تیرے بھا ئی کو بھی ملے گا اور تیرا بھا ئی تجھ سے افضل کا م میں لگا ہو ا ہے ۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مصلے پہ ہی فقط عبا دت نہیں ہو تی بلکہ عورت جو گھر کے کام کاج کر رہی ہو تی ہے سب کچھ اس کا عبا دت میں لکھا جا تا ہے۔
آج مصیبت یہ ہے کہ گھر میں کا م کو عورتیں عباد ت سمجھ کر نہیں مصیبت سمجھ کر کر تی ہیں ۔ چنا نچہ ان کی ہر وقت یہ خو اہش ہوتی ہے کوئی کام کر نے والی مل جا ئے کہ میں صرف بتا ؤ ں اور وہ آگے کا م کر ے ۔ اب بتا کے کام کر والیا تو جو جسم نے کا م کر نے کی مشقت اٹھا نی تھیں اور اس پر آپ کے نامہ اعمال میں اجر لکھا جا نا تھا وہ اجر تو نہیں لکھا جا ئے گا ۔ آپ کے درجے پھر کیسے اللہ کے ہاں بڑ ھیں گے ۔ اس لئے گھر کے کام میں پسینہ بہانا ، مشقت اٹھا نا ایسا ہی ہے کہ جیسے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز کی عبا دت کا اجر پا نا ۔ اس لئے عورت گھر کے کاموں کو خوشی سے قبول کر ے اور اپنے دل میں یہ سو چے کہ ان کا موں کی وجہ سے میرا رب مجھ سے راضی ہو گا ۔ چنا نچہ ایک حد یث پا ک میں نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ نیک عو رت وہ ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں مصروف ہو اور اس کے ہا تھ کام کاج میں مصروف ہوں ۔جب نبی علیہ السلام یہ فرماتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر کے کام کاج کو خود کر نے کی عادت ڈالنی چا ہیے ۔ اس کے دو فا ئدے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کا م سمٹیں گے اورا جر ملے گا اور دوسری با ت کہ اپنی صحت بھی ٹھیک رہے گی ۔ چو نکہ آج گھر کے کام کاج کر نے کی عادت نہیں اس لئے لڑکپن کی عمر ہو تی ہے اور بیما ریو ں میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے میرے سر میں درد ہے ، ذرا سا بس کوئی با ت سو چتی ہو ں تو سر میں درد ہو جا تی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے ، مجھے کمر میں شروع ہو گئی ہے ۔ کسی کو آنکھوں میں اندھیرا محسوس ہوتا ہے ۔ یہ سار ی مصیبتیں ہا تھ سے کام نہ کر نے کی وجہ سے ہیں ۔
سیدہ عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک چکی تھی اور وہ چکی کے اوپر گندم خود پیستی تھیں جس سے رو ٹی بنا ئی جا تی تھی ۔ سو چنے کی بات ہے اگر ام الموٴ منین اپنے ہا تھوں سے چکی خود پیستی تھیں تو پھر آج کی عورت اپنے گھر کا کا م خود کیو ں نہیں کر تی ۔ جب گھر کا کا م نہیں کر یں گی تو پھر کہیں گی کہ جی اب ہمیں فلاں کلب میں جا نے کی ضرورت ہے ، چر بی چڑھ رہی ہے ۔ پھر ہمیں ٹر یڈ مل لا کر دیں تا کہ ہم اس پر چلا کر یں ۔ کیا ضرورت ہے ان کی ، گھر کے کام کاج میں ایک تو اجر ملے دوسرا خاوند کا دل جیت لو گی اور پھر تیسرا یہ کہ خود بخود آپ کے جسم کی شو گر توانا ئی میں بدل جا ئے گی اور آپ کی صحت بھی درست رہے گی ۔ تو گھر کے کام کاج کو اپنی عزت سمجھیں اور اپنا فرض منصبی سمجھیں ۔ اور اس کو سمجھیں کہ میں مصلے پہ بیٹھ کر جو عبا دت کر وں گی اس سے زیادہ گھر کے کا م کاج کر نے سے مجھے اللہ کا قرب نصیب ہو گا ۔

نماز جمعہ



میں اور میرے ماموں نے حسب معمول مکہ حرم شریف میں نماز جمعہ ادا کی اورگھر کو واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک بے آباد سنسان مسجد آتی ہے، مکہ شریف کو آتے جاتے سپر ہائی وے سے
بارہا گزرتے ہوئے اس جگہ اور اس مسجد پر ہماری نظر پڑتی رہتی ہے اور ہم ہمیشہ ادھر سے ہی گزر کر جاتے ہیں مگر آج جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی وہ تھی ا
یک نیلے رنگ کی فورڈ کار جو مسجد کی خستہ حال دیوار کے ساتھ کھڑی تھی، چند لمحے تو میں سوچتا رہا کہ اس کار کا اس سنسان مسجد کے پاس کیا کام! مگر اگلے لمحے میں نے کچھ جاننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی کار کو رفتار کم کرتے ہوئے مسجد کی طرف جاتی کچی سائڈ روڈ پر ڈال دیا،
میرا ماموں جو عام طور پر واپسی کا سفر غنودگی میں گزارتا ہے اس نے بھی اپنی اپنی آنکھوں کو وا کرتے ہوئے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھتا، کیا بات ہے، ادھر کیوں جا رہے ہو؟

ہم نے اپنی کار کو مسجد سے دور کچھ فاصلے پر روکا اور پیدل مسجد کی طرف چلے، مسجد کے نزدیک جانے پر اندر سے کسی کی پرسوز آواز میں سورۃ الرحمٰن تلاوت کرنے کی آواز آ رہی تھی، پہلے تو یہی ارادہ کیا کہ باہر رہ کر ہی اس خوبصورت تلاوت کو سنیں ، مگر پھر یہ سوچ کر کہ اس بوسیدہ مسجد میں جہاں اب پرندے بھی شاید نہ آتے ہوں، اندر جا کر دیکھنا تو چاہیئے کہ کیا ہو رہا ہے؟

ہم نے اندر جا کر دیکھا ایک نوجوان مسجد میں جاء نماز بچھائے ہاتھ میں چھوٹا سا قرآن شریف لئے بیٹھا تلاوت میں مصروف ہے اور مسجد میں اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے تو احتیاطا ادھر ادھر دیکھ کر اچھی طرح تسلی کر لی کہ واقعی کوئی اور موجود تو نہیں ہے۔

میں نے اُسے السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا، اس نے نطر اُٹھا کر ہمیں دیکھا، صاف لگ رہا تھا کہ کسی کی غیر متوقع آمد اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، حیرت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

اُس نے ہمیں جوابا وعلیکم السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا۔

میں نے اس سے پوچھا، عصر کی نماز پڑھ لی ہے کیا تم نے، نماز کا وقت ہو گیا ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔

اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر میں نے اذان دینا شروع کی تو وہ نوجوان قبلہ کی طرف رخ کئے مسکرا رہا تھا، کس بات پر یا کس لئے یہ مسکراہٹ، مجھے پتہ نہیں تھا۔ عجیب معمہ سا تھا۔

پھر اچانک ہی اس نوجوان نے ایک ایسا جملہ بولا کہ مجھے اپنے اعصاب جواب دیتے نظر آئے،

نوجوان کسی کو کہہ رہا تھا؛ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔

میرے ماموں نے بھی مجھے تعجب بھری نظروں سے دیکھا جسے میں نظر انداز کر تے ہوئے اقامت کہنا شروع کردی۔

جبکہ میرا دماغ اس نوجوان کے اس فقرے پر اٹکا ہوا تھا کہ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔

دماغ میں بار بار یہی سوال آ رہا تھا کہ یہ نوجوان آخر کس سے باتیں کرتا ہے، مسجد میں ہمارے سوا کوئی بندہ و بشر نہیں ہے، مسجد فارغ اور ویران پڑی ہے۔ کیا یہ پاگل تو نہیں ہے؟

میں نے نماز پڑھا کر نوجوان کو دیکھا جو ابھی تک تسبیح میں مشغول تھا۔

میں نے اس سے پوچھا، بھائی کیا حال ہے تمہارا؟ جسکا جواب اس نے ــ’بخیر و اللہ الحمد‘ کہہ کر دیا۔

میں نے اس سے پھر کہا، اللہ تیری مغفرت کرے، تو نے میری نماز سے توجہ کھینچ لی ہے۔ ’وہ کیسے‘ نوجوان نے حیرت سے پوچھا۔

میں نے جواب دیا کہ جب میں اقامت کہہ رہا تھا تو نے ایک بات کہی مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔

نوجوان نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ اس میں ایسی حیرت والی کونسی بات ہے؟

میں نے کہا، ٹھیک ہے کہ اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں ہے مگر تم بات کس سے کر رہے تھے آخر؟

نوجوان میری بات سن کر مسکرا تو ضرور دیا مگر جواب دینے کی بجائے اس نے اپنی نظریں جھکا کر زمین میں گاڑ لیں، گویا سوچ رہا ہو کہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے۔

میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ تم پاگل ہو، تمہاری شکل بہت مطمئن اور پر سکون ہے، اور ماشاءاللہ تم نے ہمارے ساتھ نماز بھی ادا کی ہے۔

اس بار اُس نے نظریں اُٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا؛ میں مسجد سے بات کر رہا تھا۔

اس کی بات میرے ذہن پر بم کی طرح لگی، اب تو میں سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ یہ شخص ضرور پاگل ہے۔

میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا، کیا کہا ہے تم نے؟ تم اس مسجد سے گفتگو کر رہے تھے؟ تو پھر کیا اس مسجد نے تمہیں کوئی جواب دیا ہے؟

اُس نے پھرمسکراتے ہوئے ہی جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے تم کہیں مجھے پاگل نہ سمجھنا شروع کر دو۔

میں نے کہا، مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے، یہ فقط پتھر ہیں، اور پتھر نہیں بولا کرتے۔

اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپکی بات ٹھیک ہے یہ صرف پتھر ہیں۔

اگر تم یہ جانتے ہو کہ یہ صرف پتھر ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ بولتے ہیں تو باتیں کس سے کیں؟

نوجوان نے نظریں پھر زمیں کی طرف کر لیں، جیسے سوچ رہا ہو کہ جواب دے یا نہ دے۔

اور اب کی بار اُس نے نظریں اُٹھائے بغیر ہی کہا کہ ؛

میں مسجدوں سے عشق کرنے والا انسان ہوں، جب بھی کوئی پرانی، ٹوٹی پھوٹی یا ویران مسجد دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں سوچتا ہوں.

مجھے اُنایام خیال آجاتا ہے جب لوگ اس مسجد میں نمازیں پڑھا کرتے ہونگے۔

پھر میں اپنے آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ اب یہ مسجد کتنا شوق رکھتی ہوگی کہ کوئی تو ہو جو اس میں آکر نماز پڑھے، کوئی تو ہو جو اس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے۔ میں مسجد کی اس تنہائی کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی تو ہو جو ادھر آ کر تسبیح و تحلیل کرے، کوئی تو ہو جو آ کر چند آیات پڑھ کر ہی اس کی دیواروں کو ہلا دے۔

میں تصور کر سکتا ہوں کہ یہ مسجد کس قدر اپنے آپ کو باقی مساجد میں تنہا پاتی ہوگی۔

کس قدر تمنا رکھتی ہوگی کہ کوئی آکر چند رکعتیں اور چند سجدے ہی اداکر جائے اس میں۔

کوئی بھولا بھٹکا مسافر، یا راہ چلتا انسان آ کر ایک اذان ہی بلند کرد ے۔

پھر میں خود ہی ایسی مسجد کو جواب دیا کرتا ہوں کہ اللہ کی قسم، میں ہوں جو تیرا شوق پورا کرونگا۔

اللہ کی قسم میں ہوں جو تیرے آباد دنوں جیسے ماحول کو زندہ کرونگا۔

پھر میں ایسی مسجدمیں داخل ہو کر دو رکعت پڑھتا ہوں اور قرآن شریف کے ایک سیپارہ کی تلاوت کرتا ہوں۔

میرے بھائی، تجھے میری باتیں عجیب لگیں گی، مگر اللہ کی قسم میں مسجدوں سے پیار کرتا ہوں، میں مسجدوں کا عاشق ہوں۔

میری آنکھوں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس بار میں نے اپنی نظریں زمیں میں ٹکا دیں کہ کہیں نوجوان مجھے روتا ہوا نہ دیکھ لے،

اُس کی باتیں۔۔۔۔۔ اُس کا احساس۔۔۔۔۔اُسکا عجیب کام۔۔۔۔۔اور اسکا عجیب اسلوب۔۔۔۔۔کیا عجیب شخص ہے جسکا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہے۔۔۔۔۔

میرے پاس کہنے کیلئے اب کچھ بھی تو نہیں تھا۔

صرف اتنا کہتے ہوئے کہ، اللہ تجھے جزائے خیر دے، میں نے اسے سلام کیا، مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔

مگر ایک حیرت ابھی بھی باقی تھی۔

نوجوان نے پیچھے سے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا تو میں دروازے سے باہر جاتے جاتے رُک گیا،

نوجوان کی نگاہیں ابھی بھی جُھکی تھیں اور وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ جانتے ہو جب میں ایسی ویران مساجد میں نماز پڑھ لیتا ہوں تو کیا دعا مانگا کرتا ہوں؟

میں نے صرف اسے دیکھا تاکہ بات مکمل کرے۔

اس نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا میں دعا مانگا کرتا ہوں کہ

’ اے میرے پروردگار، اے میرے رب! اگر تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرے ذکر ، تیرے قرآن کی تلاوت اور تیری بندگی سے اس مسجد کی وحشت و ویرانگی کو دور کیا ہے تو اس کے بدلے میں تو میرے باپ کی قبر کی وحشت و ویرانگی کو دور فرما دے، کیونکہ تو ہی رحم و کرم کرنے والا ہے‘

مجھے اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی، اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

پیارے دوست، پیاری بہن
کیا عجیب تھا یہ نوجوان، اور کیسی عجیب محبت تھی اسے والدین سے!
کسطرح کی تربیت پائی تھی اس نے؟
اور ہم کس طرح کی تربیت دے رہے ہیں اپنی اولاد کو؟
ہم کتنے نا فرض شناس ہیں اپنے والدین کے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ؟
بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمارا نیکی پر خاتمہ کرے، اللھم آمین

ازراہ کرم! اگر آپ کو اس ایمیل کا موضوع اچھا لگا ہے تو اپنے ان احباب کو بھیج دیجیئے جن کا آپ چاہتے ہیں بھلا اور فائدہ ہو جائے۔

مت بھولئے کہ نیکی کی ترغیب دلانے والے کو نیکی کرنے والے جتنا ثواب ملتا ہے۔ —