نکاح بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ دین اور دنیا دونوں کے کام اس سے درست ہوجاتے ہیں۔اور اس میں بہت فائدے اور بے انتہا مصلحتیں ہیں۔ آدمی گناہ سے بچتا ہے، دل ٹھکانے ہو جاتا ہے۔ نیت خراب اور ڈانواں ڈول نہیں ہونے پاتی اور بڑی بات یہ ہے کہ فائدہ کا فائدہ اور ثواب کا ثواب۔ کیونکہ میاں بیوی کا پاس بیٹھ کر محبّت پیار کی باتیں کرنا، ہنسی دِل لگی میں دل بہلانا نفل نمازوں سے بھی بہتر ہے۔
حديث ميں ہے کہ دنيا صرف ايک استعمال کى چيز ہے اور دنيا کى استعمالى چيزوں ميں سے کوئى چيز نيک عورت سے افضل نہيں يعنى دنيا ميں اگر نيک عورت ميسر جائے تو بہت بڑى غنيمت اور حق تعالى کى رحمت ہے کہ خاوند کى راحت اور اس کى فلاح دارين کا سبب ہے دنيا ميں بھى ايسى عورت سے راحت ميسر ہوتى ہے اور آخرت کے کاموں ميں بھى مدد ملتى ہے حديث ميں ہے کہ فرمايا جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے نکاح ميرا طريقہ اور ميرى سنت موکدہ ہے سو جو نہ عمل کرے ميرى سنت موکدہ پر تو وہ مجھ سے نہيں ہے يعنى مجھ سے اور اس سے کوئى علاقہ نہيں۔ يہ زجر اور ڈانٹ ہے ايسے شخص کو جو سنت پر عمل نہ کرے اور جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى خفگى کا بيان ہے ايسے شخص پر سو اس سے بہت کچھ پرہيز لازم ہے اور مسلمان کو کيسے چين پڑسکتا ہے کہ ذرا دير بھى جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ وسلم اس سے ناراض رہيں اللہ اس دن سے پہلے موت دے ديں جس روز مسلمان کو اللہ و رسول کى ناراضى گوارا ہو اور حديث ميں ہے نکاح کرو اس ليے کہ ميں فخر کروں گا قيامت ميں تمہارے ذريعہ سے اور امتوں پر يعنى جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کو يہ بات بہت پسند ہے کہ آپ کى امت کثرت سے ہو اور دوسرى امتوں سے زيادہ ہو تاکہ ان کى کثرت اعمال کى وجہ سے آپ کو بھى ثواب اور قرب الہى زيادہ ميسر ہو۔ اس ليے کہ جو کوئى آپ کى امت ميں جو کچھ بھى عمل کرتا ہے وہ آپ ہى کى تعليم کے سبب کرتا ہے۔ پس جس قدر زيادہ عمل کرنے والے ہوں گے اسى قدر آپ کو ان کى تعليم کرنے کا ثواب زيادہ ہوگا۔ يہاں سے يہ بات بھى معلوم ہو گئى کہ جہاں تک بھى اور جس طرح بھى ہو سکے قرب الہى کے وسيلے اور اعمال کثرت سے اختيار کرے اور اس ميں کوتاہى نہ کرے۔ اور حديث ميں ہے کہ قيامت کے دن کل صفيں ايک سو بيس ہوں گى جن ميں چاليس صفيں اور امتوں کے لوگوں کى ہوں گى اور اسى صفيں جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى امت کى ہوں گى۔ سبحان اللہ کيا دلدارى منظور ہے حق تعالى کو جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى اور جو شخص صاحب وسعت ہو يعنى روزہ رکھے اس سے شہوت ميں کمى ہو جائے گى پس بے شک روزہ اس کے ليے مثل رگ شہوت مل دينے کے ہے اگر عورت کى خواہش مرد کو بہت زيادہ نہ ہو بلکہ معتدل اور درميانى درہ کى ہو اور عورت کے ضرورى خرچ اٹھانے پر قادر ہو تو ايسے شخص کے ليے نکاح سنت موکدہ ہے۔ اور جس کو اعلى درجہ کا تقاضا ہو يعنى بہت خواہش ہو تو ايسے شخص کے ليے نکاح واجب اور ضرورى ہے اس ليے کہ انديشہ ہے خوانخواستہ زنا ميں مبتلاہو گيا تو حرام کارى کا گناہ ہوگا۔ اور اگر باوجود سخت تقاضائے شہوت کے اس قدر طاقت نہيں کہ عورت کے ضرورى حقوق ادا کر سکے گا تو يہ شخص کثرت سے روزے رکھے پھر جب اتنى گنجائش ہو جائے کہ عورت کے حقوق ادا کرنے پر قادر ہو تو نکاح کر لے ۔
حديث ميں ہے کہ اولاد جنت کا پھول ہے۔ مطلب يہ ہے کہ جنت کے پھولوں سے جيسى مسرت اور فرحت حاصل ہوگى ويسى ہى راحت اور مسرت اولاد کو ديکھ کر حاصل رہتى ہے اور اولاد نکاح کے ذريعہ سے ميسرہو تى ہے ۔حديث ميں ہے کہ تحقيق آدمى کا درجہ جنت ميں بلند کيا جاتا ہے سو وہ کہتا ہے کہاں سے ہے ميرے ليے يہ يعنى وہ کہتا ہے کہ يہ رتبہ مجھے کيسا ملا ميں نے تو ايسا عمل کوئى نہيں کيا جس کا يہ ثواب ہو پس کہا جاتا ہے اس آدمى سے يہ بسبب مغفرت طلب کرنے تيرى اولاد کے ہے تيرے ليے يعنى تيرى اولاد نے ہم سے تيرے ليے استغفار کى اس کى بدولت يہ درجہ تجھ کو عنايت ہوا
حديث ميں ہے تحقيق وہ بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے يعنى بغير دن پورے ہوئے پيدا ہو جاتا ہے اپنے پروردگار سے جھگڑے گا جبکہ اس کے ماں باپ جہنم ميں داخل ہوں گے يعنى حق تعالى سے مبالغہ کے ساتھ سفارش کرے گا کہ ميرے والدين کو دوزخ سے نکال دو اور حق تعالى اپنى عنايت کى وجہ سے اس کے اس جھگڑنے کو قبول فرمائيں گے اور اس کى ناز بردارى کريں گے پس کہا جائے گا اے سقط جھگڑا کرنے والے اپنے رب سے داخل کر دے اپنے والدين کو جنت ميں۔ پس کھينچ لے گا بچہ ان دونوں کو اپنے نار سے يہاں تک کہ داخل کرے گا ان دونوں کو جنت ميں معلوم ہوا کہ خرت ميں ايسى اولاد بھى کام آئے گى جو نکاح کا نتيجہ ہے۔
حديث ميں ہے کہ بے شک جس وقت ديکھتا ہے مرد اپنى عورت کى طرف اور عورت ديکھتى ہے مرد کى طرف تو ديکھتا ہے اللہ تعالى دونوں کى طرف رحمت کى نظر سے۔ رواہ ميسرة بن على فے مشيختہ والرافعى فى تاريخہ عن ابن سعيد مرفوعہ بلفظ ان الرجل اذا نظرالى امراتہ ونظرت اليہ نظر اللہ تعالى اليہما نظرة رحمة الخ
حديث ميں ہے کہ حق تعالى پر حق ہے يعنى حق تعالى نے اپنى رحمت سے اپنے ذمہ يہ بات مقرر فرمائى ہے مدد کرنى اس شخص کى جو نکاح کرے پاکدامنى حاصل کرنے کو اس چيز سے جسے اللہ نے حرام کيا ہے۔ يعنى زنا سے محفوظ رہنے کے ليے جو شادى کرے اور نيت اطاعت حق کى ہو تو خرچ وغيرہ ميں اللہ تعالى اس کى مدد فرمائيں گے حديث ميں ہے کہ عيالدار شخص کى دو رکعتيں نماز کى بہتر ہيں مجرد شخص کى بياسى رکعتوں سے اور دوسرى حديث ميں بجائے بياسى کے ستر کا عدد يا ہے سو مطلب يہ ہو سکتا ہے کہ ستر اس شخص کے حق ميں ہے جو ضرورى حق اہل و عيال کا ادا کرے اور بياسى اس کے حق ميں ہيں جو ضرورى حقوق سے زيادہ ان کى خدمت کرے جان اور مال اور اچھى عادت سے الحديث رواة تمامر فى فوائدہ والضيائ عن انس مرفوعابلفظ رکعتان من المتاہل خير من اثنين و تمانين رکعة من العرب وسندہ صحيح ۔
حديث ميں ہے بے شک بہت بڑا گناہ خدا کے نزديک ضائع کرنا اور ان کى ضرورى خدمت ميں کمى کرنا ہے مرد کا ان لوگوں کو جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے۔ رواہ الطبرانى عن ابن عمرو مرفوعا بلفظ ان اکبر الاثم عنداللہ ان يضيح الرجل من يقوت کذافى کنزالعمال
حديث ميں ہے کہ ميں نے نہيں چھوڑا اپنے بعد کوئى فتنہ جو زيادہ ضرر دينے والا ہو مردوں کو عورتوں کے فتنہ سے يعنى مردوں کے حق ميں عورت کے فتنہ سے بڑھ کر کوئى فتنہ ضرر دينے والا نہيں کہ ان کى محبت ميں بے حس ہو جاتے ہيں اور خدا اور رسول کے حکم کى پرواہ نہيں کرتے۔ لہذا چاہيے کہ ايسى محبت عورتوں سے کرے کہ جس ميں شريعت کے خلاف کام کرنے پڑيں مثلا وہ مرد کى حيثيت سے زيادہ کھانے پہننے کو مانگيں تو ہرگز ان کى خاطر کرنے کو رشوت وغيرہ نہ لے بلکہ مال حلال سے جو اللہ تعالى دے ان کى خدمت کر دے۔ اور عورتوں کو تعليم و تاديب کرتا رہے اور بيباک و گستاخ نہ کر دے۔ عورتوں کى عقل ناقص ہوتى ہے ان کى اصلاح کا خاص طور پر انتطام لازم ہے۔
حديث ميں ہے کہ پيغام نکاح کا کوئى تم ميں سے نہ دے اپنے بھائى کے پيغام پر يہاں تک کہ وہ بھائى نکاح کر لے ياچھوڑ دے يعنى جب ايک شخص نے کہيں پيغام نکاح کا ديا ہو اور ان لوگوں کى کچھ مرضى بھى پائى جاتى ہو کہ وہ اس شخص سے نکاح کرنے کو کچھ راضى ہيں تو دوسرے شخص کو اس جگہ ہرگز پيغام نہ دينا چاہيے۔ ہاں اگر وہ لوگ خود اس پہلے شخص کو انکار کر ديں يا وہ خود ہى وہاں سے اپنا ارادہ منقطع کر دے يا ان لوگوں کى ابھى بالکل مرضى اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے کى نہيں پائى جاتى تو اب دوسرے کو اس لڑکى کا پيغام دينا درست ہے۔ اور يہى حکم خريدوفروخت کے بھاؤ کرنے کا ہے کہ جب ايک شخص کسى سے خريدنے يا فروخت کرنے کا بھاؤ کر را ہے تو دوسرے کو جب تک اس کا معاملہ عليحدہ نہ ہو جائے اس کے بھاؤ پر بھاؤ کرنا نہيں چاہيے جبکہ باہم خريدو فروخت کى کچھ مرضى معلوم ہوتى ہو خوب سمجھ لو اور اس حکم ميں کافر بھى داخل ہے۔ يعنى اگر کوئى کافر کسى سے لين دين کا بھاؤ کر را ہے اور دوسرے شخص کے معاملہ کرنے کى اس کے ساتھ کچھ مرضى بھى معلوم ہوتى ہے تو مسلمان کو زيبا نہيں کہ اس کافر کے بھاؤ پر اپنا بھاؤ پيش کرے۔ حديث ميں ہے کہ تحقيق عورت نکاح کى جاتى ہے اپنے دين کى وجہ سے اور اپنے مال کى وجہ سے اور اپنے حسن کى وجہ سے سو تو لازم پکڑ لے صاحب دين کو تيرے ہاتھ خاک ميں مليں يعنى کوئى مرد تو عورت ديندار پسند کرتا ہے اور کوئى مالدار اور کوئى خوبصورت تو جناب رسول کريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں کہ بدشکل ہے کہ طبيعت کسى طرح اسے قبول نہيں کرتى اور انديشہ ہے کہ اگر ايسى عورت سے نکاح کيا جائے تو باہم مياں بى بى ميں موافقت نہ رہے گى اور عورت کے حق ادا کرنے ميں کوتاہى ہوگى تو ايسے وقت ايسى عورت سے نکاح نہ کرے اور تيرے ہاتھ خاک مل جائيں يہ عربى محاورہ ہے اور مختلف موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔ يہاں پر اس سے ديندار عورت کى رغبت دلانا مراد ہے۔ حديث ميں ہے بيبيوں ميں بہتر وہ بى بى ہے جس کا مہر بہت آسان ہو يعنى مرد سہولت سے اس کو ادا کر سکے۔ آجکل زياتى مہر کا دستور بہت ہو گيا ہے لوگوں کو اس رسم سے بچنا چاہيے۔
حديث ميں ہے کہ اپنے نطفوں کے ليے عمدہ محل وجہ پسند کرو اس ليے کہ عورتيں بچے جنتى ہيں اپنے بھائيوں اور بہنوں کى مانند يعنى نيک بخت اور شريف خاندان کى عورت سے نکاح کرو اس ليے کہ اولاد ميں ننھيال کى مشابہت ہوتى ہے اور گو باپ کا بھى اثر ہوتا ہے مگر اس حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا اثر زيادہ ہوتا ہے تو اگر ماں ايسے لوگوں ميں سے ہوگى جو بداخلاق ہيں اور ديندار اور شريف نہيں ہيں تو اولاد بھى ان ہى لوگوں کى مثل پيدا ہوگى ورنہ اولاد اچھى اور نيک بخت ہوگى۔ رواہ ابن عدى و ابن عساکر عن عائشہ مرفوعا بلفظ تخير والنطفکم فان النساء يلدن اشباہ اخوانہن واخواتہن حديث ميں ہے کہ سب سے بڑا حق لوگوں ميں خاوند کا ہے عورت پر اور مرد پر سب سے بڑا حق لوگوں ميں اس کى ماں کا ہے يعنى بعد اللہ و رسول کے حقوق کے عورت کے ذمہ خاوند کا بہت بڑا حق ہے حتى کہ اس کے ماں باپ سے بھى خاوند کا زيادہ حق ہے اور مرد کے ذمہ سب سے زيادہ حق بعد اللہ و رسول کے حق کے ماں کا حق ہے اس سے معلوم ہوا کہ مرد کے ذمہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے رواہ الحاکم عن عائشة مرفوعا بلفظ اعظم الناس حقا على المراة زوجہا واعظم الناس حقا على الرجل امہ وسندہ صحيح۔
حديث ميں ہے اگر کوئى تم ميں ارادہ کرے اپنى بيوى سے ہم بسترى کا تو کہے بسم اللہ جنب ا الشيطان وجنب الشيطان مارزقتنا تو اگر ان کى تقدير ميں کوئى بچہ مقدر ہوگا اس صحبت سے نہ ضرر دے گا اس کو شيطان کبھى۔ ايک لمبی حديث ميں ہے کہ جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے حصرت عبدالرحمن بن عوف سے فرمايا اولم ولوبشاة يعنى وليمہ کرو اگرچہ ايک ہى بکرى ہو۔ مطلب يہ ہے گو تھوڑا ہى سامان ہو مگر دينا چاہيے۔ بہتر يہ ہے کہ عورت سے ہمبسترى کرنے کے بعد وليمہ کيا جائے گو بہت علماء نے صرف نکاح کے بعد بھى جائز فرمايا ہے اور وليمہ مستحب ہے۔