ایک بات نے کایا پلٹ دی
غالباً 1982ءکی بات ہے میں کلاس میں پڑھارہا تھا اسی دوران ڈاکیہ آیا اور اس نے میرا لفافہ میرے حوالے کیا۔ میں نے اسے کھولنے کیلئے ابتدا ہی کی تھی کہ میرے ایک ساتھی ٹیچر صوفی عبدالستار صاحب باز کی طرح جھپٹے اور میرا لفافہ میرے ہاتھوں چھین کر باہر لے گئے۔ میں نے ناراضگی کی شکل میں انہیں کہا کہ لفافہ میرا ہے اور تم نے کیوں چھینا ہے؟ جواباً فرمانے لگے۔ ”یہ وقت امانت ہے‘ خیانت نہ کرو“
انہوں نے میرے ضمیر کو ایک ایسی ضرب لگائی اور اس دن کے بعد آج تک میری یہ کوشش رہی ہے کہ بچوںکو پڑھانے کیلئے جو وقت امانتاً مجھے ملا ہے اس میں خیانت نہ کروں اگر کبھی کچھ کوتاہی ہوجائے تو اوور ٹائم لے کر کمی دور کردوں۔