فلسفۂ تاریخ علم کی وہ شاخ ہے جو یہ متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ تاریخ کا دھارا کسی خاص سمت میں کیوں مڑ تا ہے ؟ یہ علم تاریخ میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کی تہہ میں کارفرما عوامل کی کھوج کرتا ہے کیونکہ یہی وہ عوامل ہوتے ہیں جو قوموں کے عروج و زوال کا سبب بن جاتے ہیں ۔ اس طرح ہم ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی پیش گوئی کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔ تاریخ کو واقعات سے بلند ہوکر عوامل کی سطح پر پرکھنے کا کام سب سے پہلے عظیم مسلمان ماہرِ عمرانیات ابن خلدون (1332-1406) نے کیا تھا اور اس سلسلے کا آخری بڑ ا نام عظیم برطانوی مورخ ٹوائن بی Arnold J. Toynbee (1889-1975) کا ہے ۔
ابنِ خلدون نے مقدمہ ابنِ خلدون میں یہ بیان کیا ہے کہ اخلاقی امور قوموں کی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔ وہ اس بات کی تفصیل کرنے کے بعد خلاصۂ کلام کے طور پر کہتے ہیں :
’’جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ملک و سلطنت دینا چاہتا ہے تو پہلے اس کے اخلاق و اطوار کی تہذیب کرتا ہے اور بخلاف اس کے جب کسی قوم سے دولت و سلطنت سلب کرنا چاہتا ہے تو پہلے وہ قوم مرتکبِ مذام (مذموم اوصاف) ہوتی ہے اور فضائلِ پسندیدہ اس سے مفقود ہوجاتے ہیں ۔ اور برائیاں بڑ ھنے سے ملک اس کے ہاتھوں سے نکل کر دوسروں کے قبضہ میں آ جاتا ہے ۔‘‘ (مقدمہ: باب دوم فصل بیس)
ٹوائن بی نے اپنی معرکۃالآرا تصنیف A Study of History تقریباً 27 برس میں مکمل کی۔ مصنف نے اس کتاب میں دنیا کی تاریخ میں اپنی جگہ بنانے والی تقریباً تمام اہم تہذیبوں کا مطالعہ کیا ہے ۔ تہذیبوں کے عروج و زوال کے ضمن میں انھوں نے ایک بنیادی اصول Challenge and Response کے عنوان کے تحت اس طرح بیان کیا ہے کہ تہذیبوں کو اپنی زندگی میں پے در پے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے اور ہر مشکل وہ چیلنج پیدا کرتی ہے جس کے درست جواب ہی میں قوم کے عروج کا راستہ پوشیدہ ہوتا ہے ۔
ان دو عظیم اہلِ علم کی آرا کو پیشِ نظر رکھیے اور یہ دیکھیے کہ ہماری قوم آج کن حالات سے دوچار ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ۔ پاکستان یوں تو اپنے قیام کے بعد ہی سے پے در پے مشکل حالات سے گزرتا رہا ہے ، مگر غالباً اب یہ ملک اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ بدترین دہشت گردی اور معاشی عدمِ استحکام سے گھری اس قوم پر سیلاب کی وہ آفت نازل ہو چکی ہے جس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ بظاہر مرنے والوں کی تعداد 1500 سے 2000 بیان کی جا رہی ہے مگر درحقیقت مرنے والوں کی حقیقی تعداد اس سے کئی گناہ زیادہ ہے ۔ لاکھوں نہیں کروڑ وں لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ، جن کے پیارے ہی نہیں بلکہ ان کے گھر، فصلیں ، باغات اور زندگی بھر کی جمع پونجی سیلاب کی نذر ہو چکی ہے ۔ ملک کے ایک بڑ ے حصے کی زرعی پیداوار تباہ اور انفرا اسٹرکچر صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے ۔ مجموعی طور پر اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ جب سیلاب کا منظر نامہ صاف ہو گا تو واضح ہوجائے گا کہ ترقی کے اعتبار سے ملک کئی عشرے پیچھے جا چکا ہے ۔
اس صورتحال کو دیکھنے کا ایک زاویہ وہ ہے جو ہمارے ہاں کے بعض حلقے پیش کر رہے ہیں کہ یہ عذابِ الٰہی ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ مسجدوں میں آ کر استغفار کریں ۔ اللہ سے استغفار کرنا تو اپنی جگہ بہت محبوب عمل ہے مگر موجودہ صورتحال کو عذاب قرار دینا اللہ تعالیٰ کی سنن کا بہت غلط اندازہ ہے ۔ اس نوعیت کی قدرتی آفات عذاب نہیں ہوا کرتیں ۔ ان آفات میں بیشتر نقصان غریبوں اور کمزوروں کا ہوتا ہے اور اس طرح کی آفات دنیا بھر میں بلاتخصیص رنگ و نسل و مذہب آتی رہتی ہیں ۔ ان دونوں حقائق کی موجودگی میں ایسی آفات کو عذابِ الٰہی سمجھنا درست نہیں ہو سکتا۔ ان کو دیکھنے کا درست زاویہ یہی ہے کہ یہ آفات ایک چیلنج ہوتی ہیں ۔ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ان سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ زندہ قومیں یہی رویہ اختیار کرتی ہیں اور نتیجتاً ایسی عظیم تباہی بھی درحقیقت ان کی ترقی کا سبب بن جاتی ہے ۔
اس پہلو سے جب اس عظیم المیے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ہماری اپنی نا اہلی اور حماقتوں کی سزا ہے ۔ ملک میں آج اگر پانی کے بڑ ے ذخیرے بنانے کا اہتمام ہوتا تو یہی سیلاب نہ صرف شدت میں کم ہوتا بلکہ اگلے کئی خشک برسوں میں بہترین زرعی پیداوار کے حصول اور لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے نجات کا باعث بن جاتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خیبر پختونخواہ کے قوم پرست لیڈر کالا باغ ڈیم کی یہ کہہ کر مخالفت کرتے تھے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ مگر اب تو ہر پختون و غیرپختون کو معلوم ہو چکا ہے کہ نوشہرہ ڈوب چکا ہے ۔ کاش پختونوں میں اتنا شعور ہوتا کہ وہ اپنے قوم پرست لیڈروں کا گریبان پکڑ کر ان سے جواب طلب کرسکتے ۔
سیلاب کی اس شدت کا ایک اور سبب پہاڑ ی جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے ۔ جنگلات سیلاب کی راہ میں قدرتی رکاوٹ ہوتے ہیں ۔ مگر کرپشن کے زہر نے یہ کام اتنا آسان کر دیا ہے کہ جنگلات کی ناجائز کٹائی جیسا کام انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے اعلانیہ جاری رہتا ہے ۔ کرپشن ہی کے ناسور کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا مواصلاتی ڈھانچہ یعنی سڑ ک، پل وغیرہ اتنا ناقص اورکمزور تھے کہ سیلاب کے ساتھ سب کچھ بہہ گیا اور نتیجتاً امدادی کام بہت مشکل ہو گیا۔ یہی معاملہ کمزور دریائی پشتوں کا تھا۔ ان کو مضبوط کر کے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی بہتر تیاری کر کے نقصان کہیں کم کیا جا سکتا تھا۔ مگر اس طرح کی چیزیں ہمارے قومی ایجنڈے میں کبھی جگہ نہ پا سکیں ۔
ہمارے ملک کا سانحہ یہ ہے کہ ہماری حکمران کلاس اور بیوروکریسی کرپٹ ہے اور موجودہ دور میں حکمران کلاس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نا اہل بھی ہے اور بے حس بھی۔ عالمی برادری سے بھیک مانگنے کے بجائے اگر ذاتی ایثار اور بہتر کورڈینیشن اور انتظامی اقدامات کیے جاتے اور عوام میں سیاسی قیادت کا اعتبار قائم ہوتا تو صورتحال اتنی سنگین نہیں ہوتی۔
اس تجزیے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف عذاب کی نسبت کرنے کے بجائے اس آفت کو قدرت کے ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے اور ہونے والے نقصان کو اپنی سیاسی قیادت کی نا اہلی اور اجتماعی بے بصیرتی کا ایک ثبوت سمجھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہمیں اپنے سیاسی لیڈروں کا احتساب کرنا ہو گا۔ قوم پرستوں کے پھیلائے ہوئے تعصبات کے بجائے اجتماعی فائدے کی راہ اپنانا ہو گی۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہو گا۔ ہم نے اگر اس عظیم ترین سانحے کے بعد بھی خوداحتسابی اور اصلاح کی راہ اختیار نہ کی اور گزرے ہوئے واقعات کو بھول جانے کی اپنی روش جاری رکھی تو جلد ہی ہمارا وجود بھی ایک بھولی بسری داستان بن جائے گا۔ یہ قدرت کا قانون ہے ، اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے تو ان کی ہستی بہت حلیم اور کریم ہے ۔ انھیں عذاب دینے سے زیادہ اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سمجھانے کے لیے اپنے بہترین بندوں کو مقرر کریں جو لوگوں میں ایمان و اخلاق کا صور پھونکیں ۔ جیسا کہ ہم نے ابنِ خلدون کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ جس قوم میں اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جائے ، اس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اخلاقی طور پر پست ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ ہمارے ہر مسئلے کی تہہ میں جو اہم ترین سبب نظر آئے گا وہ اخلاقیات کی پامالی ہے ۔ کرپشن کرنے والے سرکاری ملازمین اور حکمران، مہنگائی کے ذمہ دار تاجر، قومی مسائل کو حل نہ ہونے دینے والے قوم پرست لیڈر، خودکش حملوں میں معصوموں کی جان لینے والے فدائی اور ان کے حامی علما، سب کے سب اصل میں مسلمہ انسانی اقدار کو ذبح کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں ۔
اس سیلاب سے سیکھنے کی اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہی ہے کہ ہمیں مشکلات کے سامنے ڈھہ جانے کے بجائے انھیں چیلنج سمجھ کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ سیاسی قیادت کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کر کے نیا لائحۂ عمل بنانا ہو گا۔ فکری قیادت کو ہر سانحے پر قوم کو عذابِ الٰہی کی نوید سنانے کے بجائے لوگوں میں ایمان و اخلاق کی شمع کو روشن کرنا ہو گا۔ عوام الناس کو بھول جانے کے مرض سے نکل کر احتساب کے اصول پر جینا ہو گا۔ ہم نے اگر یہ کر لیا تو ہم جلد ہی ایک عظیم ملک کے طور پر دنیا کے سامنے ابھر آئیں گے