اس بلاگ کا ترجمہ

Monday, October 29, 2012

طارق روڈ کراچی



طارق روڈ کراچی کا ایک بہت بڑ ا تجارتی مرکز ہے ۔یہاں بڑ ے بڑ ے شاپنگ سنٹرز واقع ہیں ۔ شہربھر سے لوگ کپڑے، زیورات اور دیگر اشیا کی خریداری کے لیے یہاں آتے ہیں ۔طارق روڈ کا ایک سرا شہید ملت روڈ اور دوسرا ، وسطِ شہر کی سمت جاتے ہوئے ، اللہ والی چورنگی پرواقع ہے ۔ اللہ والی چورنگی پر جس جگہ طارق روڈ ختم ہوتا ہے ، وہیں کونے پر سوسائٹی کا قبرستان ہے ۔پچھلے دنوں طارق روڈ کی طرف جانے کے لیے میں اس چورنگی پر پہنچا تو سگنل سرخ ہو چکا تھا۔ میں رُک کر اشارہ کھلنے کا انتظار کر رہا تھا کہ طارق روڈ کے آغاز پر ایک بلند و بالا سائن بورڈ پر نظر پڑ ی۔ یہ سائن بورڈ ایک بینک کا تھا جس نے اپنے کریڈٹ کارڈکی تشہیر کے لیے سائن بورڈ پر ایک بہت ہی دلچسپ اور بامعنی جملہ لکھ رکھا تھا:

It is all about happiness

یہ جملہ کوئی سادہ جملہ نہیں ہے ۔ یہ دورِجدید کے انسان کی مکمل کہانی ہے ۔ خوشی و راحت کا حصول ہر دور میں انسان کا مقصداور اس کی خواہش رہی ہے ۔ مگر آج کے انسان کی تمام تر خوشیاں مادی چیزوں کے حصول پر منحصر ہو چکی ہیں ۔ دنیا کی نعمتیں حاصل کرنا، اس کی زندگی کا نصب العین بن چکا ہے ۔ وہ ان مادی خوشیوں کا ایسا اسیر ہو چکا ہے کہ جیب میں اگر پیسے نہ بھی ہوں تو وہ قرض لے کر ان مادی چیزوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ پہلے زمانے میں قرض لینا آسان نہ تھا۔ چنانچہ انسان پیسہ پیسہ جوڑ کر فرج، ٹی وی اور دیگر اشیاء خریدا کرتے تھے ۔مگر آج کا بینک، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سے ، قرضے کی یہ سہولت باآسانی فراہم کرتا ہے ۔چنانچہ جیب میں اگر کریڈٹ کارڈ ہو تو ہر فرمائش اور ہر خواہش کی فوری تسکین کی جا سکتی ہے ۔ دلی تمنا کے فوری پورا ہونے کی یہی خوشی، اس جملے میں مراد تھی۔

مگر بینک کا ادارہ کوئی قرضہ فی سبیل اللہ نہیں دیتا۔وہ اس قرضے پر سود وصول کرتا ہے ۔یہی سودبینک کی کمائی کا ذریعہ ہے۔پھر یہ قرضہ ہر کس و ناکس کو ملتا بھی نہیں ہے ۔بینک پہلے تحقیق کر کے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جسے قرضہ دیا جا رہا ہے وہ قرضہ ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے ۔اس کے لیے اکثر اوقات کوئی نہ کوئی ضمانت رکھوائی جاتی ہے ۔ اگر آپ قرض لے کر رقم واپس نہیں کریں گے تو قانونی کار روائی ہو گی اور بالجبر قرضہ وصول کر لیا جائے گا۔ گارنٹی کی ہر چیز ضبط ہوجائے گی۔یہاں تک کہ عدم ادائیگی کی صورت میں جیل جانا پڑ ے گا۔

سگنل پر کھڑ ے کھڑ ے چند لمحوں میں میرے ذہن میں یہ سارے خیالات گزر گئے ۔ ابھی سگنل بند ہی تھا کہ میری نظر اس سائن بورڈ کے بالکل نیچے پڑ ی جہاں سوسائٹی کے قبرستان کا منظر میری نگا ہوں کے سامنے آ گیا۔مجھے خیال آیا کہ یہ ایک دوسرا اشتہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جگہ جگہ لگا رکھا ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس اشتہار میں بھی ، زبان حال سے ، ٹھیک وہی سلوگن لکھا ہوا ہے جو بینک کے اشتہار میں تھا:

It is all about happiness

قبرستان کا منظر انسان کو یہ یاد دلاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ابدی نہیں بلکہ عارضی طور پرموجود ہے ۔وہ یہاں اپنے رب سے مہلتِ عمر قرض لے کر آیا ہے ۔روزِ ازل انسان نے زندگی کا یہ کریڈٹ کارڈ اس لیے لیا تھا کہ وہ جنت کی ابدی خوشیوں اور راحتوں کو حاصل کرسکے ۔اس قرضے کے لیے انسان نے اپنا وجود خدا کے پاس گارنٹی رکھا ہوا ہے ۔کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ:ہرنفس اپنی کمائی کے عوض رہن ہے ۔(المدثر38:74)

انسان اس دنیا میں اگر نیک عمل کی کمائی کر لیتا ہے تو وہ نہ صرف جنت کی خوشیوں کو حاصل کرے گا بلکہ جہنم کی سزا سے بھی اپنی ہستی کو بچالے گا۔اس کے برعکس اگر انسان اس حیات مستعار کو دنیا کی رنگینیوں کے پیچھے ضائع کربیٹھا تو نعمت بھری جنت تو ایک طرف رہی ، اس کا وجود جہنم کے قید خانے میں ڈال دیا جائے گا۔

انسانوں کی بدقسمتی ہے کہ ان کی اکثریت مہلتِ عمر کے اس قرض کو آخرت کی ابدی خوشیاں سمیٹنے کے بجائے دنیا کی عارضی خوشیوں کے پیچھے لگادیتی ہے ۔اس رویے سے صرف وہ شخص بچ سکتا ہے جو اپنی خواہشات پر صبر کرنا سیکھ لے۔انسان کے اندر خواہش کا پیدا ہونا غلط نہیں ، اس کابے لگام ہوجانا غلط ہے ۔ کیونکہ خواہشات کی اندھی پیروی انسان کے پاس یہ موقع نہیں چھوڑ تی کہ وہ آخرت کے لیے سرمایہ کاری کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ جنت کو صبر کا بدلہ قرار دیا گیا ہے ۔ آج یہ صبر سب سے بڑ ھ کر خواہشات کے بارے میں مطلوب ہے ۔

سو اَب جب کبھی آپ کسی قبرستان کے پاس سے گزریں تو وہاں ایک سائن بورڈ ضرور دیکھیے گا جس پر جلی حروف میں جنت کی ابدی زندگی کے متعلق یہ لکھا ہو گا:

It is all about happiness
It is all about patience