پاکستانی پارلیمنٹ نے اٹھارویں ترمیم منظور کرلی ہے۔ آئین میں اس ترمیم کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جارہا تھا۔ آخرکار تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر متفقہ طور پر یہ ترمیم منظور کرلی۔ صوبوں کو ملنے والے متعدد فوائد اور اختیارات کے علاوہ اس ترمیم کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں طاقت کا سرچشمہ اب وزیر اعظم کی ذات ہوگی۔ اس اعتبار سے اس ترمیم کو پارلیمانی جمہوریت کی فتح قرار دیا جارہا ہے۔ اور امید کی جارہی ہے کہ اب حکومت عوام کو درپیش مسائل جیسے مہنگائی اور امن و امان وغیرہ کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔
ہم پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے متمنی ہیں اور اسے آمریت کی ہر قسم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اس ترمیم کی منظوری کو بھی ایک خوش آئند قدم سمجھتے ہیں، تاہم اس موقع پر ہم ایک حقیقت کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ اس سے پہلے بھی دو موقعوں پر ملک کے وزیر اعظم کے پاس یہ سارے اختیارات تھے۔ یعنی 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو اور اور 1997 میں نواز شریف کو اسمبلی میں اپنی دو تہائی اکثریت کے نتیجے میں یہ سارے اختیارات حاصل تھے۔ مگر دونوں موقعوں پر بجائے اس کے کہ جمہوریت کو فروغ حاصل ہوتا، دونوں حکمرانوں سے لوگوں کو شکایات پیدا ہوئیں اور دونوں دفعہ مارشل لا آگیا۔
ہمارے نزدیک اس معاملے میں جو حقیقت نظر انداز کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ معاشروں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں صرف قوانین کی تبدیلی سے نہیں آتیں، بلکہ اعلیٰ اخلاقیات کے فروغ سے پیدا ہوتی ہیں۔ افراد اور معاشرے میں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہوں تو محض قانونی تبدیلیوں سے تبدیلی نہیں آیا کرتی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیات؛ خواہ ارکانِ اسمبلی ہوں، سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہو یا موجودہ حکمران، ان سب کی اخلاقی حیثیت پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔ جب تک یہ سوالیہ نشان باقی ہیں ہمارے ہاں تبدیلی نہیں آسکتی۔ موجودہ اخلاقی رویوں کے ساتھ ہوگا صرف یہ کہ پہلے جس رویے کی شکایت صدر سے ہوتی تھی اب وزیر اعظم سے ہوگی۔ یہ سن 73 کے بعد ہوا اور سن 97 کے بعد بھی، اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
اخلاقی اقدار کو مسئلہ بنائے بغیر ہمارے ہاں کرپشن اسی طرح جاری رہے گی۔ اقربا پروری کا فروغ اور میرٹ کی موت ہوتی رہے گی۔ نااہل اور بدعنوان لوگ وزارتوں اور محکموں کی سربراہی پر فائز ہوتے رہیں گے۔ مہنگائی اور بدامنی کا سلسلہ بڑھتا رہے گا۔ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں گی۔ ظلم و ستم کی داستانیں سامنے آتی رہیں گی۔ سیاسی آمریت اور مخالفین کی سرکوبی کا سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔
عوام اگر چاہتے کہ یہ سارے مسائل حل ہوں تو انہیں اخلاقی اقدار کی پابندی خود بھی کرنی ہوگی اور اپنے نمائندوں کے انتخاب کے وقت بھی اسی کو سب سے بڑا معیار بنانا ہوگا۔ خوش قسمتی سے اس وقت ایک آزاد اور فعال عدلیہ اور میڈیا موجود ہے۔ ان دونوں کی مدد سے یہ عین ممکن ہے کہ اخلاقی اقدار کو پامال کرنے کی بنیاد پر کسی بھی طاقتور شخص پر گرفت کی جاسکے۔ عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کو کوئی تبدیلی نہ سمجھیں بلکہ اسے صرف ایک انتظامی معاملہ سمجھ کر اخلاقی اقدار کے نفوذ کو اپنی توجہ کا اصل مرکز بنالیں۔ وہ یہ عہد کرلیں کہ کوئی کرپٹ، ظالم، عہد شکن اور بددیانت شخص ان کے ہاں قیادت کے مقام پر نہ پہنچ سکے گا۔ اور اگر پہنچ جائے گا تو اس کا احتساب کیا جائے گا۔ یہی تبدیلی کا اصل طریقہ ہے۔
قوموں کی زندگی میں قانون اصل تبدیلی نہیں لاتا۔ قوموں کی زندگی میں ترقی اور تبدیلی کی اصل ضامن اخلاقی اقدار ہوا کرتی ہیں۔ قانون کی قوت کردار کی قوت کے بغیر کچھ نہیں ہوا کرتی۔ جہاں کردار نہ ہو وہاں ہر قانون خیر کے بجائے شر میں اضافہ کرتا ہے۔