طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب دل کے اَمراض سے بچاؤ میں بہت مُمِد ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔
ایک وقت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھا جانا یا ہر روز بھ
اری ناشتہ کرنا یا روزانہ دوپہر کا بھرپور کھانا، شام کا بھرپور کھانا، اچھی صحت کے لئے ضروری خوراک سے کافی زیادہ ہے۔ روزانہ دن میں تین وقت کا بھرپور کھانا، خاص طور پر زیادہ کیلوریز پر مشتمل خوراک اور سیرشدہ چکنائیاں نہ صرف صحت کے لئے سخت نقصان دِہ ہیں بلکہ اَمراضِ قلب اور دُوسری بہت سی خطرناک بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا سبب بھی بنتا ہے۔
قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
كُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO
(الاعراف، 7 : 31)
کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاo
قرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے :
إنّ المؤمنَ يأکلُ في معيٍ واحدٍ، وَ الکافر يأکلُ في سبعة أمعاء.
(صحيح البخاري، 2 : 812)
(جامع الترمذي، 2 : 4)
(سنن الدارمي، 2 : 25)
مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے فرمایا :
إنّ اﷲَ يبغض الأ کلَ فوق شبعه.
(کنزالعمال : 44029)
اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
بسیارخوری بیماری کی جڑ ہے اِس لئے اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔ تاجدارِ حکمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
أکثر الناسِ شبعاً في الدُّنيا أطولهم جوعاً يومَ القيامةِ.
(سنن ابن ماجه : 248)
جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔
اِسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید اِرشاد فرمایا :
حسب الآٰدمي لقيمات، يقمن صلبه، فإنْ غلبت الآٰدمي نفسه فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس.
(سنن ابن ماجه : 248)
اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک تہائی سانس لینے میں آسانی کے لئے چھوڑ دو۔
کثرتِ طعام ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار ایسا ہونے سے لبلبے کے خلیے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی کمی کا ایک بڑا سبب بسیارخوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا ہے
قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
كُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO
(الاعراف، 7 : 31)
کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاo
قرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے :
إنّ المؤمنَ يأکلُ في معيٍ واحدٍ، وَ الکافر يأکلُ في سبعة أمعاء.
(صحيح البخاري، 2 : 812)
(جامع الترمذي، 2 : 4)
(سنن الدارمي، 2 : 25)
مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے فرمایا :
إنّ اﷲَ يبغض الأ کلَ فوق شبعه.
(کنزالعمال : 44029)
اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
بسیارخوری بیماری کی جڑ ہے اِس لئے اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔ تاجدارِ حکمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
أکثر الناسِ شبعاً في الدُّنيا أطولهم جوعاً يومَ القيامةِ.
(سنن ابن ماجه : 248)
جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔
اِسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید اِرشاد فرمایا :
حسب الآٰدمي لقيمات، يقمن صلبه، فإنْ غلبت الآٰدمي نفسه فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس.
(سنن ابن ماجه : 248)
اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک تہائی سانس لینے میں آسانی کے لئے چھوڑ دو۔
کثرتِ طعام ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار ایسا ہونے سے لبلبے کے خلیے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی کمی کا ایک بڑا سبب بسیارخوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا ہے