افادات نوری
ذیل میں قابل صد احترام ڈاکٹر نور احمد نور صاحب پروفیسر آف میڈیسن نشتر میڈیکل کالج ملتان، کی نماز پر تحقیق پیش ہے۔
نماز تہجد کا فائدہ
مایوسی یعنی ڈیپریشن(Depression)کے امراض کا علاج مغربی ڈاکٹروں نے ایک اور دریافت کیا ہے۔ یہ بات مجھے خیبر میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات نے بتائی۔ مغربی ممالک کے ڈاکٹروں نے دیکھا کہ جو مسلمان تہجد کے وقت جاگتے ہیںانہیں مایوسی کا مرض نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ تہجد کے وقت جاگنا، مایوسی کے مرض کا علاج ہے۔ علم نفسیات (Psychology)کے ماہرین نے مایوسی کے مریضوں پر یہ تجربہ کیا۔ انہوں نے مایوسی کے مریضوں کو تہجد کے وقت جگانا شروع کیا۔ یہ مریض جاگ کر کچھ پڑھ لیتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔ یہ معمول جب کئی مہینے تک مسلسل جاری رکھا گیا تو مایوسی کے مریضوں کو بہت فائدہ ہوا اوروہ دواﺅں کے بغیر ٹھیک ہو گئے۔ چنانچہ اس مغربی ڈاکٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آدھی رات کے بعد جاگنا مایوسی کے مریضوں کا علاج ہے۔
میں نے عبقری رسالے کے مضمون ”دکھی خط“میں پڑھا ہے کہ کوئی بہن یا بھائی یا کوئی شخص بہت ہی سخت مشکل میں گرفتار ہے اس کی پوری داستان لکھی جاتی ہے۔ آخر میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ کوئی صاحب اس کے حل کے بارے میں بتائے۔ تو آج میں آپ کو ان تمام بھائی بہنوں کی مشکلات کا حل بتاتا ہوں اس پر عمل کرکے دیکھیں پھردیکھئے کہ کس طرح رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے‘مشکلات کے بادل چھٹتے ہیں مگر اس عمل کی مداوت نہایت ضروری ہے ‘ کیونکہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی مشکل اگر 6 سال کی لکھی ہے تو جب آپ اس عمل کو کریں گے تو رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے کبھی فوراً مشکل حل ہوجاتی ہے کبھی کسی مصلحت کے تحت دیر ہوتی تو دیر کی وجہ سے تنگ آکر یا جھنجھلا کر عمل کو بند نہ کریں کیونکہ شیطان بہت کوشش کرتا ہے آپ کو طرح طرح سے بہکائے گا کہ اتنا عرصہ ہوگیا مشکل حل نہیں ہوتی مگر آپ شیطان کی بات بالکل نہ مانیں بلکہ اور زیادہ عمل میں لگ جائیں انشاءاللہ دکھ و تکلیف کے بادل چھٹ جائیں گے بعد میں دفع ہوجائیں گی۔ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ۔
وہ عمل ہے (تہجد کی نماز)
میں ایک صاحب کی سچی کہانی انہی کی زبانی آپ کو بتاتا ہوں۔ میں ایک عرصے سے بیروزگار تھا۔ نوکری اور روزگار کیلئے جگہ جگہ دھکے کھاتا رہا مگر ہرطرف سے جواب نہ میں آتا۔ کبھی کبھی میں خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا۔ میری والدہ نے میرے انتہائی منع کرنے کے باوجود میری شادی کردی‘ میری والدہ کا کہنا تھا کہ تمہاری شادی کے بعد تمہاری روزگار کی پریشانی ختم ہوجائیگی اور آنیوالی دلہن اپنی تقدیر اور اپنا رزق ساتھ لائیگی۔ ایک مخلص دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کسی شپنگ ایجنٹ کے ذریعے باہر چلے جائو اور جہاز پر تنخواہ بھی اچھی ہوتی ہے اور ملک ملک کی سیر مفت میں ملے گی۔ میں اپنی بیوی کا زیور بیچ کر ایک شپنگ ایجنٹ کو بیس ہزار کی رقم دیدی یہ تقریباً 1980 کا سال تھا اس وقت میں حیدرآباد میں رہتا تھا شپنگ ایجنٹ کا دفتر کراچی میں واقع تھا جس کی وجہ سے مجھے بار بار کراچی جانا پڑتا چونکہ میرے سسرال کراچی میں تھے اور مجبوراً وہاںرہنا پڑتا تھا مجھے وہاں رہتے بڑی شرم آتی تھی۔ دوسری مصیبت یہ تھی کہ میرے سسر کو مجھ سے خدا واسطے کا بیر تھا وہ شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کی بیٹی کو میں بھوکا ماررہا ہوں۔ میں اپنے سسر سے چھپ کر مجبوراً سسرال میں رہتا تھا۔ میں جب بھی ایجنٹ کے پاس جاتا تو وہ دوسرے دن آنے کو کہتا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ ایک دفعہ رمضان کا مہینہ تھا میں سسرال میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایجنٹ وعدہ پر وعدہ کررہا تھا آفس کے باہر لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا‘ لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھی لوگ بڑے بڑے لوگوں کی سفارشیں لے کرآتے تھے روزانہ لوگوںکی فلائٹ ہوتی تھی مگر میں کس کی سفارش لاتا؟ ایجنٹ کی بڑی منتیں کرتا مگر وہ منہ نہیں لگاتا تھا زیادہ ضد کرتا تو کہتا کہ تم سے پہلے کئی لوگ موجود ہیں ان کے بعد تمہارا نمبر آئیگا۔ ایک دن میں ذہنی طور پر بہت زیادہ پریشان تھا میں نے رات کو اپنی بیوی کو اٹھا کر اس سے جائے نماز اور قرآن لے کر مکان کی چھت پر چڑھ گیا رات کو چھت پر ہوکا عالم تھا‘ اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا اور ایک جگہ جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔
تہجد کی نماز پڑھی پھر 2رکعت صلوٰة الحاجت پڑھی اور قرآن سر پر رکھ کر اپنے رب سے دعا مانگنے لگا۔ میرا دل بھر آیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کہ (اے میرے رب میں کہاں جائوں تیرے علاوہ کوئی اور سنتا بھی نہیں‘ میں روزگار سے بے انتہا پریشان ہوں اے میرے رب اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میرے کام کو بنادے اور مجھے جلد سے جلد باہر ملک جہاز پر نوکری لگوادے) بس رو رو کر میری ہچکی بندھ گئی پھر میں سجدے میں گرگیا اور کافی دیر تک دعائیں مانگتا رہا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور عید میں تقریباً پندرہ دن باقی تھے میں روزانہ رات کو چھت پر چڑھ جاتا تہجد پڑھتا اور اپنے رب سے دعا مانگتا رہتا۔ میں بے انتہا روتا اور گڑگڑاتا رہتا۔ ابھی عید کے آنے میں تقریباً چھ دن رہ گئے تھے میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے عید سے پہلے پاکستان سے باہر نکال دے مجھے نوکری عطا کردے۔ میں بہت دلبرداشتہ ہورہا تھا۔ اتنی دعائیںاور تہجد پڑھنے کے باوجود دعا کی قبولیت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ ہر دفعہ شپنگ ایجنٹ ٹکا سا جواب دیدیتا ایک دن اتوار کو میں نے اپنے ایک دوست سے ایجنٹ کے دفتر چلنے کو کہا تو میرا دوست حیرت سے بولا کہ بھائی آج اتوار ہے اور اتوار کو تمام دفتر بند ہوتے ہیں مگر اپنے دوست سے بضد رہا۔ میرے زور دینے پر اپنے دوست کے ساتھ ایجنٹ کے دفتر پہنچا۔ دفتر کے باہر چوکیدار نے ہمیں روک لیا میں نے چوکیدار سے کہا ہمیں دفتر میں جانا ہے تو وہ بولا کہ آج دفتر بند ہے۔ میں نے کہا کہ دفتر میں کوئی تو ہوگا مجھے اس سے ملنا ہے مگر چوکیدار بھی کوئی ضدی بندہ تھا اس نے ہمیں دفتر میں جانے نہیں دیا۔ میں واپس جانے ہی والا تھا کہ چوکیدار بولا اندر افتخار صاحب ہیں جائو اس سے مل لو۔ بس میں فوراً دفتر میں داخل ہوا اندر افتخار صاحب (کلرک) بیٹھے ہوئے تھے سلام وغیرہ کے بعد میں نے اپنے باہر جانے اور نوکری کے بارے میں پوچھا وہ بولے کہ ابھی تو مہینوں بعد تمہارا نمبر آئیگا کیونکہ تم سے پہلے کئی لوگ انتظار میں بیٹھے ہیں میرا دل ایک دم دھک سے رہ گیا کہ یاالٰہی !میں تو بڑی امید لے کر آیا تھا میں ٹوٹے ہوئے دل سے واپس ہونے لگا کہ اچانک افتخار صاحب بولے کہ بھائی تمہارا نام کیا ہے میں نے اپنا نام بتایا تو فوراً انہوں نے اپنے رجسٹر کو کھولا اور اس کے اندر سے پاسپورٹ اور فلائٹ کا ٹکٹ نکالا اور چہک کر بولے ارے یہ تو تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ ہے میں تمہارا ہی تو انتظار کررہا ہوں۔ آج رات کی آپ کی فلائٹ ہے جرمنی کی۔ میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا کہ میرے کام کا دور دور تک پتا نہیں تھا نہ ہی سوچ تھی اتوار کو آفس بند ہوتا ہے میں ہی ضد کرکے یہاں پر آیا اور ناممکن کام ممکن ہوگیا۔ بس یہ تہجد ہی کی برکت تھی کہ میرے پیارے رب نے میری فریاد سن لی اور میں کامیاب ہوگیا۔ اسی رات میں فلائٹ میں بیٹھ کر باہر روانہ ہوگیا اور اللہ نے میری قسمت کھول دی
درس ہدایت (حکیم طارق محمود چغتائی عبقری مجذوبی چغتائی)
(ہفتہ وار درس سے اقتباس)
نفل و عبادات میں مجاہدہ یا مشقت کا اجر
تہجد کے وقت عبادت کے لیے اٹھنا مشقت طلب امر ہے۔ تہجد کے نفل مشقت والے ہیں لیکن اشراق کے نفل مشقت والے نہیں ہیں۔ تہجد کے نفل کم از کم دو اور زیا دہ سے زیادہ جتنے مرضی ادا کرتے جا ﺅ۔ بعد کے دوسرے نفل ہیں۔ تہجد اور اشراق کے نفل اجر کے لحاظ سے برابر ہیں؟ جس عمل میں جتنا مجا ہد ہ ہو گا، جتنی قربانی ہو گی۔ جتنی خواہشات اور جتنی ضروریات اور جتنی اندر کی کیفیا ت ٹوٹے گی۔ یا د رکھنا اس عمل پر اتنا ہی اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہا ں اصل قربانی ہے ، مجاہدہ اور ایمان بنانے میں ، قربانی دینے میں سب سے پہلی چیز ہے کہ ایمان بنانا ہے۔ ایمان بچانا ہے اوربچا کر حفاظت سے قبر تک ساتھ لے جا نا ہے۔ یا د رکھنا پیسہ کو شش سے نہیں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کو شش سے پیسہ مل جا تا ہے۔ جب پیسہ آجاتا ہے پھر اس کی حفا ظت بھی لازمی ہے اس کو سنبھالنا بھی ضروری ہوتا ہے اور یا د رکھنا جس کے پا س زیادہ پیسہ ، مال و دولت آجا تا ہے۔ اس کی نیند کم ہو جا تی ہے۔ یہ مال کا خاصہ ہے۔ چاہے ایمان کا مال ہو ، چاہے دنیا کا مال ہو۔ نیند کم ہو جا تی ہے۔ امید ہے آپ سمجھ رہے ہوں گے ہرن ہے نا ” مشکی ہر ن “ ، ” آہو مشکی “ چشم غزالی ، چشم غزال۔ آہو کہتے ہیں ہرن کو ، غزال کہتے ہیں ہر ن کو۔ اس سے نکلی ہے غزل اور غزل ہرن کی اس چیخ کو کہتے ہیں جب شکاری اس کو پہلا تیر ما رتا ہے اور اس کے اندر سے دل گداز ، پر سوز ایک آہ سی نکلتی ہے اس کو غزل کہتے ہیں یہ جو ہر ن ہوتا ہے جس کے اندر مشک ( کستوری ) ہوتا ہے۔ کستوری بہت مہنگی ہو تی ہے۔ قریباًبیس ہزار روپے تولہ ہے۔ یہ کستوری جب ہر ن کے اندر آتی ہے۔ اس کے نا ف کے اند رہو تی ہے۔ جسے نا فہ کہتے ہیں۔ یہ سال میں ایک دفعہ آتی ہے۔ تو ہرن کو پتہ چل جا تا ہے۔ کہ میرے پا س ایک نہا یت قیمتی چیز آگئی ہے ا ور شکاریوں کو بھی پتہ چل جا تاہے کہ یہ کستوری کا موسم ہے اور وہ تاک میں رہتے ہیں شکار کر نے کے۔
ایمان قیمتی متاع، حفاظت لازمی
جیسے ہم یہا ں آتے ہیں تو شیطان ہمارا شکار ی ہے۔ وہ جا ل ڈالتا ہے کسی کو نیند کا ،کسی کووہ جا ل ڈالتا ہے کہ وہ درس کی کوئی بات اس کے اندر نہ پڑے۔ یہا ں سب مشقت کر کے کا روبار زندگی چھوڑ کر آیا ہے۔ اس کو نیند کا غلبہ ڈال دیا۔ کسی کا جسم یہا ں ہے تو دل حاضر نہیں ہے۔ ایک دفعہ ایک صاحب میر سامنے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا السلام علیکم !انہیں ایک دم جھٹکا لگا بے توجہی اور غفلت میں تھے۔ میں نے پو چھا سچ بتاﺅ کہاں بیٹھے تھے؟ کہنے لگے دہلی دروازے تانگے پربیٹھا تھا ! جسم یہا ں مو جو د ہے تو روح کی تیز پرواز کہاں سے کہاں لئے پھر تی ہے اور یہ شیطان کی کار ستانی ہے کہ وہ کہاں سے کہاں کھینچ کر لے جا تاہے۔ کہنے لگے بڑی مشقت کر کے یہا ں آیا تھا کہ ایمان و اعمال کی بات سنو ں گا۔ شیطان نے کہا، کوئی بات نہیں۔ آیا ہے تو پھربیٹھنے نہیں دوں گا۔ اگربیٹھ گیا ہے تو توجہ نہیں کرنے دو ں گا۔ اگر تو جہ بھی کرنی ہے تو یا تو نیند ڈال دوں گا یا ادھر ادھر مشغول کر دو ں گا تاکہ یہا ں سے کچھ لیکر نہ جا ئے۔ تو جب ہر ن کے اندر مشک آتاہے تو اس کی نیند کم ہوجاتی ہے وہ ہمہ وقت چو کس رہتا ہے۔ سوتا نہیں ہے کھڑے کھڑے اپنی نیند پور ی کر لیتا ہے ہر آہٹپر لرز جا تا ہے چوکنا ہو جا تاہے اس کو ہر وقت مشک والی نا ف کا غم اور فکر ہوتا ہے کہ شکاری کہیں شکار نہ کر لے۔ قیمتی متا ع بھی جائے اور جان بھی جائے۔
مومن کے اندر جب ایمان آتا ہے اور مو من کے اندر جب اللہ کی محبت آتی ہے اور مومن کے اندر تقوی آتا ہے۔ پھر مومن بھی چوکنا ہو جا تاہے کہ کوئی شکاری لو ٹ نہ لے۔ کہیں مجھے نظر وں سے شکار نہ کر لیاجائے۔ کہیں کا نو ں سے شکار نہ کر لیا جائے ہا تھو ں سے شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ نیند کی غفلت کا شکار نہ ہو جاﺅ ں۔ کہیں گنا ہوں کا شکا ر نہ ہو جاﺅ ں۔ یہی فکر اسے ہر لمحہ اسے بے چین رکھتی ہے۔ کسی بزرگ نے شیطان کو دیکھا کہ پھٹے پرانے جال لئے پھر رہا ہے۔ کہنے لگا ارے یہ پھٹے پرانے جا ل کہاں ہیں؟ کہا ان لو گو ں کو تلا ش کر رہا ہوں جوان جا لو ں کو توڑ کر نکل بھا گ گئے تھے اور وہ کیا سمجھتے ہیں کہ میں انہیں چھوڑ دو ں گا؟ میں انہیں نہیں چھوڑوں گا؟ اگر میرے ساتھ فیصلہ جہنم کا ہو اہے تو ان سب کو ساتھ لیکر جاﺅں گا۔ یہ پرانے جا ل کیو ں کہتے ہو وہ نئے جا ل لا یا یا پرانے شکا ری اسی طر ح کہتے ہیں۔ میرے دوستوبزرگو ! ایمان بچانا ہے اور قبرمیں ساتھ لیکر جا نا ہے ایمان مومن کی سب سے قیمتی متا ع ہے۔
مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں
ایمان کیسے آئے گا۔ ایمان کا پتہ کیسے چلے گا میں مومن ہوں ، کیسے پتہ چلے گا۔ اپنے دن رات کی مصروفیا ت کو دیکھ کر مومن کا پتہ چل جا تاہے۔ شیشے میں سب کچھ نظر آتاہے کہ نہیں۔ آئینہ میں اپنی شکل نظر آتی ہے یا کسی اور کی تو مومن کا آئینہ کیا ہے؟ مومن کاآئینہ نما زہے۔ مو من کا آئینہ خلوت ، تنہا ئیاں ہیں۔ تنہائیوں میں مجھے رب کتنا یا د ہوتا ہے اور سب کتنا یا د ہوتے ہیں۔ مومن کا آئینہ تنہائیاں ہیں۔ جب میں تنہا ئیو ں میں ہوتا ہوں اس وقت اللہ پا ک جل شانہ کے ساتھ میرا کیا معاملہ ہوتاہے اور اس اللہ کے ساتھ کیا ہوتا ہوں۔ اب تو شریف ہو گیا ہوں اس وقت بد معاش ہوتا ہوں؟ اب تو شریف ہو گیا ہوں۔ اس وقت خبیث ہوتا ہوں؟ اب رحمان کا بندہ ہوں کیا اس وقت کہیں شیطان کا بندہ تو نہیں ہوتا (تنہائیوں میں )ایمان تنہا ئیو ں میں گناہوں سے بچا تا ہے ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کی محبت کو لا تا ہے۔ ایمان تنہا ئیو ں میں اللہ کے تعلق کو لا تاہے۔ اور چلتے چلتے انسان کے ایمان میں کمی نہیں آتی اور چلتے چلتے انسان کا ایمان بڑھتا ہے اور جب انسان راہ عمل پر چل رہا ہوتاہے۔ ایمان کم ہو رہا یا زیادہ ہو رہا ہوتاہے۔
قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
دو رکعت نفل صلوة الحاجت پڑھیں سلام کے بعد اسی حالت میں کسی سے گفتگو کیے بغیر 3 بار درود ابراہیمی 3 بار سورة یٰسین اور پھر 3 بار درود ابراہیمی ضرور پڑھیں اور نہایت خشوع توجہ دھیان سے اللہ تعالیٰ سے اپنے مسائل اورمشکلات کیلئے دعا کریں یہ عمل کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے اگر تہجد کے وقت کرلیں تو بہتر ہے یہ عمل دن میں کئی بار بھی کیا جاسکتا ہے۔
تمام قارئین کو اجازت ہے آپ کسی اور کو بھی بتا سکتے ہیں۔ ایک نہایت متقی صالح درویش کی خدمت سے یہ عمل حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا مسئلہ چاہے کسی بھی قسم کا ہو دنیاوی ہویا کسی شخص سے کاروبار کا ہو اولاد کا ہو یا رشتوں کا تمام مسائل کے لیے یہ نفل پڑھنے کو بتائے۔ آخر میں یہ فرمایا کہ ایک ہی بار پڑھنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا ورنہ 3 دن یہ نفل پڑھ لیں اور اگر ساری زندگی کا معمول بنالیں تو حیرت انگیز فوائد اور برکات آنکھوں سے دیکھیں گے۔ قارئین! ایک شخص اپنی مشکل لے کر آیا کہ بیماری سے عاجز آگیا کوئی علاج نہیں چھوڑا تھا اور خوب پرہیز کیے لیکن افاقہ نہ ہوا کہنے لگاعلاج کرتے کرتے اب دوائی اور معالج کے نام سے الرجی ہے حتیٰ کہ اگر دوائی کے اشتہاری سے گولی یا کیپسول کی آواز سنتے ہی غصہ آجاتا ہے۔ اس کے مطابق تمام حکیم ڈاکٹر فراڈ ہیں سب جھوٹے اور دھوکے باز ہیں۔
کسی کے پاس کوئی دوائی نہیں میرا کوئی علاج نہیں کرسکتا یقینا وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا تھا اور گالیاں دیتا تھا۔ میں نے اس مریض کو دیکھا بھی نہیں بلکہ میں نے تو ایک دوسرے مریض کو بتایا تھا اللہ تعالیٰ نے اس مبارک عمل کی برکت سے اسے شفاءعطا فرمائی تو اس نے دوسروں کو بتایا ۔یہ مریض اس کے فلیٹ سے اوپر کی منزل پر رہتا تھا۔اس نے اسے بھی بتایا اس نے یہ نفل پڑھنے شروع کردئیے ایک دن ملا کہ میں پہلے سے اتنا تندرست ہوں کہ بتا نہیں سکتا وہ کم ازکم 1/2 گھنٹے اپنی صحت کی داستان بیان کرتا رہا پھر ایک بار مجھے ملنے آیا تو ایک رومال میں ادویات کی گٹھڑی باندھی ہوئی تھی وہ دکھا کر کہنے لگا ایسی کئی گٹھڑیاں نوٹوں کی خرچ کرچکا ہوں واقعی یہ عمل لاجواب ہے یہ شخص دراصل ڈاکیہ تھا اب اسنے ایک لاجواب کام کیا جہاں بھی جاتا کسی کو کسی بھی قسم کی مشکل میں مبتلاءدیکھتا تو فوراً اسے نفل کی ترکیب بتادیتا چونکہ نفل آسان اور بالکل تھوڑے وقت میں پڑھے جاتے ہیں۔
اس لیے ہر شخص آسانی سے پڑھ لیتا پھر یہ شخص ہرپڑھنے والے کے پاس وقتاً فوقتاً جاتا رہتا اور اسے یقین توجہ اور دھیان جما جما کر پڑھنے کی ترغیب دیتا رہتا پھر اس عمل سے جن جن لوگوں کے مسائل حل ہوئے اس نے ان لوگوں کے نام مسائل بمع ایڈریس لکھنا شروع کیے‘ یہ ڈاکیہ اب تک اپنے مشن میں لگا ہوا ہے میرے خیال میں یہ مبارک اور نفع بخش کاروبار ہے۔
ایک دائی میرے پاس اکثر عورتوں کے امراض کا مشورہ کرنے آتی ہے میںاسے رجوع الی اللہ کی ترغیب دیتا ہوں وہ دوسری عورتوں کواعمال پر لگائے رکھتی ہے کیونکہ مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی چاہت پورا کرنے سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی چاہت کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیںایسے اعمال دئیے ہیں جنہیں کرکے ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی مرادیں اور مشکلات حل کراسکتے ہیں۔ اس دائی کو میں نے یہ نفل سمجھا دئیے چونکہ وہ تجربہ کار پرانی خاتون ہے اور سلیقہ مند بھی ہے۔ اس نے میری بات کو لیا اور خواتین کو یہ نفل بتانے شروع کیے دائی نے بتایا کہ بہت سی خواتین کی اولاد نہیں تھی وہ علاج کرکے تھک گئی تھیں کئی خواتین بیرون ملک بھی علاج کرواکے آئیں لیکن ناکام رہیں آخر کار انہوں نے یہ نفل توجہ اور اعتماد سے پڑھنے شروع کیے اللہ تعالیٰ نے اولاد عطاءفرمائی۔ دائی نے مزید بتایا کہ اکثر گھروں میں ناچاقی تھی میاں بیوی کے آپس میں لڑائی جھگڑے اور حاسدین کی نظر تھی جب سے خواتین نے یہ نفل شروع کیے حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے کئی گھروں کے مسائل تھے کہ اولاد نافرمان ہے یا اولاد بے روزگار ہے یا کسی بیماری میں مبتلا ءہے یا ایسے لوگ جن کی اولاد کی شادیاں نہیں ہورہیں ان تمام کو یہ عمل بتایا گیا اللہ تعالیٰ نے نہایت کریمی فرمائی کچھ عرصہ مستقل مزاجی سے یہ نفل اپنے معمول میں رکھیں بلکہ جو مایوس لوگ ہر قسم کی کوشش کرکے تھک گئے ان کیلئے یہ نوافل امید کی آخری کرن ہیںکچھ عرصہ کم 40 دن حد 90 دن یہ نفل پڑھیں اگر کسی کو سورة یٰسین یاد ہو تو نفل صلوٰة حاجت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة یٰسین ملا کر پڑھ لیں اگر یاد نہیں تو کوئی بھی سورة ملا کر نفل پڑھ سکتے ہیں۔
آپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہیاپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہے
میرے گاﺅں کے ایک ڈاکئے حاجی عبدالحمید کے مرشد مولانا فقیر اللہ صاحب کبھی کبھی وہاں تشریف لاتے تھے جو کہ شریعت کے پابند تھے۔ پانچ وقت کی نماز با جماعت کے علاوہ تہجد گزار تھے۔ پردہ کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے درخواست کی کہ حضرت ! مجھے کوئی ایسا وظیفہ عطا فرمائیں کہ اسے پڑھوں اور میری کلاس کے تمام بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوں اور اعزازی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے مجھے ایک دعا لکھ دی اور فرمایا کہ اس دعا کے اول و آخر درود پاک پڑھنا ہے۔ دعا کو سات دفعہ پڑھنا ہے اور آخری دفعہ آخرمیں ”وَ بَارِک وَسَلِّم “ کا اضافہ بھی کرنا ہے‘ دعا یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرِ قَلبِی بِعِلمِکَ وََاستَعمِل بَدَ نِی بِطَا عَتِک۔ میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ کلاس کے بچے یہ دعا پڑھنے کے بعد کلاس ورک شروع کرتے اور برکات کا نزول ہوتا رہا۔ 100% رزلٹ کے علاوہ اعزازی پوزیشنیں بھی آتی رہیں اور دیکھنے والے حیران رہ جاتے ۔ میں خود بھی دعا پڑھ کر کلاس کو کام شروع کراتا۔ میں نے تجربہ کیا ہے کہ وہ بچے جو اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام روزانہ پڑھتے ہیں۔ اس میں ناغہ نہیں کرتے ‘انہیں بہت جلد علم حاصل ہوتا ہے۔ میں خود سابقہ 38 سالوں سے متواتر اور بلا ناغہ ان مبارک ناموں کو پڑھ رہا ہوں اور ان کے فیض سے دل و دماغ کو روشن پا رہا ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭
میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول وریام والا‘ تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ میں بطور پرنسپل کام کرتا رہا ہوں۔ وہاں میں نے اگست 1993 تا فروری 2002 ءکام کیا ہے۔ اس دوران میں نے جھنگ صدر میں ایک مکان خریدا تاکہ شہر میں کبھی رہنا پڑے تو کسی کے ہاں محتاج نہ ہوں۔ ایک روز بندہ وریام والا سے جھنگ صدر آیا۔ مکان پر چونکہ کوئی رہائش پذیر نہ تھا اور نہ ہی کرایہ پر دیا تھا‘ مکان کھول کر اپنے سامان کو چیک کرنے لگا کہ کہیں دیمک وغیرہ نہ لگی ہو‘ غلطی سے اپنے مین دروازہ کو اندر سے کنڈی لگانا بھول گیا۔ دروازہ ویسے ہی بند تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ 18‘ 19 سالہ ایک نوجوان لڑکی اندر داخل ہو گئی اور ایک کمرے میں بیٹھ کر اس نے میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ اس سے نہ میری جان نہ پہچان‘ نہ اس نے اندر آنے کی اجازت لی اور نہ ہی اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ میراامتحان شروع ہو گیا۔ عجیب و غریب خیالات آنے شروع ہو گئے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک اور کمرے میں بند کر دیا اور دعا مانگنی شروع کی کہ اللہ پاک اسے یہاں سے لے جا اور میری خلاصی ہو۔ خیال آیا کہ ممکن ہے کوئی سازش ہو اور مجھے پکڑانے کا کوئی منصوبہ ہو۔ شیطان وسوسہ ڈالتا کہ شکار تیرے گھر آیا ہے دیر نہ کر ‘ پھر میں سوچتا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو تھوڑی سی لذت کے بدلے عمر بھر یہ گناہ میرے ساتھ ہو گا۔
ایک گھنٹہ کے بعد میں نے ہمت کی کہ چپکے سے کمرے سے نکل کر دیکھا وہ چلی گئی ہے یا نہیں۔ باہر نکل کر ساتھ والے کمرے میںجھانکا وہ زمین پر کپڑا پھیلا کر ایسے بیٹھی ہے گویا کسی کے انتظار میں ہے اور خوب میک اپ کیا ہوا ہے۔ میں دبے پاﺅں اپنے کمرے میں گیا اندر سے دوبارہ کنڈی لگا لی۔ اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا مانگنی شروع کی کہ یا اللہ! مجھے اس امتحان سے بچا۔ امتحان لمبا ہوتا گیا ‘ دوبارہ جھانکا مگر وہ موجود‘ پھر کمرے میں آکر دعاکی پھر باہر نکل کر دیکھا تو وہ بڑے انتظار کے بعد باہر چلی گئی۔ میری زندگی میں میرے لئے یہ بہت بڑا امتحان تھا۔