٭٭٭٭٭٭
1983-84 میں بندہ گورنمنٹ ڈگری کالج سمندری فیصل آباد میں بطور لیکچرار اسلامیات کام کرتا رہا ہے۔ وہاں ہفتے میں تین دن میری اور تین دن پروفیسر اے نذر محمد صاحب کی ڈیوٹی تھی کہ اسمبلی میں درس قرآن دیں۔ ایک دن میں نے ڈاڑھی کی شرعی اہمیت کے بارے میں درس دیا۔ اس کے تمام پہلوﺅں پر روشنی ڈالی۔ جب میں نے کہا کہ ڈاڑھی کا منڈوانا اللہ من الزنا ہے کیونکہ زنا کا فعل عارضی ہے لیکن آدمی ڈاڑھی منڈواتا ہے اور نماز پڑھتا ہے‘ ڈاڑھی منڈواتا ہے اور ذکر کرتا ہے۔ ڈاڑھی منڈواتا ہے اور روزہ رکھتا ہے۔ ڈاڑھی منڈواتا ہے اور حج کرتا ہے گویا یہ فعل اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ڈاڑھی منڈوانے کا مطلب ہے اسے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی صورت پسند نہیں۔ شعبہ فزکس کے ایک پروفیسر صاحب یہ ساری باتیں سن رہے تھے۔ درس کے بعد مجھے لیبارٹری میں لے گئے اور خوب برا بھلا کہا کہ ڈاڑھی رکھنے سے ثواب ہے اور منڈوانے سے کوئی گناہ نہیں۔ پھر وہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی بے تکی مثالیں پیش کرنے لگ گیا۔ میں نے اسے کہا کہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ یا قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نہیں ہیں۔ وہ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ان کا از حد احترام ہے۔ ان کے احسانات بھلائے نہیں جا سکتے مگر وہ ہمارے لئے نمونہ نہیں۔ اس نے ایک نہ سنی اور خوب بے عزتی کی۔ میری رہائش ہاسٹل کے ایک کمرے میں تھی۔ رات کو میں نے اکیلے رونا شروع کر دیا کہ یا اللہ ! میں نے بات تو سچی کی ہے مگر میری بے عزتی کیوں کی گئی ہے۔ بار بار اللہ تعالیٰ سے عرض کی یااللہ! میں نے بات سچی کی ہے مگر مجھے اس قدر ذلیل کیوں کیا گیا۔ دوسری رات پھر اللہ تعالیٰ سے میر ایہ مکالمہ ‘ تیسری رات پھر یہی حالت۔
تیسری رات خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینہ مبارک سے لگایا ہوا ہے اور میری تشفی فرما رہے ہیں۔ میں آنسوﺅں سے شرابور کہ میں کہاں اور یہ مقام کہاں۔ جن کی خاطر دنیا‘ زمین‘ آسمان پیدا کئے گئے ہیں ‘ اس ہستی نے مجھے اپنے سینہ مبارک سے لگایا ہوا ہے۔ جب نیند کھلی تو واقعی میرے آنسوﺅں کی لڑی جاری تھی۔ خیال آیا کہ میں نے کوئی مار نہیں کھائی صرف زبان سے پروفیسر صاحب نے میری بے عزتی کی تھی‘ وہ حضرات جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنے جسم کے ٹکڑے کروائے‘ جلاوطنی اختیار کی‘ ہجرت کی‘ مال اولاد اللہ کی راہ میں قربان کئے‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ا ن کا کتنا مقام ہوگا اور کتنے انعامات سے وہ مالا مال ہو ں گے۔
جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کی وفات ہوئی کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا۔ ایک بڑے میدان میں جنازہ پڑھنے کیلئے لایا گیا۔ ایک مخلوق جنازہ پڑھنے کیلئے نکل پڑی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو جہاں تک نگاہ جاتی تھی وہاں تک نظر آتا تھا.... یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی طرح یہ مجمع ہے۔ جب جنازہ پڑھانے کا وقت آیا ایک آدمی بڑھا۔ کہتا ہے کہ....! میں وصی ہوں یعنی مجھے حضرت رحمة اللہ علیہ نے وصیت کی تھی۔ میں اس مجمع تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمع خاموش ہوگیا‘ وصیت کیا تھی خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ نے یہ وصیت (مرنے سے پہلے کی خاص نصیحت اور خواہش) کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔ پہلی خوبی یہ کہ زندگی میں س کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو یعنی نماز شروع کرتے وقت جب امام صاحب تکبیر اول کہیں تو وہ شخص اسی وقت نماز میں شامل ہو۔ دوسری شرط اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔ تیسری بات یہ کہ اس نے غیرمحرم پر کبھی بھی بری نظرنہ ڈالی ہو۔ چوتھی بات یہ کہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی فرض نماز سے پہلے کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے۔ جب یہ بات کی گئی تو مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ یعنی سناٹا چھا گیا‘ لوگوں کے سر جھک گئے کون ہے جو قدم آگے بڑھائے کافی دیر گزر گئی حتیٰ کہ ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آیا جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ آپ خود تو فوت ہوگئے مجھے رسوا کردیا اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھائی میرے اندر یہ چاروں خوبیاں اللہ کے حکم اور فضل سے موجود ہیں۔ لوگوں نے دیکھا یہ وقت کا بادشاہ شمس الدین التمش تھا۔ اگر بادشاہی کرنے والے دینی زندگی گزار سکتے ہیں تو کیا ہم دکان کرنے والے یا دفتر میں جانے والے ایسی زندگی نہیں گزار سکتے؟ اللہ رب العزت ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پیارے بچو! اس واقعہ سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ انسان جب کسی نیک کام کا ارادہ اور عزم کرلیتا ہے تو اس کیلئے اللہ رب العزت تمام راستے کھول دیتے ہیں‘ پھر نہ بادشاہی رکاوٹ بنتی ہے نہ دکانداری اور نہ پڑھائی وغیرہ اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انسان کو صرف اللہ کی رضا کیلئے تمام کام کرنے چاہئیں۔اپنے نیک کام مخلوق کو بتلاتا نہ پھرے اس صورت میں وہ نیک کام بجائے اجرو ثواب کے گناہ کا سبب بنتے ہیں۔ جیسے اس دیندار سلطان نے اب مجبوری میں یہ راز کھولا.... اس سے پہلے کسی سے خود اپنی ان اچھی باتوںکا تذکرہ تک نہ کیا تھا۔ہاں ہمارے نہ چاہتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور حکمت سے لوگوں میں عزت اور چرچا دے دے تو یہ دوسری بات ہے مگر ہمارا کام یہ ہے کہ پھر بھی ڈرتے رہیں۔
دودھ کیوں خراب ہوتا ہے؟؟؟
انور کا منہ پھولاہوا تھا اس کے سکول کے ساتھی حیران تھے کہ اسے آج کیا ہوا؟ سکول میں پڑھائی کے دوران تو کوئی اس سے کچھ پوچھ نہ سکا لیکن جوں ہی تفریح کا وقفہ ہوا ‘ دوستوں نے اسے گھیر لیا۔”لگتا ہے‘ آج گھر میں خوب خاطرہوئی ہے جب ہی منہ پھولا ہوا ہے۔“انور نے کوئی جواب نہ دیا ‘ ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔دیکھو دوست! یوں جان نہ چھوٹے گی ہوا کیا‘ یہ بتائو؟ ہاں اور کیا صبح سے منہ بند ہے مجال ہے جو تم نے کسی سے ایک بات بھی کی ہو........؟جب تک بتائو گے نہیں‘ ہم یہیں کھڑے رہیں گے‘ یہاں تک کہ تفریح کا وقت ختم ہوجائے گا۔اچھابابابتاتا ہوں‘ بات کوئی خاص نہیں‘ رات کو سونے سے پہلے امی جان نے کہا ”باورچی خانے میں دودھ رکھا ہے اٹھا کر فریج میں رکھ دو‘ ورنہ خراب ہوجائے گا۔“
میں نے ان سے کہہ دیا: جی اچھا! امی جان“ لیکن دودھ فریج میں رکھنا بھول گیا‘ صبح امی جان نے اٹھ کر دیکھا تو دودھ کا برتن جوں کا توں باورچی خانے میں رکھا تھااور تم جانتے ہو آج کل گرمی کا موسم ہے بس دودھ پھٹ گیا‘ امی جان کو غصہ آگیا‘ انہوں نے صبح دو چار سنا دیں اور ایک دو تھپڑ بھی رسید کردئیے‘ بس اس وقت سے میں جھلایا ہوا ہوں‘ پتا نہیں! دودھ کو کیا ہے‘ اس کو فریج میں نہ رکھا جائے تو آخر یہ پھٹ کیوں جاتا ہے ‘ تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے‘ دودھ کیوں پھٹ جاتا ہے؟
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ اندر کلاس میں استاذ صاحب ان کی باتیں سن رہے تھے انہوں نے پکار کر کہا:
بھئی ادھر آجائو ‘ میں بتا دیتا ہوں دودھ کیوں پھٹ جاتا ہے؟
وہ سب چونک اٹھے اور پھر کمرے میں داخل ہوگئے جب سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تب انہوں نے کہا: ”یہ ہم سب کے ساتھ ہوتا رہتا ہے جہاںکوئی چیز فریج میں رکھنا بھولے اور خراب ہوئی۔معاملہ دراصل یہ ہے کہ جب ہم دودھ اور دوسری چیزوں کو 10 سے 15 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر رکھتے ہیں تو ان میں بیکٹیریا کی نشوونما نہیں ہوتی‘ لہٰذا دودھ اور دوسری چیزیں خراب ہونے سے محفوظ رہتی ہیں‘ جب کہ باورچی خانے میں جب ہم کوئی چیز بھول جاتے ہیں تو وہاں درجہ حرارت اتنا کم نہیں ہوتا اور ہوا میں بیکٹیریا بھی موجود ہوتے ہیں وہ دودھ اور دوسری چیزوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہاں ان کی نشوونما جاری رہتی ہے اس طرح دودھ پھٹ جاتا ہے اور آپ لوگوں کو امی ابو کی ڈانٹ کھانا پڑتی ہے۔
لیکن جناب ہم نے سنا تھا کہ بیکٹیریا ہمارے دوست ہیں“ فاروق نے پوچھا۔ ہاں....! یہ بات بھی ٹھیک ہے کچھ بیکٹیریا ہمارے دوست ہیں کچھ دشمن۔ بیکٹیریا ہمیں ‘ ہمارے جانوروں اور پودوں کو بیمار کردیتے ہیں۔ اسی طرح بعض بیکٹیریا ہمارے کھانے پینے کی چیزوں کو خراب کردیتے ہیں‘ اسی طرح آپ نے دیکھا ہوگا کہ گرمیوں میں سالن جلند خراب ہوجاتے ہیں جبکہ سردیوں میں ایک دو دن تک خراب نہیں ہوتے‘ اس لیے کہ سردی کے موسم میں درجہ حرارت کم ہوتا ہے کم درجہ حرارت بیکٹیریا کی نشوونما کیلئے مناسب نہیں‘ استاذ صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے‘ اب پوری کلاس یہ بات جان چکی تھی کہ دودھ کیوں پھٹ جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭