اس بلاگ کا ترجمہ

Friday, December 21, 2012

دس سال کا آزمودہ وظیفہ


دس سال کا آزمودہ وظیفہ: اب میں خود پچھلے دس سال سے ہر سال ابو کے کام کیلئے پڑھتی رہی ہوں اس کے اتنے فوائد حاصل ہوئے ہیں کہ میں اس پر ایک کتابچہ لکھ سکتی ہوں۔ یہ تو ہمارے خاندان کیلئے ایک ٹانک ہی بن گئی ادھر کوئی پریشانی آئی ادھر دعائے عکاشہ ہم سب نے مل کر پڑھنا شروع کیا اور سات دن کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے کام ہوجاتا ہے۔ یہ پچھلے دس سال سے آزمودہ ہے حالانکہ بینک کا کام جائز نہیں پھر بھی ابو اور بھائیوں کی پریشانی کیلئے ہم اس کو پڑھتے رہے ہیں اور ہر دفعہ فائدہ ہی ہوا ہے۔ مسئلہ جو بھی ہو فوراً حل ہوا ہے۔ گانٹھیں روئی کی نہ بک رہی ہوں یا مارکیٹ بالکل مندی ہو تو ابو نے پریشان ہوکرہمیں فون کرنا اور ہم دونوں بہنوں نے پڑھنا شروع کردینا ۔۔۔اس دعا کی برکت سے ابو کو مندی میں بھی اللہ کی کرم نوازی سے منافع ہی ہوتا تھا اور ابو کا رکا ہوا مال فوراً ہی بک جاتا تھا لوگ رو رہے ہوتے تھے کہ اس سال بہت گھاٹا ہوا ہے لیکن ابو منافع میں ہوتے تھے۔
ہمارے خاندان میں ہرطرح کے مسائل کیلئے اس کو پڑھا گیا ہے چاہے ہماری کاروباری پریشانی ہو‘ پیپرز ہوں‘ جاب کا مسئلہ ہو اسی کا سہارا لیتے ہیں۔
٭ ہم نے خود اس کو اپنے لیے پڑھا تھا جب ہمیں اچھی کالونی میںکرائے پر گھر نہیں مل رہا تھا ۔ کافی دن اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد جونہی ہم نے دعائے عکاشہ پڑھنا شروع کی اسی دوران ہمیں بہت اچھا گھر مل گیا۔ اسی طرح ایک دفعہ کسی آدمی کے پاس پیسے پھنس گئے کچھ سمجھ نہ آئے کہ کیا کریں ہم نے دعائے عکاشہ پڑھنا شروع کردی اس کی برکت سے وہ بندہ گھر آکر پیسے دے گیا۔
دعائے عکاشہ ‘مجموعہ اوراد ووظائف
اردو ترجمہ کے ساتھ صفحہ نمبر 267 پر موجود ہے۔
آسمانی بجلی ‘ بس اور ایک مسافر
(حکیم معراج الدین‘اوکاڑہ)
راولپنڈی سے ایک بس آرہی تھی جس نے مری جانا تھا۔ بس کے اوپر آسمانی بجلی گھوم رہی تھی۔ بس گھوڑا گلی کے پاس ہی تھی کہ بجلی بس کے اوپر گرتے گرتے اوپر ہوجاتی تھی سارے مسافر سہمے ہوئے تھے اور اللہ کو یاد کررہے تھے۔ بس ڈرائیور نے بس کو ایک سائیڈ پر روک دیا اور کہا کہ ہم سب میں سے ایک بندہ ہے جس کی موت آئی ہوئی جس کے اوپر بجلی گرنا چاہتی ہے اس لیے ہر بندہ ایک ایک کرکے اترے اور کچھ فاصلے پر ایک درخت تھا اس کو ہاتھ لگا کر آجائے جس پر بجلی گرنی ہوگی اس بندے پر باہر ہی گرجائے گی اور وہ بندہ مرجائے گا۔ بس کے سارے مسافر بمعہ ڈرائیور کنڈیکٹر ایک ایک کرکے اترے اور درخت کو ہاتھ لگا کر آئے ان مسافروں میں ایک ایسا نوجوان بھی بیٹھا تھا جس کی شادی کو صرف ایک دن ہوا تھا وہ باہر نہیں جارہا تھا۔ کہتا تھا کہ میں باہر نہیں جاؤں گا سب نے سمجھ لیا کہ اسی کی موت آئی ہوئی ہے جو نہیں جارہا۔ سب نے اسے زبردستی اٹھا کر نیچے اتار دیا جب وہ نیچے اتر کر درخت کے قریب پہنچا تو ایک دم سے بجلی گری تو پوری بس جل کر راکھ ہوگئی اور وہ صرف ایک نوجوان بچ گیا جس کی وجہ سے اللہ پاک نے ان سب کو بچایا ہوا