فقیہ ابواللیث فرماتے ہیں کہ صلہ رحمی میں دس چیزیں قابل مدح ہیں۔ اول یہ کہ اس میں اللہ جل شانہٗ کی رضا و خوشنودی ہے کہ اللہ پاک کا حکم صلہ رحمی کا ہے۔ دوسرے رشتہ داروں پر مسرت پیدا کرتا ہے اور حضور ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ افضل ترین عمل مومن کو خوش کرنا ہے۔ تیسرے اس سے فرشتوں کو بھی بہت مسرت ہوتی ہے۔ چوتھے‘ مسلمانوں کی طرف سے اس شخص کی مدح اور تعریف ہوتی ہے۔ پانچویں‘ شیطان کو اس سے بڑا رنج وغم ہوتا ہے۔ چھٹے‘ اس کی وجہ سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ ساتویں‘ رزق میں برکت ہوتی ہے۔ آٹھویں‘ مردوں کو اس سے مسرت ہوتی ہے کہ باپ دادا جن کا انتقال ہوگیا۔ انکو جب اس کی خبر ہوتی ہے تو ان کو بڑی خوشی اس سے ہوتی ہے۔ نویں‘ آپس کے تعلقات میں اس سے قوت ہوتی ہے جب تم کسی کی مدد کروگے اس پر احسان کروگے تمہاری ضرورت اور مشقت کے وقت میں وہ دل سے تمہاری اعانت کرنے کا خواہش مند ہوگا۔ دسویں‘ مرنے کے بعد تمہیں ثواب ملتا رہے گا کہ جس کی بھی تم مدد کروگے تمہارے مرنے کے بعد وہ ہمیشہ تمہیں یاد کرکے دعائے خیر کرتا رہے گا۔
عرش کے سایہ تلے کون لوگ ہونگے؟
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن رحمٰن کے عرش کے سایہ میں تین قسم کے آدمی ہوں گے۔ ایک صلہ رحمی کرنے والا کہ اس کیلئے دنیا میں بھی اس کی عمر بڑھائی جاتی ہے‘ رزق میں بھی وسعت کی جاتی ہے اور اس کی قبر میں بھی وسعت کردی جاتی ہے۔ دوسرے وہ عورت جس کا خاوند مرگیا ہو اور وہ اولاد کی پرورش کی خاطر‘ ان کے جوان ہونے تک نکاح نہ کرے تاکہ ان کی پرورش میں مشکلات پیدا نہ ہوں۔ تیسرے وہ شخص جو کھانا تیار کرے اور یتیم اور مساکین کی دعوت کرے۔
اللہ کے ہاں محبوب قدم
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ دو قدم اللہ کے یہاں محبوب ہیں ایک وہ قدم جو فرض نماز ادا کرنے کیلئے اٹھا ہو اور دوسرا وہ قدم جو کسی محرم کی ملاقات کیلئے اٹھا ہو۔
عرصہ 20سال سے دعائے عکاشہ ہمارے خاندان میں پڑھی جارہی ہے سب سے پہلے میرے تایا ابو جو کہ ہمارے سسر بھی ہیں ان کی فیکٹری پر بہت مشکل مالی حالات آئے تھے ہم نے اس کو پڑھا تھا اس وقت زندگی وموت کا مسئلہ بنا ہوا تھا کیونکہ کاروبار میں اتنا نقصان ہوا تھا کہ برداشت سے باہر تھا تو مستقل کافی عرصہ تک اس کو پڑھتے رہے تھے اور اللہ پاک نے وہ سارا مسئلہ حل کردیا تھا۔ بینک کا بہت زیادہ قرض تھا جو کہ تھوڑی سی زمین بکنے سے اتر گیا تھا جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے اس زمین کی اتنی ویلیو بھی نہیں تھی جن داموں وہ بکی تھی۔