اس بلاگ کا ترجمہ

Friday, December 21, 2012

اللہ اور صبر


اللہ اور صبر


 قرآن مجید کا فرمان ہے:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ. (النحل١٦:١٢٧)
''اور صبر کرو اور تمھیں اللہ کے بغیر صبرحاصل نہیں ہو سکتا۔ ''

اس آیت میں صبر کے حصول کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کی وضاحت میں یہاں ہم چند پہلووں کا ذکر کرنا چاہیں گے۔ اوپر والی آیت کو سامنے رکھیے اور قرآن کے اس فرمان کو بھی سامنے رکھیے کہ 'ان اللّٰه مع الصابرين'، ''اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ''ان دونوں آیتوں کو تقابل میں رکھیں تو صبر اللہ سے ملتا ہے اور صبر کرنے والے کے ساتھ اللہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ صبر اللہ کے تعلق کی مضبوطی سے ملتا ہے اور صبر سے اللہ ملتا ہے۔ اس طرح سے ان دونوں میں ایک دوری (Circular) تعلق وجود میں آجاتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایمان باللہ اور صبر لازم و ملزوم ہیں۔

اللہ اور صبر میں ایک اور تعلق بادنی تامل سامنے آتا ہے اور وہ اللہ سے تسلیم ورضاکا تعلق ہے۔ یعنی اللہ کے حوالے سے صبر کے معنی یہ ہوئے کہ آپ ہر حالت میں اللہ کے رب ہونے پر راضی رہیں۔ مشکل اور آسانی ، تنگی اور خوش حالی ، صحت اور بیماری ہر طرح کے حالات میں اس بات پر راضی رہیں کہ اللہ میرا رب ہے۔ یہی وہ ایمان کی منزل ہے ، جسے حاصل کرنے میں صبر ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ اس کے تعلق کو نبھانے کے لیے صبر کا ساتھ نہ ہو توآدمی ہر قدم پر ڈگمگا تا اور خدا سے شکوہ و نالہ کر نے لگتا ہے۔ اور پھر وہ درجہ بھی جلدہی آجاتا ہے کہ آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسرے دروازوں کے دھکے کھا رہا ہوتا یا الحاد کے نہ ختم ہونے والے بے منزل راستے پر جا نکلتاہے۔

خدا کے ساتھ اسی وفا شعاری والے تعلق کا نام تقویٰ ہے۔ خدا کے ساتھ جڑے رہنا اور ہر حالت میں اسے رب تسلیم کیے رکھنا، یہ استقامت ہے۔ اس استقامت کا مطالبہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا ہے:'إن الذين قالوا ربنا اللّٰه ثم استقاموا' یعنی جنھوں نے حق قبول کیا اور پھر اس پر قائم رہے۔ یہ صبر کے دینیات میں اصل معنی ہیں۔ یعنی یہ کہ آپ اس بات پر ہمیشہ قائم رہیں کہ اللہ میرا رب ہے۔

اللہ کے ساتھ صبر کا تعلق نماز کی طرف بھی ایک اشارہ کرتا ہے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے: 'وما صبرك الا باﷲ'، ''تمھیں اللہ کے بغیر صبر حاصل نہیں ہو سکتا''اور اسی طرح قرآن مجید کا فرمان ہے: 'استعينوا بالصبر والصلاة'، ''نماز اور صبر سے مدد لو۔ '' اس میں اللہ اور صبر اور اللہ اور نماز کا ایک باہمی تعلق بنتا ہے۔ اللہ اور صبر کا باہمی تعلق ہم نے اوپر جانا۔ یہاں ہم صرف نمازکے حوالے سے بات کریں گے۔ نماز اصل میں خدا کے ساتھ زندہ اور قریبی تعلق کا سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: 'واسجد واقترب' ،''سجدہ کر اور قریب ہو جا۔ '' اوپر ہم نماز اور صبر کی سرخی کے تحت یہ پڑھ آئے ہیں کہ نمازدراصل اللہ کی یاددہانی کا ذریعہ ہے۔ یہ یاددہانی اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔ خدا کے ساتھ تعلق کی مضبوطی دراصل انسان میں حوصلہ و ہمت کو پیدا کرتی ہے ، جس کی بنا پر آدمی بڑی سے بڑی مشکل اٹھانے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے۔

بے صبری اور خدا کی ناراضی
قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے ، اگر آدمی ان میں صبر نہ کرے تو خدا ناراض ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے ایک گناہ کی طرح سمجھتے ہےں۔ اس لیے بے صبری درحقیقت ایک گناہ بھی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آدمی شکر نہ کرے اور ناشکری کرنے لگے۔ بظاہر شکر گزاری کوئی فرض و نفل کی طرح کی چیز نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں شکرگزاری اصل مطلوب ہے۔ سارا دین اور ساری شریعت اصلاً اسی شکرگزاری ہی کے لیے آئے ہیں۔ جو آدمی اس شکرگزاری کا انکار کرتا ہے ، وہ درحقیقت سارے دین کی ضرورت کا منکر ہے۔ ٹھیک ایسے ہی ہم یہ بات اوپر پڑھ چکے ہیں کہ شکر کا دوسرا رخ صبر ہے۔ چنانچہ جس طرح شکر مطلوب اصلی ہے ،ایسے ہی صبر مطلوب اصلی ہے۔

یہود کی اصل بیماری: بے صبری
سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی من و سلویٰ پر بے صبری کے بیان کے فوراً بعد یہ فرمایا ہے کہ ہم نے ان پر ذلت و پستی اور کم ہمتی تھوپ دی۔ یہ بات اگرچہ ان کے مسلسل جرائم ہی کی بنا پر تھی، مگر ان میں اصل جرم خداکے ساتھ اپنے عہد نبھانے میں کوتاہی تھی جسے ـــــــ آپ جان چکے ہیں کہ ـــــــ ہم عدم صبر ہی سے تعبیر کریں گے۔ اس لیے کہ صبر اپنے موقف ،اپنے عقیدے اور حق پر قائم رہنے کا نام ہے۔ سورہ بقرہ میں یہ قصہ یوں نقل ہوا ہے:

''اور یاد کرو، جب تم نے کہا: اے موسیٰ ،ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے تو اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو کہ ہمارے لیے وہ چیزیں نکالے جنھیں زمین اگاتی ہے ، سبزیاں، ککڑیاں، لہسن، مسور اور پیاز جیسی۔ کہا (موسیٰ علیہ السلام نے): کیا تم اعلیٰ کو ادنیٰ سے بدلنا چاہتے ہو، (مصر جیسے) کسی شہرمیں اترو گے تو وہ چیزیں تمھیں ملیں گی ،جو تم طلب کرتے ہو اور ان پر ذلت و پستی ـتھوپ دی گئی۔ اور وہ خدا کا غضب لے کر لوٹے۔ ''(البقرہ ٢:٦١)

اللہ تعالیٰ کا یہ غضب یہود پر اسی بے صبری کے رویے کی بنا پر اترا۔ یہود کی اس تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ بقرہ میں جب انھیں 'استعينوا بالصبر والصلوٰة' کہا گیا تو جس طرح یہ بات کم و بیش سب مفسرین نے لکھی ہے کہ یہود د