اس بلاگ کا ترجمہ

Monday, March 18, 2013

عریاں محبت ناموں


میری عمر 35سال اور میرا شوہر اکتالیس سال کا ہے۔ ہماری شادی کو پندرہ سال گزر چکے ہیں اور ہمارے پانچ بچے ہیں، جن کی عمریں ایک سے چودہ سال تک کی ہیں۔ میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شریف گھرانے کی عورت ہوں۔ میں اپنے گھر کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھتی ہوں۔ پانچ بچوں کی پیدائش کے باوجود میں ایک دل کش جسم کی مالک ہوں۔
میں نے ہمیشہ اپنے شوہر سے ٹوٹ کر محبت کی ہے اور اسے ہر ممکن تعاون دیتی ہوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ اور دین اسلام کے بعد سب سے زیادہ ضرورت اپنے شوہر کی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ مگر اس کے باوجود ہر روز میرے ذہن پر شکوک کی پرچھائیاں منڈلاتی رہتی ہیں کہ آیا واقعی میں اس کی ضرورت کی تسکین بخوبی کرتی ہوں یا نہیں؟ اور ایسا سوچنے کیلئے میرے پاس ٹھوس ثبوت و شواہد موجود ہیں۔ جو میں عرض کروں گی تاکہ مجھے کوئی راہ اور حکیمانہ مشورہ دیتے وقت آپ کو دشواری پیش نہ آئے۔
آج سے سات سال قبل میرے شوہر نے گھر پر عریاں لٹریچر کافی مقدار میں لے آنا شروع کر دیا۔ عریاں عورتیں، عریاں مرد، ان کے مختلف پوز اور پاکٹ بکس جو عریاں محبت ناموں سے بھری ہوتی تھیں۔ اس بات نے مجھے شدید ترین دکھ پہنچایا۔ میں نے ان تصاویر و کتب کی شدید ترین مخالفت کی تو میرے شوہر نے جواب دیا کہ اس قسم کے لٹریچر سے کوئی فرق نہیں پڑتا چونکہ تم ان چیزوں کو ناپسند کرتی ہو اس لیے تم ان پر اعتراض کر رہی ہو۔
کئی سال بیت گئے۔ میری مزاحمت جاری رہی مگر وہ باز نہ آئے۔ اتنا فرق ضرور پڑا کہ لٹریچر لانے میں وقفہ پڑنے لگا ہے۔ لیکن ”وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے‘ ہم اپنی وضع کیوں بدلیں“ کے مصداق ہم دونوں میں ایک غیر محسوس سی ذہنی جنگ جاری رہی۔وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اپنی اس بدعادت کی وجہ سے وہ میری محبت کو ضائع کرتے جارہے ہیں۔ میں اب تک اُن کے اس رویے کی عادی نہیں بنی۔ لیکن میں اپنے آپ کو شدید الرجک اور ان سے متنفر محسوس کرتی ہوں۔ جب وہ ان رسا لو ں سے جذباتی ہو کر مجھے ہاتھ لگاتے ہیں تو مجھے اس سے ایک عجیب قسم کی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے آج تک مجھ سے بیوفائی نہیں کی مگر میں ذہنی طور پر انہیں بے وفا سمجھنے لگی ہو ں کیونکہ یہ نہ صرف میری نسوانیت کی توہین ہے بلکہ میرے بچوںکے مستقبل کا بھی مسئلہ ہے۔ اس صورت حال کو میں مز ید برداشت نہیں کر سکتی۔ لیکن اپنے بچوں کے مستقبل اور والدین کی عزت کی خاطر اس شادی کو انجام تک پہنچانا ہی پڑے گا۔
حکیم صاحب آپ کو خط لکھنے سے قبل میں نے آپ سے کئی مرتبہ علاج کرایا ہے۔ آپ کی شخصیت اور طرز مخاطب سے متاثر ہو کر اپنا یہ خالصتاً نفسیاتی مسئلہ بھی آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اب آپ ہی مشورہ دیجئے کہ میں کیا کروں؟ یقین کریں کہ یہ مسئلہ میرے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔

معزز قارئین! اس خط سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بظاہر جو بات انتہائی معمولی اور غیر اہم محسوس ہوتی ہے، نفسیا تی طور پر وہ کسی بھی شخص کیلئے کتنا بڑا مسئلہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس عورت کا شوہر اگر غیر معمولی طور پر شہوت پرست نہ ہوتا تو ان کی خوشگوارزندگی میں یہ خطرناک موڑ نہ آتا۔