اس بلاگ کا ترجمہ

Monday, November 10, 2014

نام کا اثر !


سعودیہ میں ایک ڈیرے پہ چھاپہ پڑا ،،
 چھاپے والے پہلے اندھا دھند پھینٹی لگاتے ھیں
 اور 
پھر لائن میں کھڑا کر کے کاغذات اور نام وغیرہ پوچھتے ھیں !
ایک ایک کو پکڑ کر باھر گاڑی میں بٹھایا جا رھا تھا
 کہ 
ھمارے علاقے کے ایک آدمی سے اس کا نام پوچھا !
شُو اسمک ؟ تمہارا نام کیا ھے ؟
ممد مسکین ( محمد مسکین ) !
عربی چونک گیا ،،،،،،،
 اس نے جھٹ اس کا ایکسپائرڈ بطاقہ دیکھا ،،،،
ھےےےےےےےےےےےےےےے واللہ مسکین ! او ھوھوھوھو ،،
 اللہ کی قسم یہ تو واقعی مسکین ھے !
اس کے بعد اس کے چہرے کے تأثرات یکسر تبدیل ھو گئے ،، وہ مسلسل گردان کر رھا صاح واللہ مسکین ، واللہ مسکین ، اس نے ٹھیک کہا ھے
 واللہ یہ مسکین ھے !
 اس نے اسے گرفتار نہیں کیا ،
 اس کے کاغذات ساتھ لے گیا اور سارے کاغذات ری نیو کر کے اس کی کفالت بھی تبدیل کر کے اپنی کفالت میں لے لیا
 اور
 پیپر ڈیرے پر دے کر گیا اور اسے کہا کہ کل گاڑی تمہیں کام پر لے جانے کے لئے آ جائے گی ،تیار رھنا !
جب بندہ اللہ کو کہہ دیتا ھے
 " رَبِۜ انی لما انزلت الیَۜ من خیرً فقیر ( القصص )
اے اللہ تو جو خیر بھی میری جھولی میں ڈال دے
 میں تو بس گدا ھوں ،مسکین ھوں ،
فقیر ھوں ،
پھر اللہ کی رحمت ٹوٹ کر برستی ھے ، نوکری بھی ملتی ھے ،گھر بھی ملتا ھے اور بیوی بھی ملتی ھے ، اور بلانے والا اسی جگہ آ کر لے کر جاتا ھے !

Friday, April 25, 2014

عظیم بننے کے لیے عورت کا ساتھ


عظیم بننے کے لیے عورت کا ساتھ

خالق کائنات نے جہاں مجھے مرد بنایا‘ ذہانت‘ قوت‘ محنت‘ برداشت جیسی نعمتوں سے نوازا ۔ صبح جاتا ہوں سارا دن دھوپ‘ گرمی‘ گرد‘ پسینہ‘ شور وغیرہ کو برداشت کرتا ہوں۔ رات کو تھکا ہارا گھر لوٹتا ہوں تو دروازے پر جس مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر تمام تھکن دور‘ پسینہ خشک‘ دل میں ٹھنڈک ‘ سکون اور آرام ملتا ہے وہ میری ماں یا میری بیوی یا میری پیاری بیٹی ہی تو ہوتی ہے۔ میں جب سو کر اٹھتا ہوں تو جلدی میں ہوتا ہوں دکان یا آفس جانا ہوتا ہے۔ صاف ستھرے استری کئے ہوئے کپڑے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘ پانی گرم ہوتا ہے۔ صابن‘ تولیہ (دھلا ہوا) موجود ہے۔ میں نہا کر نکلتا ہوں پہنے ہوئے کپڑے‘ گیلا تولیہ وہیں چھوڑ دیا۔ باہر آکر ناشتہ تیار‘ مزے سے ناشتہ کیا ۔برتن وہیں چھوڑ دئیے۔ بوٹ پالش‘ دوپہر کے کھانے کا باکس تیار۔ یہ جا! وہ جا!۔ اب میرے میلے کپڑے‘ گیلا تولیہ‘ ناشتہ کے برتن کھانے کے برتن‘ میرے نئے کپڑے استری‘ رات کے کھانے کی تیاری‘ سبزی لینا‘ کاٹنا‘ پکانا‘ روٹی کے لئے آٹا گوندھنا‘ روٹی گرمی میں بیٹھ کر پکانا‘ گھر کی صفائی‘ دھلائی‘ جھاڑو وغیرہ‘ گھر کو سنوارنا‘ سجانا‘ خود بھی آپ کیلئے سنورنا سجنا ۔
عبداللہ اور فاطمہ کو ناشتہ کروانا‘اسکول کےلئے تیار کرنا‘ واپسی پر کپڑے بدلوانا‘کھاناکھلانا‘ا سکول کا کام‘ ان کے کپڑے دھونا‘ استری کرنا وغیرہ۔ آپ کے بوڑھے والدین کے کپڑے‘ ان کا پرہیزی کھانا‘ ان کی ادویات و غذا کا خیال رکھنا‘ ان کی چھوٹی موٹی باتوں کو برداشت کرنا‘ اس دوران آپ کے چھوٹے صاحبزادے جو کہ 3,4 ماہ کے ہیں ان کو اپنے تمام کاموں کو سرانجام دیتے ہوئے سنبھالنا‘ اس کی غذااور صحت اور اس سے متعلقہ تمام امورکو مستقل دیکھنا بھی شامل ہے۔ (گھبرائیے نہیں بلکہ خاموشی سے پڑھیے اور اعتراف کرتے جائیے) اس کے علاوہ اگر وہ اپنے ماہانہ ایام میں ہے تو ان تمام کاموں میں کوئی کمی نہیں آتی ہے بلکہ روز ہر چیز وقت پر خوبصورتی کے ساتھ ملتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ آپ کے ہونے والے ولی عہد کو اپنے خون سے سینچ رہی ہے تو تب بھی جناب کے کاموں کو 99% پورا کرنے کی کوشش میں ہے۔
اگر آپ باہر دھوپ میں پسینہ بہاتے ہیںتو وہ سارا دن منے کو گود میں اٹھائے کچن میں ہانڈی روٹی اور کپڑے دھوتی ہے۔ اگر آپ کے ہاتھ منہ کام سے کالے پیلے ہوتے ہیں اور جسم تھک کر چکناچور ہوتا ہے تو وہ بھی صبح 8 بجے سے آپ کے گھر بار کی حفاظت اور تمام تر امور کو مکمل احسن طریقے سے پورا کرتے کرتے تھک چکی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ تھک کر جب گھر آتے ہیں تو آپ کے چہرے سے تھکن عیاں ہوتی ہے بلکہ اس کا اظہار آپ کی کمر پکڑ کر انگڑائیاں لینے سے بھی ظاہر ہو رہا ہوتا ہے مگر اس کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ جو اندر ہی اندر آپ کی تھکاوٹ اور کمزوری کو دور کرچکی ہوتی ہے اب یہ مسکراہٹ چاہے ماں کی ہو آپ کی بیوی کی ہو یا آپ کی پیاری بہن یا بیٹی کی ہو یہ تمام مسکراہٹیں اپنے اپنے رشتہ کے اعتبار سے نہایت پراثراورباعث فرحت ہوتی ہیں۔
کیا میں نے اعتراف کرلیا؟کیا آپ نے اعتراف کرلیا؟
تو آئیے! چھٹی کے دن ہم منے کو سنبھال لیتے ہیں۔ بوڑھے والدین کی دوائی‘ ان کی خدمت‘ کچھ ہم بھی کرلیتے ہیں۔ آج سبزی ہم خرید لاتے ہیں۔ گھر میں آنے جانے والوں کی مہمان نوازی کا کام آج ہم سرانجام دے لیتے ہیں۔ عبداللہ اور فاطمہ کو ہوم ورک کروا دیتے ہیں۔ گھر کو سنوارنے اور سجانے میں اس کا ہاتھ بٹالیتے ہیں۔ اگرآپ یہ کام نہیں بھی کریں گے تب بھی آپ کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آئیگی کیونکہ آج آپ کے گھر بہترین ڈش اور میٹھا آپ کے 3 وقت کے Menu میں شامل ہوگا۔ ارے بھائی صاحب!اب تو اعتراف کرہی لیں۔
اس کاآپ پرحق ہے اگر آپ اس کے مجازی خدا ہیں تو وہ بھی آپ کی مجازی بندگی میں اپنی حیاءاپنی عزت حتیٰ کہ اپنا سب کچھ آپ پر لٹاچکی ہے۔
ارے جناب!اگر آپ کی دعا(بحیثیت باپ ہونے کے) آسمان سے واپس خالی نہیں لوٹتی تو اس کے بھی پاوں تلے جنت ہے ۔
اگر آپ کا رتبہ( بحیثیت باپ) کے بلند ہے توبحیثیت ماں ہونے کے اس کی شان بھی انتہائی بلند وبالا ہے۔ اگر آپ دیندار ہوکر دین گھر لاتے ہیں تو وہ دین گھر کی دہلیز سے گھر کے اندر آپ کی بیوی ماں یا بہن‘ بیٹی پہنچاتی ہے۔ ورنہ آپ اپنی نسل کی خیر منائیں۔ اگر آپ بیٹا بن کر گھر کی تمام ضروریات کی فکر میں سارا دن پھرتے ہیں تو وہ بیٹی بن کر گھر کے تمام امور کو احسن طریقے سے پورا کرنے کی کوشش میں شب وروز مصروف عمل ہے۔اگر آپ بڑا بھائی بن کر ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کی فکر میں ہیں تو وہ بڑی بہن بن کر چھوٹے بہن بھائیوں اور ماں باپ کی خدمت میں ہے اور انکی ضرورتوں کا بڑے احسن انداز سے خیال رکھے ہوئے ہے۔
اگر آپ شوہر بن کر حلال رزق سے تمام گھر کی پرورش‘ ضروریات و خواہشات کو پورا کررہے ہیں تو وہ نیک بیوی بن کر آپ کے حلال مال کو احسن طریقے سے خرچ کرکے آپ کا بہترین امانت دار ساتھی ہونے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے ۔
اگر آپ باپ بن کر بیٹے بیٹیوں کے رشتے کی فکر میں وسائل اکٹھے کررہے ہیں تو وہ بیٹی کی بہترین تربیت کرکے اسے اس قابل بنارہی ہے کہ باپ کی عزت دوسرے گھر میں بنی رہے اور بیٹے کو باپ کی عزت اور مقام اور ادب کی ہمیشہ سے یاد دہانی کروارہی ہے۔ارے صاحب! کون کونسی باتوں میں اس ساتھی کو نظرانداز کریں گے؟
کیا آپ کی جائز لذت و خواہش آپ کے ہمسفر کے بغیر پوری ہوسکتی ہے؟ کیا آپ کی نسل کی بقاءو ارتقاءہمسفر کے بغیر ممکن ہے؟ کیا آپ کا حلال محنت سے کمایا ہوا مال جائز‘ امانتداری کے ساتھ احسن طریقے سے اس کے بغیر خرچ ہوسکتا ہے؟ کیا آپ کی نام نہاد عزت کہ میرا گھر‘ میری بیٹی‘ میری بیوی میری غیرت ہے میرا گھر باپردہ ہے یہ سب باتیں آپ کے ہمسفر کے بغیر ہوسکتی ہیں؟
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو اس بے چینی و گھبراہٹ میں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی و تشفی دی اور آپ کا حوصلہ بلند کیا وہ بھی ایک ہمسفر ‘ ایک عورت ہی تھی۔

Tuesday, November 19, 2013

بوڑھوں، بچوں اور جوانوں کیلئے


بوڑھوں، بچوں اور جوانوں کیلئے


بڑھاپے میں تندرستی کا انوکھا راز
ورزش کا شوق ملک ملک بڑھ رہا ہے‘ کیوںکہ اچھی صحت اور توانا و سرگرم زندگی کا راز یہی ہے کہ ورزش کی جائے اور صحت بخش غذا کھائی جائے۔
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد ایشیا کے جس بڑے غلام و بد حال ملک نے آزادی حاصل کی وہ چین ہی تھا۔ زخموں سے چور‘ درماندہ و پریشان حال اس ملک نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے ہر شعبے میں ناقابل یقین اور مثالی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے راہنماﺅں نے اپنی قوم کو سب سے پہلے تعمیر نو کیلئے صحت و توانائی کی بحالی کی ضرورت کا احساس دلایا اور خود اس راہ پر چل کر اسے بالآخر ترقی و کامیابیوں سے ہم کنار کیا۔ تعمیر و ترقی کے لئے ان کے پاس موٹر کاریں برائے نام تھیں۔ انہوں نے سائیکلوں سے فاصلے طے کرنے کا عزم کیا اور وزیر اعظم بھی اپنے دفتر سائیکل پر آنے جانے لگے۔ گاڑیاں انہوں نے انجینئروں کیلئے مخصوص کر دیں تاکہ وہ دور دراز کے فاصلے جلد طے کر سکیں۔ سادہ لباس اور سادہ غذا اختیار کی تاکہ غیروں سے مانگ کر کھانے اور اپنی خود مختاری اور قومی حمیت کا سودا کرنے کی نوبت نہ آئے۔ صدر ماﺅزے تنگ نے صبح ورزش کو لازمی قرار دیا تو ہر چینی مرد و زن نے واقعی اسے اپنے لئے لازمی قرار دے دیا۔ لوگ کھیتوں‘ میدانوں یہاں تک کہ چلتی ریل گاڑیوں میں موزوں و مناسب ورزش وقت مقررہ پر کرنے لگے۔ اس دور کے سفر نامے پڑھیے تو حیرت ہوتی ہے کہ ورزش کا وقت آتے ہی گاڑیوں میں لگے پبلک ایڈریس سسٹم کے ذریعے سے مسافروں کو ڈبوں میں سیٹوں پر اور راہداریوں میں ہلکی پھلکی ورزشیں کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اسی طرح انہیںپیراکی سیکھنے کی ترغیب دی گئی تو کروڑوں افراد اپنے راہنماﺅں کی قیادت میں دریاﺅں اور جھیلوں میں تیرنے لگے۔ ان رہنماﺅں میں سے اکثر ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ خود ماﺅزے تنگ نے اس کی قیادت کی اور ثابت کر دکھایا کہ ورزش کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں۔ ہر فرد کی اصل ضرورت اور فرض یہ ہے کہ وہ خود کو ورزش کے ذریعے سے چست و توانا رکھے۔ آج بھی جن ملکوں میں اجتماعی ورزشیں مقبول ہیں وہاں ان میں ہر عمر کے افراد شرکت کرتے ہیں۔ا مریکا میں گزشتہ دس سال کے عرصے میں واک کا شوق اتنا بڑھا کہ واکرز کلب قائم ہو گئے۔ ہندوستان میں صبح کے وقت کھلی فضا میں قہقہے لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تو شہر شہر قہقہہ کلب بن گئے۔ دوڑنے کی ورزش مقبول ہوئی تو اس کے مقابلوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہونے لگے۔ کراچی کے ایک کمشنر نے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں مرگلہ پہاڑیوں پر چڑھنے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر اپنے ساتھ کوہ نوردی کی اس مشق میں سینکڑوں کو شامل کر لیا۔ اس میں بھی عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ قید اور ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ کے پاس قوت ارادی ہو۔ آپ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا اندازہ کر کے احتیاط اور مستقل مزاجی کے ساتھ دوڑنے کی مشق کریں اور اس میں بتدریج اضافے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں کہ جب تک آپ اس سے لطف اندوز ہوں۔
اسی طرح نیو یارک کے ایک بڑے میاں کا حال بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے کہ جنہیں دوڑتا دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ ”قابلِ‘ صدرشکِ جوانی ہے بڑھاپا تیرا“۔
79 سال کی عمر میں انہوں نے نیو یارک میراتھن ریس میں 17 ہزار افرا دکے ساتھ حصہ لیا اور26.2میل کا فاصلہ پانچ گھنٹے اور پچیس منٹ میں طے کیا جبکہ ان کا ارادہ یہ فاصلہ پانچ گھنٹوں سے کم وقت میں طے کرنے کا تھا لیکن بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ جمع پانی سے ان کے جوتے بھیگ گئے۔
ان جواں ہمت بزرگ کا نام نیٹ ہے اور بقول ان کے دوڑنے کی ورزش اختیار کرنے کافیصلہ انہوں نے 68 سال کی عمر میں کیا تھا‘ کیوں کہ اس عمر میں انہوں نے محسوس کیا تھا کہ وہ اب بوڑھے ہو رہے ہیں۔ انہیں اپنے تھکتے اور کمزور ہوتے جسم کو درست رکھنے کی فکر ہوئی۔ پچھلے 25 سال سے وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض بھی تھے جبکہ ان کے 40 سے 50 سال عمر کے کئی شناسا اس عمر میں بھی جوگنگ کر رہے تھے۔ اسی فکر میں انہوں نے مختلف ورزشوں پر غور کیا‘ یہاں تک کہ دوڑ کے بارے میں کئی کتابیں پڑھ ڈالیں جن سے اندازہ ہو سکے کہ لوگ 60 سال کی عمر میں بھی یہ ورزش اختیار کر سکتے ہیں جبکہ ان میں سے کئی نے یہ ورزش قلب کے حملے جھیلنے کے بعد اختیار کی تھی۔ 
انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے گھر کے پچھلے صحن میں اس ورزش کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ گیٹ سے پچھی دیوار تک 80 چکر میں وہ ایک میل کا فاصلہ دوڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے دھیرے دھیرے یہ ورزش شروع کی اور ایک میل دوڑنے لگے۔ جب یہ فاصلہ دوگنا کرنے کا ارادہ کیا تو گھٹنوں کے زخمی ہونے سے دوڑ کا سلسلہ چھ مہینوں کیلئے روکنا پڑا‘ لیکن تکلیف دور کرنے کی فکر بھی لگی رہی۔ چنانچہ ورزشوں کے ماہر کے مشورے سے انہوں نے پٹھوں کے جوڑوں کو صحیح انداز میں پھیلانے اور سکیڑنے کے طریقے سیکھے تاکہ جوڑ زخمی نہ ہوں اور چھ ماہ بعد وہ دوبارہ دوڑنے لگے۔ اب وہ روز چھ میل کی دوڑ لگانے لگے۔ یہ سلسلہ جاری تھا یہاں تک کہ جب عمر 75 سال ہو گئی تو ان کے ایک شریکِ دوڑ نے انہیں آدھی میراتھن دوڑ میں حصہ لینے کا مشورہ دیا۔ اس میں یہ نہ صرف شریک ہوئے بلکہ نصف کے بجائے پورا فاصلہ دو گھنٹے سات منٹ میں طے کر لیا۔ یہ کارکردگی کئی نوجوانوں سے بہتر قرار دی گئی۔ اس سال انہوں نے ایسے چھ مقابلوں میں شرکت کی اور اگلے سال سینئر ز اولمپکس کی دوڑ 100 درجے فارن ہائٹ گرمی میں مکمل کی یہاں تک کہ 70 سے 79 سال کی عمر کے لوگوں کی ایک دوڑ میں وہ اپنے گروپ میں چوتھے نمبر پر رہے۔

غذائی عادات
اپنی ان کامیابیوں کی ایک وجہ وہ اپنی غذائی عادات کو بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ گوشت نہیں کھاتے‘ جس کے نتیجے میں وہ پیٹ کی شکایات اور دیگر عام بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ اب تو دوڑ کی وجہ سے ان کے معدے‘ جگر‘ آنتوں اور گردوں وغیرہ کی کارکردگی اور بھی بہتر ہو گئی ہے‘ یہاں تک کہ اب بلڈپریشر سے بھی نجات مل گئی ہے۔ وہ اب اس کیلئے کوئی دوا نہیں کھاتے۔

اہم مشورہ
مسٹر نیٹ کی بڑی خواہش ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان کی طرح دوڑنے کی ورزش اختیار کر کے صحت مند اور توانا رہیں۔ اس سلسلے میں ان کا مشورہ ہے کہ ایسے افراد سب سے پہلے وارم اپ اور پٹھوں کی لچک بڑھانے والی مشقیں سیکھیں۔ ان کے مطابق دوڑنے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ ہر شخص دوڑ سکتا ہے۔ وہ ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں کہ جنہوں نے 80 اور 90 سال کی عمر میں یہ ورزش شروع کی ۔ یہ لوگ اگرچہ بہت تیز نہیں دوڑ سکتے لیکن پھر بھی میلوں دوڑتے ہیں۔ کم رفتاری کی وجہ سے ان کے جوڑ زخمی نہیں ہوتے اور انہوں نے ابتدائ‘ تھوڑے فاصلوں اور کم رفتاری سے کی ہے۔ دوڑ کے سلسلے میں وہ مناسب جوتوں کے استعمال کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ اپنے معالج کے مشورے سے بسم اللہ کیجئ